• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

معین اور مطلقا تکفیر میں بنیادی فرق

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
تیسرا شرکیہ عقیدہ کے حامل شخص کو مشرک سمجھنا ۔ سمجھنے کا تعلق دل سے ہوتا ہے علی اعلان نہیں
تلمیذ بھائی،
مجھے اس بارے میں زیادہ علم نہیں ہے۔
جو تھوڑا بہت معلوم ہے وہ یہ کہ فتویٰ اور تقویٰ میں فرق ہے۔
مرغی فروش بے شک کافر قرار نہیں دیا گیا، لیکن چونکہ اس میں شرکیہ عقیدہ موجود ہے، لہٰذا تقویٰ کا تقاضا یہی ہے کہ میں ایسے مرغی فروش سے مرغی نہ خریدوں۔
اگرچہ اگر خرید کر کھا لوں تو شرعاً وہ مجھ پر حرام نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔
اہل علم بہتر راہنمائی فرما سکتے ہیں!

انس
کفایت اللہ
جمشید
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
آپ ایک بنیادی غلط فہمی کا شکار ہیں۔
جن کو آپ خود عیسائی، یہودی، ہندو قرار دے رہے ہیں، انہوں نے مسلمان ہونے کا دعویٰ ہی کب کیا ہے؟ وہ خود اپنی نظر میں بھی "غیر مسلم"ہی ہیں اور ہماری نظر میں بھی "غیر مسلم"ہیں۔ غیر مسلم ہی کو اصطلاحاً کافر کہا جاتا ہے۔ انہیں کافر "قرار" دینے کی کیا ضرورت؟
یہ شرائط و موانع تو وہاں درکار ہوتے ہیں جہاں کوئی شخص یا گروہ خود کو مسلمان کہلواتا ہو اور درحقیقت وہ نہ ہو۔ جب کوئی گروہ مسلمان ہی نہ کہلوائے تو اسے تو ہر حال میں "غیر مسلم" ہی کہا جائے گا۔ کیونکہ ہم تو ظاہر ہی کے مکلف ہیں۔


جی اسی لئے ہر ایک کو یہ حق نہیں دیا جاتا کہ وہ جسے چاہے کافر سمجھے اور کہے۔ بلکہ علمائے کرام کی جماعت کا منصب ہے۔ ورنہ تو ہمارے اور ہماری ممدوح چھوٹی سی جماعت کے علاوہ دنیا میں کوئی مسلمان ہی نہ بچے۔


ہمارے علماء بھی اور ہم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں یہی کہتے ہیں کہ جس نے نماز چھوڑی اس نے کفر کیا۔ (غیرمعین تکفیر) ۔ آپ بھی یہ تکفیر کیجئے ، ضرور کیجئے۔
لیکن خاص کسی نماز چھوڑنے والے کو کافر قرار نہیں دے سکتے کہ میرا پڑوسی کافر، اور میرا فلاں رشتے دار کافر اور میرے والد یا میرا نافرمان بیٹا بھی کافر۔ کیونکہ وہ نماز نہیں پڑھتا۔ یہ صرف "جاننے" کا معاملہ نہیں ہے۔ جیسے یہ جاننے کے باوجود کہ راشی اور مرتشی جہنمی ہیں۔ آپ کسی مرتشی افسر جس کے بارے آپ جانتے ہوں کہ یہ رشوت لیتا ہے، اور اسے معلوم بھی ہے کہ رشوت لینے اور دینے والا جہنمی ہے، آپ اس کو بالجزم جہنمی قرار نہیں دیتے۔۔۔درست؟


آپ اس خاص گروہ کے لٹریچر سے متاثر معلوم ہوتے ہیں، جن کا وجود ہی حکمرانوں کی تکفیر سے مشروط ہے۔ یہود و نصاریٰ کا ساتھ دینا کفر ہے، بالکل درست۔ لیکن اس کی عملی تطبیق Practical Implementation جو ان حکمرانوں پر کی جا رہی ہے یہ تو اجتہادی معاملہ ہی ہے۔ اور جب کسی کی تکفیر کا بوجھ عامیوں پر ہے ہی نہیں، تو انہیں اس فکر میں دبلا ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ کسی کو کافر قرار دینا ایک ذمہ داری ہے جسے own کرنا پڑتا ہے۔ کسی کو کافر قرار نہ دینا تو کوئی عمل نہیں ہے جس کی جواب دہی کی ضرورت ہو۔ واللہ اعلم۔

اس بارے میں کفایت اللہ بھائی کی بات بالکل درست ہے کہ ہم عامیوں کو ایسی بحث میں شریک ہونا بھی درست نہیں، کجا یہ کہ ہم معین تکفیر ہی کرنے لگ جائیں۔
امام ابن تیمیہ رحمللہ فرماتے ہیں کہ کافر کے کفر میں شک کرنے والا بھی کفر کی حد پر پہنچ جاتا ہے - یعنی جو قرآن و سنّت کی واضح نص کی رو سے کافر قرار پتا ہے اس کے کفر میں شک کرنا بھی ہمیں کفر کی حد تک لے جانے والا ہے - یعنی کسی کو کافر قرار دینا بھی ہمارے ایمان کا حصّہ ہے - تو پھر آپ کس طرح که سکتے ہیں کہ "کسی کی تکفیر کا بوجھ عامیوں پر ہے ہی نہیں، تو انہیں اس فکر میں دبلا ہونے کی کیا ضرورت ہے"۔ دوسرے ہر دور میں علماء حکمرانوں کے وظیفہ خور رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی حکمران پر کفر کا فتویٰ نہ لگ سکا -

حتیٰ کہ مغل بادشاہ اکبر اپنے دور میں دین الہی کے نام سے ایک نیا دین متعارف کروایا جو صریح کفر پر مبنی تھا لیکن اس دور کے علماء اس کے صریح کفر پر بھی اس کو کافر نا قرار دے سکے - آج اہل تشیع اور بریلوویوں کا کفر ثابت ہے لیکن کسی عالم کی جرّت نہیں کہ ان پر کے کفر پر مہر للگا دے - صرف اس لئے کہ یہ علماء ان حکمرانوں کے وظیفہ خور ہوتے ہیں اور ان کے مفادات کے لئے ہی کفر کے فتوے لگانے سے رکے رہتے ہیں-
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
میں اپنے موقف کی وضاحت کردوں
ایک مرغی فروش ہے اور وہ شخص علی اعلان کہتا ہے کہ گيارویں کی نذر و نیاز شیخ عبدالقادر جیلانی کے نام سے دیتا ہے تو جب تک جید علماء اس شخص کی تکفیر معین نہ کریں تو میں بھی اس شخص کو کافر قرار نہیں دوں گا لیکن اس کے شرکیہ عقیدہ کی وجہ سے اس کو مشرک سمجھوں گا اور اس شخص کے ہاتھ سے ذبح کی ہوئي مرغی نہیں خریدوں گا لیکن ایسا کوئی عمل نہیں کروں گا جس سے ظاہر ہو میں اس کو کافر قرار دے رہا ہوں مثلا اگر وہ سلام کرے گا تو وعلیکم السلام مکمل کہوں گا
علی اعلان کافر کہنے میں اور کا فر سمجھنے میں زمیں آسمان کا فرق ہے
آپ ہی کی پیش کردہ مثال سے دیکھیں
ایک شخص نے چوری کی اور میں نے اس کو چوری کرتے ہوئے دیکھا اور میرے پاس شرعی ثبوت نہیں تو میں اس کو علی اعلان چور قرار نہیں دے سکتا لیکن میں اس کو چور تو سمجھ سکتا ہوں اور سمجھوں گا بھی اور اس کو چور سمجتھے ہوئے اپنے گھر کی اشیاء اس سے محفوظ رکھنے کا بھی اہتمام کروں گا لیکن اس کو کبھی چور قرار نہیں دوں گا اور نہ اس پر خود کوئی حد جاری کروں گا ۔ اسی طرح شرکیہ عقیدہ کے حامل شخص کو مشرک سمجھا جاسکتا ہے اگر چہ مشرک قرار نہ دیا جائے
تلمیذ بھائی! میری نظر میں کسی کا کافر ہونا، اسے کافر سمجھنا اور اسے کافر کہنا ایک ہی بات ہے۔
مثلاً ایک گنہگار اور کافروں سے میل جول رکھنے والے یا ’حکم بغیر ما انزل اللہ‘ کو غلط سمجھنے کے باوجود ایمانی کمزوری کی بناء پر اس کے حامل حکمران کو آپ کافر تو نہیں کہیں گے لیکن کیا حقیقت میں وہ کافر ہے یا اسے کافر سمجھنا آپ کیلئے جائز ہے؟؟؟

اگر کوئی حقیقت میں کافر ہو (ہمیں کیسے پتہ چلے گا؟ موانع دور ہونے سے) اور آپ اسے کافر سمجھتے ہوں تو اسے کافر کہنا بھی آپ کے لئے جائز ہے، حدیث مبارکہ ہے:

من قال لأخيه يا كافرُ فقد باء بها أحدُهما إلَّا أن يكونَ كما قال
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث:ابن عساكر - المصدر: معجم الشيوخ - الصفحة أو الرقم: 2/1165
خلاصة حكم المحدث: صحيح

کہ جو اپنے بھائی کو کہے ’یا کافر‘ تو وہ (کفر) ان دونوں میں سے کسی ایک پر لوٹتا ہے الّا یہ کہ اگلا واقعی ہی کافر ہو۔

اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ جو شخص حقیقت میں کافر ہو تو اسے کافر کہنا جائز ہے اور یہ کلمۂ کفر اسی پر پڑے گا نہ کہ قائل پر! واللہ اعلم!

اس کی ایک اور مثال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ہمارے سامنے مسلمانوں اور کافروں کی لڑائی میں مسلمانوں کی طرف سے لڑتا ہوا مارا جائے تو نہ اسے بالجزم شہید سمجھا جا سکتا ہے نہ اسے شہید کہا جا سکتا ہے، (بطورِ دعا کے البتہ کہنا جائز ہے) کیونکہ اس بات کا اللہ کو علم ہے کہ اس نے یہ کام اللہ کی رضا، اعلائے کلمۃ اللہ کیلئے کیا ہے یا اس کے سامنے ریاکاری یا دیگر دنیاوی مقاصد تھے؟

اصل میں یہاں دو چیزوں کا دھیان رکھنا ضروری ہے:
1. کچھ اعمال ’کفر اکبر‘ ہیں اور کچھ اعمال ’کفر دون کفر‘ ہیں، مثلاً ہمسائے سے بد سلوکی، مسلمانوں کی آپس میں لڑائی یا تشبہ بالکفار وغیرہ۔ ثانی الذّکر اعمال کی بناء پر کسی پر کفر کا فتویٰ نہیں لگایا جا سکتا۔

2. اگر کسی شخص نے پہلے قسم کے کفریہ اعمال میں سے کوئی عمل کیا ہو تب بھی اسے کافر کہنے میں کچھ موانع موجود ہیں، مثلاً جبر واکراہ، لا علمی وغیرہ، ممکن ہے کہ ہمیں محسوس ہوا ہو کہ ایک شخص غیر اللہ کو سجدۂ کر رہا ہے، حالانکہ حقیقت میں اس نے سجدہ نہ کیا ہو بلکہ اس کے سر جھکایا ہو۔ ایک شخص ’یا رسول اللہ!‘ کہتا ہے، ممکن ہے کہ وہ سن سنا کر ایسا کہتا ہو لیکن وہ نبی کریمﷺ کو اللہ کی طرح سمیع ومجیب نہ سمجھتا ہو، وعلیٰ ہذا القیاس!
تو اللہ تعالیٰ تو دل کے حال جانتے ہیں، وہ بذات خود اور نبی کریمﷺ وحی کی بناء پر تو کسی کو کافر قرار دے سکتے ہیں ہم اس وقت تک قرار نہیں دے سکتے جب یہ تمام موانع دور نہ ہوجائیں۔ اگر ایک شخص خود ہی اعتراف کردیتا ہے یا اسے مسئلہ پوری طرح سمجھا دیا جائے وہ پھر بھی نہ مانے تو پھر اس کے کفر میں کوئی شک نہیں۔

ظاہر ہے کہ یہ دقیق باتیں ایک عامی نہیں سمجھتا اس لئے کسی کی تکفیر اس کا کام نہیں ہے، البتہ اگر علماء ان تمام تفصیلات کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی کی تکفیر کر دیں تو عامی بھی انہیں کافر کہہ سکتا ہے۔

واللہ تعالیٰ اعلم!
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
تلمیذ بھائی! میری نظر میں کسی کا کافر ہونا، اسے کافر سمجھنا اور اسے کافر کہنا ایک ہی بات ہے۔
مثلاً ایک گنہگار اور کافروں سے میل جول رکھنے والے یا ’حکم بغیر ما انزل اللہ‘ کو غلط سمجھنے کے باوجود ایمانی کمزوری کی بناء پر اس کے حامل حکمران کو آپ کافر تو نہیں کہیں گے لیکن کیا حقیقت میں وہ کافر ہے یا اسے کافر سمجھنا آپ کیلئے جائز ہے؟؟؟

اگر کوئی حقیقت میں کافر ہو (ہمیں کیسے پتہ چلے گا؟ موانع دور ہونے سے) اور آپ اسے کافر سمجھتے ہوں تو اسے کافر کہنا بھی آپ کے لئے جائز ہے، حدیث مبارکہ ہے:

من قال لأخيه يا كافرُ فقد باء بها أحدُهما إلَّا أن يكونَ كما قال
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث:ابن عساكر - المصدر: معجم الشيوخ - الصفحة أو الرقم: 2/1165
خلاصة حكم المحدث: صحيح

کہ جو اپنے بھائی کو کہے ’یا کافر‘ تو وہ (کفر) ان دونوں میں سے کسی ایک پر لوٹتا ہے الّا یہ کہ اگلا واقعی ہی کافر ہو۔

اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ جو شخص حقیقت میں کافر ہو تو اسے کافر کہنا جائز ہے اور یہ کلمۂ کفر اسی پر پڑے گا نہ کہ قائل پر! واللہ اعلم!

اس کی ایک اور مثال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ہمارے سامنے مسلمانوں اور کافروں کی لڑائی میں مسلمانوں کی طرف سے لڑتا ہوا مارا جائے تو نہ اسے بالجزم شہید سمجھا جا سکتا ہے نہ اسے شہید کہا جا سکتا ہے، (بطورِ دعا کے البتہ کہنا جائز ہے) کیونکہ اس بات کا اللہ کو علم ہے کہ اس نے یہ کام اللہ کی رضا، اعلائے کلمۃ اللہ کیلئے کیا ہے یا اس کے سامنے ریاکاری یا دیگر دنیاوی مقاصد تھے؟

اصل میں یہاں دو چیزوں کا دھیان رکھنا ضروری ہے:
1. کچھ اعمال ’اصل کفر‘ ہیں اور کچھ اعمال ’کفر دون کفر‘ ہیں، مثلاً ہمسائے سے بد سلوکی یا مسلمانوں کی آپس میں لڑائی، تشبہ بالکفار وغیرہ۔ ثانی الذّکر اعمال کی بناء پر کسی پر کافر کا فتویٰ نہیں لگایا جا سکتا۔

2. اگر کسی شخص نے پہلے قسم کے کفریہ اعمال میں سے کوئی عمل کیا ہو تب بھی اسے کافر کہنے میں کچھ موانع موجود ہیں، مثلاً جبر واکراہ، لا علمی وغیرہ، ممکن ہے کہ ہمیں محسوس ہوا ہو کہ ایک شخص غیر اللہ کو سجدۂ کر رہا ہے، حالانکہ حقیقت میں اس نے سجدہ نہ کیا ہو بلکہ اس کے سر جھکایا ہو۔ ایک شخص ’یا رسول اللہ!‘ کہتا ہے، ممکن ہے کہ وہ سن سنا کر ایسا کہتا ہو لیکن وہ نبی کریمﷺ کو اللہ کی طرح سمیع ومجیب نہ سمجھتا ہو، وعلیٰ ہذا القیاس!
تو اللہ تعالیٰ تو دل کے حال جانتے ہیں، وہ بذات خود اور نبی کریمﷺ وحی کی بناء پر تو کسی کو کافر قرار دے سکتے ہیں ہم اس وقت تک قرار نہیں دے سکتے جب یہ تمام موانع دور نہ ہوجائیں۔ اگر ایک شخص خود ہی اعتراف کردیتا ہے یا اسے مسئلہ پوری طرح سمجھا دیا جائے وہ پھر بھی نہ مانے تو پھر اس کے کفر میں کوئی شک نہیں۔

ظاہر ہے کہ یہ دقیق باتیں ایک عامی نہیں سمجھتا اس لئے کسی کی تکفیر اس کا کام نہیں ہے، البتہ اگر علماء ان تمام تفصیلات کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی کی تکفیر کر دیں تو عامی بھی انہیں کافر کہہ سکتا ہے۔

واللہ تعالیٰ اعلم!

آپ کی باقی باتیں تو دلائل کے ساتھ ماننے کے قابل ہیں-

لیکن یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ صرف علماء ہی یہ بات طے کریں کہ کون واقعی میں کافر ہے اور کون نہیں - جب کے حالت یہ ہے کہ علما ء خود ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگا رہے ہیں - پھر یہ بھی ہے کہ علما ء ہر دور میں حکمرانوں کے وظیفہ خور رہے تو ہم کس طرح ان کے فتوے پر اعتماد کریں - پھر بہت سے علماء حاکم کے خوف کی وجہ سے بھی اس پر کفر کا فتویٰ نہیں لگا پاتے - کیا ایسی صورت میں ہم ان علماء کے فتوؤں پر اعتبار کر سکتے ہیں؟؟؟
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
آپ کی باقی باتیں تو دلائل کے ساتھ ماننے کے قابل ہیں-

لیکن یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ صرف علماء ہی یہ بات طے کریں کہ کون واقعی میں کافر ہے اور کون نہیں - جب کے حالت یہ ہے کہ علما ء خود ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگا رہے ہیں - پھر یہ بھی ہے کہ علما ء ہر دور میں حکمرانوں کے وظیفہ خور رہے تو ہم کس طرح ان کے فتوے پر اعتماد کریں - پھر بہت سے علماء حاکم کے خوف کی وجہ سے بھی اس پر کفر کا فتویٰ نہیں لگا پاتے - کیا ایسی صورت میں ہم ان علماء کے فتوؤں پر اعتبار کر سکتے ہیں؟؟؟
اگر آج علمائے حق موجود ہی نہیں رہے تو پھر آپ کے مطابق کیا جاہلوں کو علماء کا درجہ دے دیا جائے کہ وہ خود بھی گمراہ ہوں اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں! یا للعجب!

نہیں بھائی! علماء کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا۔

امام بخاری میں اپنی صحیح میں باب قائم کیا ہے:
بَاب قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ عَلَى الْحَقِّ يُقَاتِلُونَ وَهُمْ أَهْلُ الْعِلْمِ
پھر اس کے تحت یہ حدیث مبارکہ لائے ہیں:
عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: لَا يَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ ظَاهِرُونَ.
http://sunnah.com/bukhari/96/42

امام احمد بن حنبل﷫ فرماتے ہیں: إن لم يكونوا أهل الحديث فلا أدري من هم
کہ اگر اس سے مراد اصحاب حدیث نہیں تو پھر میں نہیں جانتا کہ کون ہیں؟

امام بخاری﷫ کی رائے تو پیچھے ذکر ہو چکی ہے کہ اس سے مراد اہل علم ہیں۔

قاضی عیاض فرماتے ہیں: ويحتمل أن هذه الطائفة مفرقة بين أنواع المؤمنين منهم شجعان مقاتلون ومنهم فقهاء ومنهم محدثون ومنهم زهاد وآمرون بالمعروف وناهون عن المنكر ومنهم أهل أنواع أخرى من الخير، ولا يلزم أن يكونوا مجتمعين بل قد يكونون متفرقين في أقطار الأرض ...
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
اگر آج علمائے حق موجود ہی نہیں رہے تو پھر آپ کے مطابق کیا جاہلوں کو علماء کا درجہ دے دیا جائے کہ وہ خود بھی گمراہ ہوں اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں! یا للعجب!

نہیں بھائی! علماء کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا۔

امام بخاری میں اپنی صحیح میں باب قائم کیا ہے:
بَاب قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ عَلَى الْحَقِّ يُقَاتِلُونَ وَهُمْ أَهْلُ الْعِلْمِ
پھر اس کے تحت یہ حدیث مبارکہ لائے ہیں:
عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: لَا يَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ ظَاهِرُونَ.
http://sunnah.com/bukhari/96/42

امام احمد بن حنبل� فرماتے ہیں: إن لم يكونوا أهل الحديث فلا أدري من هم
کہ اگر اس سے مراد اصحاب حدیث نہیں تو پھر میں نہیں جانتا کہ کون ہیں؟

قاضی عیاض فرماتے ہیں: ويحتمل أن هذه الطائفة مفرقة بين أنواع المؤمنين منهم شجعان مقاتلون ومنهم فقهاء ومنهم محدثون ومنهم زهاد وآمرون بالمعروف وناهون عن المنكر ومنهم أهل أنواع أخرى من الخير، ولا يلزم أن يكونوا مجتمعين بل قد يكونون متفرقين في أقطار الأرض ...
میں یہ نہیں که رہا ہے کہ جاہلوں کو علماء کا درجہ دے دیا جائے بلکہ میرا کہنا ہے کہ صرف علماء حق پر ہی اس معاملے میں انحصار ضروری نہیں- علماء حق موجود ہیں تو پھر اہل تشیع اور اہل بدعات (دیونبندی و بریلوی) پر کفر کے فتوے کیوں نہیں لگ سکے اب تک ؟؟

آپ نے اپنی پچھلی پوسٹ میں حدیث پیش کی ہے :
من قال لأخيه يا كافرُ فقد باء بها أحدُهما إلَّا أن يكونَ كما قال
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث:ابن عساكر - المصدر: معجم الشيوخ - الصفحة أو الرقم: 2/1165
خلاصة حكم المحدث: صحيح
کہ جو اپنے بھائی کو کہے 'یا کافر' تو وہ (کفر) ان دونوں میں سے کسی ایک پر لوٹتا ہے الّا یہ کہ اگلا واقعی ہی کافر ہو۔

- اس حدیث میں نبی کریم صل الله علیہ وسلم نے تنبیہ کی ہے کہ ہر ایک پر بلا وجہ کفر کا فتویٰ لگانا جائز نہیں ورنہ ان میں میں سے کوئی ایک ضرور کافر ہو جائے گا - لیکن ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ اگر کوئی واقعی میں کافر ہے تو اس کو کافر کہنا جائز ہے - عربی میں میں لفظ "من" عرف عام کے لئے استمعال ہوتا ہے - یعنی حدیث کی رو سے ہر انسان چاہے عالم ہو یا یا عامی - وہ کسی انسان پر جس پر کفر قرآن و-سنّت سے ثابت ہو چکا ہو اس پر کفر کا فتویٰ لگا سکتا ہے - اس کے لئے عالم ہونے کی تخصیص موجود نہیں - لیکن دونوں کے لئے ضروری ہے کہ کسی کو کافر قرار دینے سے پہلے تحقیق کرلیں -اور احتیاط سےکام لیں - (واللہ عالم )
 
Top