طاہر اسلام
سینئر رکن
- شمولیت
- مئی 07، 2011
- پیغامات
- 843
- ری ایکشن اسکور
- 732
- پوائنٹ
- 256
بعد از وفات حضرات انبیاے کرام علیھم السلام کی حیات فی القبور کا مسئلہ ارباب دیوبند کے دو گروہوں کے مابین ایک عظیم نزاع کی صورت اختیار کر گیا ہے اور ہردو فریق نقطۂ اعتدال کو چھور کر افراط و تفریط میں جا پڑے ہیں؛ایک(مماتی) نے سرے سے اس زندگی ہی کا انکار کردیا اور اسے سراسر برزخی معاملہ قرار دیتے ہوئے زمینی قبر میں زندگی کے منکر ہو گئے
جب کہ دوسرے (حیاتی) نے غلو سے کام لیتے ہوئے اس زندگی کو حسی اور دنیوی قرار دے دیا ۔
اہل حدیث و سنت کا مسلک ان دونوں انتہاؤں کے مابین معتدل اور متوازن مسلک ہے اور وہ یہ ہے کہ
حدیث صحیح (اسے ضعیف قرار دینا بالکل غلط ہے) الانبیاء احیاء فی قبورھم یصلون کے مطابق انبیا ےکرام علیھم السلام اپنی دنیاوی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں لیکن ان کی یہ زندگی ہرگز دنیوی نہیں بل کہ اس کے مماثل بھی نہیں ؛یہ ایک روحانی اور برزخی حیات ہے جو انھیں اپنی دنیوی قبروں ہی میں حاصل ہے اور اس کی کیفیت ہمارے حیطۂ فہم و ادراک سے باہر ہے۔
دنیوی اعتبار سے انھیں فوت شدہ کہا جا سکتا ہے کیوں کہ انھیں ایسا کہنے کی ممانعت نہیں کی گئی بہ خلاف شہدا کے لیکن دیگر افراد سے ان کا معاملہ بہ ہر حال جدا ہے ؛ دوسروں کے بارے میں یہ نہیں کہا گیا کہ وہ اپنی قبروں میں زندہ ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاؑ کو خاص حیات حاصل ہے جو کہ تمام فوت شدگان کو حاصل نہیں ۔
یہ وضاحت اس لیے ضروری سمجھی گئی کہ بعض اہل حدیث حضرات اس باب میں مماتی حضرات کو درست سمجھتے ہیں حالاں کہ ان کا موقف بالکل غلط ہے اور یہ لوگ نہ تو اس حدیث کو صحیح سمجھتے ہیں اور نہ ہی قبر سے زمینی قبر مراد لیتے ہیں ؛اسی لیے یہ عذاب قبر کے بھی منکر ہیں اور عثمانی گروپ سے ملتا جلتا نظریہ رکھتے ہیں۔
یہ ایک اجمالی بیان ہے جس کی توضیح دوران بحث ہوتی رہے گی؛ان شاء اللہ
جب کہ دوسرے (حیاتی) نے غلو سے کام لیتے ہوئے اس زندگی کو حسی اور دنیوی قرار دے دیا ۔
اہل حدیث و سنت کا مسلک ان دونوں انتہاؤں کے مابین معتدل اور متوازن مسلک ہے اور وہ یہ ہے کہ
حدیث صحیح (اسے ضعیف قرار دینا بالکل غلط ہے) الانبیاء احیاء فی قبورھم یصلون کے مطابق انبیا ےکرام علیھم السلام اپنی دنیاوی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں لیکن ان کی یہ زندگی ہرگز دنیوی نہیں بل کہ اس کے مماثل بھی نہیں ؛یہ ایک روحانی اور برزخی حیات ہے جو انھیں اپنی دنیوی قبروں ہی میں حاصل ہے اور اس کی کیفیت ہمارے حیطۂ فہم و ادراک سے باہر ہے۔
دنیوی اعتبار سے انھیں فوت شدہ کہا جا سکتا ہے کیوں کہ انھیں ایسا کہنے کی ممانعت نہیں کی گئی بہ خلاف شہدا کے لیکن دیگر افراد سے ان کا معاملہ بہ ہر حال جدا ہے ؛ دوسروں کے بارے میں یہ نہیں کہا گیا کہ وہ اپنی قبروں میں زندہ ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاؑ کو خاص حیات حاصل ہے جو کہ تمام فوت شدگان کو حاصل نہیں ۔
یہ وضاحت اس لیے ضروری سمجھی گئی کہ بعض اہل حدیث حضرات اس باب میں مماتی حضرات کو درست سمجھتے ہیں حالاں کہ ان کا موقف بالکل غلط ہے اور یہ لوگ نہ تو اس حدیث کو صحیح سمجھتے ہیں اور نہ ہی قبر سے زمینی قبر مراد لیتے ہیں ؛اسی لیے یہ عذاب قبر کے بھی منکر ہیں اور عثمانی گروپ سے ملتا جلتا نظریہ رکھتے ہیں۔
یہ ایک اجمالی بیان ہے جس کی توضیح دوران بحث ہوتی رہے گی؛ان شاء اللہ