عید میلاد النبیﷺ منانا کیسا ہے؟
اول تو مسلمان کو اپنی سیرت، افعال اور اعمال سے ہر وقت نبی اکرم ﷺ کی سیرت بیان کرتے رہنی چاہیے اور زبانی سیرت کے لئے بھی کوئی وقت خاص نہیں کرنا چاہیے
بلکہ جب کبھی موقعہ آئے تو حضور پاک ﷺ کے سیرت کے واقعات مناسبتِ وقت کے حساب سے بیان کئے جائے مثلا آپ کھانا کھا رہے ہیں کوئی چھوٹا بھائی آپ کے ساتھ بیٹھا ہے اور وہ آداب طعام نہیں بجا لارہا تو ہمیں چاہیے کہ ہم آپ ﷺ کی سیرت سے آداب طعام کے متعلق باتیں بھائی کو بتائیں ۔ اسی طرح بھی کام آپ ہوتا دیکھے اور اس کام کے متعلق آپ کے پاس نبی ﷺ کی سیرت کی کوئی معلومات ہو تو آپ اُ س تک پہنچائے۔
کیونکہ جس چیز کا ذکر زیادہ ہوتا ہے اُس کی محبت دل میں زیادہ بیٹھتی ہے۔ اسی طرح جب ربیع الاوّل کا مہینہ آجاتا ہے تو ہر طرف آپ ﷺ کی ولادت کے بیانات مساجد اور محافل میں شروع ہوجاتے ہیں جس میں کوئی کراہت نہیں، بعض لوگ علماء دیوبند اور علمائے اہل حدیث کی طرف یہ جھوٹ بیان کرتے ہیں کہ یہ لوگ ذکر ولادت کے خلاف ہیں جبکہ اصل میں ایسا نہیں بلکہ ہم تو ان قیود کے خلاف ہیں جو خود اہل بدعت نے اپنی طرف سے گڑھ لیں ہیں۔ اب چونکہ جس طریق سے بارہ ربیع الاول کو بطور عید منایا جاتا ہے یہ طریقہ تیرہ سو سال میں کبھی بھی موجود نہ تھا۔ کجا کہ صحابہؓ کے زمانے میں موجود ہوتا پس طریقہ جب صحابہؓ کے زمانے میں نہ تھا پھر بھی ان کو قیود کے ساتھ کرنا یقینا بدعت ہے ، الحاصل ذکر ولادت بدعت نہیں بلکہ وہ قیود جو اس کو کرنے میں پائی جاتی ہے مثلا
جلسے جلوس کرنا، بڑے بڑے آواز میں موسیقی والی نعتیں بجانا اس کو بدعت کے زمرے میں داخل فرماتی ہے۔
لہذا مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’نفس ذکر ولادت مندوب ہے اور اس میں کراہت قیود کے سبب سے آئی ہے‘‘ (فتاوی رشیدیہ جلد1 صفحہ102 )
اسی طرح مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا
’’ پس نفس فرح و سرور علی ذکر رسول ا کو تو کوئی منع نہیں کرتا کہ وہ تو عبادت ہے ہاں اس کے ساتھ جب اقتران منہی عنہ کاہوگا (یعنی کوئی ایسی چیز کا مل جانا جس سے روکا گیا ہو مل جائے ) تو بے شک وہ قابل ممانعت ہوگا‘‘(ارشاد العباد فی عید المیلاد صفحہ 9)
پس اس طرح کا میلاد نہ حضور ﷺ نے اپنی زندگی میں منایا نہ صحابہؓ نے، نہ تابعین نے نہ تبع تابعین رضوان اللہ علیہم نے اب چونکہ یہ خیر القرون میں نہ تھا اس لئے یہ بدعت ہے اور بدعت کے متعلق صحابہؓ کے فتوے آپ پڑھ آئے ہیں ۔
فریق مخالف کو بھی تسلیم ہے کہ یہ بدعت ہے لیکن وہ اس کے ساتھ لفظ حسنہ لگا کر اس بدعت کو جائز قرار دیتے ہیں۔ بدعت حسنہ اور سیئہ کی تفریق بعض علمائے امت نے لی لیکن انہوں نے حسنہ میں ان امور کو لیا جو آنحضرت ﷺ یا قرن ثلاثہ میں موجود نہ تھے لیکن بعد وجود میں آئے لیکن ان کا تعلق دین کے عذاب ثواب سے نہ تھا بلکہ سہولت کے کام سے تھا اس کے برعکس جمہور علماء نے دنیا کے امور میں احداث کو بدعت ہی شمار نہیں کیا اس لئے ان کے نزدیک حسنہ اور سیئہ کی تفریق نہیں۔
اب اعتراض یہ کیا جا سکتا ہے کہ ذکر ولادت کیونکر جائز ہے؟ تو عرض یہ ہے کہ صحابہؓ کرام اکثر پیشتر اپنی مجالس میں احادیث رسول ﷺ سنایا کرتے تھے
اس میں سے احکام کی احادیث بھی ہوتیں اور سیر و مغازی کی بھی۔ احکام کی احادیث کے علاوہ تمام احادیث ایک طرح سیرت کا حصہ تھا اور وہ ان کو بھی اکثر بیان کرتے اور اس کو مستحسن گردانتے تھے۔ لہذا ذکر ولادت اس نص سے ظاہر ہوا۔ پس وقت از خود وقت خاص کر کے اس پر اتنا زور دینا کہ جو اس وقت یہ کام نہ کرے اسے ملامت کی جائے بدعت ہے۔ کیونکہ وہ اس چیز کو لازم کررہا ہے جسے شریعت نے لازم نہیں کیا۔ اور نہ ہی ایک دن ہی ہمیشہ کے لئے خاص کرکے ذکر ولادت کیا جائے
بلکہ بہتر یہ ہے ربیع الاول میں کبھی دوسری کو، کبھی پانچویں کو، کبھی آٹھویں کو اور کبھی بارہویں کو یہ ذکر کیا جائے تخصیص کہ ساتھ خاص دن اسے بدعت کی طرف لے جانے میں زیادہ دیر نہیں کریگا۔ اسی لئے ہمارے علماء نے دن خاص کرکے میلاد کا بیان تک کرنے سے گریز کیا کہ کہیں لوگ غلط فہمی میں رہ کر اسے دین کا جز نہ مان بیٹھے چنانچہ شیخ اشرف علی تھانوی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’حضورﷺ کا ذکر ولادت اس میں باعث مزید برکت کا ہے لیکن تخصیص اس کی اور اس میں ذکر کا التزام کرنا چونکہ بدعت ہے اسی لئے تاریخ کی تخصیص کو ترک کردیں گے‘‘(ارشاد العباد فی عید المیلاد صفحہ ۴ اور ۵)
لہذا ہم کو چاہیئے کہ اس طرح جلسے جلوس کرکے لوگوں کے لئے زحمت کا باعث نہ بنے بلکہ اگر حضور پاک ﷺ اور اللہ کی خوشنودی حاصل کرنی ہے تو اس کی اور اسکے رسول ﷺ کی سچی اور پکی اطاعت کریں۔ اللہ خود ہم سے محبت کرے گا۔ جیسا کہ اللہ نے فرمایا:
’’ ان کنتم تحبون اﷲ فاتبعونی یحببکم اﷲ ‘‘ ترجمہ حضرت تھانویؒ( آپﷺ فرمادیجئیے کہ اگر تم خدا تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو تم لوگ میرا اتباع کرو خدا تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگیں گے) (سورۃ آل عمران: 31)
لہذا اصل محبت جلسے جلوسوں میں نہیں بلکہ اطاعت رسول ﷺ میں ہے. دنیا میں اگر کسی سے محبت کرتے ہیں تو ہم ایسے کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے ہمارا محبوب خوش ہو اس طرح بے جا دعوے نہیں کرتے پھرتے.
تو پھر آنحضرت ﷺ کے معاملے میں الٹا کیوں؟ اگر اطاعت نبویﷺ میں زندگی گزار کر اور آنحضرت ﷺ کی ہرہر سنت پر عمل کیا جائے تو ہر پل میلاد ہوگا
ورنہ یہ کیسا ظلم ہے ؟ کہ صرف 12 دن یاد کریں پھر
سود بھی چلے، چوری بھی چلے، ظلم کا بازار بھی گرم رہے، غیبت پر کان دھرے جائے، موسیقی پر رقص ہو اور بھنگڑے ڈالے جائے تو پھر میلاد منا کر یہ کہنا کہ ہم عاشق ہیں یہ کوئی انصاف ہے؟
اصل میلاد یہ ہے کہ ہم جھوٹ چھوڑے، چوری چھوڑیں، سود چھوڑے اور حرام ترک کرے۔ہم دیکھتے ہیں یہ مروجہ میلاد کے جلوسوں میں کیا کیا مفاسد نہیں ہوتے اور ہمارے فریق مخالف کے ذمہ دار باوجود کوشش کے ان مفاسد کو روک نہیں پاتے تو یہ عمل مستحب ہونے کے بجائے الٹا معیوب ہوجاتا ہے۔