عبدالرحمن بھٹی
مشہور رکن
- شمولیت
- ستمبر 13، 2015
- پیغامات
- 2,435
- ری ایکشن اسکور
- 293
- پوائنٹ
- 165
قارئین کرام! اس حدیث میں بھی وہی ”عیسیٰ بن جاریہ“ ہے جس پر جروح پہلے ذکر ہو چکیں اور یہ ثابت کیا جاچکا کہ اس کی روایت انتہائی ضعیف ہے ناقابلِ استدلال ہے۔ علاوہ ازیں اس حدیث کو صرف تعدد حدیث کے شوق میں لکھ دیا گیا حالانکہ اس کا تعلق تراویح سے دور کا بھی نہیں۔ یہ گھر میں خواتین کو باجماعت نماز پڑھانے کا واقعہ ہے اور یہ تہجد تھی۔ تراویح مسجد نبوی میں عشاء کی نماز کے فوری بعد تین دن (ایک ایک دن کے وقفہ کے ساتھ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باجماعت پڑھائیں آخری عشرہ میں۔ باقی دنوں میں عشاء ہی کے بعد صحابہ کرام کچھ انفراداً (جن کو قرآن یاد تھا) اور کچھ دو دو چار چار کی ٹکڑیوں میں جماعت سے پڑھتے تھے۔چوتھی حدیث
امام أبو يعلى رحمه الله (المتوفى307)نے کہا:
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، عَنْ عِيسَى بْنِ جَارِيَةَ، حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: جَاءَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ كَانَ مِنِّي اللَّيْلَةَ شَيْءٌ يَعْنِي فِي رَمَضَانَ، قَالَ: «وَمَا ذَاكَ يَا أُبَيُّ؟»، قَالَ: نِسْوَةٌ فِي دَارِي، قُلْنَ: إِنَّا لَا نَقْرَأُ الْقُرْآنَ فَنُصَلِّي بِصَلَاتِكَ، قَالَ: فَصَلَّيْتُ بِهِنَّ ثَمَانَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ أَوْتَرْتُ، قَالَ: فَكَانَ شِبْهُ الرِّضَا وَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا
جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اورکہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم گذشتہ رات (یعنی رمضان کی رات) مجھ سے ایک چیز سرزد ہوئی ہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا وہ کیا چیز ہے ؟ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے گھر میں خواتین نے مجھ سے کہا کہ ہم قران نہیں پڑھ سکتیں لہٰذا ہماری خواہش ہے کہ آپ کی اقتداء میں نماز پڑھیں ، ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر میں نے انہیں آٹھ رکعات تراویح جماعت سے پڑھائی پھر وتر پڑھایا، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پرکوئی نکیر نہ کی گویا اسے منظور فرمایا۔[مسند أبي يعلى الموصلي 3/ 336]
یہ حدیث بھی صحیح ہے۔