• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم معرکۂ مو تہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
معرکۂ مو تہ

موتہ (میم کو پیش اور واو ساکن ) اردن میں بَلْقَاء کے قریب ایک آبادی کانام ہے جہاں سے بیت المقدس دو مرحلے پر واقع ہے۔ زیر بحث معرکہ یہیں پیش آیا تھا۔
یہ سب سے بڑا خونریز معرکہ تھا جو مسلمانوں کو رسول اللہﷺ کی حیات مبارکہ میں پیش آیا اور یہی معرکہ عیسائی ممالک کی فتوحات کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ اس کا زمانہ ٔ وقوع جمادی الاولیٰ ۸ھ مطابق اگست یا ستمبر ۶۲۹ ء ہے۔
معرکہ کا سبب:
اس معرکے کا سبب یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے حارث بن عُمیر اَزْدِیؓ کو اپنا خط دے کر حاکم بُصریٰ کے پاس روانہ کیا تو انہیں قیصر روم کے گورنر شرحبیل بن عمرو غسانی نے جو بلقاء پر مامور تھا گرفتار کرلیا اور مضبوطی کے ساتھ باندھ کر ان کی گردن ماردی۔
یاد رہے کہ سفیروں اور قاصدوں کا قتل نہایت بدترین جرم تھا جو اعلانِ جنگ کے برابر بلکہ اس سے بھی بڑھ کر سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے جب رسول اللہﷺ کو اس واقعے کی اطلاع دی گئی تو آپﷺ پر یہ بات سخت گراں گذری اور آپﷺ نے اس علاقہ پر فوج کشی کے لیے تین ہزار کا لشکر تیار کیا۔1اور یہ سب سے بڑا اسلامی لشکر تھا جو اس سے پہلے جنگ احزاب کے علاوہ کسی اور جنگ میں فراہم نہ ہوسکا تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
لشکر کے امراء اور رسول اللہﷺ کی وصیت:
رسول اللہﷺ نے اس لشکر کا سپہ سالار حضرت زید بن حارثہؓ کو مقرر کیا۔ اور فرمایا کہ اگر زید قتل کردیے جائیں تو جعفر ، اور جعفر قتل کردیے جائیں تو عبد اللہ بن رواحہ سپہ لار ہوں گے۔2 آپﷺ نے لشکر کے لیے سفید پرچم باندھا اور اسے حضرت زید بن حارثہؓ کے حوالے کیا۔ لشکر کو آپﷺ نے یہ وصیت بھی فرمائی کہ جس مقام پر حضرت حارث بن عمیرؓ قتل کیے گئے تھے وہاں پہنچ کر اس مقام کے باشندوں کو اسلام کی دعوت دیں۔ اگر وہ اسلام قبول کرلیں تو بہتر ، ورنہ اللہ سے مدد مانگیں ، اور لڑائی کریں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے نام سے ، اللہ کی راہ میں ، اللہ کے ساتھ کفر کرنے والوں سے غزوہ کرو۔ اور دیکھو بد عہدی نہ کرنا ، خیانت نہ کرنا، کسی بچے اور عورت اور فنا کے قریب بڈھے کو اور گرجے میں رہنے والے تارک الدنیا کو قتل نہ کرنا۔ کھجور اور کوئی درخت نہ کاٹنا اور
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 زاد المعاد ۲/۱۵۵، فتح الباری ۷/۵۱۱
2 صحیح بخاری باب غزوۂ موتہ من ارض الشام ۲/۶۱۱
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
کسی عمارت کو منہدم نہ کرنا۔1
اسلامی لشکر کی روانگی اور حضرت عبد اللہ بن رواحہ کا گریہ:
جب اسلامی لشکر روانگی کے لیے تیار ہوگیا تو لوگوں نے آ آکر رسول اللہﷺ کے مقررہ سپہ سالاروں کو الوداع کہا اور سلام کیا۔ اس وقت ایک سپہ سالار حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ رونے لگے۔ لوگوں نے کہا : آپ کیوںرورہے ہیں ؟ انہوں نے کہا : دیکھو ، اللہ کی قسم ! (اس کا سبب) دُنیا کی محبت یا تمہارے ساتھ میرا تعلق خاطر نہیں ہے بلکہ میں نے رسول اللہﷺ کو کتاب اللہ کی ایک آیت پڑھتے ہوئے سنا ہے جس میں جہنم کاذکر ہے ، آیت یہ ہے :
وَإِن مِّنكُمْ إِلَّا وَارِ‌دُهَا ۚ كَانَ عَلَىٰ رَ‌بِّكَ حَتْمًا مَّقْضِيًّا (۱۹: ۷۱)
''تم میں سے ہر شخص جہنم پر وارد ہونے والا ہے۔ یہ تمہارے رب پر ایک لازمی اور فیصلہ کی ہوئی بات ہے۔''
میں نہیں جانتا کہ جہنم پر وارد ہونے کے بعد کیسے پلٹ سکوں گا ؟ مسلمانوں نے کہا : اللہ سلامتی کے ساتھ آپ لوگوں کا ساتھی ہو۔ آپ کی طرف سے دفاع کرے اور آپ کو ہماری طرف نیکی اور غنیمت کے ساتھ واپس لائے۔ حضرت عبد اللہ بن رواحہ نے کہا :

لکننی أســأل الرحمن مغفـرۃ وضربۃ ذات قرع تقذف الزبـدا​
أو طعنۃ بـیدی حـران مہجـزۃ بحربــۃ تنفذ الأحشاء والکبــدا​
حتی یقال إذا مروا علی جدثی یا أرشـد اللہ من غاز وقد رشـدا​

''لیکن میں رحمن سے مغفرت کا ، اور استخواں شکن ، مغز پاش تلوار کی کاٹ کا، یا کسی نیزہ باز کے ہاتھوں ، آنتوں اور جگر کے پار اتر جانے والے نیزے کی ضرب کا سوال کرتاہوں تاکہ جب لوگ میری قبر پر گزریں تو کہیں ہائے وہ غازی جسے اللہ نے ہدایت دی اور جو ہدایت یافتہ رہا۔''
اس کے بعد لشکر روانہ ہوا۔ رسول اللہﷺ اس کی مشایعت کرتے ہوئے ثنیۃ الوداع تک تشریف لے گئے اور وہیں سے اسے الوداع کہا۔2
اسلامی لشکر کی پیش رفت اور خوفناک ناگہانی حالت سے سابقہ:
اسلامی لشکر شمال کی طرف بڑھتا ہوا معان پہنچا۔ یہ مقام شمالی حجاز سے متصل شامی (اردنی) علاقے میں واقع ہے۔ یہاں لشکر نے پڑاؤ ڈالا۔ اور یہیں جاسوسوں نے اطلاع پہنچائی کہ ہرقل قیصر ِ روم بلقاء کے علاقے میں مآب
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 مختصر السیرۃ للشیخ عبد اللہ ص ۳۲۷یہ حدیث واقعہ کے بغیر صحیح مسلم ، سنن ابی داؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ وغیرہ میں مختلف الفاظ سے مروی ہے۔
2 ابن ہشام ۲/۳۷۳ ، ۳۷۴ زاد المعاد ۲/۱۵۶
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
کے مقام پر ایک لاکھ رومیوں کا لشکر لے کر خیمہ زن ہے اور اس کے جھنڈے تلے لخم وجذام ، بلقین وبہرااور بلی (قبائلِ عرب ) کے مزیدایک لاکھ افراد بھی جمع ہوگئے ہیں۔
معان میں مجلس شوریٰ :
مسلمانوں کے حساب میں سرے سے یہ بات تھی ہی نہیں کہ انہیں کسی ایسے لشکر جرار سے سابقہ پیش آئے گا جس سے وہ اس دور دراز سر زمین میں ایک دم اچانک دوچار ہوگئے تھے۔ اب ان کے سامنے سوال یہ تھا کہ آیا تین ہزار کا ذراسا لشکر دولاکھ کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر سے ٹکراجائے یا کیا کرے ؟ مسلمان حیران تھے اور اسی حیرانی میں معان کے اندر دوراتیں غور اور مشورہ کرتے ہوئے گزاردیں۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ہم رسول اللہﷺ کولکھ کر دشمن کی تعداد کی اطلاع دیں۔ اس کے بعد یا تو آپ کی طرف سے مزید کمک ملے گی، یا اور کوئی حکم ملے گا اور اس کی تعمیل کی جائے گی۔
لیکن حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ نے اس رائے کی مخالفت کی اور یہ کہہ کر لوگوں کو گرمادیا کہ لوگو! اللہ کی قسم! جس چیز سے آپ کترارہے ہیں یہ وہی تو شہادت ہے جس کی طلب میں آپ نکلے ہیں۔ یاد رہے دشمن سے ہماری لڑائی تعداد ، قوت اور کثرت کے بل پر نہیں ہے بلکہ ہم محض اس دین کے بل پر لڑتے ہیں جس سے اللہ نے ہمیں مشرف کیا ہے۔ اس لیے چلیے آگے بڑھئے ! ہمیں دوبھلائیوں میں سے ایک بھلائی حاصل ہوکر رہے گی۔ یا تو ہم غالب آئیں گے یا شہادت سے سرفراز ہوں گے۔ بالآخر حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ کی پیش کی ہوئی بات طے پاگئی۔
دشمن کی طرف اسلامی لشکر کی پیش قدمی:
غرض اسلامی لشکر نے معان میں دوراتیں گزارنے کے بعد دشمن کی جانب پیش قدمی کی ، اور بلقاء کی ایک بستی میں جس کا نام ''مَشَارِف'' تھا۔ ہرقل کی فوجوں سے اس کا سامنا ہوا۔ اس کے بعد دشمن مزید قریب آگیا اور مسلمان''موتہ'' کی جانب سمٹ کر خیمہ زن ہو گئے۔ پھر لشکر کی جنگی ترتیب قائم کی گئی۔ مَیْمَنہ پر قطبہ بن قتادہ عذری مقرر کیے گئے اور مَیْسَرہ پر عبادہ بن مالک انصاریؓ ۔
جنگ کا آغاز اور سپہ سالاروں کی یکے بعد دیگرے شہادت:
اس کے بعد مُوْتَہ ہی میں فریقین کے درمیان ٹکراؤ ہوا اور نہایت تلخ لڑائی شروع ہوگئی۔ تین ہزار کی نفری دولاکھ ٹڈی دل کے طوفانی حملوں کامقابلہ کررہی تھی۔ عجیب وغریب معرکہ تھا ، دنیا پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی لیکن جب ایمان کی بادِبہاری چلتی ہے تو اسی طرح کے عجائبات ظہور میں آتے ہیں۔
سب سے پہلے رسول اللہﷺ کے چہیتے حضرت زید بن حارثہؓ نے علَم لیا اور ایسی بے جگری سے لڑے کہ اسلامی شہبازوں کے علاوہ کہیں اور اس کی نظیر نہیں ملتی۔ وہ لڑتے رہے ، لڑتے رہے یہاں تک کہ دشمن کے نیزوں میں گتھ گئے اور خلعتِ شہادت سے مشرف ہوکر زمین پر آرہے۔
اس کے بعد حضرت جعفرؓ کی باری تھی۔ انہوں نے لپک جھنڈا اٹھایا اور بے نظیر جنگ شروع کردی۔ جب لڑائی کی شدت شباب کو پہنچی تو اپنے سُرخ وسیا ہ گھوڑے کی پشت سے کود پڑے۔ کوچیں کاٹ دیں اور وار پر وار کرتے اور روکتے رہے۔ یہاں تک دشمن کی ضرب سے داہنا ہاتھ کٹ گیا۔ اس کے بعد انہوں نے جھنڈا بائیں ہاتھ میں لے لیا اور اسے مسلسل بلند رکھا یہاں تک کہ بایاں ہاتھ بھی کاٹ دیا گیا۔ پھر دونوں باقی ماندہ بازوؤں سے جھنڈا آغوش میں لے لیا اور اس وقت تک بلند رکھا جب تک کہ خلعتِ شہادت سے سرفراز نہ ہوگئے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک رومی نے ان کو ایسی تلوار ماری کہ ان کے دوٹکڑے ہوگئے۔ اللہ نے انہیں ان کے دونوں بازوؤں کے عوض جنت میں دوبازو عطا کیے جن کے ذریعہ وہ جہاں چاہتے ہیں اڑتے ہیں۔ اسی لیے ان کا لقب جعفر طَیَّار اور جعفر ذُوالجَنَاحین پڑ گیا۔ (طَیّار معنی اڑنے والا اور ذُو الجناحین معنی دوبازوؤں والا)
امام بخاری رحمہ اللہ نے نافع کے واسطے سے ابن عمرؓ کا یہ بیان روایت کیا ہے کہ میں نے جنگ موتہ کے روز حضرت جعفر کے پاس جبکہ وہ شہید ہوچکے تھے، کھڑے ہو کر ان کے جسم پر نیزے اور تلوار کے پچاس زخم شمار کیے۔ ان میں سے کوئی بھی زخم پیچھے نہیں لگاتھا۔ 1
ایک دوسری روایت میں ابن عمرؓ کا یہ بیان اس طرح مروی ہے کہ میں بھی اس غزوے میں مسلمانوں کے ساتھ تھا۔ ہم نے جعفر بن ابی طالب کو تلاش کیا تو انہیں مقتولین میں پایا اور ان کے جسم میں نیزے اور تیر کے نوے سے زیادہ زخم پائے۔ 2نافع سے عمرہی کی روایت میں اتنا اور اضافہ ہے کہ ہم نے یہ سب زخم ان کے جسم کے اگلے حصے میں پائے۔3
اس طرح کی شجاعت وبسالت سے بھر پور جنگ کے بعدجب حضرت جعفرؓ بھی شہید کردیے گئے تو اب حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ نے پرچم اٹھایا اور اپنے گھوڑے پر سوار آگے بڑھے اور اپنے آپ کو مقابلہ کے لیے آمادہ کرنے لگے۔ لیکن انہیں کسی قدر ہچکچاہٹ ہوئی، حتیٰ کہ تھوڑا سا گریز بھی کیا، لیکن اس کے بعد کہنے لگے :
أقسمت یــا نفــس لتنزلنــہ کارہــــــۃ أو لتطـاوعـنـــہ
إن أجلب الناس وشدوا الرنہ ما لی أراک تکـرہین الجنـــۃ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری ، باب غزوۃ موتہ من ارض الشام ۲/۶۱۱
2 ایضا ۲/۶۱۱
3 فتح الباری ۷/۵۱۲ بظاہر دونوں حدیث میں تعداد کا اختلاف ہے۔ تطبیق یہ دی گئی ہے کہ تیروں کے زخم شامل کرکے تعداد بڑھ جاتی ہے۔ (دیکھئے فتح الباری )
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
''اے نفس! قسم ہے کہ تو ضرور مدّ ِ مقابل اُتر ، خواہ ناگواری کے ساتھ خواہ خوشی خوشی، اگر لوگوں نے جنگ برپا کررکھی ہے اور نیزے تان رکھے ہیں تو میں تجھے کیوں جنت سے گریزاں دیکھ رہا ہوں۔''
اس کے بعد وہ مدمقابل میں اترے۔ اتنے میں ان کا چچیرا بھائی ایک گوشت لگی ہو ئی ہڈی لے آیا اور بولا: اس کے ذریعہ اپنی پیٹھ مضبوط کر لو۔ کیونکہ ان دنوں تمہیں سخت حالات سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ انہوں نے ہڈی لے کر ایک بار نوچی پھر پھینک کر تلوار تھام لی۔ اور آگے بڑھ کر لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔
جھنڈا ، اللہ کی تلوار وں میں سے ایک تلوار کے ہاتھ میں :
اس موقع پر قبیلہ بنو عجلان کے ثابت بن ارقم نامی ایک صحابی نے لپک کر جھنڈا اٹھا لیا اور فرمایا : مسلمانو ! اپنے کسی آدمی کو سپہ سالار بنا لو ، صحابہ نے کہا : آپ ہی یہ کام انجام دیں۔ انہوں نے کہا:میں یہ کام نہیـں کرسکوں گا۔ اس کے بعد صحابہ نے حضرت خالد بن ولید کو منتخب کیا اور انہوں نے جھنڈا لیتے ہی نہایت پرزور جنگ کی۔ چنانچہ صحیح بخاری میں خود حضرت خالد بن ولیدؓ سے مروی ہے کہ جنگ موتہ کے روز میرے ہاتھ میں نو تلواریں ٹوٹ گئیں۔ پھر میرے ہاتھ میں صرف ایک یمنی بانا (چھوٹی سی تلوار) باقی بچا۔1 اور ایک دوسری روایت میں ان کا بیان اس طرح مروی ہی کہ میرے ہاتھ میں جنگ موتہ کے روز نو تلواریں ٹوٹ گئیں اورایک یمنی بانا میرے ہاتھ میں چپک کررہ گیا۔2
ادھر رسول اللہﷺ نے جنگ مُوتہ ہی کے روز جبکہ ابھی میدان جنگ سے کسی قسم کی اطلاع نہیں آئی تھی وحی کی بناء پر فرمایا کہ جھنڈا زید نے لیا ، اور وہ شہید کردیے گئے۔ پھر جعفر نے لیا ، وہ بھی شہید کردیے گئے، پھر ابن ِ رواحہ نے لیا، اور وہ بھی شہید کردیے گئے - اس دوران آپ کی آنکھیں اشکبار تھیں -یہاں تک کہ جھنڈا اللہ کی ایک تلوار نے لیا۔ (اور ایسی جنگ لڑی کہ ) اللہ نے ان پر فتح عطاکی۔3
خاتمہ ٔجنگ:
انتہائی شجاعت وبسالت اور زبردست جاں بازی وجاں سپاری کے باوجود یہ بات انتہائی تعجب انگیز تھی کہ مسلمانوں کا یہ چھوٹا سا لشکر رُومیوں کے اس لشکر ِ جرار کی طوفانی لہروں کے سامنے ڈٹا رہ جائے۔ لہٰذا اس نازک مرحلے میں حضرت خالد بن ولیدؓ نے مسلمانوں کو اس گرداب سے نکالنے کے لیے جس میں وہ خود کود پڑے تھے ، اپنی مہارت اور کمال ہنرمندی کا مظاہرہ کیا۔
روایات میں بڑا اختلاف ہے کہ اس معرکے کا آخری انجام کیا ہوا۔ تمام روایات پر نظر ڈالنے سے صورت حال
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری ، باب غزوۂ موتہ من ارض الشام ۲/۶۱۱
2 صحیح بخاری ، باب غزوۂ موتہ من ارض الشام ۲/۶۱۱
3 ایضا ۲/۶۱۱
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
یہ معلوم ہوتی ہے کہ جنگ کے پہلے روز حضرت خالد بن ولیددن بھر رومیوں کے مد مقابل ڈٹے رہے۔ لیکن وہ ایک ایسی جنگی چال کی ضرورت محسوس کررہے تھے جس کے ذریعہ رومیوں کو مرعوب کر کے اتنی کامیابی کے ساتھ مسلمانوں کو پیچھے ہٹالیں کہ رومیوں کو تعاقب کی ہمت نہ ہو۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر مسلمان بھاگ کھڑے ہوئے اور رومیوں نے تعاقب شروع کردیا ، تو مسلمانوں کو ان کے پنجے سے بچانا سخت مشکل ہوگا۔
چنانچہ جب دوسرے دن صبح ہوئی تو انہوں نے لشکر کی ہیئت اور وضع تبدیل کردی اور اس کی ایک نئی ترتیب قائم کی۔ مقدمہ (اگلی لائن ) کو ساقہ (پچھلی لائن )اور ساقہ کو مقدمہ کی جگہ رکھ دیا۔ اور میمنہ کو مَیْسَرَہ اور میسرہ کو میمنہ سے بدل دیا۔ یہ کیفیت دیکھ کر دشمن چونک گیا اور کہنے لگا کہ انہیں کمک پہنچ گئی ہے۔ غرض رومی ابتداہی میں مرعوب ہوگئے۔ ادھر جب دونوں لشکرکا آمنا سامنا ہوا اور کچھ دیر تک جھڑپ ہوچکی تو حضرت خالد بن ولید نے اپنے لشکر کا نظام محفوظ رکھتے ہوئے مسلمانوں کوتھوڑا تھوڑا پیچھے ہٹانا شروع کیا لیکن رومیوں نے اس خوف سے ان کا پیچھا نہ کیا کہ مسلمان دھوکا دے رہے ہیں اور کوئی چال چل کر انہیں صحراکی پہنائیوں میں پھینک دینا چاہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن اپنے علاقہ میں واپس چلاگیا اور مسلمانوں کے تعاقب کی بات نہ سوچی۔ ادھر مسلمان کامیابی اورسلامتی کے ساتھ پیچھے ہٹے اور بھر مدینہ واپس آگئے۔1
فریقین کے مقتولین :
اس جنگ میں بارہ مسلمان شہید ہوئے۔ رومیوں کے مقتولین کی تعداد کا علم نہ ہوسکا۔ البتہ جنگ کی تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بڑی تعداد میں مارے گئے۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جب تنہا حضرت خالد کے ہاتھ میں نو تلوار یں ٹوٹ گئیں تو مقتولین اور زخمیوں کی تعداد کتنی رہی ہوگی۔
اس معرکے کا اثر :
اس معرکے کی سختیاں جس انتقام کے لیے جھیلی گئی تھیں ، مسلمان اگرچہ وہ انتقام نہ لے سکے ، لیکن اس معرکے نے مسلمانوں کی ساکھ اور شہرت میں بڑا اضافہ کیا۔ اس کی وجہ سے سارے عرب انگشت بدنداں رہ گئے۔ کیونکہ رومی اس وقت روئے زمین پر سب سے بڑی قوت تھے۔ عرب سمجھتے تھے کہ ان سے ٹکرانا خودکشی کے مترادف ہے۔ اس لیے تین ہزار کی ذرا سی نفری کا دولاکھ کے بھاری بھرکم لشکر سے ٹکرا کر کوئی قابل ذکر نقصان اٹھائے بغیر واپس آجانا عجوبۂ روزگار سے کم نہ تھا۔ اور اس سے یہ حقیقت بڑی پختگی کے ساتھ ثابت ہوتی تھی کہ عرب اب تک جس قسم کے لوگوں سے واقف اور آشنا تھے ، مسلمان ان سے الگ تھلگ ایک دوسری ہی طرز کے لوگ ہیں۔ وہ اللہ کی طرف سے مویّد ومنصور ہیں اور ان کے راہنما واقعتااللہ کے رسول ہیں۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ضدی قبائل
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 دیکھئے: فتح الباری ۷/۵۱۳ ، ۵۱۴ ، زاد المعاد ۲/۱۵۶ ، معرکے کی تفصیل سابقہ مآخذ سمیت ان دونوں مآخذ سے لی گئی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
جو مسلمانوں سے مسلسل برسرِپیکار رہتے تھے ، اس معرکے کے بعد اسلام کی طرف مائل ہوگئے۔ چنانچہ بنو سلیم ، اشجع ، غطفان ، ذیبان اور فزارہ وغیرہ قبائل نے اسلام قبول کرلیا۔
یہی معرکہ ہے جس سے رومیوں کے ساتھ خونریز ٹکر شروع ہوئی ،جو آگے چل کر رومی ممالک کی فتوحات اور دُور دراز علاقوں پر مسلمانوں کے اقتدار کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔
سریہ ذات السلاسل :
جب رسول اللہﷺ کو معرکہ ٔ موتہ کے سلسلے میں مشارف شام کے اندر رہنے والے عرب قبائل کے موقف کا علم ہوا کہ وہ مسلمانوں سے لڑنے کے لیے رومیوں کے جھنڈے تلے جمع ہوگئے تھے تو آپﷺ نے ایک ایسی حکمتِ بالغہ کی ضرورت محسوس کی جس کے ذریعے ایک طرف تو ان عرب قبائل اور رومیوں کے درمیان تفرقہ پڑجائے۔ اور دوسری طرف خود مسلمانوں سے ان کی دوستی ہوجائے تاکہ اس علاقے میں دوبارہ آپﷺ کے خلاف اتنی بڑی جمعیت فراہم نہ ہوسکے۔
اس مقصد کے لیے آپﷺ نے حضرت عمرو بن عاصؓ کو منتخب فرمایا کیونکہ ان کی دادی قبیلہ بلی سے تعلق رکھتی تھیں۔ چنانچہ آپﷺ نے جنگ موتہ کے بعد ہی، یعنی جمادی الآخر ہ ۸ھ میں ان کی تالیف ِ قلب کے لیے حضرت عمرو بن عاصؓ کو ان کی جانب روانہ فرمایا۔ کہا جاتا ہے کہ جاسوسوں نے یہ اطلاع بھی دی تھی کہ بنو قضاعہ نے اطرافِ مدینہ پر ہلہ ّ بولنے کے ارادہ سے ایک نفری فراہم کررکھی ہے، لہٰذا آپﷺ نے حضرت عمرو بن عاصؓ کو ان کی جانب روانہ کیا۔ ممکن ہے دونوں سبب اکٹھا ہوگئے ہوں۔
بہرحال رسول اللہﷺ نے حضرت عمرو بن عاصؓ کے لیے سفید جھنڈا باندھا۔ اور اس کے ساتھ کا لی جھنڈیاں بھی دیں۔ اور ان کی کمان میں بڑے بڑے مہاجرین وانصار کی تین سو نفری دے کر - انہیں - رخصت فرمایا۔ ان کے ساتھ تیس گھوڑے بھی تھے۔ آپﷺ نے حکم دیا کہ بلی اور عذرہ اور بلقین کے جن لوگوں کے پاس سے گذریں ان سے مدد کے خواہاں ہوں۔ وہ رات کو سفر کرتے اور دن کو چھپے رہتے تھے۔ جب دشمن کے قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ ان کی جمعیت بہت بڑی ہے۔ اس لیے حضرت عَمرو نے حضرت رافع بن مکیث جہنی کو کمک طلب کرنے کے لیے رسول اللہﷺ کی خدمت میں بھیج دیا۔ رسول اللہﷺ نے حضرت ابوعبیدہ بن جراح کو عَلَم دے کر ان کی سرکردگی میں دوسو فوجیوں کی کمک روانہ فرمائی۔ جس میں رؤساء مہاجرین - مثلا: ابو بکر وعمر - اور سردارانِ انصار بھی تھے۔ ابو عبیدہ کو حکم دیا گیا تھا کہ عمرو بن عاص سے جاملیں ، اور دونوں مل کر کام کریں، اختلاف نہ کریں۔ وہاں پہنچ کر حضرت ابو عبیدہؓ نے امامت کرنی چاہی۔ لیکن حضرت عمر و نے کہا: آپ میرے پاس کمک کے طور پر آئے ہیں۔ امیر میں ہوں۔ ابو عبیدہ نے ان کی بات مان لی اور نماز حضرت عمرو ہی پڑھاتے رہے۔
کمک آجانے کے بعد یہ فوج مزید آگے بڑھ کرقضاعہ کے علاقہ میں داخل ہوئی اور اس علاقہ کو روندتی ہوئی اس کے دور درازحدود تک جا پہنچی۔ اخیر میں ایک لشکر سے مڈبھیڑ ہوئی، لیکن جب مسلمانوں نے اس پر حملہ کیا تو وہ ادھر اُدھر بھاگ کر بکھر گیا۔
اس کے بعد عوف بن مالک اشجعیؓ کو ایلچی بنا کر رسول اللہﷺ کی خدمت میں بھیجا گیا۔ انہوں نے مسلمانوں کی بہ سلامت واپسی کی اطلاع دی اور غزوے کی تفصیل سنائی۔
ذات السلاسل (پہلی سین کو پیش اور زبر دونوں پڑھنا درست ہے ) یہ وادیٔ القریٰ سے آگے ایک خطہ ٔ زمین کا نام ہے۔ یہاں سے مدینہ کا فاصلہ دس دن ہے۔ ابن ِ اسحاق کا بیان ہے کہ مسلمان قبیلہ ٔ جذام کی سر زمین میں واقع سلاسل نامی ایک چشمے پر اترے تھے۔ اسی لیے اس مہم کا نام ذات السلاسل پڑ گیا۔1
سریہ خضر ہ: (شعبان۸ھ)
اس سریہ کا سبب یہ تھا کہ نجدکے اندر قبیلہ ٔ محارب کے علاقہ میں خضرہ نامی ایک مقام پر بنو غطفان لشکر جمع کررہے تھے۔ لہٰذا ان کی سر کوبی کے لیے رسول اللہﷺ نے حضرت ابو قتادہؓ کو پندرہ آدمیوں کی جمعیت دے کر روانہ کیا۔ انہوں نے دشمن کے متعدد آدمیوں کو قتل اور قید کیا اور مال ِ غنیمت بھی حاصل کیا۔ اس مہم میں وہ پندرہ دن مدینہ سے باہر رہے۔2
****​
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 دیکھئے: ابن ہشام ۲/۶۲۳تا ۶۲۶ ، زاد المعاد ۲/۱۵۷
2 تلقیح الفہوم ص ۳۳
 
Top