ابن قدامہ
مشہور رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2014
- پیغامات
- 1,772
- ری ایکشن اسکور
- 428
- پوائنٹ
- 198
مسلم شریف کی رضاعت کبیر والی حدیث بارے تمام اعتراضات کا تسلی بخش جواب !!!
_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-
مجھ جیسے تمام ہی نو سیکھیوں کا ایک مشترکہ وصف یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ مقدس ہستیوں میں سے کسی کے متعلق کوئی ادنیٰ سا بھی اعتراض سامنے آجائے تو ہم آو دیکھتے ہیں نہ تاو اور کود پڑتے ہیں جواب دینے۔ چاہے اس اعتراض کی value دو پیسے کی بھی نہ ہو۔ کسی نے کہہ دیا کہ حضور علیہ السلام، ورقہ بن نوفل سے قرآن کی آیتیں لکھوایا کرتے تھے تو مسلمان غصے سے پاگل۔ دے دلیلیں ہی دلیلیں۔ دے جواب پہ جواب۔
کسی نے بناء تحقیق یونہی بھونک دیا کہ قرآن نے امراو قیس کے اشعار چرائے ہیں اور مسلمان کا بلڈ پریشر شوٹ۔ دے تاریخ پہ تاریخ، تاریخ پہ تاریخ، تاریخ پہ تاریخ۔
او عقلمندو ! اس سے پوچھو تو کہ ورقہ بن نوفل تو نبوت ظاہر ہونے سے پہلے ہی انتقال کرگیا تھا۔ [1] تمہیں کس آلو کے پراٹھے نے کہہ دیا کہ وہ قبر سے قرآن لکھ کے دیتا رہا؟؟
امراو قیس کوئی گمنام نہیں، عرب کا بہت بڑا شاعر تھا۔ آدھے عرب کو اس کے اشعار یاد تھے۔ تمہیں کس کدو کش نے کہہ دیا کہ اس کی شاعری چوری کرکے کوئی ماں کا لعل اپنے نام سے پیش کرنے کی غلطی کرسکتا تھا؟؟
خیر، ہمارا عنوان ہے مسلم شریف کی رضاعت کبیر والی حدیث بارے اعتراضات کا تسلی بخش جواب۔ اور یہ عنوان اپنے آپ میں اچھی خاصی وضاحت کا متقاضی ہے۔ اس لیے ادھر ادھر کی باتیں ختم۔ حدیث ملاحظہ ہو:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام سالم رضی اللہ عنہ (جنہیں انہوں نے اولاد کی طرح پالا تھا)، ابو حذیفہ اور ان کی بیوی کے ساتھ گھر میں رہتے تھے، حضرت سہلہ بنت سہیل رضی اللہ عنہا نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کرنے لگی: سالم دوسرے مردوں کی طرح جوان ہوگیا اور وہ ان باتوں کو سمجھنے لگا ہے جن کو مرد سمجھتے ہیں۔ اور وہ ہمارے پاس آتا ہے، اور میں محسوس کرتی ہوں کہ ابو حذیفہ کو یہ ناگوار لگتا ہے۔ نبی ﷺ نے اس کو فرمایا: تم اس کو (بعض روایات میں پانچ بار) دودھ پلاؤ تاکہ تم اس پر حرام ہو جاؤ۔ سہلہ نے کہا وہ تو داڑھی والے ہیں۔ نبی ﷺ مسکرائے اور فرمایا میں جانتا ہوں۔ پھر ابوحذیفہ کے دل میں ناگواری بھی جاتی رہے گی۔ وہ پھر دوبارہ آئی اور کہنے لگی میں نے اس کو دودھ پلادیا اور ابو حذیفہ کے دل سے ناگواری بھی ختم ہو رہی ہے۔ (تمام روایات کا احاطہ کرنے کے لیے مفہومی ترجمہ کیا گیا ہے)
(صحیح مسلم 3601، موطاامام مالک ابو داؤد ۔229/2، مسند احمد 601/6، مستدرک 226/3، مصنف عبد الرزاق برقم 1334، طبرانی کبیر 69/7)
اب اس سیدھی سادہ سی حدیث پر بھی ملحدین کو اعتراض نہیں اعتراضات ہیں۔ اور دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ ہم سابقہ مسلمان ہیں۔ فرماتے ہیں کیسا بے حیا مذہب ہے۔ بیٹا بنانے کا کیسا طریقہ بتاتا ہے۔ دودھ پلانے سے ایسا کیا ہو جانا ہے۔ زبانی کہہ کر ہی بیٹا بنالو، وہ زیادہ بہتر نہیں، وغیرہ وغیرہ۔
میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث گندی نہیں، تمہارے دماغ گندے ہیں ملحدو۔ کون سے عالم تھے تم اسلام کے جنہیں یہ تک نہیں پتا کہ امام ابن سعد (متوفی 230ھ) نے صاف لفظوں میں لکھ رکھا ہے کہ روز ایک برتن میں ایک چسکی نکالی جاتی اور پانچ روز تک سالم رضی اللہ عنہ اس میں سے ایک قطرہ پیتے۔ [2]
علامہ ابن ھمام (متوفی 861ھ) اگرچہ اس قول سے ناواقف تھے تب بھی ان کا اجتہاد دیکھو فریبیو۔ فرماتے ہیں شاید سہلہ رضی اللہ عنہ کسی برتن میں دودھ نکال کر دیتی ہوں گی اور سالم رضی اللہ عنہ پیتے ہوں گے۔ [3]
امام ابن حجر عسقلانی نے امام واقدی (130ھ تا 207ھ) کے حوالے سے یہی طرز بیان کی ہے۔ [4]
زرقانی ج 3، ص 216 پہ بھی یہی لکھا ہے کہ برتن میں دودھ پلایا گیا۔
قاضی عیاض (ولادت 476ھ) کا یہی قول فتح الباری شریف میں درج ہے۔ (حوالہ یاد نہیں۔ تلاش جاری ہے)
اور ان سب حوالہ جات کو بھی چھوڑ دو۔ فتح الباری ج9، ص171، مطبوعہ دارالحدیث القاہرہ ہی پڑھ لیں تو طبری وغیرھم کے صاف صاف اقوال درج ہیں کہ یہ ہجرت کے شروع دور کا واقعہ ہے، جس کا رد بعد میں نازل ہونے والے پردے کے احکام ہیں۔ امی سلمیٰ و دیگر امہات المومنین رضی اللہ عنھم کے اقوال کی روشنی میں سالم رضی اللہ عنہ کے لیے خاص ہے۔ اور رضاعت وہی معتبر ہے جب دودھ ہڈیاں اور گوشت بنے (یعنی دو سے ڈھائی سال کی عمر میں پلایا گیا دودھ)
برتن سے دودھ پلانے کے معاملے میں اگرچہ آئمہ، مجتہدین، محدثین اور مشائخ میں کہیں کوئی اختلاف نہیں۔ البتہ مدت رضاعت اور رضاعت کے طریق (صرف بچوں کی) میں ضرور اختلاف پایا جاتا ہے۔ ہم احناف کے نزدیک ڈھائی سال کی عمر تک ایک چسکی دودھ پی لینے والا بچہ بھی محرم ہے۔ دودھ چاہے ناک کے ذریعے دیا جائے یا برتن کے ہی ذریعے۔ جیسا کہ حدیث پاک میں بھی فرمایا گیا:
"رضاعت وہى ہے جس سے ہڈى پيدا ہو اور گوشت بنے۔"
(سنن ابو داود حديث نمبر 2059 )
علامہ البانى رحمہ اللہ اور ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
ام سلمیٰ رضى اللہ عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
"وہى رضاعت حرمت پيدا كرتى ہے جس سے انتڑياں بھريں اور دودھ چھڑانے كى عمر ميں سے قبل ہو۔"
سنن ترمذى حديث نمبر (1072) اور سنن ابن ماجہ حديث نمبر (1936).
گویا براہ راست دودھ پلانا شرط ہے نہ بالغ کی رضاعت ثابت۔ صرف دودھ جسم میںداخل ہوکر اس کا حصہ بننا چاہیے، جو صرف بچپن ہی میں ممکن ہے، جب صرف دودھ ہی غذا ہو۔
امام شافعی، مالک و حنبل رحمہ اللہ بھی مدت رضاعت دو سال ہونے کے ہی قائل ہیں۔ بالغ کی رضاعت بارے امی عائشہ رضی اللہ عنہ کے سوا تمام امہات بھی متفق ہیں کہ اس سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ حضرت سہلہ بنت سہیل رضی اللہ عنہ کو بھی حیرت ہوئی کہ قرآن اور احادیث کی رو سے تو مدت رضاعت دو سے اڑھائی سال ہے۔ داڑھی والے کی رضاعت کیسے ہوگی؟ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مسکرانا صاف اعلان کرتا ہے کہ اپنے اختیار سے وہ یہ اجازت مرحمت فرما رہے ہیں۔
ہاں البتہ ابن تیمیہ سمیت بعض دیگر مشائخ رضاعت کبیر کے قائل ضرور ہیں، کیونکہ مسلم کی ایک روایت سے یہ بات ثابت ہے کہ امی عائشہ رضی اللہ عنہا بعد میں بھی بالغ کی رضاعت کا فتوی دیا کرتی تھیں۔ لیکن بالغ کو براہ راست دودھ پلانے کا کوئی قول اس جانب بھی موجود نہیں۔ جبکہ دیگر امہات کے فرامین، احادیث مبارکہ اور قرآن بالغ کی رضاعت کی نفی کرتے ہیں۔
چنانچہ ہم صرف اور صرف یہی نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ بالغ کی رضاعت کی تائید کے مقابلے میں، اس کے رد کے نصوص کا پلڑہ بہت بھاری ہے۔ اور حضرت سہلہ رضی اللہ عنہا کے لیے دی جانے والی اجازت میں بھی فقط اور فقط برتن سے دودھ پلایا گیا۔ جو کوئی قابل اعتراض امر نہیں۔ رہا منہ سے بیٹا کہنے کی بجائے دودھ پلاکر بیٹا بنانے کا سوال؟ تو جیسا کہ ہم جانتے ہیں، ہماری غذا سے ہی ہمارے جسم کی نشو و نما ہوتی ہے۔ جو بچہ ایک عورت کے رحم میں نشو و نما پاکر پیدا ہو، وہ تو اس عورت کے وجود کا حصہ ہے ہی۔ اس لیے وہ اسے دودھ پلائے، نہ پلائے، وہ اس کا بیٹا ہی ہے۔ لیکن جب وہ کسی اور بطن سے پیدا ہونے والے کو اپنا دودھ پلادے تو وہ دودھ اس بچے کا گوشت اور ہڈیوں کا حصہ بن جاتا ہے اور یوں بچہ خود بخود دودھ پلانے والی کے وجود کا حصہ اور محرم۔
نیز رضاعت سے متعلق دس اور پھر پانچ بار دودھ پلانے والی ایک آیت کا بھی امی عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک صحیح حدیث میں تذکرہ ہے۔ وہ بحث قرآن میں تحریف اور رضاعت کی مقدار کی ذیل میں بے شمار جگہوں پر زیربحث آچکی۔ گوگل کریں گے تو پچاس مباحث اور ہر مباحثے میں مسلمان علماء کو ہی مفتوح پائیں گے۔ یہاں ثابت کرنا یہی مقصود تھا کہ سہلہ رضی اللہ عنہ نے کوئی قابل طعن عمل نہیں کیا۔ ان کے معاملے میں خصوصی اجازت دی گئی تھی۔ اس کے علاوہ بالغ کی رضاعت کہیں سے بھی ثابت نہیں۔
و آخر دعونا ان الحمد اللہ رب العالمین !!!
________________________________________________
حواشی:
[1] اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ورقہ ابن نوفل کے بارے میں پوچھا گیا (کہ وہ مؤمن تھے یا نہیں؟) اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیان کیا کہ وہ ورقہ بن نوفل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرتے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ظاہر ہونے سے پہلے مر گئے تھے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ کو خواب میں ورقہ بن نوفل کو اس حالت میں دکھلایا گیا ہے کہ اس پر سفید کپڑے تھے اور وہ دوزخی ہوتے تو ان کے جسم پر اور طرح کے کپڑے ہوتے ۔" (مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ خواب کا بیان ۔ حدیث 555)
[2] امام محمد بن سعد، متوفی 230ھ، الطبقات الکبری، ج8، ص271، مطبوعہ دارالسادر بیروت 1388ھ
[3] علامہ ابن ھمام 790ھ تا 861ھ فتح القدیر 4/3
[4] امام ابن حجر عسقلانی، ولادت 773ھ وفات 852ھ، الاصابة، ج4، ص337، مطبوعہ دارالفکر بیروت 1398ھ
Sara Khan
_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-
مجھ جیسے تمام ہی نو سیکھیوں کا ایک مشترکہ وصف یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ مقدس ہستیوں میں سے کسی کے متعلق کوئی ادنیٰ سا بھی اعتراض سامنے آجائے تو ہم آو دیکھتے ہیں نہ تاو اور کود پڑتے ہیں جواب دینے۔ چاہے اس اعتراض کی value دو پیسے کی بھی نہ ہو۔ کسی نے کہہ دیا کہ حضور علیہ السلام، ورقہ بن نوفل سے قرآن کی آیتیں لکھوایا کرتے تھے تو مسلمان غصے سے پاگل۔ دے دلیلیں ہی دلیلیں۔ دے جواب پہ جواب۔
کسی نے بناء تحقیق یونہی بھونک دیا کہ قرآن نے امراو قیس کے اشعار چرائے ہیں اور مسلمان کا بلڈ پریشر شوٹ۔ دے تاریخ پہ تاریخ، تاریخ پہ تاریخ، تاریخ پہ تاریخ۔
او عقلمندو ! اس سے پوچھو تو کہ ورقہ بن نوفل تو نبوت ظاہر ہونے سے پہلے ہی انتقال کرگیا تھا۔ [1] تمہیں کس آلو کے پراٹھے نے کہہ دیا کہ وہ قبر سے قرآن لکھ کے دیتا رہا؟؟
امراو قیس کوئی گمنام نہیں، عرب کا بہت بڑا شاعر تھا۔ آدھے عرب کو اس کے اشعار یاد تھے۔ تمہیں کس کدو کش نے کہہ دیا کہ اس کی شاعری چوری کرکے کوئی ماں کا لعل اپنے نام سے پیش کرنے کی غلطی کرسکتا تھا؟؟
خیر، ہمارا عنوان ہے مسلم شریف کی رضاعت کبیر والی حدیث بارے اعتراضات کا تسلی بخش جواب۔ اور یہ عنوان اپنے آپ میں اچھی خاصی وضاحت کا متقاضی ہے۔ اس لیے ادھر ادھر کی باتیں ختم۔ حدیث ملاحظہ ہو:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام سالم رضی اللہ عنہ (جنہیں انہوں نے اولاد کی طرح پالا تھا)، ابو حذیفہ اور ان کی بیوی کے ساتھ گھر میں رہتے تھے، حضرت سہلہ بنت سہیل رضی اللہ عنہا نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کرنے لگی: سالم دوسرے مردوں کی طرح جوان ہوگیا اور وہ ان باتوں کو سمجھنے لگا ہے جن کو مرد سمجھتے ہیں۔ اور وہ ہمارے پاس آتا ہے، اور میں محسوس کرتی ہوں کہ ابو حذیفہ کو یہ ناگوار لگتا ہے۔ نبی ﷺ نے اس کو فرمایا: تم اس کو (بعض روایات میں پانچ بار) دودھ پلاؤ تاکہ تم اس پر حرام ہو جاؤ۔ سہلہ نے کہا وہ تو داڑھی والے ہیں۔ نبی ﷺ مسکرائے اور فرمایا میں جانتا ہوں۔ پھر ابوحذیفہ کے دل میں ناگواری بھی جاتی رہے گی۔ وہ پھر دوبارہ آئی اور کہنے لگی میں نے اس کو دودھ پلادیا اور ابو حذیفہ کے دل سے ناگواری بھی ختم ہو رہی ہے۔ (تمام روایات کا احاطہ کرنے کے لیے مفہومی ترجمہ کیا گیا ہے)
(صحیح مسلم 3601، موطاامام مالک ابو داؤد ۔229/2، مسند احمد 601/6، مستدرک 226/3، مصنف عبد الرزاق برقم 1334، طبرانی کبیر 69/7)
اب اس سیدھی سادہ سی حدیث پر بھی ملحدین کو اعتراض نہیں اعتراضات ہیں۔ اور دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ ہم سابقہ مسلمان ہیں۔ فرماتے ہیں کیسا بے حیا مذہب ہے۔ بیٹا بنانے کا کیسا طریقہ بتاتا ہے۔ دودھ پلانے سے ایسا کیا ہو جانا ہے۔ زبانی کہہ کر ہی بیٹا بنالو، وہ زیادہ بہتر نہیں، وغیرہ وغیرہ۔
میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث گندی نہیں، تمہارے دماغ گندے ہیں ملحدو۔ کون سے عالم تھے تم اسلام کے جنہیں یہ تک نہیں پتا کہ امام ابن سعد (متوفی 230ھ) نے صاف لفظوں میں لکھ رکھا ہے کہ روز ایک برتن میں ایک چسکی نکالی جاتی اور پانچ روز تک سالم رضی اللہ عنہ اس میں سے ایک قطرہ پیتے۔ [2]
علامہ ابن ھمام (متوفی 861ھ) اگرچہ اس قول سے ناواقف تھے تب بھی ان کا اجتہاد دیکھو فریبیو۔ فرماتے ہیں شاید سہلہ رضی اللہ عنہ کسی برتن میں دودھ نکال کر دیتی ہوں گی اور سالم رضی اللہ عنہ پیتے ہوں گے۔ [3]
امام ابن حجر عسقلانی نے امام واقدی (130ھ تا 207ھ) کے حوالے سے یہی طرز بیان کی ہے۔ [4]
زرقانی ج 3، ص 216 پہ بھی یہی لکھا ہے کہ برتن میں دودھ پلایا گیا۔
قاضی عیاض (ولادت 476ھ) کا یہی قول فتح الباری شریف میں درج ہے۔ (حوالہ یاد نہیں۔ تلاش جاری ہے)
اور ان سب حوالہ جات کو بھی چھوڑ دو۔ فتح الباری ج9، ص171، مطبوعہ دارالحدیث القاہرہ ہی پڑھ لیں تو طبری وغیرھم کے صاف صاف اقوال درج ہیں کہ یہ ہجرت کے شروع دور کا واقعہ ہے، جس کا رد بعد میں نازل ہونے والے پردے کے احکام ہیں۔ امی سلمیٰ و دیگر امہات المومنین رضی اللہ عنھم کے اقوال کی روشنی میں سالم رضی اللہ عنہ کے لیے خاص ہے۔ اور رضاعت وہی معتبر ہے جب دودھ ہڈیاں اور گوشت بنے (یعنی دو سے ڈھائی سال کی عمر میں پلایا گیا دودھ)
برتن سے دودھ پلانے کے معاملے میں اگرچہ آئمہ، مجتہدین، محدثین اور مشائخ میں کہیں کوئی اختلاف نہیں۔ البتہ مدت رضاعت اور رضاعت کے طریق (صرف بچوں کی) میں ضرور اختلاف پایا جاتا ہے۔ ہم احناف کے نزدیک ڈھائی سال کی عمر تک ایک چسکی دودھ پی لینے والا بچہ بھی محرم ہے۔ دودھ چاہے ناک کے ذریعے دیا جائے یا برتن کے ہی ذریعے۔ جیسا کہ حدیث پاک میں بھی فرمایا گیا:
"رضاعت وہى ہے جس سے ہڈى پيدا ہو اور گوشت بنے۔"
(سنن ابو داود حديث نمبر 2059 )
علامہ البانى رحمہ اللہ اور ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
ام سلمیٰ رضى اللہ عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
"وہى رضاعت حرمت پيدا كرتى ہے جس سے انتڑياں بھريں اور دودھ چھڑانے كى عمر ميں سے قبل ہو۔"
سنن ترمذى حديث نمبر (1072) اور سنن ابن ماجہ حديث نمبر (1936).
گویا براہ راست دودھ پلانا شرط ہے نہ بالغ کی رضاعت ثابت۔ صرف دودھ جسم میںداخل ہوکر اس کا حصہ بننا چاہیے، جو صرف بچپن ہی میں ممکن ہے، جب صرف دودھ ہی غذا ہو۔
امام شافعی، مالک و حنبل رحمہ اللہ بھی مدت رضاعت دو سال ہونے کے ہی قائل ہیں۔ بالغ کی رضاعت بارے امی عائشہ رضی اللہ عنہ کے سوا تمام امہات بھی متفق ہیں کہ اس سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ حضرت سہلہ بنت سہیل رضی اللہ عنہ کو بھی حیرت ہوئی کہ قرآن اور احادیث کی رو سے تو مدت رضاعت دو سے اڑھائی سال ہے۔ داڑھی والے کی رضاعت کیسے ہوگی؟ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مسکرانا صاف اعلان کرتا ہے کہ اپنے اختیار سے وہ یہ اجازت مرحمت فرما رہے ہیں۔
ہاں البتہ ابن تیمیہ سمیت بعض دیگر مشائخ رضاعت کبیر کے قائل ضرور ہیں، کیونکہ مسلم کی ایک روایت سے یہ بات ثابت ہے کہ امی عائشہ رضی اللہ عنہا بعد میں بھی بالغ کی رضاعت کا فتوی دیا کرتی تھیں۔ لیکن بالغ کو براہ راست دودھ پلانے کا کوئی قول اس جانب بھی موجود نہیں۔ جبکہ دیگر امہات کے فرامین، احادیث مبارکہ اور قرآن بالغ کی رضاعت کی نفی کرتے ہیں۔
چنانچہ ہم صرف اور صرف یہی نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ بالغ کی رضاعت کی تائید کے مقابلے میں، اس کے رد کے نصوص کا پلڑہ بہت بھاری ہے۔ اور حضرت سہلہ رضی اللہ عنہا کے لیے دی جانے والی اجازت میں بھی فقط اور فقط برتن سے دودھ پلایا گیا۔ جو کوئی قابل اعتراض امر نہیں۔ رہا منہ سے بیٹا کہنے کی بجائے دودھ پلاکر بیٹا بنانے کا سوال؟ تو جیسا کہ ہم جانتے ہیں، ہماری غذا سے ہی ہمارے جسم کی نشو و نما ہوتی ہے۔ جو بچہ ایک عورت کے رحم میں نشو و نما پاکر پیدا ہو، وہ تو اس عورت کے وجود کا حصہ ہے ہی۔ اس لیے وہ اسے دودھ پلائے، نہ پلائے، وہ اس کا بیٹا ہی ہے۔ لیکن جب وہ کسی اور بطن سے پیدا ہونے والے کو اپنا دودھ پلادے تو وہ دودھ اس بچے کا گوشت اور ہڈیوں کا حصہ بن جاتا ہے اور یوں بچہ خود بخود دودھ پلانے والی کے وجود کا حصہ اور محرم۔
نیز رضاعت سے متعلق دس اور پھر پانچ بار دودھ پلانے والی ایک آیت کا بھی امی عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک صحیح حدیث میں تذکرہ ہے۔ وہ بحث قرآن میں تحریف اور رضاعت کی مقدار کی ذیل میں بے شمار جگہوں پر زیربحث آچکی۔ گوگل کریں گے تو پچاس مباحث اور ہر مباحثے میں مسلمان علماء کو ہی مفتوح پائیں گے۔ یہاں ثابت کرنا یہی مقصود تھا کہ سہلہ رضی اللہ عنہ نے کوئی قابل طعن عمل نہیں کیا۔ ان کے معاملے میں خصوصی اجازت دی گئی تھی۔ اس کے علاوہ بالغ کی رضاعت کہیں سے بھی ثابت نہیں۔
و آخر دعونا ان الحمد اللہ رب العالمین !!!
________________________________________________
حواشی:
[1] اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ورقہ ابن نوفل کے بارے میں پوچھا گیا (کہ وہ مؤمن تھے یا نہیں؟) اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیان کیا کہ وہ ورقہ بن نوفل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرتے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ظاہر ہونے سے پہلے مر گئے تھے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ کو خواب میں ورقہ بن نوفل کو اس حالت میں دکھلایا گیا ہے کہ اس پر سفید کپڑے تھے اور وہ دوزخی ہوتے تو ان کے جسم پر اور طرح کے کپڑے ہوتے ۔" (مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ خواب کا بیان ۔ حدیث 555)
[2] امام محمد بن سعد، متوفی 230ھ، الطبقات الکبری، ج8، ص271، مطبوعہ دارالسادر بیروت 1388ھ
[3] علامہ ابن ھمام 790ھ تا 861ھ فتح القدیر 4/3
[4] امام ابن حجر عسقلانی، ولادت 773ھ وفات 852ھ، الاصابة، ج4، ص337، مطبوعہ دارالفکر بیروت 1398ھ
Sara Khan