• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسلم نوجوانوں کے لیے جدید علوم کی ضرورت و اہمیت

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دانا حضرات کا قول ہے کہ اگر کسی بڑے نقصان سے بچاؤ کے لیے کسی چھوٹے فائدے سے صرفِ نظر کرنا پڑے، تو یہ خسارے کا سودا نہیں۔ کیا پاکستان جیسی اسلامی نظریاتی مملکت میں کاروبار اور معلومات وغیرہ کی زیادتی کے لیے اس علانیہ فحاشی سے بے پروا ہوا جاسکتا ہے جو بتدریج وطن مالوف کی جڑو ں کو کھوکھلا کر رہی ہے۔ یہ قدامت پسندی نہیں بلکہ پیش آمدہ خطرے سے بچاؤ کی تدبیر ہے۔ کیا کمپیوٹر یا انٹرنیٹ کی ایجاد سے قبل پاکستان کے لوگ بھوکے مرتے تھے یا فاقے کرتے تھے۔ یا اب ہمارا ستارئہ حیات کون سی بلندی پر محو ِگردش ہے؟ وہی کفار ملعونین کے قرضوں سے وطن عزیز کی مصنوعی ترقی (سبقت) پنجہ یہود کی بے رحم و ظالم گرفت میں ہے۔ ان اشیا کی افادیت کے راگ الاپنے والے بتائیں کہ ان کے لیے کون سی ترقی کا حصول ممکن ہوا ہے؟
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بہرکیف اگر ہم باوجود کوشش کے اپنی قوم کے سرمایہٴ مستقبل یعنی نوجوانوں کو اس لعنت سے دور نہیں رکھ سکتے تو کم از کم اس کی اصلاح کی بقدرِ استطاعت جدوجہد کی جانی چاہیے۔ مسلمانوں کے اہل فکر و نظر طبقہ پر لازم ہے کہ وہ انٹرنیٹ کی تعلیم حاصل کر کے اس میں موجود شرعی و اخلاقی قباحتوں اور برائیوں کو فی الفور ختم کرے۔ شاید یہ عمل ہی ملت ِاسلامیہ کے نوجوانوں کو اس گہرے کنویں میں گرنے سے بچا لے جس کی تہ میں سوائے مہلک کانٹوں اور زہریلے بچھوؤں کے اور کچھ نہیں ۔ اعاذنا الله من هذه الخرافات!
ہم نے اللہ کی نصرت و تائید سے علومِ دنیوی میں مسلمانوں کے وافرعمل دخل کا کچھ ذکر کیا ہے، جس سے اس حقیقت کا اِدراک آسان ہو جاتا ہے کہ قرونِ اولیٰ کے مسلمان سائنسدانوں کا موجودہ سائنسی ترقی میں تحقیقی و تنقیدی کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے اور عصر حاضر کی بیشتر ترقی ان کی سائنسی کاوشوں کی مرہونِ منت ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ عالم اسلام کی موجودہ علمی اور سائنسی کیفیت کا بھی اجمال سے مگر بغور جائزہ لیا جائے، تاکہ تشنگی باقی نہ رہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دورِ حاضر میں عالم اسلام کی سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیش رفت خاصی مایوس کن ہے، جس کا اندازہ ذیل میں دئیے گئے اَعداد و شمار سے لگایاجاسکتا ہے۔ ۵۶ آزاد اور خودمختار اسلامی ممالک کی آبادی دنیا کی مجموعی آبادی کا بیس فیصد (تقریباً سوا ارب) ہے۔ اس آبادی کا تقریباً چالیس فیصد حصہ اَن پڑھ ہے۔ تمام اسلامی ممالک میں موجود یونیورسٹیوں کی تعداد تقریباً ۳۵۰ ہے، جن میں پنجاب یونیورسٹی (لاہور ۱۸۸۲ء) انڈونیشیا یونیورسٹی (جکارتہ ۱۹۵۰ء) ، تہران یونیورسٹی (دانش گاہ، تہران ۱۸۵۱ء) جامعہ ملک سعود (ریاض ۲۱ ربیع الآخر ۱۳۷۷ھ/۱۴ نومبر ۱۹۵۷ء) اور جامعة الازہر (قاہرہ، مصر ۹۷۰ء) وغیرہ شامل ہیں۔ ان یونیورسٹیوں سے سالانہ تقریباً ایک ہزار افراد پی ایچ ڈی کرتے ہیں۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں ان اسلامی ممالک کی مجموعی افرادی قوت صرف ۸۰ لاکھ کے قریب ہے، جوان شعبوں میں مصروفِ عمل عالمی آبادی کا تقریباً چار فیصد ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال ایک لاکھ سے زائد سائنسی کتب اور ۲۰ لاکھ سے زائد سائنسی مقالات شائع ہوتے ہیں، جب کہ اسلامی ممالک سے شائع ہونے والی سائنسی اور تحقیقی کتب اور مقالات کی سالانہ تعداد ایک ہزار سے تجاوز نہیں کر سکی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یہ ان اسلامی ممالک کا مجموعی حال ہے، جن کی آزاد مملکتیں کرئہ ارض کے تقریباً تین کروڑ مربع کلو میٹر پر محیط ہیں، جو تیل کے پوری دنیا میں موجودہ ذخائر کے تین چوتھائی حصے کے مالک ہیں اور جنہیں اپنے لامحدود و بے شمار قدرتی وسائل سے استفادہ کی سہولت حاصل ہے۔ اس کے باوجود علومِ جدیدہ میں مغرب سے مسابقت کے بجائے غفلت اور تساہل نے اسلامی ممالک کو ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ عوام الناس کے خیال میں عصری علوم کی تحصیل محض مادّیت کی پرورش و نمو کا سبب ہے اور اس سے مفید امور کی انجام دہی ممکن نہیں۔ جب کہ ایسا نہیں، اسلام نے ان علوم کی درس و تدریس سے منع کیا ہے، جو کسی بھی پہلو سے اسلام کے لیے مضر اور نقصان دہ ثابت ہوں۔ جب کہ جو علوم نوعِ بشری کو حقیقی کامیابی سے ہمکنار کریں اور انہیں فطرت کے اسرارسے آگاہی عطا کریں، ان کی تحصیل اور تدریس تو اسلام میں پسندیدہ ہے۔ شاید اسی سوچ کا یہ ثمر ہے کہ اسلامی ممالک کی مجموعی قومی پیداوار ایک ہزار ایک سو پچاس ارب امریکی ڈالر ہے، جب کہ صرف جرمنی کی قومی پیداوار ۲ ہزار ۴ سو ارب ڈالر اور جاپان کی پانچ ہزار ایک سو ارب ڈالر ہے۔ مسلم ممالک میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی تحقیق پر مجموعی طور پر جو رقم خرچ کی جاتی ہے ، صرف جرمنی اس سے دوگنا اور جاپان چار گنا زائد رقم خرچ کرتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
عالمی تناظر سے ہٹ کر بالخصوص پاکستان میں اس وقت ۲۵ کے قریب یونیورسٹیاں ہیں، جن میں اعلیٰ تعلیم کی ۱۴، انجینئرنگ کی ۸ اور ۳ زرعی یونیورسٹیاں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ سائنس اور آرٹس کے ۸۰۰ کالج ہیں، جن میں خواتین کے ۲۹۶ کالج بھی شامل ہیں۔ پرائمری اور مڈل سکولوں کی خاصی تعداد ہونے کے باوجود پاکستان کی ۵۹ فیصد (تقریباً آٹھ کروڑ) آبادی کبھی تعلیمی اداروں میں نہیں گئی۔ ایک حالیہ تحقیقی رپورٹ کے مطابق سوا کروڑ خواتین مکمل ناخواندہ ہیں۔ ریسرچ اور ڈویلپمنٹ سے منسلک سائنسدانوں کی تعداد امریکہ میں ساڑھے نو لاکھ سے زائد اور جاپان میں آٹھ لاکھ کے قریب ہے، جب کہ پاکستان میں صرف ۱۲ ہزار کے قریب ہے۔ یہاں سائنس کے مضامین میں ڈاکٹریٹ کرنے والوں کی تعداد سالانہ ۴۰،۵۰ ہوتی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پاکستان میں ناخواندگی اور سائنس و ٹیکنالوجی میں انحطاط کا بنیادی سبب حکومتی سطح پر شعبہٴ تعلیم سے قیامِ پاکستان سے آج تک مسلسل بے توجہی ہے۔ پاکستان اپنی قومی پیداوار کا بمشکل ۲ فیصد (۲۱ ارب روپے) عام تعلیم پر خرچ کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں امریکہ میں قومی پیداوار کا ۶.۵ فیصد (۷۸۴،۲۶ ارب روپے) جاپان میں ۶. ۳ فیصد (۱۲۶،۹ ارب روپے) جرمنی میں ۸.۴ فیصد (۳۱۴، ارب روپے) اور فرانس میں ۱.۶فیصد (۴.۹۶ ارب روپے) تعلیم کے شعبے میں خرچ کیے جاتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پاکستان میں ہر دس لاکھ آبادی میں ۴ ہزار، جاپان میں ۶۳۰۹، جرمنی میں ۳۸۴۳ اور فرانس میں ۲۵۸۴سائنسدان ہیں۔ پاکستان پسماندہ ممالک کے مقابلے میں بھی بہت کم وسائل تعلیم پر صرف کر رہا ہے۔ ایران، ترکی اور ملائشیا اپنے کل بجٹ کا ۲۰ فیصد، نیپال اور سری لنکا ۱۰ فیصد اور بنگلہ دیش ۱۷ فی صد تعلیم پر خرچ کرتے ہیں۔ پاکستان کے ۵۵ فیصد لڑکے اور ۷۵ فیصد لڑکیاں اَن پڑھ ہیں۔ بچوں کی کل آبادی کا صرف ۴۰ فیصد سکول جاتا ہے، جب کہ بھارت میں یہ شرح ۹۰ فیصد اور بنگلہ دیش میں ۷۸ فیصد ہے۔۱۹۹۸ء میں میاں نواز شریف نے قومی پیداوار کا ۳ فیصد ۱۹۹۹ء سے تعلیم کے لیے مختص کرنے کا اعلان کیا تھا، جس پر تاحال پرویز مشرف حکومت نے عمل نہیں کیا اور تعلیم پر اس وقت ۲ فیصد سالانہ کے قریب ہی خرچ ہو رہا ہے۔
بہرکیف، ایک ترقی پذیر اور سائنس اور ٹیکنالوجی میں پسماندہ ملک ہونے کے باوجود پاکستان کی ایٹمی قوت میں خودکفالت ایک خوش آئند امر ہے۔ یہ اعزازپوری اسلامی دنیا میں صرف پاکستان ہی کو حاصل ہے۔ ایٹمی شعبے میں بالخصوص اور دیگر سائنسی شعبوں میں بالعموم پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (۱۹۵۵ء)، پاکستان اکیڈمی آف سائنسز (۱۶ فروری ۱۹۵۳ء) اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیوکلیئر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (جو پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا اسلام آباد کے قریب واقع ایک ذیلی ادارہ ہے) مصروفِ کار ہیں۔ اگر ہم قومی سلامتی کے جملہ اُمور میں اغیار کی محتاجی چھوڑ کر اپنے بے شمار قدرتی وسائل سے استفادے کی صلاحیت حاصل کر لیں، تو کچھ عجب نہیں کہ ہم عالم کفر کی دریوزہ گری کے بجائے ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
موجودہ دور میں اسلامی دنیا کی، جدید علوم میں کماحقہ دسترس اور مہارت کی عدمِ موجودگی نے مسلمانوں کو تقریباً ہر شعبہٴ زندگی میں ترقی یافتہ ممالک، جن کی اکثریت کفار پر مشتمل ہے، کا غلام بنا دیا ہے۔ جس کے نتیجے میں ان کی تہذیب و ثقافت اور معیشت و معاشرت کے رذیل اثرات نے عالم اسلام پر اپنا تسلط قائم کر لیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی دنیا من حیث المجموع اپنے کھوئے ہوئے وقار کو حاصل کرنے کے لیے عصری علوم میں قرونِ اولیٰ کی طرح آج بھی پوری دنیا پر اپنی سیادت و بالادستی قائم کرے اور یونیسکو وغیرہ کی علمی امداد و معاونت سے مستغنی ہو کر اپنا مضبوط علمی بلاک تشکیل دے، جس میں دینی علوم کے احیا کے ساتھ عصری علوم کی، مسلم ماہرین کے زیر نگرانی از سرنو تدوین کی جائے، تاکہ مغربی ممالک پر کلی یا جزوی انحصار کے بجائے مسلمان خود دنیا کے جملہ شعبوں میں استیلا و غلبہ حاصل کر سکیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
آخر میں اس بات کی توضیح لازمی ہے کہ علومِ جدیدہ کی تحصیل میں اسلام کے جملہ زرّیں احکام کی پیروی ہر لحاظ سے ضروری ہے۔ اسی سے اسلام کے منشاے حقیقی کی صحیح تکمیل ہوگی، وگرنہ دین اسلام سے روگردانی کرتے ہوئے دنیوی علوم کی تحصیل کی، نہ تو اسلام اجازت دیتا ہے اور نہ ایسے علوم انسانیت کے لیے حقیقی معنوں میں فائدہ مند ہوسکتے ہیں۔ یعنی ایسا نہ ہوکہ کوئی شخص مروّجہ علوم میں تو تمام ڈگریاں لے جائے، مگر دین میں بالکل کورا ہو، ایسے شخص کے حاصل کردہ علم کی نہ اسلام میں کوئی اہمیت ہے اور نہ اس کے حاصل کرنے والے کے لیے کوئی گوشہ ہے، کیونکہ دینی تعلیمات سے دور اور شیطانی افکار سے قریب ہونے کا نتیجہ سواے الحاد و بے دینی کے اور کچھ نہیں ۔ درحقیقت دین اور دنیا میں توازن اور برابری ہی کا نام اسلام ہے۔ جہاں جابر بن حیان اور ابن ہیثم جیسے عظیم سائنسدان جنم لیں، وہاں امام ابوحنیفہ ، امام مالک ، امام شافعی اور امام احمدبن حنبل رحمہم اللہ ایسے عظیم ائمہ دین بھی پیدا ہوں، تاکہ دنیوی مقاصد کی تکمیل کے ساتھ دینی روح بھی ضعف کا شکار نہ ہو جس کی تقویت اور مضبوطی ہر چیز سے مقدم ہے!!
٭۔۔۔۔٭۔۔۔۔٭
 
Top