• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسئلہ رفع یدین صحیح احادیث کی روشنی میں

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436



رکوع میں جاتے ہوئے اور رکوع سے کھڑا ہوتے وقت ہاتھوں کو کندھوں یا کانوں تک اٹھانا سنت ہے۔ اسے رفع الیدین کہتے ہیں۔ اس کا ثبوت بکثرت اور تواتر کی حد کو پہنچی ہوئی احادیث سے ملتا ہے جنہیں صحابہ کی ایک بڑی جماعت نے روایت کیا ہے۔ ہم پہلے اس بارے میں صحیح احادیث بیان کرتے ہیں، اس کے بعد فقہاء کے اختلاف کا سبب اور دوسرے ضروری امور کیوضاحت شامل کی
جائے گی ان شاء اللہ۔


پہلی حدیث:

عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَمَنْكِبَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ رَفَعَهُمَا كَذَلِكَ أَيْضًا
صحیح البخاری کتاب الاذان باب رفع الیدین فی التکبیرۃ الاولی مع الافتتاح سواء،


عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نماز شروع کرتے وقت اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک بلند کیا کرتے تھے، اور جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تب بھی انہیں اسی طرح اٹھاتے تھے"

دوسری حدیث:

عَنْ أَبِي قِلَابَةَ أَنَّهُ رَأَى مَالِكَ بْنَ الْحُوَيْرِثِ إِذَا صَلَّى كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ رَفَعَ يَدَيْهِ وَحَدَّثَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَنَعَ هَكَذَا

صحیح البخاری کتاب الاذان باب رفع الیدین اذا کبر و اذا رکع و اذا رفع، صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب استحباب رفع الیدین حذو المنکبین مع تکبیرۃ الاحرام

ابو قلابہ کہتے ہیں کہ میں نے مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے نماز پڑھتے وقت تکبیر کہی اور ہاتھ اٹھائے، پھر رکوع کرتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت بھی ہاتھ اٹھائے اور بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے بھی (نماز میں) ایسا ہی کیا تھا"۔

تیسری حدیث:

وَائِلِ بْنِ حُجْرٍأَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ كَبَّرَ وَصَفَ هَمَّامٌ حِيَالَ أُذُنَيْهِ ثُمَّ الْتَحَفَ بِثَوْبِهِ ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ أَخْرَجَ يَدَيْهِ مِنْ الثَّوْبِ ثُمَّ رَفَعَهُمَا ثُمَّ كَبَّرَ فَرَكَعَ
فَلَمَّا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَفَعَيَدَيْهِ

صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب وضع یدہ الیمنٰی علی الیسرٰی بعد تکبیرۃ الاحرام

“وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو دیکھا کہ انہوں نے نماز شروع کرتے وقت ہاتھ اٹھائے اور تکبیر کہی، ۔ ۔ ۔ ۔پھر رکوع کرنے کا ارادہ کیا تو اپنے ہاتھ چادر سے نکالے اور انہیں بلند کیا اور تکبیر کہی اور رکوع کیا، پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہتے وقت بھی دونوں ہاتھ اٹھائے"۔

چوتھی حدیث:

ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ نے دس صحابہ کے سامنے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم رکوع میں جاتے اور کھڑے ہوتے وقت رفع الیدین کرتے تھے اور ان سب نے اس بات کی تصدیق کی۔


سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب افتتاح الصلاۃ، صحیح و ضعیف سنن ابی داؤد حدیث نمبر 730

پانچویں حدیث:

عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ وَيَصْنَعُ مِثْلَ ذَلِكَ إِذَا قَضَى قِرَاءَتَهُ وَأَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ وَيَصْنَعُهُ إِذَا رَفَعَ مِنْ الرُّكُوعِ

سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب من ذکر انہ یرفع یدیہ اذا قام من الثنتین، صحیح و ضعیف سنن ابی داؤد حدیث نمبر 744

“علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم جب فرض نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے اور اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک بلند کرتے، اور جب قراءت سے فارغ ہو کر رکوع کرنے کا ارادہ کرتے تب اور رکوع سے اٹھتے وقت بھی اسی طرح ہاتھ اٹھاتے تھے"

چھٹی حدیث:

عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ وَإِذَا رَكَعَ

سنن ابن ماجہ اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب رفع الیدین اذا رکع و اذا رفع راسہ من الرکوع، صحیح و ضعیف سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 866

انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نمازشروع کرتے وقت اور رکوع میں جاتے وقت ہاتھ اٹھایا کرتے تھے"۔

ساتویں حدیث:

عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ كَانَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ وَإِذَا رَكَعَ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ وَيَقُولُ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ

سنن ابن ماجہ اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب رفع الیدین اذا رکع و اذا رفع راسہ من الرکوع، صحیح و ضعیف سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 868

“جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نماز شروع کرتے وقت، رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھاتے تھے اور کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے"۔

 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436

آٹھویں حدیث:

عَنْ أَبِى مُوسَى الأَشْعَرِىِّ قَالَ هَلْ أُرِيكُمْ صَلاَةَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَكَبَّرَوَرَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ لِلرُّكُوعِ ثُمَّ قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ قَالَ هَكَذَا فَاصْنَعُوا وَلاَ يَرْفَعُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ.

سنن الدار قطنی کتاب الصلاۃ باب ذکر التکبیر و رفع الیدین عند الافتتاح و الرکوع، اصل صفۃ صلاۃ جلد 2 ص 609

“ابو موسٰی الاشعری رضی اللہ عنہ نے (ایک دن) کہا "کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی نماز (جیسی نماز پڑھ کر) نہ دکھاؤں؟ پھر انہوں نے تکبیر کہی اور ہاتھ اٹھائے، پھر رکوع میں جاتے وقت ہاتھ اٹھائے، پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہا اور ہاتھ اٹھائے۔ پھر کہنے لگے "تم بھی اسی طرح کیا کرو"۔ اور دو سجدوں کےد رمیان انہوں نے ہاتھ نہیں اٹھائے تھے"۔


نویں حدیث:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ حِينَ يُكَبِّرُوَيَفْتَتِحُ الصَّلَاةَ وَحِينَ يَرْكَعُ وَحِينَ يَسْجُدُ

مسند احمد مسند المکثرین من الصحابہ مسند عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، اصل صفۃ صلاۃ جلد 1 ص 193

ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نماز شروع کرتے وقت جب تکبیر کہتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے اور رکوع اور سجدے میں بھی ایسا کرتے"

دسویں حدیث:

عن أبي بكر الصديق رضي الله عنه قال :صليت خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم فكان يرفع يديه إذا افتتح الصلوة وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع

السنن الکبریٰ للبیہقی جلد 2 ص 73۔ اصل صفۃ صلاۃ جلد 2 ص 610

ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی، وہ نماز شروع کرتے وقت، رکوع کرتے وقت، اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھایا کرتےتھے"

یہ دس احادیث دس مختلف صحابہ نے روایت کی ہیں۔ ان میں دس ان صحابہ کو شامل کر لیا جائے جن کا ذکر ابو حمید رضی اللہ عنہ والی حدیث میں ہے تو ان کی تعداد بیس ہو جاتی ہے۔پورے ذخیرہ احادیث میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ایک روایت کےسوا کوئی ایسی چیز صحیح سند کے ساتھ موجود نہیں ہے جو ان احادیث کے مخالف ہو۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک دن اپنے ساتھیوں سے فرمایا:

"
کیا میں تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی نماز (جیسی نماز) نہ پڑھوں؟"
پھر انہوں نے نماز پڑھی اور پہلی دفعہ (تکبیر تحریمہ کہنے) کے بعدپھر (باقی نماز میں) ہاتھ نہیں اٹھائے
"

اس حدیث کو امام احمد، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، طحاوی، بیہقی اور ابن حزم نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی اسے حسن اور امام ابن حزم صحیح کہتے ہیں جبکہ کچھ دوسرے محدثین عبداللہ بن مبارک، دار قطنی اور امام ابن حبان و غیرھم نے اسے ضعیف کہا ہے لیکن درست بات یہی ہے کہ سند کے اعتبار سے اس میں کوئی طعن نہیں ہے۔ اس کے تمام راوی صحیح مسلم کے راوی ہیں اور یہ روایت صحیح اور ثابت ہے۔

فقہاء کے درمیان اس مسئلے میں اصل اختلاف یہ واقع ہوا ہے کہ رفع الیدین اور ترک رفع الیدین میں افضل اور سنت کے قریب تر کون سا عمل ہے۔
امام شافعیاور امام احمد بن حنبل رحمہا اللہ رفع الیدین کرنے کے قائل ہیں کیونکہ صحابہ کرام کی کثیر تعداد نے مختلف مواقع اور مختلف اوقات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے رفع الیدین کرنا بیان کیا ہےجس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم عمومًا اپنی نمازیں رفع الیدین کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ ابن عساکر کے بیان کے مطابق امام مالک بن انس رحمۃ اللہ علیہ نے بھی آخر میں رفع الیدین کرنے کو اختیار کر لیا تھا۔ جبکہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے اصحاب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ والی حدیث کو دلیل بناتے ہوئے رفع الیدین نہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔


یہ وہ بنیادی سبب ہے جس کی وجہ سے ان ائمہ کے متبعین اور مقلدین کے درمیان طویل نزاع برپا ہوا ہے۔ دونوں طرف سےاپنے امام اور مسلک کے حق میں دلائل پیش کیے جاتے رہے ہیں۔بنظر انصاف دیکھا جائے تو ائمہ ثلاثہ کا موقف قوی تر معلوم ہوتا ہے کیونکہ رفع الیدین تواتر کی حد کو پہنچی ہوئی احادیث سے ثابت ہے جس کا انکار جاہل یا متعصب آدمی ہی کر سکتا ہے چنانچہ احناف میں بھی ایسے علماء موجود رہے ہیں جو رکوع میں جاتے اور کھڑے ہوتے وقت رفع الیدین کیا کرتے تھے۔ ان میں سب سےمشہور نام عصام بن یوسف رحمہ اللہ کا ہے جو امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد تھے۔ البتہ متاخرین احناف کی جانب سے ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ رفع الیدین کا حکم منسوخ ہو چکا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا آخری عمل ترک رفع الیدین کا تھا لہٰذا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ والی حدیث باقی تمام صحابہ کی روایات کو منسوخ کر دیتی ہے۔ اہل علم جانتے ہیں کہ یہ بات بالکل غلط ہے۔ تمام مسالک کے علماء کے ہاں طے شدہ اصول ہے کہ دو متعارض احادیث میں تطبیق ممکن ہو تو ان میں سے کوئی بھی ناسخ یا منسوخ نہیں ہوتی۔ رفع الیدین اور ترک رفع الیدین والی احادیث میں تطبیق یوں دی جا سکتی ہے کہ ممکن ہے دونوں باتیں ٹھیک ہوں، لیکن نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا عام معمول رفع الیدین کرنے کا معلومہوتا ہے کیونکہ اسے بیان کرنے والے بیسیوں صحابہ ہیں جبکہ نہ کرنے کی روایت صرف عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔

دوم:

علماء
و فقہاء کا اصول ہے کہ اثبات نفی پر مقدم ہوتا ہے۔ یعنی اگر دو راویوں میں سے ایک کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے یہ کام کیا اور دوسرا کہے کہ نہیں کیا تو اس راوی کی بات پر عمل کیا جائے گا جس نے کام کرنے کا ذکر کیا ، کیونکہ عین ممکن ہے کہ جب وہ کام سر انجام دیا گیا تو دوسرا شخص وہاں موجود نہ ہو اور عدم اطلاع کی بنا پر نہ کرنے کو ٹھیک سمجھ بیٹھا ہو ۔

امام بخاری نے جزء
رفع الیدین میں تفصیل کے ساتھ اس اصول کی وضاحت کی ہے۔ صحابہ کے اقوال کا معاملہ بھی اس سے ملتا جلتا ہے یعنی صحابہ کی ایک بڑی جماعت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے رفع الیدین کرنا بیان کیا ہے تو ان کا قول نہ کرنے والی روایت پر مقدم ہو گا۔

نسخ کا دعویٰ اس لیے بھی درست نہیں ہے کہ بعض خلفائے راشدین سمیت صحابہ کی کثیر تعداد سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی وفات کے بعد بھی رفع الیدین کرنا ثابت ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جو عبادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم دن میں پانچ مرتبہ سب کے سامنے ادا فرماتے تھے اس میں کوئی عمل منسوخ ہو جائے اور ایک صحابی کے سوا کسی دوسرے کو اس
بات کا علم بھی نہ ہو سکے؟

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب دیکھتے کہ کوئی شخص رکوع میں جاتے اور اٹھتے ہوئے رفع الیدین نہیں کرتا تو کنکریاں مار کر اسے متوجہ کرتے تھے۔

ابو الحسن سندھی حنفی رحمہ اللہ سنن ابن ماجہ کی شرح میں لکھتے ہیں:

جن لوگوں نے رفع الیدین کا منسوخ ہونا بیان کیا ہے ان کا قول بلا دلیل ہے۔ اگر نسخ کا واقع ہونا تسلیم بھی کر لیا جائے تو وہ اس کے برعکس ہے جو وہ کہتے ہیں۔ کیونکہ مالک بن حویرث اور وائل بن حجر رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ساتھ عمر مبارک کے آخری دنوں میں نماز پڑھی تھی اور یہ دونوں صحابی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے نماز میں رفع الیدین کیا تھا۔ پس ان کی روایتوں سے آخر تک رفع الیدین کرنے اور نسخ کے قول کے غلط ہونے کی دلیل ملتی ہے۔۔۔ ۔ ۔۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ رفع الیدین کرنا اور نہ کرنا دونوں صحیح روایات سے ثابت ہے لیکن کرنے کی روایات زیادہ اور قوی تر ہیں"

علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ (دار العلوم دیوبند) نے بھی "فیض الباری" میں رفع الیدین منسوخ ہونے کے قول کو غلط قرار دیا ہے۔

لہٰذا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کی وجہ سے باقی تمام صحیحاحادیث کو منسوخ کہہ دینا دلائل سے ثابت نہیں ہوتا۔ البتہ اس سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ رفع الیدین کرنا فرض نہیں سنت ہے۔ امام ابن حزم کہتے ہیں:

“اگر یہ حدیث موجود نہ ہوتی تو جھکتے (یعنی رکوع میں جاتے) وقت اور اٹھتے (یعنی رکوع سے کھڑے ہوتے) وقت رفع الیدین کرنا ہر نمازی پر فرض قرار پاتا، لیکن ابن مسعود رضی اللہ عنہ والی حدیث کیونکہ صحیح ہے اس لیے معلوم ہوا کہ تکبیر تحریمہ کے علاوہ باقی مواقع پر رفع الیدین کرنا فرض نہیں بلکہ سنت اور مستحب ہے"


عبد الله بن عمر

736- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ قَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ أَخْبَرَنَا يُونُسُ عَنِ الزُّهْرِىِّ أَخْبَرَنِى سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رضى الله عنهما قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ - صلى اللهعليه وسلم - إِذَا قَامَ فِى الصَّلاَةِ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يَكُونَا حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ ، وَكَانَ يَفْعَلُ ذَلِكَ حِينَ يُكَبِّرُ لِلرُّكُوعِ ، وَيَفْعَلُ ذَلِكَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ وَيَقُولُ « سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ » . وَلاَ يَفْعَلُ ذَلِكَ فِى السُّجُودِ . أطرافه 735 ، 738 ، 739 - تحفة 6979 - 188/1

محمد بن مقاتل، عبداللہ بن مبارک، یونس، زہری، سالم بن عبداللہ ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ نماز میں اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں شانوں کے برابر تک اٹھاتے اور جب آپ رکوع کے لئے تکبیر کہتے یہی (اس وقت بھی) کرتے اور یہی جب آپ رکوع سے اپنا سر اٹھاتے اس وقت بھی کرتے اور سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہتے (لیکن) سجدہ میں آپ یہ عمل نہ کرتے تھے۔

الكتاب : صحيح البخارى

المؤلف : محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري، أبو عبد الله

887 - حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِىُّ وَسَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِى شَيْبَةَ وَعَمْرٌو النَّاقِدُ وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَابْنُ نُمَيْرٍ كُلُّهُمْ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ - وَاللَّفْظُ لِيَحْيَى قَالَ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ - عَنِ الزُّهْرِىِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاَةَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِىَ مَنْكِبَيْهِ وَقَبْلَ أَنْ يَرْكَعَ وَإِذَا رَفَعَ مِنَالرُّكُوعِ وَلاَ يَرْفَعُهُمَا بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ.

یحیی بن یحیی تیمیی، سعید بن منصور، ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، زہیر بن حرب، ابن نمیر، سفیان بن عیینہ، زہری سالم، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا جب نماز شروع کرتے تو اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے اور رکوع کرنے سے پہلے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اور اپنے دونوں ہاتھوں کو بلند نہ کرتے تھے دونوں سجدوں کے درمیان۔

الكتاب : صحيح مسلم
المؤلف : مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشيري النيسابوري

722 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى الْحِمْصِىُّ حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ حَدَّثَنَا الزُّبَيْدِىُّ عَنِ الزُّهْرِىِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلاَةِرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى تَكُونَا حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ ثُمَّ كَبَّرَ وَهُمَا كَذَلِكَ فَيَرْكَعُ ثُمَّ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْفَعَ صُلْبَهُ رَفَعَهُمَا حَتَّى تَكُونَا حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ ثُمَّ قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ وَلاَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِى السُّجُودِ وَيَرْفَعُهُمَا فِى كُلِّ تَكْبِيرَةٍ يُكَبِّرُهَا قَبْلَ الرُّكُوعِ حَتَّى تَنْقَضِىَ صَلاَتُهُ.

محمد بن مصفی، سالم، حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے پھر ہاتھ اٹھاتے ہوئے رکوع کی تکبیر کہتے اس کے بعد رکوع کرتے جب رکوع سے سر اٹھاتے تو پھر دونوں ہاتھوں کو مونڈھوں تک اٹھاتے اور سَمِعَ اللہ لِمَن حَمِدَہ۔ کہتے مگر سجدوں میں ہاتھ نہیں اٹھاتے بلکہ ہر رکعت میں رکوع میں جانے کے لیے جب تکبیر کہتے تب دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز پوری ہو جاتی۔

الكتاب : سنن أبى داود
المؤلف : سليمان بن الأشعث بن شداد بن عمرو، الأزدي أبو داود، السجستاني

163 - حَدَّثَنِى يَحْيَى عَنْ مَالِكٍ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- كَانَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاَةَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَهُمَا كَذَلِكَ أَيْضًا وَقَالَ « سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ ». وَكَانَ لاَ يَفْعَلُ ذَلِكَ فِى السُّجُودِ.

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب شروع کرتے تھے نماز کو اٹھاتے تھے دونوں ہاتھ برابر دونوں مونڈھوں کے اور جب سر اٹھاتے تھے رکوع سے تب بھی دونوں ہاتھوں کو اسی طرح اٹھاتے اور کہتے سمع اللہ لمن حمدہ ربنا ولک الحمد اور سجدوں کے بیچ میں ہاتھ نہ اٹھاتے نہ سجدے کو جاتے وقت ۔

الكتاب : موطأ مالك
المؤلف : مالك بن أنس ابن مالك بن عامر الأصبحي المدني، إمام دار الهجر
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436

2519 - عبد الرزاق عن عبد الله بن عمر عن بن شهاب عن سالم قال كان بن عمر إذا قام إلى الصلاة رفع يديه حتى يكونا حذو منكبيه وإذا ركع رفعهما فإذا رفع رأسه من الركعة رفعهما وإذا قام من مثنى رفعهما ولا يفعل ذلك في السجود قال ثم يخبرهم أن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان يفعله

عبد اللہ بن عمر جب شروع کرتے تھے نماز کو اٹھاتے تھے دونوں ہاتھ برابر دونوں مونڈھوں کے اور جب سر اٹھاتے تھے رکوع سے اور جب دوسری رکعتسے اٹھتے تب بھی دونوں ہاتھوں کو اسی طرح اٹھاتے اور سالم فرماتے ہیں کے عبد اللہ بن عمر فرمایا کرتے تھے کے نبی مکرم بھی اسی طرح رفع یدین
کرتے
تھے۔

الكتاب : مصنف عبد الرزاق
المؤلف : أبو بكر عبد الرزاق بن همام الصنعاني

مَالِكَ بْنَ الْحُوَيْرِثِ


737 - حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الْوَاسِطِىُّ قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ خَالِدٍ عَنْ أَبِى قِلاَبَةَ أَنَّهُرَأَى مَالِكَ بْنَ الْحُوَيْرِثِ إِذَا صَلَّى كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ ، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَ يَدَيْهِ ، وَحَدَّثَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - صَنَعَ هَكَذَا

اسحاق، واسطی، خالد بن عبداللہ خالد (حذاء) ابوقلابہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے مالک بن حویرث کو دیکھا کہ جب وہ نماز شروع کرتے تو تکبیر کہتے وقت اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے ، اور جب رکوع کرنا چاہتے تو بھی اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے ، اور مالک بن حویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس طرح کیا تھا۔

الكتاب : صحيح البخارى
المؤلف : محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري، أبو عبد الله


888 - أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدٌ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ قَالَ سَمِعْتُ نَصْرَ بْنَ عَاصِمٍ عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِىِّ -صلى الله عليهوسلم- أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- كَانَ إِذَا صَلَّى رَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ يُكَبِّرُ حِيَالَ أُذُنَيْهِ وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ.

محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبہ، قتادہ، نصر بن عاصم، مالک بن الحویرث سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس وقت تکبیر پڑھتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس وقت رکوع فرماتے تو دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاتے تھے۔ اس طریقہ سے جس وقت رکوع سے سر اٹھاتے تو اس طرح کرتے۔

الكتاب : سنن النَسائي
المؤلف : أبو عبد الرحمن أحمد بن شعيب بن علي الخراساني، النسائي

وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ

923 - حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ حَدَّثَنِى عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ وَائِلٍ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ وَمَوْلًى لَهُمْ أَنَّهُمَا حَدَّثَاهُ عَنْ أَبِيهِ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ أَنَّهُ رَأَى النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- رَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ دَخَلَ فِى الصَّلاَةِ كَبَّرَ - وَصَفَ هَمَّامٌ حِيَالَ أُذُنَيْهِ - ثُمَّ الْتَحَفَ بِثَوْبِهِ ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ أَخْرَجَيَدَيْهِ مِنَ الثَّوْبِ ثُمَّ رَفَعَهُمَا ثُمَّ كَبَّرَ فَرَكَعَ فَلَمَّا قَالَ « سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ». رَفَعَ يَدَيْهِ فَلَمَّا سَجَدَ سَجَدَ بَيْنَ كَفَّيْهِ.


زہیر بن حرب، عفان ہمام، محمد بن جحادہ، عبدالجبار بن وائل، علقمہ بن وائل بن حجر سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کو بلند کیا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز میں داخل ہوئے تکیبر کہی اور ہمام نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں ہاتھ اپنے کانوں تک اٹھائے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چادر اوڑھ لی پھر دائیں ہاتھ بائیں ہاتھ کے اوپر رکھا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکوع کرنے کا ارادہ کیا تو اپنے ہاتھوں کو چادر سے نکالا پھر ان کو بلند کیا تکبیر کہہ کر رکوع کیا جب آپنے (سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہا) تو اپنے ہاتھوں کو بلند کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سجدہ اپنی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان کیا

الكتاب : صحيح مسلم
المؤلف : مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشيري النيسابوري

أَبَا حُمَيْدٍ السَّاعِدِىَّ


730 - حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ ح وَحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى - وَهَذَا حَدِيثُ أَحْمَدَ قَالَ - أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ - يَعْنِى ابْنَ جَعْفَرٍ - أَخْبَرَنِى مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا حُمَيْدٍ السَّاعِدِىَّ فِى عَشْرَةٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- مِنْهُمْ أَبُو قَتَادَةَ قَالَ أَبُو حُمَيْدٍ أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِصَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم-. قَالُوا فَلِمَ فَوَاللَّهِ مَا كُنْتَ بِأَكْثَرِنَا لَهُ تَبَعًا وَلاَ أَقْدَمَنَا لَهُ صُحْبَةً. قَالَ بَلَى. قَالُوا فَاعْرِضْ. قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلاَةِ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِىَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ ثُمَّ يُكَبِّرُ حَتَّى يَقِرَّ كُلُّ عَظْمٍ فِى مَوْضِعِهِ مُعْتَدِلاً ثُمَّ يَقْرَأُ ثُمَّ يُكَبِّرُ فَيَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِىَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ ثُمَّ يَرْكَعُ وَيَضَعُ رَاحَتَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ ثُمَّ يَعْتَدِلُ فَلاَ يَصُبُّ رَأْسَهُ وَلاَ يُقْنِعُ ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ فَيَقُولُ « سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ». ثُمَّ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِىَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ مُعْتَدِلاً ثُمَّ يَقُولُ « اللَّهُ أَكْبَرُ ». ثُمَّ يَهْوِى إِلَى الأَرْضِ فَيُجَافِى يَدَيْهِ عَنْ جَنْبَيْهِ ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ وَيَثْنِى رِجْلَهُ الْيُسْرَى فَيَقْعُدُ عَلَيْهَا وَيَفْتَحُ أَصَابِعَ رِجْلَيْهِ إِذَا سَجَدَ وَيَسْجُدُ ثُمَّ يَقُولُ « اللَّهُ أَكْبَرُ ». وَيَرْفَعُ رَأْسَهُ وَيَثْنِى رِجْلَهُ الْيُسْرَى فَيَقْعُدُ عَلَيْهَا حَتَّى يَرْجِعَ كُلُّ عَظْمٍ إِلَى مَوْضِعِهِ ثُمَّ يَصْنَعُ فِى الأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ إِذَا قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِىَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ كَمَا كَبَّرَ عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلاَةِ ثُمَّ يَصْنَعُ ذَلِكَ فِى بَقِيَّةِ صَلاَتِهِ حَتَّى إِذَا كَانَتِ السَّجْدَةُ الَّتِى فِيهَا التَّسْلِيمُ أَخَّرَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَقَعَدَ مُتَوَرِّكًا عَلَى شِقِّهِ الأَيْسَرِ. قَالُواصَدَقْتَ هَكَذَا كَانَ يُصَلِّى -صلى الله عليه وسلم-.

احمد بن حنبل، ابوعاصم، ضحاک بن مخلد، مسدد، یحی، احمد، عبدالحمید، ابن جعفر، محمد بن عمر بن عطاء، حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دس صحابہ کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے جن میں ابوقتادہ بھی تھے ابوحمید نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کے متعلق میں تم میں سے سب سے زیادہ واقفیت رکھتا ہوں صحابہ نے کہا وہ کیسے؟ بخدا تم ہم سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی نہیں کرتے تھے اور نہ ہی تم ہم سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت میں آئے تھے ابوحمید نے کہا ہاں یہ درست ہے صحابہ نے کہا اچھا تو پھر بیان کرو ابوحمید کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تھے تو اپنے دونوں مونڈھوں تک اٹھاتے اور تکبیر کہتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اعتدال کے ساتھ اپنے مقام پر آجاتی اس کے بعد قرات شروع فرماتے پھر (رکوع) کی تکبیر کہتے ہوئے دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے اور رکوع کرتے اور رکوع میں دونوں ہتھیلیاں گھٹنوں پر رکھتے اور پشت سیدھی رکھتے سر کو نہ زیادہ جھکاتے اور نہ اونچا رکھتے۔ پھر سر اٹھاتے اور ۔سَمِعَ اللہ لِمَن حَمِدَہ کہتے۔ پھر سیدھے کھڑے ہو کر دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے اور تکبیر کہتے ہوئے زمین کی طرف جھکتے (سجدہ کرتے) اور (سجدہ میں) دونوں ہاتھوں کو پہلوؤں سے جدا رکھتے پھر (سجدہ سے) سر اٹھاتے اور بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر بیٹھتے اور سجدہ کے وقت پاؤں کی انگلیوں کو کھلا رکھتے پھر (دوسرا) سجدہ کرتے اور اللہ اکبر کہہ کر پھر سجدہ سے سر اٹھاتے اور بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر اتنی دیر تک بیٹھتے کہ ہر ہڈی اپنے مقام پر آجاتی (پھر کھڑے ہوتے) اور دوسری رکعت میں بھی ایسا ہی کرتے پھر جب دو رکعتوں سے فارغ ہو کر کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے اور مونڈھوں تک دونوں ہاتھ اٹھاتے جس طرح کہ نماز کے شروع میں ہاتھ اٹھائے تھے اور تکبیر کہی تھی پھر باقی نماز میں بھی ایسا ہی کرتے یہاں تک کہ جب آخری سجدہ سے فارغ ہوتے یعنی جس کے بعد سلام ہوتا ہے تو بایاں پاؤں نکالتے اور بائیں کولھے پر بیٹھتے (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ نے کہا تم نے سچ کہا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی طرح نماز پڑھتے تھے۔

الكتاب : سنن أبى داود
المؤلف : سليمان بن الأشعث بن شداد بن عمرو، الأزدي أبو داود، السجستاني

305 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالاَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ عَنْ أَبِى حُمَيْدٍ السَّاعِدِىِّ قَالَ سَمِعْتُهُ وَهُوَ فِى عَشَرَةٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- أَحَدُهُمْ أَبُو قَتَادَةَ بْنُ رِبْعِىٍّ يَقُولُ أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِصَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم-. قَالُوا مَا كُنْتَ أَقْدَمَنَا لَهُ صُحْبَةً وَلاَ أَكْثَرَنَا لَهُ إِتْيَانًا قَالَ بَلَى. قَالُوا فَاعْرِضْ. فَقَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلاَةِ اعْتَدَلَ قَائِمًا وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِىَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِىَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ ثُمَّ قَالَ « اللَّهُ أَكْبَرُ ». وَرَكَعَ ثُمَّ اعْتَدَلَ فَلَمْ يُصَوِّبْ رَأْسَهُ وَلَمْ يُقْنِعْ وَوَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ ثُمَّ قَالَ « سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ». وَرَفَعَ يَدَيْهِ وَاعْتَدَلَ حَتَّى يَرْجِعَ كُلُّ عَظْمٍ فِى مَوْضِعِهِ مُعْتَدِلاً ثُمَّ أَهْوَى إِلَى الأَرْضِ سَاجِدًا ثُمَّ قَالَ « اللَّهُ أَكْبَرُ ». ثُمَّ جَافَى عَضُدَيْهِ عَنْ إِبْطَيْهِ وَفَتَخَ أَصَابِعَ رِجْلَيْهِ ثُمَّ ثَنَى رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَقَعَدَ عَلَيْهَا ثُمَّ اعْتَدَلَ حَتَّى يَرْجِعَ كُلُّ عَظْمٍ فِى مَوْضِعِهِ مُعْتَدِلاً ثُمَّ أَهْوَى سَاجِدًا ثُمَّ قَالَ « اللَّهُ أَكْبَرُ ». ثُمَّ ثَنَى رِجْلَهُ وَقَعَدَ وَاعْتَدَلَ حَتَّى يَرْجِعَ كُلُّ عَظْمٍ فِى مَوْضِعِهِ ثُمَّ نَهَضَ ثُمَّ صَنَعَ فِى الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ مِثْلَ ذَلِكَ حَتَّى إِذَا قَامَ مِنَ السَّجْدَتَيْنِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِىَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ كَمَا صَنَعَ حِينَ افْتَتَحَ الصَّلاَةَ ثُمَّ صَنَعَ كَذَلِكَ حَتَّى كَانَتِ الرَّكْعَةُ الَّتِى تَنْقَضِى فِيهَا صَلاَتُهُ أَخَّرَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَقَعَدَ عَلَى شِقِّهِ مُتَوَرِّكًا ثُمَّ سَلَّمَ. قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَالَ وَمَعْنَى قَوْلِهِ وَرَفَعَ يَدَيْهِ إِذَا قَامَ مِنَ السَّجْدَتَيْنِ يَعْنِى قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ.

محمد بن بشار، محمد بن مثنی، یحیی بن سعید، عبدالحمید بن جعفر، محمد بن عمرو بن عطاء، ابوحمید ساعدی سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے ابوحمید کو کہتے ہوئے سنا اس وقت وہ وہ دس صحابہ میں بیٹھے ہوئے تھے جن میں ابوقتادہ ربعی بھی شامل ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کے بارے میں تم سب سے زیادہ جانتا ہوں صحابہ نے فرمایا تم نہ حضور کی صحبت میں ہمسے پہلے آئے اور نہ ہی تمہاری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں زیادہ آمد ورفت تھی ابوحمید نے کہا یہ تو صحیح ہے صحابہ نے فرمایا بیان کرو ابوحمید نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو سیدھے کھڑے ہوتے اور دونوں ہاتھ کندھوں تک لے جاتے جب رکوع کرنے لگتے تو دونوں ہاتھ کندھوں تک لے جاتے اور اللَّهُ أَکْبَرُ کہہ کر رکوع کرتے اور اعتدال کے ساتھ رکوع کرتے نہ سر کو جھکاتے اور نہ اونچا کرتے اور دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھتے پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہتے اور ہاتھوں کا اٹھاتے اور معتدل کھڑے ہوتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پہنچ جاتی پھر سجدہ کے لئے زمین کی طرف جھکتے اور اللَّهُ أَکْبَرُ کہتے اور بازؤں کو بغلوں سے علیحدہ رکھتے اور پاؤں موڑ کو اس پر اعتدال کے ساتھ بیٹھ جاتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر پہنچ جاتے پھر سجدے کے لئے سر جھکاتے اور اللَّهُ أَکْبَرُ کہتے پھر کھڑے ہو جاتے اور ہر رکعت میں اسی طرح کرتے یہاں تک کہ جب دونوں سجدوں سے اٹھتے تو تکبیر کہتے اور دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر اٹھاتے جیسے کہ نماز کے شروع میں کیا تھا پھر اسی طرح کرتے یہاں تک کہ ان کی نماز کی آخری رکعت آجاتی چنانچہ بائیں پاؤں کو ہٹاتے اور سیرین پر بیٹھ جاتے اور پھر سلام پھیر دیتے امام ابوعیسی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور إِذَا السَّجْدَتَيْنِ سے مراد یہ ہے کہ جب دو رکعتوں کے بعد کھڑے ہوتے تو رفع یدین کرتے

الكتاب : سنن الترمذى
المؤلف : محمد بن عيسى بن سَوْرة بن موسى بن الضحاك، الترمذي، أبو عيسى

یہ روایت نیچے بھی موجود ہے پر دوسری سند سے

1870 - أخبرنا محمد بن عبد الرحمن بن محمد حدثنا عمرو بن عبد الله الأودي حدثنا أبو أسامة حدثنا عبد الحميد بن جعفر حدثنا محمد بن عمرو بن عطاء قال :
: سمعت أبا حميد الساعدي يقول : ( كان رسول الله صلى الله عليه و سلم إذا قام إلى الصلاة استقبل ورفع يديه حتى يحاذي بهما منكبيه ثم قال : الله أكبر وإذا ركع كبر ورفع يديه حين ركع ثم عدل صلبه ولم يصوب رأسه ولم يقنعه ثم قال : سمع الله لمن حمده ورفع يديه حتى يحاذي بهما منكبيه ثم اعتدل حتى رجع كل عظم إلى موضعه معتدلا ثم هوى إلى الأرض فقال : الله أكبر وسجد وجافى عضديه عن جنبيه واستقبل بأطراف أصابع رجليه القبلة ثم رفع رأسه وقال : الله أكبر وثنى رجله اليسرى وقعد عليها واعتدل حتى رجع كل عظم إلى موضعه معتدلا ثم قال : الله أكبر ثم عاد فسجد ثم رفع رأسه وقال : الله أكبر ثم ثنى رجله اليسرى ثم قعد عليها حتى رجع كل عظم إلى موضعه ثم قام فصنع في الأخرى مثل ذلك حتى إذا قام من الركعتين كبر وصنع كما صنع في ابتداء الصلاة حتى إذا كانت السجدة التي تكون خاتمة الصلاة رفع رأسه منهما وأخر رجله وقعد متوركا على رجله صلى الله عليه و سلم

قال شعيب الأرنؤوط : إسناده صحيح
الكتاب : صحيح ابن حبان بترتيب ابن بلبان
المؤلف : محمد بن حبان بن أحمد أبو حاتم التميمي البستي

پوری نماز

- حدثنا محمد بن بشار . حدثنا أبو عامر . حدثنا فليح بن سليمان . حدثنا عباس بن سهل الساعدي قال
: - اجتمع أبو حميد وأبو أسيد الساعدي وسهل بن سعد ومحمد بن مسلمة . فذكروا صلاة رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال أبو حميد أنا أعلمكم بصلاة رسول الله صلى الله عليه و سلم . إن رسول الله صلى الله عليه و سلم قام فكبر ورفع يديه . ثم رفع حين كبر للركوع ثم قام فرفع يديه واستوى حتى رجع كل عظم إلى موضعه .


محمد بن بشار، ابوعامر، فلیح بن سلیمان، حضرت عباس بن سہل ساعدی فرماتے ہیں کہ حضرت ابوحمید ابوسید سہل بن سعد اور محمد بن مسلمہ جمع ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کا تذکرہ فرمایا حضرت ابوحمید نے فرمایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کو آپ سب سے زیادہ جانتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اَللہُ اَکبَرُ کہا اور ہاتھ اٹھائے پھر جب رکوع کے لئے اَللہُ اَکبَرُ کہا تو بھی ہاتھ اٹھائے پھر کھڑے ہوئے اور ہاتھ اٹھائے اور سیدھے کھڑے ہو گئے حتیٰ کہ ہر جوڑ اپنی جگہ ٹھہر گیا ۔

قال الشيخ الألباني : صحيح
الكتاب : سنن ابن ماجه
المؤلف : محمد بن يزيد أبو عبدالله القزويني
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
علي بن أبي طالب

3423 - حدثنا الحسن بن علي الخلال حدثنا سليمان بن داود الهاشمي حدثنا عبد الرحمن بن أبي الزناد عن موسى بن عقبة عن عبد الله بن الفضل عن عبد الرحمن الأعرج عن عبيد الله بن أبي رافع عن علي بن أبي طالب : عن رسول الله صلى الله عليه و سلم أنه كان إذا قام إلى الصلاة المكتوبة رفع يديه حذو منكبيه ويصنع ذلك أيضا إذا قضى قراءته وأراد أن يركع ويصنعها إذا رفع رأسه من الركوع ولا يرفع يديه في شيء من صلاته وهو قاعد وإذا قام من سجدتين رفع يديه كذلك

حسن بن علی خلال، سلیمان بن داؤد ہاشمی، عبدالرحمن بن ابی زناد، موسیٰ بن عقبہ، عبداللہ بن فضل، عبدالرحمن اعرج، عبید اللہ بن ابی رافع، حضرت علی بن ابی طالب سے روایت ہے۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب فرض نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے قرات کے اختتام پر رکوع میں جاتے وقت بھی ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی دونوں ہاتھوں کو شانوں تک اٹھاتے لیکن آپ تشہد اور سجدوں کے دوران ہاتھ نہ اٹھاتے (یعنی رفع یدین نہ کرتے) پھر دو رکعتیں پڑھنے کے بعد کھڑے ہوتے تو بھی دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے ۔

الكتاب : الجامع الصحيح سنن الترمذي
المؤلف : محمد بن عيسى أبو عيسى الترمذي السلمي

864 - حدثنا العباس بن عبد العظيم العنبري . حدثنا سليمان بن داود أبو أيوب الهاشمي حدثنا عبد الرحمن بن أبي الزناد عن موسى بن عقبة عن عبد الله بن الفضل عن عبد الرحمن الأعرج عن عبيد الله بن أبي رافع عن علي بن أبي طالب قال
: - كان النبي صلى الله عليه و سلم إذا قام إلى الصلاة المكتوبة كبر ورفع يديه حتى يكونا حذو منكبيه . وإذا أراد أن يركع فعل مثل ذلك . وإذا رفع رأسه من الركوع فعل مثل ذلك . وإذا قام من السجدتين فعل مثل ذلك .

قال الشيخ الألباني : حسن صحيح

عباس بن عبدالعظیم عنبری، سلیمان بن داؤد ابوایوب ہاشمی، عبدالرحمن بن ابی زناد، موسیٰ بن عقبہ، عبداللہ بن فضل، عبدالرحمن اعرج، عبید اللہ بن ابی رافع، حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو ، اللَّهُ أَکْبَرُ ، کہتے اور اپنے کندھوں کے برابر تک ہاتھ اٹھاتے اور جب رکوع میں جانے لگتے تو بھی ایسا ہی کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی ایسا ہی کرتے اور جب دونوں سجدوں سے کھڑے ہوتے تب بھی ایسا ہی کرتے ۔

الكتاب : سنن ابن ماجه
المؤلف : محمد بن يزيد أبو عبدالله القزوين

أبوهريرة

694 - أنا أبو طاهر نا أبو بكر نا أبو زهير عبد المجيد بن إبراهيم المصري نا شعيب - يعني ابن يحيى التجيبي أخبرنا يحيى بن أيوب عن ابن جريج عن ابن شهاب عن أبي بكر بن عبد الرحمن بن الحارث أنه سمع أبا هريرة يقول : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم إذا افتتح الصلاة كبر ثم جعل يديه حذو منكبيه وإذا ركع فعل مثل ذلك وإذا سجد فعل مثل ذلك ولا يفعله حين يرفع رأسه من السجود وإذا قام من الركعتين فعل مثل ذلك


قال الأعظمي : إسناده صحيح إن كان عبد المجيد بن ابراهيم ثقة فإني لم أجد له ترجمة نعم هو صحيح لغيره فقد رواه أبو داود 738 من طريق الليث بن سعد عن يحيى بن أيوب نحوه

، حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب تکبیر تحریمہ کہتے تو دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے اور جب رکوع کرتے تب بھی ایسا ہی کرتے اور جب (رکوع سے فارغ ہو کر) سجدہ کے لیے کھڑے ہوتے تب پھر ایسا ہی کرتے اور جب دو رکعتوں کے بعد کھڑے ہوتے تو بھی ایسا ہی کرتے۔


الكتاب : صحيح ابن خزيمة
المؤلف : محمد بن إسحاق بن خزيمة أبو بكر السلمي النيسابوري

144 - نا محمد بن عصمة ، نا سوار بن عمارة ، نا رديح بن عطية ، عن أبي زرعة بن أبي عبد الجبار بن معج قال رأيت أبا هريرة فقال لأصلين بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم لا أزيد فيها ولا أنقص فأقسم بالله إن كانت هي صلاته حتى فارق الدنيا قال : فقمت عن يمينه لأنظر كيف يصنع ، فابتدأ فكبر ، ورفع يده ، ثم ركع فكبر ورفع يديه ، ثم سجد ، ثم كبر ، ثم سجد وكبر حتى فرغ من صلاته قال : أقسم بالله إن كانت لهي صلاته حتى فارق الدنيا

ابو عبدالجبار سے روایت ہے کی انہوں نے حضرت ابو ہریرہ کو دیکھا انہوں نے کہا کہ میں آپ کو رسول اللہ کی نماز پڑھاوں گا اس میں زیادہ کروں گا نہ کم پس انہوں نے اللہ کی قسم اٹھا کی کہا پس آپ کی یہی نماز تھی حتی کہ آپ اس دنیا سے تشریف لے گئے ، راوی نے کہا میں آپ کے دائیں جانب کھڑا ہوگیا کہ دیکھوں آپکیا کرتے ہیں ، پس انہوں نے نماز کی ابتدا کی اللہ اکبر کہا اور رفع الیدین کیا پھررکوع کیا ،پس تکبیر کہی اور رفع الیدین کیاپھر سجدہ کیا اور اللہ اکبر کہا حتی آپاپنی نماز سے فارغ ہو گئےحضرت ابو ہریرہ نے فرمایا نے اللہ کی قسم آپ کی یہی نماز تھی حتی کہ آپ اس دنیا سے تشریف لے گئے ۔
الكتاب : معجم ابن الأعرابي

أَبِى مُوسَى الأَشْعَرِىِّ

1134 - حَدَّثَنَا دَعْلَجُ بْنُ أَحْمَدَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شِيرَوَيْهِ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ رَاهَوَيْهِ حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنِ الأَزْرَقِ بْنِ قَيْسٍ عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِى مُوسَى الأَشْعَرِىِّ قَالَ هَلْ أُرِيكُمْ صَلاَةَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ لِلرُّكُوعِ ثُمَّ قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ قَالَ هَكَذَافَاصْنَعُوا وَلاَ يَرْفَعُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ.

الكتاب : سنن الدارقطنى
المؤلف : أبو الحسن علي بن عمر بن أحمد بن مهدي بن مسعود بن النعمان بن دينارالبغدادي

عبد الله بن الزبيروأبي بكر الصديق رضي الله عنه

2349 - أخبرنا أبو عبد الله الحافظ ثنا أبو عبد الله محمد بن عبد الله الصفار الزاهد إملاء من أصل كتابه قال قال أبو إسماعيل محمد بن إسماعيل السلمي : صليت خلف أبي النعمان محمد بن الفضل فرفع يديه حين افتتح الصلاة وحين ركع وحين رفع رأسه من الركوع فسألته عن ذلك فقال صليت خلف حماد بن زيد فرفع يديه حين افتتح الصلاة وحين ركع وحين رفع رأسه من الركوع فسألته عن ذلك فقال صليت خلف أيوب السختياني فكان يرفع يديه إذا افتتح الصلاة وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع فسألته فقال رأيت عطاء بن أبي رباح يرفع يديه إذا افتتح الصلاة وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع فسألته فقال صليت خلف عبد الله بن الزبير فكان يرفع يديه إذا افتتح الصلاة وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع فسألته فقال عبد الله بن الزبير صليت خلف أبي بكر الصديق رضي الله عنه فكان يرفع يديه إذا افتتح الصلاة وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع وقال أبو بكر صليت خلف رسول الله صلى الله عليه و سلم فكان يرفع يديه إذا افتتح الصلاة وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع رواته ثقات

الكتاب : سنن البيهقي الكبرى
المؤلف : أحمد بن الحسين بن علي بن موسى أبو بكر البيهقي

جابر بن عبدالله

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی حَدَّثَنَا أَبُو حُذَيْفَةَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ کَانَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ وَإِذَا رَکَعَ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّکُوعِ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِکَ وَيَقُولُ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِکَ وَرَفَعَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ يَدَيْهِ إِلَی أُذُنَيْهِ

محمد بن یحییٰ، ابوحذیفہ، ابراہیم بن طہمان، ابوزبیر، حضرت جابر بن عبداللہ جب نماز شروع کرتے تو رفع یدین کرے اور جب رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی ایسا کرتے اور فرماتے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا اور راوی ابراہیم بن طہمان نے اپنے ہاتھ کانوں تکاٹھائے

سنن ابن ماجہ:جلد اول:حدیث نمبر 868 حدیث متواتر حدیث مرفوع

(93) حدثنا محمد بن طريف أبو بكر الأعين قثنا أبو حذيفة قثنا إبراهيم بن طهمان عن أبي الزبير قال: رأيت جابر عن عبدالله يرفع يديه إذ كبر وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع ولم يرفع بين ذلك، فقلت له: ما هذا ؟ فقال: هكذا رأيت رسول الله صلى الله عليه و سلم يصلي.

الكتاب : مسند السراج
أنس بن مالک

3793 - حدثنا أبو بكر حدثنا عبد الوهاب الثقفي عن حميد : عن أنس قال : رأيت رسول الله صلى الله عليه و سلم يرفع يديه إذا افتتح لصلاة وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع

قال حسين سليم أسد : رجاله رجال الصحيح
الكتاب : مسند أبي يعلى
المؤلف : أحمد بن علي بن المثنى أبو يعلى الموصلي التميمي
الناشر : دار المأمون للتراث – دمشق




پہلے اور بعد محدثین کے ابواب اور ناسخ و منسوخ کے بارے میں غلط فہمی


امام ترمذی نےپہلے رفع یدین کا باب باندھاپھر عددم رفع یدین کا باب باندھا اور حدیث لاءے تو آپ کو شاید محدیثین کا اصول معلوم نہیں کہ محدیثین پہلا باب اس عمل کا لاتے ہیں جو منسوخ ہوچکا ہو اور پھر اس کے بعد اس عمل کا باب لاتے ہیں جو ناسخ ہوتا ہے






اس ضمن میں یہ
خود ساختہ قاعدہ و قانون بہت زور و شور سے بیان کیا جاتا ہے کہ محدثین نے پہلے منسوخ اور پھر ناسخ روایات نقل کی ہیں!!! اس خود ساختہدعوے کی تردید میں بے شمار دلائل پیش کئے جا سکتے ہیں لیکن یہاں ہم صرف دس حوالوں پر ہی اکتفا کر رہے ہیں جو امید ہے اس غلط فہمی کے ازالے کے لئے کافی و شافی ہوں گے۔


1

امام ابو داؤد نے باب باندھا:

"
باب من لم یر الجھر ببسم اللہ الرحمٰن الرحیم" (سنن ابی داؤد ص ۱۲۲ قبل حدیث۷۸۲)

اس کے بعد امام ابو داؤد نے دوسرا باب باندھا:

"
باب من جھر بھا" (سنن ابی داؤد ص ۱۲۲ قبل حدیث ۷۸۶)

یعنی امام ابو داؤد نے پہلے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم عدمِ جھر (سراً فی الصلٰوة) والا باب لکھا اور بعد میں بسم اللہ بالجھر والا باب باندھا تو کیا حنفی مقلدین تیار ہیں کہ سراً بسم اللہ کو منسوخ اور جہراً بسم اللہ کو ناسخ قرار دیں؟ اگر نہیں تو پھر ان کا اصول کہاں گیا؟

نوٹ: امام ترمذی نے بھی ترکِ جہر کا پہلے اور جہر کا باب بعد میں باندھا ہےدیکھئے سنن الترمذی ص ۶۸-۶۷ قبل حدیث ۲۴۴-۲۴۵

2

امام ترمذی نے باب باندھا:

"
باب ما جاء فی الوتر بثلاث" (سنن الترمذی ص ۱۲۲ قبل حدیث ۴۵۹)

پھر بعد میں یہ باب باندھا:

"
باب ما جاء فی الوتر برکعة" (سنن الترمذی قبل حدیث ۴۶۱)

کیا اپنے خود ساختہ قاعدے و قانون کی رو سے تین وتر کو منسوخ اور ایک وتر کو ناسخ سمجھ کر ایک وتر پڑھنے کے قائل و فاعل ہو جائیں گے؟
!!!

3

امام ابنِ ماجہ نے پہلے خانہ کعبہ کی طرف پیشاب کرنے کی ممانعت والا باب باندھا:

"
باب النھي عن استقبال القبلة بالغائط والبول" (سنن ابن ماجہ ص ۴۸ قبل حدیث۳۱۷)

اور بعد میں یہ باب باندھا:

"
باب الرخصة في ذلک فی الکنیف و إباحتھ دون الصحاری" یعنی صحراء کی بجائے بیت الخلاء میں قبلہ رخ ہونے کے جواز کا بیان (سنن ابن ماجہ ص ۴۹ قبل حدیث ۳۲۲)

بتائیں کہ کیا وہ اپنے خود ساختہ اصول کی وجہ سے قبلہ رخ پیشاب کرنے کی ممانعت کو منسوخ سمجھتے ہیں؟

4

امام نسائی نے رکوع میں ذکر (یعنی تسبیحات) کے کئی باب باندھے مثلاً:

"
باب الذکر فی الرکوع" (سنن النسائی ص ۱۴۴قبل حدیث ۱۰۴۷)

اور بعد میں یہ باب باندھا:

"
باب الرخصة فی ترک الذکر فی الرکوع" (سنن النسائی ص ۱۴۵قبل حدیث ۱۰۴۵)

کیا تقلیدی قاعدے کی رو سے رکوع کی تسبیحات پڑھنا بھی منسوخ ہے؟

5

امام ابن ابی شیبہ نے نماز میں ہاتھ باندھنے کا باب درج زیل الفاظ میں لکھا:

"
وضع الیمین علی الشمال" (مصنف ابن ابی شیبہ ۳۹۰/۱ قبل حدیث ۳۹۳۳)

اور بعد میں یہ باب باندھا:

"
من کان یرسل یدیھ فی الصلٰوة" (مصنف ابن ابی شیبہ جلد ۱ ص۳۹۱ قبل حدیث۳۹۴۹)

کیا اپنے تقلیدی اصول کی رو سے ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے کے لئے تیار ہیں؟

6

امام نسائی نے پہلے نمازِ عصر کے بعد نوافل پڑھنے کی ممانعت والا باب باندھا:

"
النھی عن الصلاة بعد العصر" (سنن النسائی ص ۷۸ قبل حدیث ۵۶۷)

اور بعد میں یہ باب باندھا:

"
الرخصة فی الصلاة بعد العصر" (سنن النسائی ص ۷۹ قبل حدیث ۵۷۴)

کیا تقلیدی قاعدے کی رو سے عصر کے بعد نوافل کی ممانعت والی حدیث منسوخ ہے؟

7

امام ابو داؤد نے تین تین دفعہ اعضائے وضو دھونے کا باب باندھا:

"
باب الوضوء ثلاثاً ثلاثاً" (سنن ابی داؤد ص ۲۹ قبل حدیث ۱۳۵)

اور بعد میں ایک دفعہ اعضائے وضو دھونے کا باب باندھا:

"
باب الوضوء مرة مرة" (سنن ابی داؤد ص ۳۰ قبل حدیث ۱۳۸)

کیا وضو میں تین تین دفعہ اعضاء دھونا منسوخ ہے؟ اگر نہیں تو تقلیدی قاعدہ کہاں گیا؟

8

امام نسائی نے سجدوں کی دعا کے کئی باب باندھے مثلاً:

"
عدد التسبیح فی السجود" (سنن النسائی ص ۱۵۷ قبل حدیث ۱۱۳۶)

اور بعد میں یہ باب باندھا:

"
باب الرخصة فی ترک الذکر فی السجود" (سنن النسائی ص ۱۵۷ قبل حدیث۱۳۷)

کیا تقلیدی قاعدے کی رو سے سجدے کی تسبیحات بھی منسوخ ہیں؟

9

امام ابن ابی شیبہ نے " من قال: لاجمعة ولا تشریق الا في مصر جامع" کا باب باندھ کر وہ روایات پیش کیں جن سے بعض لوگ یہ استدلال کرتے ہیں کہ گاؤں میں جمعہ نہیں پڑھنا چاہئے دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ ۱۰۲/۲ قبل حدیث ۵۰۵۹

اور بعد میں یہ باب باندھا:

"
من کان یری الجمعة فی القری وغیرھا" یعنی جو شخص گاؤں وغیرہ میں جمعہ کا قائل ہے پھر وہ صحیح روایات پیش کیں جن سے گاؤں میں نماز جمعہ پڑھنے کاثبوت ملتا ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ جلد ۲ ص ۱۰۱-۱۰۲ قبل حدیث ۵۰۶۸)

کیا اپنے نرالے قاعدے کی لاج رکھتے ہوئے گاؤں میں نماز جمعہ کی مخالف تمام روایات کو منسوخ سمجھتے ہیں؟

10

امام ابن ابی شیبہ نے نماز جنازہ میں چار تکبیروں کا باب باندھا:

"
ما قالوا فی التکبیر علی الجنازة من کبّر أربعاً" (مصنف ابن ابی شیبہ ۲۹۹/۳ قبل حدیث ۱۱۴۱۶)

اور اس کے فوراً بعد پانچ تکبیروں کا باب باندھا:

"
من کان یکّبر علی الجنازة خمساً" (مصنف ابن ابی شیبہ ۳۰۲/۳ قبل حدیث۱۱۴۴۷)

کیا کسی میں جرات ہے کہ وہ اپنے تقلیدی قاعدے کی لاج رکھتے ہوئے جنازے کی چار تکبیروں کو منسوخ اور پانچ کو ناسخ کہہ دے؟


امام ابوحنیفہ کا مقام امام عبداللہ بن مبارک کے نزدیک اور آل دیوبند کی نا انصافی


مسئلہ رفع الیدین


پر

امام عبداللہ بن المبارک

کی

امام ابوحنیفہ

سے گفتگو !



ایک بار مسجد کوفہ میں امام ابن المبارک رحمہ اللہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے ۔ ابن المبارک رحمہ اللہ رفع الیدین کرتے تھے ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے نماز سے فارغ ہو کر ابن المبارک رحمہ اللہ سے کہا

ترفع یدیک فی کل تکبیرۃ کانک ترید ان تطیر

” آپ نماز کی ہر تکبیر ( اس میں تسمیع بھی شامل ہے یعنی رکوع سے اٹھتے وقت ) میں رفع الیدین کرتے ہیں گویا اڑنا اور پرواز کرنا چاہتے ہیں ۔ “

امام ابن المبارک رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے جواب میں کہا :

ان کنت انت تطیر فی الاولیٰ فانی اطیر فیما سواھا

اگر آپ تحریمہ کے وقت رفع الیدین کرتے ہوئے ارادہ پرواز و اڑان رکھتے ہوں تو میں آپ ہی کی طرح باقی مواقع میں نماز میں پرواز کرنا چاہتا ہوں ۔



امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ امام ابن المبارک رحمہ اللہ کے اس جواب سے اس طرح کی بات رفع الیدین کی بابت کہنے سے ہمیشہ کے لیے خاموش رہے ۔ امام وکیع نے امام ابن المبارک رحمہ اللہ کے اس جواب کی بڑی تحسین و تعریف کی ۔

کتاب السنۃ لعبداللہ بن احمد بن حنبل ، ص : 59 ، تاویل مختلف الحدیث لابن قتیبی ، ص : 66 ، سنن بیہقی ، ج : 2 ، ص :82 ، ثقات ابن حبان ، ج : 4 ، ص : 17، تاریخ خطیب ، ج : 13 ، ص :406 ، تمھید لابن عبدالبرج :5 ، ص :66 ، جزءرفع الیدین للبخاری مع جلاءص : 125,123

اس واقعے سے امام ابو حنیفہ کا مقام ابن مبارک کے نزدیک کیا ہے باکل واضح ہو جاتا ہے

جس طرح ابن المبارک رحمہ اللہ کی طرف سے مسکت جواب پا کر امام ابوحنیفہ اس معاملہ میں خاموش و ساکت رہ گئے اسی طرح ان کی تقلید میں امام ابوحنیفہ کا دم بھرنے والوں کو بھی خاموش رہنا چاہئیے ۔ مگر مدعیان تقلید ابی حنیفہ اپنے دعوی تقلید ابی حنیفہ رحمہ اللہ میں سچے نہیں ہیں ۔ اسی بنا پر وہ آئے دن اس سنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کتابیں لکھتے رہتے ہیں اور اس سنت نبویہ کے خلاف شدید جارحیت
اختیار کرتے ہیں ۔

اور اصل حقیقت یہ ہے اس کو کیوں بھول جاتے ہیں


کہ امام بن مبارک کے نزدک امام ابوحنیفہ ضعیف تھے !!

امام عبداللہ بن مبارک کا ابوحنیفہ پر تبصرہ

امام صاحب کے شاگرد رشید امام عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں کان ابو احنیفۃ یتیما فیا الحدیث کہ امام ابو حنیفہ حدیث میں یتیم ہیں (قیام اللیل ص١٢٣ ،بغدادی ص٤١٥ج١٣،الضعفائ لابن حبان ص٧١ج٣)وغیرہ بعض حضرات نے تفنن طبع کا ثبوت دیتے ہوئے ’’یتیمکے معنی یکتا زمانہ ‘‘کے کئے ہیں مگر کیا کیا جائے جب کہ اب کے یہ الفاظ بھی ہیں کان ابوحنیفٰۃ مسکینا فی الحدیث (الجرح والتعدیال ص٤٥٠ج٤،ق١ )کہ وہ حدیث میں مسکین تھے ۔

امام ابن حبان بسند متصل نقل کیا ہے کہ ابراہیم بن شماس فرماتے ہیں میں نے امام ابن مبارک کو ثغر کے مقام میں دیکھا کہ وہ کتاب لوگوں پر پڑھ رہے تھے جبامام ابوحنیفہ کا ذکر آتا تو فرماتے اضربو ا علیہ ۔اس پر نشان لگا لو ۔اور یہ آخری کتاب تھی جوانھوں نے لوگوں کو سنائی تھی (الثقات ترجمہ ابراہیم بن شماس )السنۃ لابن احمد میں ہے کی یہ واقعہ امام ابن مبارک کی وفات سے بضعۃ عشر تیرہ چودہ دن پہلے کا ہے ۔ابراہیم بن شماس ثقہ ہے (تقریب ص٢٢)اور ابن حبان نے اب سے یہ روایت بواسطہ عمر بن محمد الجبیری یقول سمعت محمد بن سھل بن عسکر بیان کی ھے ۔اور محمد بن سھل بن ثقہ امام ھے۔ اور عمر بن محمدالجبیری حافظ حدیث اور ثقہ امام ھیں (تزٖکرہ ص؛٧١٩) ۔اور یہ قول ابراھیم سے مختلف اسانید کے ساتھ تاریخ بغداد ص٤١٤ج١٣ اور المجروحین لابن حبان (ص٧١ج٣)السنۃ لعبداللہ بن احمد (ص٢١١،٢١٤ج١)،العلل و معرفۃ الرجال(ج٢ص٢٤٢)میں بھی دیکھا جا سکتا ہے


امام عبداللہ بن مبارک مزید فرماتے ہیں کہ میں نے امام ابو حنیفہ سے چار سو حدیثیں نقل کی ہیں ۔جب میں واپس عرق جاوں گا توانھیں مسخ کر دوں گا ۔(بغدادی ص٤١٤ج١٣)

اور امام ابن عبدالبر بسند متصل معلی بن اسد سے نقل کرتے ہیں

قلت لابن المبارک کان الناس یقولون انک تذہبن الی قول ابی حنیفٰۃ قال لیس کل ما یقول الناس یصیبونم فیہ قد کنا ناتیہ زمانا و نحن لا نعرفہ فلما عرفناہ ترکناہ ۔

(الانتقاء ص١٥١)

یعنی میں نے ابن مبارک سے کہا لوگ کہتے ہیں کہ تم ابو حنیفہ کے قول کی اقتدا کرتے ہو تو انھوں نے جواب دیا لوگوں کی ہر بات صحیح نہیں ہوتی ۔ہم ایک زمانہ تک ان کے پاس جاتے تھے مگر انھین پہچانتے نہ تھے لیکن جب ہمیں معلوم ہو گیا تو انھیں چھوڑ دیا ۔

امام ابن ابی حاتم غالبا انھیں اقوال کی روشنی میں لکھتے ہیں :ترکہ ابن امبارک بآخرہ ۔کہ ابن مبارک نے بالآخر انھی÷ں چھوڑ دیا تھا۔

علمائے احناف امام ابوحنیفہ کی تعریف میں امام ابن مبارک کا نام بڑے اچھوتے انداز میں کرتے ہیں اور ان کے غیر مستند قصائد اور اقوال شہ سرخیوں سے ذکر کرتے ہیں ۔حالانکہ مندرجہ بالا اقوال ان کے یکسر منافی ہیں ۔اگر ان اقوال کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو ان میں تطبیق کی صورت بالکل ظاہر ہے کہ آخری عمر میں امام ابن مبارک کی ابو حنیفہ سے عقیدت کافور ہو چکی تھی ۔جیسا کہ امام ابی حاتم نے کہا ہے بلکہ امام ابن مبارک کے شاگرد رشید ابراہیم بن شماس کے الفاظ بھی یہی ہیں کہ:ّّترکہ ابن المبارک فی آخر امری ٗٗ(المجروحین لابن حبان ص٧١ج٣ )

بحوالہ توضیح الکالام لشیخنا محدث العصر ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ ص:933۔


قاضی عیاض لکھتے ہیں کہ امام شیرازی کہتے ہیں

امام ابن مبارک نے امام مالک اور ثوری سے فقہ حاصل کی

اور ابتدائ وہ امام ابو حنیفہ کے اصحاب میں سے تھے

پھرانھیں چھوڑ دیا اور ان کے مذہب سے رجوع کر لیا ۔ابن وضآع کہتے ہیں
کہ انھو
ں
اپنی کتابوں میں
امام ابو حنیفہ کی روایات کو قلم زد کر دیا تھا اور انھیں لوگوں کو نہیں سناتےتھے


(ترتیب المدارک ص300ج1)


پیران پیر شیخ عبدالقادر جیلانی رحم اللہ علیہ کا ایک سوال پر جواب

رفع الیدین کیا ہے؟ کیونکر کی جاتی ہے اور کہاں کہاں کی جاتی ہے۔ اس کے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب:

رفع الیدین عند الافتتاح والرکوع والرفع منہ وھو ان یکون کفاہ مع منکبیہ

( غنیة الطالبین صفحہ11 )

رفع الیدین دونوں ہاتھوں کے بلند کرنے کو کہتے ہیں۔ نماز میں اس سے مراد دونوں ہاتھوں کا کندھوں کے برابر تک بلند کرنا ہے۔

پس اس غرض سے پہلی بات نماز کے لیے کھڑے ہو کر تکبیر تحریمہ کے ساتھ ہی کندھوں تک دونوں ہاتھ بلند کےے جائیں۔ پھر رکوع کے لیے جھکنے سے پہلے اور پھر رکوع سے اٹھتے ہوئے یہی عمل دہرایا جائے۔

جلسہ بین السجدتین

جلسہ بین السجدتین

( دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا )


 
Top