علي بن أبي طالب
3423 - حدثنا الحسن بن علي الخلال حدثنا سليمان بن داود الهاشمي حدثنا عبد الرحمن بن أبي الزناد عن موسى بن عقبة عن عبد الله بن الفضل عن عبد الرحمن الأعرج عن عبيد الله بن أبي رافع عن علي بن أبي طالب : عن رسول الله صلى الله عليه و سلم أنه كان إذا قام إلى الصلاة المكتوبة رفع يديه حذو منكبيه ويصنع ذلك أيضا إذا قضى قراءته وأراد أن يركع ويصنعها إذا رفع رأسه من الركوع ولا يرفع يديه في شيء من صلاته وهو قاعد وإذا قام من سجدتين رفع يديه كذلك
حسن بن علی خلال، سلیمان بن داؤد ہاشمی، عبدالرحمن بن ابی زناد، موسیٰ بن عقبہ، عبداللہ بن فضل، عبدالرحمن اعرج، عبید اللہ بن ابی رافع، حضرت علی بن ابی طالب سے روایت ہے۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب فرض نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے قرات کے اختتام پر رکوع میں جاتے وقت بھی ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی دونوں ہاتھوں کو شانوں تک اٹھاتے لیکن آپ تشہد اور سجدوں کے دوران ہاتھ نہ اٹھاتے (یعنی رفع یدین نہ کرتے) پھر دو رکعتیں پڑھنے کے بعد کھڑے ہوتے تو بھی دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے ۔
الكتاب : الجامع الصحيح سنن الترمذي
المؤلف : محمد بن عيسى أبو عيسى الترمذي السلمي
864 - حدثنا العباس بن عبد العظيم العنبري . حدثنا سليمان بن داود أبو أيوب الهاشمي حدثنا عبد الرحمن بن أبي الزناد عن موسى بن عقبة عن عبد الله بن الفضل عن عبد الرحمن الأعرج عن عبيد الله بن أبي رافع عن علي بن أبي طالب قال
: - كان النبي صلى الله عليه و سلم إذا قام إلى الصلاة المكتوبة كبر ورفع يديه حتى يكونا حذو منكبيه . وإذا أراد أن يركع فعل مثل ذلك . وإذا رفع رأسه من الركوع فعل مثل ذلك . وإذا قام من السجدتين فعل مثل ذلك .
قال الشيخ الألباني : حسن صحيح
عباس بن عبدالعظیم عنبری، سلیمان بن داؤد ابوایوب ہاشمی، عبدالرحمن بن ابی زناد، موسیٰ بن عقبہ، عبداللہ بن فضل، عبدالرحمن اعرج، عبید اللہ بن ابی رافع، حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو ، اللَّهُ أَکْبَرُ ، کہتے اور اپنے کندھوں کے برابر تک ہاتھ اٹھاتے اور جب رکوع میں جانے لگتے تو بھی ایسا ہی کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی ایسا ہی کرتے اور جب دونوں سجدوں سے کھڑے ہوتے تب بھی ایسا ہی کرتے ۔
الكتاب : سنن ابن ماجه
المؤلف : محمد بن يزيد أبو عبدالله القزوين
أبوهريرة
694 - أنا أبو طاهر نا أبو بكر نا أبو زهير عبد المجيد بن إبراهيم المصري نا شعيب - يعني ابن يحيى التجيبي أخبرنا يحيى بن أيوب عن ابن جريج عن ابن شهاب عن أبي بكر بن عبد الرحمن بن الحارث أنه سمع أبا هريرة يقول : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم إذا افتتح الصلاة كبر ثم جعل يديه حذو منكبيه وإذا ركع فعل مثل ذلك وإذا سجد فعل مثل ذلك ولا يفعله حين يرفع رأسه من السجود وإذا قام من الركعتين فعل مثل ذلك
قال الأعظمي : إسناده صحيح إن كان عبد المجيد بن ابراهيم ثقة فإني لم أجد له ترجمة نعم هو صحيح لغيره فقد رواه أبو داود 738 من طريق الليث بن سعد عن يحيى بن أيوب نحوه
، حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب تکبیر تحریمہ کہتے تو دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے اور جب رکوع کرتے تب بھی ایسا ہی کرتے اور جب (رکوع سے فارغ ہو کر) سجدہ کے لیے کھڑے ہوتے تب پھر ایسا ہی کرتے اور جب دو رکعتوں کے بعد کھڑے ہوتے تو بھی ایسا ہی کرتے۔
الكتاب : صحيح ابن خزيمة
المؤلف : محمد بن إسحاق بن خزيمة أبو بكر السلمي النيسابوري
144 - نا محمد بن عصمة ، نا سوار بن عمارة ، نا رديح بن عطية ، عن أبي زرعة بن أبي عبد الجبار بن معج قال رأيت أبا هريرة فقال لأصلين بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم لا أزيد فيها ولا أنقص فأقسم بالله إن كانت هي صلاته حتى فارق الدنيا قال : فقمت عن يمينه لأنظر كيف يصنع ، فابتدأ فكبر ، ورفع يده ، ثم ركع فكبر ورفع يديه ، ثم سجد ، ثم كبر ، ثم سجد وكبر حتى فرغ من صلاته قال : أقسم بالله إن كانت لهي صلاته حتى فارق الدنيا
ابو عبدالجبار سے روایت ہے کی انہوں نے حضرت ابو ہریرہ کو دیکھا انہوں نے کہا کہ میں آپ کو رسول اللہ کی نماز پڑھاوں گا اس میں زیادہ کروں گا نہ کم پس انہوں نے اللہ کی قسم اٹھا کی کہا پس آپ کی یہی نماز تھی حتی کہ آپ اس دنیا سے تشریف لے گئے ، راوی نے کہا میں آپ کے دائیں جانب کھڑا ہوگیا کہ دیکھوں آپکیا کرتے ہیں ، پس انہوں نے نماز کی ابتدا کی اللہ اکبر کہا اور رفع الیدین کیا پھررکوع کیا ،پس تکبیر کہی اور رفع الیدین کیاپھر سجدہ کیا اور اللہ اکبر کہا حتی آپاپنی نماز سے فارغ ہو گئےحضرت ابو ہریرہ نے فرمایا نے اللہ کی قسم آپ کی یہی نماز تھی حتی کہ آپ اس دنیا سے تشریف لے گئے ۔
الكتاب : معجم ابن الأعرابي
أَبِى مُوسَى الأَشْعَرِىِّ
1134 - حَدَّثَنَا دَعْلَجُ بْنُ أَحْمَدَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شِيرَوَيْهِ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ رَاهَوَيْهِ حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنِ الأَزْرَقِ بْنِ قَيْسٍ عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِى مُوسَى الأَشْعَرِىِّ قَالَ هَلْ أُرِيكُمْ صَلاَةَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ لِلرُّكُوعِ ثُمَّ قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ قَالَ هَكَذَافَاصْنَعُوا وَلاَ يَرْفَعُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ.
الكتاب : سنن الدارقطنى
المؤلف : أبو الحسن علي بن عمر بن أحمد بن مهدي بن مسعود بن النعمان بن دينارالبغدادي
عبد الله بن الزبيروأبي بكر الصديق رضي الله عنه
2349 - أخبرنا أبو عبد الله الحافظ ثنا أبو عبد الله محمد بن عبد الله الصفار الزاهد إملاء من أصل كتابه قال قال أبو إسماعيل محمد بن إسماعيل السلمي : صليت خلف أبي النعمان محمد بن الفضل فرفع يديه حين افتتح الصلاة وحين ركع وحين رفع رأسه من الركوع فسألته عن ذلك فقال صليت خلف حماد بن زيد فرفع يديه حين افتتح الصلاة وحين ركع وحين رفع رأسه من الركوع فسألته عن ذلك فقال صليت خلف أيوب السختياني فكان يرفع يديه إذا افتتح الصلاة وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع فسألته فقال رأيت عطاء بن أبي رباح يرفع يديه إذا افتتح الصلاة وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع فسألته فقال صليت خلف عبد الله بن الزبير فكان يرفع يديه إذا افتتح الصلاة وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع فسألته فقال عبد الله بن الزبير صليت خلف أبي بكر الصديق رضي الله عنه فكان يرفع يديه إذا افتتح الصلاة وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع وقال أبو بكر صليت خلف رسول الله صلى الله عليه و سلم فكان يرفع يديه إذا افتتح الصلاة وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع رواته ثقات
الكتاب : سنن البيهقي الكبرى
المؤلف : أحمد بن الحسين بن علي بن موسى أبو بكر البيهقي
جابر بن عبدالله
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی حَدَّثَنَا أَبُو حُذَيْفَةَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ کَانَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ وَإِذَا رَکَعَ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّکُوعِ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِکَ وَيَقُولُ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِکَ وَرَفَعَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ يَدَيْهِ إِلَی أُذُنَيْهِ
محمد بن یحییٰ، ابوحذیفہ، ابراہیم بن طہمان، ابوزبیر، حضرت جابر بن عبداللہ جب نماز شروع کرتے تو رفع یدین کرے اور جب رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی ایسا کرتے اور فرماتے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا اور راوی ابراہیم بن طہمان نے اپنے ہاتھ کانوں تکاٹھائے
سنن ابن ماجہ:جلد اول:حدیث نمبر 868 حدیث متواتر حدیث مرفوع
(93) حدثنا محمد بن طريف أبو بكر الأعين قثنا أبو حذيفة قثنا إبراهيم بن طهمان عن أبي الزبير قال: رأيت جابر عن عبدالله يرفع يديه إذ كبر وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع ولم يرفع بين ذلك، فقلت له: ما هذا ؟ فقال: هكذا رأيت رسول الله صلى الله عليه و سلم يصلي.
الكتاب : مسند السراج
أنس بن مالک
3793 - حدثنا أبو بكر حدثنا عبد الوهاب الثقفي عن حميد : عن أنس قال : رأيت رسول الله صلى الله عليه و سلم يرفع يديه إذا افتتح لصلاة وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع
قال حسين سليم أسد : رجاله رجال الصحيح
الكتاب : مسند أبي يعلى
المؤلف : أحمد بن علي بن المثنى أبو يعلى الموصلي التميمي
الناشر : دار المأمون للتراث – دمشق
پہلے اور بعد محدثین کے ابواب اور ناسخ و منسوخ کے بارے میں غلط فہمی
امام ترمذی نےپہلے رفع یدین کا باب باندھاپھر عددم رفع یدین کا باب باندھا اور حدیث لاءے تو آپ کو شاید محدیثین کا اصول معلوم نہیں کہ محدیثین پہلا باب اس عمل کا لاتے ہیں جو منسوخ ہوچکا ہو اور پھر اس کے بعد اس عمل کا باب لاتے ہیں جو ناسخ ہوتا ہے |
اس ضمن میں یہ
خود ساختہ قاعدہ و قانون بہت زور و شور سے بیان کیا جاتا ہے کہ محدثین نے پہلے منسوخ اور پھر ناسخ روایات نقل کی ہیں!!! اس خود ساختہدعوے کی تردید میں بے شمار دلائل پیش کئے جا سکتے ہیں لیکن یہاں ہم صرف دس حوالوں پر ہی اکتفا کر رہے ہیں جو امید ہے اس غلط فہمی کے ازالے کے لئے کافی و شافی ہوں گے۔
1
امام ابو داؤد نے باب باندھا:
"باب من لم یر الجھر ببسم اللہ الرحمٰن الرحیم" (سنن ابی داؤد ص ۱۲۲ قبل حدیث۷۸۲)
اس کے بعد امام ابو داؤد نے دوسرا باب باندھا:
"باب من جھر بھا" (سنن ابی داؤد ص ۱۲۲ قبل حدیث ۷۸۶)
یعنی امام ابو داؤد نے پہلے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم عدمِ جھر (سراً فی الصلٰوة) والا باب لکھا اور بعد میں بسم اللہ بالجھر والا باب باندھا تو کیا حنفی مقلدین تیار ہیں کہ سراً بسم اللہ کو منسوخ اور جہراً بسم اللہ کو ناسخ قرار دیں؟ اگر نہیں تو پھر ان کا اصول کہاں گیا؟
نوٹ: امام ترمذی نے بھی ترکِ جہر کا پہلے اور جہر کا باب بعد میں باندھا ہےدیکھئے سنن الترمذی ص ۶۸-۶۷ قبل حدیث ۲۴۴-۲۴۵
2
امام ترمذی نے باب باندھا:
"باب ما جاء فی الوتر بثلاث" (سنن الترمذی ص ۱۲۲ قبل حدیث ۴۵۹)
پھر بعد میں یہ باب باندھا:
"باب ما جاء فی الوتر برکعة" (سنن الترمذی قبل حدیث ۴۶۱)
کیا اپنے خود ساختہ قاعدے و قانون کی رو سے تین وتر کو منسوخ اور ایک وتر کو ناسخ سمجھ کر ایک وتر پڑھنے کے قائل و فاعل ہو جائیں گے؟!!!
3
امام ابنِ ماجہ نے پہلے خانہ کعبہ کی طرف پیشاب کرنے کی ممانعت والا باب باندھا:
"باب النھي عن استقبال القبلة بالغائط والبول" (سنن ابن ماجہ ص ۴۸ قبل حدیث۳۱۷)
اور بعد میں یہ باب باندھا:
"باب الرخصة في ذلک فی الکنیف و إباحتھ دون الصحاری" یعنی صحراء کی بجائے بیت الخلاء میں قبلہ رخ ہونے کے جواز کا بیان (سنن ابن ماجہ ص ۴۹ قبل حدیث ۳۲۲)
بتائیں کہ کیا وہ اپنے خود ساختہ اصول کی وجہ سے قبلہ رخ پیشاب کرنے کی ممانعت کو منسوخ سمجھتے ہیں؟
4
امام نسائی نے رکوع میں ذکر (یعنی تسبیحات) کے کئی باب باندھے مثلاً:
"باب الذکر فی الرکوع" (سنن النسائی ص ۱۴۴قبل حدیث ۱۰۴۷)
اور بعد میں یہ باب باندھا:
"باب الرخصة فی ترک الذکر فی الرکوع" (سنن النسائی ص ۱۴۵قبل حدیث ۱۰۴۵)
کیا تقلیدی قاعدے کی رو سے رکوع کی تسبیحات پڑھنا بھی منسوخ ہے؟
5
امام ابن ابی شیبہ نے نماز میں ہاتھ باندھنے کا باب درج زیل الفاظ میں لکھا:
"وضع الیمین علی الشمال" (مصنف ابن ابی شیبہ ۳۹۰/۱ قبل حدیث ۳۹۳۳)
اور بعد میں یہ باب باندھا:
"من کان یرسل یدیھ فی الصلٰوة" (مصنف ابن ابی شیبہ جلد ۱ ص۳۹۱ قبل حدیث۳۹۴۹)
کیا اپنے تقلیدی اصول کی رو سے ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے کے لئے تیار ہیں؟
6
امام نسائی نے پہلے نمازِ عصر کے بعد نوافل پڑھنے کی ممانعت والا باب باندھا:
"النھی عن الصلاة بعد العصر" (سنن النسائی ص ۷۸ قبل حدیث ۵۶۷)
اور بعد میں یہ باب باندھا:
"الرخصة فی الصلاة بعد العصر" (سنن النسائی ص ۷۹ قبل حدیث ۵۷۴)
کیا تقلیدی قاعدے کی رو سے عصر کے بعد نوافل کی ممانعت والی حدیث منسوخ ہے؟
7
امام ابو داؤد نے تین تین دفعہ اعضائے وضو دھونے کا باب باندھا:
"باب الوضوء ثلاثاً ثلاثاً" (سنن ابی داؤد ص ۲۹ قبل حدیث ۱۳۵)
اور بعد میں ایک دفعہ اعضائے وضو دھونے کا باب باندھا:
"باب الوضوء مرة مرة" (سنن ابی داؤد ص ۳۰ قبل حدیث ۱۳۸)
کیا وضو میں تین تین دفعہ اعضاء دھونا منسوخ ہے؟ اگر نہیں تو تقلیدی قاعدہ کہاں گیا؟
8
امام نسائی نے سجدوں کی دعا کے کئی باب باندھے مثلاً:
"عدد التسبیح فی السجود" (سنن النسائی ص ۱۵۷ قبل حدیث ۱۱۳۶)
اور بعد میں یہ باب باندھا:
"باب الرخصة فی ترک الذکر فی السجود" (سنن النسائی ص ۱۵۷ قبل حدیث۱۳۷)
کیا تقلیدی قاعدے کی رو سے سجدے کی تسبیحات بھی منسوخ ہیں؟
9
امام ابن ابی شیبہ نے " من قال: لاجمعة ولا تشریق الا في مصر جامع" کا باب باندھ کر وہ روایات پیش کیں جن سے بعض لوگ یہ استدلال کرتے ہیں کہ گاؤں میں جمعہ نہیں پڑھنا چاہئے دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ ۱۰۲/۲ قبل حدیث ۵۰۵۹
اور بعد میں یہ باب باندھا:
"من کان یری الجمعة فی القری وغیرھا" یعنی جو شخص گاؤں وغیرہ میں جمعہ کا قائل ہے پھر وہ صحیح روایات پیش کیں جن سے گاؤں میں نماز جمعہ پڑھنے کاثبوت ملتا ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ جلد ۲ ص ۱۰۱-۱۰۲ قبل حدیث ۵۰۶۸)
کیا اپنے نرالے قاعدے کی لاج رکھتے ہوئے گاؤں میں نماز جمعہ کی مخالف تمام روایات کو منسوخ سمجھتے ہیں؟
10
امام ابن ابی شیبہ نے نماز جنازہ میں چار تکبیروں کا باب باندھا:
"ما قالوا فی التکبیر علی الجنازة من کبّر أربعاً" (مصنف ابن ابی شیبہ ۲۹۹/۳ قبل حدیث ۱۱۴۱۶)
اور اس کے فوراً بعد پانچ تکبیروں کا باب باندھا:
"من کان یکّبر علی الجنازة خمساً" (مصنف ابن ابی شیبہ ۳۰۲/۳ قبل حدیث۱۱۴۴۷)
کیا کسی میں جرات ہے کہ وہ اپنے تقلیدی قاعدے کی لاج رکھتے ہوئے جنازے کی چار تکبیروں کو منسوخ اور پانچ کو ناسخ کہہ دے؟
امام ابوحنیفہ کا مقام امام عبداللہ بن مبارک کے نزدیک اور آل دیوبند کی نا انصافی
مسئلہ رفع الیدین
پر
امام عبداللہ بن المبارک
کی
امام ابوحنیفہ
سے گفتگو !
ایک بار مسجد کوفہ میں امام ابن المبارک رحمہ اللہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے ۔ ابن المبارک رحمہ اللہ رفع الیدین کرتے تھے ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے نماز سے فارغ ہو کر ابن المبارک رحمہ اللہ سے کہا
ترفع یدیک فی کل تکبیرۃ کانک ترید ان تطیر
” آپ نماز کی ہر تکبیر ( اس میں تسمیع بھی شامل ہے یعنی رکوع سے اٹھتے وقت ) میں رفع الیدین کرتے ہیں گویا اڑنا اور پرواز کرنا چاہتے ہیں ۔ “
امام ابن المبارک رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے جواب میں کہا :
ان کنت انت تطیر فی الاولیٰ فانی اطیر فیما سواھا
اگر آپ تحریمہ کے وقت رفع الیدین کرتے ہوئے ارادہ پرواز و اڑان رکھتے ہوں تو میں آپ ہی کی طرح باقی مواقع میں نماز میں پرواز کرنا چاہتا ہوں ۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ امام ابن المبارک رحمہ اللہ کے اس جواب سے اس طرح کی بات رفع الیدین کی بابت کہنے سے ہمیشہ کے لیے خاموش رہے ۔ امام وکیع نے امام ابن المبارک رحمہ اللہ کے اس جواب کی بڑی تحسین و تعریف کی ۔
کتاب السنۃ لعبداللہ بن احمد بن حنبل ، ص : 59 ، تاویل مختلف الحدیث لابن قتیبی ، ص : 66 ، سنن بیہقی ، ج : 2 ، ص :82 ، ثقات ابن حبان ، ج : 4 ، ص : 17، تاریخ خطیب ، ج : 13 ، ص :406 ، تمھید لابن عبدالبرج :5 ، ص :66 ، جزءرفع الیدین للبخاری مع جلاءص : 125,123
اس واقعے سے امام ابو حنیفہ کا مقام ابن مبارک کے نزدیک کیا ہے باکل واضح ہو جاتا ہے
جس طرح ابن المبارک رحمہ اللہ کی طرف سے مسکت جواب پا کر امام ابوحنیفہ اس معاملہ میں خاموش و ساکت رہ گئے اسی طرح ان کی تقلید میں امام ابوحنیفہ کا دم بھرنے والوں کو بھی خاموش رہنا چاہئیے ۔ مگر مدعیان تقلید ابی حنیفہ اپنے دعوی تقلید ابی حنیفہ رحمہ اللہ میں سچے نہیں ہیں ۔ اسی بنا پر وہ آئے دن اس سنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کتابیں لکھتے رہتے ہیں اور اس سنت نبویہ کے خلاف شدید جارحیت
اختیار کرتے ہیں ۔
اور اصل حقیقت یہ ہے اس کو کیوں بھول جاتے ہیں
کہ امام بن مبارک کے نزدک امام ابوحنیفہ ضعیف تھے !!
امام عبداللہ بن مبارک کا ابوحنیفہ پر تبصرہ
امام صاحب کے شاگرد رشید امام عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں کان ابو احنیفۃ یتیما فیا الحدیث کہ امام ابو حنیفہ حدیث میں یتیم ہیں (قیام اللیل ص١٢٣ ،بغدادی ص٤١٥ج١٣،الضعفائ لابن حبان ص٧١ج٣)وغیرہ بعض حضرات نے تفنن طبع کا ثبوت دیتے ہوئے ’’یتیمکے معنی یکتا زمانہ ‘‘کے کئے ہیں مگر کیا کیا جائے جب کہ اب کے یہ الفاظ بھی ہیں کان ابوحنیفٰۃ مسکینا فی الحدیث (الجرح والتعدیال ص٤٥٠ج٤،ق١ )کہ وہ حدیث میں مسکین تھے ۔
امام ابن حبان بسند متصل نقل کیا ہے کہ ابراہیم بن شماس فرماتے ہیں میں نے امام ابن مبارک کو ثغر کے مقام میں دیکھا کہ وہ کتاب لوگوں پر پڑھ رہے تھے جبامام ابوحنیفہ کا ذکر آتا تو فرماتے اضربو ا علیہ ۔اس پر نشان لگا لو ۔اور یہ آخری کتاب تھی جوانھوں نے لوگوں کو سنائی تھی (الثقات ترجمہ ابراہیم بن شماس )السنۃ لابن احمد میں ہے کی یہ واقعہ امام ابن مبارک کی وفات سے بضعۃ عشر تیرہ چودہ دن پہلے کا ہے ۔ابراہیم بن شماس ثقہ ہے (تقریب ص٢٢)اور ابن حبان نے اب سے یہ روایت بواسطہ عمر بن محمد الجبیری یقول سمعت محمد بن سھل بن عسکر بیان کی ھے ۔اور محمد بن سھل بن ثقہ امام ھے۔ اور عمر بن محمدالجبیری حافظ حدیث اور ثقہ امام ھیں (تزٖکرہ ص؛٧١٩) ۔اور یہ قول ابراھیم سے مختلف اسانید کے ساتھ تاریخ بغداد ص٤١٤ج١٣ اور المجروحین لابن حبان (ص٧١ج٣)السنۃ لعبداللہ بن احمد (ص٢١١،٢١٤ج١)،العلل و معرفۃ الرجال(ج٢ص٢٤٢)میں بھی دیکھا جا سکتا ہے
امام عبداللہ بن مبارک مزید فرماتے ہیں کہ میں نے امام ابو حنیفہ سے چار سو حدیثیں نقل کی ہیں ۔جب میں واپس عرق جاوں گا توانھیں مسخ کر دوں گا ۔(بغدادی ص٤١٤ج١٣)
اور امام ابن عبدالبر بسند متصل معلی بن اسد سے نقل کرتے ہیں
قلت لابن المبارک کان الناس یقولون انک تذہبن الی قول ابی حنیفٰۃ قال لیس کل ما یقول الناس یصیبونم فیہ قد کنا ناتیہ زمانا و نحن لا نعرفہ فلما عرفناہ ترکناہ ۔
(الانتقاء ص١٥١)
یعنی میں نے ابن مبارک سے کہا لوگ کہتے ہیں کہ تم ابو حنیفہ کے قول کی اقتدا کرتے ہو تو انھوں نے جواب دیا لوگوں کی ہر بات صحیح نہیں ہوتی ۔ہم ایک زمانہ تک ان کے پاس جاتے تھے مگر انھین پہچانتے نہ تھے لیکن جب ہمیں معلوم ہو گیا تو انھیں چھوڑ دیا ۔
امام ابن ابی حاتم غالبا انھیں اقوال کی روشنی میں لکھتے ہیں :ترکہ ابن امبارک بآخرہ ۔کہ ابن مبارک نے بالآخر انھی÷ں چھوڑ دیا تھا۔
علمائے احناف امام ابوحنیفہ کی تعریف میں امام ابن مبارک کا نام بڑے اچھوتے انداز میں کرتے ہیں اور ان کے غیر مستند قصائد اور اقوال شہ سرخیوں سے ذکر کرتے ہیں ۔حالانکہ مندرجہ بالا اقوال ان کے یکسر منافی ہیں ۔اگر ان اقوال کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو ان میں تطبیق کی صورت بالکل ظاہر ہے کہ آخری عمر میں امام ابن مبارک کی ابو حنیفہ سے عقیدت کافور ہو چکی تھی ۔جیسا کہ امام ابی حاتم نے کہا ہے بلکہ امام ابن مبارک کے شاگرد رشید ابراہیم بن شماس کے الفاظ بھی یہی ہیں کہ:ّّترکہ ابن المبارک فی آخر امری ٗٗ(المجروحین لابن حبان ص٧١ج٣ )
بحوالہ توضیح الکالام لشیخنا محدث العصر ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ ص:933۔
قاضی عیاض لکھتے ہیں کہ امام شیرازی کہتے ہیں
امام ابن مبارک نے امام مالک اور ثوری سے فقہ حاصل کی
اور ابتدائ وہ امام ابو حنیفہ کے اصحاب میں سے تھے
پھرانھیں چھوڑ دیا اور ان کے مذہب سے رجوع کر لیا ۔ابن وضآع کہتے ہیں
کہ انھوں
اپنی کتابوں میں
امام ابو حنیفہ کی روایات کو قلم زد کر دیا تھا اور انھیں لوگوں کو نہیں سناتےتھے
(ترتیب المدارک ص300ج1)
پیران پیر شیخ عبدالقادر جیلانی رحم اللہ علیہ کا ایک سوال پر جواب
رفع الیدین کیا ہے؟ کیونکر کی جاتی ہے اور کہاں کہاں کی جاتی ہے۔ اس کے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب:
رفع الیدین عند الافتتاح والرکوع والرفع منہ وھو ان یکون کفاہ مع منکبیہ
( غنیة الطالبین صفحہ11 )
رفع الیدین دونوں ہاتھوں کے بلند کرنے کو کہتے ہیں۔ نماز میں اس سے مراد دونوں ہاتھوں کا کندھوں کے برابر تک بلند کرنا ہے۔
پس اس غرض سے پہلی بات نماز کے لیے کھڑے ہو کر تکبیر تحریمہ کے ساتھ ہی کندھوں تک دونوں ہاتھ بلند کےے جائیں۔ پھر رکوع کے لیے جھکنے سے پہلے اور پھر رکوع سے اٹھتے ہوئے یہی عمل دہرایا جائے۔
جلسہ بین السجدتین
جلسہ بین السجدتین
( دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا )