• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسئلہ علم غیب پر چند مغالطے اور اُن کی وضاحتیں

شمولیت
اکتوبر 13، 2011
پیغامات
22
ری ایکشن اسکور
121
پوائنٹ
42
مسئلہ علم غیب پر چند مغالطے اور اُن کی وضاحتیں

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد اللہ رب العالمین والصلوة والسلام علی خاتم النبین صلیٰ اللہ علیہ وسلم​
السلام علیکم ورحمتہ اللہ !

اللہ تعالیٰ نے اطلاع علی الغیب ،انبا ءالغیب اور اظہار الغیب کے ذریعہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو جتنے علوم سے نوازا وہ اللہ کی مخلوق میں کسی کو بھی عطاءنہیں،اور فوق کل ذی علم علیم کے مصداق آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم ہی ہیں ۔۔۔۔ لیکن اس کے باوجود نہ تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم عالم الغیب ہیں ،نہ تو کلی علم غیب پر مطلع ہیں ۔
قرآن اور حدیث میں متعدد مقامات پر یہ مسئلہ صراحت سے واضح ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو کلی علم غیب نہ تھا ۔
اور ساتھ ہی اس کی تائید میں حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین،حضرات تابعین کرام ،تبع تابعین کرام ،محدثین کرام ،مفسرین کرام ،فقہائے کرام رحمھم اللہ کے واضح اور صاف صاف اقوال بھی موجود ہیں ۔
لیکن ان تما م ٹھوس حقائق کے باوجود ایک مخصوص طبقہ کا دعویٰ ہے کہ ”جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کوابتدائے آفرنیش سے الی یوم القیامةاور پھر دخول جنت اور جہنم تک کے کلی علم غیب(یعنی شروع سے لے کر آخر تک ذرے ذرے کا علم) عطا ءکیا گیا“
باالفاظ دیگر ۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ نے جب سے اس کائنات کو پیدا فرمایا اورزمین اور آسمان بنایا اس وقت سے لے کر۔۔۔۔۔ کائنات کے اختتام تک ۔۔۔۔ یعنی جب قیامت آجائے گی اور زمین اور آسمان ختم ہوجائیں گے ۔۔۔۔ اس وقت تک زمین اور آسمان میں جو کچھ ہوچکا ہے اور جو کچھ ہونے والاہے۔۔۔۔ اور جو کچھ زمین اور آسمان میں ہے۔۔۔۔چاہے وہ زمین میں انٹارکٹیکا کا انتہائی برفانی علاقہ ہو(اور انتہائی برفانی علاقے میں موجود کوئی معمولی سا برف کا ذرہ ہویا کوئی مخلوق ہو)۔۔۔۔یا افریقہ کے انتہائی گھنے جنگلات ہوں (اور ان گھنے جنگلات کے کسی بھی کونے میں باریک سے باریک کوئی کیڑا ہو)۔۔۔ ۔۔یا عرب کے وسیع و عریض صحرا ہوں(اور ان صحرا کے کسی کونے میں پڑا معمولی سا ریت کا ذرہ ہویا کوئی مخلوق ہو)۔۔۔۔۔۔ یا دنیا کے ہزاروںمیل پھیلے ہوئے طویل سمندر ہوں(اور ان وسیع اور عریض سمندر کے بیچ پانی کا معمولی سا قطرہ ہو یا بیچ سمندر کوئی بھی مخلوق ہو)۔۔۔۔۔۔یا سمندر کی انتہائی گہرائیاں ہوں(اور ان انتہائی گہرائیوں میں کوئی چھوٹی سی چھوٹی مخلوق ہو)۔۔۔۔۔یا زمین کی انتہائی گہرائیاں ہوں(اور ان گہرائیوں میں موجود ایسی باریک مخلوق ہو جن کو انسانی آنکھ بھی نہ دیکھ سکے )۔۔۔۔۔یا آسمانوں کی ہزاروں سال کی مسافت دور آسمانوں میں جتنی بھی مخلوقات ہیں حتی کہ ذرہ برابر کی بھی کوئی بھی مخلوق ہو۔۔۔۔ان تمام ذرے ذروں کا علم عطاءکیا گیا؟؟؟
ہوسکتا ہے ہماری یہ بات اس مخصوص طبقہ کے بہت سے پیرو کاروں کے لئے بھی حیرت انگیز انکشاف لگے .... لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس مخصوص طبقہ کے اکابرین اپنے دلائل سے یہی کچھ ثابت کرنا چاہتے ہیں... جس کی تفصیل ان شاء اللہ آگے آئے گی
آئیے ہم اپنے موضوع کی طرف چلتے ہیں
فریق مخالف بھی بظاہر اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ”عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ ہے “
لیکن دوسری طرف یہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم ابتدائے آفرینش سے لے کر الی یوم القیامتہ اور اس کے بعد دخول جنت اور نار تک کے ذرے ذرے کا علم غیب جانتے ہیں“
یعنی فریق مخالف نے ایک طرف یہ عقیدہ بیان کیا کہ ”غیب کا جاننے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے “دوسری طرف ”نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو بھی غیب کا جاننے والا مانا“
اور اس عقیدے کے مخالفین کے اعتراضات اور اپنے پیرو کاروں کے ذہن میں پیدا ہونے والے سوالات اور شک و شبہات کو دور کرنے کے لئے کیا کیا جتن کرتے ہیں اس کی مختصر تفصیل حاضر ہے ۔
(1) غیب کا جاننا ثابت کرنے کے لئے قرآن پاک سے غیب کے اثبات میں آیات مبارکہ پیش فرمائیں اور موقف پیش کیا کہ غیب عطا ءکیا گیا۔
(2)غیب جاننے کی نفی کی آیات مبارکہ اور احادیث پاک کے جواب میں یہ دلیل پیش کی کہ مراد ذاتی غیب کی نفی ہے نہ کہ عطائی غیب کی نفی ہے ۔
پھر جب فریق مخالف کا یہ موقف سامنے آیا کہ” نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم ابتدائے آفرینش سے الی یوم القیامتہ کے ذرے ذرے کا کلی علم غیب جانتے ہیں“تو اس موقعہ پر بے شمار سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ۔سب سے پہلا سوال تو یہ تھا کہ قرآن پاک سے کیا دلیل ہے کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم ذرے ذرے کا کلی علم غیب جانتے ہیں؟
(3)فریق مخالف نے ایک طرف یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ قرآن پاک میں ہر ہر ذرے ذرے کا مفصل بیان موجود ہے اور نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کوتدریجاً علم غیب عطا ءفرمایا گیا اور جس وقت قرآن کی آخری آیت نازل ہوئی آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا علم مکمل ہوگیا تھا( اس دلیل سے نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم ذرے ذرے کا کلی علم غیب جانتے ہیں )
اس کے ساتھ ہی فریق مخالف کے سامنے یہ مسئلہ بھی آیا کہ قرآن پاک میں جن مواقع پر” ہر چیز کا روشن بیان “یا” ذرہ ذرہ چیزکا روشن بےان “یا”سب کچھ بیان فرمادیا“یا”ہرخشک اور تر کابیان“ کے ارشادات میں لوح محفوظ کا بھی بیان ہے۔
(4)تو فریق مخالف نے موقف پیش کیا کہ جو کچھ لوح محفوظ میں لکھا ہے وہ سب کچھ قرآن پاک میں موجودہے۔(تاکہ فریق مخالف اپنے موقف کا دفاع کرسکے کہ قرآن پاک میں ہر ہر ذرے کا روشن اور مفصل بیان ہے اور قرآن پاک میں ذرے ذرے کی تفصیل موجود ہے)
(5)کہیں حدیث پاک سے استدلال کی کوشش کی گئی کہ ”ایک ہی خطبہ میں نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ابتدائے آفرینش سے لے کر الی یوم القیامتہ کے ذرے ذرے کا بیان فرمایا“ (اس دلیل سے نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم ذرے ذرے کاکلی علم غیب جانتے ہیں )
(6) کہیں حدیث پاک ”فتجلیٰ لی کل شئی وعرفت “ سے استدلال کیا گیا کہ زمین اور آسمان کی ہر چیز روشن ہوگئی (اس دلیل سے نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم ذرے ذرے کاکلی علم غیب جانتے ہیں )
(7) کہیں حدیث پاک ”سلونی عما شئتم “سے استدلال کی گیا کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہوا ” جو چاہو پوچھ لو“(اس دلیل سے نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم ذرے ذرے کاکلی علم غیب جانتے ہیں )
اس موضوع پر اگر کوئی دلیل نہ بھی پیش کی جائے اور صرف فریق مخالف کے دلائل کے یہ مختلف مختلف ٹکڑے پیش کئے جائیں کہ فریق مخالف نے کس طرح ”کلی علم غیب جاننے“ کے اپنے موقف کو درست ثابت کرنے کے لئے کتنے جتن کئے ہیں ؟تودوستوں ”حق “اور ”باطل “میں تمیز کرنے کے لئے یہی بات کافی ہے کہ زمینوں اور آسمانوں کے ذرے ذرے کا کلی غیب ثابت کرنے کے لئے مختلف مختلف باتوں کو جوڑ جوڑ کر اپنا موقف درست نہیں ثابت کیا جاتا
بلکہ ملاحظہ فرمائیں کہ زمینوں اور آسمانوں کا کلی غیب جاننے کا بیان قرآن پاک میں کتنے مختصر الفاظ ،سادہ ،جامع اور وضاحت والا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(لَهُ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ أَبْصِرْ بِهِ وَأَسْمِعْ الخ الکھف 26 پارہ 15
(ترجمہ:اسی کو معلوم ہیں سب غیب(چھپی باتیں) آسمانوں کی اور زمین کی ،کیا خوب ہے وہ دیکھنے والااور سننے ولا)​
اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں علامہ جلال الدین محلی(المتوفی 864ھ)اور علامہ ابو السعود محمد بن محمد العمادی(المتوفی 982ھ)اورعلامہ نسفی اور علامہ خازن لکھتے ہیں:
”یعنی اللہ تعالیٰ پر آسمان و زمین کے باشندوں کے حالات سے کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہے ،اور بس وہ تنہا ان کو جاننے ولا ہے“​
(تفسیرجلالین ص 184)(ابو السعود ج 6 ص 58)(تفسیر مدارک ج 3 ص 9 )(تفسیرخازن ج 6 ص 169)
اور جب فریق مخالف کے سامنے سب سے اہم سوال سامنے آیا(جس سے فریق مخالف کے پیروکاروں کو بھی سوچنے پر مجبور کیا کہ کہیں ہم غلطی پر تو نہیں ؟) کہ فریق مخالف اور اس کے پیروکار بھی تسلیم کرتے ہیں کہ زمین اور آسمانوں کے ذرے ذرے غیب صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور صرف اللہ تعالیٰ ہی عالم الغیب ہے اور فریق مخالف نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی ذرے ذرے غیب کا علم ثابت کرتا ہے ۔تو یہ علم الٰہی کی برابری ہے؟
ملاحظہ فرمائیں کہ فریق مخالف نے کس طرح اپنے پیروکاروں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی ؟
(8)فریق مخالف نے دلیل پیش کی کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے علم کو علم الہٰی سے کوئی نسبت نہیں۔کلی علم غیب کا مطلب یہ نہیں کہ جو اللہ تعالیٰ کا علم ہے وہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو سب حاصل ہے ۔بلکہ مخلوقات اور لوح محفوظ کے کل علوم حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہیں ،اور اللہ تعالیٰ کاعلم لوح محفوظ پر منحصر نہیں ہے بلکہ کروڑوں الوح بھی اللہ تعالیٰ کے علوم غیر متناہیہ کی متحمل نہیں ہوسکتی۔“
یعنی ایک طرف نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب (عملی اعتبار سے۔۔۔۔۔جبکہ لفظی اطلاق کو یہ حضرات بھی درست نہیں سمجھتے) بھی ثابت کیا گیا اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے علوم لامتناہیہ کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے موقف کا دفاع بھی کرنے کی کوشش کی گئی کہ فریق مخالف اللہ تعالیٰ کے کل علوم نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے لئے ثابت نہیں کرتے اس لئے نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے لئے ذرے ذرے کاکلی علم غیب ثابت کرنے سے برابری نہیں ۔
(9)اوراسی طرح فریق مخالف نے اللہ تعالیٰ کے علوم لامتناہیہ کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے پیروکاروں کے سامنے یہ موقف پیش کیا کہ ہم بھی صرف اللہ تعالیٰ کو عالم الغیب مانتے ہےں“
(10)اور فریق مخالف نے اپنے پیروکاروں کے ذہنوں سے ہر طرح کے شکوک و شبہات دور کرنے کے لئے اور اپنے پیروکاروں کو اپنے پیش کئے ہوئے موقف پربالکل مطمئن کرکے اوراپنے دلائل پرمخالفین کی وضاحتوں پر کسی بھی قسم کے غور و فکریا سوچنے سمجھنے سے دور رکھنے کے لئے سب سے زبردست مغالطہ یہ پیش کیا کہ ”یہ امت شرک نہیں کرسکتی“(یعنی اب تم لوگ ہمارے پیش کئے گئے تمام( اختلافی) عقیدوں پر آنکھیں بند کر کے ایمان لا سکتے ہو)
یہ ایسا حربہ ہے کہ جس سے فریق مخالف کے پیروکار آنکھیں بند کر کے اپنے علماءکی طرف سے پیش کیا ہوا ہر عقیدہ من و عن قبول کرلیتے ہیں ۔
اور کبھی یہ سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے کہ عمل کرنا یہ نہ کرنا ہمارا اپنا اختیار ہے چلو کبھی دیگر علماءکرام کا موقف بھی سن لیا جائے ۔
اور یہ بھی نہیں سوچتے کہ کبھی کبھی کسی واقعہ کا %99.99 ہوجانے کے یقین کے باوجود اس یقین کے بر خلاف واقعہ رونما ہوجاتا ہے یا ہو سکتا ہے۔
یاد رکھیے دنیا کے کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والا وہ چاہے بت پرست ہو ۔۔۔یایہود ہو۔۔۔ یا نصاریٰ ہو ۔۔۔۔یا قادیانی ہو ۔۔۔۔منکر حدیث ہو ۔ ۔۔۔۔۔ دنیا کا ہر مذہب والا اپنے آپ کو سیدھی راہ پر ہی سمجھتا ہے ۔۔۔۔۔اور باقی سب کو گمراہ سمجھتا ہے ۔۔۔۔اور دنیا کا ہر مذہب والے کا پاس اپنے مذہب کو سچا ثابت کر نے کے لئے بے شمار دلائل اور جوازبھی ہوتے ہیں ۔۔۔۔ جن سے ایک طرف وہ اپنے پیرو کاروں کو مطمئن کرتے ہیں ۔۔۔۔ تو دوسری طرف اپنے مخالفین کی طرف سے پیش کئے گئے اعتراضات اور دلائل کے جوابات دینے کی کوشش بھی کرتے ہیں ۔۔۔۔لیکن کیوں کہ جھوٹ مٹنے کے لئے ہی ہے اس لئے جب حق سامنے آتا ہے تو آخر کار ایک موقعہ ایسا بھی آتا ہے کہ جہاں دنیا کے ہر باطل مذہب والے کو لاجواب ہونا پڑتا ہی ہے ۔۔۔۔ جس کے بعددنیا کے ہر باطل مذہب والے کو اپنے اپنے نام نہاد عقائد کے تحفظ اور بقاءکے لئے بالآخر ”ضد اور ہٹ دھرمی“ کا سہارا لینا ہی پڑتا ہے ۔۔۔۔جس کا یقینا کوئی علاج اور جواب نہیں ہوتا ۔۔۔۔اور ایسے مواقعہ پر۔۔۔۔اورضد اور ہٹ دھرمی پر اتر آنے والوں کے لئے ہزاروں دلائل بھی ناکافی ہوتے ہیں ۔
اس چھوٹی سی تمہید باندھنے کا مقصد صرف چند باتوں کی طرف توجہ دلانا ہے کہ ایک تویہ کہ محض کسی کا صراط مستقیم پر ہونے کے دعوے کرنا حق پر ہونے کی دلیل نہیں ۔۔۔۔دوسری بات یہ کہ اپنے مخالفین کے اعتراضات اور دلائل کے محض زبانی کلامی جوابات دے دینا بھی حق پر ہونے کی دلیل نہیں ۔۔۔۔۔بلکہ غیر جانبدارہو کر فریقین کے دلائل میں سے وزنی اور ٹھوس دلائل کا تعین کر کے ہی حق اور باطل کی پہچان کی جاسکتی ہے ۔۔۔۔ساتھ اللہ تعالیٰ سے ہدایت کی دعا کرنا چاہیے ۔۔۔۔کیوں کہ ہدایت دینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے ۔
عمل کرنا یا نہ کرنا یہ سب کا اپنا اپنا اختیار ہے ۔کوئی کسی کو کسی بات پر مجبور نہیں کرسکتا ۔لیکن اپنے مخالفین کی بات ضرور سن لینی چاہیے ۔ہوسکتا ہے کہ کوئی اچھی بات آپ کے علم میں آجائے۔یا ہوسکتا ہے کہ مخالف کی بات سن کر آپ مخالف کی کوئی غلط فہمی دور فرمادیں۔
ہم اپنی بات شروع کرنے سے پہلے جو ہمارے موقف سے اختلاف رکھتے ہیں ان تمام حضرات سے ایک درخواست کرنا چاہیں گے کہ ہماری وضاحتوں میں ہماری غلطیوں کی نشاندہی فرمائیں تاکہ ہم اپنی اصلاح کر لیں ۔لیکن اگر ہماری وضاحتوں میں سچائی مل جائے اور آپ کا ضمیر گواہی دے کہ ہماری پیش کی ہوئی وضاحتیں درست ہیں تو ”حق “قبول کرنے میں ذرہ برابر بھی ہچکچاہٹ نہ کیجیے گا۔ یاد رکھیے کہ کامیابی اپنے موقف کی جیت میں نہیں بلکہ کامیابی تو اللہ تعالیٰ اور نبی پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے احکامات میں ہے۔ دعا فرمایے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت عطاءفرمائے ۔آمین

ان شاء اللہ اگلی پوسٹوں میں ہم ترتیب وار فریق مخالف کے دلائل کی مختصر وضاحتیں بھی پیش کرنے کی کوشش کریں گے

آپ تمام بھائیوں سے دعاوں کی خصوصی درخواست ہے

اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے آمین
 
شمولیت
اکتوبر 13، 2011
پیغامات
22
ری ایکشن اسکور
121
پوائنٹ
42
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
السلام علیکم ورحمتہ اللہ
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا واضح اور صاف صاف فرمان کہ”غیب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا“ :
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّـهُ ۚ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ الخ النمل 65 پارہ 20
(ترجمہ :کہہ دے کہ آسمان والوں میں سے زمین والوں میں سے کوئی بھی سوائے اللہ کے غیب کو نہیں جانتا ،اور انہیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ کب اٹھا کھڑے کئے جائیں گے )
علامہ بغوی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
یہ آیت مشرکین کے بار ے میں نازل ہوئی جبکہ انہوں نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے قیامت کے وقت کے متعلق سوال کیا تھا۔(معالم التنزیل جلد 5 صفحہ 128)
اور یہی شان نزول تفسیر جلالین صفحہ 321،مدارک جلد2 صفحہ 167،اور جامع البیان صفحہ 321 وغیرہ میں مذکور ہے۔
اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں ابن کثیر رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو حکم دےتا ہے کہ وہ سارے جہاں کو معلوم کرا دیں کہ ساری مخلوق آسمان کی ہو یا زمین کی ،غیب کے علم سے خالی ہے بجز اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک لہ کے کوئی اور غیب کا جاننے والا نہیں ۔ مزید لکھتے ہیں کہ یہاں استثناءمنقطع ہے ،یعنی سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی انسان ،جن ،فرشتہ غیب داں نہیں۔(تفسیر ابن کثیر جلد 3 صفحہ 372)
علامہ خازن رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
”مطلب آیت کا یہ ہے کہ بس اللہ تعالیٰ ہی کو علم غیب ہے اور وہی جانتا ہے کہ قیامت کب آئے گی اور ان کو یہ خبر نہیں کہ وہ کب دوبارہ زندہ کئے جائیں گے یعنی جو مخلوق کہ آسمانوں میں ہے اور وہ فرشتے ہیں اور جو زمین میں ہیں یعنی بنی آدم (اور جنات وغیرہ)ان کو یہ نہیں معلوم کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ ہی اس کے علم کے ساتھ متفرد ہے“(یعنی اس کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا) (تفسیر خازن جلد 5 صفحہ125)
قاضی ثنا ءاللہ الحنفی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
”اے محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم آپ فرمادیجیے کہ غیب بجز اللہ تعالیٰ کے نہیں جانتے وہ جو آسمانوں میں ہیں یعنی فرشتے ،اور جو زمین میں ہیں یعنی جن اور انسان اور انہی انسانوں میں حضرات انبیا ءکرام علیہم الصلوةوالسلام بھی ہیں“(تفسیر مظہری جلد 7 صفحہ 126)
غیب پر مطلع ہونا ، انباءغیب اور غیب جاننے کا فرق​
اس موضوع کا یہ نقطہ سب سے زیادہ اہم ہے ۔ کیوں کہ یہ نقطہ ہی سمجھنے کی غلط فہمی علم غیب پر اختلافات کی بنیاد ہے ۔اور فریق مخالف کے دلائل کی بنیادیں اسی نقطہ پر رکھی گئیں ہیں۔اس لئے آپ تمام دوستوں سے خصوصی توجہ کی درخواست ہے ۔
اب یہاں ہم سب سے پہلے فریق مخالف کی طرف سے پیش کی ہوئی غیب کے اثبات میں آیات مبارکہ پیش کرتے ہیں ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّـهِ وَرُسُلِهِ الخ اٰٰل عمران 179 پارہ 4
(ترجمہ:اور نہیں ہے اللہ تعالیٰ کہ مطلع کرے تم کو غیب پر ،لیکن ہاں جس کو خود چاہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر ہیں ،اُن کو منتخب فرمالیتا ہے)​
اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ﴿٢٦﴾ إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِن رَّسُولٍ الخ جن 26،27 پارہ 29
(ترجمہ :۔ غیب کا جاننے والا وہ ہی ہے،سو مطلع نہیں فرماتا وہ اپنے غیب پر کسی کو ، سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے)​

اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔( ذَٰلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ الخ یوسف 102 پارہ 13
(ترجمہ:یہ غیب کی خبریں ہیں جو وحی کر رہے ہیں ہم تمہاری طرف )

اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(تِلْكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ ۖ مَا كُنتَ تَعْلَمُهَا أَنتَ وَلَا قَوْمُكَ مِن قَبْلِ هَـٰذَا الخ ھود 49 پارہ 12
(ترجمہ:یہ خبریں ہیں غیب کی جو ہم وحی کر رہے ہیں تمہاری طرف (اے نبی)نہیں جانتے تھے یہ باتیں تم اور نہ تمہاری قوم اس سے پہلے)
اوپر بیان کی گئیں غیب کے اثبات میں آیات مبارکہ میں آپ نوٹ فرمائیں کہ ایک موقعہ پر بھی بیان نہیں کہ ”اللہ کے رسول غیب جانتے ہیں “ بلکہ ’مطلع کیا گیا“یا” غیب کی خبریں وحی کی گئیں“ کا بیان ہے۔
یہ بہت ہی خاص بات ہے ،آپ لوگ اپنے ذہن میں رکھیں ان شاءاللہ آگے مزید وضاحت آئے گی۔
اب یہاں نیچے والی آیات مبارکہ ملاحظہ فرمائیں کہ غیب کی نفی میں واضح طور پر ”غیب جاننے کی نفی “ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّـهُ الخ النمل 65 پارہ 20
(ترجمہ :کہہ دے کہ آسمان والوں میں سے زمین والوں میں سے کوئی بھی سوائے اللہ کے غیب کو نہیں جانتا)

اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔( قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّـهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۚ الخ الاعراف 188 پارہ 9
(ترجمہ: کہہ دو کہ میں نہیں اختیار رکھتا میں اپنی ذات کے لئے بھی نہ کسی نفع اور نہ کسی نقصان کا ،مگر یہ کہ چاہے اللہ ،اور ہوتا مجھے علم غیب کا تو ضرور حاصل کر لیتا میں بہت فائدے اور نہ پہنچتا مجھے کوئی نقصان)
ہم یہاں آیات مبارکہ کی تفاسیراس لئے پیش نہیں کر رہے ہیں کیو ں کہ ہمارا مقصد اس وقت صرف غیب کے اثبات اور غیب میں نفی میں آیات مبارکہ میں اس فرق کو واضح کر نا ہے کہ فریق مخالف کا موقف ہے کہ ”حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم غیب جانتے ہیں
اوردلیل میں جو آیات مبارکہ پیش فرماتے ہیں ان میں غیب پر مطلع ہونا یا انباءغیب کا بیان ہے۔
اب آجائیں فریق مخالف کے کچھ اعتراضات کی طرف۔
فریق مخالف کا کہنا ہے کہ ”مخالفین کہتے ہیں کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ غیب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا ،یا نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں غیب نہیں جانتا ،یا فقہاءکرام فرماتے ہیں جو غیر اللہ کے لئے غیب جاننے کا عقیدہ مانے وہ کافر ہے۔
فریق مخالف کا کہنا ہے کہ یہ دلائل تو خود مخالفین کے خلاف ہیں کیوں کہ بعض غیب تو وہ بھی مانتے ہیں ،اور اختلاف تو ”جمیع کان وما یکون (یعنی جو ہوچکا ہے یا جو کچھ ہونے والا ہے) “پر ہے۔تو یہ حضرات فرماتے ہیں کہ پھر اس فتوی کی زد سے تو مخالفین بھی نہیں بچ سکتے کیوں کہ ایک بات کا بھی علم مانا تو ان کے دلائل کے خلاف ہوا۔
یہاں ہم فریق مخالف کی اس غلط فہمی کی دو حصوں میں وضاحت کریں گے ۔
یہاں پہلے تو” بعض غیب “ کا مفہوم سمجھیں ۔ اور یہ بات سمجھیں کہ ”اللہ تعالیٰ نے بعض غیب پر نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو مطلع کیا“ سے کیا مراد ہے؟
ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔(الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ )البقرة 3 پارہ 1
(ترجمہ:جو لوگ لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں)
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایمان کسی چیز کی تصدیق کرنے کا نام ہے۔ (تفسیر طبری 1/335)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بھی یہی فرماتے ہیں۔(تفسیر طبری 1/235))
حضرت زہری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ایمان کہتے ہیں عمل کو۔(تفسیر طبری 1/235)
ربیع بن انس رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہاں ایمان لانے سے مراد ڈرنا ہے۔(تفسیر طبری 1/235)
ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ سب اقوال مل جائیں تو مطلب یہ ہوگا کہ زبان سے،دل سے،عمل سے غیب پر ایمان لاتے ہیں اور اللہ کا ڈر رکھتے ہیں۔ ایمان کے مفہوم میں اللہ تعالیٰ پر ،اس کی کتابوں پر ،اس کے رسولوں پر ایمان لانا شامل ہے،اور اس اقرار کی تصدیق عمل کے ساتھ بھی کرنا لازم ہے ۔ مزید فرماتے ہیں لغت میں ایمان کہتے ہیں صرف سچا مان لےنے کو۔
ابن کثیر رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ غیب کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ غیب کا لفظ جو یہاں ہے اس کے معنی میں بھی مفسرین کے بہت سے اقوال ہیں ،اور وہ سب صحیح ہیں اور جمع ہوسکتے ہیں
ابوالعالیہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس سے مراد اللہ تعالیٰ پر،فرشتوں پر،کتابوں پر رسولوں پر ،قیامت پر،جنت دوزخ پر،اللہ سے ملاقات پر،مرنے کے بعد جی اٹھنے پر ایمان لانا ہے۔
قتادہ ابن دعامہ رحمتہ اللہ علیہ کا یہی قول ہے۔(تفسیر طبری1/236)
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ،ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بعض دیگر اصحاب سے مروی ہے کہ اس سے مراد وہ چیزیں ہیں جو نظروں سے اوجھل ہیں جیسے جنت دوزخ وغیرہ ،وہ امور جو قرآن پاک میں مذکور ہیں۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ آیا ہے وہ سب غیب میں داخل ہے۔
ابو ذررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس سے مراد قرآن ہے۔
عطاءابن ابو رباح رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اللہ پر ایمان لانے والا غیب پر ایمان لانے والا ہے ۔
اسماعیل بن ابو خالد رحمتہ اللہ علیہ اسلام کی تمام پوشیدہ چیزیں مراد ہیں۔
زید بن اسلم رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں تقدیر پر ایمان لانا ہے۔
مزید لکھتے ہیں کہ پس یہ تمام اقوال معنی کی رو سے ایک ہی ہیں۔اس لئے کہ سب چیزیں پوشیدہ ہیں اور غیب کی تفسیر ان سب پر مشتمل ہے ،ان سب پر ایمان لاناواجب ہے۔
میرے بھائیوں دوستوں بزرگوں !
اللہ تعالیٰ کی کتابیں،اللہ کے رسول، فرشتے،مرنے کے بعد کی زندگی، قیامت کی نشانیاں اورقیامت ،روز آخرت ،میدان محشر،اللہ سے ملاقات ، حساب کتاب ،پل صراط ،جنت ،جہنم ،یہ سب غیب کی باتیں توہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو مطلع فرمایا۔ الحمد للہ جن پر ہم ایمان لاتے ہیں۔
اس کے علاوہ متعدد احادیث پاک ہیں جن میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے غیب کی اطلاع دیں۔(ہم اختصار کے ساتھ چند احادیث پاک پیش کر رہے ہیں)
” حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت چھینے کی کوشش کی اطلاع“(ترمذی ج 2 ص 212)
”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی خبر“(ترمذی ج 2 ص 221)
”حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت مدینہ طیبہ کے سفر میں آندھی کا آنا اور حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے کسی بڑے منافق کی موت کی خبر دی“(مشکوة ج2 ص 536)
”حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت جنت میں سب سے پہلے اہل بیت میں سے بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ملاقات“(مشکوة ج 2 ص 563)
حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ (نفیع بن الحارث المتوفی 49ھ) فرماتے ہیں :
”جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ (المتوفی 50ھ)کی طرف اشارہ کر کے ارشاد فرمایا کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح کرائے گا(بخاری ج 2 ص 1053)
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے:
”حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد کچھ ایسے حکام پیدا ہوں گے جو میری سیرت اور میری سنت پر نہیں چلیں گے دل ان کے شیطانوں کے سے ہوں گے مگر شکل صورت میں انسان ہوں گے“(مسلم ج 2 ص127)
اس طرح اللہ تعالیٰ کی کتابیں،اللہ کے رسول، فرشتے،مرنے کے بعد کی زندگی، قیامت کی نشانیاں اور قیامت کا قائم ہونا ،روز آخرت ، میدان محشر،اللہ سے ملاقات ، حساب کتاب ،پل صراط ،جنت ،جہنم
اور اس کے علاوہ بہت سی احادیث پاک ہیں جن میں حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی نشانیوں کی اطلاع دیں،اور بہت سی غیب کی خبروں کی اطلاع دیں (یہاں وہ تما م احادیث پاک شامل ہوجاتیں ہیں جن میں غیب کی خبروں کابیان ہے اور فریق مخالف اپنے موقف میں بطور دلیل پیش فرماتے ہیں ،الحمد للہ ہمارا تمام احادیث پاک پر ایمان ہے)
بزرگان دین ان غیب کی خبروں کو اخبار غیب یا انبا ءغیب فرماتے ہیں ۔
بے شک اللہ تعالیٰ نے اطلاع علی الغیب ،انبا ءالغیب اور اظہار الغیب کے ذریعہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو جتنے علوم سے نوازا وہ اللہ کی مخلوق میں کسی کو بھی عطا نہیں ،اور فوق کل ذی علم علیم کے مصداق آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔
اب آجائیں اس نقطہ کے انتہائی اہم رخ کی طرف ۔
بہت زیادہ توجہ کی درخواست ہے۔
فریق مخالف حضورصلیٰ اللہ علیہ وسلم کے لئے غیب کے اثبات میں اوپر بیان کی گئیں آیات مبارکہ سے دلیل پیش کرتے ہیں کہ ”حضورصلیٰ اللہ علیہ وسلم علم غیب جانتے ہیں“
جبکہ ایک آیات مبارکہ میں بھی حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے غیب جاننے کا بیان موجود نہیں بلکہ مطلع کیا اور انباءغیب کا بیان ہے۔
اورفریق مخالف کو مغالطہ ہے کہ غیب کی خبروں پر مطلع ہونا غیب جاننے کی دلیل ہے۔
تو غور فرمائیں :
نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے غیب کی خبروں سے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو مطلع فرمایا۔
(فریق مخالف کی منطق سے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین بھی غیب کے جاننے والے ہوئے)
صحابہ کرام نے تابعین کرام کو مطلع فرمایا
اور تابعین کرام نے تبع تابعین کرام کو مطلع فرمایا
اور اسی طرح درجہ بدرجہ ائمہ کرام،بزرگان دین ،محدثین حضرات ایک دوسرے کو مطلع فرماتے رہے
اور اسی طرح آج لاکھوں کروڑوں مسلمان غیب کی خبروں پر مطلع ہوئے ۔
ان غیب کی خبروں میں سے بہت سے واقعات ہوچکے ہیں(جو غیب میں داخل ہیں)اور بہت سے واقعات ہونے والے ہیں (جو غیب میں ہی داخل ہیں)
تو فریق مخالف کی منطق سے اگر غیب پر مطلع ہونا،غیب جاننے کی دلیل ہے تو اس لحاظ سے وہ سب لوگ غیب جاننے والے ہوئے جو لوگ احادیث پاک سے مطلع ہوئے کہ کل کیا کیا ہوا ؟اور آنے والے کل کیا کیا ہوگا؟
یقینا ایسا عقیدہ کوئی بھی مسلمان نہیں رکھتا ۔۔۔۔۔ لہذا واضح ہوتا ہے کہ غیب پر مطلع ہونا غیب جاننے کی دلیل نہیں ۔۔۔۔ اور "علم غیب" (یعنی غیب جاننا) کی اصطلاح ذاتی علم غیب کے لئے استعمال ہوتی ہے ۔۔۔۔ جس کا فریق مخالف بھی قائل نہیں ہے ۔۔۔ بلکہ ہماری بات کی تصدیق خود فریق مخالف کے امام احمد رضا صاحب کے اس حوالہ سے بھی ہوتی ہے ۔۔۔ احمد رضا صاحب فرماتے ہیں کہ:
"علم جب کہ مطلق بولا جائے خصوصا جبکہ غیب کی خبر کی طرف مضاف ہو تو اس سے مراد علم ذاتی ہوتا ہے" (ملفوضات حصہ سوم)
اور یہی وجہ ہے کہ فقہائے کرام رحمھم اللہ نے غیر اللہ کے لئے علم غیب کا عقیدہ رکھنے والے کی تکفیر فرمائی ہے ۔
چناچہ ملا علی قاری رحمتہ اللہ علیہ حضرات انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام کے لئے علم غیب پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
”پھر تو جان لے کہ حضرات انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام غیب کی چیزوں کا علم نہیں رکھتے تھے مگر جتنا کہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ ان کو علم دے دیتا ہے اور حنفیوں نے تصریح کی ہے کہ جو شخص یہ اعتقاد رکھے کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم غیب جانتے ہیں تو وہ کافر ہے کیوں کہ اس شخص نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کا معارضہ کیا کہ تو کہدے کہ جو ہستیاں آسمانوں اور زمین میں ہیں وہ غیب نہیں جانتی بجز پروردگار کے ایسا ہی مسایرہ میں ہے“(مسائرہ مع المسامرہ ج 2 ص 88 طبع مصر)(شرح فقہ اکبر ص 185 طبع کانپور)
تو واضح ہوتا ہے کہ غیر اللہ کے لئے غیب جاننے کا عقیدہ ر کھنا کفر ہے۔
جبکہ بزرگان دین اور دیگر علماءکرام کے اقوال کے مفہوم یہ نہیں ہیں کہ” نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم غیب جانتے ہیں “
بلکہ بزرگان دین اور علماءکرام کے اقوال میں” بعض غیب پرمطلع ہوئے “وغیرہ کے ارشادات ہیں ۔اور غیب پر مطلع ہونا ۔غیب جاننے کی دلیل نہیں۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی وفیق عطاء فرمائے آمین

اگر کسی بھائی کو ہمارے لکھنے یا سمجھنے میں کوئی غلطی نظرآئے تو ہمیں ضرور نشاندہی فرمائیں تاکہ ہم اپنی اصلاح کرلیں . جزاک اللہ
۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔
 
شمولیت
اکتوبر 13، 2011
پیغامات
22
ری ایکشن اسکور
121
پوائنٹ
42
بسم اللہ الرحمن الرحیم
علم غیب کی دو قسمیں ذاتی اور عطائی
اب آجائیں فریق مخالف کے ایک اور اعتراض کی طرف۔
فرماتے ہیں کہ جیسے قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے(ترجمہ:کہہ دے کہ زمین والوں میں سے اور آسمان والوں میں سے کوئی بھی غیب نہیں جانتا)
اور جیسا کہ قرآن پاک میں اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے (ترجمہ :۔ غیب کا جاننے والا وہ ہی ہے،سو مطلع نہیں فرماتا وہ اپنے غیب پر کسی کو ، سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے)
فریق مخالف فرماتے ہیں کہ اگر بالفرض مان لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی غیب نہیں جانتا تو دوسری آیت مبارکہ میں اللہ کے رسولوں کے لئے غیب کا اثبات ہے تو اس کو کس زمرے میں رکھیں گے ؟
اورفرماتے ہیں کہ یہاں تعارض پیدا ہوجائے گا کہ ایک موقعہ پر ارشاد ہے کہ”اللہ کے سوا غیب کوئی نہیں جانتا “اور دوسرے مقام پر غیب کا اثبات ہے۔

محترم قارئین کرام
حالانکہ تضاد ان آیات مبارکہ کو سمجھنے میں تھا جو ہم نے اوپر قرآن پاک کے ہی ارشادات سے ہی واضح کیا ہے۔ کہ غیر اللہ کے لئے غیب کے اثبات کے ارشاد میں ”مطلع ہونا“ یا”یہ انباءغیب (غیب کی خبریں) ہیں جو وحی کیں گئیں “کے ارشادات ہیں۔
جبکہ غیر اللہ کے لئے غیب کی نفی کے ارشاد میں ”اللہ کے سوا کوئی بھی غیب نہیں جانتا “کابیان ہے۔
اور جاننا اور مطلع ہونے میں کیا فرق ہے اور اس کی وضاحت بھی پیش کی ہے ۔
لیکن اگر بالفرض غیب کے اثبات کی آیات مبارکہ سے فریق مخالف کے موقف کو درست مان لیا جائے کہ”حضورصلیٰ اللہ علیہ وسلم علم غیب جانتے ہیں
تو تعارض تو اصل یہاں پیدا ہوتا ہے کہ
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا واضح ارشاد ہے ”زمین والوں اور آسمان والوں میں سے اللہ کے سوا کوئی بھی غیب کو نہیں جانتا
اور فریق مخالف کا دعوی ہے کہ ”حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم غیب جانتے ہیں
اوراس واضح اور صاف تعارض کوفریق مخالف یہ کہہ کر دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ”جہاں اللہ تعالیٰ کے سوا غیب کے جاننے کی نفی آئی ہے اس سے مراد”ذاتی علم غیب ہے عطائی نہیں
ملاحظہ فرمائیں اس دلیل کی حقیقت:
ہمارے اکابرین کی عبارت میں ”ذاتی “ اور ”عطائی“ کے الفاظ آئے ہیں۔
لیکن بزرگان دین کا مقصد ہر گز یہ نہیں ہے کہ حضورصلیٰ اللہ علیہ وسلم ”ذاتی“ طور پر اور بالاستقلال تو کل غیوب کو نہیں جانتے مگر ”عطائی“اور غیر مسقل طور پر کل مغیبات کو جانتے ہیں ۔
اس بات کو سمجھنے کے لئے سب سے پہلے آپ یہ بات سمجھیں کہ بزرگوں نے لفظ ”ذاتی“ کا استعمال کر کے کیا بات سمجھانے کی کوشش کی ہے ؟
ذاتی طور پر غیب جاننے سے مراد ہے کہ” از خودغیب جاننا“جس کا فریق مخالف بھی قائل نہیں ۔
اور ’’عطائی‘‘ طور پر غیب جاننے سے مراد یہ ہے کہ مثال کے طور پر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی ،جب تک ارض حجاز سے آگ نہ نکلے جس کی روشنی بصری کے مقام پر اونٹوں کی گردنیں نظرآنے لگیں“(بخاری ج 2 ص 1054)(مسلم ج 2 ص 393 )
یہ غیب کی خبر ہے ۔اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو اس خبر سے مطلع فرمایا( یا اس ”غیب کی خبر“ کا علم عطا ءفرمایا)
تو یہاں بزرگوں کے قول سے مراد یہ ہے کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم ”ذاتی “طور پر (یعنی از خود)یہ غیب کی خبر نہیں جانتے بلکہ” عطائی “طور پر یہ غیب کی خبر جانتے ہیں۔
اسی طرح اللہ رب العزت نے اپنے پیارے حبیب حضرت محمد مصطفیٰ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو اطلاع علی الغیب ،انبا ءالغیب اور اظہار الغیب سے جتنے غیوب کی خبروں پر مطلع فرمایا ۔۔۔۔ وہ سب عطائی ہیں یعنی جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم از خود غیب نہیں جانتے بلکہ اللہ رب العزت نے عطاء فرمایا۔
جبکہ فریق مخالف کا ”ذاتی اور عطائی“ کا استعمال اپنے دعوے”ابتدائے آفرینش سے الیٰ یوم القیامتہ کے ذرے ذرے کا کلی علم غیب “کے دفاع کے لئے ہے ۔
بزرگوں کا "ذاتی عطائی" کی قیود کو ملحوظ رکھنے کی وجہ قرآن پاک اور احادیث پاک میں غیب کے اثبات اور نفی کی نصوص ہیں۔
جبکہ فریق مخالف کا ”ذاتی اور عطائی “ کا استعمال غیب کی نفی کی واضح اور صریح نصوص میں تاویلات کرنے کے لئے ہے ۔
کیوں کہ فریق مخالف کا دعوی زمین و آسمان کے کلی علم غیب پر ہے ۔۔۔۔اور اس دعوی کا دفاع اُسی صورت میں ممکن ہے کہ جب قرآن و حدیث میں کسی بھی غیب کی نفی میں کی نصوص کو غیب جاننے کے اثبات میں نہ تبدیل نہ کرلیا جائے ۔
اور اس کا آسان راستہ فریق مخالف کے پاس لفظ ”ذاتی اور عطائی“ کی صورت میں موجود ہے ۔۔۔۔یعنی قرآن و حدیث یا آثار صحابہ یا بزرگان دین کے اقوال میں جہاں بھی صریح اور واضح طور پر بھی غیر اللہ کے لئے غیب کی نفی کی عبارت مل جائے ۔۔۔۔اس کے جواب میں محض ”ذاتی کی نفی“ کہہ کر آسان جواب دیا جاسکتا ہے ۔
مثال کے طور پر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت ہے :
” حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا فرمان ہے کہ جو کہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلمکل کی بات جانتے تھے ،اس نے اللہ تعالیٰ پر بہتان عظیم باندھا،اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ زمین و آسمان والوں میں سے کوئی بھی غیب کی بات جاننے والا نہیں“
مسلم شریف ،کتاب الایمان،باب معنی قول اللہ عزوجل (ولقد رآہ نزلتہ اخریٰ )ح : 177 طول منہ (بخاری جلد 2 صفحہ 720 )(مسلم جلد 1 صفحہ 98 )(ابو عوانہ جلد1 صفحہ 154 )(بخاری جلد 2 صفحہ 1089 )(ترمذی جلد 2 صفحہ 160 )(مشکوۃ جلد 2 صفحہ 501 )
یہاں فریق مخالف کاآسان جوا ب ہوتا ہے کہ ”حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ”علم غیب ذاتی کی نفی کی ہے عطائی کی نہیں
میرے بھائیوں بزرگو اور دوستو!
فریق مخالف کے اس مغالطہ (یعنی جن مقامات پر حضورصلیٰ اللہ علیہ وسلم کے لئے غیب جاننے کی”نفی“ آجائے وہاں لفظ ”ذاتی “ کا استعمال کرکے اپنے موقف کا دفاع کیا جاسکے)پرسے پردہ اٹھا نے کے لئے ہم آپ کے سامنے ایسی صحیح احادیث پاک پیش کر رہے ہیں جن میںغیب کا ”اثبات “اور” نفی“ بھی ہے“
دیکھتے ہیں نیچے بیان کی گئی صحیح احادیث پاک کے جواب میں فریق مخالف کیا فرماتے ہیں؟؟؟
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے ہر چیز کی چابیاں عطا کی گئیں ہیں مگر ان پانچ چیزوں کی عطا نہیں کی گئیں ،اللہ ہی کے پاس ہیں علم قیامت کا اور بارش نازل کرنے کا اور مافی الرحام کا خبیر تک (جو سورہ لقمان کی آخری آیتیں ہیں)(کنز العمال ج 6 ص 106 )(مسند احمد ج2 ص 85 )(درمنشور ج5 ص 170 )(تفسیر ابن کثیر ج 3 ص 454 )(امام سیوطی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں بسند صحیح خصائص الکبریٰ ج 2 ص 195 )(علامہ عزیزی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں قال الشیخ الحدیث صحیح (السراج المنیر ج2 ص79 )(علامہ آلوسی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں بسند صحیح (روح المعانی ج 21 ص 99 )
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (المتوفی32 ھ ) فرماتے ہیں:
تمہارے نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم غیب کے خزانے عطا کئے گئے ہیں مگر یہ پانچ امورعطا نہیں کئے گئے جو سورہ لقمان کی آخر میں ہیں“(مسند احمد ج 4 ص 438 )
نیز فرماتے ہیں کہ:
نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو ہر چیز کا علم عطا کیا گیا ہے سوائے ان پانچ چیزوں کے (کہ ان کا علم کسی کوبھی عطا نہیں ہوا)(فتح الباری ج 1 ص 115 ۔اور ج 8 ص395 ۔جلد 13 ص 308 )(تفسیر ابن کثیر ج 3 ص 454)وقال ہذا اسناد حسن و در منشور ج 5 ص 170 )
حضرت ربعی رحمتہ اللہ علیہ بن خراش (المتوفی 100ھ )سے روایت ہے :
مجھ سے بنی عامر کے ایک شخص نے بیان کیا کہ میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاظر ہوا اور عرض کیا کہ علم میں سے کوئی ایسی چیز بھی باقی ہے جس کو آپ نہ جانتے ہوں ،حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بہت سی خیر کی تعلیم دی ہے اور بے شک علوم میں سے وہ بھی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا چناچہ پانچ باتیں جو سورہ لقمان کی آخری آیت میں مذکور ہیں ،ان کا پورا علم بس اللہ تعالیٰ ہی کو ہے کسی دوسرے کو نہیں “(مسند احمد )(وقال ابن کثیر ج 3 ص 455 ہذا اسناد صحیح) (در منشور ج 5 ص 170 )
ہمارا فریق مخالف سے سوال ہے کہ:
کیا یہ احادیث پاک صحیح ہیں ؟؟؟
اگریہ احادیث پاک صحیح ہیں تو ان احادیث پاک میں بیان ہوا ہے کہ(مثال کے طور پر) عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ
” حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے سب چیز کی چابیاں دی گئیں مگر ان پانچ چیزوں کی عطا نہیں کی گئیں“(جو سورہ لقمان کی آخری آیات ہیں)
فریق مخالف فرمائیں گے کہ ”جن پانچ چیزوں کی چابیاں عطا ءنہیں کی گئیں“ کا بیان ہے اس سے مراد ”ذاتی “ ہے ”عطائی “ نہیں۔
پھر آپ جواب دیں کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”مجھے سب چیز کی چابیاں دیں گئیں ہیں
اس سے کیا مفہوم ثابت ہوتا ہے ؟
کیا جن چیزوں کی چابیاں عطا کئے جانے کا بیان آیا ہے وہ ”ذاتی“ کے لئے ہے ؟
(جبکہ ذاتی ہونے کا فریق مخالف بھی قائل نہیں)
تو پھر ”عطائی “ کے لئے ہے ۔
(جیسا کہ ان احادیث پاک کے الفاظ سے ہی واضح ہو رہا ہے ”عطا کی گئیں“)
تو پھر ان احادیث پاک میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے جن پانچ چیزوں کی چابیوں کی نفی کی ہے وہ کیا ہیں؟

تمام قارئین کرام سے درخواست ہے کہ جب آپ اس نکتہ پر غور فرمائیں گے تو ان شاءاللہ تعالیٰ بات آسانی سے سمجھ آجائے گی کہ قرآن پاک اور احادیث پاک میں اللہ تعالیٰ کے سوا علم غیب جاننے کی جہاں جہاں واضح نفی ہے فریق مخالف اس” نفی“ کواپنے موقف کے” اثبات“ میں” ڈھالنے“ کے لئے لفظ ”ذاتی “ کا استعمال کرتے ہیں۔تاکہ اپنے موقف کا دفاع کیا جاسکے۔اور لوگوں کے ذہنوں میں سے پیدا ہونے والے سوالات کا آسان جواب دیا جاسکے ۔
فریق مخالف کا محض”ذاتی اور عطائی “ کے الفاظ کو استعمال کر کے واضح اور صاف تعارض (یعنی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ زمین والوں میں سے اور آسمان والوں میں سے کوئی بھی غیب نہیں جانتا اورفریق مخالف کا دعوی ہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم علم غیب جانتے ہیں)دور نہیں ہوگا۔
یہاں ہم اپنی بات ایک دفعہ پھر دہراتے ہیں کہ بزرگان دین کے اقوال میں ”عطائی طور پر“ غیب جاننے سے مراد بطور ” بعضغیب کی خبروں پر مطلع ہونا یا غیب کی خبروں کا علم عطا ءہونا“ ہے۔
اور جبکہ فریق مخالف کا موقف ”عطائی طور پر“غیب جاننے سے مراد ” ابتدائے آفرینش سے الی یوم القیامتہ کے ذرے ذرے کاکلی علم غیب جانناعطاء“ہوتا ہے ۔
جبکہ بیشتر وہ بزرگان دین جو ذاتی اور عطائی کی قیود کو ملحوظ رکھتے ہیں وہ اپنی تصریحات میںصاف اورواضح طور پر لکھتے ہیں کہ” کلی علم غیب“ صرف خاصہ خداوندی ہے۔
لیکن افسوس کہ فریق مخالف نے بزرگان دین کے ان واضح اورصریح اقوال کو چھوڑ کر محض” ذاتی اور عطائی“ کے الفاظ کو لے کر ”ذرے ذرے کاکلی علم غیب جاننا “ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔۔۔۔اورجب دیکھتے ہیں کہ بزرگوں نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے لئے بعض غیب پر مطلع ہونے کی اور کل غیب خاصہ خداوندی ہونے کی واضح تصریح فرمائی ہے ۔۔۔۔ اورخود یہ حضرات ”بعض کے بجائے کل غیب عطاء“کے مدعی ہیں ۔۔۔۔ تو اس تعارض کو دور کرنے کے لئے کیاتاویلات کرتے ہیں ۔۔۔ ان شاءاللہ تعالیٰ اس کی تفصیل اپنے مقام پر آئے گی ۔
آپ تمام حضرات سے دعاﺅں کی خصوصی درخواست ہے ۔
ضروری گذارش : اگر کسی بھائی یا دوست کو ہمارے لکھنے یا سمجھنے میں کوئی کمی کوتاہی نظر آئے تو نشاندہی کی درخواست ہے تاکہ ہم اپنی اصلاح کرلیں ۔جزاک اللہ
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاءفرمائے ۔آمین
۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔
 
شمولیت
اکتوبر 13، 2011
پیغامات
22
ری ایکشن اسکور
121
پوائنٹ
42
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
فریق مخالف کے دلائل کاایک اہم ستون لفظ ”کُل“
محترم قارئین کرام!
یہاں ہم فریق مخالف کے دلائل کے ایک اور اہم ستون لفظ "کل" کی وضاحت پیش کرنا چاہیں گے ۔۔۔۔فریق مخالف کے بیشتر دلائل کی بنیادیں لفظ ”کُل“پر کھڑی ہیں۔۔۔۔قرآن اور حدیث اور اقوال سلف صالحین کی عبارتوں میں فریق مخالف کو جہاں”کل “مل جائے ۔۔۔۔وہ اپنے استدلال کے لئے استعمال کرلیتے ہیں۔
فریق مخالف کی اصل غلطی لفظ”کل“ کو عموم میں نص قطعی سمجھنا ہے ۔ ۔۔۔۔ اورفریق مخالف اس اہم نکتہ کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ۔۔۔۔ اگر چہ لفظ ”کل “ اپنے لغوی مفہوم کے لحاظ سے عام ہے لیکن استعمال کے لحاظ سے ”کل “عموم و خصوص دونوں کے لئے برابر آتا ہے ۔۔۔اگر وہ عموم اور استغراق حقیقی کے لئے آتا ہے تب بھی موقع و محل اور داخلی و خارجی قرائن کا محتاج ہوتا ہے ۔۔۔۔اور اگر کہیں وہ استغراق عرفی و اضافی اور بعضیت کے لئے مستعمل ہوتا ہے تب بھی قرینہ سے مستغنی نہیں ہوسکتا ۔۔۔۔چند دلائل پیش خدمت ہیں :
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَىٰ ۖ قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن ۖ قَالَ بَلَىٰ وَلَـٰكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِي ۖ قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَىٰ كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا ۚ وَاعْلَمْ أَنَّ اللَّـهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ )البقرة 260 پارہ 3
(ترجمہ:اور (غور کرو اس واقعہ پر بھی )جب کہا تھا ابراہیم نے اے میرے رب !دکھا مجھے کیسے زندہ کرے گا تو مردوں کو ۔فرمایا کیا تم ایمان نہیں رکھتے ؟عرض کیا کیوں نہیں ،لیکن میں چاہتا ہوں کہ مطمئن ہوجائے میرا دل ۔فرمایا تو اچھا لے لو چار پرندے اور مانوس کرلو انہیں اپنے ساتھ اور پھر رکھ دو ہر پہاڑ پر ان کا ایک ایک ٹکڑا،پھرپکارو انہیں چلے آئیں گے وہ تمہارے پاس دوڑتے ہوئے ۔خوب جان لو کہ بے شک اللہ غالب اور صاحب حکمت ہے

یہ ظاہر امر ہے کہ ”علیٰ کل جبل(یعنی ہر پہاڑ پر)کے ارشاد سے تمام رﺅئے زمین کے چھوٹے بڑے ،قریب و بعید کے سب پہاڑ تو مراد نہیں تھے ۔۔۔بلکہ اس موقع پر ”علیٰ کل جبل “ سے یقینا بعض پہاڑ مراد ہیں جو قریب ہوں گے ۔
اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔( فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّىٰ إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُم بَغْتَةً فَإِذَا هُم مُّبْلِسُونَ)الانعام 44 پارہ 7
(ترجمہ:پھر جب بھول گئے وہ اس (نصیحت )کو جو انہیں کی گئی تھی تو کھول دیئے ہم نے ان پر دروازے ہر طرح (کی نعمتوں )کےیہاں تک کہ جب وہ خوب مگن ہوگئے ان (نعمتوں )میں جو دیں گئیں تھیں انہیں تو پکڑلیا ہم نے ان کو اچانک اب یہ حال تھا کہ وہ ہر خیر سے مایوس ہوگئے)
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کفر شرک اور دیگر معاصی اور جرائم کا ارتکاب کرنے والی قوموں پر بطور تنبیہ بعض آفاقی اور انفسی تکلیفیں مسلط فرمادیں تاکہ وہ اپنی مذموم حرکات سے باز آجائیں لیکن جب انہوں نے اثر پزیری کا ثبوت نہیں دیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ہر طرح کی نعمتیں عطاءفرمائیں ۔۔۔یہاں تک کہ جب وہ لوگ ان میں مگن ہوگئے تو اللہ تعالیٰ کی پکڑ آگئی ۔۔۔۔اور وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے عذابوں کا شکار ہوگئے ۔۔اب یہ قطعی اور حتمی امر ہے کہ ”کل شئی“ سے مراد یہ نہیں کہ ان نافرمان قوموں پر نبوت و رسالت مقبولیت و ولایت اور رضا وغیرہ کے دروازے کھولے ہوں گے بلکہ مراد یہ ہے کہ بعض ظاہری نعمتوں کے دروازے کھولے ہوں گے۔

قرآن پاک میں اس کی اور بھی مثالیں موجود ہیں لیکن ہم اختصار کے ساتھ ان دلائل پر اکتفا کرتے ہیں ۔
ایک حدیث پاک میں آتا ہے کہ ”ایک مرتبہ مدینہ میں ایسی سخت بارش ہوئی کہ ”حقت کل شئی “(بخاری ج 1 ص 137) کہ اس نے ہر چیز کو بیخ کنی سے اکھاڑ دیا ۔۔۔یقینا کافی نقصان ہوا ہوگا ۔۔۔۔لیکن یہ یقینی امر ہے کہ اس تباہی اور بربادی سے مدینے کے بہت سے مقامات محفوظ رہے ۔۔۔۔اس طرح کی کئی احادیث آپ کو بخار ی میں مل جائیں گی ۔
اسی بناءپر امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ”جائز فی کلام عرب اذا صام اکثر الشھر ان یقال صام الشھر کلہ “(ترمذی ص29)یعنی کلام عرب میں جائز ہے کہ جب کوئی مہینہ کے اکثر روزے رکھے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ اس نے سارے مہینے کے روزے رکھے ۔
علامہ مجد فیروز آبادی ”کل “کی بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”وقد جاءبمعنی بعض ضد“لفظ ”کل“ کبھی بعض کے لئے بھی آتا ہے اور یہ اضداد ہیں (کہ دونوں ضدوں میں استعمال ہوتا ہیں)
اور ملا جیون رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ”وکلمة کل یحتمل الخصوص “(نور الانوار ص81)یعنی اور کلمہ ”کل “خصوص کا احتمال رکھتا ہے ۔
بلکہ یہ ہی خانصاحب اپنے فتوی کے پرانے ایڈیشن فتاوی رضویہ جلد اول صفحہ 737میں لکھتے ہیں کہ ”کبھی ”کل “سے اکثر مراد ہوتا ہے ۔
امید ہے کہ تمام دوست ان تمام دلائل کے بعد با آسانی سمجھ رہے ہوں گے کہ اگر چہ لفظ ”کل “ اپنے لغوی مفہوم کے لحاظ سے عام ہے لیکن استعمال کے لحاظ سے ”کل “بعض اور عموم و خصوص دونوں کے لئے برابر آتا ہے۔
اسی طرح مشہور حنفی امام السرخی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی410 ھ) لکھتے ہیں کہ”اور کلمة ”کل“کلمہ”من“کی طرح خصوص کا احتمال رکھتا ہے “(اصول سرخی ج 1 ص 157)
اور علامہ زبیدی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ”لفظ ”کل “کا استعمال کبھی بعض کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے “پھر فرمایا کہ” ہمارے شیخ نے فرمایا کہ ائمہ لغت نے فکلی من کل الثمرات “میں اور اسی طرح” واوتیت کل شئی “میں لفظ ”کل“کو بعض ہی کے لئے کہا ہے “(التاج العروس ج 8 ص100)
امید ہے کہ یہ ایک اور اہم اور قیمتی نقطہ آپ لوگ باآسانی سمجھ رہے ہوں گے ۔۔۔۔فریق مخالف کے ”کل “(بمعنی اکثر)دلائل کی ”کل متاع “”کل “ہے ۔ ۔۔۔جس کی جڑ میں فریق مخالف کی اہم بنیادیں قائم ہیں۔۔۔۔ فریق مخالف کو قرآن اور حدیث اوراقوال سلف صالحین میں جہاں ”کل “نظر آجائے ۔ ۔ ۔ ۔وہ دیگر عبارتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے موقف کے حق میں استدلال کے لئے استعمال کرلیتے ہیں ۔
اگر کسی بھائی کوہمارے لکھنے یا سمجھنے میں کوئی کوتاہی نظر آئے تو ہمیں ضرور نشاندہی فرمائیں تاکہ ہم اپنی اصلاح کرلیں ۔جزاک اللہ
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاءفرمائے ۔آمین
۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔
 
شمولیت
اکتوبر 13، 2011
پیغامات
22
ری ایکشن اسکور
121
پوائنٹ
42
بسم اللہ الرحمن الرحیم
کیا قرآن پاک میں ہر ہر ذرے ذرے کابیان ہے؟؟
معزز قارئین کرام!
اب آجاتے ہیں فریق مخالف کے کچھ دلائل اور اُن کی وضاحتوں کی طرف ۔۔۔۔۔ سب سے پہلے پیش خدمت ہے فریق مخالف کی سب سے اہم اور بنیادی دلیل بلکہ واحد دلیل بھی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا
(اس کی وضاحت ان شاء اللہ تعالیٰ آنے والی پوسٹوں میں پیش کی جائے گی کہ فریق مخالف کے پاس اپنے دعوی کو ثابت کرنے کے لئے یہ واحد دلیل ہے)
فریق مخالف کے اعلیٰ حضرت مولوی احمد رضا صاحب (اسی طرح مولوی نعیم الدین مرادآبادی ”الکمة العلیاء“ میں ۔۔اور مفتی احمد یار نعیمی ”جاءالحق “ (ص 52 )میں اور مولوی محمد عمر صاحب ”مقیاس حنفیت“(ص294) لکھتے ہیں کہ
بے شک حضرت عزت عظمتہ نے اپنے حبیب اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو تمامی اولین وآخرین کا علم عطاءفرمایا شرق تاغرب،عرش تا فرش سب انہیں دکھایا ،ملکوت السموت والارض کا شاہد بنایا ،روز اول سے روز آخر تک کا سب ماکان و مایکون انہیں بتایا ،اشیاءمذکورہ سے کوئی ذرہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے علم سے باہر نہ رہا ،علم عظیم حبیب کریم علیہ افصل الصلوة والسلام اُن سب کو محیط ہوا نہ صرف اجمالا بلکہ ہر صغیر و کبیر ،ہر رطب و یابس جو پتہ گرتا ہے زمین کے اندھیروں میں جو دانہ کہیں پڑا ہے سب کو جدا جدا تفصیلا جان لیا ۔۔۔الیٰ ان قال۔۔۔تو بحمدہ اللہ قرآن عظیم خود شاہد عدل و حکم فصل ہے ۔۔۔قال اللہ تعالیٰ :
(وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ )النحل 89 پارہ 14
(ترجمہ:اتاری ہم نے تم پر کتاب جو ہر چیز کا روشن بیان ہے اور ہدایت رحمت اور خوشخبری ہے مسلمانوں کے لئے )
وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ ) یوسف 111 پارہ13
(ترجمہ:اور تفصیل ہے ہر چیز کی )
( مَّا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِن شَيْءٍ ۚ )الانعام 38 پارہ 7
(ترجمہ :ہم نے کتاب میں کوئی چیزاٹھا نہیں رکھی
)
(انباءالمصطفیٰ ص3)
پھر آگے یوں لکھتے ہیں کہ :
نکرہ حیز نفی مفید عموم ہے اور لفظ ”کل“ تو ایسا عام ہے کہ کبھی خاص ہوکر مستعمل ہی نہیں ہوتا ۔اور عام افادہ استغراق میں قطعی ہے اور نصوص ہمیشہ ظاہر پر محمول رہیں گے بے دلیل شرعی تخیص و تاویل کی اجازت نہیں ورنہ شریعت سے امان اٹھ جائے“الخ (ص 4)
محترم قارئین کرام!
فریق مخالف کا ان آیات سے جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے لئے ’’کلی علم غیب‘‘ کا دعوی سو فیصد باطل اور قطعا مردود ہے۔
اولا
اس لئے پہلی دلیل سورہ نحل (89 )کی آیت کا ٹکڑا ہے ۔۔۔اور سورہ نحل مکی ہے ۔
اور دوسری دلیل سورہ یوسف (111) کی آخری آیت کا حصہ ہے اور سورہ یوسف بھی مکی ہے ۔
اور تیسری دلیل سورہ الانعام کی آیت کا جز ہے اور سورہ انعام بھی مکی ہے ۔
(اور اس میں فی الکتاب سے بعض حضرات مفسرین کرام کے نزدیک لوح محفوظ مراد ہے ،قرآن کریم مراد نہیں ہے جیسا کہ فریق مخالف کے وکیل کا دعوی ہے )
اگر فریق مخالف کے نزدیک جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے لئے ذرہ ذرہ اور پتہ پتہ کا علم ثابت ہے اور ان دلائل کی وجہ سے آپ عالم الغیب ہیں یا آپ کے لئے جمیع ماکان ومایکون کا علم ثابت ہوتا ہے تو اس کے بعد آپ پر وحی نازل نہیں ہونی چاہیے تھی کیوں کہ کل غیب تو آپ کو ان آیات سے عطاءہوہی چکا تھا حالانکہ اس کے بعد دیگر احکام تو بجائے خود رہے ،قرآن کریم کا بھی باقاعدہ نزول ہوتا رہا ۔کیا وہ حصہ فریق مخالف کے نزدیک جمیع ماکان ومایکون میں داخل نہیں ؟؟
علاوہ ازیں اس کے بعد مدنی سورتوں میں نفی علم غیب کی صاف اور صریح آیتیں بھی نازل ہوئیں ۔۔۔لیکن تعجب ہے کہ فریق مخالف مکی آیات سے جمیع ماکان ومایکون کا علم ثابت کرتا ہے جبکہ بے شمار امور اللہ تعالیٰ نے ان کے بعد آپ کو مدنی زندگی میں بتلائے اور بعض امور کی نفی کا ثبوت بھی اس کے بعد قطعی نصوص سے ثابت ہے۔
(اس جواب سے فریق مخالف یوں گلو خلاصی کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ’’تدریجا علم غیب عطاء‌ہوا یعنی جیسے جیسے قرآن کریم کا نزول ہوتا رہا علم غیب کی عطاء ہوتی رہی اور جب قرآن کریم کا نزول مکمل ہوا تو کلی علم غیب کی عطاء مکمل ہوئی ؟؟؟ (محصلہ) ان شاء اللہ تعالیٰ فریق مخالف کی اس دلیل کی حقیقت اپنے مقام پر پیش کی جائے گی)
وثانیا
یہاں فریق مخالف کا استدلال لفظ ’’کل‘‘عموم اور استغراق حقیقی سمجھ کر ہے جبکہ الحمد للہ ہم اپنی پچھلی پوسٹ میں لفظ ’’کل‘‘ کی حقیقت ٹھوس حوالاجات اور مثالوں سے بیان کر آئے ہیں کہ لفظ ’’کل‘‘ اگر چہ لفظی مفہوم سے عام ہے لیکن استعمال کے لحاظ سے عموم و خصوص دونوں کے لئے برابر آتا ہے۔لہذا لفظ ’’کل‘‘ کو عموم اور استغراق حقیقی سے استدلال کرنے سے قبل دیگر قرائن اور شواہد کو مدنظر رکھا جائے گا ۔۔۔۔ جو کہ واضح طور پر فریق مخالف کے مدعے کے خلاف جاتے ہیں۔
وثالثا
احمد رضا صاحب اور ان کی جماعت کے نزدیک ”تبیانا لکل شئی “ کی آیت سے ہر ہر ذرہ کا اور ہر ہر رطب ویابس کا علم ثابت ہوتا ہے اور ان کا یہ دعوی ہے کہ قرآن کریم میں ہر ہر چیز کا علم ہے اور محض بیان ہی نہیں بلکہ روشن بیان اور صرف مجمل ہی نہیں بلکہ مفصل ۔۔۔چناچہ احمد رضا صاحب لکھتے ہیں کہ ” جب فرقان مجید ہر شے کا بیان ہے اور بیان بھی کیسا روشن اور روشن بھی کس درجے کا مفصل “ (انباءالمصطفےٰ ص 3)
تو ہماری فریق مخالف سے گذارش ہے کہ برائے کرم اس الحاد کے دور میں جب منکرین حدیث نمازوں کی اور زکوة وغیرہ کی پوری تفصیل اور عدد رکعت اہل اسلام سے قرآن کریم کے حوالہ سے چلا چلا کر پوچھتے ہیں تو بتائیے کہ ان کے یہ سوالات قرآن کریم کی کس آیت حل ہوں گے ؟؟
اجمالی بیان ناکافی ہوگا ،بیان روشن ہو اور بالکل مفصل ،کیا ہے فریق مخالف کے کسی غیور اہل دل میں یہ ہمت کہ کم از کم منکرین حدیث کا یہ سوال اور اس قسم کے سینکروں بلکہ ہزاروں سوال قرآن کریم سے حل کردے اور حل بھی کیسا روشن ۔۔۔اور روشن بھی کس درجہ کا مفصل ؟؟؟
علاوہ بریں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر واقعی قرآن مجید میں ہر شے کا بیان ہے اور بیان بھی کیسا روشن ۔۔اور روشن بھی کس درجہ کا مفصل ،تو بتائیے حضرات فقہائے کرام کو حدیث ،اجماع امت اور قیاس کی کیا ضرورت پیش آئی ؟
بقول احمد رضا صاحب فرقان مجید میں تو ہر شے کا روشن اور مفصل بیان مذکور ہے ،اور قرآن کریم کے روشن اور مفصل بیان کی موجودگی میں کسی اور دلیل کی کیا ضرورت باقی رہتی ہے اور خصوصیت سے اجماع امت اور قیاس و اجتہاد کی کیا حاجت باقی رہی ؟
اوراگر احمد رضا صا حب کا دعوی درست ہے تو فقہائے کرام کو قرآن مجید کے روشن مفصل بیان ہوتے ہوئے غیر معصوم اقوال اور قیاس و اجتہاد کے ظنی قلعہ کے اندر پناہ ڈھونڈنے کی کیا ضرورت پیش آئی ؟؟؟
و رابعا
اب ملاحظہ فرمائیں کہ حضرات مفسرین کرام رحمھم اللہ نے ”تبیانا لکل شئی “ اور اسی مضمون کی دوسری آیات کا کیا مطلب بیان فرمایا ہے :
علامہ بغوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
تبیانا لکل شئی یحتاج الیہ من الامر و النھی والحلال و الحرام والحدود والاحکام‘‘الخ(معالم التنزیل ج 2 ص 212)
یعنی ہر وہ چیز جس کی امر و نہی اورحلال حرام اور حدود و احکام میں جس کی ضرورت پڑتی ہو

علامہ ابو البرکات نسفی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
تبیانا لکل شئی من امور الدین امافی الاحکام المنصوصة فظاھر وکذا فیما ثبت بالسنة او بالا جماع او بقول الصحابی او بالقیاس لان مرجع الکل الیٰ الکتاب حیث امرنا فیہ باتباع رسولہ وطاعتہ الخ (المدارک ج 1 ص 442)
یعنی تبیانا لکل شئی سے امور دین کا بیان مراد ہے احکام منصوصہ میں تو بالکل ظاہر ہے اور اسی طرح جو احکام سنت یا اجماع یا قول صحابی یا قیاس سے ثابت ہیں کیوں کہ ان سب کا مرجع کتاب اللہ ہی ہے کہ اس میں ہمیں آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور طاعت کا حکم دیا گیا ہے ۔

علامہ معین بن صفی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
تبیانا لکل شئی بیانابلیغا لکل شئی یحتاجون الیہ من امور دین “(جامع البیان ج 1 ص 232)
یعنی تبیانا لکل شئی کا مطلب یہ ہے کہ اقرآن میں امور دین کی ہر ایسی چیز کا بیان بلیغ موجود ہے جس کی لوگوں کو حاجت پڑتی ہے

علامہ خازن رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
قال مجاھد یعنی لما امر بہ وما نھی عنہ وقال اھل المعانی تبیانا لکل شئی یعنی من امور الدین اما بالنص علیہ او بالاحالة علیٰ ما یوجب العلم بہ من بیان النبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم لان النبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم بین مافی القراٰن من الاحکام والحدود والحلال والحرام و جمیع الما مورات والمنھیات و اجماع الامت فھو ایضا اصل و مفتاح لعلوم الدین الخ (تفسیر خازن ج 4 ص 90)
یعنی حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تبیانا لکل شئی سے مامور بہ اور منہی عنہ مراد ہے اور اہل معانی فرماتے ہیں کہ تبیانا لکل شئی سے امور دین مراد ہیں یا تو نصوص کی وجہ سے اور یا اس لئے آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے اس کا ثبوت ملتا ہے کیوں کہ آپ نے قرآن کریم کے پیش کردہ احکام اور حدود اور حلال و حرام اور تمام مامورات اور منہیات بیان فرمائے ہیں اور اجماع امت کے ساتھ جو کچھ ثابت ہے وہ بھی اس میں داخل ہے کیوں کہ اجماع بھی علوم دین کی ایک اصل اور مفتاح ہے۔

نیز وہ لکھتے ہیں کہ :
بین فی ھذہ الایة الما مور بہ و المنھی عنہ علیٰ سبیل الاجمال فما من شئی یحتاج الیہ الناس فی امر دینھم مما یجب ان یوتی بہ او یترک الا وقد اشتملت علیہ ھذہ الایة“ (خازن ج 4 ص 91)
یعنی اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مامور بہ و منہی عنہ کو علیٰ سبیل الاجمال بیان فرمایا ہے سو کوئی ایسی چیز نہیں جس کی ھاجت لوگوں کو امور دین میں پیش آئے جس کا ذکر کرنا یا چھوڑنا واجب ہے مگر اس کا بیان اس آیت میں کردیا گیا ہے

قاضی بیضاوی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ :
’’تبیانا لکل شئی من امور الدین “(تفسیر بیضاوی ج 1 ص 450)
یعنی امور دین کی واضح تشریح اس میں موجود ہے

علامہ جلال الدین رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
تبیانا لکل شئی یحتاج الناس الیہ من امر الشریعة الخ (جلالین ص224)
یعنی ہر وہ چیز مراد ہے جس کی لوگوں کو امر شریعت میں حاجت ہوسکتی ہے

اور امام رازی رحمتہ اللہ علیہ نے اسی کے قریب (تفسیر کبیر ج 20 ص 99) لکھا ہے ۔
بلکہ امام رازی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ”اما العلوم التی لیست دینیة فلا تعلق لھا بھذہ الایة الخ (تفسیر کبیر ج 20 ص 99)
یعنی بہر حال وہ علوم جو دینی نہیں تو ان کا آیت سے کوئی تعلق نہیں “

اور ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ :
تبیانا لکل شئی قال ابن مسعود بین لنا فی ھذا القراٰن کل علم و کل شئی وقال مجاھد کل حرام و حرام و قول ابن مسعود اعم و اشمل فان القراٰن اشمل علیٰ کل علم نافع من خبر ماسبق وعلم ما سیاتی وکل حلال و حرام وما الناس الیہ محتاجون فی امر دنیا ھم و دینھم و معاشھم و معادھم الخ (تفسیر ابن کثیر ج 2 ص 582)
یعنی ”تبیانا لکل شئی “کا مطلب حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس قرآن کریم میں ہر علم اور ہر شئے بیان کی ہے ۔۔۔اور حضرت مجاہدرحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہر حلال اور حرام بیان کیا گیا ہے اور حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ کا قول اعم اور اشمل ہے کیوں کہ قرآن کریم ہر نافع علم پر مشتمل ہے جس میں پہلے کے لوگوں کی خبریں ہیں ،اور آئیندہ آنے والے واقعات کا علم ہے اور ہر حلال حر ام کا ،اور اسی طرح لوگ اپنے دین و دنیا اور معاش معاد میں جس چیز کے محتاج ہیں اس میں یہ سب کچھ بیان کیا گیا ہے ۔

علامہ السید محمود آلوسی الحنفی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ :
والمراد من کل شئی علیٰ مذھب الیہ جمع مایتعلق بامور الدین ای بیانا بلیغا لکل شئی یتعلق بذٰلک ومن جملتہ احوال الامم مع انبیائھم علیھم السلام وکذا ما اخبرت بہ ھذا الاٰیة من بعث الشھداءوبعثہ علیہ الصلوة والسلام فانتظام الاٰیة بما قبلھا ظاھر والدلیل علیٰ تقدیر الوصف المخصص للشئی المقام وان بعثة الانبیاءعلیھم الصلوة والسلام انما ھی لبیان الدین ا ھ (روح المعانی ج 14 ص 214)
یعنی کل شئی سے مراد جیسا کہ حضرات مفسرین کرام کی ایک بڑجماعت اس طرف گئی ہے وہ امور ہیں جو دین سے متعلق ہوں یعنی امو دین کی پوری تشریح اس میں مذکور ہے اور منجملہ ان کے وہ حالات بھی اس میں مندرج ہیں جو امم سابقہ کو حضرات انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام کے ساتھ پیش آئے اوراسی طرح اس آیت میں اس کا بیان بھی ہے کہ قیامت کے دن دیگر گواہوں کی شہادتیں اور جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی گواہی کیسے ہوگی ؟اس اعتبار سے آیت کا ماسبق کے ساتھ ربط بھی بالکل ظاہر ہے اور کل شئی سے امور دین کے وصف مخصص کی ضرورت بحسب مقام ضروری ہے علاہ بریں حضرات انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام کی دنیا میں بعث ہی بیان دین کے لئے ہوتی ہے لہٰذا امو دین کی قید لگائی گئی ہے “

یہ جتنے بھی حضرات مفسرین کرام ہیں تمام معتبر اور مستند ہیں اور اہل سنت والجماعت کے مسلم مفسر ہیں ۔۔۔ان کے علاوہ معتزلہ اور شیعہ بھی اس آیت میں اصول عربیت اور دیگر شرعی قواعد کے پیش کردہ امور دین اور امور شرع کی قید لگانے پر مجبورہیں ۔
چناچہ جار اللہ زمحشری لکھتے ہیں ”اللہ تعالیٰ نے امور دین کو بیان کیا ہے “(کشاف ج 2 ص 628 )
اور مشہور شیعی مفسر ابو علی الفضل بن الحسن بن الفضل الطبرسی (المتوفی 548 ھ) لکھتا ہے :
ہر ایسی چیز اس میں بیان ہوگئی جس کی طرف امور شرع میں حاجت پڑتی ہے“(مجمع البیان ج 2 ص 46)
معزز قارئین کرام !
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ ”تبیانا لکل شئی “ کی آیت سے حسب تصریح حضرات مفسرین کرام اہل سنت والجماعت (بلکہ بمع معتزلہ اور شیعہ کے) صرف امور دین مراد ہیں عام اس سے کہ حلال حرام سے متعلق ہوں یا اوامرونواہی سے، ماسبق کے حالات ہوں یا آئندہ کے ،دنیا میں پیش آنے والے ہوں یا آخرت میں وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔اس آیت سے غیر شرعی امور اور غیر دینی احکام کا اثبات بھی کارے دارد ،چہ جائیکہ اس سے علم غیب ثابت ہو ۔
جس میں بقول احمد رضا صاحب کوئی ذرہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم لے علم سے باہر نہ رہا ؟؟؟
معزز قارئین کرام
کیوں کہ فریق مخالف کی یہ دلیل سب سے اہم بنیادی بلکہ واحد ہے اس لئے ہم اس دلیل کو قدرے تفصیل سے وضاحت کررہے ہیں طوالت کی وجہ سے ہم نے اس کو دو حصوں میں منقسم کردیا ہے ۔۔۔ان شاء اللہ تعالیٰ اس وضاحت کا بقیہ حصہ ہم اپنی اگلی پوسٹ میں پیش کریں گے ۔۔۔۔ آپ تمام حضرات سے دعاؤں کی خصوصی درخواست ہے ۔۔۔۔ نیز کسی بھائی یا دوست کو ہمارے لکھنے یا سمجھنے میں کوئی کمی کوتاہی نظر آئے تو نشادہی کی درخواست ہے تاکہ ہم اپنی اصلاح کرلیں ۔جزاک اللہ
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے ۔آمین
۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔
 
شمولیت
اکتوبر 13، 2011
پیغامات
22
ری ایکشن اسکور
121
پوائنٹ
42
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
گذشتہ سے پیوستہ :
لیکن احمد رضا صاحب نے ان (تبیانا لکل شئی پر حضرات مفسرین کرام کے)اقوال سے گلو خلاصی کی جو ناکام کوشش کی ہے وہ بھی قابل دید ہے ۔
چناچہ ملفوضات حصہ سوم میں لکھا ہے کہ ”عرض :بہت سے مقامات پر آئمہ تفسیر کا قول نہیں مانا جاتا مثلا قاضی بیضاوی رحمتہ اللہ علیہ نے یا اورآئمہ مثلاً خازن رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ نے ”تبیانا لکل شئی “کو مخصص بتایا ہے۔۔۔۔ارشاد: قاضی بیضاوی رحمتہ اللہ علیہ یا خازن رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ ائمہ تفسیر نہیں ،ائمہ تفسیر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں اور تابعین رحمھم اللہ میں بھی عظام کی تخصیص ہے “بلفظہ
یعنی جب بات آجا ئے اپنے موقف کے اثبات کے لئے تو پھر تیرہویں صدی کے مفسر ”صاوی “ کے قول بھی حجت بن جائیں اور اسی طرح تفسیر جمل وغیرہ بھی مفسر ہیں لیکن جب بات آئے اپنے موقف کی مخالفت کی تو قاضی بیضاوی رحمتہ اللہ علیہ اور علامہ خازن رحمتہ اللہ علیہ وغیر ہ بھی ائمہ تفسیر نہیں ؟؟
جبکہ تمام اہل سنت والجماعت بالا اتفاق ائمہ مفسر تسلیم کرتے ہیں ۔
نیز دریافت یہ کرنا تھا کہ کیا علامہ بغوی رحمتہ اللہ علیہ ،حافظ ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ ،علامہ آلوسی رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ بھی آئمہ تفسیر میں شامل نہیں ؟؟
اور کیا مجاہد بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ جو تابعین عظام میں سے ہیں وہ بھی ائمہ تفسیر میں یا نہیں ؟؟؟
جبکہ تمام اہل سنت والجماعت مجاہد بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ کو اول درجہ کا مفسر مانتے ہیں ۔
حافظ ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب قرآن کریم کی تفسیر خود قرآن ،سنت اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے نہ مل سکے تو :
فقد رجع کثیر من الائمة فی ذٰلک الیٰ اقوال التابعین کمجاھد بن جبیر فانہ کان اٰیة فی التفسیر “(تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 4)
یعنی تو بہت سے ائمہ دین نے حضرات تابعین کے اقوال کی طرف رجوع کیا ہے جیسے مجاھد بن جبیر کیوں کہ وہ درجہ اول کے مفسر تھے۔
اورامام سیوطی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
”فمن المبرزین منھم مجاھد قال الفضل بن میمون سمعت مجاھدایقول عرضت القراٰن علیٰ ابن عباس ثلاثین مرة و عنہ ایضا قال عرضت المصحف علیٰ ابن عباس ثلاث عرضات اقف عند کل اٰیة منہ واسئالہ عنھا فیما نزلت و کیف کانت وقال خصیف کان اعلمھم بالتفسیر مجاھد وقال النووی اذا جاءک التفسیر عن مجاھد فحسبک بہ قال ابن تیمیہ ولھذا یعتمد علیٰ تفسیرہ الشافعی والبخاری اوغیھما من اھل العلم الخ (تفسیر التقان ج 2 ص 189)
یعنی حضرات تابعین رحمھم اللہ کے اندر فن تفسیر میں گوئے سبقت لے جانے والے حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ ہیں ،فضل بن میمون رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ سے سنا ،وہ فرماتے تھے کہ میں نے تیس مرتبہ قرآن کریم حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ پر پیش کیا ہے اور نیز یہ فرمایا کہ میں نے تین مرتبہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ پر اس طرح قرآن کریم پیش کیا کہ ہر آیت کے پاس ٹہر جاتا اور اس کے شان نزول اور مطلب کے بارے میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا جاتا ،خصیف رحمتہ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ تمام حضرات تابعین کرام رحمھم اللہ میں حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فن تفسیر کے بڑے عالم تھے ۔امام نووی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب مجاہد رحمتہ اللہ علیہ سے تجھے تفسیر پہنچ جائے تو تجھے بس ہے ۔اور امام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ حضرت مجاھد رحمتہ اللہ علیہ کی تفسیر پر حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ اور امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ اہل علم مکمل اعتماد کرتے ہیں
(تفسیر التقان ج 2 ص 189)
معزز قارئین کرام !
یہ پچھلی سطروں میں گذرچکا ہے کہ حضرت مجاھد رحمتہ اللہ علیہ نے ایک روایت میں اس آیت میں کل شئی کی تفسیر حلال حرام سے اور دوسری میں مامور بہ اور منہی عنہ سے کی ہے ۔
اور کیا احمد رضا صاحب کے نزدیک حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بھی ائمہ تفسیر ہیں یا نہیں ؟؟؟
جمہور علماءاسلام تو ان کو حضرات صحابہ کرام میں درجہ اول کا مفسر تسلیم کرتے ہیں (ملاحظہ ہو تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 3وغیرہ)
اور امام نووی رحمتہ اللہ علیہ تو یہاں تک لکھتے ہیں کہ فن تفسیر میں وہ حضرات خلفاءراشدین سے بھی بڑھے ہوئے ہیں (نوو ی شرح مسلم ج 2 ص 293)
اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ تو بقول حافظ ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ ”تبیانا لکل شئی “ کی تفسیر ہر نافع علم سے اور حلال و حرام اور ایسے امور سے کرتے ہیں جن کی لوگوں کو دین و دنیا معاش و معاد وغیرہ میں ضرورت ہو ۔
معزز قارئین کرام!
الحمد للہ آپ کے سامنے فریق مخالف کی اہم اور بنیادی دلیل کی تفصیلی وضاحت پیش کی جاچکی ہے ۔۔۔جس کے بعد یہ نکتہ آئینہ کی طرح صاف شفاف ہوچکا ہے کہ قرآن کریم میں" کل شئی"سے مراد ہر نافع علوم ۔۔حلال و حرام ۔۔۔۔ اور ایسے امور مراد ہیں جن کی لوگوں کو دین و دنیا معاش و معاد میں حاجت ہوتی ہے ۔
ناکہ تمام انسان حیوان چرند پرند دریائی سمندری مخلوقات ،کیڑے مکوڑوں کی مکمل تعداد ،اُن کا رہنا سہنا ،کھنا پپینا ، چلنا پھرنا ،موت و حیات غرض یہ کہ تمام مخلوقات کی ہر ہر سیکنڈ ہر ہر لمحہ کی مکمل تفصیل و حالات کا بیان مراد ہوسکتا ہے ؟؟؟
ہم تو سمجھتے ہیں کہ اگر فریق مخالف خود اپنے ضمیر کو گواہ بنا کر سوچیں تو یقینا اُن کا اپنا ضمیر اس کے خلاف گواہی دے گا۔
اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت دے ۔آمین
اس کے بعد ضروت تو محسوس نہیں ہوتی لیکن پھر بھی مزید وضاحت ملاحظہ فرمائیں
جیسا کہ فریق مخالف فرماتے ہیں کہ ” قرآن پاک میں ہرہر ذرے ذرے کا بیان موجود ہے
تو ہمارا سوال ہے کیا لوح محفوظ میں جو کچھ لکھا ہے اس کی تفصیل قرآن پاک میں موجود ہے ؟
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔( وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّن قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً ۚ وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ ۗ لِكُلِّ أَجَلٍ كِتَابٌ ﴿٣٨﴾ يَمْحُو اللَّـهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ ۖ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ الخ رعد38،39 پارہ 13
(ترجمہ :ہم تجھ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ہم نے ان سب کو بیوی بچوں والا بنایا تھا ،کسی رسول سے نہیں ہو سکتا کہ کوئی نشانی بغیر اللہ کی اجازت کے لئے آئے ،ہر مقرر وعدے کی ایک لکھت ہے ،اللہ جو چاہے نابود کردے اور جو چاہے ثابت رکھے ،لوح محفوظ اسی کے پاس ہے )

ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اشاد فرماتا ہے کہ جیسے آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم باوجود انسان ہونے کے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم ہیں ایسے ہی آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے تمام رسول بھی انسان ہی تھے ،کھانا کھاتے تھے ،بازاروں میں چلتے پھرتے تھے بیوی بچوں والے تھے۔۔۔۔پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ معجزے ظاہر کرنا کسی نبی کے بس کی بات نہیں ۔یہ اللہ عزو جل کے قبضے کی چیز ہے۔۔۔ ۔جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے ،جو ارادہ کرتا ہے ،حکم دیتا ہے ۔ہر ایک بات مقرر وقت اور معلوم مدت کتاب میں لکھی ہوئی ہے ۔
آگے مزید لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جو چاہے مٹائے جو چاہے باقی رکھے،سال بھر کے امور مقرر کر دئےے لیکن اختےار سے باہر نہیں ۔ جو چاہا باقی رکھا ۔جو چاہا بدل دیا ۔سوائے شقاوت ،سعادت ،حیات و ممات کے،کہ ان سے فراغت حاصل کر لی گئی ہے ان میں تغیر نہیں ہوتا۔

مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ ”بعض گناہوں کی وجہ سے انسان اپنی روزی سے محروم کردےا جاتا ہے اور تقدیر کو سوائے دعا کے کوئی چیز میں بدل سکتی اور عمر کی زیاتی کرنے والی بجز نیکی کے کوئی چیز نہیں“(مسند احمد:5۔277)
”بعض گناہوں کی وجہ سے انسان اپنی روزی سے محروم کردیا جاتا ہے “کے علاوہ باقی حدیث دوسری اسناد کے صحیح ہے۔(ابن ماجہ:کتاب المقدمہ ،باب فی القدر ،ح:90 (ایضاً)(نسائی)
مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب اس سے پہلے کی آیت اتری کہ کوئی رسول بغیر اللہ کے فرمان کے کوئی معجزہ نہیں دکھا سکتا تو قریش کے کافروں نے کہا،پھر تو محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم بالکل بے بس ہیں ۔کام سے تو فراغت ہوچکی ہے۔پس انہیں ڈرانے کے لئے یہ آیت اتری کہ ہم جو چاہیں تجدید کر دیں ۔
ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
اللہ تعالیٰ جو چاہے مٹائے جو چاہے باقی رکھے،سال بھر کے امور مقرر کر دئیے لیکن اختیار سے باہر نہیں ۔ جو چاہا باقی رکھا ۔جو چاہا بدل دیا ۔سوائے شقاوت ،سعادت ،حیات و ممات کے،کہ ان سے فراغت حاصل کر لی گئی ہے ان میں تغیر نہیں ہوتا۔
مزید لکھتے ہیں کہ منصور نے حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا کہ ہم میں سے کسی کا یہ دعا کرنا کیسا ہے کہ الٰہی میرا نیکوں میں ہے تو باقی رکھ اور اگر بدوں میں ہے تو اسے ہٹا دے اور نیکوں میں کردے ۔آپ نے فرمایا کہ یہ اچھی دعا ہے۔ سال بھر کے بعد پھر ملاقات ہوئی یا کچھ زیادہ عرصہ گذر گیا تو میں نے ان سے پھر یہی بات کہی تو آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ ۚ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ ﴿٣﴾ فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ الخ دخان3،4 پارہ25 (ترجمہ:بے شک ہم نے نازل کیا ہے اسے ایک برکت والی رات میں اس لئے کہ ہم (لوگوں کو )متنبہ کرنا چاہتے تھے ۔اس رات میں فیصلہ کیا جاتا ہے ہر پرو حکمت کام کا)اور فرمایا کہ لیلتہ القدر میں سال بھر کی روزیاں ،تکلیفیں مقرر ہوجاتیں ہیں ۔پھر اللہ جو چاہے مقدم ومﺅخر کرتا ہے ۔ہاں ثقاوت اور سعادت کی کتاب نہیں بدلتی ۔
مزید لکھتے ہیں کہ ہر رمضان میں تجدید ہوتی ہے ۔پھر جو اللہ چاہتا ہے مٹادیتا ہے جو چاہتا ہے ثابت رکھتا ہے ،روزی بھی تکلیف بھی ،دیتا ہے اور تقسیم بھی ۔
محترم قارئین کرام
فریق مخالف اپنے دلائل سے یہ تو ثابت کرنے کی کوشش تو کرتے ہیں کہ ”قرآن پاک میں ہر ہر ذرے ذرے کا بیان ہے“
لیکن ہمارا سوال یہ ہے کہ لوح محفوظ میں لکھی اور مٹائی جانے والی تقدیر قرآن پاک میں کیسے ثابت کریں گے ؟؟؟؟

یقینا اگر کوئی کسی باطل کو حق ثابت کرنا چاہے تو اس کو پریشانی تو ہوگی ۔
لیکن اگر کوئی حق بات ثابت کرنا چاہے تو اس کے لئے کوئی پریشانی نہیں۔
اب آئیے آخر میں ملاحظہ فرمائیں کہ فریق مخالف نے ”تبیانا لکل شئی “سے اس پر دلیل قائم کرنا کس سے مستعار لیا ہے ؟
شیعہ کی مشہور و معروف کتاب ”اصول کافی “ میں حضرت امام جعفر صادق رحمتہ اللہ علیہ سے یہ بات منسوب کی گئی ہے کہ:
امام ابو عبداللہ نے فرمایا کہ اگر میں حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیہما السلام کے پاس ہوتا تو میں ان کو بتلا دیتا کہ میں ان دونوں سے بڑا عالم ہوں (معاذ اللہ )کیوں کہ میں آسمانوں اور زمین کی چیزوں کو جانتا ہوں اورجنت اور دوزخ کی چیزوں کو جانتا ہوں اور جو کچھ ہوچکا ہے اور آئیندہ ہوگا میں اس کو بھی جانتا ہوں ۔جب انہوں نے محسوس کیا کہ لوگوں پر یہ دعوی گراں گذرا ہے تو وہ فرمانے لگے کہ میں نے یہ سب کچھ قرآن کریم سے معلوم کیا ہے کیوں کہ فیہ تبیانا لکل شئی اس میں ہر چیز کا بیان موجود دہے “(اصول کافی ص 140)
باقی قارئین کرام خود فیصلہ کرسکتے ہیں کہ فریق مخالف کی جماعت کا قاروہ جا کر کس سے ملتا ہے ؟؟؟

ضروری گذارش : اگر کسی بھائی یا دوست کو ہمارے لکھنے یا سمجھنے میں کوئی کمی کوتاہی نظر آئے تو نشادہی کی درخواست ہے تاکہ ہم اپنی اصلاح کرلیں۔جزاک اللہ
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین
۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔
 
شمولیت
اکتوبر 13، 2011
پیغامات
22
ری ایکشن اسکور
121
پوائنٹ
42
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
تدریجاً علم غیب عطاء کیا گیا
محترم قارئین کرام!
فریق مخالف فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو تدریجاً علم غیب عطاءکیا گیا ۔۔۔۔قرآن پاک میں ہے ’’تبیانا لکل شئی‘‘ یعنی قرآن پاک میں ہر ہر ذرہ ذرہ کا مکمل بیان ہے ۔۔۔۔۔لہذا تکمیل نزول قرآن کے ساتھ سرکار صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے لئے کل شئی کاتبیان وعلم مکمل و اکمل ہوا“(محصلہ)
دلیل میں فریق مخالف کے وکیل مفتی احمد یار صاحب یہ آیت مبارکہ پیش فرماتے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(وَأَنزَلَ اللَّـهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُن تَعْلَمُ ۚ وَكَانَ فَضْلُ اللَّـهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا ) النساء113 پارہ 5
( ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے تجھ پر کتاب و حکمت اتاری ہے اورتم کو سیکھایا جو کچھ تم نہیں جانتے تھے،اوراللہ کا تم پر فضل ہے)

نیزمفتی احمد یار خاں صاحب اپنے موقف کی تائید میں تفاسیرکے حوالا جات بھی پیش فرماتے ہیں۔
”یعنی احکام اور علم غیب“(تفسیرجلالین)
”اللہ تعالیٰ نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم پر قرآن اتارا اورحکمت اتاری اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو ان کے بھیدوں پر مطلع فرمایااور ان کی حقیقتوں پر واقف کیا“(تفسیر کبیر)
”یعنی شریعت کے احکام اور دین کی باتیں سیکھائیں اور کہاگیا ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو علم غیب میں وہ باتیں سیکھائیں جو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نہ جانتے تھے،اور کہا گیا ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ کو چھپی ہوئی چیزیں سیکھائیں اور دلوں کے راز پر مطلع فرمایا اور منافقین کے مکر و فریب آپ کو بتادئیے“(تفسیر خازن)
”اور شریعت کے امور سیکھائے اور چھپی ہوئی باتیں دلوں کے راز بتائے“(تفسیرمدارک)

مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ :
اس آیت اور ان کی تفاسیر سے معلوم ہوا کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو تمام آئندہ اور گزشتہ واقعات کی خبر دے دی گئی۔۔۔۔۔نیز فرماتے ہیں کہ کلمہ”ما“ عربی زبان میں عموم کے لئے ہوتا ہے۔تو آیت سے یہ معلوم ہوا کہ شریعت کے احکام ،دنیا کے سارے واقعات ،لوگوں کے ایمانی حالات وغیرہ جو کچھ بھی آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے علم میں نہ تھا سب ہی بتادیا۔اس میں یہ قید لگانا کہ اس سے مراد صرف احکام ہیں ،اپنی طرف سے قید لگانا ہے،جو قرآن اور حدیث اور امت کے عقیدے کے خلاف ہے“(جاءالحق ص 49،50) اور (نحوہ فی المقیاس ص473)
میرے مسلمان بھائیو دوستو اور بزرگو!
قرآن پاک کی آیت مبارکہ ’’تبیانا لکل شئی‘‘ میں "کل شئی" سے کیا مراد تھی ۔۔۔۔ الحمد للہ ہم دنیائے اسلام کی معتبر تفاسیر کے حوالاجات سے اور کئی ٹھوس دلائل سے واضح کرآئے ہیں ۔۔۔۔ جو کسی بھی غیر جانبدار حق کے متلاشی کے سمجھنے کے لئے کافی ہیں۔
اور جہاں تک مفتی احمد یار صاحب کی طرف سے اپنے موقف کی تائید میں بزرگوں کی تفاسیر کے حوالاجات کا تعلق ہے ۔۔۔۔ تو مذکورہ (آیت "علمک ما لم تکن تعلم" کی)تفاسیر میں‌ جو عبارتیں مفتی صاحب نے پیش فرمائیں ہیں ۔۔۔۔ وہ مفتی صاحب کے دعوی پر صریح دلیل نہیں ہیں ۔۔۔۔ یعنی کہ مبہم اور غیر واضح ہیں‌۔۔۔۔ جبکہ ہم ’’تبیانا لکل شئی‘‘ آیت مبارکہ کی تفسیر میں‌ انہی بزرگوں کی واضح اور صریح‌ عبارتیں پیش کر آئے ہیں کہ قرآن پاک میں‌ ہر ہر ذرے ذرے کا بیان نہیں بلکہ حلال حرام ،ہر ایک نافع علم ،ہر بھلائی ،گزشتہ کی خبریں ،آئندہ کے واقعات ،دین دنیا ،معاش معاد کے وہ امور مراد ہیں‌جن کی لوگوں کو حاجت پڑتی ہے۔
جن پر مفتی صاحب کے اعلیٰ حضرت جناب احمد رضا صاحب یہ کہہ کر کہ ’’قاضی بیضاوی رحمتہ اللہ علیہ اور علامہ خازن رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ نے اس آیت کو مخصص فرمایا ہے‘‘مہر لگاچکے ہیں کہ کم از کم ان بزرگوں نے ’’قرآن پاک میں ہر ہر ذرے ذرے کا مکمل بیان‘‘ تسلیم نہیں کیا ۔
جبکہ اسی طرح
علامہ ابو البرکات نسفی رحمتہ اللہ علیہ (تفسیر مدارک)
امام فخر الدین رازی رحمتہ اللہ علیہ (تفسیر کبیر)
علامہ جلال الدین رحمتہ اللہ علیہ ( تفسیر جلالین)
علامہ خازن رحمتہ اللہ علیہ (تفسیر خازن)
(یہ وہ حوالاجات ہیں کہ جن بزرگوں کی مجمل عبارتوں کو لے کر مفتی صاحب اپنا مدعا ثابت کرنا چاہتے ہیں)
اور اس کے علاوہ دیگر حضرات مفسرین کرام
علامہ بغوی رحمتہ اللہ علیہ (معالم التنزیل)
علامہ معین بن صفی رحمتہ اللہ علیہ (جامع البیان)
قاضی بیضاوی رحمتہ اللہ علیہ (تفسیر بیضاوی)
حافظ ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ (تفسیر ابن کثیر)
علامہ السید محمود آلوسی رحمتہ اللہ علیہ (روح المعانی)
اور سب سے بڑھ کر حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ وغیرہم کے صریح حوالاجات سے واضح کر آئے ہیں کہ ان تمام بزرگوں نے آیت ’’تبیانا لکل شئی‘‘ سے کیا مراد لی ہے۔
تو پھر فریق مخالف کے وکیل کا ان (صاحب تفسیر کبیر، مدارک ، خازن اور جلالین وغیرہ) بزرگوں کی مجمل عبارتوں‌ کو لے کر اپنا مدعا ثابت کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟؟؟
یعنی جب یہ تمام بزرگ فریق مخالف کی سب سے اہم اور بنیادی بلکہ واحد دلیل سے متفق نہیں ہیں ۔۔۔۔۔۔اور اگر مفتی احمد یار نعیمی صاحب کے نزدیک اوپر پیش کردہ (آیت "علمک ما لم تکن تعلم" کی تفاسیر کے) حوالاجات سے یہ تمام بزرگ’’ کلی غیب کی عطاء‘‘ کے قائل نظر آتے ہیں ۔۔۔۔۔تو پھر فریق مخالف یہ بتائے کہ یہ تمام بزرگ ’’کلی غیب کی عطاء‘‘ کے قائل کس دلیل سے ہوئے ؟؟؟؟
جبکہ آیت مبارکہ’’تبیانا لکل شئی‘‘ پر تو یہ تمام بزرگ فریق مخالف کے موقف سے متفق نہیں ؟؟؟
محترم قارئین کرام !
یہ فریق مخالف کی جماعت کے دلائل کی اصلیت ہے ۔۔۔۔ یعنی جس جس مقام پر جن جن بزرگ کا کوئی ایسا مجمل قول مل جائے جس سے فریق مخالف کو اپنا مدعا ثابت ہوتا نظر آتا ہو وہاں‌ فریق مخالف وہ عبارت لے کر توڑ موڑ کر اپنے موقف کے اثبات کے لئے پیش کردیتے ہیں ۔۔۔۔ جبکہ یہ بھول جاتے ہیں کہ دوسرے مقام پر انہی بزرگوں کے ان کے موقف کے خلاف صریح عبارتیں بھی موجود ہیں ۔۔۔۔ جن میں یہ لوگ تاویلات کرکے اپنے موقف کی طرف گھمانے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں ۔۔۔۔ لیکن افسوس کہ اس مقام پر تو فریق مخالف کے اپنے اعلیٰ حضرت صاحب نے یہ کہہ کر’’ان کا قول نہیں ماناجائے گا‘‘ فریق مخالف کی جماعت کے لئے تاویلات کے سارے دروازے بند کرچکے ہیں۔
بے شک باطل مٹنے ہی کے لئے ہے
اب آجائیں مفتی احمد یار نعیمی کی طرف سے پیش کردہ آیت مبارکہ کی وضاحت کی طرف:
فریق مخالف کا یہ استدلال کلمہ”ما“ کے عموم اور استغراق پر مبنی ہے ،حالاں کہ متعدد دلائل اس پر گواہ ہیں کہ ہر مقام اور ہر جگہ پر کلمہ” ما “ عموم اور استغراق حقیقی کے لئے نہیں ہوتا۔
جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِّنكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ )سورہ بقرہ 151 پارہ 2
(ترجمہ:جیسا کہ بھیجا ہم نے تم میں ایک رسول تم ہی میں سے جو پڑھ کر سناتا ہے تمہیں ہماری آیات اور پاک کرتا ہے تم کو اور تعلیم دیتا ہے تم کو کتاب اللہ کی اور حکمت کی اور سیکھاتا ہے تم کو وہ باتیں جو تم نہیں جانتے)
دیکھیے اس آیت مبارکہ میں اگر ”ما“ کو عموم اور استغراق حقیقی کے لئے مانا جائے تو جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی طرح حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمیعن کے لئے بلا واسطہ اور تمام امت کے لئے بالواسطہ ”کلی علم غیب“ ماننا پڑے گا۔
علامہ ابو البرکات الحنفی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ما“ اور ”من“ عموم اور خصوص دونوں کا احتمال رکھتے ہیں ،اگر چہ اصل ان دونوں کا عموم ہے“(المنار مع الانوار ص79)
مطلب واضح ہے کہ اگر چہ اصل وضع میں دونوں عموم کے لئے ہیں لیکن استعمال کے لحاظ سے عموم اور خصوص دونوں میں برابر ہیں ۔۔۔لہذا استعمال کے اعتبار سے یہ عموم میں نص قطعی نہ ہوئے بلکہ امام عربیت مشہور نحوی اور متکلم سید شریف الجرجانی الحنفی رحمتہ اللہ علیہ ”من“ اور ”ما“ وغیرہ موصولات کے بارے میں صراحت کے ساتھ لکھتے ہیں :
”ہم کہتے ہیں کہ موصولات عموم کے لئے وضع ہی نہیں کئے گئے بلکہ یہ جنس کے لئے وضع کئے گئے ہیں جو عموم اور خصوص دونوں کا برابر احتمال رکھتے ہیں “(شرح مواقف ص 723 طبع نور الشکور)
میرے بھائیوں ،دوستوں اور بزرگوں !
ان آیات مبارکہ سے فریق مخالف کی دلیل کی اصل حقیقت (ما) اور (کل)کے الفاظ عموم سے استدلال کرنا ہے ۔۔۔۔جبکہ ہم اوپر مثالوں سے اور ائمہ لغت سے بھی واضح کرآئے ہیں کہ کلمہ ”ما “اور ”کل“عموم اور خصوص دونوں کے لئے آتا ہے ۔
امید ہے کہ اس پر فریق مخالف اختلاف نہیں کرے گا۔
اب حالانکہ اوپر موجود ٹھوس اور واضح ترین دلائل کے بعد ۔۔۔۔ نیز حضرات مفسرین کرام رحمھم اللہ کے واضح اور صریح اقوال کے بعد ہر چیز صاف و شفاف ہوچکی ہے ۔۔۔۔ لیکن پھر بھی فریق مخالف کی تسلی کے لئے ایک اور نکتہ سے فریق مخالف کے مغالطہ کی وضاحت پیش کردیتے ہیں۔
جیسا کہ فریق مخالف کا کہنا ہے کہ ”نزلنا علیک الکتاب تبیانا لکل شئی “میں” کل“کا عموم قطعی ہے ،جسکے لئے کوئی خبر واحد یا قیاس بھی مخصص نہیں بن سکتا ۔
لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مفتی احمد یا ر نعیمی یہ کہہ کر کہ (نبی پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے لئے )کل صفات الٰہیہ اور بعد قیامت کے تمام واقعات کے علم کا ہم بھی دعوی نہیں کرتے“(جاءالحق ص 42) خود ہی مخصص بھی فرمادیتے ہیں؟؟؟
تو پھرہمارا سوال ہے کہ اگر کلمہ ”ما“ یا ”کل “عموم میں ہے
تو پھر فریق مخالف کے مفتی احمد یارصاحب وغیرہ اپنے قیاس سے ”دخول جنت و نار تک“کی قید لگا کر مخصص کیوں فرماتے ہیں ؟؟؟
اور پھرفریق مخالف ”قیامت کے بعد کے تمام واقعات کے علم کی عطاء“کے قائل کیوں نہیں ؟؟؟
اب یہاں دو صورتیں ہیں ۔
ایک تو یہ کہ لفظ ”کل“یا ”ما“عموم کے لئے ہے؟؟؟
یا
خصوص کے لئے ہے؟؟؟
اگر تو فریق مخالف پہلی صورت تسلیم کرتا ہے ۔
توفریق مخالف کو ایک طرف نہ صرف اپنی جماعت کے اکابرین کے موقف(دخول جنت و نارتک) سے رجوع کرنا پڑے گا ۔
(کیوں کہ فریق مخالف کے خود کے دلائل کی رو سے بھی ”عموم “ میں قیاس ،احاد سے قید نہیں لگائی جاسکتی)
اور دوسری طرف ہمارے ٹھوس اور واضح دلائل کا جواب بھی دینا پڑے گا۔
اور اگر فریق مخالف دوسری صورت تسلیم کرتا ہے
تو اس کے لئے فریق مخالف کو اپنے موقف(عموم) سے رجوع کرتے ہوئے ہماراموقف(خصوص) تسلیم کرنا پڑے گا۔​
تمام قارئین کرام توجہ سے اس خصوصی وضاحت پر غور وفکر فرمائین گے تو ان شاء اللہ تعالیٰ آپ کو ہماری بات آسانی سے سمجھ آجائے گی اور فریق مخالف کا غلط استدالال بخوبی واضح ہوجائے گا

باقی مفتی احمد یار نعیمی صاحب کی طرف سے پیش کئے گئے تفاسیر کے حوالاجات میں حضرات مفسرین کرام کی مراد وہی احکام و غیب ہیں۔۔۔ جن سے اللہ تعالیٰ نے اپنی حبیب صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو مطلع فرمایا ۔۔۔۔جن پر ہر مسلمان ایمان رکھتا ہے۔ الحمد للہ
اگر کسی بھائی کوہمارے لکھنے یا سمجھنے میں کوئی کوتاہی نظر آئے تو ہمیں ضرور نشاندہی فرمائیں تاکہ ہم اپنی اصلاح کرلیں ۔جزاک اللہ
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاءفرمائے ۔آمین

۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔
 
شمولیت
اکتوبر 13، 2011
پیغامات
22
ری ایکشن اسکور
121
پوائنٹ
42
بسم اللہ الرحمن الرحیم​

السلام علیکم ورحمتہ اللہ !
جیسا کہ فریق مخالف کا کہنا ہے کہ ”تدریجاً علم غیب عطاءہوا“ یعنی جیسے جیسے قرآن کریم کا نزول ہوتا رہا حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو علم غیب کی عطاءہوتی رہی ۔۔۔اور جب قرآن کریم کے نزول کی تکمیل ہوئی ۔۔۔حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو کلی علم غیب کی عطاءکی تکمیل ہوئی ۔
تواس لحاظ سے واضح ہوتا ہے کہ فریق مخالف نزول تکمیل قرآن سے قبل ”کلی علم غیب کی عطاء“کے قائل نہیں۔
جبکہ اس چیز میں کوئی اختلاف نہیں کہ نزول قرآن کی تکمیل 9 ذوالحجہ 10 ھ کو عرفات کے میدان میں جمعہ کے دن عصر کے وقت ہوئی ۔۔۔ ۔ اورقرآن کی آخری سورة البراٰة ہے (بخاری ج 2 ص 671)
اور حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی وفات 12 ربیع الاول 11 ھ میں ہوئی ۔۔۔۔ یعنی جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم تکمیل نزول قرآن کے بعد تقریبا 90 ،92 دن حیات رہے ۔۔۔ یا جیسا کہ ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آخری آیت (المائدہ 3)نازل ہونے کے بعد اکیاسی روز حیات رہے ۔
کہنے کا حاصل یہ ہے کہ فریق مخالف کے موقف کے لحاظ سے حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو وفات سے تقریباً تین ماہ قبل ”کلی علم غیب عطاء“ ہوا۔۔۔با الفاظ دیگر اس سے قبل فریق مخالف بھی کلی علم غیب کی عطاءکے مدعی نہیں ۔
لہذا فریق مخالف اپنے دعوی کے تائید کے لئے جو احادیث پاک پیش فرماتے ہیں ۔۔۔۔اُن سے ”کلی علم غیب کی عطاء“ کا استدلال اُس وقت درست ہوگا کہ جب وہ تکمیل نزول قرآن کے بعد کی ہوں ۔۔۔۔اور جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے تو فریق مخالف کے پاس ایسی کوئی حدیث نہیں ۔
فریق مخالف اپنے دعوی پربطور دلائل کے جتنی بھی احادیث پاک پیش فرماتے ہیں وہ تکمیل نزول قرآن سے قبل کی ہیں ۔۔۔۔لہذا اُن احادیث پاک سے استدلال کرناخود فریق مخالف کے دعوی کے خلاف ہے ۔
اب یا تو فریق مخالف اپنے دعوی(تکمیل نزول قرآن پر کلی علم غیب عطاءہوا ) سے رجوع کرے
یااُن احادیث کو بطور دلائل نہ پیش کرے (جوتکمیل نزول قرآن سے قبل کی ہیں)

حدیث پاک(فاخبرنا عن بداءالخلق۔۔۔)

معزز قارئین کرام !
اس تفصیل کے بعد ضرورت تو نہیں کہ فریق مخالف کی مزید کسی دلیل کی وضاحت پیش کی جائے ۔۔۔لیکن پھر بھی مسئلہ کو بے غبار کرنے کے لئے فریق مخالف کی اپنے دعوی کی تائید میں پیش کردہ احادیث پاک کی بھی وضاحتیں پیش خدمت ہیں ۔۔ملاحظہ فرمائیں
(پہلی حدیث )حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے :
قام فینا النبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم مقاما فاخبرنا عن بدءاالخلق حتی دخل اھل الجنة مازلھم واھل النار منازلھم حفظ ذٰلک من حفظہ ونسیہ من نسیہ الخ (بخاری شریف)(مشکوة)
”یعنی حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ قیام فرمایا پس ہم کو ابتدائے پیدائش کی خبر دے دی ،یہاں تک کہ جنتی لوگ اپنی منزلوں پر پہنچ گئے اور جہنمی اپنی منزلوں پر،جس نے یاد رکھا اس نے یاد رکھا اور جو بھول گیا وہ بھول گیا“
(دوسری حدیث)حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:
قام فینا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم مقاما ماترک شیئا یکون فی مقامہ ذٰلک الیٰ قیام الساعة الاحدث بہ حفظہ من حفظہ ونسیہ من نسیہ الخ (بخاری شریف )(مسلم شریف)
”یعنی حضور علیہ السلام نے اس جگہ قیامت تک کی کوئی چیز نہ چھوڑی مگر اس کی خبر دے دی ،جس نے یاد رکھا اس نے یاد رکھا جو بھول گیا وہ بھول گیا“

(تیسری حدیث)احمد رضا صاحب اورمفتی احمد یار نعیمی صاحب اور مولوی محمد عمر صاحب وغیرہ لکھتے ہیں ۔واللفظ للاول صحیح مسلم شریف میں حضرت عمر بن اخطب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :ایک دن رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر کے بعد غروب آفتاب تک خطبہ فرمایا ۔بیچ میں ظہر اور عصر کی نمازوں کے سوا کچھ کام نہ کیا ”فاخبر نا بما ھو کائن الیٰ یوم القیمة فاعلمنا احفظنا“ اس میں سب کچھ بیان فرمادیا ۔جو کچھ قیامت تک ہونے والا تھا ہم میں زیادہ علم اُسے ہے جسے یاد رہا ۔بلفظہ (انباءالمصطفیٰ ص 7 و جاءالحق ص 62 و مقیاس حنفیت ص 463)
(چوتھی حدیث)حضرت ابو سعید ن الحذری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
”قام فینا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم خطیبا بعد العصر فلم یدع شیئا یکون الیٰ قیام الساعة الا ذکرہ حفظہ من حفظہ و نسیہ من نسیہ الخ (ترمذی ۔مستدرک ۔مشکوة)
یعنی ایک دن عصر کے بعد جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر ہمارے سامنے ایک خطبہ ارشاد فرمایا پس قیامت تک جو کچھ ہونے والا تھا اس میں سے کوئی چیز آپ نے ایسی نہ چھوڑی جو آپ نے بیان نہ کردی ہو جس نے اس کو یاد رکھا سو یاد رکھا جو بھول گیا سو بھول گیا۔
ان جملہ روایات سے فریق مخالف نے آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے علم غیب کلی پر استدلال و احتجاج کیا ہے اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی روایت کی شرح میں علامہ عینی رحمتہ اللہ علیہ کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ :
”وفیہ دلالةً علیٰ انہ اخبرنی المجلس الواحد بجمیع احوال المخلوقات من ابتدا ئھا الیٰ انتھائھا“(عمدة القاری ج 15 ص 110)
یعنی اس میں اس امر کی دلالت ہے کہ آپ نے ایک ہی مجلس میں مخلوقات کے جمیع احوال ابتداءسے لے کر انتہا تک بیان فرمادئیے ۔

اور بحوالہ نزہتہ القاری شرح صحیح بخاری میں علامہ ابن حجر عسقلانی رحمتہ اللہ علیہ کا یہ قول پیش کیا :
”ودل ذٰلک علیٰ انہ اخبر نی المجلس الواحد بجمیع احوال المخلوقات منذابتداءت الیٰ ان تفنیٰ الیٰ ان تبعث الخ
”یعنی یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی مجلس میں ”تما م مخلوقات کے احوال“ جب سے خلقت شروع ہوئی اور جب فنا ہوگی اور جب اٹھائی جائے گی سب بیان فرمادیا اور یہ بیان شروع آفرینش اور دنیا اور محشر ان سب کومحیط تھا،ان سب کا ایک ہی مجلس میں بیان فرمادینا عظیم معجزہ ہے “

اور فرماتے ہیں کہ علامہ طیبی رحمتہ اللہ علیہ شرح مشکوة میں اس حدیث کے تحت فرمایا(جسے علامہ احمد خطیب قسطلانی رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت ملا علی قاری رحمتہ اللہ علیہ نے نقل فرما کر بر قرار رکھا ):
” یہ حدیث دلیل ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ”تمام مخلوقات کے احوال“ جس سے آفرینش کی ابتدا ہوئی یہاں تک کہ فنا ہوگی،یہاں تک کہ پھرزندہ کی جائے گی ، سب بیان فرمادیا اور یہ معجزہ ہے کہ اتنی باتیں تھوڑے زمانے میں فرمانا آسان ہوگیا“
محترم قارئین کرام!
ہم نے یہاں فریق مخالف کی دلیل تھوڑی تفصیل سے بیان کی ہے تاکہ ایک توتمام قارئین کرام کو فریق مخالف کی دلیل سمجھنے میں آسانی رہے اوراس کے بعد ہماری وضاحت سمجھنے میں بھی آسانی رہے۔
یہاں اس حدیث پاک سے فریق مخالف نے یہ دلیل پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ ”نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے اس خطبہ میں ابتدائے آفرینش سے لے کر الی یوم القیامتہ کے ذرے ذرے کا بیان فرمایااور اس طرح نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم ابتدائے آفرینش سے لے کر الی یوم القیامتہ کے ذرے ذرے کا علم غیب جانتے ہیں“
اور دوسری طرف اس حدیث پاک میں بزرگان دین رحمھم اللہ کے اقوال سے اپنے موقف کی تائید پیش کی ہے کہ ”بزرگان دین کے قول”بجمیع احوال المخلوقات“ (یعنی تمام مخلوقات کے تمام احوال)فریق مخالف کے موقف کی تائید کرتا ہے کہ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے اس خطبہ میں ”ذرے ذرے کا بیان فرمایا“
معزز قارئین کرام !
اس سے قبل فریق مخالف کی اس دلیل کی وضاحت پیش کریں پہلے ہم یہاں تھوڑی سی تفصیل بیان کرنا چاہیں گے کہ فریق مخالف اس دلیل سے کیا کچھ ثابت کرنا چاہتا ہے ۔
اور ”ابتدائے آفرینش سے لے کر الی یوم القیامتہ تک “کے ذرے ذرے کا بیان کیا ہوسکتا ہے؟؟؟
بظاہرتو اوپر والا جملہ ایک لائن میں بیان ہوا ہے۔ لیکن آپ کے خیال میں اس عرصے میں کتنے واقعات ہوچکے ہیں یا ہورہے ہیں یا ہونے والے ہیں؟
یقینا آپ یا کوئی بھی اندازہ نہیں لگا سکتا۔لیکن ہم چھوٹی سی تفصیل بیان کر رہے ہیں جس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ فریق مخالف کا موقف کیا ہے اورفریق مخالف اس حدیث پاک سے کیا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ؟
آپ یہ سوچیں کہ آج اس وقت جب آپ یہ تحریر پڑھ رہیں ہیں،اس وقت آپ یا آپ کے گھر والے (جو چند افراد ہوں گے)،اور آپ کے محلے والے(جو چند سو لوگ ہوں گے)،آپ کے علاقے والے(جن کی تعداد چند ہزار ہوگی)،آپ کے گاؤں یا شہر والے( جو چند لاکھ لوگ ہوں گے)،آپ کے ملک والے( جو چند کروڑ لوگ ہوں گے )اور تمام دنیا والے (جن کی تعداد چند ارب پر مشتمل ہے)
یہ تمام کے تمام لوگ اس وقت اس لمحہ اس سیکنڈکون کون کیا کیا کر رہے ہیں؟؟؟
اوریقینااگلے ہی سیکنڈ میں ہر ایک کی پوزیشن مختلف ہوگی تو اس اگلے سیکنڈ کی اربوں لوگوں کی خبر بھی غیب تھی، اوراسی طرح ہر ہرانسان کی ہر ہر سیکنڈ کی خبر غیب ہی ہے۔
یہ تو بیان تھا اربوں انسانوں کے اس لمحہ اور ایک سیکنڈ کی خبر کا (جو غیب ہے)
اسی طرح نہ جانے ابتدائے آفرینش سے لے کر آج تک کتنے ہی انسانوں کے کتنے ہی سیکنڈ کیسے کیسے گذر چکے ہیں (جو غیب ہے) اور آج کے اس سیکنڈ سے لے کر قیامت تک نہ جانے کتنے انسانوں کے کتنے سیکنڈ کیسے کیسے گذریں گے (یہ سب غیب ہے)

ابھی تک ہم نے صرف انسانوں کے متعلق غیب کی معمولی سی تفصیل بیان کی ہے ۔اس کے علاوہ کتنے ہی جاندار جن میں چرند پرند ،کیڑے مکوڑے ،پھول پودے اور نہ جانے کتنی ہی مخلوقات آسمانوں میں ، زمین پر اور زمین کے اندر دنیا میں اب تک آچکے ہیں ،ان کے کتنے کتنے سیکنڈ کیسے کیسے گذرے اور قیامت تک کیسے کیسے گذریں گے (یہ بھی غیب ہے)
اس چھوٹی سی تفصیل بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ آپ سمجھیں کہ ابتدائے آفرینش سے الی یوم القیامتہ کے ذرے ذرے کا کلی علم غیب کسے کہتے ہیں ؟؟؟
اور فریق مخالف کیا ثابت کرنا چاہتا ہے ؟؟؟
اگر ہم صرف ان غیب کی باتوں کو(جو غیب میں سے ہیں) اگر ہم تعداد میں لکھنا چاہیں تو شایدکوئی گنتی بھی نہ کر پائے یا گنتی کے عدد بھول جائیں۔
آپ کو شاید یہ تفصیل مغالطہ لگے ۔۔۔ یا آپ حیران ہورہے ہوں کہ کیا واقعی فریق مخالف کی جماعت والے یہی کچھ ثابت کرنا چاہتے ہیں یا ہماری غلط فہمی ہے ؟؟؟
لیکن معزز قارئین کرام یہ حقیقت ہے کہ فریق مخالف کی جماعت کے عام مسلمان تو شاید اس چیز کا تصور بھی نہ کرتے ہوں لیکن ان کی جماعت کے اکابرین یہی کچھ ثابت کرنا چاہتے ہیں ۔
کیوں کہ اگر تو فریق مخالف کے اکابرین اس تفصیل میں سے کسی بھی چیز کا انکار کرتے ہیں تو اس انکار سے فریق مخالف کے دعوی(کلی علم غیب) کا کلیہ خود بخود ٹوٹ کرباطل ہوجاتا ہے۔
لہذا یا تو فریق مخالف اس سے انکار نہیں کریں گے ۔۔۔۔۔ ا ور اگر انکار کرتے ہیں تو اُن کو اپنے دعوی سے رجوع کرنا پڑے گا۔۔۔۔پھر ہمارا ان سے کوئی نزاع نہیں۔
لیکن اگر فریق مخالف اس تفصیل سے انکار نہ کرکے اپنے دعوی پر قائم رہتے ہیں تو کیافریق مخالف کا ضمیر اور ایمان گوارا کرتا ہے کہ اُس خطبہ میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ہر زمانہ کی مردم شماری تمام چھوٹے بڑے انسانوں کافروں اور مسلمانوں کی تمام تفصیل بیان فرمائی ہو؟؟؟
اور تمام حیوانوں ،چرندوں ،پرندوں حتی کے دریا کی مچھلیوں ،زمین کے کیڑے مکوڑوں کی تفصیل تعداد اور ان کی مکمل اور مفصل حالات بیان فرمائیں ہوں ؟؟؟
ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا ضمیر بھی ان کی دلیل کے خلاف جواب دے گا۔
(اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔آمین)
محترم قارئین کرام!
الحمد اللہ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بات پر مکمل قادر ہے کہ اللہ تعالیٰ طویل وقت کو انتہائی قلیل وقت میں سما دے۔
جیسا کہ واقعہ معراج اور اصحاب کہف کے واقعات قابل ذکر ہیں۔
لیکن اگر فریق مخالف کا موقف درست ہوتا تو”اس خطبہ کے معجزانہ طوالت والے دن“ کا مختلف احادیث پاک میں بیان ہوتا۔۔۔۔بزرگان دین اس احادیث پاک کی شروحات میں اس ”معجزانہ طویل دن“ کا ذکر فرماتے۔
لیکن آپ کو کسی بھی بزرگ کی عبارت میں اس طرح کا بیان نہیں ملے گا۔
ہاں البتہ جیسا کہ فریق مخالف نے اس حدیث پاک کی شرح میں چند بزرگان دین کے اقوال پیش فرمائے ہیں جن میں ”معجزہ “ کا ذکر ہے۔اس معجزہ سے مراد ” خطبہ والے دن کی معجزانہ طوالت نہیں“بلکہ”ایک ہی دن میں نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا بہت سے واقعات کو بیان فرمادینا ہے“
(ان شا ءاللہ تعالیٰ اس وضاحت کے حوالاجات بھی آگے آئیں گے)
الحمد اللہ ہم بھی اس معجزے کے قائل ہیں ،بے شک نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے یہ ایک عظیم معجزہ ہے۔
لیکن ان جملہ روایات سے فریق مخالف کا’’ذرے ذرے کا کلی علم غیب‘‘پر استدلال ہرگز صحیح نہیں ہے۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے اس لئے کہ اس میں ”ماترک شئیاالخ “(یعنی کوئی چیز نہ چھوڑی)سے استغراق حقیقی قطعی مراد نہیں ہے۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں یوں آیا ہے:
”واللہ انی لاعلم بکل فتنة ھی کائنة فیما بینی و بین الساعة الخ (مسلم ج 2ص 390 )( مسند احمد ج 5 ص388 )
”خدا کی قسم میں اپنے اور قیامت کے درمیان ہر ہونے والے فتنہ کو بخوبی جانتا ہوں“
اور دوسرے مقام پر حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کا خود اپنا ارشاد ہے :
”فاخبرنی رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم بما ھو کائن الیٰ ان تقوم الساعة فما منہ شئی الا قد سالنہ الا انی لم اسالہ ما یخرج اھل المدینة من المدینة الخ (مسلم ج 2ص 390 )(مسند احمد ج5 ص 386 )(ابو داﺅد طیالسی ص 85 )(مستدرک ج 4 ص426 )
”یعنی مجھے جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ہر وہ چیز بتائی جو قیامت تک ہونے والی تھی،اور ان میں کوئی چیز ایسی نہیں جس کے بارے میں میں نے خود آپ سے دریافت نہ کیا ہو مگر میں آپ سے یہ نہ پوچھ سکا کہ وہ کون سا فتنہ ہوگا جو اہل مدینہ کو مدینہ سے نکال دے گا“
اس حدیث پاک میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے یہ نہیں فرمایا کہ ”میں یہ فتنہ بھول گیا“بلکہ یہ فرمایا کہ ”پوچھ نہ سکا“
اس حدیث پاک سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے اس خطبہ میں ہر ہر ذرے کا بیان نہیں فرمایا۔
جیسا کہ علامہ ابن خلدون المغربی رحمتہ اللہ علیہ(المتوفی808 ھ)حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو سعیدرضی اللہ عنہ وغیرہ کی مذکورہ روایات کو نقل کرنے کے بعد رقمطراز ہیں:
”وھذہ الا حادیث الفتن واالاشراط لاغیرلانہ المعھودمن الشارع صلوات اللہ وسلامہ علیہ فی امثال ھذہ العمومات الخ
”یہ سب کی سب حدیثیں (جیسا کہ بخاری و مسلم کی احادیث میں وارد ہیں) صرف فتن اور علامات قیامت پر محمول ہیں،کوئی اور ان چیزوں سے مراد نہیں ہوسکتی کیوں کہ شارع علیہ الصلوة و السلام کا ایسے عمومات کے بارے میں یہی منصب ہے (کہ جو حضورصلیٰ اللہ علیہ وسلم کی شایان شان ہوں صرف وہی امور بیان فرمائیں)
اور حضرت عمررضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی اُس عموم اور استغراق حقیقی مراد لینا باطل ہے ۔کیوں کہ خود حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سود کے متعلق فرماتے ہیں:
”ان رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم قبض ولم یفسر ھا لنا الخ (ابن ماجہ ص 165 )
جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم دنیا سے وفات پا گئے اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے سود کو ہمارے سامنے کھول کر بیان نہ کیا“
ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
”مات رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم ولم یبینہ لنا (الحدیث )(راوہ حاکم و ابن عدی ابن کثیرج 1 ص328 )
”آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے سود کو (کھول کر) بیان نہ فرمایا“
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ایک اور روایت میں ہے :
’’ثلاث لان یکون النبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم بینھم لنا احب الیٰ من الدنیا ومافیھا الخلافة والکلالة والربا الخ (المستدرک ج2 ص304 قال الحاکم رحمتہ اللہ علیہ و الذہبی رحمتہ اللہ علیہ علیٰ شر طھما و الطیالسی ص12 )
”تین چیزیں اگر جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم ہمارے سامنے بیان فرمادیتے تو وہ مجھے دنیا و مافیہا سے محبوب ہوتیں ۔ایک خلافت دوسری کلالہ(کی وراثت)اور تیسری سود(کی پوری تشریح)
یعنی اگر چہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے اشارات و کنایات اور طرز عمل سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا خلیفہ ہونا ظاہر کردیا تھا مگر بطور نص کے نامزد نہیں کیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے مشورے سے یہ عقدہ حل ہوا۔
اسی طرح کلالہ یعنی لاولد کی وراثت اور ربوا و سود کے اصول تو قرآن کریم اور احادیث پاک میں بیان کئے گئے ہیں ۔مگر وہ بقول حضرت عمررضی اللہ عنہ نہایت مجمل ہیں اور جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے کھول کر ان کو بیان نہیں فرمایا۔
اس کے علاوہ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ہر ہر چیز کا علم جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے لئے ثابت ہوتا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بعض بعض مسائل اور احکام میں دیگر صحابہ کرام سے مشورہ لینے کی اور بعض احکام میں خود اجتہاد و قیاس کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟
باقی رہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت سے علامہ عینی رحمتہ اللہ علیہ اور حافظ ابن حجررحمتہ اللہ علیہ کے اس قول ”بجمیع احوال المخلوقات“ سے کلی علم غیب ثابت کرنا تو یہ فریق مخالف کی شدیدغلط فہمی ہے۔
عربی زبان میں لفظ”جمیع“اور ”اجمع“ کبھی ”سب کے“ معنی میں اور کبھی” اکھٹا اور یکجا “کے معنی میں آتا ہے۔
چناچہ (صراح ص 305 وغیرہ) میں ہے ”جمیع ضد متفرق“الخ کہ ”جمیع“ کا لفظ متفرق کی ضد ہے۔”جمیع “ کو اس مقام پر ایسا ہی سمجھیے جیسا کہ:
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ الخ ھود119پارہ12
(ترجمہ: اور پوری ہوگئی تیرے رب کی یہ بات کہ میں ضرور بھروں گا جہنم کو جنوں اور انسانوں سے، اکھٹا کر کے)
یعنی دوزخ میں انسان اور جن دونوں اکھٹے ہوں گے ۔ یہ مطلب تو ہرگز نہیں لیں گے کہ ”تمام“ انسان اور جنات دوزخ میں چلے جائیں گے؟
تو ا س لحاظ سے علامہ عینی رحمتہ اللہ علیہ اور حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ کی عبارت کے یہ معنی ہوگا کہ ”حضورصلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی مجلس میں مخلوقات کے احوال (جو فتن و اشراط ساعت وغیرہ پر مشتمل تھے)اکھٹے بیان کئے گو اس سے قبل اور بعد کو بھی آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے کچھ کچھ حالات بیان فرمائے۔
چناچہ حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ کی روایت میں ”فلم یدع شیئا“کی شرح میں حضرت ملا علی قاری رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
ای مما یتعلق بالدین مما لا بد منہ الخ (مرقات ج 5 ص8 )
”یعنی آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے اس خطبہ میں دین کی ہر ضروری بات کو بیان فرمایا“
حضرت شیخ عبد الحق رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
ای مما یتعلق بالدین ای کلیاتہ اوھومبالغة اقامة للاکثر مقام الکل الخ (لمعات ہامش مشکوٰة ج2 ص437 )
”یعنی آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے اس خطبہ میں دین کی ہر ضروری بات کو بیان فرمایا یا مبالغہ کے طور پر اکثرچیزوں کو ”کل“ کہا گیا “
نیز لکھتے ہیں :
فلم یدع شیئا پس نگذاشت چیز یرااز قواعد مہمات دین کہ واقع میشود تاقیامت مگر آنکہ ذکر کرد آنرایا ایں مبالغہ است بگر دانیدن اکثر درحکم کل الخ (اشعتہ اللمعات ج 4 ص181 )
”سو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے قیامت تک کے لئے قواعد اور مہمات دین میں سے کوئی چیز نہیں چھوڑی جو بیان نہ فرمادی اور یا یہ مبالغہ ہے جس میں” اکثر“کو” کل“ کے معنی میں کر دیا گیا ہے“
فریق مخالف اپنے موقف کی تائید میں اکثر حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ کی عبارتیں پیش کرتے ہیں جن میں حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ کی عبارتوں میں سے فریق مخالف لفظ”کلی“ کو لے کر” کلی علم غیب پر“ استدلال کرتے ہیں۔مگر یہاں شیخ عبدالحق رحمتہ اللہ علیہ نے خود بیان فرمادیا کہ ایسے عام لفظ کو کبھی مبالغتہ”ً اکثر“ کے معنی میں لیا جاتا ہے ،اس سے ہر مقام پر ”کل حقیقی“ اور”عموم استغراقی“ ہی مراد نہیں ہوتی اور جس جس مقام پر ایسے عام لفظ آتے ہیں ان کو دیگر دلائل کی رو سے یہی مطلب اور معنی لیا جائے گا کہ مبالغتہً ”اکثر“ کو” کل“ کے معنی میں لیا گیا ہے۔
الحمدللہ فریق مخالف کے دلائل میں سے اس اہم ستون کی بھی وضاحت ہوگئی ہے۔
اب ہم یہاں علامہ عینی رحمتہ اللہ علیہ اور حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ اور دیگر بزرگان دین کی خود اپنی تصریحات سے جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے علم غیب کے بارے میں حوالاجات پیش کریں گے۔۔۔جن حوالاجات سے ایک طرف بزرگان دین کا عقیدہ بھی واضح ہوجائے گا اور دوسری طرف ہمارے پیش کئے ہوئے موقف کی واضح تائید ہوجائے گی اور ساتھ ہی مزید وضاحت بھی ہوجائے گی کہ بزرگان دین کے اقوال کے یہ مفہوم نہیں جو فریق مخالف ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا (المتوفاة 59 ھ)سے روایت ہے:
وہ فرماتی ہیں کہ دو فریق اپنا ایک مقدمہ لے کر جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے ،آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فریقین کو مخاطب کرکے یوں ارشاد فرمایا:
”انما انا بشر وانہ یاتینی الخصم فلعل بعضکم ان یکون ابلغ من بعض فا حسب انہ صادق فا قضی لہ بذالک فمن قضیت لہ بحق مسلم فانما ھی قطعة من النار فلیا ءخذ ھا او لیترک الخ
یعنی سنو میں انسان ہوں جو سنتا ہوں اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں،بہت ممکن ہے کہ ایک شخص زیادہ حجت بازاور چرب زبان ہواور میں اس کی باتوں کو صحیح جان کراس کے حق میں فیصلہ کردوں اور فی الواقع وہ حقدار نہ ہوتو وہ سمجھ لے کہ وہ اس کے لئے جہنم کا ٹکڑا ہے اب اسے اختیار ہے کہ اسے لے لے یا چھوڑ دے۔(بخاری ج 2 ص 1065 )(مسلم ج 2 ص 74 ) (موطا امام مالک ص 299 )(نسائی ج 2 ص 261 )(ابو داود ج 2 ص 148 )(ابن ماجہ ص 168 )(طحاوی ج 2 ص 284 )(سنن الکبریٰ ج 10 ص 143 )
یہ روایت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔(بخاری کتاب الاحکام:باب من قضی لہ بحق اخیہ فلا یا خذہ ۔۔۔۔ح :7181)(مسلم کتاب الاقضیة :باب بیان ان حکم الحاکم لا بغیر باطن،ح:1713 )(ابن ماجہ ص 168 )(مسند احمد ج 2 ص 332 )
ابو داؤد میں بھی یہ حدیث ہے اور اس میں یہ الفاظ ہیں کہ(میں تمہارے درمیان اپنی سمجھ سے ان امور میں فیصلہ کرتا ہوں جن میں کوئی وحی مجھ پر نازل شدہ نہیں ہوتی) ابو داؤدکتاب القضاہ:باب فی القضا ءالقاضی اذا خطاء۔ح:3585(صحیح)
یہ روایت حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔(کنز العمال ج 3 ص308 )
حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ(المتوفی 204ھ ) اس روایت کو نقل کر کے فرماتے ہیں:
فبھذا انقول وفی ھذا البیان الذی لاشکال معہ بحمداللہ تعالیٰ ونعمتہ علیٰ عالم فنقول ولی السرائر اللہ عزوجل فالحلال والحرام علیٰ مایعلمہ اللہ تبارک و تعالیٰ والحکم علیٰ ظاھر الامروافق ذٰلک السرائر وخالفھا الخ (کتاب الام ج 7 ص 37 )
”یعنی ہم اس کے قائل ہیں اور اس کے اندر ایسا واضح بیان ہے جو بحمد اللہ و احسانہ کسی عالم پر باعث اشکال نہیں ہوسکتا،سو ہم کہتے ہیں کہ رازوں اور بھیدوں کا جاننے والا تو صرف اللہ تعالیٰ ہے (حقیقتاً)مزید لکھتے ہیں کہ حاکم کا فیصلہ تو ظاہر پر محمول ہے یہ اندرونی بھیدوں اور رازوں کے موافق ہو یا مخالف“
دوسرے مقام پر لکھتے ہیں کہ :
وھو صواب علیٰ الظاھر ولایعلم الباطن الااللہ تعالیٰ (رسالہ فی اصول الفقہ للام الشافعی ص 69 )
یعنی مجتہد کا قیاس اور فیصلہ ظاہری امور پر مبنی ہے ،باطن کو اللہ تعالیٰ کے بغیر کوئی بھی نہیں جانتا
حضرت امام محی الدین ابو زکریا یحییٰ بن شرف النووی الشافعی رحمتہ اللہ علیہ(المتوفی 676 ھ ) اسی حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ :
معناہ التنبیہ علیٰ حالة البشریة وان البشر لایعلمون من الغیب وبواطن الامور شیئا الاان یطلعھم اللہ تعالیٰ علیٰ شئی من ذٰلک وانہ یجوز علیہ فی امور الاحکام مایجوز علیھم وانہ یحکم بین الناس بالظاھر واللہ یتولی السرائر فیحکم بالبینة وبالیمین ونحو ذٰلک من احکام الظاھر مع امکان کونہ فی الباطن خلاف ذٰلک (شرح مسلم ج 2 ص 74 )
یعنی اس کا منشا یہ ہے کہ حالت بشریت پر تنبیہ کرنا ہے اور یہ بتانا ہے کہ بشر کو غیب اور باطنی امور کا علم نہیں ہوتا بجز اس کے کہ اللہ تعالیٰ کسی چیز پر ان کو مطلع کردے اور اس سے یہ بھی بتانا ہے کہ فصل خصومات میں جس طرح دوسروں سے خلاف واقع فیصلہ کرنا ممکن ہے اسی طرح آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے بھی ممکن ہے اور آپ بھی لوگوں کے درمیان ظاہری حال پر فیصلہ کرتے ہیں اور اندرونی رازوں کا معاملہ خدا سے ہے سو آپ شہادت اور قسم وغیرہ ظاہری قرائن کے ذریعہ ہی فیصلہ صادر فرماتے ہیں اور اس کا امکان ہے کہ واقع میں معاملہ اس کے خلاف ہو۔
ابن حجر العسقلانی الشافعی رحمتہ اللہ علیہ(المتوفی 852 ھ) فرماتے ہیں:
قولہ انماانا بشر ،ای کواحد من البشر فی عدم علم الغیب الخ (فتح الباری ج3 ص 139 )
”میں بشر ہوں یعنی علم غیب نہ ہونے میں دوسرے انسانی افراد کی طرح ہوں“

اور دوسرے مقام پر اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
اتی بہ رداعلیٰ من زعم ان من کان رسولا فانہ یعلم کل غیب الخ (فتح الباری ج 13 ص151 )
”انما ان بشر“کا جملہ خاص طور پر ان لوگوں کے باطل خیال کی تردید کے لئے حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو یہ گمان کرتے ہیں کہ رسول کو کلی علم غیب ہوتا ہے“

علامہ بدر الدین محمود بن احمد العینی الحنفی رحمتہ اللہ علیہ(المتوفی 855ھ )لکھتے ہیں:
”انما انا بشر ۔یعنی کواحد منکم ولا اعلم الغیب و بواطن الامور کما ھو مقتضی الحالة البشریة وانا حکم بالظاھر الخ (عمدة القاری ج 11 ص271 )
”میں تمہاری طرح ایک بشر ہی ہوں اور میں غیب کا علم نہیں رکھتا اور تمہارے معاملات کے اندرونی احوال کو میں نہیں جانتا جیسا کہ بشریت کا تقاضا ہوتا ہے اور میں تو صرف ظاہری حال پر ہی فیصلہ دیتا ہوں“

اسی حدیث کی شرح کرتے ہوئے دوسرے مقام پر یوں رقمطراز ہیں :
انما انا بشر ۔ای من البشر ولا ادری باطن ماتتحا کمون فیہ عندی وتختصمون فیہ لدی وانما اقضی بینکم علیٰ ظاھر ماتقولون فاذا کان الانبیاءعلیھم الصلوة والسلام لایعلمون ذٰلک فغیرجائزان یصح دعویٰ غیرھم من کاھن او منجم العلم وانما یعلم الانبیاءمن الغیب ما اعلمو بہ بوجہ من الوحی الخ (عمدة القاری ج 11 ص 411)
یعنی میں انسانوں میں سے ایک بشر ہوں اور جو مقدمات تم میرے پاس لاتے ہو تو ان کے باطن کو میں نہیں جانتا اور میں تو تمہاری ظاہری باتوں کو سن کر ہی فیصلہ کرتا ہوں ۔(علامہ عینی فرماتے ہیں ) جب حضرات انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام غیب اور باطنی امور نہیں جانتے تو نجومی اور کاہن وغیرہ کا غیب اور باطنی امور کے علم کا دعوی کیسے جائز اور صحیح ہوسکتا ہے ؟اور حضرات انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام بھی غیب کی صرف وہی باتیں جانتے ہیں جن کا بذریعہ وحی ان کو علم عطاءکیا گیا ہو۔

امام قسطلانی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
”انما انا بشر ۔مشارک لکم فی البشریة بالنسبہ لعلم الغیب الذی لم یطلعنی اللہ علیہ وقال ذالک توطئة لقولہ وانہ یاتینی الخصم الخ فلا اعلم باطن امرہ الخ (ارشاد الساری ج 10ص 204 )
یعنی آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ”انما انا بشر “ اُن لوگوں کی تردید کے لئے ارشاد فرمایا جو یہ گمان کرتے ہیں کہ رسول کو کل غیب کا علم ہوتا ہے حتی کہ اس پر مظلوم اور ظالم مخفی نہیں رہتے“

یہی علامہ قسطلانی رحمتہ اللہ علیہ دوسرے مقام پر لکھتے ہیں کہ:
’’اتی بہ علی الرد علیٰ من زعم ان من کان رسولا یعلم الغیب فیطلع علی البواطن ولا یخفی علیہ المظلوم و نحو ذٰلک فا شاران الوضع البشری یقتضی ان لاید رک من الامور الاظواھر ھا فانہ خلق خلقا لا یسلم من قضا یا تحجبہ عن حقائق الاشیاءفاذا ترک علیٰ ماجبل علیہ من القضایا البشریة ولم یوید بالوحی السماوی طراءعلیہ ماطراءعلی سائرالبشر الخ (ارشاد الساری ج ۴ ص ۲۱۴)
یعنی انماانا بشر ۔آپ نے ان لوگوں کی تردید کے لئے ارشاد فرمایا جو یہ خیال کرتے ہیں کہ رسول کو غیب کا علم ہوتا ہے اور وہ باطن پر مطلع ہوتا ہے اور اس پر مظلوم وغیرہ مخفی نہیں رہتا ،آپ نے اس ارشاد میں اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ وضع بشری اس کا مقتضی ہے کہ وہ صرف ظاہری امور کا ادارک کرے کیوں کہ بشر ایک ایسی مخلوق ہے کہ اس کے اور حقائق اشیاءکے ادارک کے درمیان پردے حائل ہوجاتے ہیں ۔جب اس کی جبلت بشری تقاضوں پر چھوڑ دیا جائے اور وحی سماوی سے تائید نہ ہو تو اس پر باوجود رسول ہونے کے وہی کچھ طاری ہوتا ہے جو تمام انسانوں پر طاری ہوتا ہے ۔

علامہ علی بن احمد العزیزی رحمتہ اللہ علیہ(المتوفی 1070 ھ) لکھتے ہیں:
انما انا بشر ۔ای من البشر والمراد انہ مشارک البشر فی اصل الخلفة وان زاد علیھم بالزایا التی اختص بھا فی ذاتہ قالہ ردا علی من زعم ان من کان رسولا فانہ یعلم کل غیب حتی لایخفی علیہ المظلوم الخ (السراج المنیر ج2 ص43 )
”میں انسانوں میں سے ایک انسان ہوں اور بشر ہوں مراد یہ ہے کہ آپ اصل خلقت میں انسانوں کے ساتھ شریک ہیں اگر چہ دیگر فضائل مختصہ میں وہ دوسرے انسانوں سے برتر ہیں ،اس ارشاد میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کی تردید فرمائی جو یہ گمان کرتے ہیں کہ رسول کل غیب جانتے ہیں حتی کہ اُن پر مظلوم مخفی نہیں رہ سکتا “
حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی الحنفی رحمتہ اللہ علیہ(المتوفی 1052ھ)لکھتے ہیں:
آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم گفت نیستم من مگر آدمی و عارض میشود برمن احکام و عوارض بشریت و باقی گزاشتہ شدہ است درمن احکام جبلت جز آنچہ تائید کردہ میشوم بوحی و تعلیم از جناب حق سبحانہ ،و نزدیک است کہ بعضے از شما باشد زبان آور و بیان کنندہ ترحجت خود را از بعضے دیگر۔۔۔۔“(اشعتہ اللمعات ج3 ص 177 )
علامہ شہاب الدین احمد الخفاجی الحنفی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 1069 ھ) لکھتے ہیں کہ :
وانما انا بشر ۔لااعلم الغیب وانکم تختصمون الی الخ (نسیم الریاض ج 4 ص 261 )
یعنی میں تو بشر ہی ہوں ،میں غیب نہیں جانتا اور تم اپنے جھگڑے میرے پاس لاتے ہو الخ
علامہ الحسین بن عبد اللہ بن محمد الطیبی الحنفی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 743ھ ) لکھتے ہیں:
انما انا بشر۔ان الوضع البشری یقتضی ان لایدرک من الامور الاظاہر ھا وعصمتہ انما ھو عن الذنوب فانہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم لم یکلف فیما لم ینزل فیہ الا ما کلف غیرہ وھو الاجتھاد الخ (بحوالہ انجاح الحاجہ ص 169 )
”میں تو بشر ہی ہوں اور وضع بشری اس کو نہیں چاہتی کہ وہ امور ظاہرہ کے علاوہ امور باطنہ کا بھی ادراک کرے ۔رہا آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا معصوم ہونا ،تو وہ گناہوں سے ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو اُن احکام میں جن میں وحی نازل نہیں ہوئی تھی،اُسی چیز کا مکلف قرار دیا ہے جس کا دوسروں کو مکلف بنایا اور وہ اجتہاد ہے“
میرے مسلمان بھائیو ،دوستو اور بزرگو!
یہ حضرات محدثین کرام رحمھم اللہ علیہم دنیائے اسلام کے معتبر محدثین اور شارحین کرام ہیں ۔۔۔بلکہ خود فریق مخالف کے نزدیک بھی یہ بزرگان دین معتبر ہیں ۔۔۔۔۔ جن کی بعض مجمل و مبہم عبارتیں لے کر فریق مخالف اپنا مدعا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔۔۔۔ ان بزرگوں کے ایک ایک واضح اور صریح حوالات خود فریق مخالف کے دعوی کی واضح نفی کررہے ہیں ۔۔۔۔۔حتی کہ فریق مخالف کی یہ تاویلات کہ ”تکمیل نزول قرآن پر کلی علم غیب عطاءہوا“ کی بھی وضاحت ان حوالاجات سے ہورہی ہے کہ کسی بھی بزرگ نے اوپر پیش کردہ حدیث کی شرح بیان کرتے ہوئے (فریق مخالف کے دعوی کے مطابق)یہ نہیں فرمایا کہ:
یہ واقعہ تکمیل نزول قرآن سے قبل کا ہے ۔۔۔اور تکمیل نزول قرآن پر حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو کلی علم غیب عطاءہوگیا تھا ۔۔۔اس کے بعد جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نہ صرف دلوں بھید جانتے بھی جانتے ہیں بلکہ کائنات کے ذرے ذرے کے غیب بھی جانتے ہیں ؟؟؟
بلکہ کچھ حوالاجات میں تو یہ تصریح بھی موجود ہے کہ:
جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد لوگوں کے اس گمان کی تردید تھا جو یہ سمجھتے تھے کہ رسول کو کلی علم غیب ہوتا ہے حتی کہ اُن پر ظالم و مظلوم بھی مخفی نہیں رہتے ۔
اتنی واضح ترین تصریحات کے بعد بھی اگر کوئی ان بزرگان دین رحمھم اللہ کے مجمل عبارتوں کو لے کر اپنا باطل مدعا ثابت کرنے کی کوشش کرے تو ایسے شخص کے لئے سوائے ہدایت کی دعا کے اور کیا کیا جاسکتا ہے ؟؟
اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت دے ۔آمین
ضروری گذارش :اگر کسی بھائی یا دوست کو ہمارے لکھنے یا سمجھنے میں کوئی کمی کوتاہی نظر آئے تو نشادہی کی درخواست ہے تاکہ ہم اپنی اصلاح کرلیں۔جزاک اللہ
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاءفرمائے ۔آمین
۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔


 
شمولیت
اکتوبر 13، 2011
پیغامات
22
ری ایکشن اسکور
121
پوائنٹ
42
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
(حدیث : فتجلی لی کل شئی وعرفت ۔۔۔۔)
السلام علیکم ورحمتہ اللہ !
فریق مخالف کے امام احمد رضا صاحب اور مفتی احمد یار نعیمی صاحب لکھتے ہیں: (واللفظ للاول)
جامع ترمذی شریف وغیرہ کتب حدیث کثیرہ ائمہ حدیث میں باسانید عدیدہ و طرق متنوعہ دس صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے ہے اور یہ حدیث ترمذی کی معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
فرایتہ عزوجل وضع کفہ بین کتفی فوجدت برادنا ملہ بین ثدی فتجلیٰ لی کل شئی و عرفت الخ
یعنی میں نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا اُس نے اپنا دست قدرت میری پشت رکھا کہ میرے سینے میں اس کی ٹھنڈک محسوس ہوئی اسی وقت ہر چیز مجھ پر روشن ہوگئی اور میں نے سب کچھ پہچان لیا ۔
پھر لکھتے ہیں کہ امام ترمذی فرماتے ہیں ”ھذا حدیث حسن صحیح سالت محمد بن اسمعیل عن ھذا الحدیث فقال صحیح “یعنی یہ حدیث حسن صحیح ہے میں نے امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ سے اس کا حال پوچھا فرمایا صحیح ہے ۔
اسی میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے اسی معراج منامی کے بیان میں ہر رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”فعلمت مافی السمٰوٰ ت والارض “جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ،سب میرے علم میں آگیا (بلفظہ انباءالمصطفیٰ ص 7 و جاءالحق ص 62,63 )
اور فریق مخالف کے وکیل مولوی محمد عمر بزعم خود اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”فتجلیٰ لی کل شئی “ تو کل شئے میرے واسطے روشن ہوگئی ”وعرفت“ اور میں نے ہرچیز کو پہچان لیا ۔اللہ تعالیٰ نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو اپنے دست قدرت سے وہ علم کلی عطاءفرمادے لیکن منکر پھر بھی آپ کے علم کلی کے عقیدہ رکھنے والے پر شرک کا فتوی لگا کر نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے علم کلی کی تنقیص کرے ۔ا ھ (مقیاس حنفیت ص275 )

میرے مسلمان بھائیو،دوستو اور بزرگو!
پچھلی پوسٹوں میں بیان کی گئی تفصیل کے بعد اب اس حدیث پاک کی زیادہ وضاحت کی ضرورت نہیں ۔۔۔کیوں کہ پہلا سوال تو یہی ہے کہ
کیا فریق مخالف اس حدیث پاک سے ”حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے لئے زمین اور آسمان کے تمام کے تمام مغیبات منکشف ہونا ثابت کرنا چاہتا ہے ؟
اگر تو فریق مخالف کا کہنا ہے کہ وہ اس حدیث پاک سے زمین اور آسمان کے تمام کے تمام مغیبات منکشف ہونا ثابت نہیں کرتے تو بات یہیں ختم
لیکن اگر فریق مخالف اس حدیث پاک سے زمین اور آسمانوں کے کلی علم غیب منکشف ہونے کا استدلال کرتا ہے ۔
تو جیسا کہ فریق مخالف کے وکیل نے خود حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت پیش کی یا جیسے تفسیر طبری میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں ”یا رب اتخذت ابراھیم خلیلا و کلمٰت موسیٰ تکلیما۔۔ ۔۔۔(پھر آخر میں یہ آیت بھی ہے) ”ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ ﴿٨﴾ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ ﴿٩﴾ فَأَوْحَىٰ إِلَىٰ عَبْدِهِ مَا أَوْحَىٰ ﴿١٠﴾ مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَىٰ الخ“ النجم 11-8 جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ واقعہ شب معراج کو پیش آیا (واللہ و اعلم بالصواب ) ۔۔۔ جبکہ معراج ہجرت سے بھی پہلے مکہ معظمہ میں ہوئی ہے ۔۔ ۔ ۔لہٰذا یہ حدیث وفات سے سالہاسال قبل ہوئی ۔
تو اگلاسوال یہ سامنے آتا ہے کہ
اگر اس حدیث پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے لئے زمین اور آسمانوں کے کل غیب (جیسا کہ فریق مخالف مدعی ہیں)منکشف ہوگئے ۔
تو نزول قرآن اور وحی کا سلسلہ (جو آخری وقت تک جاری رہا) کی کیا وجوہات پیش کریں گے جبکہ فریق مخالف کے مطابق اس حدیث پاک سے زمین اور آسمان کے تمام کے تمام غیوب منکشف ہونا ثابت ہوجاتا ہے ؟؟؟
ثانیا
اگر چہ امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ نے امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ سے اس حدیث پاک کی تحسین اور تصحیح نقل کی ہے ۔۔۔لیکن یہ حدیث ترمذی متن میں نہیں بلکہ حاشیہ پرایک نسخہ کا حوالہ دے کر یہ عبارت بمع سند و متن حدیث کے نقل کی گئی ہے ۔(دیکھئے ترمذی جلد 2 صفحہ 156 )
اور یہ روایت بسند ابن عباس رضی اللہ عنہ مسند احمد (جلد 1 ص 368 )میں بھی ہے ۔۔۔اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی روایت میں (جس کی امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ سے تحسین و تصیح نقل کی گئی ہے )عبدالرحمن بن عائش الخصرمی ہے ۔۔۔بعض نے ان کو صحابی بتایا ہے ۔۔۔۔لیکن امام ابو حاتم رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ جس نے اس کو صحابی کہا ہے اس نے غلطی ہے
اور امام ابو زرعہ رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ وہ معروف نہیں ۔
اور امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:
”لہ حدیث واحد (وھوحدیث الراویة)الا انھم یضطربون فیہ ۔(تہذیب التہذیب جلد 6 صفحہ 206)
یعنی ان سے صرف حدیث رﺅیة ہی منقول ہے مگر حضرات محدثین کرام رحمھم اللہ اس میں اضطراب کرتے ہیں
اور امام ذھبی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’وحدیثہ عجیب و غریب“(میزان الاعتدال جلد 2 صفحہ 108 محصلہ)
یعنی ان کی حدیث بڑی عجیب و غریب ہے۔

اور مضطرب حدیث فن اصول ِحدیث کی رو سے ضعیف ہوتی ہے ۔
اور امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کے بعض طُرق کو لکھ کر آگے ارشاد فرماتے ہیں :
”قدروی من طرق کلھاضعاف و فے ثبوتہ نظر“(کتاب الاسماءو الصفات ص 220 )
یعنی یہ حدیث کئی سندوں کے ساتھ مروی ہے مگر سب سندیں اس کی ضعیف ہیں اور اس کے ثبوت میں کلام ہے ۔

اور یہی عبارت علامہ خازن رحمتہ اللہ علیہ نے (تفسیر خازن جلد 6 صفحہ 54 ) میں اور امام سیوطی رحمتہ اللہ علیہ نے (تفسیر درمنشور جلد5 صفحہ 319 )میں نقل کی ہے ۔
ثالثا
مذکورہ حدیث کو اگر صحیح تسلیم کرلیا جائے تو بھی خبر واحد ہی ہوگی ۔۔۔اور بقول احمد رضا صاحب ”عموم آیات قرآنیہ کی مخالفت میں اخبار احاد سے استناد محض ہرزہ بانی(ہے)(انباءالمصطفیٰ صفحہ 4)لہذا یہ حدیث کیوں کر ناسخ ”وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ الخ الانعام 59 کی ہوسکتی ہے ۔۔۔۔لہذا یہ حدیث ”ذرے ذرے کے کلی علم غیب کے ثبوت میں حجت نہیں ہوسکتی ۔
ورابعا
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
”ثم لیعلم انہ یحب ان ینفی ٰعنھم صفات الواجب جل مجدہ من العلم بالغیب و القدرة علیٰ خلق العالم الیٰ غیر ذٰلک ولیس ذٰلک بنقص (الیٰ ان قال بعد عدة السطر)و ان استدل بقولہ علیہ الصلوة والسلام فتجلی لی کل شئی قلنا ھو بمنزلة قولہ تعالیٰ فی التوراة تفصیلا لکل شئی والا صل فی العمومات التخصیص بما یناسب المقام ولو سلم فھذا عند وضع اللہ یدہ بین کتفیہ ثم لما سری عنہ ذٰلک فلا بُعد من ان یکون تعلیم تلک المور ثانیا فی حالة اُخری الخ“(تفہیمات الٰہیہ جلد 1 صفحہ 24،25 )
”یعنی پھر جاننا چاہیے کہ واجب ہے کہ حضرات انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام سے باری تعالیٰ کی صفات کی نفی جائے مثلاً علم غیب اور جہان کے پیدا کرنے کی قدرت وغیرہ اور اس میں کوئی تنقیص نہیں ہے (پھر کئی سطور کے بعد فرمایاکہ)اور اگر کوئی شخص آپ کے علم غیب پر ”فتجلی کل شئی “(کی حدیث )سے استدلال کرے تو ہم اس کو یوں جواب دیں گے کہ یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ تورات کے بارے میں تفصیلا ً لکل شئی آیا ہے اور اصل عمومات میں مقام کے مناسب تخصیص کرنا ہے اور اگر یہ تجلی ہر ایک چیز لے لئے بھی تسلیم بھی کرلی جائے تو یہ صرف اس وقت کے لئے تھی جب کہ اللہ تعالیٰ نے دست قدرت آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی پشت پر رکھا تھا پھر جب اللہ تعالیٰ نے دست قدرت اٹھالیا تو یہ تجلی اور انکشاف بھی جاتا رہا سو اس میں کوئی بُعد نہیں کہ اس کے بعد دوسری حالت میں آپ کو دوبارہ ان امور کی تعلیم دی گئی ہو“

غور کیجیے کہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ (جوفریق مخالف میں معتبربھی ہیں )کیا کہہ گئے ہیں ؟
کہ حضرات انبیاءکرام علیہم الصلوة السلام سے صفات باری تعالیٰ مثلا علم غیب وغیرہ کی نفی کرنا واجب ہے۔۔۔اور اس میں کوئی توہین و تنقیض نہیں ہے ۔۔۔۔اور ”فتجلی لی کل شئی“ سے آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے لئے علم غیب کلی پر استدلال کرنے والے حضرات کو یوں جواب فرمایا ہے کہ اس میں لفظ ”کل“ عموم حقیقی کے لئے نہیں ہے بلکہ احکام دین اور امور شریعت وغیرہ سے مخصوص ہے جیسا کہ تورات کے بارے میں ”تفصیلاً کل شئی“آیا ہے اور اس سے مراد امور دین اور احکام وغیرہ ہی ہیں ۔
اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ بالکل صحیح ہے ۔۔۔۔چناچہ اسی روایت میں اس کا قرینہ بھی موجود ہے ۔۔۔وہ یہ کہ پہلے اللہ تعالیٰ نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ملاءاعلےٰ (یعنی مقربین فرشتوں )کا اختلاف کس بات پر ہورہا ہے ؟
تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”لا ادری“ (یعنی میں نہیں جانتا)تین مرتبہ ایسا ہی ہوا ،پھر جب اللہ تعالیٰ نے اپنا دست قدرت آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے دونوں شانوں اور کتفین پر رکھا ۔اور اس کے بعد آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ملاءاعلےٰ کی خصو مت کس امر میں ہورہی ہے ؟تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں میں جانتا ہوں ۔فرمایا وہ کیا امور ہیں ؟آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلمنے فرمایا کہ پاﺅں پر چل کر مسجد وں میں برائے نماز پہنچنا اور مسجدوں میں نماز کے انتظار میں بیٹھنا اور تکالیف میں بھی وضو کی تکمیل اور اسباغ کرنا اور اس کے علاوہ مسکینوں کو کھانا کھلانا اور گفتگو میں نرم لہجہ اختیار کرنا اور رات کو جب سو رہے ہوں نماز پڑھنا وغیرہ “
( مشکوٰة جلد 1 صفحہ 72 وقال راوہ الترمذی وقال حسن صحیح )
یہی روایت خود اس کو واضح کرتی ہے کہ ملا اعلےٰ کی جس بحث و تمحیص اور مکالمہ اور گفتگو کا آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو پہلے علم نہ تھا وہ یہی کفارات وغیرہ تھے جن کا ذکر ابھی ہوا اور باری تعالیٰ کے دست قدرت کے اثر سے یہی سب امور آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم پر منکشف ہوگئے اور”فتجلی لی کل شئی وعرفت“کا مصداق پورا ہوا اور یہی چیز ہے جس کو حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ اپنی سابق عبارت میں بیان فرمارہے تھے ۔
اور تفسیر درمنشور (جلد 5 صفحہ 320 ) میں محدث ابن نصر طبرانی اور ابن مردویہ کے طریق سے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی مرفوع روایت میں یہ الفاظ بھی موجود ہیں ”فوضع یدہ بین ثدیی فعلمت فی منامی ذٰلک ماسالتی عنہ من امر دنیا و الآخرة“ یعنی جب اللہ تعالیٰ نے میری چھاتی پر ہاتھ رکھا تو میں نے اپنے اسی خواب میں دنیا اور آخرت کی وہ چیزیں جان لیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے مجھ سے سوال کیا ۔
اور دوسری چیز حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ جتنے وقت تک آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی پشت مبارک پر اللہ تعالیٰ کا دست قدرت رہا اتنے عرصہ تک کی ہر چیز آپ صلیٰ اللہ علیہ و سلم اجمالی صورت میں منکشف ہوگئی اور جب دست قدرت اٹھا تو وہ حالت نہ رہی ۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ دوسری حالت اور اوقات میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو ضرورت کی ہر چیز کی تفصیلی طور پر باقاعدہ خداوند کریم کی طرف سے بذریعہ وحی تعلیم ہوتی رہی ۔جیسا کہ قرآن پاک کی آیات مبارکہ اس پر شاہد ہیں ۔ یہ وحی آخر وقت تک نازل ہوتی رہی اور وحی کے ذریعے آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو احکام اور حالات کی اطلاع دی جاتی رہی۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاءفرمائے ۔آمین
ضروری گذارش : اگر کسی بھائی یا دوست کو ہمارے لکھنے یا سمجھنے میں کوئی کمی کوتاہی نظر آئے تو نشادہی کی درخواست ہے تاکہ ہم اپنی اصلاح کرلیں ۔جزاک اللہ
۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔
 
شمولیت
اکتوبر 13، 2011
پیغامات
22
ری ایکشن اسکور
121
پوائنٹ
42
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مفاتح الغیب
السلام علیکم ورحمتہ اللہ !
محترم قارئین کرام اس سے قبل کہ ہم فریق مخالف کے کچھ مزید دلائل کی وضاحتیں پیش کریں ۔۔۔مناسب ہے کہ یہاں ایک اوراہم نکتہ کی وضاحت پیش کردی جائے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(اإِنَّ اللَّـهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ الخ‌لقمان 34 پارہ21
(ترجمہ:سمجھ رکھو کہ اللہ ہی کے پاس قےامت کا علم ہے،وہی بارش نازل فرماتا ہے، اور ماں کے پیٹ میں جو ہے اسے جانتا ہے ،کوئی بھی نہیں جانتا کہ کل کیا کچھ کرے گانہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ کس زمین میں مرے گا،یاد رکھو اللہ پورے علم والااور صحیح خبروں والا ہے)
اس آیت میں پانچ چیزوں کا ذکر ہے جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
وقت قیامت کا علم ۔۔۔۔بارش کے نزول کا علم ۔۔۔۔ ماں کے پیٹ کا علم ۔۔۔۔آنے والے کل کا علم۔۔۔۔اور ہر ذی نفس کی موت کا علم ۔
یعنی قیامت آکر کر رہے گی مگر کب آئے گی ؟اس کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں ،نہ معلوم کب یہ کارخانہ توڑ پھوڑ کر برابر کردیا جائے ۔
زمین کی ساری رونق اور مادی برکت (جس پر مخلوق کی خوشحالی کا دارومدار ہے )آسمانی بارش پر موقوف ہے ،سال دو سال مینہ نہ برسے تو خاک اڑنے لگے ۔مگر یہ بارش کب ہوگی ،کہاں ہوگی ،کتنی مقدا ر میں ہوگی ،کن کن نتائج کی حامل ہوگی اس کو بھی صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ۔
اور اس کا علم بھی اللہ تعالیٰ ہی کو ہے کہ ارحام کے اندر کیا ہے ،لڑکے ہیں یا لڑکیاں ہیں ،گورے ہیں یا کالے ہیں ،صحیح الاعضاءہیں یا ناقص الاعضاءہیں ،پیدا ہونے کے بعد ان کی عمر کیا ہوگی ،روزی کتنی ملے گی ،کیا کیا کام کریں گے ،سعید ہوں گے یا شقی وغیرہ وغیرہ ۔
یہ بھی کوئی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا (خود ساختہ پروگرام کا سوال نہیں ہے ) نفع کمائے گا یا نقصان ،نیکی کرے گا یا بدی اور کچھ کرنے کے لئے زندہ بھی رہے گا یا نہیں ۔
اور کوئی نہیں جانتا کہ اُس کی موت کب آئے گی ،کہاں آئے گی ،کس نوعیت کی ہوگی ،دفن ہوگا یا جانور کھا جائیں گے ،کس جگہ دفن ہوگا وغیرہ

احادیث پاک میں ان پانچ چیزوں کو مفاتح الغیب کہا گیا ہے ۔۔۔جن کا علم کلی بجز اللہ تعالیٰ کے اور کسی کو نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کواحکام غیبیہ کا علم عطاءفرمایا ہے اور اکوان غیبیہ میں سے بہت سے جزئیات کو علم بھی آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو عطاءکیا گیا ۔۔۔ہاں اکوان غیبیہ کی کلیات اور اصول کا علم بجز اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا ۔
رہی ان پانچ اشیاءکی تخصیص ۔۔۔۔تو اس کی کئی وجوہ ہیں ۔
اول
کیوں کہ سوال کرنے والوں نے ان ہی پانچ چیزوں کے متعلق سوال کیا تھا لہذا جواب میں ان پانچ اشیاءکو ہی ملحوظ رکھا گیا ۔
چناچہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ،علامہ بغوی رحمہ اللہ،علامہ عینی رحمہ اللہ،علامہ سیوطی رحمہ اللہ،علامہ آلوسی رحمہ اللہ،ملااحمد جیون الحنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔
نقل فی نزولھا ان حارث بن عمر جاءالیٰ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم وقال اخبرنی عن الساعة ایان مرسھا وقد زرعت بذافاخبرنی متی ینزل الغیث وامراءتی حاملة فاخبرنی عما فی بطنھا ذکرام انثیٰ واعلم ماوقع امس واخبرنی عما یقع غدا وعلمت ارضا ولدت فیھا اخبرنی عما ادفن فیہ فنزلت الآیة المذکورة فی جوابہ یعنی ان ھذا الخمسة فی خزانة غیب اللہ لایطلع علیہ احد من البشر والملک والجن اھ (ابن کثیر جلد3 صفحہ 455)(معالم التنزیل،جلد 3 صفحہ 156)(عمدة القاری جلد 11 صفحہ 519)(درمنشور جلد5 صفحہ170) (روح المعانی جلد21 صفحہ97) (تفسیر احمدی صفحہ 396)
یعنی اس کا شان نزول یہ نقل کیا گیا ہے کہ حارث بن عمررضی اللہ عنہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے سوال کیا مجھے بتائےے کہ قیامت کب آئے گی اور کب اس کا قیام ہوگا،اور میں نے کھیتی بو کر اس میں بیج ڈالا ہے بتائیے بارش کب ہوگی،اور میری بیوی حاملہ ہے فرمائےے کہ اس کے پیٹ میں لڑکا ہے یا لڑکی،مجھے تو یہ علم ہے کہ گذشتہ کل میں کیا ہوا ،آپ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم مجھے بتائےے کہ آنے والے کل میں کیا کچھ ہوگا ؟اور مجھے علم ہے کہ میں کس زمین میں پیدا ہوا آپ مجھے یہ بتائیں کہ میں کہاں دفن کہاں ہوں گا۔آپ کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئیں کہ یہ پانچ چیزیں اللہ تعالیٰ کے خزانہ غیب میں ہیں ان پر نہ تو کوئی بشر اور فرشتہ مطلع نہ ہوسکا ہے اور نہ جن“

(معالم التنزیل ،عمد ة القاری اور روح المعانی وغیرہ میں حارث کی بجائے وارث اور عمرکی جگہ عمروآیا ہے)
جو بھی ہو مطلب واضح ہے کہ چونکہ سوال ہی ان پانچ اشیاءکے متعلق ہوا تھا اس لئے جواب میں بھی انہی پر اقتصار کیا گیا ہے ۔۔۔۔اگر چہ ہزاروں اور لاکھوں ہی نہیں بلکہ کروڑوں چیزیں ایسی ہیں جن کا تفصیلی علم صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی کو حاصل ہے ۔
امام رازی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
”اس آیت مبارک کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ بس انہی پانچ چیزوں کا علم اللہ تعالیٰ سے مخصوص ہے کیوں کہ اُ س کا ذرہ بے مقدار کا علم بھی اللہ ہی کو ہے جو مثلاطوفان نوح کے زمانے میں ریت کے کسی ٹیلے میں تھا اور بعد میں ہوا نے اُس کو بار ہا مشرق سے مغرب کی طرف منتقل کیا“(تفسیر کبیر،جلد 6 صفحہ503)
دوسری وجہ یہ ہے کہ جیسا کہ حافظ ابن حجر ،علامہ بدرالدین عینی اور مفتی عبدہ لکھتے ہیں ،جس کا خلاصہ ہماری عبارت میں یوں ہے :
ان پانچ چیزوں کے اندر حصر کی حکمت یہ ہے کہ عالم پانچ قسم کے ہیں :
1 ۔ عالم حیوان ’’یعلم مافی الارحام‘‘ اسی کی طرف اشارہ ہے
2۔عالم نباتات یا باالفاظ دیگر عالم علوی جو نباتات کا سبب اور ذریعہ ہے ’’وینزل الغیث‘‘ میں اسی طرف اشارہ ہے ۔
3 ۔عالم سفلی یا باالفاظ دیگر عالم برزخ ’’بای ارض تموت‘‘ میں اسی طرف اشارہ ہے ۔
4۔عالم زمان اور جو کچھ اس میں حوادث ہوتے ہیں ”ماذا تکسب غدا “ میں اسی طرف اشارہ ہے ۔
5 ۔اور عالم آخرت اور ”عندہ علم الساعة “اسی طرف مشیر ہے ۔
(دیکھئے فتح الباری ج13 ص309)(عمدة القاری ج11 ص519)(تفسیر المنارج ج7 ص 468 )

اور الشیخ احمد المدعو بملا جیون الحنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
فان قلت فما فائدہ ذکرالخمسة لان جمیع المغیبات کذٰلک قلت فائدتہ ان ھذا الخمسة معظم الغیوبات لانھا مفاتحھا فانہ اذا وقف مثلا علیٰ مافی غد وقف علیٰ موت زید و تولد عمرو وفتح بکر و مقھوریة خالد وقدوم بشر وغیر ذٰلک مما فی الغد وھکذا القیاس (التفیسرات الاحمدیة ص397)
”یعنی اگر تو یہ کہے کہ ان پانچ اشیاءکے ذکر کرنے میں کیا فائدہ ہے ،حالانکہ سب مغیباب اسی طرح ہیں تو میں جواب کہوں گا ،ان پانچ اشیاءکا ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ معظم غیوبات بلکہ غیوبات کی چابیاں ہی یہی ہیں،کیوں کہ اگر مثلا کوئی شخص کل کے حوادث پر آگاہ ہوگیا تو زید کی موت ،عمرو کی ولادت ،بکر کی فتح ،خالد کی شکست اور بشر کی آمد پر اور اسی طرح جو کچھ جو کل ہونے والا ہے اس سب پر آگاہ ہوگیا( تو کوئی چیز باقی رہی ہی نہیں) اور اسی طرح باقی (چار چیزوں )پر اس کا قیاس کرو“

یعنی بزرگوں نے ان پانچ چیزوں کی یہ حکمت بیان کی ہے کہ ان پانچ چیزوں کی کنجیوں سے غیوب کے خزانے نکلتے ہیں ۔(واللہ واعلم)
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر احادیث پاک پیش کردی جائیں ۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
ان رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم قال مفاتح الغیب خمس لایعلمھا الااللہ لایعلم مافی غدا لااللہ ولا یعلم ماتغیض الارحام الااللہ ولا یعلم متی یاءتی المطراحد الااللہ ولاتدری نفس بای ارض تموت ولایعلم متی تقوم الساعة الااللہ “ (بخاری ج 1ص 141۔و ۔ج 2ص 681۔۔و ۔۔ج2 ص 1097)واللفظہ لہ مسلم و مسند احمد ج 2 ص 24۔۔و ج 2 ص 52۔۔و ۔۔ج 2ص 58 ) (درمنشور ج 3 ص15۔۔و۔۔ج 5 ص170)(مواردالظمآن ص434)
یعنی حضور سرور عالم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مفاتح الغیب یہ پانچ چیزیں ہیں جن کو بجز اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا اللہ تعالیٰ کے بغیر کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا واقعات رونما ہوں گے ،اور سوا اللہ کے کوئی نہیں جانتا کہ ارحام(بچہ دانیوں ) میں کیا ہے (مثلا نر یا مادہ ایک یا زیادہ وغیرہ) اور اس کے سوا کسی کوخبر نہیں کہ بارش کب ہوگی ؟اور کسی نفس کو معلوم نہیں کہ اس کی موت کس سرزمین میں واقع ہوگی اور خدا تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب ہوگی ؟

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جناب نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’اتیت مفاتح کل شیئی الا الخمس ان اللہ عندہ علم الساعة وینزل الغیث ویعلم مافی الارحام الی قولہ خبیر الخ
(کنز العمال ج 6 ص 106)(مسند احمد ج2 ص85)(درمنشور ج5 ص170)(ابن کثیر ج 3 ص454)(امام سیوطی لکھتے ہیں بسند صحیح خصائص الکبریٰ ج 2 ص195)(علامہ عزیزی لکھتے ہیں قال الشیخ الحدیث صحیح(السراج المنیر ج2 ص79)(علامہ آلوسی لکھتے ہیں بسند صحیح روح المعانی ج21 ص 99)
”یعنی مجھے ہر چیز کی چابیاں عطا کی گئیں ہیں مگر ان پانچ چیزوں کی( عطا نہیں کی گئیں) ،اللہ ہی کے پاس ہیں علم قیامت کا اوربارش نازل کرنے کا اور مافی الارحام کا ۔۔۔۔خبیر تک (جو سورہ لقمان کی آخری آیتیں ہیں)

اورابن عمر رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں ہے
’’اُوتی لنبیکم مفاتح الغیب الا الخمس ثم تلا ھذا الایة ان اللہ عندہ الآیتہ الخ
(طیا لسی249 )(خصائص الکبریٰ ج 2 ص 195وقال اخرجہ احمد والطبرانی بسند صحیح )
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (المتوفی32 ھ) فرماتے ہیں:
اعطی نبیکم صلیٰ اللہ علیہ وسلم مفاتح الغیب الاالخمس ان اللہ عندہ علم الساعة (الیٰ اٰخر السورة)
(طیالسی ص 51)(فتح الباری ج 8 ص395)(مسند احمد ج 4 ص 438 )
”یعنی تمہارے نبی حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم غیب کے خزانے عطا کئے گئے ہیں مگر یہ پانچ امورعطا نہیں کئے گئے جو سورہ لقمان کی آخر میں ہیں“

نیز فرماتے ہیں کہ:
”اوتی نبیکم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کل شیئی سوی ھذہ الخمس الخ
(فتح الباری ج 1 ص 115،ج 8 ص 395،ج 13ص308 )(تفسیر ابن کثیر ج 3 ص454 وقال ہذا اسناد حسن )(درمنشور ج 5 ص170)
یعنی نبی کریم حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو ہر چیز کا علم عطا کیا گیا ہے سوائے ان پانچ چیزوں کے (کہ ان کا علم کسی کوبھی عطا نہیں ہوا)

حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ(المتوفی 62 ھ)فرماتے ہیں:
”سمعت رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم یقول خمس لایعلمن الااللہ ان اللہ عندہ علم الساعة وینزل الغیث ویعلم مافی الارحام وما تدری نفس ماذا تکسب غدا وما تدری نفس بای ارض تموت ان اللہ علیم خبیر ۔
(مسند احمد ج :5 ص:353)(داروہ الضیاءالمقدسی سند صحیح ،در منشور ج 5 ص170)وقال ابن حجر صحیح ،ابن حبان و الحاکم ،(فتح الباری ج10 ص 132)(حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں ھذا حدیث صحیح الاسناد ،تفسیرج3 ص454 )
یعنی میں نے جناب نبی کریم حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانچ چیزیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا ،بے شک اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے علم قیامت کا ،اور وہی (اپنے علم کے مطابق )اتارتا ہے بارش اور وہی جانتا ہے جو کچھ ارحام میں ہے اور کسی کو نہیں معلوم کہ وہ کل کیا کرے گا،اور کسی کو نہیں معلوم کہ وہ کس زمین میں مرے گا ،یقینا اللہ تعالیٰ ہی ان چیزوں کا جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے“

حضرت ایاس بن سلمہ رحمہ اللہ(المتوفی 119ھ) اپنے والد حضر ت سلمہ رضی اللہ عنہ(المتوفی 74 ھ) سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص آیا اور اس نے حضور حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے چند سوالات کئے ،ایک یہ بھی تھا:
” قال متی تقوم الساعة فقال رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم غیب ولا یعلم الغیب الااللہ (مستدرک ج1 ص7) قال احاکم و الذہبی علیٰ شرط مسلم)
”یعنی قیامت کب آئے گی ؟تو حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (قیامت کا علم) غیب ہے اور غیب کو اللہ کے سوا کوئی اور نہیں جانتا“

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’ھذا الخمسۃ لایعلمھا ملک مقرب ولا نبی مصطفیٰ فمن ادعی انہ یعلم شیئا من ھذا فقد کفر بالقراٰن لانہ خالفہ الخ (تفسیر خازن ج 5ص183)
”یعنی یہ پانچ چیزیں وہ ہیں کہ ان کا علم نہ تو کسی مقرب فرشتہ کو ہے اور نہ جناب نبی کریم حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو ،تو جو کوئی ان میں سے کسی چیز کے علم کا دعوی کرے تو اس نے قرآن کریم کا انکار کیا ،کیوں کہ اس نے اس کی مخالفت کی ہے“

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
’’لم یعلم علیٰ نبیکم صلیٰ اللہ علیہ وسلم الا الخمس من سرائر الغیب ھذہ الآیة فی اٰخر لقمان الیٰ اٰخر الاٰیة (درمنشور ج 5ص 170)
’’یعنی تمہارے نبی حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم پر اسرار غیب سے بس یہی پانچ چیزیں مخفی رکھیں گئیں ہیں جو سورہ لقمان کی آخری آیت میں مذکور ہیں“

ابو امامہ رضی اللہ عنہ (المتوفی 86 ھ ) سے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ :
’’ان اعرابیا وقف علیٰ النبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم یوم بدر علیٰ ناقة لہ عشراءفقال یا محمد مافی بطن ناقتی ھذہ فقال لہ رجل من الانصار دع عنک رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم وھلم الی حتی اُخبرک وقعت انت علیھا وفی بطنھا ولد منک فاعرض عنہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم ثم قال ان اللہ یحب کل حیی کریم متکرہ ویبغض کل لیئم متفحش ثم اقبل علیٰ الاعرابی فقال خمس لا یعلمھن الااللہ ان اللہ عندہ علم الساعة الآیة (درمنشور ج 5ص 170)
یعنی غزﺅہ بدر کے دن ایک اعرابی اپنے دن مہینے کی گابھن اوٹنی پر سوار ہوکر جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اے محمدصلیٰ اللہ علیہ وسلم بتائیے میری اس اوٹنی کے پیٹ میں کیا ہے ؟ایک انصاری نے( طیش میں آکر)اُس سے کہا کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے ہٹ کر میرے پاس آ تاکہ میں تجھے بتلاﺅں تونے اس اوٹنی سے مجامعت کی ہے اور اس کے پیٹ میں تیرا بچہ ہے ،آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر اس انصاری کی طرف سے منہ پھیر لیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہر صاحب حیا اور صاحب وقار کوجو گندی باتوں سے کنارہ کشی کرتا ہو پسند کرتا ہے اور ہر کمینہ اور بدزبان کو مبعوض رکھتا ہے ،پھر حضور اقدس صلیٰ اللہ علیہ وسلم اُس اعرابی کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا پانچ چیزیں وہ ہیں جن کا علم بجز اللہ تعالیٰ کے اور کسی کو نہیں پھر آپ نے سورہ لقمان کی یہ آخری آیت پڑھی ”ان اللہ عندہ علم الساعة “الآیة

حضرت سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ (المتوفی 74 ھ ) سے روایت ہے ،وہ فرماتے ہیں :
”کان رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم فی قبة حمراءاذ جاءرجل علیٰ فرس فقال من انت قال انا رسول اللہ،قال متی الساعة ؟قال غیب وما یعلم الغیب الااللہ قال مافی بطن فرسی ؟قال غیب وما یعلم الغیب الااللہ قال فمتی یمطر ؟قال غیب وما یعلم الغیب الااللہ الخ (درمنشور ج5 ص170)
یعنی جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم ایک سرخ رنگ کے خیمہ میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص گھوڑی پر سوار ہوکر آیا اور دریافت کیا کہ آپ کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ میں خدا تعالیٰ کا رسول ہوں ،اس نے دریافت کیا قیامت کب آئے گی ؟آپ نے فرمایا یہ غیب کی بات ہے اور اللہ تعالیٰ کے سوا اس کو کوئی نہیں جانتا ،پھر اس نے سوال کیا میری گھوڑی کی پیٹ میں کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ غیب ہے اور غیب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا ،پھر اس نے کہا کہ بارش کب ہوگی ؟آپ نے فرمایا کہ یہ بھی غیب ہے اور اس کو خدا تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا “

حضرت لقیط بن عامر رضی اللہ عنہ کی ایک طویل حدیث میں آتا ہے کہ :
’’قلت یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم عن حاجتی فلا تعجلن علی قال سل عما شئت قلت یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم ھل عندک من علم الغیب فضحک لعمراللہ وھزواءسہ وعلم انی ابتغی بسقطہ فقال ضن ربک بمفاتح خمس من الغیب لایعلمن الا اللہ و اشارہ بیدہ (الحدیث ) (مستدرک ج 4ص 561 قال الحاکم صحیح الاسناد والبدایہ والنہایہ ج5 ص80)
یعنی میں نے کہا یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم میں آپ سے اپنی ایک حاجت کے بارے میں سوال کرتا ہوں سو آپ مجھ پر جلدی نہ کریں ،آپ نے فرمایا جو چاہتا ہے پوچھ ؟میں نے کہا کہ یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کیا آپ کے پاس علم غیب ہے ؟ بخدا آپ زور سے ہنسے اور سر مبارک کو حرکت دی اور آپ کو خیال گذرا کہ شاید میں نے آپ کی منزلت کو گرانے کے درپے ہوں تو آپ نے فرمایا کہ مفاتح الغیب کو بتانے میں اللہ تعالیٰ نے رازداری سے کام لیا ہے ان کو اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا ،پھر اپنے ہاتھ سے ان مفاتح الغیب کی طرف اشارہ فرمایا کہ وہ پانچ ہیں ۔

(حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے تصریح فرمائی ہے کہ لقیط بن عامر ابو رزین العقیلی کا یہ سوال رجب9 ھ کو پیش آیا تھا (دیکھئے البدایہ والنہایہ ج5 ص 40,80)
حضرت ربعی بن خراش (المتوفی 100ھ)سے روایت ہے :
’’حدثنی رجل من بنی عامر انہ قال یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم ھل بقی من العلم شیئی لا تعلمہ قال قد علمنی اللہ عزوجل الخمس ان اللہ عند ہ علم الساعة وینزل الغیث ویعلم مافی الارحام الآیة “(راوہ احمد فی مسند )(وقال ابن کثیر ج 3 ص 455ہذا اسناد صحیح) (در منشور ج 5ص 170)
’’یعنی مجھ سے بنی عامر کے ایک شخص نے بیان کیا کہ میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ علم میں سے کوئی ایسی چیز بھی باقی ہے جس کو آپ نہ جانتے ہوں ،حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بہت سی خیر کی تعلیم دی ہے اور بے شک علوم میں سے وہ بھی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا چناچہ پانچ باتیں جو سورہ لقمان کی آخری آیت میں مذکور ہیں ،ان کا پورا علم بس اللہ تعالیٰ ہی کو ہے کسی دوسرے کو نہیں “

حضرت امام بخاری رحمہ اللہ(المتوفی 256ھ ) کی روایت میں یوں آتا ہے کہ :
”بے شک اللہ تعالیٰ نے خیر کی تعلیم دی ہے لیکن ایسا علم بھی جس کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں “(جیسا کہ سورہ لقمان کی آخری آیت میں ہے)
(ادب المفرد ص 159)
حضرت مجاہد رحمہ اللہ(المتوفی 102 ھ) فرماتے ہیں :
’’وھی مفاتح الغیب التی قال اللہ تعالیٰ وعندہ مفاتح الغیب لایعلمھا الاھو الخ (ابن کثیر ج3 ص455)
”یہ پانچ چیزیں وہی مفاتح الغیب ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مفاتح الغیب کا علم صرف اللہ کو ہے اس کے سوا ان کو کوئی نہیں جانتا“

میرے مسلمان بھائیو،دوستو اور بزرگو!
اوپر پیش کی گئی سورہ لقمان کی آیت مبارکہ اور اس کی تفسیر میں پیش کی گئی صحیح احادیث پاک اور آثار صحابہ سے یہ بات بالکل آئینہ کی طرح صاف و شفاف ہوجاتی ہے کہ سورہ لقمان میں بیان ہوئی ان پانچ چیزوں کا علم سوائے اللہ رب العزت کے سوا کسی کو نہیں ۔
اب یہاں یہ اشکال سامنے آتا ہے کہ مثلا کہ احادیث پاک ،آثار صحابہ یا بزرگان دین کے اقوال میں ان پانچ چیزوں میں سے کئی چیزوں کی خبر انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام ،صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین یا اولیا ئے کرام رحمھم اللہ نے دیں ہیں پھر اس آیات مبارکہ میں ”حصر“ کیسے صحیح ہے کہ ان پانچ چیزوں کا علم سوائے اللہ کے کسی کو نہیں ؟؟؟
اس اہم ترین نکتہ کو سمجھنے کے لئے آپ تمام قارئین کرام سے توجہ کی درخواست ہے۔
قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ (لقمان 34)میں جس علم کی اللہ تعالیٰ کی ذات ستودہ صفات کے ساتھ تخصیص کی گئی ہے ،وہ علم کلی ہے ۔۔۔۔مطلب یہ ہے کہ ان اشیاءکے کلیات کا بطور کلی علم صرف ذات خداوندی کے ساتھ مخصوص ہے۔اور بعض احادیث پاک اور آثار اور اقوال علماءمیں سے ان میں سے جن بعض جزئیات کا علم غیر اللہ کے لئے ثابت ہواہے تو وہ صرف علم جزئی ہے۔۔۔اور ایجاب جزئی اور رفع ایجاب کلی میں کوئی منافات نہیں ہوتی۔
چناچہ علامہ آلوسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’فاللائق ان لا یعتبر فی الآیة سلب العموم بل یعتبر عموم السلب ویلتزم ان القاعدة اغلبیة وکذا یقال فی السلب والعموم فی جانب الفاعل الخ (روح المعانی ج20ص 12)
”یعنی یہ امر قابل غور ہے اور لائق فکر ہے کہ آیت میں سلب عموم معتبر نہیں ہے بلکہ عموم سلب مراد ہے اور یہ بات بھی قابل التزام ہے کہ یہ قاعدہ اکثر یہ ہے اور اسی طرح جانب فاعل میں سلب اور عموم کو ملحوظ رکھنا چاہیے“

بلکہ اس سے بھی زیادہ صاف اور واشگاف الفاظ میں یوں لکھتے ہیں:
’’انہ یجوازن یطلع اللہ تعالیٰ بعض اصفیاءہ علیٰ احدی ھذہ الخمس ویرزقہ عزوجل العلم بذلک فی الجملة وعلمھا الخاص بہ جل وعلا ماکان علیٰ وجہ الاحاطة والشمول لاحوال کل منھا وتفصیلہ علیٰ الوجہ الاتم وفی شرح المناوی للجامع الصغیر فی الکلام علیٰ حدیث بریدة السابق خمس لا یعلمھن الا اللہ علیٰ وجہ الاحاطة والشمول کلیا وجزئیا فلا نیا فیہ اطلاع اللہ تعالیٰ بعض خواصہ علیٰ بعض المغیبات حتی من ھذہ الخمس لانھا جزئیات معدودة اھ (تفسیر روح المعانی،جلد 21،صفحہ:100)
”یعنی یہ جائز کہ اللہ تعالیٰ اپنے بعض برگزیدہ بندوں کو ان پانچ امور میں سے کسی چیز پر مطلع کردے اور اللہ تعالیٰ ان کو فی الجملہ ان کا علم عطا فرمادے ان علوم خمسہ میں سے جو علم اللہ تعالیٰ سے مخصوص ہے وہ ایسا علم ہے جو علےٰ وجہ الاحاطہ اور علی سبیل الشموں ہے کہ ان میں سے ہر ایک کا علیٰ وجہ الاتم تفصیلی علم اس پر مشتمل ہو،جامعہ صغیر کی شرح میں علامہ مناوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں جو یہ آیا ہے کہ ان پانچ چیزوں کا علم سوائے باری تعالیٰ کے کسی اور کو نہیں ،اس سے مراد یہ ہے کہ ان تمام کلیات اور جزئیات کا علیٰ سبیل الاحاطة والشمول علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے اور یہ اس کے منافی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بعض خاص خاص بندوں کو ان پانچ میں سے بعض مغیبات پر مطلع کردے ،کیوں کہ یہ تو چند گنے چنے واقعات اور معدودے چند جزئیات ہیں“

اوراسی طرح ملا علی قاری رحمہ اللہ ارشاد فرماتے ہیں:
’’فان قلت قد اخبر الانبیاءوالاولیاءبشیئی کثیر من ذٰلک فکیف الحصر قلت الحصر باعتبار کلیا تھا دون جزئیتھا
الخ (مرقات ج 1ص 66) (فتح الملہم ج1 ص 172)
”اگر تو یہ کہے کہ حضرات انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام اور اولیاءعظام نے ان پانچ میں سے بہت سی چیزوں کے بارے میں خبر دی ہے تو یہ حصر کیسے صحیح ہے کہ اللہ ہی کے پاس اس کا علم ہے؟تو میں اس کے جواب میں کہوں گا کہ حصر کلیات کے اعتبار سے ہے جزئیات کے اعتبار سے نہیں“

میرے مسلمان بھائیوں ،دوستو اور بزرگو!
یہ وہ اہم نکتہ ہے کہ جس کو نہ سمجھتے ہوئے فریق مخالف اپنے دعوی میں اور ان صریح آیت مبارکہ میں پیدا ہونے والے واضح تعارض کو(یعنی فریق مخالف کلی علم غیب کی عطاءکا مدعی ہے جبکہ اس صریح آیت مبارکہ میں واضح ہے کہ ان پانچ چیزوں کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں اور اسی طرح صحیح احادیث پاک میں بھی تصریح ہے کہ ان پانچ چیزوں کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں )محض ذاتی اور عطائی کہہ کر دور کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔
حالانکہ جیسا کہ ملا علی قاری رحمہ اللہ اور علامہ آلوسی رحمہ اللہ کے ا قوال سے بھی واضح ہے کہ فرق کلیات اور جزئیات کا ہے۔۔۔یعنی اللہ تعالیٰ انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام یا اولیاءکرام کو بعض جزئیات پر مطلع فرماتا ہے ۔۔۔۔جبکہ فریق مخالف ان جزئیات کی مثالوں کو لے کر کھرب ہا کھرب پر مشتمل کلی علم غیب کی عطاءکوثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
حضرت قتادہ بن دعامہ رحمہ اللہ مشہور تابعی اس آیت(لقمان34) کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’اشیاءمن الغیب استاثر اللہ بھن فلم یطلع علیھن ملکا مقربا ولا نبیا مرسلا ان اللہ عندہ علم الساعة فلا یدری احد من الناس متی تقوم الساعة فی ای سنة اوفی ای شھر او لیل او نھار وینزل الغیث فلا یعلم احد متی ینزل الغیث لیلا او نھارا ینزل ویعلم مافی الارحام اذکراوانثی احمراواسودا وما ھو وما تدری یا ابن اٰدم متی تموت لعلک المیت غدا المصاب غدا وما تدری نفس بای ارض تموت لیس احدمن الناس یدری این مضجعہ من الارض فی بحر وبراو سھل اوجبل ۔
(ابن جریرج 21 ص 88واللفظ لہ ،ابن کثیر ج 3 ص455،درمنشور ج 5 ص170،السراج المنیر ج3 ص200،روح المعانی ج 21 ص99 )
یعنی کئی چیزیں غیب میں سے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے مختص کرلیا ہے اُس نے ان پر نہ تو کسی فرشتہ مقرب کو اطلاع دی ہے اور نہ کسی نبی مر سل کو ،بے شک قیامت کا علم بس اللہ تعالیٰ ہی کو ہے ،پس کوئی بھی انسانوں میں سے نہیں جانتا کہ قیامت کب قائم ہوگی ؟کس سال اور کس مہینہ میں رات میں یا دن میں ؟اور وہی نازل کرتا ہے بارش کو سو کسی کو خبر نہیں کہ کب بارش نازل ہوگی رات کو یا دن کو ،وہی جانتا ہے جو کچھ رحموں میں ہے سو کسی کو علم نہیں کہ نر ہے یا مادہ ؟سرخ ہے یاسیاہ ؟اور پھر وہ کیا ہے ؟(سعید ہے یا شقی وغیرہ )اور کسی کو نہیں پتہ کہ کل وہ کیا کرے گا اچھا کرے گا یا برا ،اور اے فرزند آدم تو کیا جانتا ہے کہ شائد تو کل مرنے والا ہو اور شاید کہ کل ہی تجھ پر کوئی مصیبت نازل ہو اور کوئی نفس خبردار نہیں کہ کس زمین میں اس کو موت آئے گی ،یعنی کسی انسان کو پتہ نہیں کہ زمین کے کس حصے میں اس کی قبر ہوگی آیا دریا میں یا خشکی میں نرم زمین میں یا پہاڑ اور سخت جگہ میں (بس اللہ تعالیٰ ہی ان باتوں کا جاننے والا اور خبردار ہے)

یہ ہیں ”غیوب خمسہ “کے کلیات
یعنی ایک طرف تما م کی تمام مخلوقات کی مادہ کے پیٹ کی خبر ۔۔۔تو دوسری طرف اس پیٹ میں جو کچھ ہے اس کے ہر ہر پہلو کی بھی خبر (یعنی نر ،مادہ، سرخ ،کالا ہونا،اور انسانوں اور جنات میں سعیدیاشقی ہونا وغیرہ )
اسی طرح قیامت کس سال ،کس ماہ ،کس دن (یہاں یہ یاد رکھیے کہ قیامت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو اتنا علم عطاءفرمایا ہے کہ وہ جمعہ کے دن ہوگی ۔دیکھیے مسلم ج 1ص 282)لیکن وہ کس سال یا کس ماہ کاکون سا جمعہ ہوگا یعنی ایک ماہ میں کم و بیش 4 جمعہ ہوتے ہیں )رات کو یا دن کو قیامت قائم ہوگی ۔۔۔۔اس خاص گھڑی کا جاننے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے ۔(قیامت کی نشانیاں اور چیز ہیں )
اسی طرح ہر ہر بارش کے نزول کی یقینی خبر(محکمہ موسمیات وغیرہ کی پیش گوئیاں نہیں جو کبھی صحیح ہوگئیں تو کبھی غلط)
اسی طرح کل کے حوادث کے ذرے ذرے کی خبر ۔۔۔۔ہر ہر پہلو کی خبر ۔۔۔۔ہر ہر مخلوق کی زندگی، موت کی خبر ۔۔۔۔اورقیامت تک جتنے انسان دنیا میں آئیں گے ہر ایک کی خبرکہ کس نے کس زمین پر مرنا ہے وغیرہ وغیرہ ۔
اللہ تعالیٰ ان کھرب ہا کھرب خبروں میں سے اگر ایک کروڑ خبروں پر بھی انبیاءکرام علیہم الصلوةوالسلام یا اولیاءکرام کو مطلع یا منکشف فرمادیتا ہے۔۔۔ تب بھی یہ محض چند خبریں ہی کہلائیں گی ۔۔۔اس طرح احادیث پاک ،اقوال صحابہ ،سلف صالحین کے اقوال میں غیر اللہ کے لئے ”بعض غیوب خمسہ“پر مطلع یا منکشف ہونے کا ذکر آتا ہے ۔۔۔ لیکن فریق مخالف ان ”بعض جزئیات “پر مطلع یا منکشف ہونے پر احادیث ،اقوال صحابہ ،اور اقوال سلف صالحین کو لے کر ”کلیات غیوب خمسہ “(جو کھرب ہا کھرب ہیں) جاننا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
اور یہ ہی ہمار ا فریق مخالف سے اختلاف ہے ۔
کہ غیوب خمسہ کے اصول اور کلیات کا جاننے والا تنہا اللہ رب العزت ہے ۔
اور اللہ تعالیٰ جس قدر چاہے ان غیوب خمسہ میں سے بعض بعض جزئیات انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام اور اولیاءکرام کو مطلع یا منکشف فرمادیتا ہے ۔
محترم قارئین کرام !
ان شاءاللہ تعالیٰ ہم اگلے حصہ میں اسی نکتہ یعنی غیوب خمسہ کے حوالے سے فریق مخالف کے چند دلائل اور اُن کی وضاحتیں پیش کریں گے ۔وما توفیقی الا باللہ
آپ تمام بھائیوں سے دعاﺅں کی خصوصی درخواست ہے ۔جزاک اللہ
ضروری گذارش : اگر کسی بھائی یا دوست کو ہمارے لکھنے یا سمجھنے میں کوئی کمی کوتاہی نظر آئے تو نشادہی کی درخواست ہے تاکہ ہم اپنی اصلاح کر لیں ۔جزاک اللہ
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاءفرمائے ۔آمین
۔۔۔۔۔جاری ہے ۔۔۔۔۔
 
Top