• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مرنے کے بعد روحوں کا مسکن

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
mernay kay roohoon ka maskan.jpg
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
حضرت براء بن عازبؓ سے مروی حدیث میں ہے کہ سوال و جواب کے وقت روح جسم کی طرف لوٹائی جاتی ہے؛اس کا کیا جواب ہے آپ کے پاس؟؟حافظ ابن حزم کے علاوہ اس کا کس نے انکار کیا ہے سلف صالحین میں سے؟؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
زمینی قبر میں عذاب کا ثبوت

الحمد لله الذي أخرجنا من ظلمات الجهل والوهم إلى أنوار المعرفة والعلم، والصلاةُ والسلام على معلمِ البشرية
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودی یا یہودیہ کی زمینی قبر پر گزرے جسے قبر میں عذاب ہو رہاتھا ،
مسلم کے رواۃ نے اس متن کو مختصر بیان کیا ،جس آپ کو غلط فہمی یا مغالطہ ہوا ،
صحیح مسلم کے جس باب کی آپ نے یہ حدیث یہاں پیسٹ کی ہے ،وہاں اسی باب میں سیدہ عائشہ وابن عمر رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث دوسری سند سے اس طرح موجود ہے
(حدثنا حماد بن زيد، عن هشام بن عروة، عن أبيه، قال: ذكر عند عائشة قول ابن عمر: الميت يعذب ببكاء أهله عليه، فقالت: رحم الله أبا عبد الرحمن، سمع شيئا فلم يحفظه، إنما مرت على رسول الله صلى الله عليه وسلم جنازة يهودي، وهم يبكون عليه، فقال: «أنتم تبكون، وإنه ليعذب»
اور سنن ابی داود میں یہی حدیث مکمل تفصیل کے ساتھ بسند صحیح موجود ہے
حدثنا هناد بن السري، ‏‏‏‏عن عبدة، ‏‏‏‏وأبي، ‏‏‏‏معاوية - المعنى - عن هشام بن عروة، ‏‏‏‏عن أبيه، ‏‏‏‏عن ابن عمر، ‏‏‏‏قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم "‏إن الميت ليعذب ببكاء أهله عليه "‏‏.‏ فذكر ذلك لعائشة فقالت وهل - تعني ابن عمر - إنما مر النبي صلى الله عليه وسلم على قبر فقال "‏إن صاحب هذا ليعذب وأهله يبكون عليه "‏‏.‏ ثم قرأت ‏‏‏‏{ولا تزر وازرة وزر أخرى ‏}‏ قال عن أبي معاوية على قبر يهودي ‏.‏
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بلاشبہ میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔“ یہ حدیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے بیان کی گئی، تو انہوں نے کہا: (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بھول گئے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک قبر کے پاس سے گزرے تھے، تو فرمایا تھا ”بیشک یہ قبر والا عذاب دیا جا رہا ہے اور اس کے گھر والے اس پر رو رہے ہیں۔“ پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ آیت پڑھی «ولا تزر وازرة وزر أخرى»”کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔“ ہناد نے ابومعاویہ سے روایت کرتے ہوئے وضاحت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودی کی قبر کےپس سے گزرے تھے۔) قال الشيخ الألباني: صحيح،
لھذا یہ ایک ہی واقعہ ہے جسے راویوں کے اختصار نے آپ کےلئے معمہ بنادیا ،اور آپ اس اختصار پر خوابوں کامحل بنانے لگے ،
میرا مشورہ ہے کہ آپ حدیث کا علم سیکھنے کےلئے کسی سچے اہل حدیث عالم کی صحبت اختیار کریں​
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
قبر میں سوال کئے جانے اور قبر کے عذاب کا بیان

حدثنا ابو الوليد الطيالسي اخبرنا شعبة عن علقمة بن مرثد عن سعد بن عبيدة عن البراء بن عازب ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:‏‏‏‏ " إن المسلم إذا سئل في القبر فشهد ان لا إله إلا الله وان محمدا رسول الله صلى الله عليه وسلم فذلك قول الله عز وجل:‏‏‏‏يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت سورة إبراهيم آية 27 ".(سنن أبي داود)
قال الشيخ الألباني: صحيح
سیدنابراء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان سے جب قبر میں سوال ہوتا ہے اور وہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں“۔ تو یہی مراد ہے اللہ کے قول «يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت» ”اللہ ایمان والوں کو پکی بات کے ساتھ مضبوط کرتا ہے“ (سورۃ ابراہیم: ۲۷) سے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجنائز ۸۶ (۳۱۲۰)، وتفسیر سورة إبراہیم ۲ (۴۶۹۹)، صحیح مسلم/الجنة ۱۷ (۲۸۷۱)، سنن الترمذی/تفسیر سورة إبراہیم ۱۵ (۳۱۲۰)، سنن النسائی/الجنائز ۱۱۴ (۲۰۵۹)، سنن ابن ماجہ/الزھد ۳۲ (۴۲۶۹)، (تحفة الأشراف: ۱۷۶۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۲۸۲، ۲۹۱)​
Al-Bara bin Azib reported the Messenger of Allah ﷺ as saying: When a Muslim is questioned in the grave he testifies that there is no god but Allah and that Muhammad is Allah’s Messenger. That is verified by Allah’s words: “Allah establishes those who believe with the word that stands firm. ”

English Translation Reference:, Book 41, Number 4732
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
قبر میں سوال کئے جانے اور قبر کے عذاب کا بیان
حدیث نمبر: 4751
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْأَنْبَارِيُّ،‏‏‏‏ أخبرنا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ الْخَفَّافُ أَبُو نَصْرٍ،‏‏‏‏ عَنْ سَعِيدٍ،‏‏‏‏ عَنْ قَتَادَةَ،‏‏‏‏ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ نَخْلًا لِبَنِي النَّجَّارِ،‏‏‏‏ فَسَمِعَ صَوْتًا،‏‏‏‏ فَفَزِعَ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ مَنْ أَصْحَابُ هَذِهِ الْقُبُورِ ؟،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ نَاسٌ مَاتُوا فِي الْجَاهِلِيَّةِ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ،‏‏‏‏ وَمِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ وَمِمَّ ذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ،‏‏‏‏ أَتَاهُ مَلَكٌ،‏‏‏‏ فَيَقُولُ لَهُ:‏‏‏‏ مَا كُنْتَ تَعْبُدُ ؟ فَإِنِ اللَّهُ هَدَاهُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ كُنْتُ أَعْبُدُ اللَّهَ،‏‏‏‏ فَيُقَالُ لَهُ:‏‏‏‏ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ ؟ فَيَقُولُ:‏‏‏‏ هُوَ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ،‏‏‏‏ فَمَا يُسْأَلُ عَنْ شَيْءٍ غَيْرِهَا فَيُنْطَلَقُ بِهِ إِلَى بَيْتٍ كَانَ لَهُ فِي النَّارِ،‏‏‏‏ فَيُقَالُ لَهُ:‏‏‏‏ هَذَا بَيْتُكَ كَانَ لَكَ فِي النَّارِ،‏‏‏‏ وَلَكِنَّ اللَّهَ عَصَمَكَ،‏‏‏‏ وَرَحِمَكَ،‏‏‏‏ فَأَبْدَلَكَ بِهِ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ،‏‏‏‏ فَيَقُولُ:‏‏‏‏ دَعُونِي حَتَّى أَذْهَبَ فَأُبَشِّرَ أَهْلِي،‏‏‏‏ فَيُقَالُ لَهُ:‏‏‏‏ اسْكُنْ،‏‏‏‏ وَإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ،‏‏‏‏ أَتَاهُ مَلَكٌ،‏‏‏‏ فَيَنْتَهِرُهُ،‏‏‏‏ فَيَقُولُ لَهُ:‏‏‏‏ مَا كُنْتَ تَعْبُدُ ؟ فَيَقُولُ:‏‏‏‏ لَا أَدْرِي،‏‏‏‏ فَيُقَالُ لَهُ:‏‏‏‏ لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ،‏‏‏‏ فَيُقَالُ لَهُ:‏‏‏‏ فَمَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ ؟ فَيَقُولُ:‏‏‏‏ كُنْتُ أَقُولُ مَا يَقُولُ النَّاسُ،‏‏‏‏ فَيَضْرِبُهُ بِمِطْرَاقٍ مِنْ حَدِيدٍ بَيْنَ أُذُنَيْهِ،‏‏‏‏ فَيَصِيحُ صَيْحَةً يَسْمَعُهَا الْخَلْقُ غَيْرُ الثَّقَلَيْنِ"،
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنی نجار کے کھجور کے ایک باغ میں داخل ہوئے، تو ایک آواز سنی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھبرا اٹھے، فرمایا: ”یہ قبریں کس کی ہیں؟“ لوگوں نے عرض کیا: زمانہ جاہلیت میں مرنے والوں کی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ جہنم کے عذاب سے اور دجال کے فتنے سے اللہ کی پناہ مانگو“ لوگوں نے عرض کیا: ایسا کیوں؟ اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن جب قبر میں رکھا جاتا ہے تو اس کے پاس ایک فرشتہ آتا ہے، اور اس سے کہتا ہے: تم کس کی عبادت کرتے تھے؟ تو اگر اللہ اسے ہدایت دیئے ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے: میں اللہ کی عبادت کرتا تھا؟ پھر اس سے کہا جاتا ہے، تم اس شخص کے بارے میں کیا کہتے تھے؟ ۱؎ تو وہ کہتا ہے: وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، پھر اس کے علاوہ اور کچھ نہیں پوچھا جاتا، پھر اسے ایک گھر کی طرف لے جایا جاتا ہے، جو اس کے لیے جہنم میں تھا اور اس سے کہا جاتا ہے: یہ تمہارا گھر ہے جو تمہارے لیے جہنم میں تھا، لیکن اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا، تم پر رحم کیا اور اس کے بدلے میں تمہیں جنت میں ایک گھر دیا، تو وہ کہتا ہے: مجھے چھوڑ دو کہ میں جا کر اپنے گھر والوں کو بشارت دے دوں، لیکن اس سے کہا جاتا ہے، ٹھہرا رہ، اور جب کافر قبر میں رکھا جاتا ہے، تو اس کے پاس ایک فرشتہ آتا ہے اور اس سے ڈانٹ کر کہتا ہے: تو کس کی عبادت کرتا تھا؟ تو وہ کہتا ہے: میں نہیں جانتا، تو اس سے کہا جاتا ہے: نہ تو نے جانا اور نہ کتاب پڑھی (یعنی قرآن)، پھر اس سے کہا جاتا ہے: تو اس شخص کے بارے میں کیا کہتا تھا؟ تو وہ کہتا ہے: وہی کہتا تھا جو لوگ کہتے تھے، تو وہ اسے لوہے کے ایک گرز سے اس کے دونوں کانوں کے درمیان مارتا ہے، تو وہ اس طرح چلاتا ہے کہ اس کی آواز آدمی اور جن کے علاوہ ساری مخلوق سنتی ہے“۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : (۳۲۳۱)، (تحفة الأشراف: ۱۲۱۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : بعض لوگوں نے «في هذا الرجل» سے یہ خیال کیا ہے کہ میت کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شبیہ دکھائی جاتی ہے، یا پردہ ہٹا دیا جاتا ہے، مگر یہ محض خیال ہے، اس کی کوئی دلیل قرآن وسنت میں وارد نہیں ، مردہ نور ایمانی سے ان سوالوں کے جواب دے گا نا کہ دیکھنے اور جاننے کی بنیاد پر، ابوجہل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تھا منکر نکیر کے سوال پر وہ آپ کو نہیں پہچان سکتا ،اور آج کا مومن موحد باوجود یہ کہ اس نے آپ کو دیکھا نہیں مگر جواب درست دے گا کیونکہ اس کا نور ایمان اس کو جواب سمجھائے گا، اگرچہ لفظ «هذا» محسوس قریب کے لئے آتا ہے مگر «ذلك» جو بعید کے لئے وضع کیا گیا ہے، اس کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے وبالعکس، «وقد ذكره البخاري عن معمر بن المثنى عن أبي عبيدة» پھر جواب میں «هو» کا لفظ موجود ہے جو ضمیر غائب ہے جو اس کے حقیقی معنی مراد لینے سے مانع ہے، «فافهم» ۔
 
Top