- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,748
- ری ایکشن اسکور
- 26,379
- پوائنٹ
- 995
تکفیر وخروج یا تشدد اور جبر مسئلہ کا حل نہیں ہیں
10 . مذکورہ بالا گذارشات کا یہ مطلب نہیں ہے کہ راقم کسی جبر وتشدد کا حامی ہے یا بعض تحریکیں نفاذ اسلام کے جو شارٹ کٹ طریقے اختیار کئے ہوئےہیں، ان کی تائید کرتا ہے۔ بلکہ مقصود مرض کی تشخیص میں اتفاق ہی ہے۔ تاہم اس مرض کا علاج کیا ہو، اس میں مسلمانوں میں مختلف رجحانات پائے جاتے ہیں۔ اسلام ہنگامی قبضہ کی بجاے فرد کی اصلاح وتربیت پر زور دیتا ہے اور اصل ضرورت مسلم افراد کی معیاری تیاری، اور دین پر عمل پیرا ہونے کے لئے اُنہیں تعلیم وتربیت دینا، پھر ایسے افراد پر مشتمل جمعیت ِاسلامی کا قوت پکڑنا، مختلف الجہت اسلامی تحریکوں وتنظیموں کا اتحاد واتفاق کرکے، نفاذِاسلام کے لئے ہونے والی مساعی کو تقویت دینا ہے۔ جب تک مسلم معاشرہ اصلاح وتعمیر کے ان مراحل سے نہیں گزرے گا، وقتی غلبہ یا اتفاقی قبضہ ملت ِاسلامیہ کو درپیش حالات کو مزید گھمبیر بنا دے گا۔ اسلام کے نام پر غلبہ وقبضہ جمانے والوں کی مخالفت پہلے علاقائی پولیس کی قوت سے ہوگی، پھر میڈیا اور رینجر وفوج کی قوت سے، اس کے بعد عالمی قوتیں اقوام متحدہ اور نیٹو وامریکہ کی سرپرستی میں ایسے کسی غلبہ جما لینے والے اسلامی گروہ کے خلاف اپنی قوتیں مجتمع کردیں گی۔غرض تکفیر وخروج اورتشدد وانتہا پسندی نہ تو اسلام کا منہاج ہیں اور نہ حالات حاضرہ میں کوئی قابل عمل حل ہیں جس سے اسلام کے حق میں مثبت ودائمی اثرات مرتب ہوں ہم ان حالات میں مظلومین سے ہمدردی رکھتے ہوئے اس رویے سے برات کا اظہار کرتے ہیں۔
راقم کی اس طولانی تقریر کا نتیجہ یہ نکلا کہ م
راقم نے ا ُن کے خطاب کے بعد منتظمین سے اجازت طلب کرکے اپنی معروضات پیش کیں :
مولانا زاہد الراشدی نے راقم کے اس تبصرہ پر یہ ارشاد فرمایا کہ اوّل تو قاضی ابو یوسف کی ’کتاب الخراج ‘اسلام میں قانون سازی کی ایک درخشندہ مثال ہے۔ نیز سیدنا ابوبکر کاانتخاب بھی جمہوریت کے حق عوام کی نشاندہی کرتا ہے۔ بعد ازاں مجھے فرمانے لگے کہ افغانستان وسعودی عرب کے حوالے سے جو بات آپ نے کہی ہے ، اس میں حالات کا فرق ہمیں ضرور ملحوظِ خاطر رکھنا چاہئے۔
یہاں قارئین محد ث فورم پر یہ واضح رہنا چاہئے کہ ’کتاب الخراج‘ تو فقہی احکام ومسائل کی ایک کتاب ہے، اس میں دفعہ اور شق وار کوئی قانون نہیں ملتا جس کی پابندی ملتِ اسلامیہ پر سرکاری طورپر واجب ہو۔ پھر سیدنا ابوبکر کے انتخاب کی پوری تفصیلات کو دیکھا جائے تو وہ خالصتاً خلافتی انتخاب تھا، اس سے قبل کوئی ووٹنگ نہیں ہوئی تھی ۔مولانا راشدی نے سعودی عرب وافغانستان کے بارے میں حالات کے فرق کا موقف اپنا کر میرے ہی موقف کو تقویت دی کہ اسلام کا اصل نظام خلافت ہی ہے جسے امارتِ اسلامیہ افغانستان نے اختیار کرنے کی اُصولی طورپر کوشش کی ہے اور سعودی عرب نے بھی بعض سیاسی کوتاہیوں کے باوجود اسلام کا نظامِ عدل یعنی قرآن وسنت کو براہِ راست علما قضاۃ کے ذریعے نافذ کررکھا ہے۔ اور پاکستان میں ہونے والا قانون سازی کا تجربہ دراصل حالات کا جبر ہے، اس بنا پر یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا ہے کہ علما نے جمہوریت کو ہی اسلام کا مثالی نظام باور کرلیا ہے۔اندریں حالات علما کی تمام دستوری جدوجہد حالات کے جبر میں ممکنہ گنجائش سے ہی عبارت ہے۔ اس بنا پر خروج وغیرہ کی بحثیں یا اہل ذمہ وغیرہ کی گفتگو ، یہ تمام چیزیں جمہوری نظام میں خلط ِمبحث ہی ٹھہرتی ہیں۔
10 . مذکورہ بالا گذارشات کا یہ مطلب نہیں ہے کہ راقم کسی جبر وتشدد کا حامی ہے یا بعض تحریکیں نفاذ اسلام کے جو شارٹ کٹ طریقے اختیار کئے ہوئےہیں، ان کی تائید کرتا ہے۔ بلکہ مقصود مرض کی تشخیص میں اتفاق ہی ہے۔ تاہم اس مرض کا علاج کیا ہو، اس میں مسلمانوں میں مختلف رجحانات پائے جاتے ہیں۔ اسلام ہنگامی قبضہ کی بجاے فرد کی اصلاح وتربیت پر زور دیتا ہے اور اصل ضرورت مسلم افراد کی معیاری تیاری، اور دین پر عمل پیرا ہونے کے لئے اُنہیں تعلیم وتربیت دینا، پھر ایسے افراد پر مشتمل جمعیت ِاسلامی کا قوت پکڑنا، مختلف الجہت اسلامی تحریکوں وتنظیموں کا اتحاد واتفاق کرکے، نفاذِاسلام کے لئے ہونے والی مساعی کو تقویت دینا ہے۔ جب تک مسلم معاشرہ اصلاح وتعمیر کے ان مراحل سے نہیں گزرے گا، وقتی غلبہ یا اتفاقی قبضہ ملت ِاسلامیہ کو درپیش حالات کو مزید گھمبیر بنا دے گا۔ اسلام کے نام پر غلبہ وقبضہ جمانے والوں کی مخالفت پہلے علاقائی پولیس کی قوت سے ہوگی، پھر میڈیا اور رینجر وفوج کی قوت سے، اس کے بعد عالمی قوتیں اقوام متحدہ اور نیٹو وامریکہ کی سرپرستی میں ایسے کسی غلبہ جما لینے والے اسلامی گروہ کے خلاف اپنی قوتیں مجتمع کردیں گی۔غرض تکفیر وخروج اورتشدد وانتہا پسندی نہ تو اسلام کا منہاج ہیں اور نہ حالات حاضرہ میں کوئی قابل عمل حل ہیں جس سے اسلام کے حق میں مثبت ودائمی اثرات مرتب ہوں ہم ان حالات میں مظلومین سے ہمدردی رکھتے ہوئے اس رویے سے برات کا اظہار کرتے ہیں۔
راقم کی اس طولانی تقریر کا نتیجہ یہ نکلا کہ م
اس کے بعد مولانا زاہد الراشدی کا اختتامی خطاب تھا۔ مولانا زاہد الراشدی کے خطاب کا خلاصہ یہ ہے کہیں نے اپنے خطاب میں جو نکات اُٹھائے، بحث کا رخ اُن کی طرف مڑ گیا۔ مفتی محمد خاں قادری صاحب نے اپنے خطاب میں کہا کہ تحریک ِطالبان پاکستان کے حوالے سے اخبارات میں جو کچھ چھپ رہا ہے، اس میں سے بہت کچھ ایسا ہے جو امریکی اور حکومتی ادارے بلاوجہ ان کے نام پر منڈھ رہے ہیں۔ اُن کے نام پر جو کچھ شائع ہوتا ہے، اس میں پوری صداقت نہیں ہوتی۔ پھر اس کے بعد اُنہوں نے تکفیر کے بہت سے اُصول وضوابط پیش کئے۔ ان کے بعد ڈاکٹر احمد نجفی نے بھی شیعہ سنّی تکفیر کے ضمن میں فقہی استدلالات اور فقہ جعفریہ کا موقف تفصیل سے پیش کیا۔ بعدازاں مفتی منصور احمد نے توحید ِحاکمیت کے بارے میں استدلال کرتے ہوئے اپنے خطاب میں سورۃ النساء کے ایک مکمل رکوع (آیات 58 تا 69)کا خلاصہ پیش کیا اور قرآن وسنت کے مطابق اپنے فیصلے نہ کرنے والوں کو قرآن کی زبان میں طاغوت اور ظالم قرار دیا۔
اُنہوں نے خلافتِ راشدہ سے اپنے موقف کا استنباط کرتے ہوئے وضاحت فرمائی کہ سیدنا ابوبکر صدیق کی خلافت سے اس اہم سوال کا جواب ملتا ہے کہ حکمرانی کیا جبر کی بنا پر حاصل ہوگی یا عوامی رائے کی بنا پر؟ مزید برآں سیدنا عثمان کی خلافت کی اساس عوام الناس کا اعتماد ہی تھا اور یہی جمہوریت ہے۔اس عوامی اعتماد کی بنا پر ہی سیدنا عبد الرحمٰنؓ بن عوف نے سیدنا علیؓ کی بجائے اُنہیں خلیفہ نامزد کیا۔غرض حکومت کا حق عوام کے منتخب نمائندوں کو ہے۔ اُنہوں نے اپنے خطاب میں پاکستانیوں کے انتہاپسندانہ سماجی رویوں کی اصلاح کی ضرورت پر بھی زور دیا کہ ہم جب تک کسی پر کفر ، غداری یا وطن دشمنی کا فتویٰ نہ لگا لیں ، ہمارے اختلاف کے تقاضے پورے ہی نہیں ہوتے۔ اُنہوں نے یہ وضاحت بھی کی کہ یہ دعویٰ نظرثانی کا محتاج ہے کہ خیرالقرون میں کسی کی تکفیر نہیں ہوئی، حالانکہ مانعین زکوٰۃ کی شہادتین کے اقرار کے باوجود تکفیر ہوئی اور اُس کے بعد ہی ان سے جنگ کی گئی تھی۔ اپنے خطاب کے آخر میں اُنہوں نے اکابر کے فیصلے کا احترام کرنے کی تلقین کرتے ہوئے ایک بار پھر کہا کہ 22 نکات پر علما نے اتفاق کرکے جمہوریت اور اسلام کی راہ ہموار کی تھی، ہمیں اس سے انحراف نہیں کرنا چاہئے ، یہی ماضی ، حال اور مستقبل میں سلامتی کا راستہ ہے!!ہمارے اندر یہ علت پائی جاتی ہے کہ ہم ہر مسئلے میں شروع سے بات کا آغاز کردیتے ہیں، جبکہ یہ مسائل پہلے بھی پیش آچکے ہیں اور ہرمسئلہ میں اکابرِ ملت پہلے ایک واضح موقف اپنا چکے ہیں۔ آج ہم آغاز کے مرحلے پر نہیں کھڑے بلکہ پاکستان کے علماے اسلام نے قرار دادِ مقاصد اور جملہ مکاتبِ فکر کے 31علمانے 22 نکات پیش کئے ہیں۔1973ء کا متفقہ دستور پیش ہوکر علماے اسلام کا اتفاق حاصل کرچکا ہے۔ اس کے بعد ہمارے علما نے قانونی ودستوری جدوجہد کا راستہ پوری محنت وتدبیر کے ساتھ اختیار کررکھا ہے۔ اندریں حالات پاکستانی علما کا جمہوریت پر اتفاق ہوچکا ہے۔ اس بنا پر جمہوریت کو ہی ناقابل قبول بنادینا ، بحث کو نئے سرے سے شروع کردینے کے مترادف ہے جو وقت کا ضیاع ہے۔ چنانچہ انہی حالات میں رہتے ہوئے ہمیں خروج کے مسئلے کا شرعی حل تلاش کرنا چاہئے۔
راقم نے ا ُن کے خطاب کے بعد منتظمین سے اجازت طلب کرکے اپنی معروضات پیش کیں :
1۔میں اس مجلس مذاکرہ کا شکرگزار ہوں کہ اس کے ذریعے ہمیں ایسی شخصیات سے تبادلہ خیال اور استفادہ کرنے کا موقع میسر آیا جن کی ملی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ ان کی مساعی دینیہ اورجہودِ طیبہ کے سامنے ہماری نگاہیں ادب واحترام سے جھک جاتی ہیں، لیکن مکالمہ کا حسن ہی یہ ہے کہ متبادل نکتہ نظر کو پوری وضاحت سے پیش کیا جائے اورمیں مکالمہ کے اس حق سے ضرور فائدہ اُٹھاؤں گا۔ مولانا راشدی نے سیاسی تکفیر وخروج کی بحث میں جو استدلال پیش کیا ہے، مجھے اس سے اتفاق نہیں ہے۔ کیا میں یہ تسلیم کرلوں کہ پاکستان کے علما نے خلافت کو منسوخ قرار دے کرجمہوریت کو اس کا متبادل ہونے پر اتفاق کرلیا ہے! میں اس سے قبل اپنا موقف تفصیل سے پیش کرچکا ہوں جس میں جمہوری قانونی جدوجہد کو میں نے حالات کا جبر قرار دیتے ہوئے، اسے ایک ممکنہ سیاسی جدوجہد ہی باور کرایا ہے۔ مولانا نے اکابر کی رائے کے احترام کی بات ہے جبکہ ہمارے پڑوس میں جب علماے احناف کو جہادِ افغان کے بعد اپنے زورِ بازو سے افغانستان میں حکومت ملی تو طالبان کے حنفی اکابر نے وہاں جمہوری نظام کی بجائے’امارتِ اسلامیہ افغانستان‘ کے نام سے نظام امارت اختیار کیا۔ مجھے یہ بیان کرنے میں کوئی باک نہیں کہ اسلامی نظام کی برکات سے جس تیزی سے افغان معاشرہ مستفیض ہوا، اس کی مثال موجودہ سیاسی تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ملتِ اسلامیہ کی حالیہ تاریخ میں دو ہی جگہ اسلامی نظام کی برکات سامنے آئیں: افغانستان اور سعودی عرب میں اور دونوں جگہ جمہوریت موجود نہیں تھی۔ اس لئے اکابر ملت ہوں یا فقہاے عظام، ان کا حوالہ دے کر خالص اسلامی نظام خلافت کا مقام جمہوریت کوعطا نہیں کیا جاسکتا۔یوں بھی اکابر کا حوالہ دے کر قرآن وسنت سے استدلال کے سلسلے کو ختم نہیں جاسکتا۔ جمہوریت ایک غیراسلامی نظام ہے اور اسمیں خروج کی بحث کرنا ایک کارِ لاحاصل ہے۔
جہاں تک حضرت راشدی صاحب نے عوامی اعتماد کی بات کی ہے تو اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ خلافت ِاسلامیہ میں عوامی اعتماد کو بھی ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے لیکن اگر عوامی اعتماد ہی انتخابِ امیر کی اساس ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ جمہوریت اور خلافت میں حدِ امتیاز کیا ہے؟ خلافت دراصل اللہ کے دین کے نفاذ کے لئے قائم ہوتی ہے۔ وہ مسلمان فرد جو دین الٰہی کے قیام اور دفاع کے لئے علم و عمل کے لحاظ سے اَصلح ہو، اس کو اہل حل وعقد خلیفہ بناتے ہیں، جس کی بعد میں عامۃ المسلمین بیعت کرتے ہیں۔ اس مرکزی نکتہ کے بعد میسر افراد میں جس شخص کو عوامی اعتماد بھی حاصل ہو، اُس کو بھی ایک وزن دیا جاتا ہے۔ اگر عوامی حاکمیت کا اسلام میں اتنا ہی اعتبار ہے تو پھر نبی کریمﷺ نے کفر واسلام کا نکھار کئے بغیر مکہ مکرمہ میں حاکمیتِ عوام قائم کیوں نہیں کردی تھی؟ بلکہ دراصل آپﷺ نے اللہ کی بندگی میں چلنے والا ایک پورا معاشرہ قائم کیا، خلیفہ کے ذریعے اس کو تحفظ دیا، جزاوسزا کا نظام نافذ کیا اور اس کے بعد عوامی اعتماد کو بھی پیش نظر رکھا۔ دوسرے الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ جمہوریت میں تو عوامی انتخاب واعتماد ایک مرکزی قوتِ محرکہ کے طور پر موجود ہوتا ہے جبکہ خلافتِ اسلامیہ میں نفاذِ شریعت اسی مقام پر ہوتا ہے اور عوامی اعتماد انفعالی درجے میں موجود ہوتا ہے۔ انتخابِِ امیر کا فیصلہ محض عوامی اعتماد کی بنا پر نہیں کیا جاسکتا تاہم شریعت کو نافذ کرنے کی صلاحیت رکھنے والے فرد میں اُس کو بھی دیکھا جاتا ہے۔2۔جہاں تک پاکستان میں اسلامی قانون سازی یا جمہوریت کے حق قانون سازی کا تعلق ہے تو یہ نشاندہی کرنا بھی ضروری ہے کہ تیرہ صدیوں کی اسلامی تاریخ کسی بھی قانون سازی سے محروم رہی ہے۔ مسلمانوں میں سب سے پہلے قانون سازی کا رویہ فرانس کی اتباع میں سلطنتِ عثمانیہ کے آخری ادوار میں ’مجلہ احکام عدلیہ‘ کی صورت نظر آتاہے۔ میثاقِ مدینہ جسے اسلامی دستور قرار دیا جاتا ہے، اگر کوئی مستند دستاویز ہے بھی تو وہ یہود کے مدینہ منورہ میں قیام تک ہی مؤثر رہی۔ جب یہود نے وعدہ خلافیاں کیں اور قرآن نے اُن کے خلاف نبی کریمﷺ کو جہاد کا حکم دیا اور وہ مدینہ منورہ سے نکل گئے تو اُس کے بعد یہ دستاویز مؤثر نہیں رہی۔بعض دانشوروں کا خلافت ِراشد ہ اور بعد کے ادوار میں اس میثاق کو دستورِ اسلامی قرار دینے کا نظریہ سراسر حقائق سے لاعلمی ہے۔ اسلامی تاریخ میں سلطنتِ عثمانیہ کےمجلہ احکام عدلیہ کی قانونی تشکیل وہ پہلا مرحلہ ہے جب قرآن وسنت کی بجائے انسانوں کے بنائے یا تجویزکردہ قانونی الفاظ معیارِ عدل قرار پائے لیکن ڈیڑھ سو سال کی حالیہ مسلم تاریخ شاہد ہے کہ قانون سازی اور جمہوریت نوازی کے اس رجحان کے نتیجے میں کسی بھی ملک کو اسلام کی برکات نصیب نہیں ہوسکیں۔ یہی قانون سازی بعد میں پورے انسانی قانون کی بنیاد بنتی ہے، جو آخر کار طاغوت تک جا پہنچتی ہے۔ واضح رہے کہ احناف کے ہاں بھی خلیفہ کی نیابت کرتے ہوئے تعزیرات کے باب میں مباحات کے مابین کسی ایک مباح کو مستقل قانون سازی کے طورپر اختیار تو کیا جاسکتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ شریعت کے وہ میدان جہاں واضح اسلامی احکامات موجود ہوں، ان کو نظرانداز کرکے وہاں مستقل انسانی قانون سازی کا راستہ ہی اختیار کرلیا جائے، یہ سراسر ناجائز ہے۔
مولانا زاہد الراشدی نے راقم کے اس تبصرہ پر یہ ارشاد فرمایا کہ اوّل تو قاضی ابو یوسف کی ’کتاب الخراج ‘اسلام میں قانون سازی کی ایک درخشندہ مثال ہے۔ نیز سیدنا ابوبکر کاانتخاب بھی جمہوریت کے حق عوام کی نشاندہی کرتا ہے۔ بعد ازاں مجھے فرمانے لگے کہ افغانستان وسعودی عرب کے حوالے سے جو بات آپ نے کہی ہے ، اس میں حالات کا فرق ہمیں ضرور ملحوظِ خاطر رکھنا چاہئے۔
یہاں قارئین محد ث فورم پر یہ واضح رہنا چاہئے کہ ’کتاب الخراج‘ تو فقہی احکام ومسائل کی ایک کتاب ہے، اس میں دفعہ اور شق وار کوئی قانون نہیں ملتا جس کی پابندی ملتِ اسلامیہ پر سرکاری طورپر واجب ہو۔ پھر سیدنا ابوبکر کے انتخاب کی پوری تفصیلات کو دیکھا جائے تو وہ خالصتاً خلافتی انتخاب تھا، اس سے قبل کوئی ووٹنگ نہیں ہوئی تھی ۔مولانا راشدی نے سعودی عرب وافغانستان کے بارے میں حالات کے فرق کا موقف اپنا کر میرے ہی موقف کو تقویت دی کہ اسلام کا اصل نظام خلافت ہی ہے جسے امارتِ اسلامیہ افغانستان نے اختیار کرنے کی اُصولی طورپر کوشش کی ہے اور سعودی عرب نے بھی بعض سیاسی کوتاہیوں کے باوجود اسلام کا نظامِ عدل یعنی قرآن وسنت کو براہِ راست علما قضاۃ کے ذریعے نافذ کررکھا ہے۔ اور پاکستان میں ہونے والا قانون سازی کا تجربہ دراصل حالات کا جبر ہے، اس بنا پر یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا ہے کہ علما نے جمہوریت کو ہی اسلام کا مثالی نظام باور کرلیا ہے۔اندریں حالات علما کی تمام دستوری جدوجہد حالات کے جبر میں ممکنہ گنجائش سے ہی عبارت ہے۔ اس بنا پر خروج وغیرہ کی بحثیں یا اہل ذمہ وغیرہ کی گفتگو ، یہ تمام چیزیں جمہوری نظام میں خلط ِمبحث ہی ٹھہرتی ہیں۔