• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسائل عقیدہ پر قراء ات کے اثرات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مسائل عقیدہ پر قراء ات کے اثرات

ڈاکٹرعبدالکریم ابراہیم صالح
مترجم: قاری محمد حسین​
تمہید
یہ بات ثابت شدہ ہے کہ عقیدہ دین حنیف میں بنیادی حیثیت کا حامل ہے، کیونکہ اس کا تعلق اللہ کی معرفت، نبی کریمﷺکی نبوت اور آپﷺ کی صداقت و امانت پر ایمان لانے پر ہے۔ قراء ات قرآنیہ سے یہ مسائل اوربھی زیادہ واضح اور احسن صورت میں نمایاں ہوتے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ قراء ات قرآنیہ کے ان پہلوؤں کو اُجاگر کیا جائے جن سے یہ پتہ چلے کہ جہاں قراء ات قرآن کی تفاسیر میں مدد دیتی ہیں وہاں یہ قراء ات عقیدہ کے مسائل کی بھی عقدہ کشائی کرتی ہیں۔ ان مسائل میں سے ایک بنیادی مسئلہ اللہ کے اسماء کی معرفت ہے، کیونکہ صحیح معنوں میں اللہ کابندہ بننے اور اس کی عبادت میں خشوع و خضوع حاصل کرنے کے لیے باقی تمام چیزوں کے ساتھ ساتھ اللہ کے ناموں کی معرفت حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔ اس طرح اللہ کی ذات کی معرفت حاصل کرنے کے لیے بھی ضروری ہے کہ اللہ کے اسماء میں معرفت تامہ حاصل کی جائے جیسا کہ نبی کریم ﷺ کا اِرشاد پاک ہے:
(من أحصاھا دخل الجنۃ)’’ اللہ کے ناموں کو شمار کیا وہ جنت میں داخل ہوگا۔‘‘
علاوہ ازیں اللہ نے خود بھی قرآن پاک میں ارشاد فرمایا کہ مجھے اچھے اچھے ناموں سے پکارو۔
’’وَﷲِ الاَسْمَائُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِھَا‘‘ (الاعراف:۱۸۰)
’’اور اللہ اچھے ناموں کا مستحق ہے، اس کو اچھے ناموں سے ہی پکارو۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا:’’قُلِ ادْعُوْاﷲَ اَوِ ادْعُوْا الرَّحْمٰنَ، اَیًّامَّا تَدْعُوْا فَلَہُ الاَسْمَائُ الْحُسْنٰی‘‘ (الاسراء:۱۱۰)
’’اے نبیؐ! ان سے کہو، اللہ کہہ کر پکارو یا رحمن کہہ کر،جس نام سے بھی پکارو اس کے لیے سب نام ہی اچھی ہیں۔‘‘
اسی حکم کی تعمیل کا صحیح حق اداکرتے ہوئے نبی مکرمﷺ نے فرمایا:
(أسألک لکل اسم ھو لک سمیت بہ نفسک أو أنزلتہ فی کتابک أو علمتہ أحدا من خلقک أو استأترت بہ فی علم الغیب عندک) )مسنداحمد: ۱؍۳۹۱،۴۵۲، والحاکم فی مستدرک کتاب الدعاء والتکبیر والتھلیل والتسبیح والذکرا ،ص۵۰۹ ۔عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ)
’’اے اللہ میں تجھ سے تیرے ہر اُس نام کے ساتھ سوال کرتا ہوں جو تو نے اپنے لیے خاص کئے ہیں یا تونے اپنی کتاب میں اتارے ہیں یا مخلوق میں سے کسی ایک کو سکھائے ہیں یا جو تیرے غیب کے خزانوں میں ہیں۔‘‘
ہم سب سے پہلے اُن قراء ات کا ذکر کریں گے جن کا تعلق اللہ کے ناموں سے ہے تاکہ نبی کریمﷺ پر نازل ہونے والی قراء ات کا مقام و مرتبہ واضح ہوسکے۔ ان میں سے پہلی مثال:
قولہ: ’’مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ‘‘ (الفاتحۃ:۴)
لفظ ’ملک‘ میں دو قراء تیں ہیں۔
(١) ’مَالِکِ‘ الف کے ساتھ ملک سے اسم فاعل کا صیغہ۔ یہ قراء ۃ امام عاصم، امام کسائی، امام یعقوب اور امام خلف العاشر کی ہے۔
(٢) ’ملک‘۔ حذف الف سے بروزن حذر، مبالغہ کا صیغہ،یہ امام نافع،امام ابن کثیرمکی، امام ابوعمرو بصری، امام ابن عامر شامی، امام حمزہ اور امام ابوجعفر کی قراء ۃ ہے۔ (النشر:۱؍۲۷۱، فتح الوصید للسخاوی:ص۱۷۵)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دونوں قراء توں کی دلالت

ان دونوں قراء توں کی دلالت واضح کرنے سے پہلے ان کے معانی بیان کرنا ضروری ہے:
(١) المالک اسے کہتے ہیں جسے اپنی زیرملکیت تمام چیزوں کے تصرف کا مکمل اختیار حاصل ہو اور وہ انہیں جس پر جیسے چاہے صرف کرے۔
(٢) المَلِکِ جسے اپنے ماتحت حضرات کو کسی کام کے کرنے یا روکنے کا پورا پورا حق حاصل ہو۔
چنانچہ امام راغب اصفہانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ لفظ الملک بولنے والوں کے ساتھ خاص ہے۔ اسی لیے ملک الناس کہنا درست ہے، لیکن ملک الاشیاء کہنا درست نہیں۔ (المفردات فی غرائب القرآن: ص۴۷۲)
اور ابوحیان نحوی رحمہ اللہ نے اخفش سے روایت کیا ہے کہ کہا جاتا ہے’’ملک یہ مُلک (میم کے ضمہ) سے ہے اور مالک ملک (میم کے کسرہ اور فتحہ) سے ہے۔ (البحر المحیط:۱؍۲۰، معانی القرآن للاخفش:۱ ؍۱۶۰)
اوردوسری جگہ فرماتے ہیں کہ بے شک ملک اسے کہا جاتاہے جس کی اطاعت کی جائے چاہے وہ اس کا حق رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو اور مالک اسے کہا جاتا ہے کہ جس کی اطاعت کی جائے یا نہ کی جائے لیکن وہ اس کا حق رکھتا ہو اور ان دونوں کے درمیان عموم و خصوص من وجہ کی نسبت پائی جاتی ہے۔ (البحر المحیط:۱ ؍۲۰)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دلالت کی وضاحت

’’مالک یوم الدین‘‘ والی قراء ۃ اس چیز پر دلالت کرتی ہے کہ قیامت کے دن اللہ وحدہ لا شریک ہی اکیلا مالک ہوگا۔ دنیا کے تمام مالکوں کی ملکیت ختم ہوجائے گی اور وہاں اللہ کے علاوہ کسی اور کا حکم اور تصرف نہیں چلے گا۔
چنانچہ علامہ سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
’’مالک کا معنی قیامت کی ابتدا اور ایجاد کرنے والا ہے یا قیامت کے دن اپنے بندوں کے درمیان فیصلے کا اختیار رکھنے والا۔یہاں اسم فاعل کی ظرف کی طرف اضافت ہے۔‘‘ (فتح الوصید فی شرح القصید: ص۱۷۵)
یعنی قیامت کے دن اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کا حکم نہیں چل سکے گا جب کہ’ملک‘ کی قراء ۃ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قیامت کے دن اللہ ہی اکیلا بادشاہ ہوگاکہ جس دن دنیا کے تمام بادشاہ عاجز اور خسارے والے ہوجائیں گے۔
امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ نے مذکورہ قراء توں سے کچھ احکام اخذ کئے ہیں جن کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ملک پر مترتب ہونے والے اَحکامات

(١) جب دنیاوی بادشاہوں کی سیاست تمام لوگوں پرحاوی ہے تو پھر جو بادشاہوں کا بھی حقیقی بادشاہ ہے تو اس کی سیاست کیسی ہوگی؟۔
(٢) اللہ تعالیٰ دنیا کے بادشاہوں کی طرح نہیں ہیں،کیونکہ ان کی بادشاہت تو ختم ہوجائے گی جبکہ اللہ کی بادشاہت ہمیشہ قائم و دائم رہے گی، کیونکہ دنیاوی بادشاہوں کی بادشاہت عطائی ہے جبکہ اللہ کی بادشاہت ذاتی اور نہ ختم ہونے والی ہے ،وہ اپنے خزانوں میں سے جسے جو چاہتا ہے دیتا ہے۔ اس کے خزانوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی اور اس کے خزانے ہمیشہ بھرے رہتے ہیں۔ وہ جسے جتنا چاہتا ہے عطا کرتاہے۔
(٣) اللہ کا مخلوق پراحسان اور رحمت کاملہ ہے، اس پر قرآن کی آیات بھی دلالت کرتی ہیں چنانچہ فرمایا: ’’اَلْمُلْکُ یَوْمَئِذٍ الْحَقُّ لِلرَّحْمٰنِ‘‘ (الفرقان:۲۶) ’’اس دن حقیقی بادشاہی صرف رحمن کی ہوگی۔‘‘
یہاں اللہ نے اپنے لیے صفت ملک ثابت کی ہے جس میں قھاری کا پہلو غالب ہوتاہے ،لیکن اس کے متصل بعد رحمان والی صفت لاکر یہ بتا دیا کہ ا للہ وہ بادشاہ ہے کہ جس کی رحمت مخلوق پر غالب آجائے گی اور لوگ اس کے غضب سے محفوظ رہیں گے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مالک پر مترتب ہونے والے اَحکامات

(١) بے شک مالک کی قراء ۃ کے معانی میں ملک کی قراء ۃ کے معانی سے زیادہ امید پائی جاتی ہے،کیونکہ بادشاہ سے زیادہ سے زیادہ یہی اُمیدکی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی بادشاہت میں عدل و انصاف کرے جبکہ غلام اپنے مالک سے لباس،کھانا، نرمی وغیرہ کا طلب گار ہوتا ہی۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ فرمانا چاہتے ہیں کہ ’’میں تمہارا مالک ہوں اور میرے ذمہ تمہارا لباس، خوراک، ثواب اور جنت ہے۔‘‘
(٢) بے شک مالک کمزور اور طاقتور دونوں کو دیتا ہے جبکہ بادشاہ ایسا نہیں کرتا۔ (التفسیر الکبیر:۱؍۲۹۲)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مختلف قراء ات کی اعجازی وجوہ اور ان کا اثر

اگر ہم مذکورہ بحث پر غور کریں تویہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ دونوں قراء ات میں عمیق اعجازی وجوہ پائی جاتی ہیں۔پتہ چلتا ہے کہ ہمیں اللہ سے خوف و امید،رغبت، ڈر اور عدل و انصاف کا عقیدہ رکھنا چاہئے اور یہ بھی عقیدہ رکھنا چاہئے کہ مالک اللہ تعالیٰ رحیم و کریم ہیں۔وہ ایسا مَلِک بادشاہ ہے جو عدل کرنے والا ہے۔
علاوہ ازیں ملک اللہ کی ذاتی صفت ہے اور مالک فعلی صفت ہے اور یہ دونوں اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنٰی میں سے ہیں۔ اللہ مالک اور مَلِک دونوں صفات سے متصف ہے۔
چنانچہ علامہ اللقانی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’الجوھرۃ‘میں رقم طراز ہیں:
وعندنا أسماؤہ العظیم
کذا صفات ذاتہ قدیمہ
واختیر أن أسماؤہ توقیفیہ
کذا الصفات فاحفظ السمعیہ​
’’ہمارے نزدیک پسندیدہ اور راجح مذہب یہ ہے کہ اللہ کے نام اور صفات توقیفی ہیں لہٰذا جیسے سنو اسی طرح ہی انہیں محفوظ کرلو ان میں بحث و تمحیص کی ضرورت نہیں۔‘‘(المختار فی شرح البیجوری علی الجوھرۃ:ص۱۰۴ وما بعدھا)
معلوم ہوا کہ یہ دونوں قراء تیں اس بارے میں نص ہیں کہ یہ دونوں اللہ کے توقیفی نام ہیں۔ اس بات کے ثبوت کی صرف یہی دونوں قراء تیں دال نہیں بلکہ قرآن مجیدکی دوسری آیات سے ان کی تائید ہوتی ہے۔ مثلاً
٭ ’’قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکِ الْمُلْکِ‘‘ (آل عمران :۲۶)
٭ ’’فَتَعٰلَی اﷲُ الْمَلِکُ الْحّقُّ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ‘‘ (المؤمنون:۱۱۶)
٭’’ھُوَ اﷲُ الَّذِیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ‘‘ (الحشر:۲۳)
٭‘‘مَلِکِ النَّاسِ’’ (الناس:۲)
بے شک یہ دونوں قراء تیں دونوں اسموں کی یوم الدین کی طرف اضافت کے جواز پر بین دلیل ہیں۔لہٰذا ملک یوم الدین اور مالک یوم الدین دونوں طرح کہنا درست ہے۔
ان دونوں قراء توں میں سے بعض نے مالک کی قراء ۃ کو اختیار کیاہے۔ان کا کہنا یہ ہے کہ چونکہ مالک کے حروف زیادہ ہیں اس لیے اس کو پڑھنے میں ثواب بھی زیادہ ہوگا اور بعض نے مَلِک کو اختیار کیا ہے اور وجہ یہ بتائی ہے کہ مَلِک معنی کے اعتبار سے مالک سے زیادہ جامع ہے کیونکہ ہر بادشاہ مالک ہوتا ہے، لیکن ہر مالک بادشاہ نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح ہر بادشاہ کا حکم ہر مالک پرنافذ ہوتا ہے جبکہ اس کا عکس نہیں ہوتا،لیکن ان توجیہات کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ دونوں قراء تیں نبی کریمﷺ سے تواتر سے ثابت ہیں لہٰذا اس قسم کی توجیہات کرنا بے فائدہ ہے۔امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی یہ دونوں قراء تیں سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ، سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ اور نبی کریمﷺ سے نقل کی ہیں۔ (سنن ترمذی:۴۳، کتاب : القراء ات، باب فی فاتحۃ الکتاب:رقم:۲۹۲۷،۲۹۲۸،۵؍۱۸۵)
لہٰذا ضروری ہے کہ ہم ترجیح کا دروازہ بند کریں، کیونکہ یہ دونوں قراء تیں کلام اللہ ہیں، دونوں ہی سے اللہ کی مراد پوری ہورہی ہے اور دونوں ہی اللہ کی شایان شان ہیں۔اس لیے علامہ آلوسی البغدادی رحمہ اللہ (م ۱۲۷۰ھ) فرماتے ہیں کہ
’’میرے نزدیک مالک اور ملک دونوں ہی اللہ کی صفات ہیں لہٰذا ان میں سے کسی ایک کو دوسری پرترجیح دینا بے سود ہے۔‘‘
اسی طرح علامہ السمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
’’دونوں قراء توں میں سے کسی ایک کو ترجیح دینے والے کی بات کی طرف بالکل توجہ ہی نہیں دینی چاہئے۔‘‘ (روح المعانی:۱؍۸۳،۸۴)
دوسری مثال :
فرمان باری تعالیٰ: ’’قَالَ ھَلْ اٰمَنُکُمْ عَلَیْہِ إلَّا کَمَا أمِنْتُکُمْ عَلَی أخِیْہِ مِنْ قَبْلُ، فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا وَّھُوَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ‘‘ (یوسف :۶۴)
لفظ حافظاً میں دو قراء تیں ہیں:
(١) حافظاً بروزن فاعل،حفص، حمزہ، کسائی اور خلف العاشر نے اسی طرح پڑھا ہے۔
(٢) حافظابروزن فعلا، یہ قراء ۃ، نافع، ابن کثیر مکی، ابوعمرو بصری، ابن عامر شامی، شعبہ، ابوجعفر، یعقوب کی ہے۔ (غایۃ الاختصار:۲؍۵۲۹،الکنز فی القراء ات العشر لابن الوصید الواسطی تحقیق ھناء الحمصی: ص ۱۷۷)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دونوں قراء توں کی توجیح

جس نے اسم فاعل کے صیغہ سے پڑھا ہے تو اس نے اللہ کی حفاظت میں مبالغہ کی بناپرپڑھا ہے، کیونکہ اللہ ہی سب سے زیادہ حفاظت کرنے والا ہے اور پوری کائنات کی حفاظت کرنے کے لیے وہ اکیلا ہی کافی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
نصب کی وجہ

(١) یہ تمیز ہے جیسے وھو خیرھم رجلاً اور وﷲ درہ فارساً میں رجلاً اور فارساً تمیز ہیں۔
چنانچہ المنتخب الھمدانی (م ۶۴۳ھ) فرماتے ہیں یہاں حافظاً تمیزہے، کیونکہ لفظ خیر بمعنی اخیر ممیز ہے۔ (الفرید فی اعراب القرآن المجید :۳؍۷۹)
اس ترکیب کے مطابق معنی یہ ہوگا کہ اللہ سب سے بڑا اور آخری حفاظت کرنے والاہے یعنی اللہ کی حفاظت غیر اللہ کی حفاظت سے زیادہ ہے۔اس معنی کی تاثیر اعمش اور مطوعی کی قراء ۃ فاﷲ خیر حافظ اور ابن مسعودرضی اللہ عنہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی قراء ۃ فاﷲ خیر الحافظین سے بھی ہوتی ہے۔ (الکشاف:۲ ؍۴۸۶،معانی القرآن للفراء:۲ ؍۵۰، التفسیر الکبیر :ص۱۷، ۹۷)
(٢) یہ حال واقع ہو رہا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ بہترین ہے اس حال میں کہ وہ حفاظت کرنے والا ہے۔ یہ ترکیب علامہ زمخشری نے بیان کی ہے (الکشاف:۲ ؍۳۳۱) لیکن ابوحیان نحوی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ ترکیب کرنا زیادہ مناسب نہیں ہے کیونکہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بہترین ہونا صرف حفاظت پرہی منحصر ہے۔ (البحر المحیط:۵؍ ۳۲۲ ) لیکن اس کی تفصیل یہ ہے کہ یہ حال لازم ہے اور یہاں یہ پہلے کی تاکید کے لیے آیا ہے نہ کہ بیان کے لیے۔ اللہ کا بہترین ہونا، صرف حفاظت میں آیا ہے اور اس کی مثالیں کلام عرب میں پائی جاتی ہیں۔
٭ جس نے اسے حفظًا فعلاً کے وزن پرپڑھا ہے ،وہ کہتے ہیں کہ یہ حفظ یحفظ حفظا مصدر ہے اور اس کی نصب تمیز کی وجہ سے ہے۔ یعنی جب یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے حفاظت کی نسبت اپنی طرف کی اور کہا: ’’فَأرْسِلْ مَعَنَا أخَانَا نَکْتَلْ وَإِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ‘‘ (یوسف :۶۳) اور ’’وَنَحْفَظُ أخَانَا‘‘(یوسف :۶۳) تو ان کے باپ حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا : ’’فَاﷲُ خَیْرٌ حٰفِظًا‘‘ یعنی اللہ کی حفاظت تمہاری حفاظت سے زیادہ بہتر ہے۔ (الموضع لابن ابی مریم :۳ ؍۶۸۴)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دونوں قراء توں پر مترتب ہونے والی اعجازی وجوہ

اگر بنظر غائر ان دونوں قراء توں کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں کے درمیان بڑا گہرا تعلق پایا جاتاہے وہ اس طرح کہ حفظاً والی قراء ۃ حافظاً والی قراء ۃ کا جزولاینفک ہے، کیونکہ کسی کواس وقت تک حافظ نہیں کہہ سکتے جب تک کہ اس میں حفظ کی صفت نہ پائی جاتی ہو اور بلا شک اللہ تعالیٰ کے اندر تو یہ صفت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے اور اَزل سے اَبد تک اللہ تعالیٰ اسی صفت سے متصف رہیں گے۔ اسی لیے حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو فرمایا تھا کہ اللہ کی حفاظت تمہاری حفاظت سے بہتر ہے چنانچہ ابن خالویہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ فاﷲ خیرکم حفظا وحافظاً‘‘
اور دوسری قراء ۃ ’حافظا‘یہ حکم ضروری کا فائدہ دیتی ہے یعنی ’الحافظ‘ اللہ کے توقیفی ناموں میں سے ایک نام ہے اوراس کی تائید قرآن مجید کی دوسری بہت سی آیات سے ہوتی ہے جیسے:’’وَرَبُّکَ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ حَفِیْظٌ‘‘ (سبا:۲۱)
’’اور تیرا رب ہر چیز پر نگران ہے۔‘‘
’’إنَّ رَبِیْ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ حَفِیْظٌ‘‘ (ہود :۵۷)
’’یقیناً میرا رب ہرچیز پر نگران ہے۔‘‘
اور یہ صفت جمع کے صیغہ کے ساتھ بھی قرآن مجید میں استعمال ہوتی ہے۔
’’وَمِنَ الشَّیَاطِیْنِ مَنْ یَّغُوْصُوْنَ لَہُ وَیَعْمَلُوْنَ عَمَلًا دُوْنَ ذَلِکَ ، وَکُنَّا لَھُمْ حَافِظِیْنَ‘‘ (الانبیاء :۸۲)
’’اور شیاطین میں سے ہم نے بہت سوں کو اس کا تابع بنا دیا تھا جو اس کے لیے غوطے لگاتے اور اس کے سوا دوسرے کام کرتے تھے ان سب کے نگران ہم ہی تھے۔‘‘
مذکورہ بحث سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ الحافظ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنٰی میں سے ہے اور اس کی حفاظت سب سے بہتر ہے اس پر تمام علماء کااتفاق ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اَفعال العباد


عقیدہ کے مسائل میں سے دوسری چیز ’افعال العباد‘ کی بحث ہے:
اس بات پر تمام علماء متفق ہیں کہ بے شک اللہ کے ایجادی اور اعدامی افعال، بندوں کے اضطراری افعال اور ان کی تقدیر یہ سب اللہ کی مخلوق ہیں، اختلاف صرف اس میں ہے کہ بندوں کے اختیاری افعال بھی مخلوق ہیں یا نہیں۔
 
Top