• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مروّجہ جشن عید میلاد النبی ﷺ کی ابتدا کب ہوئی؟

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
514
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
مروّجہ جشن عید میلاد النبی ﷺ کی ابتدا کب ہوئی؟

جشنِ عید میلاد النبی ﷺ کی شریعت میں کوئی اصل نہیں، نبی ﷺ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین رحمہم اللہ کے دور میں ''عید میلاد'' کا کوئی وجود ہی نہیں تھا،اس بدعت کی ابتدا چوتھی صدی ہجری میں ہوئی، سب سے پہلے مصر میں فاطمی شیعوں نے جشن عید میلاد النبیﷺ منایا۔

تقي الدين أبو العباس أحمد بن علي بن عبد القادر بن محمد الحسيني القاهري المقريزي ‏(المتوفی:845ھ) لکھتے ہیں:

((وكان للخلفاء الفاطميين في طول السنة أعياد ومواسم، وهي موسم رأس السنة، وموسم أول العام، ويوم عاشوراء، ومولد النبي صلي الله عليه وسلم،ومولد علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ،ومولدالحسن،ومولد الحسین رضی اللہ عنھم،ومولد فاطمۃالزھراء علیھا السلام،ومولد الخلیفۃالحاضر.))

"فاطمی خلفاء کے یہاں سال بھر میں کئی طرح کے جشن اور محفلوں کا انعقاد ہوتا تھا اور وہ یہ ہیں: سال کے اختتام کا جشن ، نئے سال کا جشن، یوم عاشوراء کا جشن، اور میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جشن، میلاد علی، میلاد حسن و حسین، میلاد فاطمہ رضی اللہ عنہم اور موجودہ خلیفہ کا میلاد ہوتا تھا۔"
‏{في الكتاب: المواعظ والاعتبار بذكر الخطط والآثار المعروف بالخطط المقريزية: ج1 ص490 الطبعة دار صادر بيروت، ونسخة الثاني: ج2 ص347 بتحقيق الدكتور محمد زينهم ومديحة الشرقاوي، ونسخة الثالث: ج2 ص436 بتحقيق خليل المنصور الطبعة دار الكتب العلمية}

یہی بات علامہ ابو العباس احمد بن علی القلقشندی رحمہ اللہ نے بھی لکھی ہے (,دیکھئے:صبح الأعشی :ج3ص498،499 اور اسلامی مہینے اور ان کا تعارف:ص118 از:شیخ محمد ارشد کمال۔)

مولانا سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"اسلام میں میلاد کی مجلسو ں کارواج غالباً چوتھی صدی سے ہوا۔"(سیرة النبی :ج 3 ص664)

حافظ سیوطی رحمہ اللہ (المتوفی:911ھ) فرماتے ہیں:
((وأول من أحدث فعل ذلك صاحب إربل الملك المظفر أبو سعيد كوكبري.))
سب سے پہلے جس نے اسے ايجاد کیا وہ اربل کا بادشاہ ملک مظفر ابو سعید کوکبری تھا۔(الحاوی للفتاویٰ للسیوطی، ج1ص 189)
مزید حوالوں کے لئے دیکھیے،اسلامی مہینے اور ان کا تعارف:ص 117-123از: شیخ محمد ارشد کمال.

مذکورہ حوالوں سے معلوم ہواکہ ''عید میلاد'' فاطمی دور (362ھ تا 567ھ کے درمیان ) میں ایجاد ہوئی اور اسے ایجاد کرنے والے فاطمی شیعہ تھے ۔[ تفصیل کے لئے دیکھیں البدع الحولیہ :ص137تا151۔اردو مترجم ’’ اسلام مہینوں کی بدعات)

اب آئیے دیکھتے ہیں کہ ان فاطمی خلفاء کی کیا حقیقیت ہے، کیوں کہ کوئی نام سے اس دھوکہ میں نہ آجائے کہ یہ نبی علیہ السلام کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی نسل سے ہے یا اہل بیت سے ہے۔ ان فاطمی خلفاء کی حقیقت جاننے کے لئے شیخ جمشید سلطان کے مضمون "عید میلاد النبیﷺ ایک مطالعاتی جائزہ" میں سے کچھ حصہ آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں۔

فاطمی خلفاء کی حقیقت:
یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ فاطمی خلفاء نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی نسل سے ہر گز نہیں تھے بلکہ یہ اپنی نسبت تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی طرف کرتے تا کہ لوگوں کو اہلِ بیت کا نام لیکر دھوکے میں مبتلا کیا جاسکے اور در حقیقت یہ لوگ یہودیوں اور مجوسیوں کی نسل سے تھے اور اسلام کے کٹر دشمن تھے ،انہوں نے اسلام کو مٹانے کے لئے اسلام کا لبادہ اوڑھ لیا اور سراسر جھوٹ اور فریب کا سہارا لیتے ہوئے اپنے آپ کو فاطمی النسل ظاہر کیا،لیکن علماء ِوقت نے ان کے اس جھوٹ کا پردہ چاک کردیا اور صاف اعلان کردیا کہ یہ لوگ فاطمی النسل ہرگز نہیں ہیں ۔

چنانچہ علامہ ابن خلکان لکھتے ہیں :'((واہل العلم بالأنساب من المحققین ینکرون دعواہ فی النسب.)) "علم انساب کے ماہرین علماء نے ان کے فاطمی النسل ہونے کے دعوی کی تردید کی ہے."(وفیات الأعیان: ج3 ص117، 118)

بلکہ 402ھ میں تو اہلِ سنت کے اکابر کی ایک میٹینگ ہوئی جس میں چوٹی کے محدثین ،فقہاء، قاضیان اور دیگر بزرگان نے شرکت کی اور سب نے متفقہ طور پریہ فیصلہ دیا کہ:
خود کو فاطمی النسل ظاہر کرنے والے خلفاء جھوٹے اور مکار ہیں اہل ِبیت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے ،پھر علماء کے اس متفقہ فیصلہ کو تحریری شکل میں لکھا گیا اور تمام حاضرین نے اس پر دستخط کئے۔ [دیکھئے :البدایہ و النھایہ:ج 11ص360،361، اور اس کا اردو ترجمہ تاریخ ابن کثیر:ج11 ص779 ،780]

علماء کی اس متفقہ تحریر میں فاطمیوں کی حقیقت ان الفاظ میں واضح کی گئی ہے :

((وأن هذا الحاكم بمصر هو وسلفه كفار فساق فجار، ملحدون زنادقة، معطلون، وللإسلام جاحدون، ولمذهب المجوسية والثنوية معتقدون، قد عطلوا الحدود وأباحوا الفروج، وأحلوا الخمر وسفكوا الدماء، وسبوا الأنبياء، ولعنوا السلف، وادعوا الربوبية.وكتب في سنة اثنتين وأربعمائة، وقد كتب خطه في المحضر خلق كثير.))

''مصر کا یہ بادشاہ حاکم اور اس کے تمام اگلے سربراہان کافر، فاجر، فاسق، ملحد، زندیق، فرقہ معطلہ سے تعلق رکھنے والے ، اسلام کے منکر اور مذہب مجوسیت اور ثنویت (بت پرستی) کے معتقد تھے۔ ان تمام لوگوں نے حدود شرعیہ کو بےکار کردیا تھا حرام کاریوں کو مباح کردیا تھا، مسلمانوں کا خون بے دردی سے بہایا،انبیاء کرام کو گالیاں دیں ،اسلاف پر لعنتیں بھیجیں ،خدائی کے دعوے کئے یہ ساری باتیں ٤٠٢ھ میں ہر طبقہ کے بے شمار آدمیوں کی موجود گی میں لکھی گئی ہیں" ....اور بہت سے لوگوں نے اس میں دستخط کئے ہیں۔

(البدایة والنهاية:ج11،ص361،اس کا اردو ترجمہ:تاریخ ابن کثیر،ج11،ص779،780)

اسی پر بس نہیں بلکہ بعض علماء نے اپنی بعض کتابوں میں ان کے کفر و فسق پر خصوصی بحث کی ہے مثلاً :
امام غزالی نے اپنی کتاب ''فضائح الباطنیة '' میں ایک خصوصی بحث کرتے ہوئے انہیں خالص کافر قرار دیا۔ (فضائح الباطنیة :ج1ص ج37)

بلکہ بعض علماء نے تو ان کے خلاف مستقل کتاب لکھ ڈالی ہے مثلاً: امام قاضی ابوبکر الباقلانی رحمہ اللہ نے کتاب لکھی اور اس میں ثابت کیا کہ فاطمی مجوسیوں کی اولاد ہیں اور ان کامذہب یہود و نصاری کے مذہب سے بھی بدتر ہے۔(کشف الا ستار و ھتک الاستار،مزید دیکھئے کتاب البدایہ و النہایہ ج۱۵ ،ص۵۳۷۔۵۴۰۔)

یہ تو علماء اہل سنت کا فیصلہ ہے ،لطف تو یہ ہے کہ وہ معتزلہ اور شیعہ جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے افضل کسی کو نہیں سمجھتے انہوں نے بھی فاطمیوں کوکافر اور منافق قرار دیاہے۔[ مجموع فتاوی ابن تیمیة :ج35ص129]

الغرض یہ کہ جمہور امت نے انہیں کافر و فاسق قرار دیاہے۔

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
((وكذلك " النسب " قد علم أن جمهور الأمة تطعن في نسبهم ويذكرون أنهم من أولاد المجوس أو اليهود. هذا مشهور من شهادة علماء الطوائف: من الحنفية والمالكية والشافعية والحنابلة وأهل الحديث وأهل الكلام وعلماء النسب والعامة وغيرهم.))
’’اسی طرح فاطمیوں کا نسب بھی جھوٹا ہے اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ جمہور امت فاطمیوں کے نسب کو غلط قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ لوگ مجوسیوں یا یہودیوں کی اولاد ہیں ،یہ بات مشہور ومعروف ہے اس کی گواہی حنفیہ، مالکیہ، شافعیہ، حنابلہ، اہل حدیث ،اہل کلام کے علماء، نسب کے ماہرین اور عوام وخواص سب دیتے ہیں."[مجموع فتاوی ابن تیمیة :ج35ص128]۔

مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ''عید میلاد'' کی ایجاد کرنے والے مسلمان نہ تھے بلکہ یہ یہودیوں اور مجوسیوں کی ایجاد ہے انہوں نے گہری سازش کرکے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی اور اپنی حقیقت چھپانے اور عام مسلمانوں کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے خود کو فاطمی النسل کہااور اپنے اس دعوی کو مضبوط بنانے کے لئے محبّت کے نام پر '' عیدِ میلاد'' کی رسم ایجاد کی ، تاکہ لوگوں کو یقین ہوجائے کہ واقعی یہ لوگ اہل ِبیت میں سے ہیں ۔ (عید میلاد النبیﷺایک مطالعاتی جائزہ:از شیخ جمشید سلطان اور دیکھئے "ماہ ربیع الأول اور عید میلاد":ص3-5،از کفایت اللہ سنابلی)

فاطمی خلفاء کے تقریباً دو سو سال کے بعد "ابوسعید الملک المعظم مظفرالدین بن زین الدین کوکبوری'' (المتوفی:630ھ) نامی بادشاہ جو ایک عیّاش اور بداخلاق بادشاہ تھا اور لہولعب، گانے ،باجے کی محافل میں مشغول رہنا اس کا مشغلہ تھا، اس بداخلاق بادشاہ نے اس بدعت کو مسلمانوں میں رائج کیا.(تاریخ مرآة الزمان ،وفیات الأعیان بحوالہ تاریخ میلاد:ص25،26)

ملک مظفرالدین ابو سعید کوکبری کے باریں میں مزید اقوال کے لئے دیکھئے "اسلامی مہینے اور ان کا تعارف:ص123-125،از:شیخ محمد ارشد کمال.

اس کے بعد ''ابو الخطاب بن دحیہ'' نامی ایک کذاب اور بد دماغ شخص نے بادشاہ کوخوش کرنے کے لئے اس موضوع پر ایک کتاب( التنویر فی مولد البشیر والنذیر) لکھ ڈالی ،اور جب یہ کتاب مظفر الدین کوکبری کے سامنے پیش کی تو یہ بخیل ہونے کے باوجود اس کو اس تصنیف پر ایک ہزار دینار انعام میں دیا، پوری دنیا میں اس موضوع پر یہ پہلی کتاب ہے, اس مؤلف کو تمام ائمہ کرام نے متفقہ طور پر کذاب (حد سے زیادہ جھوٹا) کہا ہے ۔

حافظ ضیاءالمقدسی(م643هـ)فرماتے ہیں:
((ولم يعجبني حاله؛ كان كثير الوقيعة في الأئمة،وأخبرني إبراهيم السنهوري بأصبهان: أنه دخل المغرب، وأن مشايخ المغرب كتبوا له جرحه وتضعيفه.))
"مجھے اس کی حالت اچھی نہیں لگی کیونکہ وہ ائمہ محدثین کی شان میں گستاخی کرتا تھا۔ مجھے ابراہیم سنہوری نے اصبہان میں خبر دی کہ وہ مغرب میں آیا تو مغرب کے شیوخ نے اس پر جرح اور ضعف کا حکم لگایا۔"(سیر أعلام النبلاء:14/87)

ابن نجار کہتے ہیں: ((رأيت الناس مجتمعين علي كذبه وو ضعه وادعائه لسمع مالم يسمعه ولقاء من لم يلقه.))
تمام لوگوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ابن دحیہ جھوٹا اور حدیثیں گھڑنے والاہے اور یہ اس شخص سے روایت سننے کادعوی کرتا جس سے اس نے ہر گز نہیں سنا اور اس شخص سے ملاقات کا دعوی کرتا جس سے وہ ہرگز نہیں ملا۔[ لسان المیزان:ج4ص295]

اور حافظ ابن حجر (المتوفی:852ھ) اس کے بارے میں محدثین کا فیصلہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ((كثير الوقيعة في الأئمة وفي السلف من العلماء خبيث اللسان أحمق شديد الكبر قليل النظر في أمور الدين.))
'' ابن دحیہ ائمہ اورسلف کی شان میں گستاخی کرنے والا تھا، یہ بدزبان ،احمق اور بڑا متکبر تھا." [لسان المیزان:ج4ص296]

اورحافظ سیوطی(المتوفی:911ھ) لکھتے ہیں :''ابن دحیہ اپنی عقل سے فتوی دے دیتا پھر اس کی دلیل تلاش کرنے لگ جاتا اور جب اسے کوئی دلیل نہ ملتی تو اپنی طرف سے حدیث گھڑ کے پیش کردیتا، مغرب کی نماز میں قصر کرنے کی حدیث اسی نے گھڑی ہے۔ [تدریب الراوی: ج1ص286]
(مزید اقوال کے لئے دیکھئے:سیر أعلام النبلاء:14/87،لسان المیزان15/167،البدایة و النهایة:13/183 وغیرہ۔)

"یہ ہے ''جشن و عید میلاد'' کی تاریخ جو یہودیوں و مجوسیوں کی اولاد فاطمی شیعہ کے دور کی ایجاد ہے اور اسے مسلمانوں میں رائج کرنے والے عیاش ،فاسق و فاجر ،گانے ،باجے و شراب کے رسیا ،انتہائی بد اخلاق حکمران تھے اور میلاد پر کتاب لکھ کر ان بد اخلاق حکمرانوں کے سامنے پیش کرنے والا ائمہ کرام و محدّثین کے نزدیک انتہائی جھوٹا اور گستاخ تھا اور ان بداخلاق اور عیاش حکمرانوں کا ساتھ دینے والے صوفی،بدعتی اور پیٹو ملا تھے۔اگر یہ جشن عید میلاد کی شریعت میں کوئی حیثیت ہوتی تو زمین کے عظیم ہستیاں اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس جشن کو ضرور مناتے تھے۔ بلکہ خیرالقرون کے سنہرے دور میں اس عید اور جشن کا تصور بھی نہیں تھا۔

البحوث العلمية،
منجانب: "منہج محدثین"
 
Top