• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

'' مسئلے کا حل کیا ھے'' حنیف ڈار کی انکار حدیث پر مبنی ایک تحریر

میرب فاطمہ

مشہور رکن
شمولیت
جون 06، 2012
پیغامات
195
ری ایکشن اسکور
218
پوائنٹ
107
اصل مسئ
قاری حنیف ڈار صاحب کا رد زیادہ مسئلہ نہیں ، مسئلہ منکرین حدیث کی تحریروں اور بالخصوص ڈار صاحب کی تحریروں سے باخبر ہونے کا ہے ، کئی سالوں سے ایک ہی تحریر کو بار بار پیش کر رہے ہیں ، اور جتنی دفعہ بھی تحریر پیش کرتے ہیں ، اہل علم اس پر مسکت جواب دیتے ہیں ، ڈار صاحب کئی دفعہ ان کے کمنٹس حذف کردیتے ہیں ، ان کو بلاک کردیتے ہیں ، اور اگر کوئی اپنی وال پر جواب دے ، اور ڈار صاحب کو پتہ چل جائے کہ میرا رد کافی شہرت اختیار کر گیا ہے اور کوئی جواب بھی نہیں سوجھ رہا تو اپنی وال سے تحریر کو ہی حذف کردیتے ہیں ۔
ڈار صاحب کی بعض پوسٹوں سے خیال ہوتا ہے کہ وہ بڑے وسعت ظرف ہیں ، اور فریق مخالف کا موقف جاننے کے لیے خواہشمند اور اس کو اظہار رائے کا حق دیتے ہیں ، لیکن میرا مشاہدہ یہ ہے ( شاید غلط بھی ہو ) کہ یہ سب ریاکاری اور دکھلاوا ہے ، حقیقت اس سے مختلف ہے ، یہ مخالف کو ایک منٹ کے لیے برداشت نہیں کرتے ، میں تقریبا آج سے تین سال پہلے ڈار صاحب کی آئی دی سے واقف ہوا تو انہیں فرینڈ ریکویسٹ بھیجی جو انہوں نے قبول کر لی ، لیکن ان کی بعض پوسٹوں پر کچھ تنقیدی کمنٹس کیے ، اور جہاں رد نہ بھی لکھا واہ واہ سے گریز کیا ، تو ڈار صاحب نے مجھے ان فرینڈ کردیا ، اس بات کا اندازہ مجھے کافی دیر بعد ہوا ، جب ان کی پوسٹ مشہور ہوئی ، لیکن میرے تک نہ پہنچی ، خیر غیر فعال سمجھ کر انہوں نے مجھے ان فرینڈ کیا ہوگا ، یہ ان کا حق ہے ، لیکن پھر حالیہ دو تین ماہ سے انہوں نے انکا رحدیث میں شدت اختیار کی تو میں نے ان کے رد میں کافی پوسٹیں لگانا شروع کردیں ، لیکن نہ تو کبھی ڈار صاحب کو ٹیگ کیا ، نہ ان کی کسی پوسٹ کے نیچے جاکر کمنٹس کیے ، نہ اپنی پوسٹ کے ان کو اوپن یا ان باکس میں حوالے دیے ، لیکن اس کے باوجود ڈار صاحب کا پیمانہ صبر لبریز ہوا ، اور ایک دن میں نے کسی مسئلے سے متعلق ان کی آئی ڈی پر جانے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ انہوں نے ’’ بلاک ‘‘ کیا ہوا ہے ۔۔۔ یہ ہے ڈار صاحب کا حال ، جو صحابہ کرام سے شروع ہو کر اب تک کے علماء کو کٹہرے میں کھڑے کر لیتے ہیں ، لیکن اپنے مخالف کو دیکھنا ایک لمحہ کے لیے بھی گوراہ نہیں کرتے ۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس کے چیلے بہت ہیں۔
 

فہد ظفر

رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
193
ری ایکشن اسکور
243
پوائنٹ
95
حنیف ڈار صاحب کا ایک اعتراض ابھی بھی باقی ہے کیونکہ اس رد میں درجہ ذیل حدیث کا جواب نہیں دیا گیا ہے

''ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے نضر بن شمیل نے، انھوں نے کہا کہ ہمیں عبداللہ ابن عون نے خبر دی، انھوں نے محمد بن سیرین سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دوپہر کے بعد کی دو نمازوں میں سے کوئی نماز پڑھائی۔ ( ظہر یا عصر کی ) ابن سیرین نے کہا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس کا نام تو لیا تھا۔ لیکن میں بھول گیا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھا کر سلام پھیر دیا۔ اس کے بعد ایک لکڑی کی لاٹھی سے جو مسجد میں رکھی ہوئی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے آپ بہت ہی خفا ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھا اور ان کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں داخل کیا اور آپ نے اپنے دائیں رخسار مبارک کو بائیں ہاتھ کی ہتھیلی سے سہارا دیا۔ جو لوگ نماز پڑھ کر جلدی نکل جایا کرتے تھے وہ مسجد کے دروازوں سے پار ہو گئے۔ پھر لوگ کہنے لگے کہ کیا نماز کم کر دی گئی ہے۔ حاضرین میں ابوبکر اور عمر ( رضی اللہ عنہما ) بھی موجود تھے۔ لیکن انھیں بھی آپ سے بولنے کی ہمت نہ ہوئی۔ انھیں میں ایک شخص تھے جن کے ہاتھ لمبے تھے اور انھیں ذوالیدین کہا جاتا تھا۔ انھوں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھول گئے یا نماز کم کر دی گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز میں کوئی کمی ہوئی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے پوچھا۔ کیا ذوالیدین صحیح کہہ رہے ہیں۔ حاضرین بولے کہ جی ہاں! یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور باقی رکعتیں پڑھیں۔ پھر سلام پھیرا پھر تکبیر کہی اور سہو کا سجدہ کیا۔ معمول کے مطابق یا اس سے بھی لمبا سجدہ۔ پھر سر اٹھایا اور تکبیر کہی۔ پھر تکبیر کہی اور دوسرا سجدہ کیا۔ معمول کے مطابق یا اس سے بھی طویل پھر سر اٹھایا اور تکبیر کہی، لوگوں نے بار بار ابن سیرین سے پوچھا کہ کیا پھر سلام پھیرا تو وہ جواب دیتے کہ مجھے خبر دی گئی ہے کہ عمران بن حصین کہتے تھے کہ پھر سلام پھیرا۔

اس حدیث کے راوی حضرت ابوھریرۃؓ ھیں جو فرماتے ھیں کہ " ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے (ھمیں بعد از ظھر کی نمازوں میں سے کوئی نماز پڑھائی ) صاف پتہ چلتا ھے کہ حضرت ابوھریرہؓ اس نماز میں موجود تھے اور آنکھوں دیکھا حال بیان فرما رھے ھیں جبکہ حقیقت یہ ھے کہ ابوھریرۃؓ تب تک مسلمان بھی نہیں ھوئے تھے اور نہ مدینہ ابھی دیکھا تھا اور نہ رسول اللہ ﷺ سے ملاقات ھوئی تھی ،، ذوالیدین غزوہ بدر میں شھید ھو گئے تھے اور ابوھریرہؓ صلح حدیبیہ کے بعد مسلمان ھوئے تھے ،، گویا اس حدیث میں حضورﷺ کو یاد دلانے والے ذوالیدین حضرت ابوھریرہؓ کے مسلمان ھونے سے سالوں پہلے شھید ھو گئے تھے ، مگر ابوھریرہؓ واقعہ یوں بیان کر رھے ھیں گویا وہ مسلمان ھونے سے 5 سال پہلے اس نماز میں خود بھی موجود تھے ،، یہ حدیث تمام صحاح میں آئی ھے ، گویا یہ واقعہ برسوں بعد کسی کے منہ سے حضرت ابوھریرہؓ نے سنا اور اس میں اپنی موجودگی ڈال کر سنایا مگر اصل واقعہ بیان کرنے والے کا نام نہیں بتایا''



اسکا بھی اگر جواب دیا جا چکا ہے تو یہاں لگا دیں تاکہ اس تحریر کا مکمل جواب ایک دھاگے میں جمع ہو جائے-
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
جبکہ حقیقت یہ ھے کہ ابوھریرۃؓ تب تک مسلمان بھی نہیں ھوئے تھے اور نہ مدینہ ابھی دیکھا تھا اور نہ رسول اللہ ﷺ سے ملاقات ھوئی تھی ،، ذوالیدین غزوہ بدر میں شھید ھو گئے تھے
اس میں بھی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا کوئی قصور نہیں ، بعد والوں کو ہی غلط فہمی ہوئی ہے ، ڈار صاحب نے بھی اعتراض کھرا کرنے کے لیے جہالت یا تجاہل سے کام لیا ہے ، ذو الیدین بدر میں نہیں ، بلکہ حضور کی وفات کے بعد کہیں فوت ہوئے تھے ، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی عبارت ملاحظہ فرمائیں :
أما ذو اليدين فتأخر بعد النبي صلى الله عليه وسلم بمدة لأنه حدث بهذا الحديث بعد النبي صلى الله عليه وسلم كما أخرجه الطبراني وغيره وهو سلمي واسمه الخرباق
فتح الباري لابن حجر (3/ 97)
ذو الیدین تو حضور صلی اللہ علیہ کی وفات کے بعد تک رہے کیونکہ اس کے بعد بھی انہوں نے اس حدیث کو بیان کیا جیساکہ طبرانی وغیرہ میں موجود ہے ، ان کا نام خرباق سلمی ہے ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے طبرانی کی جس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے وہ درج ذیل ہے :
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ خِرْبَاقٍ السُّلَمِيِّ [ص:43]، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى بِهِمُ الظُّهْرَ أَوِ الْعَصْرَ وَسَلَّمَ فِي رَكْعَتَيْنِ، فَقَالَ لَهُ خِرْبَاقٌ: أَشَكَكْتَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَمْ قَصُرَتِ الصَّلَاةُ؟ فَقَالَ: «مَا شَكَكْتُ وَلَا قَصُرَتِ الصَّلَاةُ» ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَصْدَقَ ذُو الْيَدَيْنِ؟» قَالُوا: نَعَمْ، فَصَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّكْعَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ
(مسند الشاميين للطبراني (4/ 42)
ابن سیرین خرباق سلمی سے بیان کرتے ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر یا عصر کی نماز پڑھائی دو رکعتیں پڑھائی ، خرباق نے پوچھا ، کیا آپ کو شک لاحق ہوگیا یا نماز کم ہوگئی ہے ؟ آپ نے فرمایا ایسی کوئی بات نہیں ، اور پھر دریافت کیا کیا ذو الیدین کی بات درست ہے ؟ دیگر لوگوں نے ان کی تصدیق کی تو آپ نے دو رکعتیں ادا کیں اور سلام کے بعد دو سجدے کیے ۔
جیساکہ پہلے گزرا ذو الیدین کانام خرباق سلمی ہے ، اور ابن سیرین اس سے براہ راست روایت کر رہے ہیں ، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ذو الیدین بدر میں شہید نہیں ہوئے تھے ، بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تک زندہ رہے ، لہذا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور ذو الیدین کا کسی واقعہ میں شریک ہونا کوئی محال نہیں ۔ اللہ تعالی ہمیں علم نافع اور فہم و فراست سے نوازے ۔
 

فہد ظفر

رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
193
ری ایکشن اسکور
243
پوائنٹ
95
جزاک الله خیرا

الله تعالى آپکے علم و عمل میں برکت دے -
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
سنا ہے قاری حنیف ڈار نے ایک تازہ تحریر لکھی ہے بعنوان ’ انبیاء کی توہین پر مبنی روایتیں اور مفسرین ‘ اس میں اکثر وہی باتیں دہرائی ہیں ، جن کا جواب اوپر لکھا جاچکا ہے، اس حالیہ تحریر کے جواب میں ، میں نے ہلکے پھلکے اضافے کےساتھ ایک تحریر ترتیب دی ہے ، جس کا عنوان قرآن مجید کی یہ آیت رکھا ہے :
وقالوا أساطير الأولين اكتتبها فهي تملى عليه بكرة وأصيلا
اس لنک سے یہ تحریر پڑھی جاسکتی ہے ۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
کتاب و سنت کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ھے اور دونوں اس طرح جڑی ھوئی ھیں جس طرح رات اور دن جڑے ھوئے ھیں کہ رات کے بعد دن لازم آتا ھے اور دن کے ساتھ ھی رات آتی ھے
موصوف کا یہ فقرہ اس کی ”صلاحیت“ کی نشاندہی کے لئے کافی ہے۔
صحیح مثال یوں دی جاسکتی تھی؛
”کتاب و سنت کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ھے اور دونوں آپس میں اس طرح جڑی ہوئی ہیں جس طرح روشنی دن کے ساتھ“
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
المعارف (1 / 322):
ذو اليدين رضى الله عنه

هو: عمير بن عبد عمرو، من: خزاعة. ويكنى: أبا محمد. وكان يعمل بيديه جميعا، فقيل له: ذو اليدين. ويقال له: ذو الشّمالين، أيضا. وقد يقال: إن اسمه الخرباق، وأنه كان طويل اليدين.
وهذا هو الّذي ذكر في الحديث الّذي ذكر فيه: أن رسول الله- صلّى الله عليه وسلّم- تكلم بعد الصلاة، ثم قضى ما فاته.
وليس هو «ذو الشمالين» الّذي استشهد يوم «بدر».

تاريخ الطبري = تاريخ الرسل والملوك، وصلة تاريخ الطبري (11 / 676):
وذو الشمالين، وقد يقال له ذو اليدين، لأنه كان- فيما ذكر- اضبط يعمل بيديه جميعا وان اسمه عمير بن عبد عمرو بن نضله بن عمرو بن غبشان، من خزاعة، وقتل يوم بدر شهيدا مع من قتل من المسلمين، واما الآخر منهما فان اسمه الخرباق، عاش بعد رسول الله ص زمانا وروى عن رسول الله احاديث
المنتظم في تاريخ الملوك والأمم (3 / 141):
17- عمير بن عبد عمرو بن نضلة، ذو الشمالين من خزاعة، يكنى أبا محمد [4] :
كان يعمل بعمل يديه، ويقال فيه: ذو الشمالين، وذو اليدين، إلا أن الصحيح أنهما اثنان.
قدم إلى مكة، قتل يوم بدر وهو ابن بضع وثلاثين سنة

الأنساب للسمعاني (6 / 17):
1701- ذو اليدين
هذا لقب الخرباق وله صحبة، روى حديثه محمد ابن سيرين ويقال إن ذا اليدين وذا الشمالين واحد، وسمى ذا اليدين لأنه كان يعمل بيديه جميعا [1] .
اللباب في تهذيب الأنساب (1 / 534):
ذُو الْيَدَيْنِ هَذَا لقب الْخِرْبَاق وَله صُحْبَة روى حَدِيثه ابْن سِيرِين وَيُقَال لَهُ ذُو الْيَدَيْنِ وَذُو الشمالين ولقب لَهُ لِأَنَّهُ يعْمل بيدَيْهِ قلت قد ذكر أَن ذَا الْيَدَيْنِ هُوَ ذُو الشمالين وَخَالفهُ غَيره من الْعلمَاء وجعلوهما اثْنَيْنِ وَقَالُوا ذُو الشمالين اسْمه عُمَيْر بن عبد عَمْرو بن نَضْلَة وَهُوَ خزاعي شهد بَدْرًا وَقتل بهَا وَذُو الْيَدَيْنِ اسْمه الْخِرْبَاق وَهُوَ الَّذِي روى أَبُو هُرَيْرَة سَهْو رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فِي الصَّلَاة وَقَول ذِي الْيَدَيْنِ لَهُ أقصرت الصَّلَاة أم نسيت وَأَبُو هُرَيْرَة أسلم بعد خَيْبَر وَقد روى معدي بن سُلَيْمَان الصغدي عَن شعيث بن مطير عَن أَبِيه عَن ذِي الْيَدَيْنِ حَدِيث السَّهْو فِي الصَّلَاة فَدلَّ هَذَا أَنه عَاشَ بعد النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فَبَان بِهَذَا أَنه غير ذِي الشمالين لتقدم قتل ذَلِك عَن هَذَا التَّارِيخ على أَن الزُّهْرِيّ قد قَالَ إِن ذَا الشمالين هُوَ الَّذِي قَالَ للنَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فِي سَهْوه فِي الصَّلَاة وَإِن ذَلِك كَانَ قبل بدر وَأكْثر النَّاس على خِلَافه وَالله أعلم
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر تدلیس کے الزام ، اور پیش کی گئی مثالوں کی حقیقت

( قاری حنیف ڈار کی ایک اور تحریر کا جواب )
چند دن پہلے کسی دوست کے توسط سے قاری حنیف ڈار صاحب کی ایک تحریر موصول ہوئی ، جس میں انہوں نے صحابی رسول حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر پرانے الزام کو ہی دہرایا ہے ، ان کی اس طرح کی ایک طویل تحریر کا میں اسی انداز میں جواب دے چکا ہوں ، حالیہ تحریر میں ، الزام تو وہی پرانا ہے ، البتہ کچھ مثالوں کا اضافہ اور طریقہ واردات ذرا مختلف ہے ۔
ذیل میں ڈار صاحب کی اس تحریر کی حقیقت پیش کی جاتی ہے ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر تدلیس کا الزام :
تدلیس ایک اصطلاحی لفظ ہے ، جو محدثین کرام کی گفتگو میں استعمال کیا جاتا ہے،، گویا ڈار صاحب نے محدثین پر اعتماد کرتے ہوئے ، اس لفظ کو اختیار کیا ہے ۔
اب انہیں محدثین سے پوچھ لیتے ہیں ، کہ ان کے مطابق یہ وصف یا عادت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ میں پائی جاتی ہے ؟
ہماری معلومات کی حد تک اہل علم میں سے کسی نے بھی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو مدلس قرار نہیں دیا لہذا اس جلیل القدر صحابی پر تدلیس کا الزام بے بنیاد ہے ، بعض منکرین حدیث کے علاوہ کوئی اس کا قائل نہیں ۔
علامہ معلمی یمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
أما الصحابة رضي الله عنهم فلا مدخل لهم في التدليس (الأنوار الكاشفة (ص: 162)
یعنی صحابہ کرام علیہم الرضوان کے متعلق تدلیس کی بحث کرنا ہی بے محل ہے ۔
ویسے بھی جن شخصیات کو بحالت ایمان صحبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا شرف حاصل ہے ، پھر رضی اللہ عنہم و رضواعنہ کا سر ٹیفکیٹ مل چکا ہے ، جنہوں نے نزول وحی ہی نہیں بلکہ اس کی عملی تطبیق کو بھی ملاحظہ کیا ہے ، انہیں پوری امت بالاتفاق ’ کلہم عدول ‘ کے مرتبہ پر فائز سمجھتی ہے ، لہذا جو تحقیق و تفتیش عام راویوں کی روایت میں ہوتی ہے ، حفظ و ضبط ، ثقاہت و ہدالت ، اتصال و انقطاع کی جو بحثیں بعد والے رواۃ کے تعلق سے ہیں ، صحابہ کرام کے پاس ان سب ڈگریوں سے بڑی ڈگری ’ صحابیت ‘ ہے ، جس کی موجودگی میں اس سے کم تر بحثیں کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی ۔

جن سیکڑوں ، ہزاروں لوگوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے احادیث سنیں ، پھر اس کے بعد آگے سنائی ، تابعین ، تبع تابعین ، اس کے بعد تمام ادوار کے محدثین نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو مدلس تسلیم نہیں کیا تو ڈار صاحب کی بات پر کس منطق سے اعتماد کر لیا جائے ؟
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ تو اپنے ہی دور کے واقعات بیان کریں ، تو آپ اس میں تدلیس نکال لیتے ہیں ، آپ چودہ صدیوں پہلے رونما ہونے والے واقعات کی جزئیات و کیفیات بلا دلیل بیان کریں تو آپ کو کیا لقب دیا جائے ؟
ڈار صاحب لکھتے ہیں :
’’ مگر جب آپ قانون سازی میں ایک روایت لائیں اور یہ کہیں کہ یہ روایت چونکہ حضرت ابوھریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ نے بیان فرمائی ھے اور وہ صلح حدیبیہ کے بعد یعنی 8 ھجری میں ایمان لائے ھیں تو لازماً یہ واقعہ 8 ھجری کے بعد کا ھے ، تو یہ استدلال یقیناً محل نزاع بن جاتا ھے ‘‘
پتہ نہیں ڈار صاحب اپنی اس خامہ فرسائی سے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں ، جو الزام آپ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر لگاتے ہیں ، اگر ان کی روایات آپ کی مزعومہ قانون سازی کے متعلق نہ ہو تو آپ ان الزمات کی موجودگی میں ان کی روایت کیوں قبول کرلیں گے ؟
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر سے متعلق احادیث کا انکار کرتے ہوئے آپ اکثر کہتے ہیں کہ میں احکام و اخلاق کی احادیث کو مانتا ہوں ، آپ کے شاید علم میں نہیں ، نماز روزہ بنیادی احکامات سے متعلق کثیر تعداد میں روایات حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں ، پتہ نہیں آپ کس منطق اور عقل سے ایک صحابی پر اس قدر سخت الزامات بھی لگاتے ہیں ، اور ساتھ ان کی روایات پر عمل پیرا بھی ہیں ۔
استنجاء کا طریقہ ،نماز کے لیے وضو شرط ہے ، وضو کرتے ہوئے ناک میں پانی چڑھانا ، پاک و ناپاک پانی کے شرعی مسائل ، غسل کے مسائل وغیرہ سے لیکر نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ ، نکاح و طلاق وغیرہ تک ہر جگہ اس جلیل القدر صحابی کی احادیث پائی جاتی ہیں ، آپ ان پر عمل پیرا ہیں کہ نہیں ؟
آپ بنیادی طور پر ایک مسجد کے امام و خطیب ہیں ، احادیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے جان چھڑا کر آپ ایک دن بھی اپنی اس حیثیت سے دبی میں گزار سکتے ہیں ؟
جو لوگ راویان حدیث پر آپ کے بودے اعتراضات پر سر دھنتے ہیں ، ان میں سے کسی کے ذہن میں بھی یہ سوال نہیں آتا کہ آپ اس دو رنگی میں کیوں مبتلا ہیں ؟
ڈار صاحب مزید لکھتے ہیں :
’’حضرت ابوھریرہؓ اپنے ایمان لانے سے 5 سال پہلے کے واقعات بھی چشم دید انداز میں پیش کرتے ھیں ،، مثلا وہ ایمان تو لائے ھیں صلح حدیبیہ کے بعد ، مگر غزوہ احد کے واقعات یوں بیان کرتے ھیں گویا وہ ھندؓ زوجہ ابوسفیانؓ کے ساتھ کھڑے تھے ، بالکل چشم دید ،، بغیر یہ واضح کیئے کہ انہوں نے یہ واقعات کس کے منہ سے سنے ۔‘‘
ہماری ڈار صاحب سے گزارش ہے کہ آپ کا دماغ کیا کہتا ہے ؟ غزوہ احد کے واقعات انہوں نے کس سے سنے ہوں گے ؟
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے ارد گرد ، ملحدوں ، منکروں یا مستشرقوں کا بسیرا تو نہیں تھا ، کہ جن کا سبق پڑھ کر وہ امت کو سنایا کرتے تھے ۔ مجھے نہیں امید کہ آپ کہیں گے کہ وہ کافروں اور منافقوں سے مسلمانوں کے جنگی واقعات کی تفصیل لے کر مسلمانوں کو بتایا کرتے تھے ، اور پھر سب مسلمان ان پر خوشی منایا کرتے تھے ۔
ظاہر ہے ابو بکر و عمر ، عثمان و علی ، اور ان جنگوں میں شریک ہونے والی پاکباز ہستیوں سے ہی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یہ باتیں سن کر سنایا کرتے تھے ۔ اسی لیے انہوں نے حوالہ کی بھی ضرورت نہیں سمجھی ، اور نہ ہی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ان واقعات کو سننے والے ان کے شاگردوں نے اس کی ضرورت سمجھی ہوگی ، ورنہ کوئی بندہ بشر تو ہونا چاہیے تھا ، جس میں آپ جتنی عقل ہوتی ، اور وہ آپ کی طرح ان واقعات کی ان سے سند ضرور مانگتا ۔
جن چند صحابہ کرام جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی باتوں کا آپ بتنگڑ بناتے ہیں ، حیرت کی بات ہے ، جن احادیث پر آپ کی ایمانی غیرت جاگتی ہے ، اور آپ شکوک و شبہات میں مبتلا ہوتے ہیں ، ان پر ان بزرگوں نے بھی کوئی پکڑ نہیں کی ۔
خیر بعد میں ایمان لانے والے صحابہ یا نو عمر صحابہ کا اپنے دور سے پہلے کے واقعات او راحادیث نقل کرنا ، اور جس صحابی سے سنا ہے ، اس کا حوالہ ذکر نہ کرنا ، اسے علمی اصطلاح میں ’ مرسل صحابی ‘ کہا جاتا ہے ، جو ائمہ فن کے ہاں راجح موقف کے مطابق مقبول ہے ۔ کیونکہ جب صحابی ، صحابی سے ہی بیان کرتا ہے ، لہذا حوالہ ذکر کرے یا نہ کرے ، ہر دو صورتوں میں دونوں کی امانت و دیانت کے سبب اس بات کو قبول کیا جاتا ہے ۔( دیکھیے : جامع التحصیل للعلائی ص 36 )
مزید لکھتے ہیں :
’’ایک حدیث ھے ذوالیدینؓ والی متفق علیہ حدیث ھے ،، کہ نبئ کریم ﷺ نماز میں بھول گئے تو ذوالیدین نے پوچھا کہ نماز کم ھو گئ ھے یا آپ بھول گئے ھیں ،، اس حدیث کو ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کچھ یوں شروع کرتے ھیں " صلی بنا رسول اللہ " ھمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی جس میں قرأت اونچی نہیں پڑھی جاتی تو دو رکعت پر سلام پھیر دیا جس پر ذوالیدین کھڑا ھوا اور اس نے پوچھا کہ نماز کم ھو گئ ھے یا آپ بھول گئے ھیں ؟ ۔۔۔ لگتا ھے کہ حضرت ابوھریرہؓ نمازیوں میں موجود تھے جبکہ حقیقت یہ ھے کہ یہ ذوالیدین غزوہ بدر میں شھید ھو گئے تھے ، اور اس وقت ابوھریرہؓ یمن میں تھے ، نہ مسلمان ھوئے تھے اور نہ مدینہ تشریف لائے تھے ،‘‘
اس اعتراض کا جواب ، ہم پہلے ایک تحریر میں تفصیلی دے چکے ہیں ، لیکن ڈار صاحب نے حسب عادت بات کو ذرا گھما
پھرا لیا ہے ، حقیقت یہ ہے کہ ڈار صاحب نے اعتراض کھرا کرنے کے لیے جہالت یا تجاہل سے کام لیا ہے ، ذو الیدین بدر میں نہیں ، بلکہ حضور کی وفات کے بعد کہیں فوت ہوئے تھے ، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی عبارت ملاحظہ فرمائیں :
أما ذو اليدين فتأخر بعد النبي صلى الله عليه وسلم بمدة لأنه حدث بهذا الحديث بعد النبي صلى الله عليه وسلم كما أخرجه الطبراني وغيره وهو سلمي واسمه الخرباق
فتح الباري لابن حجر (3/ 97)
ذو الیدین تو حضور صلی اللہ علیہ کی وفات کے بعد تک رہے کیونکہ اس کے بعد بھی انہوں نے اس حدیث کو بیان کیا جیساکہ طبرانی وغیرہ میں موجود ہے ، ان کا نام خرباق سلمی ہے ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے طبرانی کی جس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے وہ درج ذیل ہے :
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ خِرْبَاقٍ السُّلَمِيِّ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى بِهِمُ الظُّهْرَ أَوِ الْعَصْرَ وَسَلَّمَ فِي رَكْعَتَيْنِ، فَقَالَ لَهُ خِرْبَاقٌ: أَشَكَكْتَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَمْ قَصُرَتِ الصَّلَاةُ؟ فَقَالَ: «مَا شَكَكْتُ وَلَا قَصُرَتِ الصَّلَاةُ» ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَصْدَقَ ذُو الْيَدَيْنِ؟» قَالُوا: نَعَمْ، فَصَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّكْعَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ
(مسند الشاميين للطبراني (4/ 42)
ابن سیرین خرباق سلمی سے بیان کرتے ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر یا عصر کی نماز پڑھائی دو رکعتیں پڑھائی ، خرباق نے پوچھا ، کیا آپ کو شک لاحق ہوگیا یا نماز کم ہوگئی ہے ؟ آپ نے فرمایا ایسی کوئی بات نہیں ، اور پھر دریافت کیا کیا ذو الیدین کی بات درست ہے ؟ دیگر لوگوں نے ان کی تصدیق کی تو آپ نے دو رکعتیں ادا کیں اور سلام کے بعد دو سجدے کیے ۔
جیساکہ پہلے گزرا ذو الیدین کانام خرباق سلمی ہے ، اور ابن سیرین اس سے براہ راست روایت کر رہے ہیں ، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ذو الیدین بدر میں شہید نہیں ہوئے تھے ، بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تک زندہ رہے ، لہذا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور ذو الیدین کا کسی واقعہ میں شریک ہونا کوئی محال نہیں ۔ اللہ تعالی ہمیں علم نافع اور فہم و فراست سے نوازے ۔
ڈار صاحب بالکل سیدھی اور واضح بات کو الجھاتے ہوئے مزید لکھتے ہیں :
‘‘ مگر ھمارے بزرگ ھار ماننے والے کب ھیں وہ فرماتے ھیں کہ یہ کوئی دوسرا ذوالیدین بھی ھو سکتا ھے ،، عرض ھے کہ ھونے کو بہت کچھ ھو سکتا ھے مگر دوسرے ذوالیدین یعنی ذوالشمالین کا صغری کبری کوئی بیان نہیں کر سکا ،، کہتے ھیں کہ بدر میں ذوالشمالین شھید ھوئے تھے ، ذوالیدین نہیں ، کیونکہ ابوھریرہؓ نے اس کے ساتھ 7 ھجری کے بعد نماز پڑھی ھے ، گویا پیمانہ ابوھریرہؓ ھی ٹھہرے ‘‘
ہماری گزارش یہ ہے ، جب نماز میں سہو اور سجدہ سہو والا واقعہ بیان کرنے والے ذو الیدین کے متعلق ثابت ہے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تک زندہ رہے ، تو پھر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر کیا جانے والا اعتراض تو ختم ہوا ۔ اب رہی یہ بات کہ بدر میں شہید ہونے والے ذو الیدین تھے یا ذو الشمالین ، ان کے حالات زندگی ملنے نہ ملنے کا ذو الیدین خرباق سلمی کے ساتھ کیا تعلق ہے ؟
بدر میں شہید ہونے والے ایک صحابی کے حالات زندگی اگر ہمیں ،آپ کو معلوم نہیں ہوسکے تو بجائے اس کے کہ اپنی جہالت ، قصور اور کم مائیگی کا اعتراف کیا جائے ، ہم صحابی رسول ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر قبیح الزام تراشی شروع کردیں ؟ مالکم کیف تحکمون ؟
یادش بخیر ! ڈار صاحب یہ جس روایت کو مثال بناکر آپ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر الزام اور اعتراض کرر ہے ہیں ، شاید آپ بھول رہے ہیں کہ یہ نماز سے متعلق ہے ، یعنی احکام سےمتعلق ہے ، اس میں کسی صحابی یا کسی نبی یا مقدس ہستی کے متعلق آپ کی مزعومہ توہین بھی نہیں ہے ، آپ اعتراضات کی لسٹ میں اس حدیث کو شامل کرکے اپنے اصولوں کا ہی کریا
کرم تو نہیں کر رہے ؟
ایک اعتراض بصورت مثال مزید کرتے ہیں :
’’نیز حضرت رقیؓہ بنت رسول اللہ سے منسوب روایت بھی کچھ اسی قسم کی ھے کہ میں حضرت عثمان کی بیوی رقیہ کے پاس گیا ۔۔۔ واضح رھے کہ حضرت رقیہ کا انتقال غزوہ بدر کے موقعے پر ھوا تھا ۔۔۔ تو حضرت ابوھریرہؓ اپنے مسلمان ھونے سے 5 یا 6 سال پہلے کیسے حضرت عثمانؓ کے گھر داخل ھوئے ؟‘‘​
ڈار صاحب ! نمبر بڑھانے کے لیے آپ نے جس قصے کا ذکر کیا ہے ، اسے خود محدثین ضعیف اور غیر ثابت قرار دے چکے ہیں ، آپ کا یہ اعتراض ہے کہ ابو ہریرہ نے یہ کیسے دیکھ لیا ؟ محدثین نے یہ واضح کردیا ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف اس بات کی نسبت ہی درست نہیں ۔
جن محدثین نے اس روایت کو ضعیف اور منکر قرار دیا ہے ، ان میں سے چند یہ ہیں :
1۔ امام بخاری ( دیکھیے : التاریخ الصغیر(1/ 19 )
2۔ امام حاکم ( المستدرک (4/ 52)
3۔ امام ذہبی (بحوالہ مختصر تلخیص المستدرک (5/ 2411)
4۔ امام ہیثمی ( مجمع الزوائد (9/ 81)
5۔ امام البانی ( السلسلۃ الصحیحۃ (13/ 805)
مزید تفصیل کے لیے دیکھئے مختصر استدراک الذہبی علی المستدرک کا حاشیہ (5/ 2411) علامہ سعد الحمید کے قلم سے ۔
ایک جلیل القدر صحابی کی شان میں گستاخی کرنے کے لیے ، اپنی من مرضی سے احادیث پر چھری چلانے کے لیے اس طرح کے غیر ثابت شدہ واقعات سے استدلال آپ کن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کرتے ہیں ؟
صد حیف آپ کی افتاد طبع پر ، جو آپ کو صحیح احادیث جھٹلانے پر آمادہ اور ضعیف سے استدلال کرنے پر مجبور کردیتی ہے ۔
نوٹ : مجھے جو تحریر موصول ہوسکی ، اس میں یہی کچھ تھا ، البتہ بعض دیگر احباب کے ذریعہ علم ہوا ہے کہ ڈار صاحب نے اس سے بھی بڑھ کر صحابی رسول حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے متعلق اپنے خبث باطن کا اظہار کیا تھا ، لیکن جب غیرتمند مسلمانوں کی طرف سے محاکمہ ہوا تو انہوں نے بے عزتی کا ڈر سے اسے حذف کردیا ، ہماری ڈار صاحب سے گزارش ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو ایک عزت و تکریم والے مقام و مرتبے پر فائز کیا ہوا ہے کہ آپ بطور امام و خطیب فرائض سر انجام دے رہے ہیں ، جس طرح لوگوں کے ڈر سے آپ اپنی پوسٹیں حذف یا ان میں قطع و برید کرلیتے ہیں ، اللہ کے ڈر سے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ، صحابہ کے احترام ، کا خیال کرتے ہوئے ، اس طرح کی خرافات و الزامات کو اپنے دل و دماغ سے ہی ڈیلیٹ کردیں ، قرآن وسنت پر اپنی طبع آزمائی کی بجائے ، اسلامی تعلیمات کو صحابہ و تابعین اور وارثان انبیاء کے درست فہم کی روشنی میں پھیلائیں ، آپ نے فیس بک کے لائک شیئرز سے دھوکہ کھاکر اپنا رستہ بدل لیا ہے ، جس قدر آپ ذہین اورسامعین پر اثر انداز ہونے کا ملکہ رکھتے ہیں ، اسے درست جہت میں استعمال کریں ، تو نہ صرف آخرت میں کامیابیوں سے ہمکنار ہوں گے ، بلکہ اس دنیا میں بھی ان پاکباز ہستیوں کے خادمین ، آپ کو ہاتھوں پر اٹھائیں گے ۔
حافظ خضر حیات ، محدث فورم
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
قاری حنیف ڈار کا ’نتیجہ‘
ساری بحث کا نتیجہ یہ ھے کہ حدیث شریف یا بخاری شریف کا حوالہ سن کر ارتھ نہ ھو جایا کریں اور نہ ان کے تقدس کے نشے میں اپنی عقل کو کومے میں جانے دیا کریں. ذکر اذکار ، یا عبادات سے متعلق بےشک ایزی رھیں مگر قرآن مجید، رسول کریمﷺ . ازواج مطھرات اور خلفائے راشدین سے متعلق روایتوں پر چوکنا ھو جایا کریں اور ایسی کسی روایت کو گھاس مت ڈالیں جو ان کی توھین کرتی ھو. یہ روایتیں کوئی قرآن نہیں ھیں کہ ان کی ھر آیت پر ایمان ضروری ھو. محدثین نے لاکھوں اٹھا پھینکی ھیں . دس پندرہ اٹھا پھینکنے کی ھمت آپ بھی اپنے ضمیر میں پیدا کریں. جس روایت پر ضمیر مطمئن نہ اس کو مت قبول فرمائیں آپ کا محاسبہ آپ کے ضمیر کی بنیاد پر ھو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کا جواب اگلی پوسٹ میں ملاحظہ کریں ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
انکار حدیث اور تحقیق حدیث

قاری حنیف ڈار صاحب نے اپنی عادت سے مجبور ہو کر ، اعتراضات کی عمارت کھڑی کرنے کے لیے ، حق کو جھٹلایا ، باطل کو اپنایا ، یعنی صحیح احادیث کی تردید کے لیے ، ضعیف احادیث پیش کرکے لوگوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کی ، جب اہل علم نے اس پر پکڑ کی ، تو جناب کی بوکھلاہٹ ملاحظہ کیجیے ، لکھتے ہیں :
‘‘ ساری بحث کا نتیجہ یہ ھے کہ حدیث شریف یا بخاری شریف کا حوالہ سن کر ارتھ نہ ھو جایا کریں اور نہ ان کے تقدس کے نشے میں اپنی عقل کو کومے میں جانے دیا کریں ’’
گویا قاری صاحب نے یہ بھونڈی حرکت صحیح احادیث پر مشتمل ذخیرہ احادیث کو مشکوک بنانے کے لیے کی تھی ، کہ جب یہ احادیث ضعیف ہوسکتی ہیں ، تو پھر بخاری ( و مسلم ) کی روایتیں ضعیف کیوں نہیں ہوسکتیں ؟
ڈار صاحب کا یہ عجیب غریب طرز استدلال ہے ، جس طرح کسی ایک روایت کے صحیح ہونے سے ہر ہر روایت درست نہیں ہوسکتی ، اسی طرح کسی ایک کے ضعیف ہونے سے ہر ہر روایت کی صحت کو مشکوک بنادینا بھی درست نہیں ۔
صحیح و ضعیف میں پہچان ، دونوں میں فرق تو محدثین شروع سے کرتے آئے ہیں ، اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے ، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کسی روایت کو صحیح یا ضعیف کس بنیاد پر کہا جائے گا ؟
محدثین نے صحت حدیث کے لیے پانچ شرائط ذکر کی ہیں ، تصال سند ، ضبط رواۃ ، عدالت رواۃ ، علت اور شذوذ کا نہ ہونا ، پھر ان پانچوں شرائط کی شرح و بسط پر سیکڑوں صفحات کتب علوم حدیث میں موجود ہیں ، جس حدیث میں یہ پانچ شرائط ہوں ، وہ درست ہوتی ہے ، جس میں ان پانچ میں سے ایک بھی نہ ہو ، وہ ضعیف کہلاتی ہے ۔
یہ تو ہے ، محدثین کا حدیث کو صحیح یا ضعیف قرار دینے کا انداز ، لیکن بالمقابل ڈار صاحب کے پاس کیا ہے ؟
صرف اپنی عقل ؟!
جو اچھا لگا ، کہا یہ صحیح ہے ، جو سمجھ میں نہ آسکا ، اس پر ضعیف کا لیبل لگادیا ۔ ڈار صاحب آپ قرآن مجید کی بہت دہائی دیتے ہیں ، ذرا یہ آیت ملاحظہ کیجیے گا :
و إذ لم يهتدوا به فسيقولون هذا إفك قديم ( سورۃ الاحقاف )
اگر بات سمجھ نہ سکے تو کہا یہ تو پرانا جھوٹ ہے .
ڈار صاحب جس اصول کے تحت آپ صحیح بخاری و مسلم کی اعلی پائے کی احادیث صحیحہ کو رد کرنے پر تلے ہوئے ہیں ، قرآن مجید کی اس آیت کی روشنی میں اس قانون کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے ؟
یہ بالکل وہی اصول نہیں ، جس پر کافر عمل پیرا تھے ۔!
اب آپ چند ایک من گھڑت روایات کا بھانڈا پھوڑے جانے سے ، قرآن مجید کے بعد روئے زمین پر سب سے صحیح ترین کتاب کی احادیث کے ہی درپے ہو گئے ہیں ، جن کی صحت پر سیکڑوں محدثین نے امام بخاری سے اتفاق کیا ہے ، ان میں ڈار صاحب کس اصول کے تحت تشکیک ڈالنا چاہتے ہیں ؟
ڈار صاحب ! ایک فیصلہ پر سیکڑوں ججز حضرات کا سیکڑوں سالوں سے اتفاق ہے ، آپ کس منطق سے آکر اس سے اختلاف کرتے ہیں ؟
حجۃ الہند شاہ ولی اللہ الدہلوی رحمہ اللہ کی بات ملاحظہ کیجیے :
أما الصحيحان فقد اتّفق المحدثون على أَن جَمِيع مَا فيهمَا من الْمُتَّصِل الْمَرْفُوع صَحِيح بِالْقطعِ، وأنهما متواتران إِلَى مصنفيهما، وَأَنه كل من يهون أَمرهمَا فَهُوَ مُبْتَدع مُتبع غير سَبِيل الْمُؤمنِينَ (حجة الله البالغة (1/ 232)
''جہاں تک صحیحین کا معاملہ ہے تو محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ جو بھی متصل مرفوع احادیث صحیحین میں موجود ہیں ، وہ قطعاًصحیح ہیں اور ان دونوں کتابوں کی سند اپنے مصنّفین تک متواتر ہے اور جو کوئی بھی ان کتابوں کی قدر و قیمت کم کرنا چاہتا ہے، وہ بدعتی ہے اور اہل ایمان کے رستے پر نہیں ہے۔''
خیرصحیح بخاری و مسلم کی تالیف میں صحیح احادیث کا ہی ذکر ہے ، اس بات کا ذکر ان کتابوں کے مصنفین سے لے کر آج تک اہل علم کرتے آئے ہیں ، اس میں جو فنی باتیں ہیں وہ بھی مشہور و معروف ہیں ۔
آپ ان باتوں کو ذرا ایک طرف کردیں ، ہم آپ کو نہیں کہتے کہ بخاری و مسلم پر تنقید نہیں ہوسکتی ، یا آپ احادیث کی تصحیح و تضعیف نہیں کرسکے ، بس آپ یہ ذکر کردییں بخاری و مسلم ، یا دیگر صحیح روایات کو رد کرنے کے لیے آپ کن اصولوں پر گامزن ہیں ؟
ہم نہیں آپ کو کہتے کہ محدثین نے صحیحین پر اتفاق کرلیا ہے ، لہذا آپ آنکھ بند کرکے مان لیں ، آپ نقد کرلیں ، لیکن اپنا اصول بھی تو ذکر کریں ، بخاری کی عمر عائشہ رضی اللہ عنہا والی روایت آپ کے نزدیک درست نہیں ، حضرت موسی علیہ السلام کے کپڑوں کو پتھر کا لیکر بھاگنے والی بات آپ کے نزدیک درست نہیں ، لیکن اس کی تردید کا پیمانہ کیا ہے ؟
راوی پر جرح کریں ، محدث کی خیانت واضح کریں ، صحابی کی عدالت پر حرف اٹھائیں کہ فلاں نے یہاں ڈنڈی ماری ہے ، پھر ہم آپ کی اس جرح اور نقد و تنقید کو اصولوں کے تحت دیکھیں گے ، کہ کس طرح سیکڑوں ، ہزاروں محدثین کی بات تو درست نہیں ہوسکتی ، لیکن آپ کی جرح اور نقد درست ہے ۔
صرف یہ کہہ دینا کہ یہ روایت درست نہیں ہوسکتی ، اس میں فلاں کی توہین ہے ، فلاں بات قرآن کے خلاف ہے ، اس میں فلاں کے مرتبہ و مقام پر حرف آتا ہے ، اس سے ہمارے مزعومہ عقائد متاثر ہوتے ہیں ، صرف یہ کافی نہیں ہے ۔
اخبار کی تحقیق کا یہ فلسفہ تو کبھی بھی کسی کے ہاں بھی نہیں رہا ہوگا ، اگر یہی اصول اپنانا ہے تو پھر دل کو پسند آنے والی ہر خبر سچی ، اور نا پسند ہر خبر جھوٹی ہونی چاہیے ۔
محدثین کے اصول کیا ، عقل بھی اس کو نہیں مانتی ، کون چاہتا ہے کہ اس کو اس کے کسی پیارے کی اچانک موت کی خبر ملے ، لیکن جب یہ آفت آجاتی ہے اور آپ کو پختہ ذریعہ سے خبر مل جاتی ہے ، تو پھر اس خبر کو جھٹلانا ، جذبات ہوسکتے ہیں ، کم عقلی ہوسکتی ہے ، ہواس باختگی ہوسکتی ہے ، لیکن خبر دینے والے کا اس میں کوئی قصور نہیں ، اس نے جو دیکھا ، سنا پہنچا دیا .
اب یہاں خبر کو جھٹلانے کا سبب کیا بنا ؟ ، ذاتی رجحانات ، ذاتی پسند و نا پسند .
خبریں خوش کن بھی ہوتی ہیں ، غمگین بھی ہوتی ہیں ، لیکن نہ تو اچھی لگنے والی ہر خبر کو سو فیصد درست کہا جاسکتا ہے ، اور نہ ہی بری لگنے والی خبروں کو جھٹلایا جاسکتا ہے .
اگر خبر کی تحقیق کا یہی پیمانہ ہو تو دنیا میں صرف ’’ خوشخبریاں ’’ ہی ہوں ۔ غمزدہ خبریں تمام جھوٹ کا پلندہ قرار دے دی جائیں ۔
پھر آپ جتنی صحیح احادیث کا انکار کرتے ہیں ، اور اس کے لیے جتنے بھی بہانے بناتے ہیں ، ان کا صحیح مفہوم اور مطلب بھی اہل علم واضح کردیتے ہیں ، گویا اس حدیث کا معنی و مفہوم وہی نہیں جو آپ کے ذہن میں آرہا ہے ، بلکہ اس میں دوسرا معنی بھی مراد ہوسکتا ہے ، دیانت اور سمجھداری کا تقاضا ہے کہ آپ اپنی ضد سے باز آکر صحیح معنی کو تسلیم کرلیں ، نہ کہ اپنے فہم کی ناک رکھنے کے لیے چودہ صدیوں کے علماء و محدثین ، راویاں حدیث ، صحابہ کرام کے ہی درپے ہوجائیں ۔
ڈار صاحب لکھتے ہیں :
‘‘ذکر اذکار ، یا عبادات سے متعلق بےشک ایزی رھیں ’’
سنا ہے ، ڈار صاحب ملحدین کو بھی جواب دیتے رہتے ہیں ، ان کے اس طرح کے تضادات پر وہ انہیں طعنے نہیں مارتے ؟ کہ جو مطلب کی ہوئی وہ درست ، اور جس کا جواب نہ بن پایا ، کہا یہ ہے ہی جھوٹ ۔
ڈار صاحب آپ مخصوص روایات کی تردید میں راویان حدیث اور صحابہ کرام پر جو الزامات تراشی کرتے ہیں ، جس بندے کے ذہن میں یہ تصویر ہو ، وہ ان کے نقل کردہ اذکار ، اور طریقہ عبادات پر کس طرح مطمئن ہوگا ؟ ہر کسی کو آپ کی طرح امامت و خطابت کی مجبوری تو نہیں ہے نا ؟
ڈار صاحب مزید لکھتے ہیں :
‘‘مگر قرآن مجید، رسول کریمﷺ . ازواج مطھرات اور خلفائے راشدین سے متعلق روایتوں پر چوکنا ھو جایا کریں اور ایسی کسی روایت کو گھاس مت ڈالیں جو ان کی توھین کرتی ھو. یہ روایتیں کوئی قرآن نہیں ھیں کہ ان کی ھر آیت پر ایمان ضروری ھو. ’’
یہاں میں محترم ابو بکر قدوسی صاحب کی عبارت ذکر کرنا چاہوں گا ، لکھتے ہیں :
‘‘ انکار حدیث اصل میں انکار قرآن ہے ۔کیسے ؟جن راویوں نے قران ہم تک پہنچایا .. انہی نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے اقوال روایت کیے ، اگر وہ امانت دیانت کی انتہا پر فائز نہ تھے ، "جعل ساز " تھے ، بھلکڑ تھے ؟-
تو پھر قران میں کیا کیا نہ بھول گئے ہوں گے اور کیا کیا نہ شامل کر دیا ہو گا ؟-
اب یہ نہ کہیے کہ اللہ نے قران کی حفاظت کا وعدہ کیا تھا ... کیونکہ یہ والی آیت بھی انہی "راویان " نے ہم کو پہنچائی ۔’’
ڈار صاحب مزید رقمطراز ہیں :
‘‘محدثین نے لاکھوں اٹھا پھینکی ھیں . دس پندرہ اٹھا پھینکنے کی ھمت آپ بھی اپنے ضمیر میں پیدا کریں.’’
محدثین نے جس وجہ سے اٹھا پھینکی ہیں ، اس کی تو انہوں نے وجہ بتادی ہے ، آپ جس طرح اٹھا پھینکنے کی دعوت دے رہے ہیں ، یہ تو ایسے ہی ہے ، کوئی آپ سے آکر کہے ، قاری صاحب ڈاکٹروں نے اگر ہزاروں کینسر زدہ مریضوں کے اعضا کاٹ دیے ہیں تو میں آپ کے ہاتھ اور زبان کیوں نہیں کاٹ سکتا ؟
دلیل اس کی بھی یہ ہے کہ آپ مقدس ہستیوں پر زبان درازی کرتے ہیں ، اور آپ کو اس جرم کی سزا ، اس بھولے بھالے کے ذہن میں یہی ہے ۔ کیا خیال ہے اس کے ضمیر کی آواز درست ہوگی ؟
جناب فرماتے ہیں :
‘‘جس روایت پر ضمیر مطمئن نہ اس کو مت قبول فرمائیں آپ کا محاسبہ آپ کے ضمیر کی بنیاد پر ھو گا’’
جناب اگر سب کچھ اسی ضمیر نے ہی کرنا ہے ، تو پھر انبیاء کو بھیجنے ، آسمانی کتابیں نازل کرنے کی حاجت کیا تھی ؟
الہی تعلیمات کے مقابلے میں ضمیر کی کچھ آوازیں قرآن مجید میں بھی نقل ہوئی ہیں ، ذرا ملاحظہ کیجیے گا :
وقالوا أساطير الأولين اكتتبها فهي تملى عليه بكرة وأصيلا
یہ تو پہلے لوگوں کی دیو مالائیں کہانیاں ہیں ، جن کی صبح و شام اس(نبی صلی اللہ علیہ وسلم) کو املا کروائی جاتی ہے ۔
ڈار صاحب ! اللہ تعالی نے عقل کی نعمت سے نوازا ہے ، باضمیر مسلمان ہیں ، غیرت و حمیت بھی آپ کے اندر بہت ہوگی ، لیکن چودہ صدیوں میں سے تیرہ صدیاں سب بے ضمیر ، اور غیرت و حمیت سے خالی لوگوں پر مشتمل نہیں تھیں ،14 ویں صدی کے فتنوں کے سامنے ضمیر کو ڈھیر کرنے کی بجائے ، قرآن وسنت کو سمجھنے پر توجہ دیں ، اللہ تعالی نے ضمیر دیا ہے ، تو ساتھ قرآن مجید کی یہ آیت بھی نازل فرمائی ہے :
فاسئلوا أہل الذکر إن کنتم لا تعلمون
اگر علم نہ ہو ، تو اہل علم سے راہنمائی لے لیا کرو ۔
قرآن مجید کی اس آیت پر بھی ضمیر کو ذرا آواز دے کر غور و فکر کیجیے گا :
وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ‌ مِّنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ ۖ وَلَوْ رَ‌دُّوهُ إِلَى الرَّ‌سُولِ وَإِلَىٰ أُولِي الْأَمْرِ‌ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنبِطُونَهُ مِنْهُمْ ۗ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ وَرَ‌حْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلَّا قَلِيلًا ﴿سورۃ النساء٨٣﴾
جہاں انہیں کوئی خبر امن کی یا خوف کی ملی انہوں نے اسے مشہور کرنا شروع کر دیا، حالانکہ اگر یہ لوگ اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اور اپنے میں سے ایسی باتوں کی تہہ تک پہنچنے والوں کے حوالے کر دیتے تو اس کی حقیقت وہ لوگ معلوم کر لیتے جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں اور اگر اللہ تعالٰی کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو معدودے چند کے علاوہ تم سب شیطان کے پیروکار بن جاتے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں قرآن وسنت کا حقیقی معنوں میں فہم عطا فرمائے ، اور شیطان اور اس کے دوستوں کے بہکاوے سے بچائے ۔
حافظ خضر حیات ، محدث فورم
 
Top