جس مصلی پر خانہ کعبہ بنا ھوا ھوتا ھے اس پر امام بیٹھتا ھے تو کیا اس سے خانہ کعبہ کی بے حرمتی نہیں ھوتی. بلکہ کئ بار تو ایسا ھوتا ھے کہ کعبہ کی تصویر پر ھی لوگ بیٹھ جاتے ھیں یا پیر بھی رکھ دیتے ھیں. تو کیا ایسا کرنا صحیح ھے.
اس کا بنیادی جواب تو محترم بھائی
محمد نعیم یونس صاحب نے دے دیا ہے ،اور میرے ذہن میں بھی یہ نکتہ تھا کہ :
حقیقی مسجد میں بھی تو پیر رکھے جاتے ہیں..مسجد کے اوپر بھی چڑھا جاتا ہے...کعبہ کی چھت پر بھی چڑھا جاتا ہے..وغیرہ..
بات دراصل نیت کی ہے اگر بطور تحقیر حقیقی مسجد میں بھی کوئی اپنا پاؤں رکھتا ہے تو وہ مجرم ہے...واللہ اعلم
لیکن علامہ ابن باز رحمہ اللہ نے اس صورت سے بچنے کا فتوی دیا ہے
ایک آڈیو ریکارڈنگ میں اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
سوال :
يوجد على بعض السجادات التى نصلى عليها صور خاصةبالكعبة والمسجد النبوي ؛ فما الحكم؟
یعنی بعض مصلوں (جائے نمازوں ) پر کعبہ شریفہ اور مسجد نبوی کی تصاویر بنی ہوتی ہیں ،تو ان کا کیا حکم ہے ؟
الجواب
ينبغي أن لا يصلى عليها لأن الوقف على الكعبة والوطئ عليها نوع من الإهانة ، لا يجوز تصوير الكعبة على الفرش ، وينبغي لمن رأيها أن لا يشتري السجاد التى عليها صور الكعبة لأنها إن كانت أمامه لا تشوش عليه وإن كانت تحت رجليه فيه نوع من الإهانة فالأحوط للمؤمن أن لا يستعمل هذه السجادات "
جواب :
ایسے مصلووں پر کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھنی چاہیئے ، کیونکہ کعبہ کے اوپر کھڑا ہونے اور ان کو روندنے میں ایک طرح کی اہانت ،و بے ادبی پائی جاتی ہے اور بچھونے اور فرش پر کعبہ کی تصویر بنانا جائز نہیں ،
اور جن مصلوں پر کعبۃ اللہ کی تصویر ہو اسے خریدنا نہیں چاہئیے ، کیونکہ کعبہ کی تصویر اگرنمازی کے سامنے ہوگی تو اس کی توجہ اور دھیان منتشر ہوگا ،اور کعبہ کی تصویر اگرنمازی کے پاؤں کے نیچے ہوگی ،تو اس میں بے ادبی کا پہلو پایا جائے گا ، اس لئے احتیاط اسی میں ہے کہ کہ ایسے مصلے استعمال ہی نہ کئے جائیں "
آڈیو بیان کا لنک