• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسئلہ - پیشاب سے سورہ فاتحہ لکھنا

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
شاہد نزیر بھائی،اس اخبار کے اسکین شدہ صفحے میں جامعہ بنوری ٹاؤن کی طرف سے تقی عثمانی کے فتوے کی رد میں جو بات لکھی ہوئی ہے کیا واقعی دیوبندی تقی عثمانی کے اس فتوے کو نہیں مانتے۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,972
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
جزاک اللہ خیرا
ویری نائس شاہد نزیر بھائی،بہت ہی فکر آموز لکھتے ہیں آپ۔اللہ آپ کو باطل کو مٹانے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔اللہ تعالیٰ آپ کو شہادت کی موت نصیب فرما کر جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین۔
آمین ثم آمین۔ اللہ آپ کو خوش رکھے محترم بھائی۔

شاہد نزیر بھائی،اس اخبار کے اسکین شدہ صفحے میں جامعہ بنوری ٹاؤن کی طرف سے تقی عثمانی کے فتوے کی رد میں جو بات لکھی ہوئی ہے کیا واقعی دیوبندی تقی عثمانی کے اس فتوے کو نہیں مانتے۔
آپ نے پورے موضوع کا مطالعہ نہیں فرمایا۔ یہ دراصل تقی عثمانی کا ذاتی فتویٰ نہیں بلکہ انہوں نے اپنی کتاب فقہی مقالات میں تداوی بالمحرم یعنی حرام اشیاء سے علاج کے عنوان کے تحت حنبلی، مالکی اور شافعی مذہب بیان کرنے کے بعد حنفی مذہب کے تحت ابن نجیم کا یہ فتویٰ درج کرکے ثابت کیا ہے کہ حرام اشیاء سے علاج کے جواز میں حنفی مذہب پیشاب سے سورہ فاتحہ لکھنے کی بھی اجازت دیتا ہے۔

اخبار والوں کا اس فتویٰ کو تقی عثمانی کی طرف اس لحاظ سے منسوب کرنا بالکل درست ہے کہ تقی عثمانی بھی حنفی ہیں اور انہوں نے بطور تائید اس فتوے کو اپنی کتاب میں نقل کیا ہے اور کوئی معمولی رد بھی نہیں کیا۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تقی عثمانی صاحب بھی پیشاب سے سورہ فاتحہ لکھنے کے جوازکے قائل ہیں۔

یہ علیحدہ بات ہے کہ اس کتاب کی اشاعت اور پھر مذکورہ اخبار میں اس خبر کی تشہیر کے بعد تقی عثمانی صاحب کو یہ کہنا پڑ گیا کہ ہم پیشاب سے سورہ فاتحہ لکھنے کو درست نہیں سمجھتے۔ لیکن جب تک یہ لوگ اس توہین آمیز اور قاتل ایمان فتوے کو اپنی کتابوں سے نکال نہیں دیتے اور اپنے ان فقہاء کی مذمت نہیں کرتے جو اسے نہ صرف جائز کہتے ہیں بلکہ ان حنفی فقہاء کے قرآن کی توہین کے جواز پر اتفاق کی وجہ سے یہ مسئلہ حنفی مذہب کا مفتی بہاء فتویٰ بن چکا ہے۔اس وقت تک اس قسم کے گستاخوں کا کوئی عذر قابل قبول نہیں۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اشماریہ بھائی کیا کہیں گے آپ یہاں - کیا فقہ حنفی میں پیشاب سے سوره فاتحہ لکھنا جائز ہے
تفصیل آپ فقہی مقالات میں ہی پڑھ لیجیے۔ شکریہ
جہاں علم کے بجائے جوش یا جہل سے بحث جا ری ہو وہاں بندہ شرکت سے معذور ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
میرا خیال تھا کہ ماضی کے حنفی فقہاء کا ہی سینہ اسلام سے بغض اور نفرت سے پھٹا جارہا تھا اس لئے انہوں نے اپنے دل کی بھڑاس پیشاب سے قرآن لکھنے کو جائز قرار دینے جیسے فتوؤں کے ذریعے نکالی۔ لیکن جب میں نے فقہی مقالات کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا ماضی اور حال کے حنفی میں کوئی فرق نہیں بلکہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں اور اسلام کو بدنام کرنے اور اسکی جڑوں کو کھوکھلا کرنے میں ہر دور میں پیش پیش ہیں۔ گوانتا موبے میں کفار کے ہاتھوں فلش میں قرآن بہانے اور قرآن کو پیشاب سے لکھنے کی اجازت دینے والے مسلمان نما کفار میں کیا فرق ہے؟؟؟ زرا سوچیئے!!!
شکریہ
آپ کی اس "علمیت" بھری پوسٹ کے سامنے میں تو لاجواب ہو کر رہ گیا ہوں۔
ما شاء اللہ۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,476
پوائنٹ
964
اشماریہ بھائی ! آپ اس حوالے سے علمی انداز میں احناف کا موقف واضح کردیں ۔ یقینا لوگ سنجیدہ بات کو ہی پسند کرتے ہیں ۔
پھر آپ کی ’’ علمی باتوں ‘‘ کے جواب میں ’’ علمی باتوں ‘‘ کو ہی باقی رکھا جائے گا ۔ ان شاء اللہ ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اشماریہ بھائی ! آپ اس حوالے سے علمی انداز میں احناف کا موقف واضح کردیں ۔ یقینا لوگ سنجیدہ بات کو ہی پسند کرتے ہیں ۔
پھر آپ کی ’’ علمی باتوں ‘‘ کے جواب میں ’’ علمی باتوں ‘‘ کو ہی باقی رکھا جائے گا ۔ ان شاء اللہ ۔
جزاک اللہ خیرا بھائی
میں عشا کے بعد اس پر ان شاء اللہ بات کرتا ہوں۔
سردست یہ بتا دیجیے کہ اگر کوئی شخص ایسا کام کرے تو شریعت میں اس کا کیا حکم ہوگا۔ مطلب یہ کہ یہ حرام ہوگا، کفر ہوگا، مکروہ تحریمی ہوگا یا اور کچھ؟
شاہد نذیر! اگر آپ نے جواب دیا اور کفر سے آگے بڑھانے کی کوشش کی تو اس پر صریح دلیل لانی ہوگی۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
میں نے ذرا سی سرچ کی تو اس مسئلہ پر مفتی صاحب کی تحریر کے بارے میں جناب شاہد نذیر کی پوسٹس اور ان کے جوابات واضح ہو گئے۔
جو کچھ انہوں نے یہاں پیسٹ کیا ہے وہ دیگر مقامات پر بھی بعینہ کر چکے ہیں لیکن ان کا جواب بھی دیا گیا ہے۔ اس کے لیے یہ تھریڈ ملاحظہ فرما سکتے ہیں:۔
http://pak.net/عمومی-بحث-26-41350/
اس بحث پر عام عوام نے جو تاثرات دیے ہماری آپس کی "جنگ" کے وہ قابل دید ہیں۔ بجائے ہدایت کے ضلال کا سبب ہے۔

میں یہاں اس خاص مسئلے پر بات کرتا ہوں۔ یہ مسئلہ احناف کا مفتی بہ نہیں ہے یعنی احناف کو خود یہ اجتہادی موقف تسلیم نہیں۔
سوال یہ ہے کہ بعض علماء نے یہ موقف کیوں اختیار کیا؟ (یاد رہے اس قسم کے مسائل میں موقف غلط بھی ہو تو ایک ثواب کی امید ہوتی ہے)
کفر کا سب سے صریح درجہ یہ ہے کہ انسان اپنی زبان سے الفاظ کفر کہہ دے۔ لیکن جب خوف ہلاکت ہو تو ان کا ادا کرنا جائز ہے۔
یہ خوف ہلاکت کسی کے اکراہ سے بھی ہو سکتا ہے اور مرض سے بھی۔ اگر آپ قرآن و حدیث پر ایک نظر ڈالیں تو خوف ہلاکت پر نہ صرف اجراء کلمہ کفر بلکہ بہت سے حرام کام جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہے جائز کیے گئے ہیں۔
اجراء کلمہ کفر کے بارے میں ارشاد ہے:۔
مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ(النحل، آیت 106)
"جو شخص اللہ کے ساتھ کفر کرے اپنے ایمان لانے کے بعد سوائے اس کے جسے مجبور کردیا جائے حالاں کہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو اور لیکن وہ جس کا دل کفر پر کھلا ہو تو ان پر اللہ کی طرف سے غضب اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔"

جصاصؒ فرماتے ہیں:۔
قال أبو بكر هذا أصل في جواز إظهار كلمة الكفر في حال الإكراه والإكراه المبيح لذلك هو أن يخاف على نفسه أو بعض أعضائه التلف إن لم يفعل ما أمره به فأبيح له في هذه الحال أن يظهر كلمة الكفر (احکام القرآن 5۔13 ط دار احیاء التراث العربی)
"یہ حالت اکراہ میں کلمہ کفر کے اظہار کے جواز میں اصل ہے۔ اور اس کو مباح کرنے والا اکراہ وہ ہے کہ اسے اپنی جان یا بعض اعضاء پر ضائع ہونے کا اندیشہ ہو اگر وہ کام نہ کرے جس اسے حکم کیا ہے (مکرِہ) نے۔ تو اس کے لیے اس حالت میں کلمہ کا اظہار کرنا مباح ہے۔"

شوکانیؒ فرماتے ہیں:۔
قال القرطبي: أجمع أهل العلم على أن من أكره على الكفر حتى خشي على نفسه القتل أنه لا إثم عليه إن كفر وقلبه مطمئن بالإيمان (فتح القدیر 3۔235 ط دار ابن کثیر)
"قرطبی کہتے ہیں: اہل علم نے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ جسے کفر پر مجبور کیا جائے حتی کہ اسے اپنے نفس پر قتل کا ڈر ہو تو اگر وہ کفر کرے جب کہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو تو اس پر گناہ نہیں ہے"

اس آیت کی ان تفاسیر میں کسی شخص کے اکراہ کا ذکر کیا گیا ہے اور اس کی دو وجہیں ہیں:۔
  1. اس آیت کا شان نزول ایک صحابی ہیں جن کے ساتھ اکراہ کا معاملہ ہوا تھا۔
  2. مرض سے ایسی حالت آنا جس کا علاج کفر میں ہو نادر الوجود ہے۔
لیکن آیت میں کلمہ "اکرہ" مجہول ذکر کیا گیا ہے جو جس طرح کسی انسان کے فعل سے مجبور ہوجانے پر دلالت کرتا ہے اسی طرح قدرت کے فعل سے مجبور ہونے پر بھی دلالت کرتا ہے کیوں کہ بالاجماع اس کی علت خوف ہلاکت ہے۔
مذکورہ مسئلے میں تداوی بالمحرم کا ذکر ہے اور اس کے لیے اول شرط یہ ہے:۔
ففي النهاية عن الذخيرة يجوز إن علم فيه شفاء ولم يعلم دواء آخر. (رد المحتار 1۔210 ط دار الفکر)
"نہایہ میں ذخیرہ سے روایت کیا گیا ہے کہ (تداوی بالمحرم) جائز ہے اگر معلوم ہو کہ اس میں شفا ہے اور کوئی اور دوا معلوم نہ ہو۔"
یہ دو شرطیں ہیں:۔
  1. شفا کا ہونا معلوم ہو۔
  2. دوسری کوئی دوا معلوم نہ ہو۔
چنانچہ ان مذکورہ فقہاء نے (جنہوں نے یہ استدلال کیا ہے) اس حالت میں جب تین شرائط موجود ہوں: نکسیر رک نہ رہی ہو، شفا کا ہونا معلوم ہو اور کوئی دوسری دوا معلوم نہ ہو (اقول: یا مہیا نہ ہو) اسے خوف ہلاکت سمجھ کر اسے جائز قرار دیا ہے۔
ان تین شرطوں میں سے پہلی عقلا معلوم ہو جاتی ہے کہ نکسیر رک جائے تو ضرورت ہی کیا ہے علاج کی اور نکسیر جاری رہے تو ہلاکت یقینی ہوتی ہے اگرچہ وقت میں فرق ہوتا ہے۔
باقی دو اصولی شرائط ذخیرہ کے حوالے سے ذکر کردی گئی ہیں۔
اس مسئلے پر عمل حقیقتا تقریبا ناممکن ہے کیوں کہ شفا کا معلوم ہونا یہ ناممکن ہے۔
(علامہ شامی نے علم کی مراد غلبہ ظن کو قرار دیا ہے لیکن وہ تداوی بالمحرم کے عام مسئلے میں ہے اس جزئیے کے لیے نہیں۔ کیوں کہ یہ بحث کفر ہے اور اس کے لیے یقین شرط ہے ورنہ اظہار کفر کا فائدہ ہی نہیں۔ البتہ بسااوقات یقین کے خلاف بھی نتیجہ نکل آتا ہے جیسے کہ مکرِہ ادائے کفر کے باوجود قتل کردے۔)

یہاں ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ اس قسم کے اقوال کے ذکر سے ہمیشہ یہ مراد نہیں ہوتی کہ ان میں موجود مسئلے کو تسلیم کیا جارہا ہے بلکہ بعض اوقات اس سے مراد کسی خاص جزئی کی وضاحت و تائید کا حصول ہوتی ہے۔ اس جگہ پر تداوی بالمحرم کی بحث کے دوران "حرام چیز کے استعمال" کے جواز کے مسلک کو ظاہر و واضح کرنے کے لیے یہ قول تحریر کیا گیا ہے نہ اس عمل خاص کے کرنے کے جواز کو ظاہر کرنے کے لیے۔ اس پر قرینہ یہ ہے کہ باوجود اس قول کے ذکر کے اس مسئلہ کو نہ تو اہمیت دی گئی ہے اور نہ ہی بطور مسئلہ کے ذکر کیا گیا ہے۔ گویا کہ یہ ان علماء کا فقط اجتہاد ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
 
Top