• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسلمانوں کے خلاف کافروں کی پشت پناہی و نصرت کرنے والے صلیبی حلیف و معاون مداخلہ

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
514
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
مسلمانوں کے خلاف کافروں کی پشت پناہی و نصرت کرنے والے صلیبی حلیف و معاون مداخلہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مدخلی فرقہ ایک گمراہ فرقہ ہے جو متعدد انواع واقسام کے ظاہری وباطنی کفریات وشرکیات و زندیقیت سے لبریز ہے جن میں سے ایک مسلمانوں کے خلاف کفار کی معاونت کرنا بالخصوص مجاہدین اسلام کے مقابلے میں کافروں کی مدد و نصرت کرنا ہے اور اس طریق ارتداد پر پوری مدخلیت گامزن ہیں چاہے وہ مدخلیوں کے سیکولر حکمران حفتر، سیسی اور بن سلمان ہو جو حکومتی سطح پر عراق، شام، یمن و دیگر ممالک میں مسلمانوں کے خلاف جنگ میں امریکا کے اتحادی بن مسلمانوں کے قتل میں صلیبیوں کا ساتھ دیتے ہیں۔

یا پھر ان سیکولر حکمرانوں کی چاپلوسی کرنے والے مداخلہ جو مجاہدین اسلام پر خوارج کی تہمت لگا کر امریکا کے پشت پناہ طواغیت کو اولی الامر باور کراتے، امریکی جارحیت کو امن پسندی اور اسلامی جہاد کو دہشتگردی قرار دیکر مسلمانوں کا مجاہدین اسلام کا خون حلال کرتے ہیں اور اپنے بیانات و فتاویٰ کے ذریعے مجاہدین کے مقابلے میں کفار سے دوستی و موالات کرتے اور مسلمانوں کے خلاف کافروں کی معاونت جائز قرار دیتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

لَّا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ
مومنوں کو چاہیے کہ ایمان والوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا اس کا اللہ تعالیٰ سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔


[سورة آل عمران، آیت: ۲۸]

امام ابن جرير الطبری رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

ومعنى ذلك: لا تَتَّخِذوا أيها المؤمنون الكفار ظَهْرًا وأنصارًا، تُوالونهم على ديِنهم، وتُظاهرونهم على المسلمين من دونِ المؤمنين، وتَدلُّونهم على عوراتهم، فإنه مَن يَفْعَلْ ذلك ﴿فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ﴾، يعنى بذلك: فقد برِئَ مِن الله، وبَرِئَ الله منه، بارتدادِه عن دينِه، ودخولِه في الكفرِ

اس کا مطلب یہ ہے کہ اے ایمان والو، کافروں کو حامی و مددگار نہ بناؤ۔ تم ان کے دین میں ان کی حمایت کرتے ہو، مسلمانوں کے مقابلے میں تم ان کی حمایت کرتے ہو، اور ان کے محارم کی طرف دشمنوں کی تحریض کرتے ہو۔ جو بھی ایسا کرتا ہے اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ سے بری ہو گیا ، اور اللہ بھی اس سے بری ہوگیا، اس لیے کہ وہ اس کے دین سے بری ہوگیا۔


[تفسير الطبري جامع البيان - ت التركي، ج: ٥، ص: ٣١٥]

چونکہ مدخلی فرقہ بھی ان کے ہم منہج فرقہ قادیانی کی طرح ایک بزدل اور ڈرپوک فرقہ ہے اس لئے ان مداخلہ میں اتنی ہمت و جرت تو نہیں ہوتی کہ عملی میدان میں آکر مجاہدین اسلام کا مقابلہ کر سکے یا علمی میدان میں ہی ان کے سامنے آکر گفتگو کر لے، اسلئے یہ مخنث مداخلہ حکومتی اداروں پولیس و انٹیلیجنس اجنسیوں کے لئے جاسوسی کر اسلامی شریعت کے نفاذ و خلاف کے قیام کی دعوت دینے والے مسلمانوں، یا کفار کے خلاف جہاد کرنے والے مجاہدین اسلام کی مخبری کر انہیں پکڑوانے اور گرفتار کرانے میں کافروں کی معاونت کرتے ہیں۔

مدخلیوں کے ایک بڑے مولوی احمد بن یحی نجمی سے سوال ہوا :

هل يجوز مساعدة الكفار في إلقاء القبض على من يدعون حقًّا أو باطلا أنَّهم من منظمي هذه العمليات؟ وما الحكم إذا كان منظمي هذه العمليات من المسلمين ؟

اس طرح (جہادی) کاروائیوں میں شامل لوگوں کو گرفتار کرانے میں کیا کفار کی مدد کرنا جائز ہے خواہ ان لوگوں کا دعوی حق ہو یا باطل؟ اور واقعی اس میں شامل افراد مسلمانوں میں سے ہوں تو اس کا کیا حکم ہے؟

اس کے جواب میں مدخلی مولوی احمد بن یحییٰ نجمی کہتا ہے :

يجوز التعاون مع الكفار غير المحاربين على أصحاب العمليات الإرهابية ؛ سواء كانوا من المسلمين أو الكفار ؛ لأنَّ السكوت عنهم يلحق الضرر بالإسلام والمسلمين ، فيظن أنَّ الإسلام دين إرهاب

ان دہشت گرد کاروائیوں میں ملوث افراد کے خلاف ان غیر محارب کفار کا تعاون کرنا بالکل جائز ہے، خواہ وہ لوگ مسلمان ہوں یا کافر، کیونکہ کفار کی مدد نہ کرنے کی صورت میں اسلام و مسلمانوں کو مزید نقصان ہوگا، اور کفار یہ گمان کریں گے اسلام ایک دہشت گرد دین ہے۔


[الفتاوى الجلية عن المناهج الدعوية، ج: ٢، ص: ٥٧]

یہاں سوال کرنے والے نے مجاہدین کی گرفتاری میں مساعدة الكفار یعنی کفار کی مدد کے تعلق سے سوال کیا اور آگے یہ بھی وضاحت کر دی تھی کہ کفار کے خلاف کارروائی کرنے والے "من المسلمين" مسلمانوں میں سے ہیں۔

اس کے باوجود اس بدبخت مدخلی نجمی نے فتویٰ دیا کہ "يجوز التعاون مع الكفار" یعنی کفار کی معاونت کرنا جائز ہے! اور اپنی زندیقیت کی مزید تصدیق کرتے ہوئے نجمی نے یہ بھی کہہ دیا کہ "كانوا من المسلمين" چاہے وہ لوگ مسلمانوں میں سے ہی ہو۔ ان کے خلاف کفار کی معاونت جائز! یہ ہے ان مدخلی زنادقہ کا کفر وارتداد اور اسلام دشمنی۔

امام محمد بن عبد الوھاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

اعلم أن من أعظم نواقض الإسلام عشرة … الثامن : مظاهرة المشركين ومعاونتهم على المسلمين

جان لیجیۓ اسلام کے بڑے نواقض (وہ امور جن کے ارتکاب سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے) دس ہیں۔۔۔۔ جن میں سے آٹھواں کام مسلمانوں کے مقابلے میں مشرکین کو غالب کرنا اور ان کی مدد کرنا ہے۔


[الدرر السنية في الأجوبة النجدية، ج: ١٠، ص: ٩١-٩٢]

شیخ ابو محمد امین اللہ الپشاوری حفظہ اللہ فرماتے ہیں:

اعلم أن مظاهرة المشركين ومعاونتهم على المسلمين كفر بإجماع المسلمين وهو الناقض الثامن الذى ذكره الشيخ محمد بن عبد الوهاب رحمه الله والدليل قوله تعالى : ومن يتولهم منكم فإنه منهم المائدة : ٥١

یہ امر معلوم رہنا چاہیے کہ مسلمانوں کے خلاف مشرکوں کی مدد و نصرت کرنا کفر ہے اور اس پر اہل اسلام کا اجماع و اتفاق ہے۔ شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ نے نواقض اسلام کی بحث میں اسے آٹھویں ناقض کے طور پر بیان کیا ہے۔ اس کی دلیل اللہ عزوجل کا یہ ارشاد ہے: ﴿وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ﴾ [المائدة: ۵۱] ”اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنار پشت پناہ بناتا ہے، تو اس کا شمار پھر انھی میں ہے۔“


[فتاوى الدين الخالص، ج: ٩، ص: ٢١٩]

پس مسلمانوں کے خلاف کفار کی مدد و نصرت کرنے والے مداخلہ بالاجماع کفر بواح کے مرتکب ہیں۔ اب یہاں اس مدخلی مولوی احمد بن یحییٰ نجمی نے "غیر محاربین" کہہ کر ایک فریب دینا چاہا ہے اس سے کوئی دھوکے میں نہ پڑے کہ نجمی کی مراد یہاں جنگجو کافر نہیں ہے! مجاہدین کی گرفتاری میں جن کفار کی معاونت کے جواز کا فتویٰ اس بدبخت نے دیا ہے ان کو غیر محاربین قرار دینا خود اس نجمی کی خباثت کا ایک ثبوت ہے۔

شیخ ابو عبداللہ المہاجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

أن كل كافر ليس له أمان من أهل الإسلام : فهو حربي بالذات وجدت منه المحاربة أم لا.
ہر وہ کافر جس کو اہل اسلام سے امان حاصل نہیں: وہ حربی ہے، خواہ وہ جنگ لڑنے والا ہو یا نہ ہو۔


[مسائل من فقه الجهاد، ص: ٤٣]

جس کافر کو اہل اسلام سے امان حاصل نہ ہو وہ محارب ہوتا ہے چاہے وہ بذات خود جنگ لڑے یا نہ لڑے تو عراق، شام، یمن، افغانستان میں اسلام و مسلمانوں کے خلاف جنگ لڑنے والے امریکا اور اس کے اتحادی جن کے پاس نہ امان ہیں بلکہ وہ بذات خود مسلمانوں کے علاقوں پر حملہ آور ہوکر انہیں اپنی جارحیت کا نشانہ بنا رہے ہیں وہ بدرجہ اولی محاربین میں شمار ہوتے ہیں۔

لیکن اسلام کے خلاف حرب میں شامل ان کافروں کو مداخلہ غیر محاربین قرار دیتے ہیں اس کی وجہ مدخلیوں کے طواغیت ہیں جنہیں مداخلہ اولی الامر باور کراتے ہیں وہ خود امریکا کے اتحادی بنے ہوئے ہیں، یہود و نصاریٰ سے ولاء رکھتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف جنگ میں ایک دوسرے کے معاون بازو اور محافظ ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَىٰ أَوْلِيَاءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ

اے ایمان والو! تم یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بیشک انہی میں سے ہے، ظالموں کو اللہ تعالیٰ ہرگز راہ راست نہیں دکھاتا۔


[سورۃ المائدہ، آیت : ٥١]

اب اس مدخلی مولوی احمد نجمی کے اس غیر محاربین والے مغالطے کا پردہ چاک کرنے کے لئے ہم آپ کو اس نجمی کا ہی ایک بیان پیش کر رہے ہیں جس میں اس نے مسلمانوں کو تکفیری کا طعنہ دیکر ان کو گرفتار کروانے میں اسلام دشمن کافر فرانسیسی حکومت کی معاونت کرنے کا فتویٰ دیا ملاحظہ فرمائیں:

یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ فرانس امریکہ کا پرانا اتحادی ہے اور اس نے مجاہدین کے خلاف جنگ میں امریکہ کا بھرپور ساتھ دیا ہے تو اس قسم کے کفار جو اسلام و مسلمانوں کے خلاف جاری حرب میں سرفہرست ہیں مدخلی مولوی نجمی کا انہیں غیر محارب قرار دینا اور مجاہدین کی گرفتاری میں ان کی معاونت کو جائز قرار دینا اس نجمی مدخلی کی مکاری و کفر کی دلیل ہے یہ مداخلہ واضح طور پر کفر و ارتداد کے مرتکب ہیں۔

شیخ امین اللہ الپشاوری حفظہ اللہ فرماتے ہیں:

وأنت تعلم أن الحملة الصليبية الكافرة التي يقودها الأمريكان وأولياؤهم من الكفرة الآخرين والمنافقين تستهدف الإسلام والمسلمين فمن أعانهم بأى إعانة في حربهم - سواء كانت هذه الإعانة بالبدن أو بالسلاح أو باللسان أو بالقلب أو بالقلم أو بالمال أو بالرأى أو بغير ذلك - فهى كفر وردة عن الإسلام والعياذ بالله!

اربابِ نظر اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ امریکا اور اس کے حواری کفار و منافقین کی قیادت میں جاری صلیبی حملوں کا اصل ہدف اسلام اور مسلمان ہی ہیں؛ پس جو شخص اس حرب میں ان صلیبیوں کی مدد کرتا ہے، وہ کفر و ارتداد کا مرتکب ٹھہرتا ہے۔ یہ اعانت کسی بھی نوعیت کی ہو ؛ خواہ جسم سے ہو یا اسلحہ سے، زبان و قلب سے ہو یا قلم و قرطاس سے ، مال و دولت سے ہو یا مشورے و رائے یا اور کسی بھی دوسرے طریقے سے ، ہر صورت میں اسے کفر و ارتداد ہی قرار دیا جائے گا۔ والعیاذ باللہ۔


[فتاوى الدين الخالص، ج: ٩، ص: ٢١٩]
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
مسلمانوں کے خلاف کافروں کی پشت پناہی و نصرت کرنے والے صلیبی حلیف و معاون مداخلہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مدخلی فرقہ ایک گمراہ فرقہ ہے جو متعدد انواع واقسام کے ظاہری وباطنی کفریات وشرکیات و زندیقیت سے لبریز ہے جن میں سے ایک مسلمانوں کے خلاف کفار کی معاونت کرنا بالخصوص مجاہدین اسلام کے مقابلے میں کافروں کی مدد و نصرت کرنا ہے اور اس طریق ارتداد پر پوری مدخلیت گامزن ہیں چاہے وہ مدخلیوں کے سیکولر حکمران حفتر، سیسی اور بن سلمان ہو جو حکومتی سطح پر عراق، شام، یمن و دیگر ممالک میں مسلمانوں کے خلاف جنگ میں امریکا کے اتحادی بن مسلمانوں کے قتل میں صلیبیوں کا ساتھ دیتے ہیں۔

یا پھر ان سیکولر حکمرانوں کی چاپلوسی کرنے والے مداخلہ جو مجاہدین اسلام پر خوارج کی تہمت لگا کر امریکا کے پشت پناہ طواغیت کو اولی الامر باور کراتے، امریکی جارحیت کو امن پسندی اور اسلامی جہاد کو دہشتگردی قرار دیکر مسلمانوں کا مجاہدین اسلام کا خون حلال کرتے ہیں اور اپنے بیانات و فتاویٰ کے ذریعے مجاہدین کے مقابلے میں کفار سے دوستی و موالات کرتے اور مسلمانوں کے خلاف کافروں کی معاونت جائز قرار دیتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

لَّا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ
مومنوں کو چاہیے کہ ایمان والوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا اس کا اللہ تعالیٰ سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔


[سورة آل عمران، آیت: ۲۸]

امام ابن جرير الطبری رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

ومعنى ذلك: لا تَتَّخِذوا أيها المؤمنون الكفار ظَهْرًا وأنصارًا، تُوالونهم على ديِنهم، وتُظاهرونهم على المسلمين من دونِ المؤمنين، وتَدلُّونهم على عوراتهم، فإنه مَن يَفْعَلْ ذلك ﴿فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ﴾، يعنى بذلك: فقد برِئَ مِن الله، وبَرِئَ الله منه، بارتدادِه عن دينِه، ودخولِه في الكفرِ

اس کا مطلب یہ ہے کہ اے ایمان والو، کافروں کو حامی و مددگار نہ بناؤ۔ تم ان کے دین میں ان کی حمایت کرتے ہو، مسلمانوں کے مقابلے میں تم ان کی حمایت کرتے ہو، اور ان کے محارم کی طرف دشمنوں کی تحریض کرتے ہو۔ جو بھی ایسا کرتا ہے اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ سے بری ہو گیا ، اور اللہ بھی اس سے بری ہوگیا، اس لیے کہ وہ اس کے دین سے بری ہوگیا۔


[تفسير الطبري جامع البيان - ت التركي، ج: ٥، ص: ٣١٥]

چونکہ مدخلی فرقہ بھی ان کے ہم منہج فرقہ قادیانی کی طرح ایک بزدل اور ڈرپوک فرقہ ہے اس لئے ان مداخلہ میں اتنی ہمت و جرت تو نہیں ہوتی کہ عملی میدان میں آکر مجاہدین اسلام کا مقابلہ کر سکے یا علمی میدان میں ہی ان کے سامنے آکر گفتگو کر لے، اسلئے یہ مخنث مداخلہ حکومتی اداروں پولیس و انٹیلیجنس اجنسیوں کے لئے جاسوسی کر اسلامی شریعت کے نفاذ و خلاف کے قیام کی دعوت دینے والے مسلمانوں، یا کفار کے خلاف جہاد کرنے والے مجاہدین اسلام کی مخبری کر انہیں پکڑوانے اور گرفتار کرانے میں کافروں کی معاونت کرتے ہیں۔

مدخلیوں کے ایک بڑے مولوی احمد بن یحی نجمی سے سوال ہوا :

هل يجوز مساعدة الكفار في إلقاء القبض على من يدعون حقًّا أو باطلا أنَّهم من منظمي هذه العمليات؟ وما الحكم إذا كان منظمي هذه العمليات من المسلمين ؟

اس طرح (جہادی) کاروائیوں میں شامل لوگوں کو گرفتار کرانے میں کیا کفار کی مدد کرنا جائز ہے خواہ ان لوگوں کا دعوی حق ہو یا باطل؟ اور واقعی اس میں شامل افراد مسلمانوں میں سے ہوں تو اس کا کیا حکم ہے؟


اس کے جواب میں مدخلی مولوی احمد بن یحییٰ نجمی کہتا ہے :

يجوز التعاون مع الكفار غير المحاربين على أصحاب العمليات الإرهابية ؛ سواء كانوا من المسلمين أو الكفار ؛ لأنَّ السكوت عنهم يلحق الضرر بالإسلام والمسلمين ، فيظن أنَّ الإسلام دين إرهاب

ان دہشت گرد کاروائیوں میں ملوث افراد کے خلاف ان غیر محارب کفار کا تعاون کرنا بالکل جائز ہے، خواہ وہ لوگ مسلمان ہوں یا کافر، کیونکہ کفار کی مدد نہ کرنے کی صورت میں اسلام و مسلمانوں کو مزید نقصان ہوگا، اور کفار یہ گمان کریں گے اسلام ایک دہشت گرد دین ہے۔


[الفتاوى الجلية عن المناهج الدعوية، ج: ٢، ص: ٥٧]

یہاں سوال کرنے والے نے مجاہدین کی گرفتاری میں مساعدة الكفار یعنی کفار کی مدد کے تعلق سے سوال کیا اور آگے یہ بھی وضاحت کر دی تھی کہ کفار کے خلاف کارروائی کرنے والے "من المسلمين" مسلمانوں میں سے ہیں۔

اس کے باوجود اس بدبخت مدخلی نجمی نے فتویٰ دیا کہ "يجوز التعاون مع الكفار" یعنی کفار کی معاونت کرنا جائز ہے! اور اپنی زندیقیت کی مزید تصدیق کرتے ہوئے نجمی نے یہ بھی کہہ دیا کہ "كانوا من المسلمين" چاہے وہ لوگ مسلمانوں میں سے ہی ہو۔ ان کے خلاف کفار کی معاونت جائز! یہ ہے ان مدخلی زنادقہ کا کفر وارتداد اور اسلام دشمنی۔

امام محمد بن عبد الوھاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

اعلم أن من أعظم نواقض الإسلام عشرة … الثامن : مظاهرة المشركين ومعاونتهم على المسلمين

جان لیجیۓ اسلام کے بڑے نواقض (وہ امور جن کے ارتکاب سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے) دس ہیں۔۔۔۔ جن میں سے آٹھواں کام مسلمانوں کے مقابلے میں مشرکین کو غالب کرنا اور ان کی مدد کرنا ہے۔


[الدرر السنية في الأجوبة النجدية، ج: ١٠، ص: ٩١-٩٢]

شیخ ابو محمد امین اللہ الپشاوری حفظہ اللہ فرماتے ہیں:

اعلم أن مظاهرة المشركين ومعاونتهم على المسلمين كفر بإجماع المسلمين وهو الناقض الثامن الذى ذكره الشيخ محمد بن عبد الوهاب رحمه الله والدليل قوله تعالى : ومن يتولهم منكم فإنه منهم المائدة : ٥١

یہ امر معلوم رہنا چاہیے کہ مسلمانوں کے خلاف مشرکوں کی مدد و نصرت کرنا کفر ہے اور اس پر اہل اسلام کا اجماع و اتفاق ہے۔ شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ نے نواقض اسلام کی بحث میں اسے آٹھویں ناقض کے طور پر بیان کیا ہے۔ اس کی دلیل اللہ عزوجل کا یہ ارشاد ہے: ﴿وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ﴾ [المائدة: ۵۱] ”اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنار پشت پناہ بناتا ہے، تو اس کا شمار پھر انھی میں ہے۔“


[فتاوى الدين الخالص، ج: ٩، ص: ٢١٩]

پس مسلمانوں کے خلاف کفار کی مدد و نصرت کرنے والے مداخلہ بالاجماع کفر بواح کے مرتکب ہیں۔ اب یہاں اس مدخلی مولوی احمد بن یحییٰ نجمی نے "غیر محاربین" کہہ کر ایک فریب دینا چاہا ہے اس سے کوئی دھوکے میں نہ پڑے کہ نجمی کی مراد یہاں جنگجو کافر نہیں ہے! مجاہدین کی گرفتاری میں جن کفار کی معاونت کے جواز کا فتویٰ اس بدبخت نے دیا ہے ان کو غیر محاربین قرار دینا خود اس نجمی کی خباثت کا ایک ثبوت ہے۔

شیخ ابو عبداللہ المہاجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

أن كل كافر ليس له أمان من أهل الإسلام : فهو حربي بالذات وجدت منه المحاربة أم لا.
ہر وہ کافر جس کو اہل اسلام سے امان حاصل نہیں: وہ حربی ہے، خواہ وہ جنگ لڑنے والا ہو یا نہ ہو۔


[مسائل من فقه الجهاد، ص: ٤٣]

جس کافر کو اہل اسلام سے امان حاصل نہ ہو وہ محارب ہوتا ہے چاہے وہ بذات خود جنگ لڑے یا نہ لڑے تو عراق، شام، یمن، افغانستان میں اسلام و مسلمانوں کے خلاف جنگ لڑنے والے امریکا اور اس کے اتحادی جن کے پاس نہ امان ہیں بلکہ وہ بذات خود مسلمانوں کے علاقوں پر حملہ آور ہوکر انہیں اپنی جارحیت کا نشانہ بنا رہے ہیں وہ بدرجہ اولی محاربین میں شمار ہوتے ہیں۔

لیکن اسلام کے خلاف حرب میں شامل ان کافروں کو مداخلہ غیر محاربین قرار دیتے ہیں اس کی وجہ مدخلیوں کے طواغیت ہیں جنہیں مداخلہ اولی الامر باور کراتے ہیں وہ خود امریکا کے اتحادی بنے ہوئے ہیں، یہود و نصاریٰ سے ولاء رکھتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف جنگ میں ایک دوسرے کے معاون بازو اور محافظ ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَىٰ أَوْلِيَاءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ

اے ایمان والو! تم یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بیشک انہی میں سے ہے، ظالموں کو اللہ تعالیٰ ہرگز راہ راست نہیں دکھاتا۔


[سورۃ المائدہ، آیت : ٥١]

اب اس مدخلی مولوی احمد نجمی کے اس غیر محاربین والے مغالطے کا پردہ چاک کرنے کے لئے ہم آپ کو اس نجمی کا ہی ایک بیان پیش کر رہے ہیں جس میں اس نے مسلمانوں کو تکفیری کا طعنہ دیکر ان کو گرفتار کروانے میں اسلام دشمن کافر فرانسیسی حکومت کی معاونت کرنے کا فتویٰ دیا ملاحظہ فرمائیں:

یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ فرانس امریکہ کا پرانا اتحادی ہے اور اس نے مجاہدین کے خلاف جنگ میں امریکہ کا بھرپور ساتھ دیا ہے تو اس قسم کے کفار جو اسلام و مسلمانوں کے خلاف جاری حرب میں سرفہرست ہیں مدخلی مولوی نجمی کا انہیں غیر محارب قرار دینا اور مجاہدین کی گرفتاری میں ان کی معاونت کو جائز قرار دینا اس نجمی مدخلی کی مکاری و کفر کی دلیل ہے یہ مداخلہ واضح طور پر کفر و ارتداد کے مرتکب ہیں۔

شیخ امین اللہ الپشاوری حفظہ اللہ فرماتے ہیں:

وأنت تعلم أن الحملة الصليبية الكافرة التي يقودها الأمريكان وأولياؤهم من الكفرة الآخرين والمنافقين تستهدف الإسلام والمسلمين فمن أعانهم بأى إعانة في حربهم - سواء كانت هذه الإعانة بالبدن أو بالسلاح أو باللسان أو بالقلب أو بالقلم أو بالمال أو بالرأى أو بغير ذلك - فهى كفر وردة عن الإسلام والعياذ بالله!

اربابِ نظر اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ امریکا اور اس کے حواری کفار و منافقین کی قیادت میں جاری صلیبی حملوں کا اصل ہدف اسلام اور مسلمان ہی ہیں؛ پس جو شخص اس حرب میں ان صلیبیوں کی مدد کرتا ہے، وہ کفر و ارتداد کا مرتکب ٹھہرتا ہے۔ یہ اعانت کسی بھی نوعیت کی ہو ؛ خواہ جسم سے ہو یا اسلحہ سے، زبان و قلب سے ہو یا قلم و قرطاس سے ، مال و دولت سے ہو یا مشورے و رائے یا اور کسی بھی دوسرے طریقے سے ، ہر صورت میں اسے کفر و ارتداد ہی قرار دیا جائے گا۔ والعیاذ باللہ۔


[فتاوى الدين الخالص، ج: ٩، ص: ٢١٩]
السلام عليكم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مداخلہ کیا ہیں کون ہیں، کیسے ہیں، اس سے قطع نظر، زیر نظر تحریر میں مسلمانوں کو كلاب النار بنے کی دعوت دی جارہی ہے!
جہاد حاکم کی اجازت سے ہوگا اس کے بغیر کوئی بھی جہاد کا نام لے کر مسلمانوں کو اکساتا ہے، وہ مسلمانوں کو فتنہ و فساد کی دعوت دیتا ہے، اور ایسے نام نہاد ''جہادی'' در حقیقت فسادی ہیں!
 
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
514
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
السلام عليكم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

زیر نظر تحریر میں مسلمانوں کو كلاب النار بنے کی دعوت دی جارہی ہے!
نہ یہ دعوتی پوسٹ ہے نہ اس میں کوئی دعوت دی گئی بلکہ اس میں فرقہ مدخلیہ کی ایک گمراہی کا رد کیا گیا ہے۔ کیا مسلمانوں کے خلاف فرانسیسی کافروں کے لئے جاسوسی، مخبری کرنے کا رد آپ کے نزدیک کلاب النار بننے کی دعوت ہے؟

جہاد حاکم کی اجازت سے ہوگا اس کے بغیر کوئی بھی جہاد کا نام لے کر مسلمانوں کو اکساتا ہے، وہ مسلمانوں کو فتنہ و فساد کی دعوت دیتا ہے، اور ایسے نام نہاد ''جہادی'' در حقیقت فسادی ہیں
کون سے حاکم کی اجازت سے؟ نریندر مودی کی اجازت سے یا عمران خان کی اجازت سے؟ یا اردگان، بن سلمان و سیسی کی اجازت سے؟

اور اگر ان کی اجازت کے بغیر کوئی بھی جہاد کا نام لےگا تو وہ فساد کی دعوت ہوگی؟ اگر حکمرانوں کی اجازت کے بغیر فلسطینی اگر اسرائیل کے خلاف جہاد کی بات کرے تو وہ فسادی ہونگے؟ افغانستان میں امریکا کے خلاف جو ہوا وہ فساد تھا؟ شام میں بشار اسد رافضی کے خلاف کوئی جہاد کا نام لے وہ فتنہ کرنے والا ؟ ہندوستان میں بی جے پی حکومت کے خلاف کوئی بولے یا آر ایس ایس کے سنگھیوں کے خلاف لڑنے کی بات کرے وہ فسادی؟؟؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

نہ یہ دعوتی پوسٹ ہے نہ اس میں کوئی دعوت دی گئی بلکہ اس میں فرقہ مدخلیہ کی ایک گمراہی کا رد کیا گیا ہے۔
تو کیا آپ کے نزدیک رد دعوت نہیں ہوتی؟
اگر آپ کے مذکورہ مراسلہ کا مکمل جائزہ بیان کروں تو بہت سے ایسے أمور بتلائیے جا سکتے ہیں جس میں مسلمانوں کو مسلمانوں کی بلا صحیح شرعی دلیل کے تکفیر اور وہ بھی تکفیر معین کی دعوت ہے!
کیا مسلمانوں کے خلاف فرانسیسی کافروں کے لئے جاسوسی، مخبری کرنے کا رد آپ کے نزدیک کلاب النار بننے کی دعوت ہے؟
آپ کے مذکورہ مراسلہ میں بقول آپ کے ''مدخلی مولوی احمد بن یحییٰ نجمی'' کےفتوی سے جو اقتباس پیش کیا گیا ہے، میں اس سے بالکل متفق ہوں۔
میں نہ آپ کے ذکر کردہ ''مدخلی مولوی احمد بن یحییٰ نجمی'' کو جانتا، اور نہ مجھے یہ معلوم ہے کہ یہ فتوی کب صادر فرمایا ہے، میں تو پچھلی صدی سے اس بات کا قائل ہوں!
آپ نے ان ''مدخلی مولوی احمد بن یحییٰ نجمی'' کے فتوی کے اقتباس کو بیان کرنے میں یا تو جذبات کی رو میں غلطی کر دی ہے، یا دانستہ، بہر حال کے بیان میں بہت بڑا فساد مضمر ہے!
آپ نے ''مدخلی مولوی احمد بن یحییٰ نجمی'' کا درج ذیل کلام پیش کیا:
هل يجوز مساعدة الكفار في إلقاء القبض على من يدعون حقًّا أو باطلا أنَّهم من منظمي هذه العمليات؟ وما الحكم إذا كان منظمي هذه العمليات من المسلمين ؟
ترجمہ بھی آپ نے ہی پیش کیا:
ان دہشت گرد کاروائیوں میں ملوث افراد کے خلاف ان غیر محارب کفار کا تعاون کرنا بالکل جائز ہے، خواہ وہ لوگ مسلمان ہوں یا کافر، کیونکہ کفار کی مدد نہ کرنے کی صورت میں اسلام و مسلمانوں کو مزید نقصان ہوگا، اور کفار یہ گمان کریں گے اسلام ایک دہشت گرد دین ہے۔
یہاں واضح الفاظ میں موجود ہے کہ ''غیر محارب کفار'' سے تعاون ''دہشت گرد کاروائیوں میں ملوث'' کے خلاف ہے، خواہ مسلمان ہوں!
یعنی ''دہشت گرد مسلمانوں ''کے خلاف ''غیر محارب کفار سے تعاون'' کا قول ہے۔
اور آپ نے اسے بیان کرتے ہوئے ''دہشت گرد'' کا وصف حذف کرکے مطلق مسلمان کردیا!
دیکھیں آپ نے اسے یوں بیان کیا ہے۔
یہاں سوال کرنے والے نے مجاہدین کی گرفتاری میں مساعدة الكفار یعنی کفار کی مدد کے تعلق سے سوال کیا اور آگے یہ بھی وضاحت کر دی تھی کہ کفار کے خلاف کارروائی کرنے والے "من المسلمين" مسلمانوں میں سے ہیں۔

اس کے باوجود اس بدبخت مدخلی نجمی نے فتویٰ دیا کہ "يجوز التعاون مع الكفار" یعنی کفار کی معاونت کرنا جائز ہے! اور اپنی زندیقیت کی مزید تصدیق کرتے ہوئے نجمی نے یہ بھی کہہ دیا کہ "كانوا من المسلمين" چاہے وہ لوگ مسلمانوں میں سے ہی ہو۔ ان کے خلاف کفار کی معاونت جائز! یہ ہے ان مدخلی زنادقہ کا کفر وارتداد اور اسلام دشمنی۔
یہ بھی ایک دوسری بحث ہے کہ کفار کی کس ریاست کے خلاف کس نے اعلان جہاد کیا ہوا ہے؟ موضوع کو وسیع نہ کرنے کی غرض سے اس بحث سے قطع نظر!
کون سے حاکم کی اجازت سے؟ نریندر مودی کی اجازت سے یا عمران خان کی اجازت سے؟ یا اردگان، بن سلمان و سیسی کی اجازت سے؟
اب یہ دانستہ ہے یا بے احتیاطی کہ مسلمان حکمرانوں کو کافر حکمران کے ساتھ اس طرح بیان کیا گیا کہ مسلمان حکمران اور کافر حکمران کے احکامات میں کوئی فرق ہی نہیں!
یا کہ یہ مسلمان حکمران مسلمان ہی نہیں اور کفار ہیں!
اب یہ دانستہ ہے، یا بے احتیاطی !!
کفار حکمران و کافر حکومت کے معاملہ کو فی الوقت ملتوی کرتے ہیں، اور مسلمان حکمران کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ:
تمام مسلم ریاستوں کے باشندے اپنے اپنے مسلم حکمرانوں کے تابع ہیں، اور ان پر جہاد کے لیئے اپنے حاکم کی اجازت لازم ہے!
اور اگر ان کی اجازت کے بغیر کوئی بھی جہاد کا نام لےگا تو وہ فساد کی دعوت ہوگی؟
بلکل فساد!
اگر حکمرانوں کی اجازت کے بغیر فلسطینی اگر اسرائیل کے خلاف جہاد کی بات کرے تو وہ فسادی ہونگے؟
بلکل جناب ! یہ فتنہ گر و فساد ی ہوں گے! کچھ فتنہ برپا کرنے والے اور کچھ معذور فتنہ کا شکار ہونے والے، کہ کسی عذر کی بنا فتنہ کا شکار ہو گئے!
افغانستان میں امریکا کے خلاف جو ہوا وہ فساد تھا؟
أفغانستان میں روس کے مقابلہ میں جہاد ہوا، اور اسی أفغانستان میں روس کے انخلاء کے بعد فساد بپا ہوا! اور NATO کے مقابلے میں قابض کے خلاف جہاد ہوا! اور اب حکومت أفغانستان نے امریکہ اور NATO معاہدہ کیا ہے، اب کوئی افغانی امریکہ اور NATO ممالک میں کوئی بھی کاروائی بنام ''جہاد '' کرتا ہے تو وہ فساد ہو گا!
شام میں بشار اسد رافضی کے خلاف کوئی جہاد کا نام لے وہ فتنہ کرنے والا ؟
قتال شروع کرنے سے قبل سوچنا چاہئے کہ اگر بشار کو ہٹا کر شام پر قبضہ کرنے کی طاقت نہیں، تو قتال جہاد کے بجائے فتنہ نہ بن جائے!

ہندوستان میں بی جے پی حکومت کے خلاف کوئی بولے یا آر ایس ایس کے سنگھیوں کے خلاف لڑنے کی بات کرے وہ فسادی؟؟؟
بلکل وہی جو شام کے حوالہ سے عرض کیا!
ایک ضمنی بات! بی جے پی اور آر ایس ایس ہی کیوں؟ کانگریس کی حکومت میں کیا بھارت میں خلافت اسلامیہ قائم ہو جاتی ہے؟
آپ کے سوالو ں کے جواب تو ہم نے دے دیئے! اور مزید گفتگو اس سوال کے جواب پر موقوف ہے!

اب آپ سے ایک سوال ہے؛

حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَاحِدِ، حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا مُجَاهِدٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا لَمْ يَرِحْ رَائِحَةَ الجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيحَهَا تُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ أَرْبَعِينَ عَامًا«
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جس نے کسی معاہد کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پا سکے گا ۔ حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی راہ سے سونگھی جا سکتی ہے۔
صحيح البخاري»» كِتَابُ الجِزْيَةِ »» بَابُ إِثْمِ مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا بِغَيْرِ جُرْمٍ
اتنا بتلا دیں کہ کیا کفار، اور کفار کے ممالک ہر ایک مسلمان سے انفرادی طور پر انفرادی حیثیت میں معاہدہ کریں گے؟
کہ جس کی پاسداری مسلمان پر لازم ہے، اور حکومت کے معاہدہ کی پاسداری مسلمان پر لازم نہیں؟
 
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
514
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

تو کیا آپ کے نزدیک رد دعوت نہیں ہوتی؟
جی نہیں رد کرنا اور دعوت دینا دو الگ افعال ہیں دعوت میں کسی چیز کی جانب بلایا جاتا ہے اس میں طلب ہوتی ہے جبکہ رد کرنے میں انکار و بطلان ہوتا ہے۔

''مدخلی مولوی احمد بن یحییٰ نجمی'' کےفتوی سے جو اقتباس پیش کیا گیا ہے، میں اس سے بالکل متفق ہوں۔
نہ مجھے یہ معلوم ہے کہ یہ فتوی کب صادر فرمایا ہے، میں تو پچھلی صدی سے اس بات کا قائل ہوں!
ٹھیک ہے اگر آپ نجمی سے متفق ہیں تو آپ کی مرضی۔ آپ بھی اس کے قائل ہیں تو اسلام و مسلمانوں کے دشمن فرانسیسی انٹیلیجنس یا امریکی ایف بی آئی یا پھر انڈین رآ ، این آئی اے و دیگر اجنسیوں کے لئے مخبری و جاسوسی کا کام کرتے رہیں۔ لیکن ہمارے علماء نے اس عمل کو حرام قرار دیا ہے۔ اور کوئی بھی باضمیر غیرت مند مسلمان مدخلیوں کے اس عمل سے متفق نہیں ہو سکتا ہے بلکہ ایسے مخبر و جاسوس تو سزا دئیے جانے کے مستحق ہیں۔

علامہ ابن عثيمين فرماتے ہیں :

الصحيح أنه يجوز قتل الجاسوس الذي ينقل أخبار المسلمين إلى أعدائهم، ولو كان مسلمًا؛ لأنَّ جريمته عظيمة، وفعله هذا موالاة للكفار في الغالب، ودليلُ ذلك أن حاطب بن أبي بلتعه لما أرسل كتابًا إلى قريش، وعلم به النبي - صلى الله عليه وسلم - وسأله ما هذا؟ فأخبره بعذره فقالوا: ألا نقتله يا رسول الله فمنع من قَتْلِه، وقال: "لعل الله اطلع على أهل بدرٍ، فقال: اعملوا ما شئتُم فقد غفرتُ لكم " فهذا يدلُّ على أن قتل الجاسوس جائزٌ، وأنه لولا المانع في قصة حاطب لقتله، وأما توبته فإنه إذا تاب تاب الله عليه كغير الجاسوسية من الذنوب

[مجموع فتاوى ورسائل العثيمين، ج: ٢٥، ص: ٣٨٩]


''دہشت گرد مسلمانوں ''
یہ دہشت گردی کی اصطلاح اسلام کو بدنام کرنے کے لئے مغربی میڈیا اور ان کے ہمنواؤں کی جانب سے جہاد و قتال فی سبیل اللہ کے لئے استعمال کی گئی ہے۔ دہشت گردی ان لوگوں کی من مانی اصطلاح ہے جسے وہ خود بھی ڈفائن نہیں کر پاتے۔ اور ان کے دوگلے پن کا یہ حال ہے کہ

جہاد کو دہشتگردی کہنے والوں کے یہاں کشمیر میں ہزاروں مسلمانوں کا جو قتل ہوا وہ دہشتگردی نہیں لیکن اگر کوئی مسلمان ان ظالموں کے خلاف اٹھ کھڑا ہو تو وہ دہشتگرد کہلائے گا!!

ہندوستان میں مسلمانوں کی مساجد کو مسمار کر وہاں مندر بنائے جا رہے ہیں مسلمانوں پر جھوٹے مقدمات چلا کر ان کے گھروں کو بلڈوزر سے مسمار کیا جا رہا ہے دہلی میں کچھ سال قبل مسلمانوں کے خلاف جو فساد ہوئے تھے میرے اپنے دوستوں نے بتایا کہ ہندؤں نے ٹارگٹ کر ہمارے گھروں کو جلا دیا دکانیں جلا دی یہ عمل دہشت گردی نہیں لیکن اگر ہمارے لوگ ان کے خلاف جوابی اقدام کر دے تو وہ دہشت گردی کہلائے گی!!!

امریکا اور اس کے اتحادیوں نے مل کر عراق، شام و یمن میں فضائی حملے کر کر کے مسلمانوں کی بستیوں کو اجاڑ دیا مسلمانوں کے معصوم بچوں تک کو نہیں بخشا یہ دہشت گردی نہیں لیکر اگر کوئی عراقی شامی مسلمان اس سرکش امریکا کے خلاف اٹھ کھڑا ہو وہ دہشت گرد کہلائے گا!!! کیا ہی دوگلی پالیسی ہیں مسلمانوں کو دہشت گرد کہنے والوں کی!

آپ نے اسے بیان کرتے ہوئے ''دہشت گرد'' کا وصف حذف کرکے مطلق مسلمان کردیا
دہشت گرد کا وصف حذف کر مطلق مسلمان کر دیا کیا مطلب؟ آپ جس عمل کو دہشت گردی مانتے ہیں چلیں فرض کر لیا وہ دہشت گردی ہے اور ایک مسلمان نے اٹھ کر فرانس میں کسی شارم رسول یا اسلام دشمن کو پھڑکا دیا یہ اس نے دہشت گردی کی وہ دہشت گرد بن گیا آپ کی نظر میں! اب کیا اس عمل سے وہ مطلقا مسلمان کیسے نہ رہا؟ اس عمل سے اس کے اسلام میں کیا نقض ہو گیا؟ یا اس سے کون سی بدعت مکفرہ ہو گئی جو اسے صرف مسلمان کا اطلاق اس پر نہیں ہو سکتا؟؟؟

اور عمران خان، بن سلمان، سیسی و اردگان کی اجازت کے بغیر کوئی بھی جہاد کا نام لےگا تو وہ فساد کی دعوت ہوگی کس پر آپ نے بڑے فخر سے کہہ دیا :
بلکل فساد!
پھر تو آپ لوگوں کے اصولوں سے جہاد معطل ہو چکا ان سیکولر حکمرانوں نے تو جہاد کی اجازت تو دور کی بات جہاد کے نام لینے والوں کو ہی زندان نشین کیا ہوا ہے، پس آپ لوگوں کے یہاں جہاد ختم ہو چکا اور آپ کے اس باطل اصول سے تو بہت سی احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب لازم آئی جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : ولا يزالُ من أمَّتي أمةٌ يقاتِلونَ على الحقِّ۔
أنَّ الجهادَ باقٍ إلى قِيامِ السَّاعةِ۔
لَنْ يَبْرَحَ هَذَا الدِّينُ قَائِمًا يُقَاتِلُ عَلَيْهِ عِصَابَةٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ
۔

اب یا تو ہم آپ کی بات کو صحیح تسلیم کر یہ مانے کہ سیکولر حکمرانوں نے اجازت نہیں دی اسلئے اس دور میں جہاد باقی نہ رہا۔ کوئی گروہ جہادی نہیں سب فسادی ہیں۔ یا پھر صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت کو مانے جس میں بیان ہوا جہاد قیامت تک جاری رہے گا، امت کا ایک گروہ حق کے لیے قتال کرتا رہے گا!!!

بلکل جناب ! یہ فتنہ گر و فساد ی ہوں گے
اسرائیل سے نارملائزیشن کرنے والے ظالموں کی اجازت کو آپ جہاد کے لئے مقید کرو گے تو پھر اسرائیل کے ظلم و بربریت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والے مظلوم فلسطینی مسلمان آپ کو فتنہ گر و فسادی و "دہشت گرد مسلمان" تو لگیں گے ہی۔

اور یہ جو مغالطہ دیا جاتا ہے کہ
جہاد کے لیئے اپنے حاکم کی اجازت لازم ہے!
جہاد کی فرضیت کے لئے یہ جعلی شرط لگانے والوں کا رد کرتے ہوئے شیخ عبد الرحمٰن بن حسن آل شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

بأي كتاب، أم بآية حجة أن الجهاد لا يجب إلا مع إمام متبع؟! هذا من الفرية في الدين، والعدول عن سبيل المؤمنين؛ والأدلة على إبطال هذا القول أشهر من أن تذكر، من ذلك عموم الأمر بالجهاد، والترغيب فيه، والوعيد في تركه

[الدرر السنية في الأجوبة النجدية، ج: ٨، ص: ١٩٩]

یہاں شیخ رحمہ اللہ نے جہاد کے وجوب کو حکمرانوں سے مشروط کرنے کو الفرية في الدين اور العدول عن سبيل المؤمنين قرار دیا ہے۔

اسی طرح شیخ عبد الرحمٰن بن حسن آل شیخ رحمہ اللہ جہاد کے لئے حکمرانوں کی اجازت کی جعلی شرط کے بطلان میں دلیل پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

والعبر والأدلة على بطلان ما ألفته، كثير في الكتاب، والسنة، والسير، والأخبار، وأقوال أهل العلم بالأدلة والآثار، لا تكاد تخفى على البليد إذا علم بقصة أبي بصير: " لما جاء مهاجراً فطلبت قريش من رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يرده إليهم، بالشرط الذي كان بينهم في صلح الحديبية، فانفلت منهم حين قتل المشركيْن، اللذين أتيا في طلبه. فرجع إلى الساحل لما سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ويل أمه مسعر حرب، لو كان معه غيره " ١، فتعرض لعير قريش - إذا أقبلت من الشام - يأخذ ويقتل، فاستقل بحربهم دون رسول الله صلى الله عليه وسلم، لأنهم كانوا معه في صلح - القصة بطولها -. فهل قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أخطأتم في قتال قريش، لأنكم لستم مع إمام؟ سبحان الله ما أعظم مضرة الجهل على أهله؟ عياذاً بالله من معارضة الحق بالجهل والباطل، قال الله تعالى: {شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحاً وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ} الآية [سورة الشورى آية: ١٣] .

[الدرر السنية في الأجوبة النجدية، ج: ٨، ص: ٢٠٠-٢٠١]

اور شیخ حامد بن عبداللہ العلی الکویتی سے ان لوگوں کے متعلق جو یہ گمان کرتے ہیں کہ بغیر حکمران کے جہاد نہیں ہوتا اور فلسطین و عراق کے جہاد کو فتنہ کہنے والوں کے تعلق سے سوال ہوا :

ما رأيكم فيمن زعم أن الجهاد لايكون إلا بإمام، وحتى فلسطين لابد من إذن الإمام، وفي العراق قال؛ إن جهادهم جهاد فتنة، لانه بغير إذن الإمام، وما قول العلماء في هذا الموضوع جزاكم الله خيرا؟

جس کے جواب میں شیخ حامد بن عبداللہ العلی الکویتی نے ایسے لوگوں کو جاہل قرار دیتے ہوئے فرمایا:

فهذا لايقوله إلا جاهل مطموس على بصيرته، أو واقع تحت الاكراه، لآنه قول باطل عند جميع العلماء، مردود عند جماعة الفقهاء، وأنقل لك ما ذكره في النوازل الكبرى [الجزء الثالث / ص ١١]

[فتاوى وسؤالات حول الجهاد والإمام]

اس کے علاوہ شیخ حامد العلی الکویتی نے جہاد کے لئے حکمرانوں کی شرط لگانے کو روافض کا قول قرار دیتے ہوئے فرمایا :

القول بأن الجهاد لايكون إلا مع الإمام هو قول الرافضة، أما أهل السنة فلا يعرفون هذا الشرط، إنما يشترطون إذن الإمام إن كان موجودا قائما بالجهاد الشرعي، كما يشترط إذنه في كل الأمور العامة لئلا يفتئت عليه. قال صديق خان: (الأدلة على وجوب الجهاد من الكتاب والسنة وردت غير مقيدة بكون السلطان أو أمير الجيش عادلاً بل هذه فريضة من فرائض الدين أوجبها الله على عباده المسلمين من غير تقيد بزمان أو مكان أو شخص أو عدل أو جور) [الروضة/٣٣٣]

[فتاوى وسؤالات حول الجهاد والإمام]

قتال شروع کرنے سے قبل سوچنا چاہئے کہ اگر بشار کو ہٹا کر شام پر قبضہ کرنے کی طاقت نہیں، تو قتال جہاد کے بجائے فتنہ نہ بن جائے!
اب یہ اصول کہا سے وضع کر لیا آپ نے کہ ایک ملحد رافضی کو ہٹا کر پورا ملک قبضہ کرنے کی طاقت نہ ہو تو اس کے خلاف جہاد بھی فتنہ قرار پائے گا؟؟؟

ایک ضمنی بات! بی جے پی اور آر ایس ایس ہی کیوں؟ کانگریس کی حکومت میں کیا بھارت میں خلافت اسلامیہ قائم ہو جاتی ہے؟
بی جے پی اور آر ایس ایس اس لئے کہ اس وقت وہی حکومت پر قابض ہے! کانگریس کا تو لگ بھگ خاتمہ ہو چکا ہے ہندوستان میں۔ اب بی جے پی حکومت میں ہے تو انہیں کو مینشن کریں گے کانگریس یا بریٹیش حکومت جو وہاں باقی ہیں نہ رہی انہیں مینشن کرنا بے معنی ہوگا لیکن آپ کو اس پر اعتراض کیوں ہوا جو کانگریس کو خلافت اسلامیہ سے تشبیہ دینے لگے؟ بی جے پی و سنگھیوں کے خلاف بولنے سے کانگریس کی حمایت تو لازم نہیں آتی؟؟؟

حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَاحِدِ، حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا مُجَاهِدٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا لَمْ يَرِحْ رَائِحَةَ الجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيحَهَا تُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ أَرْبَعِينَ عَامًا«
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جس نے کسی معاہد کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پا سکے گا ۔ حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی راہ سے سونگھی جا سکتی ہے۔
‌صحيح البخاري»» كِتَابُ الجِزْيَةِ »» بَابُ إِثْمِ مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا بِغَيْرِ جُرْمٍ
اس روایت کو آپ نے اسلام و مسلمانوں کے خلاف صف اول میں لڑنے والے فرانس، امریکا اور ہندوستان کے حربی کافروں پر چسپا کر دیا حالانکہ جو مسلسل مسلمانوں کا خون بہانے میں مصروف ہیں، حکومتی سطح پر اللہ اور اس کے رسول کی گستاخیاں فریڈم آف اسپیچ کے نام پر کروا رہے ہیں آپ کے سیکولر حکمران اگر ان سے یاریاں لگاتے پھرے ان کے اتحادی بن جائے تو وہ قطعا معاہد نہیں ہو جائیں گے! بلکہ اگر واقعی کافروں سے معاہدہ ہو اور معاہد ایسے جرم سرانجام دے تو ان کا معاہدہ باقی نہیں رہتا جیسا کہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرنے والے معاہد کے متعلق فرمایا : أن المعاهد الهاجي يباح دمه [الصارم المسلول على شاتم الرسول، ص : ١٠٨]

رہی بات اس روایت میں معاہد کے قتل پر وعید کے تعلق سے تو امام بخاری رحمہ اللہ نے اس پر جو باب قائم کیا ہے اس میں واضح لکھا ہے "بَابُ إِثْمِ مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا بِغَيْرِ جُرْمٍ" یعنی کسی معاہد کو بغیر جرم کے قتل کرنے والے کا گناہ۔ یہ الفاظ دلالت التزامی ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی معاہد کو کسی جرم کے سبب قتل کر دے تو اس مسلمان پر کوئی گناہ نہیں۔

اور اوپر ابو بصیر رضی اللہ عنہ کا واقعہ جسے شیخ عبد الرحمٰن بن حسن رحمہ اللہ نے جہاد کے لئے حکمران کی شرط لگانے والوں کے رد میں دلیل بنایا ہے اسی واقعہ میں یہ بھی دلیل ہے کہ ابو بصیر رضی اللہ عنہ نے قریش جن سے معاہدہ تھا ان کے ایک معاہد قاصد کو قتل کر دیا : فَضَرَبَهُ حَتَّى بَرَدَ وَفَرَّ الْآخَرُ حَتَّى أَتَى الْمَدِينَةَ فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ يَعْدُو یعنی ابو بصیر رضی اللہ عنہ نے تلوار سے ایسی ضرب لگائی کہ وہ وہیں ٹھنڈا ہو گیا اور اس کا دوسرا ساتھی بھاگ کر مدینہ آیا اور مسجد میں دوڑتے ہوئے مسجد میں پناہ لی۔

اب بتائیں کہ کیا مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا لَمْ يَرِحْ رَائِحَةَ الجَنَّةِ والی حدیث کی رو سے ابو بصیر رضی اللہ عنہ جند کی خشبو بھی نہ پا سکیں گے؟ کیونکہ انہوں نے ایک معاہد کو قتل کیا؟ اگر ایسا نہیں ہے تو آپ کا اس روایت کو دلیل میں پیش کر فرانس امریکا یا ہندوستان کے پلید کافروں کے خلاف جہاد کرنے والوں کو اس وعید کا مصداق ثابت کرنا باطل ہے۔

ہمارے محترم شیخ مولانا عبد الرحمٰن الندوی رحمہ اللہ ابو بصیر رضی اللہ عنہ کے اس واقعے کے متعلق اپنے ایک درس میں فرماتے ہیں : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کافروں سے یہ نہیں کہا کہ ہم سب مل کر ان کو پکڑ لیں گے ان پر حملہ کر دیں گے اسلئے کہ یہ دہشتگردی کرنے والے ہیں یہ ٹیررزم پھیلانے والے ہیں یہ آتنک واد پھیلانے والے ہیں یہ معاہدے کو توڑنے والے ہیں ہم دونوں مل جائیں گے اور ان پر حملہ کر دیں گے اسلئے کہ یہ امن کو ختم کر رہے ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے کچھ بھی ایسا نہیں کیا۔
 
Last edited:
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
514
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
اتنا بتلا دیں کہ کیا کفار، اور کفار کے ممالک ہر ایک مسلمان سے انفرادی طور پر انفرادی حیثیت میں معاہدہ کریں گے؟
کہ جس کی پاسداری مسلمان پر لازم ہے، اور حکومت کے معاہدہ کی پاسداری مسلمان پر لازم نہیں
آپ حقیقت پر مبنی بات کریں کہ ہمارے اور آر ایس ایس بی جے پی حکومت کے درمیان معاہدہ کب ہوا؟ کس بات پر معاہدہ ہوا اور کس نے معاہدہ کیا؟ آپ کے عمران خان یا شہباز شریف نے آکر ہماری طرف سے معاہدہ کیا یا بن سلمان یا اردگان نے؟

اور اوپر آپ نے ہی ایک بات کہی کہ
تمام مسلم ریاستوں کے باشندے اپنے اپنے مسلم حکمرانوں کے تابع ہیں
تو ہماری ملک میں تو کوئی مسلم ریاست نہیں! ہم کس کے تابع ہوئے؟ شہباز شریف کے یا بن سلمان کے یا اردگان کے؟ اور یہ تو ہمارے ملک کے حکمران بھی نہیں تو ہم ان کے تابع نہ ہونے بقول آپ کے! بلکہ ہمارے ملک کے زیادہ تر مسلمان تو پاکستانیوں کو دہشت گرد اور دشمن ہی سمجھتے ہیں چاہیں آپ کی فوج ہو یا حافظ سعید جیسے لیڈر!!! وہ آتنکی ہے ہندوستانی مسلمان کی نظر میں!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@ابو داؤد! میرے سوال کا جواب کجا است؟
ایک حدیث پیش کرنے کے بعد میں نے آ پ سے ایک سوال کیا ہے، وہ سوال یہ ہے:
اتنا بتلا دیں کہ کیا کفار، اور کفار کے ممالک ہر ایک مسلمان سے انفرادی طور پر انفرادی حیثیت میں معاہدہ کریں گے؟
کہ جس کی پاسداری مسلمان پر لازم ہے، اور حکومت کے معاہدہ کی پاسداری مسلمان پر لازم نہیں؟
اس سوال کا جواب دیں!
میں نے آپ سے اس حدیث کی آپ کی فہم طلب نہیں کی بلکہ ایک سوال کیا ہے اس کا جواب مطلوب ہے!
آپ کی غلط فہمیوں کا ازالہ مطلوبہ جواب کے بعد کیا جائے گا!
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@ابو داؤد ! جواب کے منتظر !
 
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
514
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ایک حدیث پیش کرنے کے بعد میں نے آ پ سے ایک سوال کیا ہے، وہ سوال یہ ہے:
اس سوال کا جواب دیں!
یہ سوال حقائق پر مبنی نہیں بلکہ ایک تصویر و آپ کے ذہن کی خیالی اپج ہے جس پر میں نے آپ سے وضاحت طلب کی تھی کہ ہمارے اور بی جے پی حکومت کے درمیان کون سا معاہدہ ہوا؟ کس بات پر معاہدہ ہوا؟ اور کس نے یہ معاہدہ کیا ؟

اور کفار کے ممالک سے معاہدہ اگر امام المسلمین کا ہو تو اس کی پاسداری مسلمانوں پر لازم ہے لیکن اس وقت کوئی امام المسلمین نہیں اور اگر فرض کر لیا جائے کہ اخوانی خلیفہ اردگان یا مدخلی ولی امر بن سلمان یا پاکستانی شہباز شریف وغیرہ سیکولرازم سے ہٹ کر کتاب و سنت کے پیروکار بن جاتے ہیں ان میں سے کوئی تمام مسلمانوں کا امام بن جاتا ہے اور ہندوستان پر چڑھائی کر وہاں کے کافروں سے ایک مدت کے لئے معاہدہ کر لیتا ہے جس میں ابھی کی طرح ہندؤ گروہ مسلمانوں کو مار رہے ہو مساجد گرا کر وہاں مندر بنا رہے ہو مسلم عورتوں کی عزتیں پامال کر رہے مسلمانوں کی املاک تباہ کر رہے ہو ایسے کافروں کے خلاف کسی مسلمان کو اٹھ کھڑا ہونے، ان کے خلاف لڑنے و اپنے بچاؤ میں کوئی کاروائی کرنے کی اجازت نہیں! تو اس قسم کے خلاف شرع معاہدے کی پاسداری کرنا قطعا لازم نہیں بلکہ لازم تو دور جائز تک نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح فرمان ہے : لَا طَاعَةَ فِي مَعْصِيَةٍ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت حلال نہیں ہے۔ [صحيح البخار، حدیث نمبر: ۷۲۵۷]
 
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
514
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@ابو داؤد ! جواب کے منتظر !
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مصروفیات کے سبب تاخیر ہوتی ہے معذرت۔ آپ انتظار نہ کیا کریں بلکہ میرے جو اعتراض و سوالات ہیں ان کے جوابات لکھ دیا کریں۔ اگر مجھے غلط فہمی ہوئی ہے تو میری اصلاح ہوگی۔ ان شاء اللہ
 
Top