یہ سہج صاحب کے جواب کا جواب الجواب ہے۔
دھوکے باز
مجھے حیرت ہے کہ مقلدین دھوکہ دہی اور کذب بیانی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔اب کیا کریں کہ بیچارے مجبور ہیں کیونکہ شیطانی ہتھکنڈوں کے علاوہ ان کے پاس کچھ ہے ہی نہیں جس سے یہ اپنے مذہب اور علماء سوء کا دفاع کرسکیں۔ کچھ ایسی ہی صورتحال یہاں بھی ہے کہ پہلے ہمارے ذمہ ایک ایسی بات لگائی گئی جس کے ہم قائل ہیں اور نہ ہی دعویدار ، پھر اس کے بعد اس من گھڑت بات کو بنیاد بنا کر اور اس پر کچھ دلائل فراہم کرکے ہمیں جھوٹا قرار دینے کی سعی کی۔اور اس پر متزادسہج صاحب کا یہ جھوٹا دعویٰ کے حنفی مذہب ہوا میں معلق نہیں بلکہ ٹھوس بنیادوں پر قائم ہے۔ابھی آپ دیکھئے گا کہ یہ ٹھوس بنیادیں کسطرح کھوکھلی ہوکر حنفی مذہب کی عمارت کو زمین پر لے آئیں گی۔ان شاء اللہ
مان نہ مان میں تیرا مہمان
کیا سہج صاحب ہمیں یہ بتانا پسند کرینگے کہ ہم نے یہ دعویٰ کہاں کیا ہے کہ مذکورہ فتویٰ تقی عثمانی صاحب کا ذاتی ہے؟! نہ تو یہ دعویٰ ہماری تحریر میں موجود ہے اور نہ ہی فقہی مقالات کے اسکین شدہ صفحات میں ایسی کوئی بات کہی گئی ہے۔ جب ہم نے ایسا کوئی دعویٰ ہی نہیں کیا تو جواب میں تقی عثمانی صاحب کی وضاحت پیش کرنے کی کیا ضرورت تھی؟! ہاں! مگر ایک ضرورت تھی وہ یہ کہ حنفی مذہب کے اصل مسئلہ سے لوگوں کی توجہ ہٹانی تھی۔ لیکن ہمیں افسوس ہے آپ اپنی اس کوشش میں نامراد رہے ہیں۔ اگر تقی عثمانی صاحب کی کتاب سے اس مسئلہ کو پیش کرنے کی وجہ سے آپ نے یہ تصور کر لیا کہ ہم اسے تقی عثمانی صاحب کا ذاتی فتوی سمجھ رہے ہیں تو اپنی عقل شریف پر ماتم کیجئے۔ ہم نے تقی عثمانی کی کتاب سے اس مسئلہ کو صرف اور صرف اس لئے پیش کیا ہے کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ حنفیوں کہ مذہبی کتابوں میں موجود یہ گستاخانہ مسئلہ صرف گزرے ہوئےحنفی فقہاء تک ہی محدودتھا اورآج کا حنفی اس کو تسلیم نہیں کرتا۔ حقیقت یہ ہے کہ جتنا قرآن کا ادب و احترام کل کے جاہل اور بے دین حنفی فقہاء میں تھا آج کا حنفی بھی اتنا ہی قرآن کا ’’احترام ’’کرنے والا ہے۔کیا کوئی حنفی اتنی بھی جراءت اپنے اندر نہیں رکھتا کہ غیرت ایمانی کا ثبوت دیتے ہوئے یہ اقرار کر لے کہ فقہ حنفی کی کتابوں میں قرآن کے ’’احترام’’ میں موجود پیشاب سے سورہ فاتحہ لکھنے کا مسئلہ گستاخانہ اور کافرانہ ہے!!!
کیا تقی عثمانی کی طرف اس فتویٰ کی نسبت واقعی غلط ہے؟
ہاں! البتہ اگر آپ اسکین شدہ اخبار ضرب حق کی مین ہیڈنگ پر نظر ڈالیں تو اخبار والوں نے ضرور اس فتویٰ کو تقی عثمانی صاحب کی طرف براہ راست منسوب کیا ہے اور اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو تقی عثمانی کی طرف اس فتوی ٰ کی نسبت غلط بھی نہیں کیونکہ تقی عثمانی صاحب نے صاحب ہدایہ کے فتویٰ کو نقل کرنے کے بعد اس پر کسی قسم کا رد یا اعتراض نہیں کیااس کا سیدھا اور صاف مطلب یہ ہے کہ تقی عثمانی صاحب اس فتوے سے بالکل متفق اور اس پر راضی ہیں وگرنہ وہ ضرور اپنی کتاب میں اس فتوے سے اختلاف کرتے ہوئے صاحب ہدایہ کے اس فتوے کو غلط ، توہین قرآن پر مبنی اور حرام وغیرہ قرار دیتے۔
تقی عثمانی کے اس فتویٰ کو اپنی کتاب میں درج کرنے کی اصل وجہ
تقی عثمانی صاحب نے اس مسئلہ میں اصلی حنفی مذہب کو بیان کرنے کے لئے اپنی کتاب میں صاحب ہدایہ کے حوالے سے یہ فتویٰ درج کیا ہے ۔یاد رہے کہ پیشاب سے سورہ فاتحہ لکھنے کا یہی فتویٰ حنفیوں کی معتبر کتاب فتاویٰ قاضی خان ، فتاویٰ عالمگیری، البحرالرائق اور الرد المختارمیں بھی موجود ہے۔
تقی عثمانی صاحب کی تصنیف فقہی مقالات کئی جلدوں پر مشتمل ہے جس کی چوتھی جلد میں یہ متنازعہ اور شرمناک مسئلہ مفتی صاحب نے درج کیا ہے اور اس کتاب میں انداز یہ اپنایا ہے کہ پہلے ایک عنوان قائم کرتے ہیں اس کے بعد اس عنوان سے متعلق مذاہب اربعہ کا زکر کرتے ہیں۔اس کتاب کے صفحہ نمبر ۱۳۷ پر پہلے حرام اشیاء سے علاج کا حکم کا عنوان قائم کرتے ہیں اس کے بعد اس مسئلہ میں سب سے پہلے حنابلہ کا مذہب بیان کرتے ہیں اسکے بعد شوافع کا مذہب اور ان کی دلیل کا زکر کرنے کے بعد مالکی مذہب کی طرف آتے ہیں اور آخر میں احناف کے مذہب کو بیان کرتے ہوئے صفحہ ۱۴۲ پر لکھتے ہیں کہ
اس مسئلہ میں علماء احناف کے اقول مختلف ہیں یہاں مفتی صاحب نے تجاہل عارفانہ سے کام لیا ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ہر مسئلے میں احناف کے اقوال اس قدر مختلف اور مخالف ہوتے ہیں کہ مسئلہ ایک ہی ہوتا ہے لیکن ایک فقہی کا رخ مشرق کی طرف تو دوسرے کا مغرب کی طرف تو تیسرے کا شمال کی طرف اور چوتھے کا جنوب کی طرف ہوتا ہے۔ اسی سے اندازہ کرلیں کہ حنفی فقہاء میں آپس ہی میں مسائل کے تعین میں کس قدر اختلاف ہے۔ تقی عثمانی صاحب اسی صفحہ پر مزید لکھتے ہیں کہ
امام ابوحنیفہ کے نزدیک تداوی بالمحرم یعنی حرام اشیاء سے علاج جائز نہیں۔ پھر صفحہ ۱۴۴پر اکثر مشائخ حنفیہ کا فتویٰ اور ان کے دلائل کا عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں کہ
اکثر مشائخ حنفیہ نے حرام سے علاج کرنے کے جواز کا فتوی دیا ہے۔آگے چل کر لکھتے ہیں : اسی طرح صاحب ہدایہ نے تجنیس میں اسی کو اختیار فرمایا ہے، چناچہ فرمایا کہ اگر کسی کی ناک سے خون بہہ پڑے اور وہ اس خون سے اپنی ناک اور پیشانی پر سورہ فاتحہ لکھے تو شفاء کے حصول کے لئے بطور علاج ایسا کرنا جائز ہے۔اس سلسلے میں صفحہ ۱۴۷ پر تقی عثمانی صاحب اس مسئلہ میں حنفی مذہب بیان کرنے کے لئے فیصلہ کن بات لکھتے ہیں کہ:
اوپر کی تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ مشایخ حنفیہ نے تداوی بالمحرم کے جواز میں امام ابو یوسف رحمتہ اللہ علیہ کے قول پر فتوی دیا ہے۔
خصوصی نوٹ: تقی عثمانی صاحب نے اپنے وضاحتی بیان میں جو کہ روزنامہ اسلام ،۱۲ اگست،۲۰۰۴ میں شائع ہوا ،واضح الفاظ میں اقرار کیا ہے کہ پیشاب سے سورہ فاتحہ لکھنا احناف کا اصل مسلک ہے۔ملاحظہ فرمائیں:
صحیح مسلم شریف میں حدیث عرنیین کے تحت بند ے نے حرام چیزوں سے علاج (تداوی بالمحرم) کے موضو ع پر بھی ائمہ اربعہ کی کتابوں سے ان کے مذاہب اور اقوال انہی کے الفاظ میں نقل کئے ہیں حنابلہ کا مسلک علامہ ابن قدامہ حنبلی رحمہ اللہ کے الفاظ میں شافعیہ کا مذہب علامہ نووی رحمہ اللہ کے الفاظ میں اور مالکیہ کا مذہب علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے الفاظ میں نقل کرنے کے بعد پہلے حنفیہ کا اصل مسلک علامہ
سرخسی رحمہ اللہ اور علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ کے الفاظ میں نقل کیا ہے۔
( روزنامہ اسلام ،۱۲ اگست،۲۰۰۴ بحوالہ پیشاب سے سورہ فاتحہ لکھنے سے متعلق مفتی تقی عثمانی کی وضاحت اور اصل حقیقت از ابو الاسجد ،صفحہ نمبر۲)
تقی عثمانی صاحب کے ان الفاظ پر غور کریں:
حرام چیزوں سے علاج (تداوی بالمحرم) کے موضو ع پر بھی ائمہ اربعہ کی کتابوں سے ان کے مذاہب اور اقوال انہی کے الفاظ میں نقل کئے ہیں۔ یعنی تقی عثمانی صاحب اعتراف فرمارہے ہیں کہ فقہی مقالات میں انہوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ ان کے اپنے خیالات یا فتوے نہیں ہیں بلکہ تمام ترمسائل خود ائمہ اربعہ کی کتابوں سے ان کے مذاہب اور اقوال انہی کے الفاظ میں نقل کئے ہیں۔ اور پیشاب سے سورہ فاتحہ کا مسئلہ بھی احناف کی کتابوں سے خود انہی کے الفاظ میں نقل کیا ہے۔
تقی عثمانی صاحب کی وضاحت سے ثابت ہوا کہ پیشاب اور خون سے سورہ فاتحہ لکھنا اصلی حنفی مذہب ہے اور حنفیوں کے ہاں اسی پر فتوی ہے۔ اب کوئی مقلد ہمیں بتائے کہ کیا اس سے بڑھکر بھی قرآن کی توہین اور گستاخی ممکن ہے؟ امریکی پادری کے قرآن جلانے کی مہم پر سیخ پا ہونے والے دوغلے حنفیوں کو فقہ حنفی کے آئینہ میں حنفیت کا مکروہ اور خبیث چہرہ دیکھنا چاہیے اور عیسائیوں سے پہلے اپنے علماء کی خبر لینا چاہیے جو عیسائیوں اور یہودیوں سے بھی بد تر ہیں۔
مقلدوں کا دجل وفریب
سہج صاحب کا یہ فرمانا کہ تقی عثمانی صاحب نے لیکن یہ بات منقول نہیں لکھ کر اس فتوے کو خود ہی رد کردیا ہے ان کی خالص مقلدانہ کذب بیانی ہے۔ شاید یہ دوسروں کو بھی اپنی طرح اندھا مقلد اور جاہل سمجھتے ہیں جو ان کی ہر الٹی سیدھی اور جھوٹی باتوں پر آنکھ بند کرکے یقین کرلینگے۔ فقہی مقالات جلد چہارم کے صفحہ نمبر ۱۴۵ پر تقی عثمانی صاحب نے فقہ حنفی کی معتبر کتاب البحرالرائق سے اصل عبارت عربی میں پیش کی ہے اس کے بعد اس عبارت کا ترجمہ صفحہ نمبر ۱۴۶ پر پیش کیا ہے ۔ فقہی مقالات کے صفحہ نمبر ۱۴۵ پر موجود البحرالرائق کی اصل عبارت(اسکین صفحہ نیچے دیکھئے) یہ ہے:
وقد وقع الاختلاف بین مشائخنا فی التداوی بالمحرم، ففی النھایۃ عن الذخیرۃ الا ستشفا، بالحرام یجوز اذاعلم ان فیہ شفاء ولم یعلم دواء آخر اھ وفی فتاوی قاضیخان معذیاالی نصر بن سلام: معنی قول علیہ السلام: ان اللہ لم یجعل شفاء کم فیما حرم علیکم، انما قال ذلک فی الاشیاء التی لایکون فیھا شفاء فاما اذاکان فیھا شفاء فلاباس بہ، الاتری ان العطشان یحل لہ شرب الخمر للضرور اھ وکذااختار صاحب الھدایۃ فی التجنیس فقال: اذاسال الدم من انف انسان یکتب فاتحۃ الکتاب بالدم علی جبھتہ وانفہ یجوز ذلک للا ستشفاء والمعالجۃ ولو کتب بالبول ان علم ان فیہ شفاء لاباس بذلک لکنہ لم ینقل و ھذا لان الحرمۃ ساقطۃ عندالا ستشفاء الاتری ان لعطشان یجوزلہ شرب الخمر والجائع یحل لہ اکل المیتۃاھ (البحرالرائق ج۱ ص ۱۱۶)
اصل عبارت میں صاف دیکھا جاسکتا ہے کہلکنہ لم ینقل و ھذا یعنی لیکن یہ منقول نہیں کے الفاظ اصل میں علامہ ابن نجیم کی کتاب البحرالرائق کے ہیں۔ یہ تقی عثمانی صاحب کے الفاظ نہیں ہیں بلکہ تقی عثمانی صاحب نے اپنی کتاب میں صرف ان الفاظ کا ترجمہ کیا ہے۔
اس کا مزید ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ صاحب ہدایہ کی یہی عبارت فقہ حنفی کی معتبر اور مشہور کتاب الرد المحتار میں بھی نقل ہوئی ہے۔
وکذااختارہ صاحب الھدایۃ فی التجنیس فقال: لو رعف فکتب الفاتحۃ بالدم علی جبھتہ واٗنفہ جاز للا ستشفاء وبالبول اٗ یضاان علم فیہ شفاء لاباٗس بہ: لکن لم ینقل و ھذا لان الحرمۃ ساقطۃ عندالا ستشفاء کحل الخمر والمتیۃ للعطشان والجائع اھ من البحر۔ واٗ فاد سیدی عبدالغنی اٗ نہ لا یظھر الا ختلاف فی کلامھم لا تفامھم علی الجواز للضرورۃ، (الرد المحتار ج۱ ص۲۱۰ مطبور ایچ ایم سعید کمپنی کراچی)
ترجمہ: اسی طرح صاحب الھدایہ نے التجنیس میں اسی مسئلے کو اختیار کیا ہے پس کہا کہ اگر کسی کی نکسیر پھوٹے تو وہ سورہ فاتحہ خون سے اپنی پیشانی اور ناک پر لکھے تو شفاء حاصل کرنے کے لئے یہ جائز ہے اور اگر اسے یہ معلوم ہو کہ اس میں میرے لئے شفاء ہے تو پیشاب سے لکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔لیکن یہ بات منقول نہیں اور وجہ اس کے (جائز کہنے کی) یہ ہے کہ شفاء حاصل کرنے کے لئے حرمت ساقط ہوجاتی ہے جیسے پیاسے کے لئے شراب پینا اور بھوکے کیلئے مردار کھانا۔ میرے سید عبدالغنی نے یہ افادہ فرمایا کہ ضرورت کے وقت اسکے جواز پر ان (فقہاء) کے اتفاق ہونے کی وجہ سے ان کی اس بات میں اختلاف ظاہر نہیں ہوا۔
دیکھا آ پ نے الرد المحتار کی اس حوالے میں بھی لکن لم ینقل و ھذا یعنی لیکن یہ منقول نہیں کے الفاظ ہیں۔ لیکن یہ الفاظ تقی عثمانی کے نہیں بلکہ صاحب ہدایہ کے ہیں۔ مقلدوں کو ایسے واضح جھوٹ بولتے ہوئے ،دن دھاڑے دھوکہ دہی کرتے ہوئے اور لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے شرم سے ڈوب مرنا چاہیے۔ لیکن ! شرم تم کو مگر نہیں آتی
لیکن یہ بات منقول نہیں کی وضاحت
صاحب ہدایہ کی پوری عبارت پڑھنے سے بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ لیکن یہ منقول نہیں کا ہرگز وہ مطلب نہیں جو سہج صاحب زبردستی ان الفاظ سے کشید کرنا چاہ رہے ہیں۔کیا اس عبارت کا یہ خودساختہ مطلب صرف سہج صاحب ہی پر منکشف ہوا ہے یا کسی معتبر حنفی عالم یا فقہی نے بھی اس جملے(لیکن یہ منقول نہیں کا) وہی مطلب لیا ہے جو سہج صاحب بیان فرمارہے ہیں۔ چونکہ حنفی مذہب میں سہج صاحب کی ٹکے کی بھی حیثیت نہیں ہے اسلئے ہم ان کی بات ماننے سے قاصر ہیں۔ہاں! اگر وہ اپنے کسی معتبر عالم خاص طور پر صاحب ہدایہ سے یا معتبر کتاب سے یہ مطلب بیان کردیں تو ہمارے لئے قابل قبول ہوگا ۔
صاحب ہدایہ لکھتے ہیں :
اگر کسی انسان کی ناک سے خون بہہ پڑے اور وہ اس خون سے اپنی ناک اور پیشانی پر سورہ فاتحہ لکھے تو شفاء کے حصول کے لئے بطور علاج ایسا کرنا جائز ہے۔ یہاں تک تو بات مکمل ہوگئی اب دوسری بات شروع ہوتی ہے:
اور اگر پیشاب سے لکھے اور اس کو یہ معلوم ہو کہ اس کے اندر میرے لئے شفاء ہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں، لیکن یہ بات منقول نہیں۔وجہ اس کی یہ ہے کہ شفاء کے حصول کے وقت حرمت ساقط ہوجاتی ہے۔ اب بات الحمد اللہ واضح ہوگئی ہے کہ صاحب ہدایہ کہہ رہے ہیں کہ یہ بات منقول نہیں یعنی کسی معتبر حنفی کتاب میں نقل نہیں ہوئی کے کوئی شخص پیشاب سے سورہ فاتحہ اس وقت لکھے گا جب اسکو یہ معلوم ہو کہ اس کے اندر اس کے لئے شفاء ہے۔ اور آگے یہ لکھ کرنجاست یعنی پیشاب وغیرہ سے قرآن لکھنے کو جائز قرار دیا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ شفاء کے حصول کے وقت حرمت ساقط ہو جاتی ہے۔
اس بحث کا خلاصہ یہ ہے :کیونکہ شفاء کے حصول کے وقت صاحب ہدایہ کے نزدیک حرام چیز بھی حلال ہوجاتی ہے اس لئے یہ منقول ہونا ضروری نہیں حصول شفاء کے لئے پیشاب سے سورہ فاتحہ لکھتے وقت اس شخص کو معلوم ہو کہ اس کے اندر اسکے لئے شفاء ہے۔ بلکہ خون اور پیشاب سے سورہ فاتحہ لکھتے وقت چاہے اسے معلوم ہو کہ اس کے اندر اس کے لئے شفاء ہے یا معلوم نہ ہو ہر صورت میں یہ عمل جائز ہے کیونکہ شفاء کے حصول کے وقت حرمت ساقط ہوجاتی ہے۔
کوئی یہ نہ سمجھے یہ تمام تر وضاحت میری زاتی ہے اس لئے میں اپنے موقف کی تائید میں تقی عثمانی صاحب کی عبارت پیش کررہاہوں۔ فقہی مقالات کے صفحہ نمبر ۱۴۶ پرتقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں:
زخیرہ سے یہ منقول ہے کہ حرام سے شفاء حاصل کرنا جائز ہے جب یہ معلوم ہو کہ اس کے اندر شفاء ہے۔ اصل میں بعض حنفی مشائخ حرام اشیاء یعنی خون اور پیشاب وغیر ہ سے سورہ فاتحہ لکھنے سے علاج پر یہ شرط لگاتے ہیں کہ یہ اس وقت کیا جائے جب شفاء کے حصول کا علم ہو۔ لیکن جن علماء کی رائے پر حنفی مذہب کی بنیاد ہے یعنی امام سرخسی اور علامہ ابن نجیم وغیر ہ وہ اس شرط کو نہیں مانتے چناچہ صفحہ ۱۴۷ پر تقی عثمانی بطور اقرار لکھتے ہیں کہ
امام سرخسی اور علامہ ابن نجیم رحمتہ اللہ علیھما کی نقل کردہ عبارات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک کسی شرط کے بغیر مطلق تداوی بالمحرم جائز ہے۔
صاحب ہدایہ کے یہ الفاظ : لیکن یہ بات منقول نہیں جسے علامہ ابن نجیم نے البحرالرائق میں بطور رضامندی اور بطور حنفی مذہب نقل کیا ہے کا مطلب یہ ہے کہ یہ شرط کہ اسی وقت پیشاب سے سورہ فاتحہ لکھی جائے جب شفاء کے حصول کا یقین ہو یہ بات کسی معتبر حنفی کتاب میں منقول نہیں اسی لئے کسی شرط کے بغیر حرام اشیا ء سے علاج جائز ہے چاہے وہ پیشاب ہو یا خون کیونکہ شفاء کے حصول کے وقت حرمت ساقط ہوجاتی ہے۔
مفتی تقی عثمانی صاحب کی وضاحت کی اصل حقیقت
تقی عثمانی صاحب نے بھرپور منافقت سے کام لیتے ہوئے عوام کو دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے۔ جب مفتی صاحب خودیہ تسلیم کرچکے ہیں کہ پیشاب سے سورہ فاتحہ لکھنا اصلی حنفی مذہب ہے اور انہوں نے اپنی کتاب میں حنفی مذہب ہی کو بیان کیا ہے پھر اس سے انکار کیا معنی رکھتا ہے؟ کیا وہ خود حنفی مذہب کو چھوڑ چکے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر یہ دوغلی پالیسی کیوں؟
بطور فائدہ یہ عرض ہے کہ پیشاب سے سورہ فاتحہ لکھنے کا جوازمستند ترین حنفی علماء سے منقول ہے اور انتہائی معتبر حنفی کتابوں میں درج ہے ملاحظہ فرمائیں:
۱۔ امام فخرالدین حسن بن منصور المتوفی ۲۹۵ھ بحوالہ فتاویٰ قاضی خان
۲۔ ابوبکر الاسکاف بحوالہ فتاویٰ قاضی خان
۳۔ صاحب الھدایہ علی بن ابی بکر المتوفی ۵۹۳ھ بحوالہ البحرالرائق والرد المحتار
۴۔ ابن نجیم الحنفی المتوفی ۹۸۰ ھ بحوالہ البحرالرائق والرد المحتار
۵۔ علامہ ابن عابدین الشامی کے استاد عبدالغنی بحوالہ الرد المحتار
۶۔ علامہ ابن عابدین الشامی المتوفی ۱۲۵۲ھ بحوالہ الرد المحتار
۷۔ الشیخ نظام و جماعت علماء ھندوستان ۱۱۰۰ھ بحوالہ فتاویٰ عالمگیریہ
دیوبندیوں کے وکیل احناف، مناظر اسلام جناب امین اوکاڑوی صاحب کے سامنے جب کسی صاحب کا فقہ حنفی کے مسئلے پیشاب سے سورہ فاتحہ لکھنے سے متعلق اعتراض سامنے آیا تو جناب انتہائی برہم ہوئے اور یوں جواب دیا:
آخر علماء نے پوچھا کہ آپ کے مذہب میں خون پاک ہے، منی پاک ہے تو کیا ان سے قرآن لکھنا جائز ہے یا نہیں۔ کیا کسی حدیث میں آتا ہے کہ پاک چیز سے قرآن لکھنا حرام ہے آپ کے مذہب میں حلال جانوروں کا پیشاب اور دودھ پیتے بچوں کا پیشاب پاک ہے اور پاک چیز سے قرآن لکھنا نہ قرآن میں منع ہے نہ حدیث سے (مجموعہ رسائل ج۱ ص ۴۶۰، تصیح شدہ جدید ایڈیشن مطبوعہ ادارہ خدام احناف لاہور)
لیں جی! دیوبندیوں کے وکیل احناف اور مناظر اسلام نے فیصلہ سنا دیا ہے انسانی اور حیوانی پیشاب پاک ہے اسلئے ان سے قرآن لکھنا جائز ہے۔ اور اس عمل کا منع نہ قرآن سے ثابت ہے اور نہ ہی حدیث سے۔ اب تقی عثمانی پہلے اپنے اس نام نہاد عالم کے فتوی اور اس میں اٹھائے گئے اعتراضات کا جواب دیں اور اگر مفتی تقی عثمانی صاحب پیشاب سے سورہ فاتحہ لکھنے کو غلط سمجھتے ہیں تو امین اوکاڑوی کے اعتراض کے مطابق سب سے پہلے قرآن کی وہ آیت پیش کریں اور وہ حدیث جس میں منع آیا ہو۔ ورنہ مفتی صاحب کا حنفی ہوکر اس مسئلہ سے انکار کرنا محض فریب ، دھوکہ اور دوغلاپن ہے کیونکہ حنفی مذہب کا مفتی بہا مسئلہ پیشاب سے سورہ فاتحہ لکھنا ہے جسے معتبر حنفی علماء نے تسلیم کیا ہے اور دیوبندیوں کے مناظر اسلام کا بھی یہی فتوی ہے کہ یہ عمل جائز ہے۔ اب یا تو تقی عثمانی صاحب اس گندے حنفی مذہب کو چھوڑ دیں جس میں پیشاب سے قرآن کی توہین کی جاتی ہے یا پھر اپنے دوغلے پن سے بازآجائیں۔