- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,751
- پوائنٹ
- 1,207
معصیت کی صحیح تعریف
ظاہر ہے کہ یہ اس امر کے سراسر خلاف ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے رسول مبعوث فرمائے اور کتابیں نازل فرمائیں۔ اس لیے وہ معصیت جو کہ مذمت کی مستحق اور عذاب کی موجب ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اور اس کے رسول کے حکم کی مخالفت سے عبارت ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
تِلْكَ حُدُوْدُ اللہِ۰ۭ وَمَنْ يُّطِعِ اللہَ وَرَسُوْلَہ يُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْھَا۰ۭ وَذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ۱۳ وَمَنْ يَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہ وَيَتَعَدَّ حُدُوْدَہ يُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِيْھَا۰۠ وَلَہ عَذَابٌ مُّہِيْنٌ
النساء
عنقریب ہم ارادہ کونیہ و دینیہ اور امرِ کونی و دینی کے درمیان فرق بیان کریں گے۔ صوفیاء کی ایک جماعت کو اس مسئلے میں اشتباہ ہوا تھا تو جنید رحمہ اللہ نے اس کو کھول کر بیان کر دیا۔ جو شخص اس مسئلے میں جنید کی پیروی کرے گا۔ وہ سیدھی راہ پر ہوگا اور جو اس کی مخالفت کرے گا گمراہ ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ تمام امور اللہ کی قدرت و مشیئت سے ہوتے ہیں اور اسی کے شہود میں ہوتے ہیں۔ یہ توحید ہے اس کا نام وہ ''جمع اوّل'' رکھتے ہیں۔ جنید نے ان سے بیان کیا ہے کہ فرقِ ثانی کا شہود بھی لازمی ہے اور وہ یہ ہے کہ گو تمام اشیاء اللہ کی مشیئت و قدرت اور اس کی مخلوق ہونے میں مشترک ہیں لیکن جس چیز کا وہ حکم کرتا ہے اور جس چیز کو وہ پسند کرتا اور راضی ہوتا ہے، اس میں اور اس چیز میں جسے اس نے ممنوع، مکروہ اور موجب ِ ناراضی قرار دیا ہے، فرق کرنا ضروری ہے اور اللہ کے دوستوں اور دشمنوں کے مابین فرق کرنابھی لازمی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:''یہ اللہ کی حدود ہیں جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے۔ اسے وہ ایسے باغات میں داخل کرے گا۔ جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ ان میں سدا رہیں گے اور یہ بڑی کامیابی ہے اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی حدوں سے تجاوز کرے گا اسے وہ دوزخ میں داخل کرے گا۔ جس میں اسے ہمیشہ رہنا ہوگا اور اس کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔''
اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِيْنَ كَالْمُجْرِمِيْن َ35 مَا لَكُمْ۰۪ كَيْفَ تَحْكُمُوْن36ۚ
القلم
اور فرمایا:''کیا ہم مسلمین کو مجرموں کی طرح قرار دیں گے تمہیں کیا ہوگیا ہے تم کیسے کیسے فیصلے گھڑتے ہو۔''
اَمْ نَجْعَلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَالْمُفْسِدِيْنَ فِي الْاَرْضِ۰ۡاَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِيْنَ كَالْفُجَّارِ۲۸
ص
اور فرمایا:''کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں اور کام بھی اچھے کرتے ہیں۔ ان لوگوں جیسا کر کے رکھیں گے جو زمین میں فساد کرتے ہیں یا ہم ایسا کر دیں گے کہ متقین کے ساتھ اس طرح کا برتائو کریں جو ہم گناہ گاروں کے ساتھ کریں گے؟''
اَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ اجْتَرَحُوا السَّيِّاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَہُمْ كَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ۰ۙ سَوَاۗءً مَّحْيَاہُمْ وَمَمَاتُہُمْ۰ۭ سَاۗءَ مَا يَحْكُمُوْنَ۲۱ۧ
الجاثیہ
اور فرمایا:''کیا جن لوگوں نے برے کام کیے ہیں، ان کو ہم ان لوگوں جیسا کر کے رکھیں گے جو ایمان بھی لائے اور کام بھی اچھے کرتے تھے۔ کیا ان دونوں جماعتوں کا جینا مرنا برابر ہوگا؟ یہ لوگ کیا ہی برے حکم لگایاکرتے ہیں۔''
وَمَا يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَالْبَصِيْرُ۰ۥۙ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَلَا الْمُسِيْۗءُ۰ۭ قَلِيْلًا مَّا تَتَذَكَّرُوْنَ۵۸
المومن
''اندھا اور آنکھوں والا برابر نہیں ہوسکتا اور مومن و نیکو کار کے ساتھ بدکردار کی برابری نہیں ہوسکتی مگر تم لوگ بہت کم غور کرتے ہو۔''
اسی لیے امت کے ائمہ اور سلف صالحین کا مذہب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز کا پیدا کرنے والا، اس کا پالنے والا اور اس کا مالک ہے، جو کچھ وہ چاہتا ہے ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتا نہیں ہوتا۔ اس کے سوا کوئی پروردگار نہیں۔ اس کے ساتھ ہی اس نے اطاعت کا حکم دیا اور نافرمانی سے منع کیا ہے۔ وہ فساد کو پسند نہیں کرتا، اپنے بندوں کے لیے کفر پسند نہیں کرتا۔ بری باتوں کا حکم نہیں دیتا۔ گو اس کی مشیئت کے ساتھ کیوں نہ واقع ہوں مگر وہ اسے محبوب و مرغوب نہیں ہوسکتیں بلکہ مبغوض ہیں اور ان کا مرتکب لائقِ مذمت اور سزا وارِ عذاب ہے۔
رہا تیسرا مرتبہ جس میں نہ اطاعت کا شہود ہے اور نہ معصیت کا۔ ان لوگوں کے نزدیک ایک ہی وجود ہوتا ہے اور بس۔ اور اسے وہ تحقیق ولایت کی انتہا سمجھتے ہیں حالانکہ درحقیقت وہ اللہ کے اسماء و آیات میں الحاد اور اللہ تعالیٰ سے دشمنی کی انتہا ہے۔ یہ مشہد (نکتہ نظر) رکھنے والا آدمی یہود و نصاریٰ اور تمام کُفّار کو دوست قرار دیتا ہے
حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:
وَمَنْ يَّتَوَلَّہُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّہ مِنْہُمْ
المائدہ
جوشرک اور بت پرستی سے اظہار براءت نہیں کرتا وہ خلیل علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ملت سے خارج ہوجاتا ہے:''تم میں جو ان سے دوستی رکھے گا، وہ ان ہی میں سے ہوگا۔''
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِيْٓ اِبْرٰہِيْمَ وَالَّذِيْنَ مَعَہ۰ۚ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِہِمْ اِنَّا بُرَءٰۗؤُا مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ۰ۡكَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَاۗءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللہِ وَحْدَہٓ
الممتحنہ
نیز ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم مشرکین سے کہا:''تمہارے لیے ابراہیم علیہ السلام اور اس کے ساتھیوں کا اچھا نمونہ پیش ہوچکا ہے، جب کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہہ دیا تھا کہ ہم تم سے اور اللہ کے سوا جن جن چیزوں کی تم پوجا کرتے ہو، ان سے بیزار ہیں۔ تمہارے عقیدوں کو ہم نہیں مانتے، تم میں اور ہم میں ہمیشہ کے لیے عداوت اور دشمنی قائم ہوگئی ہے، حتیٰ کہ تم اکیلے اللہ کے ساتھ ایمان لے آئو۔''
اَفَرَءَيْتُمْ مَّا كُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ 75 اَنْتُمْ وَاٰبَاۗؤُكُمُ الْاَقْدَمُوْنَ 76 فَاِنَّہُمْ عَدُوٌّ لِّيْٓ اِلَّا رَبَّ الْعٰلَمِيْنَ 77
الشعراء
اور فرمایا:''تمہیں کچھ خبر بھی ہے، جن چیزوں کو تم اور تمہارے اگلے آبائو اجداد پوجتے چلے آئے ہیں، وہ میرے دشمن ہیں، ہاں میرا دوست ہے تو پروردگار عالم ہے۔''
لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَاۗدُّوْنَ مَنْ حَاۗدَّ اللہَ وَرَسُوْلَہوَلَوْ كَانُوْٓا اٰبَاۗءَہُمْ اَوْ اَبْنَاۗءَہُمْ اَوْ اِخْوَانَہُمْ اَوْ عَشِيْرَتَہُمْ ۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ كَتَبَ فِيْ قُلُوْبِہِمُ الْاِيْمَانَ وَاَيَّدَہُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ ۰ۭ
المجادلہ
ان لوگوں میں سے بعض نے اپنے مذہب پر کتابیں اور قصیدے لکھے ہیں۔ ابن الفارض نے ایک قصیدہ ''نظم السلوک'' کے نام سے لکھا ہے۔ جس میں وہ کہتا ہے۔''جو لوگ اللہ تعالیٰ اور روزِ قیامت پر ایمان رکھتے ہیں۔ ان کو تم ایسے لوگوں سے یارانہ گانٹھے ہوئے کبھی نہ پائو گے، جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے مخالف ہیں۔ خواہ وہ ان کے باپ دادا، بیٹے بیٹیاں، بھائی بہن اور ان کے کنبے ہی کے کیوں نہ ہوں، ان لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کا نقش کر دیا ہے اور اپنے فیضانِ غیبی سے ان کی تائید کی ہے۔''
لَھَا صَلَوَاتِیْ بِالْمُقَامِ اُقِیْمُھَا
وَأَشْھَدُ فِیْھَا اَنَّھَا لِیْ صَلَّتِ
میری وہ نمازیں جو میں مقام ابراہیم پر ادا کرتا ہوں، اسی کے لیے ہیں اور دوران نماز مجھ پر شہود ہوتا ہے کہ اس نے میرے لیے نماز ادا کی۔وَأَشْھَدُ فِیْھَا اَنَّھَا لِیْ صَلَّتِ
کِلَانَا مُصَلٍّ وَاحِدٌ سَاجِدٌ اِلٰی
حَقِیْقَتِہ بِالْجَمْعِ فِیْ کُلِّ سَجْدَئہ
حَقِیْقَتِہ بِالْجَمْعِ فِیْ کُلِّ سَجْدَئہ
ہم دونوں ایک نمازی ہیں۔ جو مزدلفہ میں اس کی حقیقت کی طرف ہر ایک سجدے میں سجدہ کناں ہوتے ہیں۔
وَ مَا کَانَ لِیْ اُصَلِّیْ سَوَائِیْ وَلَمْ تَکُنْ
صَلَاتِیْ لِغَیْرِیْ فِیْ اَدَائِ کُلِ رَکْعَئہ
میرے لیے میرے سوا کسی اور نے نماز نہیں پڑھی اور نہ ہر رکعت کی ادائیگی کے دوران میری نماز میرے سوا کسی اور کے لیے تھی۔
آگے چل کر کہتا ہے:
وَمَا زِلْتُ اِیَّاھَا وَاِیَّایَ لَمْ تَزَلْ
وَلاَ فَرْقَ بَلْ ذَاتِیْ لِذَاتِیْ صَلَّت
میں ہمیشہ سے اس ذات کا عین ہوں اور وہ ہمیشہ سے میری ذات کا عین ہے اور میری ذات نے میری ہی ذات کے لیے نماز ادا کی۔
اِنِّیْ رَسُوْلًا کُنْتُ مِّنِّیْ مُرْسَلًا
وَ ذَاتِیْ بِاٰیَاتِیْ عَلَیَّ اسْتَدَلَّتِ
خود ہی رسول اورخود ہی اپنی طرف رسول بھیجنے والاہوں اور میری ہی ذات میری ہی آیات کے ساتھ مجھ پر استدلال کرتی ہے۔
فَاِنْ دُعِیَت کُنْتُ الْمُجِیْبَ وَاِنْ اَکُنْ
مُنَادًی اَجَابَتْ مَنْ دَعَانِیْ وَلَبَّت
اگر اسے بلایا گیا تو میں ہی جواب دینے والا ہوں گا اور اگر مجھے آواز دی گئی تو مجھے بلانے گو وہ جواب دے گی اور لبیک کہے گی۔
اسی طرح اور بہت سی باتیں کرتا ہے۔ اسی لیے یہی شاعر مرتے وقت یہ شعر کہہ رہا تھا:
اِنْ کَانَ مَنْزِلَتِیْ فِی الْحُبِّ عِنْدَکُمْ
مَاقَدْ لَقِیْتُ فَقَدْ ضَیَّعْتُ اَیَّامِیْ
اگر راہ و رسمِ محبت میں تمہارے ہاں ہماری یہی قدرومنزلت ہے جو کہ مجھے مل چکی ہے تو میں نے اپنی عمر ضائع کر ڈالی۔
اُمْنِیَّۃٌ ظَفَرَتْ نَفْسِیْ بِھَا زَمَنًا
وَ الْیَوْمَ أَحْسِبُھَا اَضْغَاثُ اَحْلَامٍ
جس آرزو میں میرا نفس ایک عرصہ تک بامراد رہا لیکن آج اسے میں خوابِ پریشاں سمجھ رہا ہوں۔
وہ خیال کرتا رہتا تھا کہ وہ اللہ ہے لیکن جب فرشتے اس کی روح قبض کرنے کے لیے آموجود ہوئے تو اس پر اپنے خیالات کا باطل ہونا منکشف ہوا۔
اور یہ لوگ منجملہ اس گروہ میں سے ہیں جن کے متعلق اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:وَ مَا کَانَ لِیْ اُصَلِّیْ سَوَائِیْ وَلَمْ تَکُنْ
صَلَاتِیْ لِغَیْرِیْ فِیْ اَدَائِ کُلِ رَکْعَئہ
میرے لیے میرے سوا کسی اور نے نماز نہیں پڑھی اور نہ ہر رکعت کی ادائیگی کے دوران میری نماز میرے سوا کسی اور کے لیے تھی۔
آگے چل کر کہتا ہے:
وَمَا زِلْتُ اِیَّاھَا وَاِیَّایَ لَمْ تَزَلْ
وَلاَ فَرْقَ بَلْ ذَاتِیْ لِذَاتِیْ صَلَّت
میں ہمیشہ سے اس ذات کا عین ہوں اور وہ ہمیشہ سے میری ذات کا عین ہے اور میری ذات نے میری ہی ذات کے لیے نماز ادا کی۔
اِنِّیْ رَسُوْلًا کُنْتُ مِّنِّیْ مُرْسَلًا
وَ ذَاتِیْ بِاٰیَاتِیْ عَلَیَّ اسْتَدَلَّتِ
خود ہی رسول اورخود ہی اپنی طرف رسول بھیجنے والاہوں اور میری ہی ذات میری ہی آیات کے ساتھ مجھ پر استدلال کرتی ہے۔
فَاِنْ دُعِیَت کُنْتُ الْمُجِیْبَ وَاِنْ اَکُنْ
مُنَادًی اَجَابَتْ مَنْ دَعَانِیْ وَلَبَّت
اگر اسے بلایا گیا تو میں ہی جواب دینے والا ہوں گا اور اگر مجھے آواز دی گئی تو مجھے بلانے گو وہ جواب دے گی اور لبیک کہے گی۔
اسی طرح اور بہت سی باتیں کرتا ہے۔ اسی لیے یہی شاعر مرتے وقت یہ شعر کہہ رہا تھا:
اِنْ کَانَ مَنْزِلَتِیْ فِی الْحُبِّ عِنْدَکُمْ
مَاقَدْ لَقِیْتُ فَقَدْ ضَیَّعْتُ اَیَّامِیْ
اگر راہ و رسمِ محبت میں تمہارے ہاں ہماری یہی قدرومنزلت ہے جو کہ مجھے مل چکی ہے تو میں نے اپنی عمر ضائع کر ڈالی۔
اُمْنِیَّۃٌ ظَفَرَتْ نَفْسِیْ بِھَا زَمَنًا
وَ الْیَوْمَ أَحْسِبُھَا اَضْغَاثُ اَحْلَامٍ
جس آرزو میں میرا نفس ایک عرصہ تک بامراد رہا لیکن آج اسے میں خوابِ پریشاں سمجھ رہا ہوں۔
وہ خیال کرتا رہتا تھا کہ وہ اللہ ہے لیکن جب فرشتے اس کی روح قبض کرنے کے لیے آموجود ہوئے تو اس پر اپنے خیالات کا باطل ہونا منکشف ہوا۔
اَفَمَنْ زُيِّنَ لَہ سُوْۗءُ عَمَلِہ فَرَاٰہُ حَسَنًا ۰ۭ فَاِنَّ اللہَ يُضِلُّ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ۰ۡۖ فَلَا تَذْہَبْ نَفْسُكَ عَلَيْہِمْ حَسَرٰتٍ ۰ۭ اِنَّ اللہَ عَلِـيْمٌۢ بِمَا يَصْنَعُوْنَ ۸
الفاطر
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:''کیا وہ شخص جسے اس کا بدعمل، مزین کر کے دکھایا گیا اور وہ اسے اچھا سمجھنے لگا (بھلا محسن متقی کی مانند ہوسکتا ہے) بات یہ ہے کہ اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہ راست کی ہدایت فرماتا ہے۔ (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) ان لوگوں پر حسرت میں کہیں تمہاری جان ہی نہ جاتی رہے۔ (تم صبر کرو) اللہ خوب جانتا ہے جو یہ کرتے ہیں۔''
سَبَّحَ لِلہِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۰ۭ وَہُوَالْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ۱
الحدید
تو جو کچھ زمینوں اور آسمانوں میں ہے۔ وہ اللہ کی تسبیح بیان کرتا ہے۔ وہ خود اللہ نہیں ہے اور فرمایا:''جو مخلوقات آسمانوں میں ہے اور جو مخلوقات زمین میں ہے۔ سب اللہ تعالیٰ کی تسبیح میں لگی ہوئی ہے اور وہ زبردست، دانا ہے۔''
لَہ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۰ۚ يُحْی وَيُمِيْتُ ۰ۚ وَہُوَعَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ۲ ہُوَالْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ ۰ۚ وَہُوَبِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ ۳
الحدید
صحیح مسلم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ اپنی دعا میں کہا کرتے تھے:''آسمانوں اور زمینوں کی بادشاہی اسی کی ہے، وہ زندہ کرتا اور مارتا ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے، وہ اوّل ہے، وہ آخر ہے، وہ ظاہر ہے، وہ باطن ہے اور وہ ہر چیز سے واقف ہے۔''
اَللّٰھُمَّ رَبَّ السَّمٰوَاتِ السَّبْعِ وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ رَبَّنَا وَ رَبَّ کُلِّ شَیْءٍ فَالِقَ الْحَبِّ وَالنَّوٰی مُنْزِلَ التَّوْرَاۃِ وَالْاِنْجِیْلِ وَالْقُرْاٰنِ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّکُلِّ دَآبَّۃٍ اَنْتَ اٰخِذٌ بِنَاصِیَتِھَا اَنْتَ الْاَوَّلُ فَلَیْسَ قَبْلَکَ شَیْءٌ وَاَنْتَ الْاٰخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَکَ شَیْءٌ وَاَنْتَ الظَّاہِرُ فَلَیْسَ فَوْقَکَ شَیْءٌ وَاَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَیْسَ دُوْنَکَ شَیْءٌ اِقْضِ عَنِّی الدَّیْنَ وَاَغْنِنِیْ مِنَ الْفَقْرِ
(مسلم، کتاب الذکر، باب مایقول عندالنوم واخذ المضجع رقم: ۶۸۸۹، ابوداؤد، کتاب الادب، باب مایقول عندالنوم، رقم: ۵۰۵۱، ترمذی، کتاب الدعوات، باب الدعاء الذی علمہ صلی اللہ علیہ وسلم فاطمۃ مسند احمد (۲؍۳۸۱))
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اے سات آسمانوں اور عرشِ عظیم کے مالک! ہمارے پروردگار اور ہر چیز کے پالنے والے! بیج اور گٹھلی کے پھاڑنے والے! تورات انجیل اور قرآن کے نازل کرنے والے! میں ہر اس جانور کے شر سے جس کی چوٹی تیرے ہاتھ میں ہے، تیرے پاس پناہ لیتا ہوں تو اوّل ہے تجھ سے پہلے کوئی نہیں تو آخر ہے تجھ سے بعد کوئی نہیں، تو ظاہر ہے تجھ سے بلند تر کوئی نہیں، تو باطن ہے تجھ سے پرے کوئی نہیں، مجھ سے قرضہ ادا کر دے اور مجھے فقر سے نجات دے کر غنی کر دے۔''
ہُوَالَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّۃِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ ۰ۭ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْاَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْہَا وَمَا يَنْزِلُ مِنَ السَّمَاۗءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيْہَا ۰ۭ وَہُوَمَعَكُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ ۰ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ ۴
الحدید
سو اللہ تعالیٰ نے فرمادیا ہے کہ آسمان اور زمین اور دوسرے مقام پر یہ بھی آیا ہے کہ ان کے مابین جو کچھ بھی ہے وہ مخلوق ہے اور اس کی تسبیح میں مصروف ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ ہر چیز کو جانتا ہے۔''وہی ہے جس نے چھ دن میں آسمانوں کو اور زمینوں کو پیدا کیا، پھر عرش پر مستوی ہوا، جو چیز زمین میں داخل ہوتی، جو چیز زمین سے باہر آتی اور جو چیز آسمان سے اترتی اور جو چیز آسمان کی طرف چڑھتی ہے، اسے وہ جانتا ہے اور تم لوگ جہاں کہیں ہو، وہ تمہارے ساتھ ہے، اور جو کچھ تم کیا کرتے ہو، اللہ اس کو دیکھ رہا ہے۔''
الفرقان بین اولیاء الرحمان و اولیاء الشیطان- امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ