• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مدحتِ سلطان مدینہ

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
مدحتِ سلطان مدینہ
============
اک رند ہے اور مدحتِ سلطان مدینہ
ہاں کوئی نظر رحمتِ سلطان مدینہ
***
دامان نظر تنگ و فراوانیِ جلوہ
اے طلعتِ حق طلعتِ سلطانِ مدینہ
***
اے خاکِ مدینہ تری گلیوں کے تصدق
تو خلد ہے تو جنت ِسلطان مدینہ
***
اس طرح کہ ہر سانس ہو مصروفِ عبادت
دیکھوں میں درِ دولتِ سلطانِ مدینہ
***
اک ننگِ غمِ عشق بھی ہے منتظرِ دید
صدقے ترے اے صورتِ سلطان مدینہ
***
کونین کا غم یادِ خدا ور شفاعت
دولت ہے یہی دولتِ سلطان مدینہ
***
ظاہر میں غریب الغربا پھر بھی
یہ عالم شاہوں سے سوا سطوتِ سلطان مدینہ
***
اس امت عاصی سے نہ منھ پھیر خدایا
نازک ہے بہت غیرتِ سلطان مدینہ
***
کچھ ہم کو نہیں کام جگر اور کسی سے
کافی ہے بس اک نسبت ِسلطان مدینہ
***
(جگر مراد آبادی)
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,567
پوائنٹ
791
کچھ ہم کو نہیں کام جگر اور کسی سے
کافی ہے بس اک نسبت ِسلطان مدینہ
***
(جگر مراد آبادی)
تم یاد آئے ،اور تمہارے ساتھ زمانے یادآئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جگر مراد آبادی کا پورا نام شیخ محمد علی جگر مراد آبادی تھا۔
جگر کے مورث اعلیٰ مولوی محمد سمیع فرخ سیر کے استاد تھے۔ فرخ سیر کی وفات کے بعد ان کا خاندان ہجرت کر کے مراد آباد آ گیا۔ جگر کے مطابق ان کی تاریخ پیدائش ۱۸۹۰ء اور مقام پیدائش بنارس ہے، جو مختلف فیہ ہے۔ کیوں کہ کچھ لوگوں کے نزدیک ان کی جائے ولادت مراد آباد ہی ہے۔
جگر لکھنؤ کے اسٹینلی اسکول میں پڑھتے تھے ۔ نویں جماعت میں دو مرتبہ فیل ہوئے۔ فیل ہونے کے بعد باضابطہ حصول تعلیم سے دستبردار ہو گئے۔ ظاہر ہے کہ جمالیات حیات و کائنات کی بصیرت و حسیت رکھنے والا انسان خشک سائنسی صداقت اور ٹکنالوجی و ہندسوں کے فارمولوں و اصولوں سے دلچسپی نہیں رکھتا۔ اس کی نظر صرف خوبصورتی کی جستجو میں رہتی ہے۔ جگر کے ایک جاننے والے عاقل نام کے شخص کا چشموں کا کارخانہ تھا۔ جگر اس کار خانے کے ایجنٹ ہو گئے اور چشمہ فروشی کا پیشہ اختیار کیا۔
جگر کا اپنے کام کے سلسلے میں بنارس سے لے کر اعظم گڑھ تک دورہ ہوتا ۔ وہ اعظم گڑھ مسلم مسافر خانے میں ٹھہرتے پھر ان کی دوستی مرزا احسان بیگ سے ہو گئی اور جگر مرزا صاحب کے گھر ٹھہرنے لگے۔ مرزا صاحب خود اچھے شاعر تھے۔ دونوں میں خوب جمتی تھی۔ جگر اعظم گڑھ کی شعری محفلوں میں بہت مقبول تھے۔ عربی اور فارسی میں اچھی صلاحیت کے مالک تھے۔ اردو کے علاوہ فارسی میں بھی شعر کہتے تھے۔ تیرہ چودہ برس کی عمر میں شاعری کرنے لگے تھے او راپنے والد سے اصلاح لیتے تھے۔ داغ دہلوی اور منشی امیر اللہ تسلیم نے جگر کی شاعری کو مزید جلا بخشی ۔ غیر منظم زندگی اور انتشار ذہنی کے باعث نشیب و فراز کے مختلف مراحل سے دو چار ہوئے۔

ان کا دوسرا عقد نسیم سے ہوا۔ جگر کا یہ دور بلا نوشی کا دور تھا۔نسیم سے شادی ترک مے نوشی کی شرط پر ہوئی تھی۔ لہٰذا جگر نے بادہ کشی سے توبہ کر لی۔ ان کی زندگی میں ایک انقلاب آیا۔ صوم و صلاۃ کے پابند ہو گئے۔ اصغر گونڈوی کے کہنے پر شاہ عبدالغنی منگلوری سے بیعت کر لی۔ اصغر گونڈوی ، جگر کے محسنوں میں سے تھے لیکن دونوں کے شعری مزاج میں فرق تھا۔ اصغر گونڈوی کا میلان تصوف کی طرف تھا۔ ۱۹۵۳ء میں حج بیت اللہ کی سعادت نصیب ہوئی۔ جگر کی شررنگار اور خمریہ شاعری کاتجزیہ کیا جائے تو ایک دفتر درکار ہے۔ مشاعرے میں ان کی شرکت کامیابی کی ضامن ہوتی۔ ترنم میں شعر پڑھنا اور سامعین کی داد و تحسین اور ’مکرر ارشاد‘ کے ہنگاموں سے محفل مشاعرہ گونج اٹھتی۔ مصرعوں میں لفظوں کا استعمال شگفتہ و شستہ طرز ادا اور روانی سے خیالات و تجربات کی ترسیل میں لمحہ بھر کی رکاوٹ نہیں آتی۔ اسٹیج پر بیٹھے دوسرے شعرا جگر کی مقبولیت سے پریشانی محسوس کرتے۔ پدم بھوشن کا خطاب، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی سند، مجموعہ آتش گل پر ساہتیہ اکادمی کا انعام اور دولت ہند کی جانب سے تاحیات پنشن کا وقار بھی ملا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

طبیعت ان دنوں بیگانۂ غم ہوتی جاتی ہے
میرے حصے کی گویا ہر خوشی کم ہوتی جاتی ہے

قیامت کیا یہ اے حسنِ دو عالم ہوتی جاتی ہے
کہ محفل تو وہی ہے دلکشی کم ہوتی جاتی ہے

سحر ہونے کو ہے بیدار شبنم ہوتی جاتی ہے
خوشی منجملہ اسبابِ ماتم ہوتی جاتی ہے

وہی میخانہ و صہبا، وہی ساغر، وہی شیشہ
مگر آوازِ نَوشا نوش مدھم ہوتی جاتی ہے

وہی شورش ہے لیکن جیسے موجِ تہہ نشیں کوئی
وہی دل ہے مگر آواز مدھم ہوتی جاتی ہے

وہی ہے زندگی لیکن جگر یہ حال ہے اپنا
کہ جیسے زندگی سے زندگی کم ہوتی جاتی ہے

جگر مراد آبادی
 
Last edited:
Top