بسم اللہ الرحمن الرحیم
مفاتح الغیب
السلام علیکم ورحمتہ اللہ !
محترم قارئین کرام اس سے قبل کہ ہم فریق مخالف کے کچھ مزید دلائل کی وضاحتیں پیش کریں ۔۔۔مناسب ہے کہ یہاں ایک اوراہم نکتہ کی وضاحت پیش کردی جائے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(اإِنَّ اللَّـهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ الخلقمان 34 پارہ21
(ترجمہ:سمجھ رکھو کہ اللہ ہی کے پاس قےامت کا علم ہے،وہی بارش نازل فرماتا ہے، اور ماں کے پیٹ میں جو ہے اسے جانتا ہے ،کوئی بھی نہیں جانتا کہ کل کیا کچھ کرے گانہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ کس زمین میں مرے گا،یاد رکھو اللہ پورے علم والااور صحیح خبروں والا ہے)
اس آیت میں پانچ چیزوں کا ذکر ہے جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
وقت قیامت کا علم ۔۔۔۔بارش کے نزول کا علم ۔۔۔۔ ماں کے پیٹ کا علم ۔۔۔۔آنے والے کل کا علم۔۔۔۔اور ہر ذی نفس کی موت کا علم ۔
یعنی قیامت آکر کر رہے گی مگر کب آئے گی ؟اس کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں ،نہ معلوم کب یہ کارخانہ توڑ پھوڑ کر برابر کردیا جائے ۔
زمین کی ساری رونق اور مادی برکت (جس پر مخلوق کی خوشحالی کا دارومدار ہے )آسمانی بارش پر موقوف ہے ،سال دو سال مینہ نہ برسے تو خاک اڑنے لگے ۔مگر یہ بارش کب ہوگی ،کہاں ہوگی ،کتنی مقدا ر میں ہوگی ،کن کن نتائج کی حامل ہوگی اس کو بھی صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ۔
اور اس کا علم بھی اللہ تعالیٰ ہی کو ہے کہ ارحام کے اندر کیا ہے ،لڑکے ہیں یا لڑکیاں ہیں ،گورے ہیں یا کالے ہیں ،صحیح الاعضاءہیں یا ناقص الاعضاءہیں ،پیدا ہونے کے بعد ان کی عمر کیا ہوگی ،روزی کتنی ملے گی ،کیا کیا کام کریں گے ،سعید ہوں گے یا شقی وغیرہ وغیرہ ۔
یہ بھی کوئی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا (خود ساختہ پروگرام کا سوال نہیں ہے ) نفع کمائے گا یا نقصان ،نیکی کرے گا یا بدی اور کچھ کرنے کے لئے زندہ بھی رہے گا یا نہیں ۔
اور کوئی نہیں جانتا کہ اُس کی موت کب آئے گی ،کہاں آئے گی ،کس نوعیت کی ہوگی ،دفن ہوگا یا جانور کھا جائیں گے ،کس جگہ دفن ہوگا وغیرہ
احادیث پاک میں ان پانچ چیزوں کو مفاتح الغیب کہا گیا ہے ۔۔۔جن کا علم کلی بجز اللہ تعالیٰ کے اور کسی کو نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کواحکام غیبیہ کا علم عطاءفرمایا ہے اور اکوان غیبیہ میں سے بہت سے جزئیات کو علم بھی آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو عطاءکیا گیا ۔۔۔ہاں اکوان غیبیہ کی کلیات اور اصول کا علم بجز اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا ۔
رہی ان پانچ اشیاءکی تخصیص ۔۔۔۔تو اس کی کئی وجوہ ہیں ۔
اول
کیوں کہ سوال کرنے والوں نے ان ہی پانچ چیزوں کے متعلق سوال کیا تھا لہذا جواب میں ان پانچ اشیاءکو ہی ملحوظ رکھا گیا ۔
چناچہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ،علامہ بغوی رحمہ اللہ،علامہ عینی رحمہ اللہ،علامہ سیوطی رحمہ اللہ،علامہ آلوسی رحمہ اللہ،ملااحمد جیون الحنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔
نقل فی نزولھا ان حارث بن عمر جاءالیٰ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم وقال اخبرنی عن الساعة ایان مرسھا وقد زرعت بذافاخبرنی متی ینزل الغیث وامراءتی حاملة فاخبرنی عما فی بطنھا ذکرام انثیٰ واعلم ماوقع امس واخبرنی عما یقع غدا وعلمت ارضا ولدت فیھا اخبرنی عما ادفن فیہ فنزلت الآیة المذکورة فی جوابہ یعنی ان ھذا الخمسة فی خزانة غیب اللہ لایطلع علیہ احد من البشر والملک والجن اھ (ابن کثیر جلد3 صفحہ 455)(معالم التنزیل،جلد 3 صفحہ 156)(عمدة القاری جلد 11 صفحہ 519)(درمنشور جلد5 صفحہ170) (روح المعانی جلد21 صفحہ97) (تفسیر احمدی صفحہ 396)
یعنی اس کا شان نزول یہ نقل کیا گیا ہے کہ حارث بن عمررضی اللہ عنہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے سوال کیا مجھے بتائےے کہ قیامت کب آئے گی اور کب اس کا قیام ہوگا،اور میں نے کھیتی بو کر اس میں بیج ڈالا ہے بتائیے بارش کب ہوگی،اور میری بیوی حاملہ ہے فرمائےے کہ اس کے پیٹ میں لڑکا ہے یا لڑکی،مجھے تو یہ علم ہے کہ گذشتہ کل میں کیا ہوا ،آپ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم مجھے بتائےے کہ آنے والے کل میں کیا کچھ ہوگا ؟اور مجھے علم ہے کہ میں کس زمین میں پیدا ہوا آپ مجھے یہ بتائیں کہ میں کہاں دفن کہاں ہوں گا۔آپ کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئیں کہ یہ پانچ چیزیں اللہ تعالیٰ کے خزانہ غیب میں ہیں ان پر نہ تو کوئی بشر اور فرشتہ مطلع نہ ہوسکا ہے اور نہ جن“
(معالم التنزیل ،عمد ة القاری اور روح المعانی وغیرہ میں حارث کی بجائے وارث اور عمرکی جگہ عمروآیا ہے)
جو بھی ہو مطلب واضح ہے کہ چونکہ سوال ہی ان پانچ اشیاءکے متعلق ہوا تھا اس لئے جواب میں بھی انہی پر اقتصار کیا گیا ہے ۔۔۔۔اگر چہ ہزاروں اور لاکھوں ہی نہیں بلکہ کروڑوں چیزیں ایسی ہیں جن کا تفصیلی علم صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی کو حاصل ہے ۔
امام رازی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
”اس آیت مبارک کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ بس انہی پانچ چیزوں کا علم اللہ تعالیٰ سے مخصوص ہے کیوں کہ اُ س کا ذرہ بے مقدار کا علم بھی اللہ ہی کو ہے جو مثلاطوفان نوح کے زمانے میں ریت کے کسی ٹیلے میں تھا اور بعد میں ہوا نے اُس کو بار ہا مشرق سے مغرب کی طرف منتقل کیا“(تفسیر کبیر،جلد 6 صفحہ503)
دوسری وجہ یہ ہے کہ جیسا کہ حافظ ابن حجر ،علامہ بدرالدین عینی اور مفتی عبدہ لکھتے ہیں ،جس کا خلاصہ ہماری عبارت میں یوں ہے :
ان پانچ چیزوں کے اندر حصر کی حکمت یہ ہے کہ عالم پانچ قسم کے ہیں :
1 ۔ عالم حیوان ’’یعلم مافی الارحام‘‘ اسی کی طرف اشارہ ہے
2۔عالم نباتات یا باالفاظ دیگر عالم علوی جو نباتات کا سبب اور ذریعہ ہے ’’وینزل الغیث‘‘ میں اسی طرف اشارہ ہے ۔
3 ۔عالم سفلی یا باالفاظ دیگر عالم برزخ ’’بای ارض تموت‘‘ میں اسی طرف اشارہ ہے ۔
4۔عالم زمان اور جو کچھ اس میں حوادث ہوتے ہیں ”ماذا تکسب غدا “ میں اسی طرف اشارہ ہے ۔
5 ۔اور عالم آخرت اور ”عندہ علم الساعة “اسی طرف مشیر ہے ۔
(دیکھئے فتح الباری ج13 ص309)(عمدة القاری ج11 ص519)(تفسیر المنارج ج7 ص 468 )
اور الشیخ احمد المدعو بملا جیون الحنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
فان قلت فما فائدہ ذکرالخمسة لان جمیع المغیبات کذٰلک قلت فائدتہ ان ھذا الخمسة معظم الغیوبات لانھا مفاتحھا فانہ اذا وقف مثلا علیٰ مافی غد وقف علیٰ موت زید و تولد عمرو وفتح بکر و مقھوریة خالد وقدوم بشر وغیر ذٰلک مما فی الغد وھکذا القیاس (التفیسرات الاحمدیة ص397)
”یعنی اگر تو یہ کہے کہ ان پانچ اشیاءکے ذکر کرنے میں کیا فائدہ ہے ،حالانکہ سب مغیباب اسی طرح ہیں تو میں جواب کہوں گا ،ان پانچ اشیاءکا ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ معظم غیوبات بلکہ غیوبات کی چابیاں ہی یہی ہیں،کیوں کہ اگر مثلا کوئی شخص کل کے حوادث پر آگاہ ہوگیا تو زید کی موت ،عمرو کی ولادت ،بکر کی فتح ،خالد کی شکست اور بشر کی آمد پر اور اسی طرح جو کچھ جو کل ہونے والا ہے اس سب پر آگاہ ہوگیا( تو کوئی چیز باقی رہی ہی نہیں) اور اسی طرح باقی (چار چیزوں )پر اس کا قیاس کرو“
یعنی بزرگوں نے ان پانچ چیزوں کی یہ حکمت بیان کی ہے کہ ان پانچ چیزوں کی کنجیوں سے غیوب کے خزانے نکلتے ہیں ۔(واللہ واعلم)
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر احادیث پاک پیش کردی جائیں ۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
ان رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم قال مفاتح الغیب خمس لایعلمھا الااللہ لایعلم مافی غدا لااللہ ولا یعلم ماتغیض الارحام الااللہ ولا یعلم متی یاءتی المطراحد الااللہ ولاتدری نفس بای ارض تموت ولایعلم متی تقوم الساعة الااللہ “ (بخاری ج 1ص 141۔و ۔ج 2ص 681۔۔و ۔۔ج2 ص 1097)واللفظہ لہ مسلم و مسند احمد ج 2 ص 24۔۔و ج 2 ص 52۔۔و ۔۔ج 2ص 58 ) (درمنشور ج 3 ص15۔۔و۔۔ج 5 ص170)(مواردالظمآن ص434)
یعنی حضور سرور عالم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مفاتح الغیب یہ پانچ چیزیں ہیں جن کو بجز اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا اللہ تعالیٰ کے بغیر کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا واقعات رونما ہوں گے ،اور سوا اللہ کے کوئی نہیں جانتا کہ ارحام(بچہ دانیوں ) میں کیا ہے (مثلا نر یا مادہ ایک یا زیادہ وغیرہ) اور اس کے سوا کسی کوخبر نہیں کہ بارش کب ہوگی ؟اور کسی نفس کو معلوم نہیں کہ اس کی موت کس سرزمین میں واقع ہوگی اور خدا تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب ہوگی ؟
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جناب نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’اتیت مفاتح کل شیئی الا الخمس ان اللہ عندہ علم الساعة وینزل الغیث ویعلم مافی الارحام الی قولہ خبیر الخ
(کنز العمال ج 6 ص 106)(مسند احمد ج2 ص85)(درمنشور ج5 ص170)(ابن کثیر ج 3 ص454)(امام سیوطی لکھتے ہیں بسند صحیح خصائص الکبریٰ ج 2 ص195)(علامہ عزیزی لکھتے ہیں قال الشیخ الحدیث صحیح(السراج المنیر ج2 ص79)(علامہ آلوسی لکھتے ہیں بسند صحیح روح المعانی ج21 ص 99)
”یعنی مجھے ہر چیز کی چابیاں عطا کی گئیں ہیں مگر ان پانچ چیزوں کی( عطا نہیں کی گئیں) ،اللہ ہی کے پاس ہیں علم قیامت کا اوربارش نازل کرنے کا اور مافی الارحام کا ۔۔۔۔خبیر تک (جو سورہ لقمان کی آخری آیتیں ہیں)
اورابن عمر رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں ہے
’’اُوتی لنبیکم مفاتح الغیب الا الخمس ثم تلا ھذا الایة ان اللہ عندہ الآیتہ الخ
(طیا لسی249 )(خصائص الکبریٰ ج 2 ص 195وقال اخرجہ احمد والطبرانی بسند صحیح )
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (المتوفی32 ھ) فرماتے ہیں:
اعطی نبیکم صلیٰ اللہ علیہ وسلم مفاتح الغیب الاالخمس ان اللہ عندہ علم الساعة (الیٰ اٰخر السورة)
(طیالسی ص 51)(فتح الباری ج 8 ص395)(مسند احمد ج 4 ص 438 )
”یعنی تمہارے نبی حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم غیب کے خزانے عطا کئے گئے ہیں مگر یہ پانچ امورعطا نہیں کئے گئے جو سورہ لقمان کی آخر میں ہیں“
نیز فرماتے ہیں کہ:
”اوتی نبیکم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کل شیئی سوی ھذہ الخمس الخ
(فتح الباری ج 1 ص 115،ج 8 ص 395،ج 13ص308 )(تفسیر ابن کثیر ج 3 ص454 وقال ہذا اسناد حسن )(درمنشور ج 5 ص170)
یعنی نبی کریم حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو ہر چیز کا علم عطا کیا گیا ہے سوائے ان پانچ چیزوں کے (کہ ان کا علم کسی کوبھی عطا نہیں ہوا)
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ(المتوفی 62 ھ)فرماتے ہیں:
”سمعت رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم یقول خمس لایعلمن الااللہ ان اللہ عندہ علم الساعة وینزل الغیث ویعلم مافی الارحام وما تدری نفس ماذا تکسب غدا وما تدری نفس بای ارض تموت ان اللہ علیم خبیر ۔
(مسند احمد ج :5 ص:353)(داروہ الضیاءالمقدسی سند صحیح ،در منشور ج 5 ص170)وقال ابن حجر صحیح ،ابن حبان و الحاکم ،(فتح الباری ج10 ص 132)(حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں ھذا حدیث صحیح الاسناد ،تفسیرج3 ص454 )
یعنی میں نے جناب نبی کریم حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانچ چیزیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا ،بے شک اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے علم قیامت کا ،اور وہی (اپنے علم کے مطابق )اتارتا ہے بارش اور وہی جانتا ہے جو کچھ ارحام میں ہے اور کسی کو نہیں معلوم کہ وہ کل کیا کرے گا،اور کسی کو نہیں معلوم کہ وہ کس زمین میں مرے گا ،یقینا اللہ تعالیٰ ہی ان چیزوں کا جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے“
حضرت ایاس بن سلمہ رحمہ اللہ(المتوفی 119ھ) اپنے والد حضر ت سلمہ رضی اللہ عنہ(المتوفی 74 ھ) سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص آیا اور اس نے حضور حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے چند سوالات کئے ،ایک یہ بھی تھا:
” قال متی تقوم الساعة فقال رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم غیب ولا یعلم الغیب الااللہ (مستدرک ج1 ص7) قال احاکم و الذہبی علیٰ شرط مسلم)
”یعنی قیامت کب آئے گی ؟تو حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (قیامت کا علم) غیب ہے اور غیب کو اللہ کے سوا کوئی اور نہیں جانتا“
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’ھذا الخمسۃ لایعلمھا ملک مقرب ولا نبی مصطفیٰ فمن ادعی انہ یعلم شیئا من ھذا فقد کفر بالقراٰن لانہ خالفہ الخ (تفسیر خازن ج 5ص183)
”یعنی یہ پانچ چیزیں وہ ہیں کہ ان کا علم نہ تو کسی مقرب فرشتہ کو ہے اور نہ جناب نبی کریم حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو ،تو جو کوئی ان میں سے کسی چیز کے علم کا دعوی کرے تو اس نے قرآن کریم کا انکار کیا ،کیوں کہ اس نے اس کی مخالفت کی ہے“
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
’’لم یعلم علیٰ نبیکم صلیٰ اللہ علیہ وسلم الا الخمس من سرائر الغیب ھذہ الآیة فی اٰخر لقمان الیٰ اٰخر الاٰیة (درمنشور ج 5ص 170)
’’یعنی تمہارے نبی حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم پر اسرار غیب سے بس یہی پانچ چیزیں مخفی رکھیں گئیں ہیں جو سورہ لقمان کی آخری آیت میں مذکور ہیں“
ابو امامہ رضی اللہ عنہ (المتوفی 86 ھ ) سے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ :
’’ان اعرابیا وقف علیٰ النبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم یوم بدر علیٰ ناقة لہ عشراءفقال یا محمد مافی بطن ناقتی ھذہ فقال لہ رجل من الانصار دع عنک رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم وھلم الی حتی اُخبرک وقعت انت علیھا وفی بطنھا ولد منک فاعرض عنہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم ثم قال ان اللہ یحب کل حیی کریم متکرہ ویبغض کل لیئم متفحش ثم اقبل علیٰ الاعرابی فقال خمس لا یعلمھن الااللہ ان اللہ عندہ علم الساعة الآیة (درمنشور ج 5ص 170)
یعنی غزﺅہ بدر کے دن ایک اعرابی اپنے دن مہینے کی گابھن اوٹنی پر سوار ہوکر جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اے محمدصلیٰ اللہ علیہ وسلم بتائیے میری اس اوٹنی کے پیٹ میں کیا ہے ؟ایک انصاری نے( طیش میں آکر)اُس سے کہا کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے ہٹ کر میرے پاس آ تاکہ میں تجھے بتلاﺅں تونے اس اوٹنی سے مجامعت کی ہے اور اس کے پیٹ میں تیرا بچہ ہے ،آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر اس انصاری کی طرف سے منہ پھیر لیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہر صاحب حیا اور صاحب وقار کوجو گندی باتوں سے کنارہ کشی کرتا ہو پسند کرتا ہے اور ہر کمینہ اور بدزبان کو مبعوض رکھتا ہے ،پھر حضور اقدس صلیٰ اللہ علیہ وسلم اُس اعرابی کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا پانچ چیزیں وہ ہیں جن کا علم بجز اللہ تعالیٰ کے اور کسی کو نہیں پھر آپ نے سورہ لقمان کی یہ آخری آیت پڑھی ”ان اللہ عندہ علم الساعة “الآیة
حضرت سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ (المتوفی 74 ھ ) سے روایت ہے ،وہ فرماتے ہیں :
”کان رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم فی قبة حمراءاذ جاءرجل علیٰ فرس فقال من انت قال انا رسول اللہ،قال متی الساعة ؟قال غیب وما یعلم الغیب الااللہ قال مافی بطن فرسی ؟قال غیب وما یعلم الغیب الااللہ قال فمتی یمطر ؟قال غیب وما یعلم الغیب الااللہ الخ (درمنشور ج5 ص170)
یعنی جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم ایک سرخ رنگ کے خیمہ میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص گھوڑی پر سوار ہوکر آیا اور دریافت کیا کہ آپ کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ میں خدا تعالیٰ کا رسول ہوں ،اس نے دریافت کیا قیامت کب آئے گی ؟آپ نے فرمایا یہ غیب کی بات ہے اور اللہ تعالیٰ کے سوا اس کو کوئی نہیں جانتا ،پھر اس نے سوال کیا میری گھوڑی کی پیٹ میں کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ غیب ہے اور غیب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا ،پھر اس نے کہا کہ بارش کب ہوگی ؟آپ نے فرمایا کہ یہ بھی غیب ہے اور اس کو خدا تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا “
حضرت لقیط بن عامر رضی اللہ عنہ کی ایک طویل حدیث میں آتا ہے کہ :
’’قلت یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم عن حاجتی فلا تعجلن علی قال سل عما شئت قلت یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم ھل عندک من علم الغیب فضحک لعمراللہ وھزواءسہ وعلم انی ابتغی بسقطہ فقال ضن ربک بمفاتح خمس من الغیب لایعلمن الا اللہ و اشارہ بیدہ (الحدیث ) (مستدرک ج 4ص 561 قال الحاکم صحیح الاسناد والبدایہ والنہایہ ج5 ص80)
یعنی میں نے کہا یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم میں آپ سے اپنی ایک حاجت کے بارے میں سوال کرتا ہوں سو آپ مجھ پر جلدی نہ کریں ،آپ نے فرمایا جو چاہتا ہے پوچھ ؟میں نے کہا کہ یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کیا آپ کے پاس علم غیب ہے ؟ بخدا آپ زور سے ہنسے اور سر مبارک کو حرکت دی اور آپ کو خیال گذرا کہ شاید میں نے آپ کی منزلت کو گرانے کے درپے ہوں تو آپ نے فرمایا کہ مفاتح الغیب کو بتانے میں اللہ تعالیٰ نے رازداری سے کام لیا ہے ان کو اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا ،پھر اپنے ہاتھ سے ان مفاتح الغیب کی طرف اشارہ فرمایا کہ وہ پانچ ہیں ۔
(حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے تصریح فرمائی ہے کہ لقیط بن عامر ابو رزین العقیلی کا یہ سوال رجب9 ھ کو پیش آیا تھا (دیکھئے البدایہ والنہایہ ج5 ص 40,80)
حضرت ربعی بن خراش (المتوفی 100ھ)سے روایت ہے :
’’حدثنی رجل من بنی عامر انہ قال یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم ھل بقی من العلم شیئی لا تعلمہ قال قد علمنی اللہ عزوجل الخمس ان اللہ عند ہ علم الساعة وینزل الغیث ویعلم مافی الارحام الآیة “(راوہ احمد فی مسند )(وقال ابن کثیر ج 3 ص 455ہذا اسناد صحیح) (در منشور ج 5ص 170)
’’یعنی مجھ سے بنی عامر کے ایک شخص نے بیان کیا کہ میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ علم میں سے کوئی ایسی چیز بھی باقی ہے جس کو آپ نہ جانتے ہوں ،حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بہت سی خیر کی تعلیم دی ہے اور بے شک علوم میں سے وہ بھی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا چناچہ پانچ باتیں جو سورہ لقمان کی آخری آیت میں مذکور ہیں ،ان کا پورا علم بس اللہ تعالیٰ ہی کو ہے کسی دوسرے کو نہیں “
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ(المتوفی 256ھ ) کی روایت میں یوں آتا ہے کہ :
”بے شک اللہ تعالیٰ نے خیر کی تعلیم دی ہے لیکن ایسا علم بھی جس کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں “(جیسا کہ سورہ لقمان کی آخری آیت میں ہے)
(ادب المفرد ص 159)
حضرت مجاہد رحمہ اللہ(المتوفی 102 ھ) فرماتے ہیں :
’’وھی مفاتح الغیب التی قال اللہ تعالیٰ وعندہ مفاتح الغیب لایعلمھا الاھو الخ (ابن کثیر ج3 ص455)
”یہ پانچ چیزیں وہی مفاتح الغیب ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مفاتح الغیب کا علم صرف اللہ کو ہے اس کے سوا ان کو کوئی نہیں جانتا“
میرے مسلمان بھائیو،دوستو اور بزرگو!
اوپر پیش کی گئی سورہ لقمان کی آیت مبارکہ اور اس کی تفسیر میں پیش کی گئی صحیح احادیث پاک اور آثار صحابہ سے یہ بات بالکل آئینہ کی طرح صاف و شفاف ہوجاتی ہے کہ سورہ لقمان میں بیان ہوئی ان پانچ چیزوں کا علم سوائے اللہ رب العزت کے سوا کسی کو نہیں ۔
اب یہاں یہ اشکال سامنے آتا ہے کہ مثلا کہ احادیث پاک ،آثار صحابہ یا بزرگان دین کے اقوال میں ان پانچ چیزوں میں سے کئی چیزوں کی خبر انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام ،صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین یا اولیا ئے کرام رحمھم اللہ نے دیں ہیں پھر اس آیات مبارکہ میں
”حصر“ کیسے صحیح ہے کہ ان پانچ چیزوں کا علم سوائے اللہ کے کسی کو نہیں ؟؟؟
اس اہم ترین نکتہ کو سمجھنے کے لئے آپ تمام قارئین کرام سے توجہ کی درخواست ہے۔
قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ (لقمان 34)میں جس علم کی اللہ تعالیٰ کی ذات ستودہ صفات کے ساتھ تخصیص کی گئی ہے ،وہ علم کلی ہے ۔۔۔۔مطلب یہ ہے کہ ان اشیاءکے کلیات کا بطور کلی علم صرف ذات خداوندی کے ساتھ مخصوص ہے۔اور بعض احادیث پاک اور آثار اور اقوال علماءمیں سے ان میں سے جن بعض جزئیات کا علم غیر اللہ کے لئے ثابت ہواہے تو وہ صرف علم جزئی ہے۔۔۔اور ایجاب جزئی اور رفع ایجاب کلی میں کوئی منافات نہیں ہوتی۔
چناچہ علامہ آلوسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’فاللائق ان لا یعتبر فی الآیة سلب العموم بل یعتبر عموم السلب ویلتزم ان القاعدة اغلبیة وکذا یقال فی السلب والعموم فی جانب الفاعل الخ (روح المعانی ج20ص 12)
”یعنی یہ امر قابل غور ہے اور لائق فکر ہے کہ آیت میں سلب عموم معتبر نہیں ہے بلکہ عموم سلب مراد ہے اور یہ بات بھی قابل التزام ہے کہ یہ قاعدہ اکثر یہ ہے اور اسی طرح جانب فاعل میں سلب اور عموم کو ملحوظ رکھنا چاہیے“
بلکہ اس سے بھی زیادہ صاف اور واشگاف الفاظ میں یوں لکھتے ہیں:
’’انہ یجوازن یطلع اللہ تعالیٰ بعض اصفیاءہ علیٰ احدی ھذہ الخمس ویرزقہ عزوجل العلم بذلک فی الجملة وعلمھا الخاص بہ جل وعلا ماکان علیٰ وجہ الاحاطة والشمول لاحوال کل منھا وتفصیلہ علیٰ الوجہ الاتم وفی شرح المناوی للجامع الصغیر فی الکلام علیٰ حدیث بریدة السابق خمس لا یعلمھن الا اللہ علیٰ وجہ الاحاطة والشمول کلیا وجزئیا فلا نیا فیہ اطلاع اللہ تعالیٰ بعض خواصہ علیٰ بعض المغیبات حتی من ھذہ الخمس لانھا جزئیات معدودة اھ (تفسیر روح المعانی،جلد 21،صفحہ:100)
”یعنی یہ جائز کہ اللہ تعالیٰ اپنے بعض برگزیدہ بندوں کو ان پانچ امور میں سے کسی چیز پر مطلع کردے اور اللہ تعالیٰ ان کو فی الجملہ ان کا علم عطا فرمادے ان علوم خمسہ میں سے جو علم اللہ تعالیٰ سے مخصوص ہے وہ ایسا علم ہے جو علےٰ وجہ الاحاطہ اور علی سبیل الشموں ہے کہ ان میں سے ہر ایک کا علیٰ وجہ الاتم تفصیلی علم اس پر مشتمل ہو،جامعہ صغیر کی شرح میں علامہ مناوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں جو یہ آیا ہے کہ ان پانچ چیزوں کا علم سوائے باری تعالیٰ کے کسی اور کو نہیں ،اس سے مراد یہ ہے کہ ان تمام کلیات اور جزئیات کا علیٰ سبیل الاحاطة والشمول علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے اور یہ اس کے منافی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بعض خاص خاص بندوں کو ان پانچ میں سے بعض مغیبات پر مطلع کردے ،کیوں کہ یہ تو چند گنے چنے واقعات اور معدودے چند جزئیات ہیں“
اوراسی طرح ملا علی قاری رحمہ اللہ ارشاد فرماتے ہیں:
’’فان قلت قد اخبر الانبیاءوالاولیاءبشیئی کثیر من ذٰلک فکیف الحصر قلت الحصر باعتبار کلیا تھا دون جزئیتھا
الخ (مرقات ج 1ص 66) (فتح الملہم ج1 ص 172)
”اگر تو یہ کہے کہ حضرات انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام اور اولیاءعظام نے ان پانچ میں سے بہت سی چیزوں کے بارے میں خبر دی ہے تو یہ حصر کیسے صحیح ہے کہ اللہ ہی کے پاس اس کا علم ہے؟تو میں اس کے جواب میں کہوں گا کہ حصر کلیات کے اعتبار سے ہے جزئیات کے اعتبار سے نہیں“
میرے مسلمان بھائیوں ،دوستو اور بزرگو!
یہ وہ اہم نکتہ ہے کہ جس کو نہ سمجھتے ہوئے فریق مخالف اپنے دعوی میں اور ان صریح آیت مبارکہ میں پیدا ہونے والے واضح تعارض کو
(یعنی فریق مخالف کلی علم غیب کی عطاءکا مدعی ہے جبکہ اس صریح آیت مبارکہ میں واضح ہے کہ ان پانچ چیزوں کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں اور اسی طرح صحیح احادیث پاک میں بھی تصریح ہے کہ ان پانچ چیزوں کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں )محض ذاتی اور عطائی کہہ کر دور کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔
حالانکہ جیسا کہ ملا علی قاری رحمہ اللہ اور علامہ آلوسی رحمہ اللہ کے ا قوال سے بھی واضح ہے کہ فرق کلیات اور جزئیات کا ہے۔۔۔
یعنی اللہ تعالیٰ انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام یا اولیاءکرام کو بعض جزئیات پر مطلع فرماتا ہے ۔۔۔۔
جبکہ فریق مخالف ان جزئیات کی مثالوں کو لے کر کھرب ہا کھرب پر مشتمل کلی علم غیب کی عطاءکوثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
حضرت قتادہ بن دعامہ رحمہ اللہ مشہور تابعی اس آیت(لقمان34) کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’اشیاءمن الغیب استاثر اللہ بھن فلم یطلع علیھن ملکا مقربا ولا نبیا مرسلا ان اللہ عندہ علم الساعة فلا یدری احد من الناس متی تقوم الساعة فی ای سنة اوفی ای شھر او لیل او نھار وینزل الغیث فلا یعلم احد متی ینزل الغیث لیلا او نھارا ینزل ویعلم مافی الارحام اذکراوانثی احمراواسودا وما ھو وما تدری یا ابن اٰدم متی تموت لعلک المیت غدا المصاب غدا وما تدری نفس بای ارض تموت لیس احدمن الناس یدری این مضجعہ من الارض فی بحر وبراو سھل اوجبل ۔
(ابن جریرج 21 ص 88واللفظ لہ ،ابن کثیر ج 3 ص455،درمنشور ج 5 ص170،السراج المنیر ج3 ص200،روح المعانی ج 21 ص99 )
یعنی کئی چیزیں غیب میں سے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے مختص کرلیا ہے اُس نے ان پر نہ تو کسی فرشتہ مقرب کو اطلاع دی ہے اور نہ کسی نبی مر سل کو ،بے شک قیامت کا علم بس اللہ تعالیٰ ہی کو ہے ،پس کوئی بھی انسانوں میں سے نہیں جانتا کہ قیامت کب قائم ہوگی ؟کس سال اور کس مہینہ میں رات میں یا دن میں ؟اور وہی نازل کرتا ہے بارش کو سو کسی کو خبر نہیں کہ کب بارش نازل ہوگی رات کو یا دن کو ،وہی جانتا ہے جو کچھ رحموں میں ہے سو کسی کو علم نہیں کہ نر ہے یا مادہ ؟سرخ ہے یاسیاہ ؟اور پھر وہ کیا ہے ؟(سعید ہے یا شقی وغیرہ )اور کسی کو نہیں پتہ کہ کل وہ کیا کرے گا اچھا کرے گا یا برا ،اور اے فرزند آدم تو کیا جانتا ہے کہ شائد تو کل مرنے والا ہو اور شاید کہ کل ہی تجھ پر کوئی مصیبت نازل ہو اور کوئی نفس خبردار نہیں کہ کس زمین میں اس کو موت آئے گی ،یعنی کسی انسان کو پتہ نہیں کہ زمین کے کس حصے میں اس کی قبر ہوگی آیا دریا میں یا خشکی میں نرم زمین میں یا پہاڑ اور سخت جگہ میں (بس اللہ تعالیٰ ہی ان باتوں کا جاننے والا اور خبردار ہے)
یہ ہیں ”غیوب خمسہ “کے کلیات
یعنی ایک طرف تما م کی تمام مخلوقات کی مادہ کے پیٹ کی خبر ۔۔۔تو دوسری طرف اس پیٹ میں جو کچھ ہے اس کے ہر ہر پہلو کی بھی خبر (یعنی نر ،مادہ، سرخ ،کالا ہونا،اور انسانوں اور جنات میں سعیدیاشقی ہونا وغیرہ )
اسی طرح قیامت کس سال ،کس ماہ ،کس دن (یہاں یہ یاد رکھیے کہ قیامت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو اتنا علم عطاءفرمایا ہے کہ وہ جمعہ کے دن ہوگی ۔دیکھیے مسلم ج 1ص 282)لیکن وہ کس سال یا کس ماہ کاکون سا جمعہ ہوگا یعنی ایک ماہ میں کم و بیش 4 جمعہ ہوتے ہیں )رات کو یا دن کو قیامت قائم ہوگی ۔۔۔۔اس خاص گھڑی کا جاننے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے ۔(قیامت کی نشانیاں اور چیز ہیں )
اسی طرح ہر ہر بارش کے نزول کی یقینی خبر(محکمہ موسمیات وغیرہ کی پیش گوئیاں نہیں جو کبھی صحیح ہوگئیں تو کبھی غلط)
اسی طرح کل کے حوادث کے ذرے ذرے کی خبر ۔۔۔۔ہر ہر پہلو کی خبر ۔۔۔۔ہر ہر مخلوق کی زندگی، موت کی خبر ۔۔۔۔اورقیامت تک جتنے انسان دنیا میں آئیں گے ہر ایک کی خبرکہ کس نے کس زمین پر مرنا ہے وغیرہ وغیرہ ۔
اللہ تعالیٰ ان کھرب ہا کھرب خبروں میں سے اگر ایک کروڑ خبروں پر بھی انبیاءکرام علیہم الصلوةوالسلام یا اولیاءکرام کو مطلع یا منکشف فرمادیتا ہے۔۔۔ تب بھی یہ محض چند خبریں ہی کہلائیں گی ۔۔۔اس طرح احادیث پاک ،اقوال صحابہ ،سلف صالحین کے اقوال میں غیر اللہ کے لئے
”بعض غیوب خمسہ“پر مطلع یا منکشف ہونے کا ذکر آتا ہے ۔۔۔ لیکن فریق مخالف ان
”بعض جزئیات “پر مطلع یا منکشف ہونے پر احادیث ،اقوال صحابہ ،اور اقوال سلف صالحین کو لے کر
”کلیات غیوب خمسہ “(جو کھرب ہا کھرب ہیں) جاننا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
اور یہ ہی ہمار ا فریق مخالف سے اختلاف ہے ۔
کہ غیوب خمسہ کے اصول اور کلیات کا جاننے والا تنہا اللہ رب العزت ہے ۔
اور اللہ تعالیٰ جس قدر چاہے ان غیوب خمسہ میں سے بعض بعض جزئیات انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام اور اولیاءکرام کو مطلع یا منکشف فرمادیتا ہے ۔
محترم قارئین کرام !
ان شاءاللہ تعالیٰ ہم اگلے حصہ میں اسی نکتہ یعنی غیوب خمسہ کے حوالے سے فریق مخالف کے چند دلائل اور اُن کی وضاحتیں پیش کریں گے ۔وما توفیقی الا باللہ
آپ تمام بھائیوں سے دعاﺅں کی خصوصی درخواست ہے ۔جزاک اللہ
ضروری گذارش : اگر کسی بھائی یا دوست کو ہمارے لکھنے یا سمجھنے میں کوئی کمی کوتاہی نظر آئے تو نشادہی کی درخواست ہے تاکہ ہم اپنی اصلاح کر لیں ۔جزاک اللہ
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاءفرمائے ۔آمین
۔۔۔۔۔جاری ہے ۔۔۔۔۔