آپ ایک بنیادی غلط فہمی کا شکار ہیں۔
جن کو آپ خود عیسائی، یہودی، ہندو قرار دے رہے ہیں، انہوں نے مسلمان ہونے کا دعویٰ ہی کب کیا ہے؟ وہ خود اپنی نظر میں بھی "غیر مسلم"ہی ہیں اور ہماری نظر میں بھی "غیر مسلم"ہیں۔ غیر مسلم ہی کو اصطلاحاً کافر کہا جاتا ہے۔ انہیں کافر "قرار" دینے کی کیا ضرورت؟
یہ شرائط و موانع تو وہاں درکار ہوتے ہیں جہاں کوئی شخص یا گروہ خود کو مسلمان کہلواتا ہو اور درحقیقت وہ نہ ہو۔ جب کوئی گروہ مسلمان ہی نہ کہلوائے تو اسے تو ہر حال میں "غیر مسلم" ہی کہا جائے گا۔ کیونکہ ہم تو ظاہر ہی کے مکلف ہیں۔
جی اسی لئے ہر ایک کو یہ حق نہیں دیا جاتا کہ وہ جسے چاہے کافر سمجھے اور کہے۔ بلکہ علمائے کرام کی جماعت کا منصب ہے۔ ورنہ تو ہمارے اور ہماری ممدوح چھوٹی سی جماعت کے علاوہ دنیا میں کوئی مسلمان ہی نہ بچے۔
ہمارے علماء بھی اور ہم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں یہی کہتے ہیں کہ جس نے نماز چھوڑی اس نے کفر کیا۔ (غیرمعین تکفیر) ۔ آپ بھی یہ تکفیر کیجئے ، ضرور کیجئے۔
لیکن خاص کسی نماز چھوڑنے والے کو کافر قرار نہیں دے سکتے کہ میرا پڑوسی کافر، اور میرا فلاں رشتے دار کافر اور میرے والد یا میرا نافرمان بیٹا بھی کافر۔ کیونکہ وہ نماز نہیں پڑھتا۔ یہ صرف "جاننے" کا معاملہ نہیں ہے۔ جیسے یہ جاننے کے باوجود کہ راشی اور مرتشی جہنمی ہیں۔ آپ کسی مرتشی افسر جس کے بارے آپ جانتے ہوں کہ یہ رشوت لیتا ہے، اور اسے معلوم بھی ہے کہ رشوت لینے اور دینے والا جہنمی ہے، آپ اس کو بالجزم جہنمی قرار نہیں دیتے۔۔۔درست؟
آپ اس خاص گروہ کے لٹریچر سے متاثر معلوم ہوتے ہیں، جن کا وجود ہی حکمرانوں کی تکفیر سے مشروط ہے۔ یہود و نصاریٰ کا ساتھ دینا کفر ہے، بالکل درست۔ لیکن اس کی عملی تطبیق Practical Implementation جو ان حکمرانوں پر کی جا رہی ہے یہ تو اجتہادی معاملہ ہی ہے۔ اور جب کسی کی تکفیر کا بوجھ عامیوں پر ہے ہی نہیں، تو انہیں اس فکر میں دبلا ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ کسی کو کافر قرار دینا ایک ذمہ داری ہے جسے own کرنا پڑتا ہے۔ کسی کو کافر قرار نہ دینا تو کوئی عمل نہیں ہے جس کی جواب دہی کی ضرورت ہو۔ واللہ اعلم۔
اس بارے میں
کفایت اللہ بھائی کی بات بالکل درست ہے کہ ہم عامیوں کو ایسی بحث میں شریک ہونا بھی درست نہیں، کجا یہ کہ ہم معین تکفیر ہی کرنے لگ جائیں۔