• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

معاملات میں حرام کا تعین

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
١۔ عبادات میں دیکھآ جاتا ہے کہ کس چیز کا حکم دیا گیا ہے اور معاملات یعنی دنیاوی معاملات میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ کس چیز سے منع کیا گیا ہے۔ یعنی عبادات میں صرف وہی عبادات و طریقہ جائز ہے، جو قرآن و حدیث میں بیان ہوا ہے۔ اس کے برعکس معاملات میں صرف وہی حرام ہے، جس کا قرآن و حدیث میں ذکر ہے۔ کیا یہ کلیہ درست ہے؟ اگر ہے تو اس کلیہ کا اصل مآخذ کیا ہے؟

٢۔ میاں بیوی کے صنفی تعلقات کے ضمن میں دو باتیں تو حرام ہیں۔ ایک مقعد میں مجامعت اور دوسرے حیض و نفاس کے دوران مجامعت۔ ان دواقسام کے افعال کے علاوہ باہمی صنفی لذائذ کے ضمن میں کیا کوئی تیسری قسم کا فعل بھی حرام ہے ؟
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
(١)

جب لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ دین میں نئی نئی چیزیں ایجاد نہ کروایسا کرنا بدعت ہے تو کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اگر نئی نئی چیزیں نہیں ایجاد کرسکتے تو آج کل کی جونئی نئی ایجادات ہیں مثلا بس ،ٹرین اورہوائی جہاز وغیرہ ، تو یہ جائز کیسے ہوگئیں، آخریہ بھی تو نئی چیزیں ہیں ۔
عرض ہے کہ صرف دین میں نئی نئی چیزیں ایجاد کرنا ممنوع ہے نہ کہ دنیاوی امورمیں، بس ،ٹرین اورہوائی جہاز وغیرہ یہ سب دنیاوی چیزیں ہیں اوردنیاوی چیزوں میں اصلا ہمارے لئے تمام چیزیں جائز ہیں،الایہ کہ دنیاوی چیزوں میں سے بھی کسی چیز کو خصوصیت کے ساتھ منع کردیا گیا ہودریں صورت صرف یہی چیزحرام ہوگی باقی دنیا کی تمام چیزیں جائز ہوں گی ، اسی مفہوم کو فقہاء نے اس قائدہ کی شکل میں پیش کیا ہے:
''الاصل فی العبادات الحرمة والاصل فی الاشیاء الحلة''
یعنی دینی امورعبادات وغیرہ میں اصلا ساری چیزیں حرام ہیں صرف وہی کرنی ہیں جن کا ثبوت ملے ، اوردنیاوی امور میں اصلا تمام چیز یں جائز ہیں صرف وہی ممنوع ہیں جن کی ممانعت کا ثبوت ملے۔
یہ اصول اورتفریق خود ساختہ نہیں بلکہ قرآنی آیات واحادیث صحیحہ سے ماخوذ ومستنبط ہے، ذیل میں اس سلسلے کی ایک صحیح حدیث پیش خدمت ہے:

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
حَدَّثَنَا عَفَّانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ، وَهِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَ أَصْوَاتًا، (2) فَقَالَ: " مَا هَذِهِ الْأَصْوَاتُ؟ " قَالُوا: النَّخْلُ يُؤَبِّرُونَهُ يَا رَسُولَ اللهِ، فَقَالَ: " لَوْ لَمْ يَفْعَلُوا لَصَلُحَ "، فَلَمْ يُؤَبِّرُوا عَامَئِذٍ، فَصَارَ شِيصًا، فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " إِذَا كَانَ شَيْئًا مِنْ أَمْرِ دُنْيَاكُمْ فَشَأْنَكُمْ بِهِ، وَإِذَا كَانَ شَيْئًا مِنْ أَمْرِ دِينِكُمْ فَإِلَيَّ "[مسند أحمد: 41/ 401 واسنادہ صحیح علی شرط مسلم]۔
ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ اورصحابی رسول انس رضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ ایک مرتبہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ آوازیں سنیں فرمایا:''یہ کیسی آوازیں ہیں''؟ صحابہ نے جواب دیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! لوگ کجھوروں کی پیوندکاری کررہے ہیں ۔اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''اگریہ لوگ ایسانہ کریں تو بہترہے''۔تو اس سال لوگوں نے کجھورکی پیوندکاری نہیں کی،جس کی وجہ سے اس سال کجھورکی فصل اچھی نہ ہوئی،تو لوگوں نے اس کاتذکرہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ،تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''جب تمہارے دنیا کا کوئی معاملہ ہو تو تم اسے جس طرح چاہوانجام دو لیکن اگرتمہارے دین کا معاملہ ہو تو میری طرف رجوع کرو''َّ

مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ دینی امور میں ہرامر کے کرنے کی دلیل ہونا یعنی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ثبوت ہونا ضروری ہے،جبکہ دنیاوی امورمیں کسی امر کے نہ کرنے کی دلیل چاہئے یعنی اگر دنیاوی امورمیں سے کسی چیز سے متعلق ممانعت وارد نہیں ہے تو اصلا وہ چیز جائز ہے،بس، ٹرین اورجہاز وغیرہ اوراس جیسی دیگر چیزیں دنیاوی امور سے تعلق رکھتی ہیںاوراس کی ممانعت وارد نہیں ہے اس لئے جائز ہیں۔
جبکہ فاتحہ خوانی ،مروجہ ایصال ثواب اوراس جیسے امور دین سے تعلق رکھتے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا ثبوت نہیں اس لئے یہ ناجائز ہیں۔اس اصول کے قرآن وحدیث میں اوربھی کئی دلائل موجود ہیں ،نیز یہ اصول اہل سنت کے مستند ائمہ کے نزدیک مسلم ہے ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
(٢)


لگتاہے کہ آپ نے اسی دوسرے سوال ہی کی خاطر پہلاسوال کیا ہے ، میں صرف ایک لنک دینے پراکتفاء کرتاہوں ، اس بحث کو پڑھ کرخود فیصلہ کریں صحیح کیا ہے۔
گذارش ہے کہ اس طرح کا سوال اوپن فورم پرنہ کیا کریں یا تو اپنے علاقہ کے علماء سے پوچھ لیں یا پھرذاتی پیغام کا استعمال کریں ۔
القول النفيس في تحريم الفعل الخسيس - ملتقى أهل الحديث

ساتھ میں یہ بھی گذارش ہے کہ فقہی سوالات اس زمرہ میں نہ پیش کریں ۔
بارک اللہ فیکم۔
 
Top