• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مردوں پر اعمال پیش ہونے کا عقیدہ

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بعض دفعہ غیب کی خبر دی جاتی تھی
اس روایت کے کون سے الفاظ ہیں جن سے آپ نے یہ نتیجہ نکالا ہے مہربانی فرماکر وضاحت فرمادیں
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
اس روایت کے کون سے الفاظ ہیں جن سے آپ نے یہ نتیجہ نکالا ہے مہربانی فرماکر وضاحت فرمادیں
یہ روایت نہیں قرآن سے نکلا ھے کیونکہ جب ایک رسول کو علم غیب کے لیے منتخب کیا گیا ھے تو پھر اس کو کہا جا رھا ھے کہ کہو میں اگر عالم غیب ھوتا تو خیر اکھٹا کرتا اور مجھے کوئی برائی نہیں پہنچتی
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
یہ روایت نہیں قرآن سے نکلا ھے کیونکہ جب ایک رسول کو علم غیب کے لیے منتخب کیا گیا ھے تو پھر اس کو کہا جا رھا ھے کہ کہو میں اگر عالم غیب ھوتا تو خیر اکھٹا کرتا اور مجھے کوئی برائی نہیں پہنچتی
کیااس روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت فرماکر جنگ موتہ کا حال صحابہ کو سنایا تھا اگر جواب ہاں ہے تو میں یہ روایت دوبارہ کوٹ کئے دیتا ہوں آپ مجھے ان الفاظ کی نشاندہی فرمادیں شکریہ
ہم سے احمد بن واقد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ‘ ان سے ایوب سختیانی نے ‘ ان سے حمید بن ہلال نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید ‘ جعفر اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم کی شہادت کی خبر اس وقت صحابہ رضی اللہ عنہم کو دے دی تھی جب ابھی ان کے متعلق کوئی خبر نہیں آئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے جا رہے تھے کہ اب زید جھنڈا اٹھائے ہوئے ہیں ‘ اب وہ شہید کر دیئے گئے ‘ اب جعفر نے جھنڈا اٹھا لیا ‘ وہ بھی شہید کر دیئے گئے۔ اب ابن رواحہ نے جھنڈا اٹھا لیا ‘ وہ بھی شہید کر دیئے گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ آخر اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار خالد بن ولید نے جھنڈا اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اللہ نے ان کے ہاتھ پر فتح عنایت فرمائی۔
صحیح بخاری :حدیث نمبر: 4262
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
کیااس روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت فرماکر جنگ موتہ کا حال صحابہ کو سنایا تھا اگر جواب ہاں ہے تو میں یہ روایت دوبارہ کوٹ کئے دیتا ہوں آپ مجھے ان الفاظ کی نشاندہی فرمادیں شکریہ
ہم سے احمد بن واقد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ‘ ان سے ایوب سختیانی نے ‘ ان سے حمید بن ہلال نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید ‘ جعفر اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم کی شہادت کی خبر اس وقت صحابہ رضی اللہ عنہم کو دے دی تھی جب ابھی ان کے متعلق کوئی خبر نہیں آئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے جا رہے تھے کہ اب زید جھنڈا اٹھائے ہوئے ہیں ‘ اب وہ شہید کر دیئے گئے ‘ اب جعفر نے جھنڈا اٹھا لیا ‘ وہ بھی شہید کر دیئے گئے۔ اب ابن رواحہ نے جھنڈا اٹھا لیا ‘ وہ بھی شہید کر دیئے گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ آخر اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار خالد بن ولید نے جھنڈا اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اللہ نے ان کے ہاتھ پر فتح عنایت فرمائی۔
صحیح بخاری :حدیث نمبر: 4262

قرآن کی آیات سے ھی روایت کی حدود متعین ھوتی ھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو علم دیا گیا اس کی حدود بھی-
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
قرآن کی آیات سے ھی روایت کی حدود متعین ھوتی ھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو علم دیا گیا اس کی حدود بھی-
مَا كَانَ اللّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مَآ أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّى يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللّهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ فَآمِنُواْ بِاللّهِ وَرُسُلِهِ وَإِن تُؤْمِنُواْ وَتَتَّقُواْ فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌo

آل عمران، 3 : 179

’’اور اللہ مسلمانوں کو ہرگز اس حال پر نہیں چھوڑے گا جس پر تم (اس وقت) ہو جب تک وہ ناپاک کو پاک سے جدا نہ کر دے، اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ (اے عامۃ الناس!) تمہیں غیب پر مطلع فرما دے لیکن اللہ اپنے رسولوں سے جسے چاہے (غیب کے علم کے لیے) چن لیتا ہے، سو تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائو اور اگر تم ایمان لے آؤ، اور تقویٰ اختیار کرو تو تمہارے لیے بڑا ثواب ہے۔ ‘‘
عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًاo إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًاo

الجن، 72 : 26۔ 27

’’(وہ) غیب کا جاننے والا ہے، پس وہ اپنے غیب پر کسی(عام شخص) کو مطلع نہیں فرماتا۔ سوائے اپنے پسندیدہ رسولوںکے (اُنہی کو مطلع علی الغیب کرتا ہے کیونکہ یہ خاصۂ نبوت اور معجزۂ رسالت ہے)، تو بے شک وہ اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے آگے اور پیچھے (علمِ غیب کی حفاظت کے لیے) نگہبان مقرر فرما دیتا ہے۔ ‘‘

نبی غیب بتانے میں بخیل نہیں

وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍo
التکویر، 81 : 24

’’اور وہ (یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) غیب (کے بتانے) پر بالکل بخیل نہیں ہیں (مالکِ عرش نے ان کے لیے کوئی کمی نہیں چھوڑی)۔ ‘‘

یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غیب بتانے میں بخیل نہیں بلکہ غیب بتانے میں سخی ہیں

کیا آپ کے پاس جو قرآن ہے اس میں مندرجہ بالا آیات نہیں ہے اگر ہے تو پھر کیوں ان آیات کریمہ سے احادیث کی حدود متعین نہیں کرتے کہیں ایسا تو نہیں کہ

إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُواْ بَيْنَ اللّهِ وَرُسُلِهِ وَيقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَن يَتَّخِذُواْ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلاً

سورہ النساء :۱۵۰
وہ جو اللہ اور اس کے رسولوں کو نہیں مانتے اور چاہتے ہیں کہ اللہ سے اس کے رسولوں کو جدا کردیں اور کہتے ہیں ہم کسی پر ایمان لائے اور کسی کے منکر ہوئے اور چاہتے ہیں کہ ایمان و کفر کے بیچ میں کوئی راہ نکال لیں
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
مَا كَانَ اللّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مَآ أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّى يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللّهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ فَآمِنُواْ بِاللّهِ وَرُسُلِهِ وَإِن تُؤْمِنُواْ وَتَتَّقُواْ فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌo

آل عمران، 3 : 179

’’اور اللہ مسلمانوں کو ہرگز اس حال پر نہیں چھوڑے گا جس پر تم (اس وقت) ہو جب تک وہ ناپاک کو پاک سے جدا نہ کر دے، اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ (اے عامۃ الناس!) تمہیں غیب پر مطلع فرما دے لیکن اللہ اپنے رسولوں سے جسے چاہے (غیب کے علم کے لیے) چن لیتا ہے، سو تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائو اور اگر تم ایمان لے آؤ، اور تقویٰ اختیار کرو تو تمہارے لیے بڑا ثواب ہے۔ ‘‘
عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًاo إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًاo

الجن، 72 : 26۔ 27

’’(وہ) غیب کا جاننے والا ہے، پس وہ اپنے غیب پر کسی(عام شخص) کو مطلع نہیں فرماتا۔ سوائے اپنے پسندیدہ رسولوںکے (اُنہی کو مطلع علی الغیب کرتا ہے کیونکہ یہ خاصۂ نبوت اور معجزۂ رسالت ہے)، تو بے شک وہ اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے آگے اور پیچھے (علمِ غیب کی حفاظت کے لیے) نگہبان مقرر فرما دیتا ہے۔ ‘‘

نبی غیب بتانے میں بخیل نہیں

وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍo
التکویر، 81 : 24

’’اور وہ (یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) غیب (کے بتانے) پر بالکل بخیل نہیں ہیں (مالکِ عرش نے ان کے لیے کوئی کمی نہیں چھوڑی)۔ ‘‘

یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غیب بتانے میں بخیل نہیں بلکہ غیب بتانے میں سخی ہیں

کیا آپ کے پاس جو قرآن ہے اس میں مندرجہ بالا آیات نہیں ہے اگر ہے تو پھر کیوں ان آیات کریمہ سے احادیث کی حدود متعین نہیں کرتے کہیں ایسا تو نہیں کہ

إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُواْ بَيْنَ اللّهِ وَرُسُلِهِ وَيقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَن يَتَّخِذُواْ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلاً

سورہ النساء :۱۵۰
وہ جو اللہ اور اس کے رسولوں کو نہیں مانتے اور چاہتے ہیں کہ اللہ سے اس کے رسولوں کو جدا کردیں اور کہتے ہیں ہم کسی پر ایمان لائے اور کسی کے منکر ہوئے اور چاہتے ہیں کہ ایمان و کفر کے بیچ میں کوئی راہ نکال لیں
بہرام بھائی آپ نے یہاں بحث کس چیز پر کرنی ہے - علم غیب پر یا زندوں کے اعمال مردہ رشتہ داروں پر پیش ہونے پر -
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
وَقُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ ۖ وَسَتُرَدُّونَ إِلَىٰ عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
سورہ توبہ:105
اردو ترجمہ جالندھری

اور ان سے کہہ دو کہ عمل کئے جاؤ۔ خدا اور اس کا رسول اور مومن (سب) تمہارے عملوں کو دیکھ لیں گے۔ اور تم غائب وحاضر کے جاننے والے (خدائے واحد) کی طرف لوٹائے جاؤ گے پھر جو کچھ تم کرتے رہے ہو وہ سب تم کو بتا دے گا
وَقَالَتْ عَائِشَةُ إِذَا أَعْجَبَكَ حُسْنُ عَمَلِ امْرِئٍ فَقُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ وَلَا يَسْتَخِفَّنَّكَ أَحَدٌ
صحیح بخاری :كتاب التوحيد : باب قول الله تعالى: {يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك وإن لم تفعل فما بلغت رسالاته}
اردو ترجمہ داؤد راز
اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا جب تجھ کو کسی کا کام اچھا لگے تو یوں کہہ کہ عمل کئے جاؤ اللہ اور اس کا رسول اور مسلمان تمہارا کام دیکھ لیں گے، کسی کا نیک عمل تجھ کو دھوکا میں نہ ڈالے۔
اس کا یہ جواب بھی دیا ہے - اگر یہاں کوئی غلط بات لکھی گئی ہو تو پلیز بتا دیں تا کہ ایسا جواب لکھنے والے کا رد کیا جا سکے - شکریہ -

امام بخاری نے صحیح میں باب بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: (يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالاَتِهِ) میں اس روایت کو بلا سند نقل کیا ہے
اور یہ عائشہ رضی الله عنہا کا قول ہے

ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ ابن ابی حاتم نے اس کو روایت کیا- تفسیر ابن ابی حاتم میں اس کی سند ہے

حدثنا أبو عبيد الله بن أخي بن وَهْبٍ ثنا عَمِّي ثنا يُونُسُ عَنِ الزُّهْرِيِّ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ


کتاب الكامل في ضعفاء الرجال از ابن عدی کے مطابق اس کے راوی ضعیف ہیں

أحمد بن عَبد الرحمن بن وهب، أبو عُبَيد اللَّهِ، ابْنُ أَخِي ابْنِ وهب.

رأيت شيوخ أهل مصر الذين لحقتهم مجمعين على ضعفه

أبو عُبَيد اللَّهِ، ابْنُ أَخِي ابْنِ وهب

میں نے اہل مصر کے شیوخ کو دیکھا جن سے ملاقات ہوئی سب اس کی تضعیف پر مجتمع تھے


ابن عدی کہتے ہیں۔

ومن ضعفه أنكرت عليه أحاديث أنا ذاكر منها البعض، وكثرة روايته، عَن عَمِّه، وحرملة أكثر رواية، عَن عَمِّه منه، وكل ما أنكروه عليه فمحتمل، وإن لم يكن يرويه، عَن عَمِّه غيره، ولعله خصه به.


اور ان کی وہ روایات جو ان کے چچا سے ہیں ان کا انکار کیا جاتا ہے

یہ روایت بھی ان کے چچا سے ہے

الغرض یہ روایت صحیح نہیں اسی لئے بخاری نے اس کو باب میں لکھا ہے

اس آیت کا خاص تعلق جنگ تبوک میں رہ جانے والوں سے ہے کہ ان کے عمل کی جانچ پڑتال کی جائے گی جبکہ اس روایت کے مطابق عائشہ رضی الله عنہا اس کو عثمان پر معترضین کے حوالے سے کہہ رہی ہیں

روایت کے الفاظ ہیں

حدثنا أبو عبيد الله بن أخي بن وَهْبٍ ثنا عَمِّي ثنا يُونُسُ عَنِ الزُّهْرِيِّ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ: أَنَّ عَائِشَةَ كَانَتْ تَقُولُ: وَاللَّهِ مَا احْتَقَرْتُ أَعْمَالَ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ- صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- حَتَّى يَنْجُمَ الْقُرَّاءُ الَّذِينَ طَعَنُوا عَلَى عُثْمَانَ، فَقَالُوا: قَوْلا لَا نُحْسِنُ مِثْلَهُ وَقَرَءُوا قِرَاءَةً لَا نَقْرَأُ مِثْلَهَا وَصَلُّوا صَلاةً لَا نُصَلِّي مِثْلَهَا، فَلَمَّا تَذَكَّرْتُ، إِذَا وَاللَّهِ- مَا يُقَارِبُونَ عَمَلَ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا أَعْجَبَكَ حَسَنُ قَوْلِ امْرِئٍ منهم فقل: اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ وَسَتُرَدُونَ إِلَى عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ.
وَلا يَسْتَخِفَّنَّكَ أَحَدٌ.


اس میں ہے انہوں نے ان سے کہا جو عثمان پر طعن کر رہے تھے

البتہ یہ بات صحیح ہے کہ عمل کا مشاہدہ کیا جائے گا کہ وہ ٹھیک ہے یا نہیں یہ منافقین پر ذہنی دباؤ رکھنے کا حکم ہے

اس آیت سے عمل پیش ہونے کا استخراج کرنا صحیح نہیں بلکہ احمقانہ ہے آیت میں کہا جا رہا ہے کہ اہل ایمان تمہارا عمل دیکھیں گے کیاان اہل ایمان کو علم غیب تھا کہ منافقین کا عمل ان پر پیش ہو رہا تھا ؟

قرآن میں ہے مدینہ میں منافق ہیں اپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو نہیں جانتے ہم جانتے ہیں- اگر ان کا عمل نبی پر پیش ہوتا تو نبی صلی الله علیہ وسلم کو پتا ہوتا کہ کون کیا عمل کرتا ہے

اس آیت کا سادہ مفھوم ہے کہ تم عمل کرو اب ہم دیکھیں گے کہ کیا کرتے ہو یعنی جہاد یا صدقات وغیرہ
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
مَا كَانَ اللّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مَآ أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّى يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللّهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ فَآمِنُواْ بِاللّهِ وَرُسُلِهِ وَإِن تُؤْمِنُواْ وَتَتَّقُواْ فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌo

آل عمران، 3 : 179

’’اور اللہ مسلمانوں کو ہرگز اس حال پر نہیں چھوڑے گا جس پر تم (اس وقت) ہو جب تک وہ ناپاک کو پاک سے جدا نہ کر دے، اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ (اے عامۃ الناس!) تمہیں غیب پر مطلع فرما دے لیکن اللہ اپنے رسولوں سے جسے چاہے (غیب کے علم کے لیے) چن لیتا ہے، سو تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائو اور اگر تم ایمان لے آؤ، اور تقویٰ اختیار کرو تو تمہارے لیے بڑا ثواب ہے۔ ‘‘
عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًاo إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًاo

الجن، 72 : 26۔ 27

’’(وہ) غیب کا جاننے والا ہے، پس وہ اپنے غیب پر کسی(عام شخص) کو مطلع نہیں فرماتا۔ سوائے اپنے پسندیدہ رسولوںکے (اُنہی کو مطلع علی الغیب کرتا ہے کیونکہ یہ خاصۂ نبوت اور معجزۂ رسالت ہے)، تو بے شک وہ اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے آگے اور پیچھے (علمِ غیب کی حفاظت کے لیے) نگہبان مقرر فرما دیتا ہے۔ ‘‘

نبی غیب بتانے میں بخیل نہیں

وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍo
التکویر، 81 : 24

’’اور وہ (یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) غیب (کے بتانے) پر بالکل بخیل نہیں ہیں (مالکِ عرش نے ان کے لیے کوئی کمی نہیں چھوڑی)۔ ‘‘

یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غیب بتانے میں بخیل نہیں بلکہ غیب بتانے میں سخی ہیں

کیا آپ کے پاس جو قرآن ہے اس میں مندرجہ بالا آیات نہیں ہے اگر ہے تو پھر کیوں ان آیات کریمہ سے احادیث کی حدود متعین نہیں کرتے کہیں ایسا تو نہیں کہ

إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُواْ بَيْنَ اللّهِ وَرُسُلِهِ وَيقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَن يَتَّخِذُواْ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلاً

سورہ النساء :۱۵۰
وہ جو اللہ اور اس کے رسولوں کو نہیں مانتے اور چاہتے ہیں کہ اللہ سے اس کے رسولوں کو جدا کردیں اور کہتے ہیں ہم کسی پر ایمان لائے اور کسی کے منکر ہوئے اور چاہتے ہیں کہ ایمان و کفر کے بیچ میں کوئی راہ نکال لیں

نبی علیہ السلام کو علم غیب کی بعض باتوں کی خبر دی گئی اس سے انکار نہیں- لیکن اسی قرآن میں قل کے حکم کے ساتھ ہے

قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلا ضَرًّا إِلا مَا شَاءَ اللَّهُ


ولو كنت أعلم الغيب لاستكثرت من الخير


لہذا یاد رہے کہ پورے قرآن پر ایمان لانا ہے نہ کہ من پسند آیات پر

فَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَاءُ مَنْ يَفْعَلُ ذَلِكَ مِنْكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَى أَشَدِّ الْعَذَابِ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (85)} (البقرة:85).
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304

قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللّهِ وَاللّهُ شَهِيدٌ عَلَى مَا تَعْمَلُونَ

سورہ آل عمران : 98
ترجمہ جوناگڑھی
آپ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب تم اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کیوں کرتے ہو؟ جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ تعالیٰ اس پر گواه ہے


وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلاَّ لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلاَّ عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللّهُ وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌ

سورہ بقر :143
ترجمہ :جوناگڑھی
ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواه ہوجاؤ اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) تم پر گواه ہوجائیں، جس قبلہ پر تم پہلے سے تھے اسے ہم نے صرف اس لئے مقرر کیا تھا کہ ہم جان لیں کہ رسول کا سچا تابعدار کون ہے اور کون ہے جو اپنی ایڑیوں کے بل پلٹ جاتا ہے گو یہ کام مشکل ہے، مگر جنہیں اللہ نے ہدایت دی ہے (ان پر کوئی مشکل نہیں) اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان ضائع نہ کرے گا اللہ تعالیٰ لوگوں کے ساتھ شفقت اور مہربانی کرنے واﻻ ہے
وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا -
ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواه ہوجاؤ اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) تم پر گواه ہوجائیں،

اگر اس گواہی سے یہ مراد یہ لی جائے کہ عوام الناس کے اعمال نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم تک پہنچتے ہیں تو اس ان کے حاضر و ناظرہونے کے عقیدے کا اثبات کرنا پڑے گا- لیکن بدعتیوں کے لئے مشکل یہ ہے کہ اس آیت مبارکہ میں نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم سمیت امّت محمّدیہ کو بھی شہید کہا گیا ہے - یعنی اگر نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کو حاضر و ناظر مانا جائے تو امّت محمّدیہ کو بھی حاضر و ناظر ماننا لازم و ملزوم بنتا ہے-جو کہ بدعتی جماعت نہیں مانتی- لیکن قرانی آیت میں دونوں کے لئے شہید کا لفظ استمعال ہوا ہے - نتیجہ یہ نکلا کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کی اعمال پر گواہی کے لئے شہادت اور امّت محمّدیہ کی شہادت میں کوئی فرق نہ رہا - دونوں اپنی وفات کے بعد اپنی قبروں میں زندہ انسانوں کے اعمال کا نفس بنفیس مشاہدہ کررہے ہیں- دونوں کے درجے ایک ہیں ؟؟-

جب کہ دوسری طرف الله کی راہ میں مارے جانے والے شہید کہ جس کو قران نے مردہ کہنے کی ممانعت کی ہے اور فرمایا ہو کہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کی پاس رزق پتے ہیں - دنیا میں رہنے والوں کیو حال سے بے خبرہیں -

أَأَتَّخِذُ مِنْ دُونِهِ آلِهَةً إِنْ يُرِدْنِ الرَّحْمَٰنُ بِضُرٍّ لَا تُغْنِ عَنِّي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا وَلَا يُنْقِذُونِ-إِنِّي إِذًا لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ-إِنِّي آمَنْتُ بِرَبِّكُمْ فَاسْمَعُونِ-قِيلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ ۖ قَالَ يَا لَيْتَ قَوْمِي يَعْلَمُونَ-بِمَا غَفَرَ لِي رَبِّي وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ- وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَىٰ قَوْمِهِ مِنْ بَعْدِهِ مِنْ جُنْدٍ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا كُنَّا مُنْزِلِينَ-إِنْ كَانَتْ إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَةً فَإِذَا هُمْ خَامِدُونَ سوره یٰسین ٢٣-٢٩
(حبیب نجار کہنے لگا) کیا میں اس کے سوا اوروں کو معبود بناؤں کہ اگر رحمان مجھے تکلیف دینے کا ارادہ کرے تو ان کی سفارش کچھ بھی میرے کام نہ آئے اور نہ وہ مجھے چھڑا سکیں-بے شک تب میں صریح گمراہی میں ہوں گا-بے شک میں تمہارے رب پر ایمان لایا پس میری بات سنو- (اسے شہید کردیا گیا) اس سے کہا گیا جنت میں داخل ہو جا- کہنے لگا اے کاش! میری قوم بھی جان لے- کہ میرے رب نے مجھے بخش دیا اور مجھے عزت والوں میں کر دیا-اور ہم نے اس کی قوم پر اس کے بعد کوئی فوج آسمان سے نہ اتاری اور نہ ہم اتارنے والے تھے-صرف ایک ہی چیخ تھی کہ جس سے وہ بجھ کر رہ گئے-

جب حبیب نجار رح شہید ہونے کے بعد بھی اپنی قوم کے حال سے بے خبر ہے تو انبیاء اور امّت محمّدیہ کا اپنے عزیزوں کے حال و اعمال سے با خبر ہونا چہ معنی درد -
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
یعنی یہ دلیل ہوئی شب برات پر جو شعبان کی 15 ویں شب کو مسلمان مناتے ہیں کہ اس رات اعمال اللہ کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں اور مسلمان اس رات میں اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور دن میں روزہ رکھتے ہیں
کیا خیال ہے کہ اب یہ روایت ضعیف نہیں ہوجائے گی ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
اس روایت میں ماہ شعبان کی فضیلت کا ذکر ہے نہ کہ ١٥ شعبان کی فضیلت کا ؟؟- ١٥ شعبان کی رات میں عبادت اوراگلے دن روزہ رکھنے سے متعلق تمام روایات ضعیف ہیں-

اس کے علاوہ ایک روایت میں جمعرات کا روزہ رکھنے کا سبب بھی آنحضرت صل الله علیہ و آ له وسلم نے یہ بتایا کہ اس دن لوگوں کے اعمال الله کے حضور پیش ہوتے ہیں- اسلئے جب میرے اعمال الله کے حضور پیش ہوں تو میں روزے سے ہوں --- یہ عقیدہ کہ اعمال انبیاء یا امّت محمّدیہ پر پیش ہوتے ہیں ایک بدعتی عقیدہ ہے- جو شرک کا سبب بنتا ہے- لوگ اسی عقیدے کی بنیاد پر انبیاء و صالحین کو حاضر و ناظر مانتے ہیں -
 
Top