• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسئلہ تکفیر وخروج ‎ اور پاکستانی جمہوریت

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تکفیر وخروج یا تشدد اور جبر مسئلہ کا حل نہیں ہیں
10 . مذکورہ بالا گذارشات کا یہ مطلب نہیں ہے کہ راقم کسی جبر وتشدد کا حامی ہے یا بعض تحریکیں نفاذ اسلام کے جو شارٹ کٹ طریقے اختیار کئے ہوئےہیں، ان کی تائید کرتا ہے۔ بلکہ مقصود مرض کی تشخیص میں اتفاق ہی ہے۔ تاہم اس مرض کا علاج کیا ہو، اس میں مسلمانوں میں مختلف رجحانات پائے جاتے ہیں۔ اسلام ہنگامی قبضہ کی بجاے فرد کی اصلاح وتربیت پر زور دیتا ہے اور اصل ضرورت مسلم افراد کی معیاری تیاری، اور دین پر عمل پیرا ہونے کے لئے اُنہیں تعلیم وتربیت دینا، پھر ایسے افراد پر مشتمل جمعیت ِاسلامی کا قوت پکڑنا، مختلف الجہت اسلامی تحریکوں وتنظیموں کا اتحاد واتفاق کرکے، نفاذِاسلام کے لئے ہونے والی مساعی کو تقویت دینا ہے۔ جب تک مسلم معاشرہ اصلاح وتعمیر کے ان مراحل سے نہیں گزرے گا، وقتی غلبہ یا اتفاقی قبضہ ملت ِاسلامیہ کو درپیش حالات کو مزید گھمبیر بنا دے گا۔ اسلام کے نام پر غلبہ وقبضہ جمانے والوں کی مخالفت پہلے علاقائی پولیس کی قوت سے ہوگی، پھر میڈیا اور رینجر وفوج کی قوت سے، اس کے بعد عالمی قوتیں اقوام متحدہ اور نیٹو وامریکہ کی سرپرستی میں ایسے کسی غلبہ جما لینے والے اسلامی گروہ کے خلاف اپنی قوتیں مجتمع کردیں گی۔غرض تکفیر وخروج اورتشدد وانتہا پسندی نہ تو اسلام کا منہاج ہیں اور نہ حالات حاضرہ میں کوئی قابل عمل حل ہیں جس سے اسلام کے حق میں مثبت ودائمی اثرات مرتب ہوں ہم ان حالات میں مظلومین سے ہمدردی رکھتے ہوئے اس رویے سے برات کا اظہار کرتے ہیں۔
راقم کی اس طولانی تقریر کا نتیجہ یہ نکلا کہ م
یں نے اپنے خطاب میں جو نکات اُٹھائے، بحث کا رخ اُن کی طرف مڑ گیا۔ مفتی محمد خاں قادری صاحب نے اپنے خطاب میں کہا کہ تحریک ِطالبان پاکستان کے حوالے سے اخبارات میں جو کچھ چھپ رہا ہے، اس میں سے بہت کچھ ایسا ہے جو امریکی اور حکومتی ادارے بلاوجہ ان کے نام پر منڈھ رہے ہیں۔ اُن کے نام پر جو کچھ شائع ہوتا ہے، اس میں پوری صداقت نہیں ہوتی۔ پھر اس کے بعد اُنہوں نے تکفیر کے بہت سے اُصول وضوابط پیش کئے۔ ان کے بعد ڈاکٹر احمد نجفی نے بھی شیعہ سنّی تکفیر کے ضمن میں فقہی استدلالات اور فقہ جعفریہ کا موقف تفصیل سے پیش کیا۔ بعدازاں مفتی منصور احمد نے توحید ِحاکمیت کے بارے میں استدلال کرتے ہوئے اپنے خطاب میں سورۃ النساء کے ایک مکمل رکوع (آیات 58 تا 69)کا خلاصہ پیش کیا اور قرآن وسنت کے مطابق اپنے فیصلے نہ کرنے والوں کو قرآن کی زبان میں طاغوت اور ظالم قرار دیا۔
اس کے بعد مولانا زاہد الراشدی کا اختتامی خطاب تھا۔ مولانا زاہد الراشدی کے خطاب کا خلاصہ یہ ہے کہ
ہمارے اندر یہ علت پائی جاتی ہے کہ ہم ہر مسئلے میں شروع سے بات کا آغاز کردیتے ہیں، جبکہ یہ مسائل پہلے بھی پیش آچکے ہیں اور ہرمسئلہ میں اکابرِ ملت پہلے ایک واضح موقف اپنا چکے ہیں۔ آج ہم آغاز کے مرحلے پر نہیں کھڑے بلکہ پاکستان کے علماے اسلام نے قرار دادِ مقاصد اور جملہ مکاتبِ فکر کے 31علمانے 22 نکات پیش کئے ہیں۔1973ء کا متفقہ دستور پیش ہوکر علماے اسلام کا اتفاق حاصل کرچکا ہے۔ اس کے بعد ہمارے علما نے قانونی ودستوری جدوجہد کا راستہ پوری محنت وتدبیر کے ساتھ اختیار کررکھا ہے۔ اندریں حالات پاکستانی علما کا جمہوریت پر اتفاق ہوچکا ہے۔ اس بنا پر جمہوریت کو ہی ناقابل قبول بنادینا ، بحث کو نئے سرے سے شروع کردینے کے مترادف ہے جو وقت کا ضیاع ہے۔ چنانچہ انہی حالات میں رہتے ہوئے ہمیں خروج کے مسئلے کا شرعی حل تلاش کرنا چاہئے۔
اُنہوں نے خلافتِ راشدہ سے اپنے موقف کا استنباط کرتے ہوئے وضاحت فرمائی کہ سیدنا ابوبکر صدیق کی خلافت سے اس اہم سوال کا جواب ملتا ہے کہ حکمرانی کیا جبر کی بنا پر حاصل ہوگی یا عوامی رائے کی بنا پر؟ مزید برآں سیدنا عثمان کی خلافت کی اساس عوام الناس کا اعتماد ہی تھا اور یہی جمہوریت ہے۔اس عوامی اعتماد کی بنا پر ہی سیدنا عبد الرحمٰنؓ بن عوف نے سیدنا علیؓ کی بجائے اُنہیں خلیفہ نامزد کیا۔غرض حکومت کا حق عوام کے منتخب نمائندوں کو ہے۔ اُنہوں نے اپنے خطاب میں پاکستانیوں کے انتہاپسندانہ سماجی رویوں کی اصلاح کی ضرورت پر بھی زور دیا کہ ہم جب تک کسی پر کفر ، غداری یا وطن دشمنی کا فتویٰ نہ لگا لیں ، ہمارے اختلاف کے تقاضے پورے ہی نہیں ہوتے۔ اُنہوں نے یہ وضاحت بھی کی کہ یہ دعویٰ نظرثانی کا محتاج ہے کہ خیرالقرون میں کسی کی تکفیر نہیں ہوئی، حالانکہ مانعین زکوٰۃ کی شہادتین کے اقرار کے باوجود تکفیر ہوئی اور اُس کے بعد ہی ان سے جنگ کی گئی تھی۔ اپنے خطاب کے آخر میں اُنہوں نے اکابر کے فیصلے کا احترام کرنے کی تلقین کرتے ہوئے ایک بار پھر کہا کہ 22 نکات پر علما نے اتفاق کرکے جمہوریت اور اسلام کی راہ ہموار کی تھی، ہمیں اس سے انحراف نہیں کرنا چاہئے ، یہی ماضی ، حال اور مستقبل میں سلامتی کا راستہ ہے!!
راقم نے ا ُن کے خطاب کے بعد منتظمین سے اجازت طلب کرکے اپنی معروضات پیش کیں :
1۔میں اس مجلس مذاکرہ کا شکرگزار ہوں کہ اس کے ذریعے ہمیں ایسی شخصیات سے تبادلہ خیال اور استفادہ کرنے کا موقع میسر آیا جن کی ملی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ ان کی مساعی دینیہ اورجہودِ طیبہ کے سامنے ہماری نگاہیں ادب واحترام سے جھک جاتی ہیں، لیکن مکالمہ کا حسن ہی یہ ہے کہ متبادل نکتہ نظر کو پوری وضاحت سے پیش کیا جائے اورمیں مکالمہ کے اس حق سے ضرور فائدہ اُٹھاؤں گا۔ مولانا راشدی نے سیاسی تکفیر وخروج کی بحث میں جو استدلال پیش کیا ہے، مجھے اس سے اتفاق نہیں ہے۔ کیا میں یہ تسلیم کرلوں کہ پاکستان کے علما نے خلافت کو منسوخ قرار دے کرجمہوریت کو اس کا متبادل ہونے پر اتفاق کرلیا ہے! ‎‎‎‎‎‎‎ میں اس سے قبل اپنا موقف تفصیل سے پیش کرچکا ہوں جس میں جمہوری قانونی جدوجہد کو میں نے حالات کا جبر قرار دیتے ہوئے، اسے ایک ممکنہ سیاسی جدوجہد ہی باور کرایا ہے۔ مولانا نے اکابر کی رائے کے احترام کی بات ہے جبکہ ہمارے پڑوس میں جب علماے احناف کو جہادِ افغان کے بعد اپنے زورِ بازو سے افغانستان میں حکومت ملی تو طالبان کے حنفی اکابر نے وہاں جمہوری نظام کی بجائے’امارتِ اسلامیہ افغانستان‘ کے نام سے نظام امارت اختیار کیا۔ مجھے یہ بیان کرنے میں کوئی باک نہیں کہ اسلامی نظام کی برکات سے جس تیزی سے افغان معاشرہ مستفیض ہوا، اس کی مثال موجودہ سیاسی تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ملتِ اسلامیہ کی حالیہ تاریخ میں دو ہی جگہ اسلامی نظام کی برکات سامنے آئیں: افغانستان اور سعودی عرب میں اور دونوں جگہ جمہوریت موجود نہیں تھی۔ اس لئے اکابر ملت ہوں یا فقہاے عظام، ان کا حوالہ دے کر خالص اسلامی نظام خلافت کا مقام جمہوریت کوعطا نہیں کیا جاسکتا۔یوں بھی اکابر کا حوالہ دے کر قرآن وسنت سے استدلال کے سلسلے کو ختم نہیں جاسکتا۔ جمہوریت ایک غیراسلامی نظام ہے اور اسمیں خروج کی بحث کرنا ایک کارِ لاحاصل ہے۔
2۔جہاں تک پاکستان میں اسلامی قانون سازی یا جمہوریت کے حق قانون سازی کا تعلق ہے تو یہ نشاندہی کرنا بھی ضروری ہے کہ تیرہ صدیوں کی اسلامی تاریخ کسی بھی قانون سازی سے محروم رہی ہے۔ مسلمانوں میں سب سے پہلے قانون سازی کا رویہ فرانس کی اتباع میں سلطنتِ عثمانیہ کے آخری ادوار میں ’مجلہ احکام عدلیہ‘ کی صورت نظر آتاہے۔ میثاقِ مدینہ جسے اسلامی دستور قرار دیا جاتا ہے، اگر کوئی مستند دستاویز ہے بھی تو وہ یہود کے مدینہ منورہ میں قیام تک ہی مؤثر رہی۔ جب یہود نے وعدہ خلافیاں کیں اور قرآن نے اُن کے خلاف نبی کریمﷺ کو جہاد کا حکم دیا اور وہ مدینہ منورہ سے نکل گئے تو اُس کے بعد یہ دستاویز مؤثر نہیں رہی۔بعض دانشوروں کا خلافت ِراشد ہ اور بعد کے ادوار میں اس میثاق کو دستورِ اسلامی قرار دینے کا نظریہ سراسر حقائق سے لاعلمی ہے۔ اسلامی تاریخ میں سلطنتِ عثمانیہ کےمجلہ احکام عدلیہ کی قانونی تشکیل وہ پہلا مرحلہ ہے جب قرآن وسنت کی بجائے انسانوں کے بنائے یا تجویزکردہ قانونی الفاظ معیارِ عدل قرار پائے لیکن ڈیڑھ سو سال کی حالیہ مسلم تاریخ شاہد ہے کہ قانون سازی اور جمہوریت نوازی کے اس رجحان کے نتیجے میں کسی بھی ملک کو اسلام کی برکات نصیب نہیں ہوسکیں۔ یہی قانون سازی بعد میں پورے انسانی قانون کی بنیاد بنتی ہے، جو آخر کار طاغوت تک جا پہنچتی ہے۔ واضح رہے کہ احناف کے ہاں بھی خلیفہ کی نیابت کرتے ہوئے تعزیرات کے باب میں مباحات کے مابین کسی ایک مباح کو مستقل قانون سازی کے طورپر اختیار تو کیا جاسکتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ شریعت کے وہ میدان جہاں واضح اسلامی احکامات موجود ہوں، ان کو نظرانداز کرکے وہاں مستقل انسانی قانون سازی کا راستہ ہی اختیار کرلیا جائے، یہ سراسر ناجائز ہے۔
جہاں تک حضرت راشدی صاحب نے عوامی اعتماد کی بات کی ہے تو اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ خلافت ِاسلامیہ میں عوامی اعتماد کو بھی ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے لیکن اگر عوامی اعتماد ہی انتخابِ امیر کی اساس ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ جمہوریت اور خلافت میں حدِ امتیاز کیا ہے؟ خلافت دراصل اللہ کے دین کے نفاذ کے لئے قائم ہوتی ہے۔ وہ مسلمان فرد جو دین الٰہی کے قیام اور دفاع کے لئے علم و عمل کے لحاظ سے اَصلح ہو، اس کو اہل حل وعقد خلیفہ بناتے ہیں، جس کی بعد میں عامۃ المسلمین بیعت کرتے ہیں۔ اس مرکزی نکتہ کے بعد میسر افراد میں جس شخص کو عوامی اعتماد بھی حاصل ہو، اُس کو بھی ایک وزن دیا جاتا ہے۔ اگر عوامی حاکمیت کا اسلام میں اتنا ہی اعتبار ہے تو پھر نبی کریمﷺ نے کفر واسلام کا نکھار کئے بغیر مکہ مکرمہ میں حاکمیتِ عوام قائم کیوں نہیں کردی تھی؟ بلکہ دراصل آپﷺ نے اللہ کی بندگی میں چلنے والا ایک پورا معاشرہ قائم کیا، خلیفہ کے ذریعے اس کو تحفظ دیا، جزاوسزا کا نظام نافذ کیا اور اس کے بعد عوامی اعتماد کو بھی پیش نظر رکھا۔ دوسرے الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ جمہوریت میں تو عوامی انتخاب واعتماد ایک مرکزی قوتِ محرکہ کے طور پر موجود ہوتا ہے جبکہ خلافتِ اسلامیہ میں نفاذِ شریعت اسی مقام پر ہوتا ہے اور عوامی اعتماد انفعالی درجے میں موجود ہوتا ہے۔ انتخابِِ امیر کا فیصلہ محض عوامی اعتماد کی بنا پر نہیں کیا جاسکتا تاہم شریعت کو نافذ کرنے کی صلاحیت رکھنے والے فرد میں اُس کو بھی دیکھا جاتا ہے۔
مولانا زاہد الراشدی نے راقم کے اس تبصرہ پر یہ ارشاد فرمایا کہ اوّل تو قاضی ابو یوسف﷫ کی ’کتاب الخراج ‘اسلام میں قانون سازی کی ایک درخشندہ مثال ہے۔ نیز سیدنا ابوبکر کاانتخاب بھی جمہوریت کے حق عوام کی نشاندہی کرتا ہے۔ بعد ازاں مجھے فرمانے لگے کہ افغانستان وسعودی عرب کے حوالے سے جو بات آپ نے کہی ہے ، اس میں حالات کا فرق ہمیں ضرور ملحوظِ خاطر رکھنا چاہئے۔
یہاں قارئین محد ث فورم پر یہ واضح رہنا چاہئے کہ ’کتاب الخراج‘ تو فقہی احکام ومسائل کی ایک کتاب ہے، اس میں دفعہ اور شق وار کوئی قانون نہیں ملتا جس کی پابندی ملتِ اسلامیہ پر سرکاری طورپر واجب ہو۔ پھر سیدنا ابوبکر کے انتخاب کی پوری تفصیلات کو دیکھا جائے تو وہ خالصتاً خلافتی انتخاب تھا، اس سے قبل کوئی ووٹنگ نہیں ہوئی تھی ۔مولانا راشدی نے سعودی عرب وافغانستان کے بارے میں حالات کے فرق کا موقف اپنا کر میرے ہی موقف کو تقویت دی کہ اسلام کا اصل نظام خلافت ہی ہے جسے امارتِ اسلامیہ افغانستان نے اختیار کرنے کی اُصولی طورپر کوشش کی ہے اور سعودی عرب نے بھی بعض سیاسی کوتاہیوں کے باوجود اسلام کا نظامِ عدل یعنی قرآن وسنت کو براہِ راست علما قضاۃ کے ذریعے نافذ کررکھا ہے۔ اور پاکستان میں ہونے والا قانون سازی کا تجربہ دراصل حالات کا جبر ہے، اس بنا پر یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا ہے کہ علما نے جمہوریت کو ہی اسلام کا مثالی نظام باور کرلیا ہے۔اندریں حالات علما کی تمام دستوری جدوجہد حالات کے جبر میں ممکنہ گنجائش سے ہی عبارت ہے۔ اس بنا پر خروج وغیرہ کی بحثیں یا اہل ذمہ وغیرہ کی گفتگو ، یہ تمام چیزیں جمہوری نظام میں خلط ِمبحث ہی ٹھہرتی ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
دوسری نشست: پاکستانی سیاست کے تناظر میں خروج کا مسئلہ

مکالمہ کی دوسری نشست کا موضوع خروج اور اس سے متعلقہ مباحث تھیں۔ مکالمہ کے میزبان جناب حافظ عمار ناصر نے یہ بنیادی سوال قائم کیا کہ اگر خروج وتکفیر درست حکمتِ عملی نہیں تو پھر اس کا متبادل کیا ہونا چاہئے؟ اس پر براہِ راست گفتگو کی ضرورت ہے۔
مفتی منصور احمد صاحب نے فرمایا کہ پہلی نشست کے خاتمے تک یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ خروج کی بحث موجودہ جمہوری تناظر میں نہیں کی جاسکتی ۔ خروج کے بارے میں سرحدی علاقوں میں ہونے والے ظلم وستم کا تذکرہ پوری شدت سے کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ اس جدوجہد کو شرعی مباحثے کی بجائے ایک خالص ردعمل کے تناظر میں دیکھنا چاہئے جس طرح بلوچستان کے عوام کی جدوجہد کو دیکھا جاتا ہے۔
جماعتِ اسلامی کے ڈاکٹر فرید احمد پراچہ اس موقع پر تشریف لائے اور اُنہوں نے کہا کہ اس نوعیت کی عالمانہ بحثوں میں صرف علما کو مدعو کرلیا جاتا ہے، حالانکہ علما پہلے بھی ان مسائل کو جانتے ہیں۔ اس بحث کا مؤثر ترفریق حکومتِ وقت ہے اور اُن کے نمائندےبھی ایسے مذاکروں میں ضرور ہونے چاہئیں تاکہ دوطرفہ موقف سنا سنایا جائے اور افہام وتفہیم کی فضا پیدا ہو۔ اُنہوں نے حکمرانوں کے مظالم کا تذکرہ کرتے ہوئے سرحدی عوام کی اس جدوجہد کو اُن پر ہونے والے ظلم وستم کا ردعمل قرار دیا اور کہا کہ ان حالات میں جمہوری جدوجہد سے ہی سیاسی جبرواستبداد کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ترکی، فلسطین اور الجزائر میں جمہوری عمل کے نتیجے میں اسلام پسند کامیاب ہوچکے ہیں۔ اور وقت آرہا ہے کہ عوامی لہر کو عالمی استعمار مزید دبانے میں کامیاب نہیں رہے گا۔
ان کے خطاب کے بعد جناب صاحبزادہ طاہر محمود اشرفی نے اپنے خیالات کا اظہار کیا، ان کا خطاب جنرل پرویز مشرف کے اقدامات کی جزوی تائید اور اہل تکفیر کی مذمت کے ساتھ ساتھ اسلامی موقف کو واضح کرنے کی ضرورت پر مبنی تھا۔ اس خطاب میں دونوں طرف کے دلائل پائے جاتے تھے جسے نامعلوم کس مہارت سے اُنہوں نے ایک ہی نشست میں جمع کردکھایا۔ ان کے خطاب کے بعد علامہ احمد علی قصوری نے اُن کو آڑے ہاتھوں لیا اور اُن کے ماضی او رحال کے سیاسی کردار کا ایک نقشہ پیش کیا۔یہ دونوں خطابات چونکہ گذشتہ دس سالہ دور کی سیاسی کشمکش کا نقشہ پیش کررہے تھے ، اس لئے ایک علمی مباحثہ میں ان سے صرفِ نظر کیا جاتا ہے۔ راقم کا خروج کی شرعی حیثیت پر کیا موقف تھا؟ اس کی تفصیل کو بھی بوجہ طوالتِ مضمون کسی اور موقع پر پیش کیا جائے گا۔
الغرض ’پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پیس سٹڈیز‘ کے زیر نظر مکالمہ خروج وتکفیر کے پیش نظر جس دہشت گردی کی مذمت تھی جیساکہ ان کے لائحۂ بحث سے مترشح تھا، تو راقم نے تکفیر کو غلط شرعی منہاج قرار دیتے ہوئے، اس طرف حاضرین کو توجہ دلائی کہ ہمیں صرف نتیجہ کی بجائے، وجوہات اور اسباب کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے اور ظلم کے حقیقی اسباب کے خاتمے کی مؤثر جدوجہد کرنی چاہئے، اسی طرح اس ظلم کے نتیجے میں جو لوگ شہید ہورہے ہیں، ان سے بھی ہمدردی رکھنا ہمارا ملّی فریضہ ہے۔ اسلام آباد میں ہونے والے تیسرے مذاکرہ کی رود اد اور اس میں اُٹھائے جانے والے سوالات کی تفصیل آئندہ شمارہ میں ملاحظہ فرمائیں۔ان شاء اللہ
نوٹ:
معزز قارئین یہ مضمون ’’ماہنامہ محدث لاہور جنوری2012‘‘ میں شائع ہوا ہے اور یہ شمارہ ان شاءاللہ کل ہماری لائبریری کا حصہ بن جائے گا۔جس کا لنک یہاں پیسٹ کردیا جائے گا۔اس مضمون سے متعلقہ باقی گزارشات ان شاءاللہ اگلے شمارہ میں شائع ہونگی۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
جزاک اللہ خیرا۔ تکفیری فتنہ کے تعلق سے اہم گفتگو ہے۔ اس کانفرنس کے تعلق سے کیا دیگر مقررین کے مقالے دستیاب ہو سکتے ہیں؟
نیز اس مضمون سے متعلق باقی گزارشات آئندہ کسی شمارے میں پیش کرنے کا ذکر ہے، کیا وہ شائع ہو چکا ہے؟
 
شمولیت
اگست 08، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
519
پوائنٹ
57
اسلام علیکم !
مولانا زاھد راشدی کی بات درست نہین ہے - خلافت اور مروجہ جمہوریت دو الگ چیزین ہین - حضرت ابوبکر و عمر وعثمان کے چناؤ کا طریقہ احادیث مین موجود ہے - اسے اکثریت کا فیصلہ کہنا درست نہین ہے -
البتہ خلفاء کے چناؤ کے بعد ، تمام صحابہ کا اس فیصلے پر ، اکھٹا ہونے ، یعنی خلفاء پر ،اجماع ہونے مین کوی شک نہین ہے-

میرے علم کے مطابق، ٢٢ نکات ، جمہوری نظام کو تسلیم کرنے کے لیے نہین تھے ، بلکہ اسلامی نفاذ کا لائحہ عمل ، تھے -

تمام علماء کو ان نکات پر متفق کہنا بھی درست نہین ہے- علامہ احسان الہی کی ، صدر ضیاء سے مخالفت ، معروف ہے-
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
السلام علیکم!۔
اس وقت جن حالات سے اُمت مسلمہ گذر رہی ہے۔۔۔ اُنہیں اگر سامنے رکھا جائے اور اس مسئلے پر تمام مکاتب فکر کے علماء کرام کو بلا کر اُن کا موقف سنا جائے تو ہر شخص ایک نئے پہلو کی نشاندہی کررہا ہوگا۔۔۔ کسی بھی مسئلے کی وجہ یہ نہیں ہوتی ہے کے اُس کے نقصان کیا ہوا یا فائدہ کتنا پہنچا۔۔۔ بلکہ صحیح یا غلط ہونے کا اندازہ اس کے نتائج کو سامنے رکھنے کے بعد نکالیں۔۔۔ اس پورے ورکشاپ میں مسئلہ نہ تکفیر کا ہے نا ہی خروج کا بلکہ جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں اصل چیز جمہوریت کو ہر حال میں اسلام کے نظام سے کلی طور پر محفوظ بنانا ہے۔۔۔ اور پاکستان میں اُس کے نفاذ کو ناممکن بنانا ہے۔۔۔ تاکہ کسی بھی سورش کی صورت میں جمہوری نظام کو خطرات لاحق نہ ہوں۔۔۔ میں یہاں پر ایک چھوٹی سی بات پیش کرنا چاہوں گا مشرقی واسطی کی وہ ریاستیں جہاں عوامی سورش نے حکمرانوں سے اقتدار چھین لیا ہے کیا وہاں کی عوام چاہئے گی کے وہاں پر آنے والی یا بننے والی نئی حکومت اسلامی اصولوں اور ضابطوں کی بنیاد پر بننے؟؟؟۔۔۔ اب اس ہی سورش کے دوسرے پہلو کی طرف نظر کرتے ہیں۔۔۔ کچھ عرصہ قبل ایران میں بھی اسی طرح کی ایک سورش نے سراٹھایا کیوں؟؟؟۔۔۔ پھر اس کے بعد آج کل شام میں کیوں اس سورش کا سرکچلا جارہا ہے؟؟؟۔۔۔ اصل میں حکمرانوں کے خلاف خروج کا فتوٰی کس ملک کے لئے قابل قبول ہوگا؟؟؟۔۔۔ سعودی عرب جیسے امن پسند ملک میں بائیں بازو کی قوت اپنے اکثریتی علاقوں میں کیوں حکومت کے خلاف سرگرم عمل ہے۔۔۔ قطر میں کیا ہونے جارہا ہے؟؟؟۔۔۔ یہ وہ گراؤنڈ ریالٹیز ہیں جن کا وقت سے پہلے سمجھنا بےحد ضروری ہوگیا ہے۔۔۔ عراق سے اقتدار چھینا گیا سب جانتے ہیں کس کے ہاتھوں میں چلا گیا؟؟؟۔۔۔ لیبیا کے کرنل قذافی کو مروایا گیا اقتدار کس کے پاس گیا یہ بھی ہم جانتے ہیں؟؟؟۔۔۔ مصر کے حسن مبارک سے اقتدار چھینا نہیں گیا تحریر اسکوائر بھی ایک سازش ہے۔۔۔ دیکھیں امریکی سی آئی اے کو کیا نہیں پتہ تھا کے حسنی مبارک کی زندگی کے دن بس گنتی کے رہ گئے ہیں؟؟؟۔۔۔ حالات خراب کئے جاتے ہیں۔۔۔ میں دعوٰے سے کہہ سکتا ہوں اگر حسن مبارک کی صحت خراب نہ ہوتی تو مصر میں کبھی بھی تحریر اسکوائر جیسی تحریک سر نہ اٹھاتی۔۔۔ یہ باتیں اب بیکار ہیں۔۔۔

بحیثیت پاکستانی یا پاکستانی قوم ہمیں اپنے ملکی حالات کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔۔۔ لیکن ان پیچیدہ حالات کو سلجھانے کے لئے ہمیں اُن غلطیوں اور کوتاہیوں کو ضرور زیر بحث لانا ہوگا جن اس تمام صورتحال کی وجہ بننے اور وہ وجہ تھی طالبان۔۔۔ ان سے کب کب کہان کہاں کیا کیا غلطیاں ہوئیں اگر ان پر بات چیت کی جائے تو اس مسئلہ تکفیر اور خروج کا اسباب کا پتہ لگانے میں آسانی ہوگی۔۔۔ اور سب سے اہم بات کے طالبانائزیشن سے خطرہ کس کو ہے؟؟؟۔۔۔ کوئی جماعت یا گروہ کہے کے اس ملک میں قرآن وسنت کے مطابق آئین اور دستور بناؤ تو کس کے دل کے چھالے پھوٹیں گے؟؟؟۔۔۔ جب کہا جائے گا کے مزاروں کو منہدم کیا جائے تو کس کے گلے کا پھندا کسا جارہا ہوگا؟؟؟۔۔۔ مسجد کے علاوہ تمام عبادگاہیں توڑ دی جائیں تو کون وہ لوگ ہونگے جو سراپا ماتم احتجاج کرنے سڑکوں پر نکل آئیں گے گریبانیں چاک کر؟؟؟۔۔۔

یقین کیجئے دوستو!۔ جب بھی میں پاکستان کے چینلز پر دینی یا اسلامی پروگرامز دیکھتا ہوں جن میں فون کرنے والے صارفین اپنے مسائل بیان کرتے ہیں تاکہ اُن کو قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دیا جاسکے اور وہ اس مسئلے کا حل جاننے کے بعد کسی حل کی طرف جائیں۔۔۔ مگر افسوس ہم سب بہت اچھی طرح جانتے ہیں کے ہماری اہلسنت والجماعت کے چار آئمہ کرام ہیں لیکن کمال حیرت وافسوس کا مقام ہوتا ہے کے اہلسنت والجماعت سے تعلق رکھنے والا صارف جب کوئی سوال پوچھتا ہے تو اس پر رائے فقہ جعفریہ جن کا ہم سے یا ہمارے مسائل کے دور دور کا تعلق نہیں ہوتا فتوٰی دیتے نظر آتے ہیں۔۔۔ کبھی آپ نے پاکستان کی تاریخ میں جب سے یہ اسلامی پروگرامز شروع ہوئے ہیں کسی شیعہ کو اپنے مسلکی مسئلے پر سوال پوچھتے سُنا؟؟؟۔۔۔ اگر نہیں سُنا تو اس کی وجہ کیا ہے؟؟؟۔۔۔ مذہب شیعہ میں ولی کی اجازت کے بغیر نکاح جائز ہے یہ اُن کی مستند کتابوں میں رقم ہے اگر کوئی سنی لڑکی یہ اقدام اٹھائے تو اس اقدام پر فتوٰی دینا کس پر فرض آتا ہے اہلسنت والجماعت کے علماء کا نہ کے شیعہ ذاکر کے مگر پاکستان کے اس قانون پر شیعہ برادری کے اختلاف کی وجہ سے عمل درآمد نہیں ہوا۔۔۔ تو جب چار آئمہ سے مسائل کو اخذ کرنے میں رکاوٹ پانچویں جماعت ہوگی تو پھر سوچیں تکفیر کیا خروج کیا ہر قسم کے مسائل جنم لیں گے۔۔۔

ان کی طاقت دیکھنی ہے۔۔۔ فوج، ایئرفورس، نیوی، عدالت، بینک ہر طرف یہ آپ کو نظر آئیں گے۔۔۔ کیونکہ مذہب کے معاملے میں یہ بہت پکے ہیں مگر اچھی طرح جانتے ہیں کے جب تک ہم ان عہدوں پر نہیں پہنچ جاتے اس وقت تک ہم کچھ نہیں کر پائیں۔۔۔ ہے نا کمال حیرت اٹھارہ کروڑ کی آبادی کو چند ہزار افراد نے کیسے غلام بنایا ہوا ہے۔۔۔ ابھی بھی وقت ہے بیدار کا مدرسوں میں ایسی تعلیم کا انعقاد کیا جائے یا ایسے سسٹم کو لاونچ کیا جائے جہاں سے ایک بچہ جو ڈگری یا سرٹیفیکٹ لے کر نکلے وہ عکسری یا سول اور بینکنگ سیکٹرز میں باآسانی ملامت حاصل کرسکے جب ہم یہ تمام ادارے ہمارے ہاتھ میں نہیں ہونگے حالات ایسے ہی رہیں گے بلکہ دن بدن خراب ہوتے جائیں گے۔۔۔ لہذا علماء کرام سب سے پہلے شیعہ عالموں کو پابند کریں کے وہ اہلسنت والجماعت کے مسائل پر اپنے تاثرات سے گریز کریں ورنہ ہمیں بھی اجازت دیں کے ہم ان کے مسائل پر فتاوٰی جاری کیا کریں؟؟؟۔۔۔ اور ساتھ ہی کوشش کریں کے دستور پاکستان کا جو مسودہ تیار تھا جسے سامنے نہیں لایا گیا اس کو نافذ کیا جائے۔۔۔

والسلام علیکم۔
 
شمولیت
اگست 08، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
519
پوائنٹ
57
واضح ہو کہ اسلام کے ہر حکم مین خیر ہی خیر ہے- اگر کسی حکم کی شرائط پوری ہوتی ہون ، اور موانع ختم ہوچکے ہون ، تو کوئ عذر باقی نہین رہتا کہ اس حکم کو عوام سے چھپایا جاے-

خیر اور شر مین شبہ ہوتا ہی اس وقت ہے ، جب خیر کو ، خیر نہ کہا جاے ، اور شر کو شر نہ کہا جاے-

مسئلہ تکفیر کو، مسئلہ خروج کے ساتھ ملانا درست نہین ہے- تکفیر کی شرائط اور ہین ، اور خروج کی اور-

تکفیر کے بعد ، خروج کو لازم قرار دینا ، محل نظر ہے-

حکمرانون اور حکومت ، موجودہ نظام ، ووٹ ، ووٹر ، کی حیثیت متعین کیے بغیر ، اسلامی انقلاب کی امید رکھنا ، زیادہ فائدہ مند نہین ہے -

میرے علم کے مطابق ، دنیا مین کوئ مثال ایسی موجود نہین ہے ، جہان ،جمہوریت کے ذریعے ، اسلامی نظام نافذ کیا گیا ہو-

نبوی طریقہ سے ہٹنا ، ذلت کا سبب ہے - جماعت اسلامی ، ایم ایم اے ،مرکزی جمیعت اہل حدیث اسکی مثال ہین-

مین ، اسی فورم پر ، عنقریب ، مسئلہ تکفیر پر ،اپنی تحریر پیش کرونگا- ان شآءاللہ
 
Top