• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسئلہ علم غیب پر چند مغالطے اور اُن کی وضاحتیں (تبصرہ کریں)

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
مسئلہ علم غیب پر چند مغالطے اور اُن کی وضاحتیں​

جزاکم اللہ خیراً بھائی! بہت قیمتی معلومات حاصل ہو رہی ہیں، اللہم زد فزد!
ایک بات کی وضاحت کر دیجئے کہ آپ نے کہا
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم واضح کرچکے ہیں کہ ہمارا فریق مخالف سے اختلاف علوم خمسہ کے جزئیات میں نہیں ہے ۔وہ تو باذن اللہ حضرات انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام کو بذریعہ وحی اور حضرات اولیائے عظام ؒ کو کشف اور الہام کے طور پر معلوم ہوسکتے ہیں۔۔۔ اختلاف کلیات میں ہے جس کی فریق مخالف کے پاس ایک بھی دلیل نہیں ۔۔۔۔ اور جو دلائل پیش فرماتے ہیں وہ ان کے دعوی کے مطابق نہیں ۔۔۔۔یعنی دعوی عام ہے اور جو دلائل پیش کرتے ہیں وہ خاص ہیں ۔۔۔۔ اور یہ بات اصول و قاعدے کے اعتبار سے درست نہیں ۔
کیا غیر نبی کو جزئیات علومِ خمسہ پر اطلاع ہو سکتی ہے؟؟؟
حالانکہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَجْتَبِي مِن رُّ‌سُلِهِ مَن يَشَاءُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّـهِ وَرُ‌سُلِهِ ﴾ ... آل عمران: 179
کہ ’’اللہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ تم کو غیب پر مطلع کر دے غیب کی باتیں بتانے کے لیے تو وہ اپنے رسولوں میں جس کو چاہتا ہے منتخب کر لیتا ہے لہٰذا (امور غیب کے بارے میں) اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھو۔‘‘
نیز فرمایا:
﴿ عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ‌ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا (٢٦) إِلَّا مَنِ ارْ‌تَضَىٰ مِن رَّ‌سُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَ‌صَدًا (٢٧) لِّيَعْلَمَ أَن قَدْ أَبْلَغُوا رِ‌سَالَاتِ رَ‌بِّهِمْ وَأَحَاطَ بِمَا لَدَيْهِمْ وَأَحْصَىٰ كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا ﴾ ... سورة الجن
کہ ’’وہ عالم الغیب ہے، اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا (26) سوائے اُس رسول کے جسے اُس نے پسند کر لیا ہو، تو اُس کے آگے اور پیچھے وہ محافظ لگا دیتا ہے (27) تاکہ وہ جان لے کہ انہوں نے اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیے، اور وہ اُن کے پورے ماحول کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور ایک ایک چیز کو اس نے گن رکھا ہے" (28)
 
شمولیت
اکتوبر 13، 2011
پیغامات
22
ری ایکشن اسکور
121
پوائنٹ
42
انس بھائی شاید آپ نےمراسلہ نمبر١٢ کا مطالعہ نہیں فرمایا ۔۔۔۔آپ سے درخواست ہے کہ آپ پہلے مراسلہ نمبر ١٢ میں موجود زیر مضمون ’’علم مافی الارحام ‘‘کا تسلی سے مطالعہ فرمالیں ۔۔۔اس کے بعد بھی کوئی اشکال ہو تو ضرور لکھیں ان شاء اللہ تعالیٰ ہم وضاحت کردیں گے۔۔۔۔ساتھ میں درخواست ہے کہ ابھی ہماری بات جاری ہے اور اس طرح درمیان میں سوال جواب سے موضوع کے ربط میں خلل پڑے گا ۔۔۔۔۔لہذا یا تو ہماری بات مکمل ہونے کا انتظار فرمالیں یا پھر نیا دھاگہ بنا کر وہاں اشکالات پیش فرمالیں ۔جزاک اللہ
ہماری انتظامیہ سے درخواست ہے کہ وہ ہمارے اس مراسلہ کو اور انس بھائی کے مراسلہ کو کسی دوسرے تھریڈ میں موو کردیں تاکہ ہمارے مضمون کا ربط برقرار رہے ۔جزاک اللہ
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
بھائی! میں نے مراسلہ نمبر 12 اور ہیڈنگ علم ما فی الارحام کا دوبارہ تفصیلی مطالعہ کیا ہے، مجھے اس بات کی کوئی دلیل نہیں ملی کہ اولیائے کرام کو کشف یا الہام سے غیب کی باتوں پر مطلع کر دیا جاتا ہے، اور یہ بات درج بالا قرآنی آیات کے بھی صریح مخالف ہے۔
 
شمولیت
اکتوبر 13، 2011
پیغامات
22
ری ایکشن اسکور
121
پوائنٹ
42
انس بھائی سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ بلا شبہ علم غیب اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو حاصل نہیں ۔۔۔۔ چاہے وہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام ہوں یا اولیاء کرام ہوں ۔۔۔۔ہاں البتہ اللہ رب العزت نے اپنے رسولوں کو بہت سی غیب کی خبروں پر مطلع فرمایا ۔
اس کے بعد جہاں‌تک اولیاء کرام کے متعلق بہت سے ایسے واقعات ملتے ہیں کہ جن میں‌ غیر نبی نے کچھ ایسی خبروں کی اطلاع دیں جو غیوب خمسہ میں‌ سے ہیں ۔۔۔۔ جیسا کہ مراسلہ نمبر 12 میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ والی روایت ہے کہ جس میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک رحم کی خبر دی ۔۔۔۔ جو کہ بعد میں پوری ہوئی۔۔۔۔ تو اس حوالے سے سب سے پہلی عرض تو یہ ہے کہ یہ بات طے شدہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے علاوہ کسی غیر نبی کو غیب کی یقینی خبر نہیں ۔
باقی علماء کرام نے یہ وضاحت پیش فرمائی ہے کہ غیر نبی سے جو امور خمسہ کی خبریں‌ مشہور ہیں وہ ظنی ہوتی ہیں یقینی اور قطعی نہیں۔۔۔۔ لہذا یہ علم کے درجہ میں داخل نہیں ۔۔۔۔ جبکہ جو انبیاء کرام کو جو غیب کی خبریں عطاء کی گئیں‌ ۔۔۔۔ وہ یقینی اور قطعی ہیں‌۔۔۔۔یہ فرق ہے دونوں میں۔
چناچہ شاہ عبد الغنی المجددی دہلوی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 1296 ھ) لکھتے ہیں‌: (بریکٹ میں‌ وہ آدھی عبارت ہے جو بریلوی پیش کرتے ہیں)
ومع ھذا الایخرج عن درجة الظن ولا ید خل فی حدا لعلم فافترقا الخ (انجاح الحاجة ص302)
یعنی باوجویکہ یہ (فراست اور ظن ہے اللہ تعالیٰ مومن کی فراست کو سچا کردیتا ہے ۔) واقعہ صحیح ثابت ہو ا مگر پھر بھی ظن اور گمان کے درجہ سے خارج نہیں اور نہ علم کی حد میں داخل ہے اور دونوں میں فرق ہے ۔

اور الشیخ ملا جیون رحمہ اللہ لکھتے ہیں‌:
واما ما اشتھر من بعض الاولیاءمن اخبار المغیبات فظنی انہ مادام یستقیم صرفہ عن ظاھرہ یصرف بان نقول فیما یخبرون بما فی الرحم من الذکروالانثیٰ او بنزول الغیث انھم لایطلعون علیٰ مافی الرحم ولا علیٰ نزول الغیث وانما یقولون ذٰلک ابشار ابولادة الذکر و دعاءبنزول الغیث ولکن یکون دعائھم مستجابا ویکون موافق التقدیر فی اکثر الحال لاانھم کانو اعالمین بہ اوانھم لایقولون ذٰلک علما یقینا بل ظنا والممنوع ھو العلم بہ (التفیرات احمدیة ص 397)
”بعض حضرات اولیا ءکرام سے غیب کی خبریں جو مشہور ہوئی ہیں تو میرے خیال میں جب ان کو ظاہر سے پھیر کر کوئی ممکن تاویل کی جاسکی تو کی جائے گی ۔مثلا ہم یہ کہیں گے کہ رحم میں لڑکا یا لڑکی یا نزول بارش کی جو خبر وہ دیتے ہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ رحم کے اندر کا اور نزول غیث کا علم رکھتے ہیں بلکہ وہ محض لڑکے کی ولادت اور نزول غیث کی بشارت سناتے ہیں لیکن اکثر حالات میں اُن کی دعا قبول ہوجاتی ہے اور موافق تقدیر ہوکر خبر پوری ہوجاتی ہے ۔یہ نہیں کہ وہ اس کے جانتے ہیں یا یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ علم یقینی کے طور پر پر نہیں جانتے بلکہ ”ظن “ سے ایسا کہتے ہیں اور ممنوع تو علم ہے ظن نہیں “

تو مذکورہ عبارت (جو آپ نے کوٹ فرمائی) میں‌ بریلوی حضرات کو یہ وضاحت پیش کی گئی ہے کہ اولیاء کرام کو غیوب خمسہ میں سے چند خبریں کشف اور الہام سے عطاء‌ ہوئیں یا مستجاب دعا ہوکر موافق تقدیر ہوئیں تو بھی ۔۔۔۔۔اول یہ یقین اور قطعیت کے درجہ پر نہیں کہ جس کو علم کہا جائے(جیسا کہ پچھلی پوسٹ میں واضح کیا گیا ہے) ۔۔۔۔ اور دوسری بات یہ کہ یہ محض چند خبریں ہوتیں ہیں ۔۔۔۔ اور چند خبروں کی مثالوں کو لے کر ’’کلی مافی الارحام‘‘ نہیں ثابت ہوتا۔۔۔۔جیسا کہ بریلوی حضرات کا دعوی ہے۔
(کیوں کہ یہاں بحث ’’کلی مافی الارحام‘‘ کی تھی اس لئے محض یہ نکتہ واضح کیا گیا)
امید ہے کہ اس وضاحت کے بعد مطلوبہ نکتہ سمجھ آگیا ہوگا ۔ [/RIGHT]
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
بھائی! سوال یہ ہے کہ کیا غیر نبی کو جزئیات علومِ خمسہ پر اطلاع ہو سکتی ہے؟؟؟
درج بالا آیات کے مطابق تو نہیں ہو سکتی؟؟؟
﴿ وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَجْتَبِي مِن رُّ‌سُلِهِ مَن يَشَاءُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّـهِ وَرُ‌سُلِهِ ﴾ ... آل عمران: 179
کہ ’’اللہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ تم کو غیب پر مطلع کر دے غیب کی باتیں بتانے کے لیے تو وہ اپنے رسولوں میں جس کو چاہتا ہے منتخب کر لیتا ہے لہٰذا (امور غیب کے بارے میں) اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھو۔‘‘
نیز فرمایا:
﴿ عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ‌ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا (٢٦) إِلَّا مَنِ ارْ‌تَضَىٰ مِن رَّ‌سُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَ‌صَدًا (٢٧) لِّيَعْلَمَ أَن قَدْ أَبْلَغُوا رِ‌سَالَاتِ رَ‌بِّهِمْ وَأَحَاطَ بِمَا لَدَيْهِمْ وَأَحْصَىٰ كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا ﴾ ... سورة الجن
کہ ’’وہ عالم الغیب ہے، اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا (26) سوائے اُس رسول کے جسے اُس نے پسند کر لیا ہو، تو اُس کے آگے اور پیچھے وہ محافظ لگا دیتا ہے (27) تاکہ وہ جان لے کہ انہوں نے اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیے، اور وہ اُن کے پورے ماحول کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور ایک ایک چیز کو اس نے گن رکھا ہے" (28)

ان آیات کے باوجود بھی آپ کے نزدیک غیر نبی کو غیب کی اطلاع ہو سکتی ہے؟؟؟
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
انس بھائی سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ بلا شبہ علم غیب اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو حاصل نہیں ۔۔۔۔ چاہے وہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام ہوں یا اولیاء کرام ہوں ۔۔۔۔ہاں البتہ اللہ رب العزت نے اپنے رسولوں کو بہت سی غیب کی خبروں پر مطلع فرمایا ۔
اس کے بعد جہاں‌تک اولیاء کرام کے متعلق بہت سے ایسے واقعات ملتے ہیں کہ جن میں‌ غیر نبی نے کچھ ایسی خبروں کی اطلاع دیں جو غیوب خمسہ میں‌ سے ہیں ۔۔۔۔ جیسا کہ مراسلہ نمبر 12 میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ والی روایت ہے کہ جس میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک رحم کی خبر دی ۔۔۔۔ جو کہ بعد میں پوری ہوئی۔۔۔۔ تو اس حوالے سے سب سے پہلی عرض تو یہ ہے کہ یہ بات طے شدہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے علاوہ کسی غیر نبی کو غیب کی یقینی خبر نہیں ۔
باقی علماء کرام نے یہ وضاحت پیش فرمائی ہے کہ غیر نبی سے جو امور خمسہ کی خبریں‌ مشہور ہیں وہ ظنی ہوتی ہیں یقینی اور قطعی نہیں۔۔۔۔ لہذا یہ علم کے درجہ میں داخل نہیں ۔۔۔۔ جبکہ جو انبیاء کرام کو جو غیب کی خبریں عطاء کی گئیں‌ ۔۔۔۔ وہ یقینی اور قطعی ہیں‌۔۔۔۔یہ فرق ہے دونوں میں۔
چناچہ شاہ عبد الغنی المجددی دہلوی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 1296 ھ) لکھتے ہیں‌: (بریکٹ میں‌ وہ آدھی عبارت ہے جو بریلوی پیش کرتے ہیں)
ومع ھذا الایخرج عن درجة الظن ولا ید خل فی حدا لعلم فافترقا الخ (انجاح الحاجة ص302)
یعنی باوجویکہ یہ (فراست اور ظن ہے اللہ تعالیٰ مومن کی فراست کو سچا کردیتا ہے ۔) واقعہ صحیح ثابت ہو ا مگر پھر بھی ظن اور گمان کے درجہ سے خارج نہیں اور نہ علم کی حد میں داخل ہے اور دونوں میں فرق ہے ۔

اور الشیخ ملا جیون رحمہ اللہ لکھتے ہیں‌:
واما ما اشتھر من بعض الاولیاءمن اخبار المغیبات فظنی انہ مادام یستقیم صرفہ عن ظاھرہ یصرف بان نقول فیما یخبرون بما فی الرحم من الذکروالانثیٰ او بنزول الغیث انھم لایطلعون علیٰ مافی الرحم ولا علیٰ نزول الغیث وانما یقولون ذٰلک ابشار ابولادة الذکر و دعاءبنزول الغیث ولکن یکون دعائھم مستجابا ویکون موافق التقدیر فی اکثر الحال لاانھم کانو اعالمین بہ اوانھم لایقولون ذٰلک علما یقینا بل ظنا والممنوع ھو العلم بہ (التفیرات احمدیة ص 397)
”بعض حضرات اولیا ءکرام سے غیب کی خبریں جو مشہور ہوئی ہیں تو میرے خیال میں جب ان کو ظاہر سے پھیر کر کوئی ممکن تاویل کی جاسکی تو کی جائے گی ۔مثلا ہم یہ کہیں گے کہ رحم میں لڑکا یا لڑکی یا نزول بارش کی جو خبر وہ دیتے ہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ رحم کے اندر کا اور نزول غیث کا علم رکھتے ہیں بلکہ وہ محض لڑکے کی ولادت اور نزول غیث کی بشارت سناتے ہیں لیکن اکثر حالات میں اُن کی دعا قبول ہوجاتی ہے اور موافق تقدیر ہوکر خبر پوری ہوجاتی ہے ۔یہ نہیں کہ وہ اس کے جانتے ہیں یا یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ علم یقینی کے طور پر پر نہیں جانتے بلکہ ”ظن “ سے ایسا کہتے ہیں اور ممنوع تو علم ہے ظن نہیں “

تو مذکورہ عبارت (جو آپ نے کوٹ فرمائی) میں‌ بریلوی حضرات کو یہ وضاحت پیش کی گئی ہے کہ اولیاء کرام کو غیوب خمسہ میں سے چند خبریں کشف اور الہام سے عطاء‌ ہوئیں یا مستجاب دعا ہوکر موافق تقدیر ہوئیں تو بھی ۔۔۔۔۔اول یہ یقین اور قطعیت کے درجہ پر نہیں کہ جس کو علم کہا جائے(جیسا کہ پچھلی پوسٹ میں واضح کیا گیا ہے) ۔۔۔۔ اور دوسری بات یہ کہ یہ محض چند خبریں ہوتیں ہیں ۔۔۔۔ اور چند خبروں کی مثالوں کو لے کر ’’کلی مافی الارحام‘‘ نہیں ثابت ہوتا۔۔۔۔جیسا کہ بریلوی حضرات کا دعوی ہے۔
(کیوں کہ یہاں بحث ’’کلی مافی الارحام‘‘ کی تھی اس لئے محض یہ نکتہ واضح کیا گیا)
امید ہے کہ اس وضاحت کے بعد مطلوبہ نکتہ سمجھ آگیا ہوگا ۔ [/RIGHT]
بھائی! آپ کے درج بالا مراسلے میں بھی مجھے اس بات کی کوئی دلیل نہیں ملی کہ اولیائے کرام کو کشف یا الہام سے غیب کی باتوں پر مطلع کر دیا جاتا ہے، اور یہ بات درج بالا قرآنی آیات کے بھی صریح مخالف ہے۔ اور آپ کو خود تسلیم بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے غیب کی باتوں کی اطلاع صرف رسولوں کو ہی دی ہے؟؟؟
انس بھائی سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ بلا شبہ علم غیب اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو حاصل نہیں ۔۔۔۔ چاہے وہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام ہوں یا اولیاء کرام ہوں ۔۔۔۔ہاں البتہ اللہ رب العزت نے اپنے رسولوں کو بہت سی غیب کی خبروں پر مطلع فرمایا۔
 
شمولیت
اکتوبر 13، 2011
پیغامات
22
ری ایکشن اسکور
121
پوائنٹ
42
بھائی! آپ کے درج بالا مراسلے میں بھ� مجھے اس بات کی کوئی دلیل نہیں ملی کہ اولیائے کرام کو کشف یا الہام سے غیب کی باتوں پر مطلع کر دیا جاتا ہے، اور یہ بات درج بالا قرآنی آیات کے بھی صریح مخالف ہے۔ اور آپ کو خود تسلیم بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے غیب کی باتوں کی اطلاع صرف رسولوں کو ہی دی ہے؟؟؟
بالکل جناب عالیٰ ہم نے لکھا ہے ۔۔۔لیکن شاید آپ نے ہماری بات پر غور نہیں فرمایا کہ
غیب کی خبروں پر اطلاع رسولوں کو دی جاتی ہے وہ یقینی اور قطعی ہے اور یہ خبریں علم کی حدود میں داخل ہیں
جبکہ اولیاء کرام سے جوبعض غیب کی خبریں مشہور ہیں اُن کو ’’ظنی‘‘ کہا گیا ہے
کیوں کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ غیر نبی سے غیب خبریں جو مشہور ہیں اُن سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔۔۔۔ جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ والی روایت (اور اس کے علاوہ بھی اولیاءکرام سے غیب کی خبریں دینا مشہور ہیں ) اگر آپ کو اس سے اختلاف ہے تو واضح فرمائیں
تو جب ایک طرف قرآن کریم میں غیر نبی سے غیب کی خبروں کی نفی موجود ہے ۔۔۔ اور دوسری طرف غیر نبی سے بعض غیب کی خبریں مشہور ہیں ۔۔۔۔تو ان میں تطبیق دینے کے لئے یہ وضاحت کی گئی ہے کہ غیر نبی کی دیں گئیں غیب کی خبروں کو یقین اور قطعیت کا درجہ حاصل نہیں جو علم کی حد میں داخل نہیں۔۔۔۔
اب اس کے بعد آپ کیا سمجھنا چاہتے ہیں ؟؟؟
کیا آپ کو غیر نبی سے مشہور غیب کی خبروں سے انکار ہے ؟؟؟
تو پھر آپ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ والی روایت اور اسی طرح اولیاء کرام سے مشہور کرامتا غیب کی خبروں کی اطلاع کی کس طرح وضاحت پیش فرمائیں گے ؟؟؟
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
بالکل جناب عالیٰ ہم نے لکھا ہے ۔۔۔لیکن شاید آپ نے ہماری بات پر غور نہیں فرمایا کہ
غیب کی خبروں پر اطلاع رسولوں کو دی جاتی ہے وہ یقینی اور قطعی ہے اور یہ خبریں علم کی حدود میں داخل ہیں
جبکہ اولیاء کرام سے جوبعض غیب کی خبریں مشہور ہیں اُن کو ’’ظنی‘‘ کہا گیا ہے
کیوں کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ غیر نبی سے غیب خبریں جو مشہور ہیں اُن سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔۔۔۔ جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ والی روایت (اور اس کے علاوہ بھی اولیاءکرام سے غیب کی خبریں دینا مشہور ہیں ) اگر آپ کو اس سے اختلاف ہے تو واضح فرمائیں
تو جب ایک طرف قرآن کریم میں غیر نبی سے غیب کی خبروں کی نفی موجود ہے ۔۔۔ اور دوسری طرف غیر نبی سے بعض غیب کی خبریں مشہور ہیں ۔۔۔۔تو ان میں تطبیق دینے کے لئے یہ وضاحت کی گئی ہے کہ غیر نبی کی دیں گئیں غیب کی خبروں کو یقین اور قطعیت کا درجہ حاصل نہیں جو علم کی حد میں داخل نہیں۔۔۔۔
اب اس کے بعد آپ کیا سمجھنا چاہتے ہیں ؟؟؟
کیا آپ کو غیر نبی سے مشہور غیب کی خبروں سے انکار ہے ؟؟؟
تو پھر آپ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ والی روایت اور اسی طرح اولیاء کرام سے مشہور کرامتا غیب کی خبروں کی اطلاع کی کس طرح وضاحت پیش فرمائیں گے ؟؟؟
میرے بھائی! کیا مشہور من گھڑت قصّوں سے، خواہ وہ قرآن پاک اور صحیح احادیث نبویہ کے صریح مخالف ہوں، دین ثابت ہو جا تا ہے؟؟؟ تو پھر دین مکمل ہونے کا مطلب کیا ہے؟ اس طرح تو بریلوی پیروں فقیروں کی تمام کرامتوں کو ماننا پڑے گا اور ان سے دین بھی ثابت ہوتا چلا جائے گا، قیامت تک!
آپ کی یہ منطق بھی واضح نہیں ہو سکی کہ
غیر انبیاء کو جو غیب کی اطلاع ہوتی ہے وہ ظنّی ہوتی ہے۔
کیا ’ظنی‘ سے مراد یہ ہے کہ وہ حتمی نہیں ہوتی، اگر حتمی نہیں ہوتی تو اسے ’غیب کی اطلاع‘ کیسے کہا جا سکتا ہے؟ کیا غیب کی اطلاع بھی غیر یقینی ہو سکتی ہے؟
اور اگر ظنی سے مراد بھی حتمی اور یقینی ہے تو پھر قطعی اور ظنی میں فرق کیا ہوا؟؟؟ یہ تو سراسر تاویل ہے۔
جب آپ کو تسلیم ہے کہ درج بالا آیات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ غیب کی اطلاع انبیاء کرام﷩ کے علاوہ کسی اور کو نہیں ہو سکتی تو اس کے خلاف عقیدہ رکھنا کیسے جائز ہوجاتا ہے؟ یہ تو تاویل ہے کہ انبیاء کرام﷩ کو جو غیب کی اطلاع ہوتی ہے، وہ یقینی ہوتی ہے، اور غیر انبیاء کو جو غیب کی اطلاع ہوتی ہے، وہ ظنی ہوتی ہے۔
حالانکہ ہمارا اس پر اتفاق ہے کہ غیر انبیاء کو غیب کی اطلاع ہوتی ہی نہیں۔
جہاں تک سیدنا ابو بکر﷜ کا معاملہ ہے تو انہوں نے غیب کی خبر دی ہی نہیں، بلکہ انہوں نے تو اپنا خیال ظاہر کیا ہے: فقال أبو بكر: ذُو بطن بنت خارِجةَ أُرَاهَا جارِيةً ... موطأ مالك اگر ألقي في روعي کے الفاظ بھی صحیح سند سے ثابت ہیں تو ان کا مطلب بھی یہی ہے۔ بعض کے نزدیک انہوں نے اس کے متعلق خواب دیکھا تھا۔
اور قیاس آرائی يا قیافہ شناسی تو کوئی بھی کر سکتا ہے۔
کیا اس سے قرآن کو ردّ یا نسخ کر دیا جائے گا؟؟؟
آپ حضرات کے نزدیک غیر قرآن نہ قرآن کا نسخ کر سکتا ہے اور نہ ہی تخصیص۔
پھر یہ نسخ یا تخصیص کیوں؟؟؟ وہ بھی من گھڑت واقعات سے؟؟؟
 
شمولیت
اکتوبر 13، 2011
پیغامات
22
ری ایکشن اسکور
121
پوائنٹ
42
انس بھائی ہم بحث برائے بحث کو محض وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں اور ہم بحث برائے بحث سے اجتناب کرتے ہیں ۔
ہم نے بہت آسان اور سادہ لفظوں میں آپ کے اشکال کی وضاحت پیش کردی ہے ۔۔۔۔ اب اگر آپ کے سمجھ میں نہیں آیا تو یقینا یہ ہماراہی قصور ہے کہ ہم شاید صحیح سے وضاحت نہ کرسکے ۔
ہم ایک بار پھر واضح کردیتے ہیں :
ہم واضح کرچکے ہیں کہ غیب کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا
ہم واضح کرچکے ہیں کہ کسی غیر نبی کو غیب کی (یقینی اور قطعی) خبر نہیں
ہم واضح کرچکے ہیں کہ غیر نبی کی کوئی ایسی اطلاع جو بعد میں پوری ہوئی ہو (جس کو عرف عام میں غیب ہی کہا جاتا ہے) وہ قطعی اور یقینی نہیں
اس سے بھی زیادہ آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ ایک غیر نبی نے کوئی ایسی اطلاع دی ۔۔۔ جو غیب میں سے تھی ۔۔۔۔ تو اس غیر نبی کا اس خبر کا اطلاع دینا ’’اس کا ظن یا گمان‘‘ کہلاتا ہے(اور یہ اُس کا ظن یا گمان پورا ہوا) ۔۔۔۔۔یا کہا جاتا ہے کہ اس غیر نبی کی بات مستجاب ہوئی اور موافق تقدیر پوری ہوئی ۔۔۔۔۔لیکن اس کو غیب کی خبر پر مطلع ہونا یا غیب جاننا نہیں کہلاتا ۔۔۔۔
باقی آپ نے جو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہا والی روایت کی جو وضاحت فرمائی وہ خوب تھی کہ ’’قیاس آرائی اور قیافہ شناسی تو کوئی بھی کرسکتا ہے ‘‘۔۔۔۔تو ہم آپ کی خدمت میں ایسی ہی قیاس آرائی کی دو مثالیں مولانا ابراہیم سیالکوٹی صاحب کی کتاب ’’کرامات اھل حدیث‘‘ سے پیش کررہےہیں ۔۔۔۔۔آپ سے گذارش ہے کہ ایک تو یہ فرمادیں کہ آپ نے ایسی کتنی قیاس آرائی فرمائیں ہیں جو واقعہ کے مطابق پوری ہوئیں
اور اگر آپ ان قیاس آرائیوں کو مولانا ابراہیم سیالکوٹی صاحب کی طرح ’’کرامات ‘‘ میں جگہ دے دیں تو پھر آپ ان دو واقعات کی جو وضاحت فرمانا چاہیں گے وہی جواب ہماری طرف سے بھی سمجھ لیجیے گا
اس کے بعد اگرتو آپ کو مسئلہ سمجھ میں آجائے تو بہت اچھی بات ہے ۔۔۔۔بصورت دیگر ہم بحث برائے بحث کرنے سے قاصر رہیں گے ۔۔۔۔۔اور آپ کے اگلے جواب میں کسی اشکال کا کوئی ایسا وزن محسوس ہوا کہ جس کی وضاحت ہم جواب میں شامل نہیں ہے تو ان شاء اللہ تعالیٰ ہم اس کو مزید واضح کرنے کی ضرور کوشش کریں گے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے ۔آمین
(ضروری گذارش : ہم نے مولانا ابراہیم سیالکوٹی صاحب کی کتاب کا عکس اٹیچ کرنے کی بہت کوشش کی لیکن نہ ہوسکی لہذا ہم کتاب کا لنک پیش کرہے ہیں اس کتاب کے صفحہ نمبر ١٤ پر پانچویں کرامت اور اُس کے بعد والی کرامت کا مطالعہ فرما کر جواب عنایت فرمادیجیے گا)
کتاب ’’کرامات اھل حدیث‘‘ کا لنک یہ ہے :
kramat e ahlehadees.pdf
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
انس بھائی ہم بحث برائے بحث کو محض وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں اور ہم بحث برائے بحث سے اجتناب کرتے ہیں ۔
ہم نے بہت آسان اور سادہ لفظوں میں آپ کے اشکال کی وضاحت پیش کردی ہے ۔۔۔۔ اب اگر آپ کے سمجھ میں نہیں آیا تو یقینا یہ ہماراہی قصور ہے کہ ہم شاید صحیح سے وضاحت نہ کرسکے ۔
ہم ایک بار پھر واضح کردیتے ہیں :
ہم واضح کرچکے ہیں کہ غیب کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا
ہم واضح کرچکے ہیں کہ کسی غیر نبی کو غیب کی (یقینی اور قطعی) خبر نہیں
ہم واضح کرچکے ہیں کہ غیر نبی کی کوئی ایسی اطلاع جو بعد میں پوری ہوئی ہو (جس کو عرف عام میں غیب ہی کہا جاتا ہے) وہ قطعی اور یقینی نہیں
اس سے بھی زیادہ آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ ایک غیر نبی نے کوئی ایسی اطلاع دی ۔۔۔ جو غیب میں سے تھی ۔۔۔۔ تو اس غیر نبی کا اس خبر کا اطلاع دینا ’’اس کا ظن یا گمان‘‘ کہلاتا ہے(اور یہ اُس کا ظن یا گمان پورا ہوا) ۔۔۔۔۔یا کہا جاتا ہے کہ اس غیر نبی کی بات مستجاب ہوئی اور موافق تقدیر پوری ہوئی ۔۔۔۔۔ لیکن اس کو غیب کی خبر پر مطلع ہونا یا غیب جاننا نہیں کہلاتا ۔۔۔۔
باقی آپ نے جو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہا والی روایت کی جو وضاحت فرمائی وہ خوب تھی کہ ’’قیاس آرائی اور قیافہ شناسی تو کوئی بھی کرسکتا ہے ‘‘۔۔۔۔تو ہم آپ کی خدمت میں ایسی ہی قیاس آرائی کی دو مثالیں مولانا ابراہیم سیالکوٹی صاحب کی کتاب ’’کرامات اھل حدیث‘‘ سے پیش کررہےہیں ۔۔۔۔۔آپ سے گذارش ہے کہ ایک تو یہ فرمادیں کہ آپ نے ایسی کتنی قیاس آرائی فرمائیں ہیں جو واقعہ کے مطابق پوری ہوئیں
اور اگر آپ ان قیاس آرائیوں کو مولانا ابراہیم سیالکوٹی صاحب کی طرح ’’کرامات ‘‘ میں جگہ دے دیں تو پھر آپ ان دو واقعات کی جو وضاحت فرمانا چاہیں گے وہی جواب ہماری طرف سے بھی سمجھ لیجیے گا
اس کے بعد اگرتو آپ کو مسئلہ سمجھ میں آجائے تو بہت اچھی بات ہے ۔۔۔۔بصورت دیگر ہم بحث برائے بحث کرنے سے قاصر رہیں گے ۔۔۔۔۔اور آپ کے اگلے جواب میں کسی اشکال کا کوئی ایسا وزن محسوس ہوا کہ جس کی وضاحت ہم جواب میں شامل نہیں ہے تو ان شاء اللہ تعالیٰ ہم اس کو مزید واضح کرنے کی ضرور کوشش کریں گے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین
(ضروری گذارش : ہم نے مولانا ابراہیم سیالکوٹی صاحب کی کتاب کا عکس اٹیچ کرنے کی بہت کوشش کی لیکن نہ ہوسکی لہذا ہم کتاب کا لنک پیش کرہے ہیں اس کتاب کے صفحہ نمبر ١٤ پر پانچویں کرامت اور اُس کے بعد والی کرامت کا مطالعہ فرما کر جواب عنایت فرمادیجیے گا)
کتاب ’’کرامات اھل حدیث‘‘ کا لنک یہ ہے :
kramat e ahlehadees.pdf
يا أخي! مالي أدعوك إلى القرآن وتدعوني إلى القصص؟؟؟
محترم بھائی! میں بار بار آپ کو آیاتِ قرآنی کی طرف لاتا ہوں اور آپ مجھے قصوں کہانیوں کی طرف لے جاتے ہیں۔
’کراماتِ اہل حدیث‘ میں کیا لکھا ہے اور کیا نہیں، مجھے اس سے سروکار نہیں، کیونکہ وہ دلیل نہیں، دلیل تو کتاب وسنت کا نام ہے اور بس! اگر آپ کے نزدیک دلیل ہے تو بتائیے؟؟؟

یہاں آپ نے میری بات ہی دہرا دی اور اسے تسلیم کر لیا۔
ایک غیر نبی نے کوئی ایسی اطلاع دی ۔۔۔ جو غیب میں سے تھی ۔۔۔۔ تو اس غیر نبی کا اس خبر کا اطلاع دینا ’’اس کا ظن یا گمان‘‘ کہلاتا ہے ۔۔۔۔ لیکن غیب کی خبر پر مطلع ہونا یا غیب جاننا نہیں کہلاتا
اور ظن وگمان کو کسی صورت غیب کی خبر دینا نہیں کہا جا سکتا۔
اگر کوئی کہے کہ مجھے لگتا ہے کہ آج بارش ہوگی، اور بارش ہو جائے تو یہ ان صاحب کا گمان اور اٹکل تھا، غیب جاننا نہیں۔

باقی آپ کا یہ جملہ کافی تکلیف دہ ہے:
ہم بحث برائے بحث کو محض وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں اور ہم بحث برائے بحث سے اجتناب کرتے ہیں۔
ہم یہاں اصلاح اور دعوت کیلئے اکٹھے ہوتے ہیں، ضائع کرنے کیلئے وقت کسی کے پاس بھی نہیں۔
 
Top