• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسلم نوجوانوں کے لیے جدید علوم کی ضرورت و اہمیت

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(۱) نور الدین طوسی: قطب الدین شیرازی (متوفی ۱۳۱۱ء) کا ذہین وفطین شاگرد تھا۔ اس نے نهاية الادراک فی دراية الافلاکلکھی جو ’شیرازی‘ کی علم نجوم پر مشہور تصنیف’تذکرہ‘ کی ارتقائی صورت ہے۔ اس میں ہندسی مسائل پر بھی بڑے قیمتی مباحث ملتے ہیں، مثلاً رؤیت کی خاصیت اور قوسِ قزح (Rainbow) کی تشکیل۔ وہ پہلا سائنسدان تھا جس نے قوسِ قزح کی تشکیل کا ایک صحیح اور واضح حل پیش کیا۔
(۲) جابر بن حیان: بہت سی کتابوں کا مصنف تھا۔ وہ تجرباتی کیمیا کا بانی تھا۔ اس نے اپنی کتابوں میں فولاد بنانے، چمڑا رنگنے، دھاتوں کے مرکبات بنانے، دھاتوں کو مُصفّٰی کرنے، لوہے کو زنگ سے بچانے کے لئے ،ا س پر وارنش کرنے اور بالوں کو سیاہ کرنے کے لئے خضاب تیار کرنے کی طرح کے بیسیوں طریقے بیان کئے ہیں۔ جابر نے سفیدہ (Lead Carbonate) ، سنکھیا (Asenic) اور سرمے (Antimony) کو ان کے سلفائیڈ (Sulphide) سے حاصل کرنے کے طریقے بتائے۔
(۳) محمد بن موسی الخوارزمی :میدانِ ریاضی اور ہندسہ میں ید ِطولیٰ رکھتا تھا۔ بالخصوص الجبرے کی مساوات پیش کرکے اس نے دنیاے ریاضی میں تہلکہ مچا دیا۔ عالم اسلام کا یہ سب سے پہلا ریاضی دان تھا جس نے پوری دنیا کو الجبرا، جیومیٹری اور حساب کے ایسے ایسے اُصول مرتب کرکے دیئے جو سابقہ یونانی ورومی علم ریاضی کو یکسر مات دے گئے۔ اس کی کتاب کا نام ’الجبر والمقابلہ‘ ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یورپی مصنّفین نے مسلمان فلاسفہ پر سخت تنقید کی ہے کہ انہوں نے کوئی نئی چیز پیش نہیں کی بلکہ ساری عمر ارسطو کی پیروی اور اس کی تصانیف کی شرح و اختصار میں صرف کردی۔ لیکن اس بے بنیا دالزام کی خود یورپ کے بعض فضلا نے تردید کی ہے۔ مشہور جرمن ریاضی دان ویدمان (wied mann) نے لکھا
”اس میں کوئی شک نہیں کہ عربوں نے بعض نظریات یونانیوں سے لئے تھے، لیکن انہو ں نے ان نظریات کو اچھی طرح سمجھ اور پرکھ کر ان کا انطباق مختلف ادوار کے کثیر حالات پر کیا۔ پھر انہوں نے جدید نظریات اور اچھوتے مباحث پیدا کئے۔ اس طرح ان کی علمی خدمات نیوٹن اور دوسرے سائنسدانوں سے کم نہیں“۔ (اردو دائرئہ معارف ِاسلامیہ: جلد ۱/۱۴، ص ۳۲۲)
حکماے اسلام کے سوانح وتراجم کے مطالعہ سے یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ وہ روم اور یونان کے علومِ عقلیہ کو خلافِ دین، حرفِ آخر یا جامد چیز نہیں سمجھتے تھے۔ وہ خود اپنی ذاتی رائے رکھتے تھے۔ غوروفکر کرتے تھے، تجربہ ومشاہدہ سے کام لیتے تھے، ان علوم میں نئی چیزیں پید اکرتے تھے اور دوسروں کے اَقوال پر تنقید بھی کرتے تھے۔ تعلیم وتعلّم اور افادہ واستفادہ کے لئے وہ اقصاے ترکستان سے ’مغرب‘تک اور اندلس سے حجاز تک محو ِسفر رہا کرتے تھے۔ علومِ طبیہ میں ان کے نظریات ونتائج حیرت انگیز ہیں اور ان میں سے بعض حکما مستقل دبستان ہائے فکر کے بانی تھے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علم تاریخ
خاص طور پر ایک عنوان کے ماتحت ’علم تاریخ‘ کو بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس علم کے ساتھ مسلمانوں سے زیادہ کسی نے اعتنا نہیں کیا۔ مسلمانوں سے قبل تاریخ محض بے سند واقعات پر مبنی تھی، جسے توہم و خرافات اور قصہ وداستان وغیرہ کا مجموعہ سمجھا جاسکتا ہے۔ مسلمان چونکہ امر واقعہ کی صداقت کے لیے مستعد رہتے تھے، لہٰذا انہوں نے علمی بنیادوں پر علم تاریخ کی بنیاد رکھی، جس کے لیے انہوں نے شہادت، روایت اور درایت تینوں کو اہمیت دی، انہوں نے ہر قسم کی روایتوں میں سند کی مسلسل جستجو کی اور رواة کے حالات و تراجم اس سعی و تلاش سے بہم پہنچائے کہ اسے ایک عظیم فن بنا دیا۔
ابن خلدون فلسفہ تاریخ کا موجد ہے۔ اس نے درایت کے اصول مرتب کیے اور اس امر کی تشریح کی کہ راویوں کی جرح و تعدیل کے علاوہ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ واقعہ فی نفسہ ممکن بھی ہے یا نہیں؟ امام محمد بن جریر طبری (متوفی ۳۱۰ھ) کی ’تاریخ الرسل والملوک‘ ، البلاذری کی ’فتوح البلدان‘ ، ابن کثیر کی ’البدایہ والنھایہ‘ اور ’طبقاتِ ابن سعد‘ وغیرہ تاریخ و سوانح کی عظیم کتابیں شمار کی جاتی ہیں جو کئی کئی مجلدات پر مشتمل ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بیت الحکمت کا قیام
یہ ایک علمی ادارہ تھا جس کی تاسیس ہارون الرشید یا اس کے بیٹے مامون الرشید (روایات میں اختلاف ہے) کے ہاتھوں انجام پائی۔ بغداد میں موجود اس دارالترجمہ اور دارالتصنیف میں مختلف ممالک کے رہنے والے مختلف مذاہب کے پیر و کار اور مختلف زبانیں جاننے والے علما مصروفِ کار رہتے تھے۔ ان کا کام یہ تھا کہ یونانی اور دیگر زبانوں میں موجود اہم علمی کتب کا عربی میں ترجمہ کیا جائے۔ اس ادارے سے فلکیات کی رصد گاہیں (Observatories) بھی ملحق تھیں،ان میں سے ایک بغداد میں اور دوسری دمشق میں قائم کی گئی۔ جہاں مسلم سائنسدانوں نے بطلیموس (Ptolemaeus) کی تیار کردہ قدیم تقویم کی تصحیح کی اور خاص طور پر نئی تقاویم ایجاد کیں۔
سطورِ بالا میں مسلمانوں کے گزشتہ علمی عروج اور عیسائیت کا علم سے تصادم نیز یورپ کے علمی انحطاط کا احوال مختصراً بیان کیاگیا ہے۔ یہ ایک آئینہ ہے جس میں ہم اپنی موجودہ کیفیات کا بخوبی جائزہ لے سکتے ہیں اور ان اسباب و علل پر تفکر و تدبر کر سکتے ہیں جو ہمارے موجودہ انہیار و زوال کا باعث بنے۔ عالم اسلام کے نامور ادیب وداعی مولانا سیدابوالحسن علی ندوی  (متوفی ۳۱/ دسمبر ۱۹۹۹ء) رقمطراز ہیں:
”عالم اسلام کے لیے ضروری ہے کہ علم کی اس طرح تنظیم جدید کرے جواس کی روح اور اس کے پیغام سے مطابقت رکھتی ہو۔ عالم اسلام نے قدیم دنیا پر اپنی علمی سیادت کا سکہ جما دیا تھا اور دنیا کی عقلیت و ثقافت کے رگ و ریشہ میں سرایت کر گیا تھا۔ اس نے دنیا کے ادب اور فلسفہ کے جگر میں نشیمن بنایا تھا، صدیوں متمدن دنیا اس کی عقل سے سوچتی رہی، اس کے قلم سے لکھتی رہی اور اسی کی زبان میں تصنیف و تالیف کرتی رہی، چنانچہ ایران، ترکستان، افغانستان اور ہندوستان کے مصنّفین اور اہل علم اگر کوئی کتاب لکھنا چاہتے تھے تو عربی ہی میں لکھتے تھے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اگرچہ یہ علمی تحریک جو عہد ِعباسی کے آغاز میں شروع ہوئی تھی، یونان اور عجم سے متاثر تھی ، اور اسلامی سپرٹ اور اسلامی فکر کی بنیاد پر قائم نہیں تھی اور اس میں علمی و دینی حیثیت سے متعدد خامیاں اور کمزوریاں تھیں، لیکن اپنی قوت و تازگی کی وجہ سے وہ پوری دنیا پر آندھی اور سیلاب کی طرح چھا گئی اور قدیم علمی نظام اس کے سامنے ٹھٹھر کر رہ گئے ۔
اگر عالم اسلامی کی خواہش ہے کہ نئے سرے سے وہ اپنی زندگی شروع کرے اور غیروں کی غلامی سے آزاد ہو، اگر وہ عالمگیر قیادت حاصل کرنا چاہتا ہے تو صرف تعلیمی خودمختاری ہی نہیں بلکہ علمی لیڈر شپ بھی بہت ضروری ہے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں، یہ مسئلہ بہت گہرے غور و فکر کا محتاج ہے اس کی ضرورت ہے کہ وسیع پیمانہ پر تصنیف و تالیف اور علوم کی تدوین جدید کا کام شروع کیا جائے، اس کام کے سربراہ عصری علوم سے اتنی واقفیت اور گہری بصیرت رکھتے ہوں جو تحقیق و تنقید کے درجہ تک پہنچتی ہو، اور اس کے ساتھ اسلام کے اصل سرچشموں سے پورے طور پر سیراب اور اسلامی روح سے ان کا قلب و نظر معمور ہو۔“ (انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر: ص ۳۵۱ تا۳۵۳ از سید ابوالحسن علی ندوی)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سطورِ ذیل میں ہم ان اہم شعبوں کا ذکر کرتے ہیں کہ جن میں مسلمانوں کوید ِطولیٰ حاصل ہونا چاہیے:
۱۔ سائنس کی تعلیم
ہمیں اپنے تمام مسائل کے حل کے لیے جملہ وسائل کو بروئے کار لانے کے ساتھ ساتھ ان میں جدت کی تخلیق اور خود کفالت کی تحصیل کے لیے کیمیا (Chemistry)،طبیعات (Physics) ، حیاتیات (Biology) ،ریاضی (Mathematics) اور دیگر عصری علوم میں مہارت و ممارست کی ضرورت ہے، انہی علوم میں دفاعی اور حربی مقاصد کے لیے ایٹمی قوت بھی شامل ہے جو کہ اسلام کا جزوِلاینفک ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
۲۔ انگریزی زبان کی تعلیم
غیر مسلموں کو اسلام کی تبلیغ کرنے کے لیے اور ان کو اسلامی نظریات و افکار سے روشناس کرانے کے لیے انگریزی بنیادی اہمیت رکھتی ہے جو صرف انگریزوں کی زبان ہونے کے باوجود دنیاکے قریباً تمام ممالک میں بولی، پڑھی، لکھی اور سمجھی جا رہی ہے۔ سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن باز نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ اسلام کی نشرو اشاعت میں ان تمام زبانوں سے کام لینا چاہیے جو عوام الناس میں رائج ہیں۔ (الدعوة الی اللہ واخلاق الدعاة: ص ۲۵)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
۳۔ کمپیوٹر کی تعلیم
اسلام میں اکثر اشیا اپنے عمومی استعمال کی بنا پر جائز ہیں۔ مثلاً چاقو عام طور پر مختلف اشیا یعنی پھل اور سبزی وغیرہ کاٹنے کے لیے مستعمل ہے جو کہ جائز ہے۔ لیکن اسی سے جب کسی انسان کو موت کے گھاٹ اتارا جائے تو اس وقت یہ ایک قبیح و مکروہ اوزار اور آلہ قتل متصور ہوگا۔
ایسے ہی کمپیوٹر (Computer) کا استعمال ہے جس سے عام طور پر تجارت وغیرہ ایسے مباح اُمور کے لیے خاطر خواہ فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ان سب کے باوجود قطعی فیصلہ عموم کی بنا پر کیا جاتا ہے۔ اکثریت جس کام کو کرے، مشاہدات و نتائج اسی سے مرتب کیے جاتے ہیں چنانچہ اس بات میں ذرا بھی جھوٹ نہیں کہ نوے فی صد سے زیادہ لوگ کمپیوٹر میں انٹرنیٹ کے ان پروگراموں کو استعمال کرتے ہیں جو ہمہ وقت عریانی و فحاشی کے مہلک زہر کو نوجوان نسل کی شریانوں میں اُتار رہے ہیں اور اگر مبالغے پر محمول نہ کیا جائے تو ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہونگے کہ کاروبار وغیرہ کا تو جھانسا ہے ورنہ انٹرنیٹ (Internet) کی ایجاد اسی مقصد کیلئے ہوئی ہے کہ اس قوم کی اخلاقیات کے قلعے مسمار کر دئیے جائیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یہ بات قابل غور ہے کہ علم جہاں کامرانی، اقتدار، قیادت اور تہذیبی سربلندی کا ذریعہ ہے وہاں تہذیب ِاخلاق کا سب سے بڑا وسیلہ ہے۔ بقولِ شاعر
علم کا مقصود ہے پاکی عقل و خرد
فقر کا مقصود ہے عفت قلب و نگاہ !​
بدقسمتی سے مغرب میں مدتِ دراز سے علم کے ارتقا کا تعلق انسانی بہبود و فلاح اور اخلاقی استحکام کے ساتھ برقرار نہیں رہ سکا۔ اس نے انسان کے اخلاقی وجود کو نظرانداز کر کے علم کو محض مال وزر ، طاقت کے حصول ا ور آسانیوں کی فراہمی کا وسیلہ بنا لیاہے۔ چنانچہ معاشرے کی فلاح وبہبود کا محض مادّی پہلو پیش نظر رہ گیا ہے اور حقیقی انسانیت سے ماورا اخلاقی پستیوں کے خوگر مصنوعی معاشرے وجود میں آ گئے ہیں۔ مغرب سے آنے والے جدید علوم اور ثقافتی تصورات مشرق کے لیے من وعن قبول کرنے کے لائق نہیں۔ ان میں مغربی دنیا اس قدر غرق ہوچکی ہے کہ نہ تو کسی اچھے معاشرے کی تشکیل میں کامیاب ہوسکے گی اور نہ فرد کا ارتقا صحت مند طریقے سے ہوسکے گا۔ مغرب کے پاس معلومات کا ڈھیر تو ہے اور وہ فارمولے بھی ہیں جن کے ذریعے کائنات کی توانائیوں سے ہزارہا کام لیے جاسکتے ہیں مگر وہ اصول و نظریات نہیں ہیں جو ان معلومات کو سلیقہ مندی سے استعمال کرنے کے لیے روشنی فراہم کر سکیں۔ ٹیکنالوجی میں اس قدر ترقی کے باوجود مغرب کے لوگو ں میں حقیقی زندگی جو اصل اخلاقیات سے متصف ہو، عنقا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سب سے اہم مسئلہ ان کے اخلاقی انحطاط کا ہے۔ یورپین ممالک اور امریکہ وغیرہ کے لوگوں میں مادرپدر آزادی اور رند مشرب خیالات کا فروغ زوروں پر ہے۔ اسی اخلاقی اور معاشرتی پستی نے ان کو انسانیت سے نکال باہر کیا ہے جو حیوان سے بھی بدتر کردار کے حامل ہوچکے ہیں۔ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ہر چھ منٹ کے بعد عصمت دری کا ایک واقعہ سرزد ہو جاتا ہے۔ جب کہ سویڈن میں ستر فی صدی کنواری لڑکیاں شادی سے قبل حاملہ ہو جاتی ہیں۔
حضرت عثمان  کا فرمان ہے کہ ”ایک زانیہ عورت کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ (دنیا میں موجود) تمام عورتیں زنا کریں“…اسی فرمان کی صداقت موجودہ حالات کے حقیقت پسندانہ تجربہ سے واضح ہوتی ہے۔ کہ مغرب محض اپنے دامِ فریب میں پھنسانے کے لیے تجارت میں سبقت (Advancement) وغیرہ کا دھوکہ دیتا ہے حالانکہ وہ دراصل اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کر رہا ہوتا ہے اور یہود جیسی گھاگ، سرد و گرم چشیدہ اور گرگ باراں دیدہ قوم سے یہ کچھ بعید بھی نہیں جن کے مکائد و دسائس ہمیشہ اہل اسلام کی مزاحمت و مخالفت میں مصروفِ کار رہے ہیں۔
 
Top