• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسائل عقیدہ پر قراء ات کے اثرات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سمعیات

سمعیات سے مراد وہ امور ہیں جن کا اثبات قرآن و سنت اور اجماع سے ثابت ہے، لیکن عقل ان کاادراک نہیں کرسکتی جیسے فرشتے، جن، بعث بعد الموت، حشر اور حساب وغیرہ ان کے بارے میں عقیدہ رکھنا ضروری ہے کہ یہ تمام چیزیں برحق ہیں، کیونکہ ضروری نہیں کہ ہر وہ چیز جو عقل سے ثابت نہ ہوسکے وہ غیر صحیح ہے۔ بعض چیزیں ایسی بھی ہیں جن کاعقل ادراک نہیں کرسکتی لیکن وہ ثابت ہیں ہاں اگر ان کی تصدیق عقل سے بھی ہوجائے تو یہ زائد چیز ہے، مثلاً نبی کریمﷺ کی نبوت اور قرآن نقلی علوم میں سے ہیں اگر یہ تمام چیزیں عقل سے نہ بھی ثابت کی جاسکتی ہوں تب بھی آپ ﷺ کی رسالت اور قرآن پر ایمان لانا اور ان کی تعلیمات کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔ چنانچہ قرآن مجید کی قراء ت اس قسم کی بھی عقدہ کشائی کرتی ہیں صرف ایک مثال ذکر کی جاتے ہے جس کا تعلق سمعیات اور غیب کی خبروں سے ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پہلی مثال :
قولہ تعالیٰ: ’’ھُنَالِکَ تَبْلُوْ کُلُّ نَفْسٍ مَا اَسْلَفَتْ وَرُدُّوْا اِلَی اﷲِ مَوْلٰھُمُ الْحَقِّ ‘‘ (یونس:۳۰)
’’اس وقت ہر شخص اپنے کئے کامزہ چکھ لے گا اور سب اپنے حقیقی مالک کی طرف پھیر دیئے جائیں گے۔‘‘
لفظ ’تبلوا‘ میں دو قراء تیں ہیں۔
(١) تتلوا:یہ حمزہ، کسائی اور خلف العاشر کی قراء ۃ ہے۔
(٢) تبلو:یہ نافع، ابن کثیر، ابوعمرو، ابن عامر، عاصم، ابوجعفر اور یعقوب کی قراء ۃ ہے۔ (السبعۃ لابن مجاہد: ۳۲۵، النشر :۲؍۲۸۳، اتحاف فضلاء البشر:۲ ؍۱۰۹)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
توجیہ القراء ات

تتلوا اس کا معنی یہ ہے کہ ہرانسان اپنے اعمال کی طلب اور تتبع کرے گا یا صحیفے میں لکھے بُرے یااچھے اعمال کا پڑھے گا۔اس کی تائید مندرجہ ذیل آیت سے بھی ہوتی ہے۔
’’وَکُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰہُ طَائِرَہُ فِیْ عُنُقِہِ وَنُخْرِجُ لَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کِتَابًا یَّلْقٰہُ مَنْشُوْرًاé إِقْرَأ کِتَابَکَ کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا‘‘ (الاسراء :۱۳،۱۴)
’’اور ہر انسان کا شگون ہم نے اس کے اپنے گلے میں اٹکا رکھا ہے اور قیامت کے روز ہم ایک نوشتہ اس کے لیے نکالیں گے جسے وہ کھلی کتاب کی طرح پائے گا۔پڑھ اپنا اعمال نامہ ، آج اپنا حساب لگانے کے لیے تو خود ہی کافی ہے۔‘‘
تو تتلوا والی قراء ۃ یا تو طلب اور تتبع سے ہے یا تلاوۃ سے۔
اور ’تبلوا‘والی قراء ۃ کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایک جان کو اس کے اچھے یا بُرے عمل کی خبر دی جائے گی اور وہ اپنے اعمال کو دیکھ لے گا اور ان کے بارے میں جان جائے گا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِعجازی وجوہ

اگر ان دونوں قراء توں کا بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن ہر انسان کا اعمال نامہ اس کو پیش کردیا جائے گا جس کو وہ پڑھے گا۔ یا یہ ہے کہ وہ دنیا میں جتنے کام کرتا رہا ہے سب کو دیکھ لے گا اور اس کو اپنے ہر اچھے اور برے عمل کا پتہ چل جائے گا۔
اس مذکورہ بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے یہ احوال غیب سے تعلق رکھتے ہیں جن پر ایک مسلمان کے لیے ایمان لانا ضروری ہے اور مذکورہ دونوں قراء تیں اسی طرف اشارہ کررہی ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوسری مثال:
قولہ تعالیٰ’’وَاِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْھِمْ اَخْرَجْنَا لَھُمْ دَآبَّۃً مِّنَ الاَرْضِ تُکَلِّمُھُمْ أنَّ النَّاسَ کَانُوْا بِاٰیتِنَا لاَ یُوقِنُوْنَ‘‘ (النمل:۸۲)
’’اور جب ہماری بات پوری ہونے کا وقت اُن پر آپہنچے گا تو ہم اُن کے لیے ایک جانور زمین سے نکالیں گے جو ان سے کلام کرے گا اس لیے کہ لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں کرتے تھے۔‘‘
لفظ ’أن‘میں دو قراء تیں ہیں:
اوّل: ’’أن الناس‘‘ ہمزہ مفتوح۔یہ قراء ۃ عاصم، حمزہ، کسائی، خلف العاشر اور یعقوب کی ہے۔
ثانی: ’’إنَّ الناس‘‘ ہمزہ مکسور۔یہ نافع، ابن کثیر مکی، ابوعمرو بصری، ابن عامر شامی اور ابوجعفر کی قراء ۃ ہے۔(غایۃ الاختصار:۲؍۶۰۲،النشر :۲ ؍۳۳۸،الاختیار:۲ ؍۶۰۰)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
توجیہ القراء ات

’أنَّ‘ ہمزہ کے فتحہ والی قراء ۃ میں حرف جر حذف ہے، یعنی ’’تکلِّمھم بأن الناس‘‘ اس کی تائید حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کی قراء ۃ ’’تکلمھم بأن الناس کانوا باٰیتنا لایوقنون‘‘ سے ہوتی ہے۔ (المحتسب:۲ ؍۱۱۴، شواذ القراء ات للکرمانی :۱۸۳)
معنی:اس کا معنی یہ ہے کہ ہم قیامت کو زمین سے جانور کو باہر نکال لیں گے، جو گواہی دے گا کہ یہ لوگ اللہ کی آیات، قیامت اور باقی احکامات پر ایمان نہیں لاتے تھے۔
اس آیت میں تکلِّمھم کے معنی میں مندرجہ ذیل اختلاف پایا جاتاہے کہ آیا یہ الکلام بمعنی بات سے ہے یا الکلم بمعنی جرح سے ہے۔
علامہ آلوسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ یہ کلام بمعنی بات سے ہے اور اس کی تائید ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی قراء ۃ ’تنبئھم‘(وہ ان کو خبر دیں گے) اور یحییٰ بن سلام رضی اللہ عنہ کی قراء ۃ ’تحدّثھم‘(وہ ان کو کہیں گے) سے بھی ہوتی ہے۔ دوسرا قول یہ بھی ہے کہ یہ کِلْمٌ بمعنی جرح سے ہے، جس کی تائید ابن عباس رضی اللہ عنہ، مجاہد، ابن جبیر، ابی زرعۃ، جحدری، ابی حیوہ اور ابن ابی عبلۃ وغیرہ کی قراء ۃ ’تکلِّمھم‘سے ہوتی ہے۔ اسی طرح بعض نے’تَجْرَحُھم‘یعنی جرح بمقابل تعدیل بمعنی طعن و تشنیع پڑھا ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ اس کا معنی جرح بمعنی زخم، داغنا کیا جائے، جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ کافر کی پیشانی داغی جائے گی اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ قیامت کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا کے ساتھ کافر کی ناک ریزہ ریزہ کردی جائے گی۔ بعض نے ’داغنے‘کے معنی کوترجیح دی ہے، کیونکہ ابن حماد اور ابن مردویہ حضرت عمرررضی اللہ عہ سے مرفوعاً ذکر کرتے ہیں کہ یہاں تکلمھم سے مراد حدیث اور کلام نہیں بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ کافر کی پیشانی اللہ کے حکم سے داغی جائے گی اور ابوالجوزاء نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا اس آیت میں’’ تُکَلِّمُھُمْ ‘‘ہے یا ’’تَکْلِمُھُمْ‘‘ تو آپ نے فرمایا دونوں ہی طرح ہے یعنی مؤمن کلام کریں گے اورکافروں کو داغا جائے گا۔ (روح المعانی :۲۰؍۲۵، زاد المسیر:۶؍۸۱، معالم التنزیل: ۶؍۱۷۷)
اور اس کا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کافروں کی پیشانی داغی جائے گی، کیونکہ وہ اللہ کی آیات پر یقین نہیں رکھتے تھے۔مصنف کہتے ہیں کہ میراخیال یہ ہے کہ’ان الناس‘ ہمزہ مفتوح والی قراء ۃ میں بامقدرہ ہے اور اس کو سببیہ اور تعدیہ دونوں بناناجائز ہے۔ اس اعتبار سے اس کا معنی حدیث اور جرح دونوں طرح کرنا جائز ہے یعنی وہ جانور کہے گا کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے تھے، یا یہ کہ ان لوگوں کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے وہ کلام کرے گا، یا یہ کہ وہ لوگوں پر جرح یعنی طعن و تشنیع کرے گا کہ یہ لوگ ایما ن نہیں لاتے تھے، یاپھر یہ کہ وہ لوگوں کا ایمان ختم ہوجانے کی وجہ سے ان کی پیشانی داغے گا۔ (الدرالمصون:۵؍۳۲۸)
اور ’إن الناس‘ بکسر ہمزہ کے ساتھ دو وجہیں ہیں۔
اوّل: یہ تُکلِّمھم قول کے قائم مقام ہو یعنی تقول لھم۔
ثانی: یہاں تکلِّمھم کے بعد فتقول لھم کو محذوف مانا جائے۔ (الحجۃ لأبی علی: ۵؍۴۰۶،شرح الھدایۃ :۲؍۴۵۸، الموضوع :۲؍۹۷۳)
ان دونوں وجوہ میں دو معانی ہوسکتے ہیں:
نمبر١ یہ کہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہو جیسا کہ عبارت سے بھی ظاہر ہے۔
نمبر٢ یہ کہ جانور کا کلام ہو۔
دوسرے معنی پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ جانور کہے گا کہ ہماری آیتوں پر یقین نہیں رکھتے تھے حالانکہ آیات تو اللہ کی طرف سے ہیں۔(التفسیرالکبیر:۲۳؍۲۳۸۔ الدرالمصون:۵؍۳۲۸، روح المعانی:۲۰؍۲۴)
اس اعتراض کے علماء نے دو جواب دئیے ہیں:
(١) چونکہ وہ ایک خاص قسم کا جانور ہوگا اس لیے وہ اللہ کی آیات کو اپنی طرف منسوب کرے گا جیسا کہ عام طور پربادشاہ کے قریبی کہہ دیتے ہیں کہ ہمارا شہر، ہمارا ملک وغیرہ، حالانکہ ملک اور شہر کا اصل مالک تو بادشاہ ہوتا ہے۔
(٢) یہاں مضاف الیہ محذوف ہے یعنی ’بآیات ربنا‘(مصادر سابقہ) اور ابوشامہ فرماتے ہیں کہ دونوں قراء توں کے مطابق تکلمھم سے مراد اللہ کا کلام ہے، یعنی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے ہم زمین سے بہت بڑی ڈرانے والی نشانی نکالیں گے جو ان سے مخاطب ہوگی کہ فلاں مومن ہے اور فلاں کافر۔ (ابرازالمعانی، ص۴۲۵)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِعجازی وجوہ

’أن الناس‘ہمزہ مفتوح والی قراء ۃ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ قرب قیامت ایک جانور زمین سے نکلے گا جس کی تائید ’إن الناس‘ ہمزہ مکسور والی قراء ۃ سے بھی ہوتی ہے اور دوسری چیز جو اس قراء ۃ سے ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ جانور کلام بھی کرے گا اور کہے گا کہ یہ لوگ اللہ کی آیات کے ساتھ یقین نہیں رکھتے تھے۔ ان دونوں قراء ات سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن جانور زمین سے نکلے گا بھی اور کلام بھی کرے گا۔یہ دونوں قیامت کی نشانیاں ہیں جن پر ایمان لانا اور صحیح ہونے کا عقیدہ رکھنا ضروری ہے اس کا انکار قطعاً جائز نہیں۔
 
Top