مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 461
- پوائنٹ
- 209
نام و ولدیت : مقبول احمد بن عبدالخالق سلفی
تاریخ وجائے پیدائش :
سرکاری رکارڈ کے مطابق 7/ جولائی بروز جمعرات 1984 ہندوستان کے صوبہ بہار کے ضلع مدھوبنی کے گاؤں اندھرا ٹھاری میں پیدائش ہوئی ۔
گوگل میپ پہ میرا گاؤں : اس پہ انگلش میں ٹائپ کریں : Andhra Tharhi
لنک دیکھیں:
https://www.google.com.sa/maps/place/Andhra+Tharhi,+Bihar,+India/@26.3848721,86.3192528,15z/data=!3m1!4b1!4m2!3m1!1s0x39ee80aeddff633d:0xbfd108e63c12c769?hl=en
ابتدائی تعلیم :
مکتب کی تعلیم گاؤں کے مدرسے میں ہوئی ، یہ مدرسہ تو ایک بہانہ تھا اصل تعلیم والد صاحب جو اس مدرسے کے نائب صدرالمدرسین اور علاقے کے معروف خطیب و عالم دین ہیں یعنی عبدالخالق فیضی کے پاس ہوئی ، گھر پہ مارمار کے پڑھاتے تھے ، مدرسہ میں بھی کسی جماعت میں شریک نہیں تھا، ساری کتابیں ابو محترم اپنے پاس ہی پڑھاتے، جب باہر جانے کا خیال آیا تو ایک سال کے لئے مکتب کی آخری جماعت میں شامل کردیا۔
اعلی تعلیم :
میرے بڑے بھائی منظورالرب اسلامی (متخرج مدرسہ اسلامیہ راگھونگر بھوارہ مدھوبنی) جامعہ سلفیہ بنارس میں پڑھنے کے بڑے شوقین تھے مگر یہاں آکر ان کا داخلہ نہ ہوا، انہوں نے اپنے دل میں مجھے پڑھانے کی ٹھان لی اور سن 1996 میں مجھے لیکر بنارس پہنچے ۔ گوکہ دل میں داخلہ نہ ہونے کا کھٹکا تھا مگر مایوس نہیں تھے ۔ بھائی نے کہاکہ متوسطہ اولی میں داخلہ کے لئے امتحان دو۔ امتحان کے لئے ممتحن شیخ علی حسین سلفی (المعروف ببنغالی صاحب) کے روبروہوا، انہوں نے پہلے سوال کیا : کیا کیا کتابیں پڑھ کے آئے ہو؟ میں نے اردو، فارسی، نحو، صرف کی کتابوں کانام لیا تو انہوں نے کہا کہ اونچی جماعت(یعنی کم از کم تیسری) میں داخلہ لو کیونکہ تمہارا معیار اونچا ہے۔ میں نے انکار کیا ۔ پھر میرے بھائی کو بلایا گیا ، ان سے مطالبہ کیا گیا ، بھائی کا کہنا تھا مقبول کی جڑ (بنیاد)مضبوط کرنی ہے ۔
بہر کیف! بحث و مباحثہ کے بعد دوسری جماعت کے لئے راضی ہوگئے ۔ زبانی ٹسٹ ہوا پھر تحریری امتحان میں شامل ہوئے ۔الحمد صبح جب رزلٹ دیکھا تو سر فہرست نام تھا۔ اللہ کا صد شکر ادا کیا۔
ڈگریاں :
٭جامعہ سلفیہ سے متوسطہ تا عالمیت (فضیلت سال اول فقط)
٭جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے بی اے آنرس اردو
٭الہ آباد بورڈ سے منشی و کامل و مولوی
٭بہار بورڈ سے وسطانیہ تا فاضل
جامعہ سلفیہ اور اساتذہ کرام :
جامعہ کے اساتذہ کرام تعلیم و تربیت میں اپنی مثال آپ ہیں ۔ ان کے زیرنگرانی خوب خوب سیکھنے کا موقع ملا۔
بعض مشفق اساتذہ کرام کے اسمائے گرامی :
(1)ڈاکٹر رضاء اللہ محمد ادریس مبارک پوری
(2) ڈاکٹرمقتدی حسن ازہری
(3) ڈاکٹر ابراہیم مدنی
(4) شیخ محمد رئیس ندوی
(5) شیخ عبدالسلام مدنی
(6) شیخ عزیزالرحمن سلفی
(7) شیخ مستقیم سلفی
(8) شیخ اسعد اعظمی
(9) شیخ ابوالقاسم فاروقی سلفی
(10) شیخ عبدالمتین مدنی
(11) شیخ عبیداللہ طیب مکی
(12) شیخ محمد نعیم مدنی
(13) شیخ محمد یونس مدنی
(14) شیخ احسن جمیل مدنی
(15) شیخ سعید میسوری مدنی
(16) شیخ محمد حنیف مدنی
(17) شیخ علی حسین سلفی
(18) شیخ اصغر علی امام مہدی سلفی
(19) شیخ احمد مجتبی مدنی
(20) شیخ احسان اللہ سلفی
(21) شیخ محمد یحی فیضی
(22) شیخ عبدالوہاب حجازی
(23) شیخ امراللہ رحمانی
ان کے علاوہ مزید اساتذہ کرام ہیں ۔
جامعہ سلفیہ اور خطابت:
ویسے جامعہ سلفیہ کا ہر طالب علم ایک بہترین مقرر ہوا کرتاہے ، بعض اساتذہ ہفتہ واری تقریروں میں پوزیشن دیتے ہیں ، اس سے طلبہ میں خطابت کا مزید شوق بیدار ہوتا ہے ، اور سالانہ تقریری مسابقہ بہت سارے طلبہ کو خطابت کی بلندی پہ پہنچادیتا ہے ۔ جب میں متوسطہ ثانیہ میں سالانہ انجمن میں پہلی پوزیشن حاصل کیا تومیرے اندر خطابت کا شوق امنڈ آیا ، پھر جامعہ میں ایسا خطیب بن کر ابھرا کہ سالانہ مسابقہ میں کوئی پہلا نمبر نہیں کاٹ سکتا تھا۔ ۔ پندرہ روزہ انجمن "لجنۃ الثقافہ" کے نام سے ہوا کرتا تھا ، اس میں برجستہ بولنا ہوتا ہے ، اس میں مستقل حصہ لیا کرتا جس سے جوش خطابت میں مزید حسن پیدا ہوگیا۔ اسی سبب جامعہ میں جب بھی باہر سے وفود آتے ان کے سامنے میری تقریر ہوتی ۔
جامعہ سلفیہ اور صحافت:
لکھنے کا بچپن سے شوق تھا، مگر جامعہ کے کہنہ مشق اساتذہ کی رہنمائی میں صحافتی کیریر اپنی مثال آپ ہے ۔
ثانویہ سے مضمون نویسی کی ابتداء ہوتی ہے اور عالمیت کے آخر تک مضمون نویس، مقالہ نگاراور مصنف و محقق کا درجہ مل جاتا ہے۔ عالمیت میں پندرہ روزہ حائطیہ اورسالانہ تحریری مسابقہ کے لئے مضمون نگاری پھر عالمیت کے آخر میں ماہر استاد کی رہنمائی میں کتابی شکل میں مقالہ نگاری صحافت کے لئے مہمیز ہے۔ میرے اندر بھی ثانویہ سے ہی لکھنے کا شوق پیدا ہوا، عالمیت کے پہلے مرحلے میں سالانہ مسابقہ میں "تبلیغی جماعت: تعارف وتجزیہ " کے نام سے مقالہ لکھا اور پہلی پوزیشن حاصل کی۔ اس کی وجہ سے میرے اندر صحافت کا وہ شوق پیدا کہ لائبریری اور کتابوں کی خاک چھاننے لگا، اپنی جماعت سے اوپر کے طلبہ مضمون کی اصلاح کے لئے میرے پاس آتے ۔ (ساری تعریف اللہ کے لئے )
جامعہ سلفیہ سے طلبہ کا سالانہ ایک میگزین نکلتا ہے جس کا مدیر فضیلت سال اول سے منتخب کیا جاتاتھا۔ میں ابھی عالم ثانی میں تھا اور طلبہ اپنے اپنے ذہنوں میں مستقبل کا ایڈیٹر طے کرچکے تھے بلکہ مجھ سے کہتے بھی تھے ۔ بالآخر 2003 یعنی کہ فضیلت سال اول میں المنار کا بلامقابلہ ایڈیٹر منتخب ہوا۔
آج جو کچھ بھی ہوں وہ سب جامعہ سلفیہ کی مرہون منت ہےبلکہ ایک خاص شخصیت جنہوں نے میرے صحافتی کیریرکو چارچاند لگایا وہ ہیں شیخ ابوالقاسم فاروقی صاحب جو وقت کے بڑے عالم ہونے کے ساتھ ایک بڑے ادیب بھی ہیں ۔
جامعہ سلفیہ اور شاعری :
شیخ عزیرالرحمن سلفی بڑے منجھے ہوئے شاعر ہیں ، فن عروض پہ مہارت حاصل ہے ، اس لئے آپ ہی کو عروض پڑھانے دیا جاتا ہے ۔یقین جانئے شیخ جس طرح فن پڑھاتے ہیں طلبہ کے دل میں گھر کرتا ہے اور اندر سے شاعری کا ایک مخفی جذبہ بیدار ہوتا ہے جواپنے اس جذبے کی قدر کرتاہے اور طبیعت کو اس فکر و فن کا حامل بناتا ہے وہ ایک اچھا شاعر بن کرابھرتاہے ۔ میرے اندر بھی آپ کی محنت سے شاعری کا شوق ہوا، شاعری اور طبیعت میں اس قدر موزونیت پیدا ہوگئی کہ سلجھی ہوئی اور سلیس قسم کی شاعری معرض وجود میں آنے لگی، شیخ عبدالوہاب حجازی سے شاعری کی اصلاح لیا کرتا تھا وہ مجھے "شاعراسلام " کہہ کر پکارتے ۔
میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ شاعر ٹھیک سے ایک ہی کام کرسکتا ہے اور وہ ہے شاعری ۔ اور پھر شاعری میں کچھ بیجا تعریف، کچھ جھوٹ، کچھ دیوانگی اور کچھ فکری خطا شامل ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے خالص اسلامی شاعری مشکل ہوجاتی ہے ۔ مجھے تو بہت کچھ کرنا تھا اس لئے شاعری کے کاٹنوں سے دامن بچاتا ہوا اپنے مقصد میں لگ گیا۔ اب شاعرانہ طبیعت سرد پڑگئی ہے ۔
علمی ودعوتی خدمات :
فراغت کے بعد جنکپور نیپال کے ایک ادارے نے ترجمان کا اجراء کے لئے مجھے اپنے مدرسہ میں بلایااس وقت میں دہلی میں گریجویشن کے ارادے سے تھا، دہلی کے قیام کے دوران ایک مدرسے میں تعلیم دیا کرتا تھا اور ایک پندرہ روزہ اخبار " آئینہ حق" کی ادارت بھی سنبھالے ہوا تھا۔ کچھ مالی اور کچھ گھریلو مشکلات کے سبب میں جنکپور نیپال آگیا، رسالہ تو نہ نکلا مگر تدریس کی شروعات کردی ۔تفسیر، مشکوہ المصابیح ، ہدایہ النحواور انشاء کی تعلیم دی ۔ ساتھ ہی اردو سیکھنے والوں کے لئے ایک کورس اردو کا رکھا۔ چند ماہ بعد مدرسہ چھوڑ کے گھر آگیا۔ اسی درمیان جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی میں بی اے آنرس اردو کا پرائیویٹ سے فارم بھر دیا تھا۔ اس کا پہلے سال کا امتحان دے کر آیا۔بعد میں مجھے پتہ چلا آنرس پیپرمیں کلاس کرنے والوں سے بھی زیادہ نمبر آیاہے۔ ابھی گھر ہی تھا کہ کاٹھمانڈو سے مرکزی جمعیت اہل حدیث نیپال کے ناظم اعلی شیخ عطاءالرحمن مدنی (سرہا نیپال) کا فون آیا۔ انہوں نے کہاکہ مجھے جمعیت سے اہل حدیث میگزین نکالنا ہے اس لئے آپ میرے یہاں آئیے ۔ میں ان کے بلاوے پہ مرکزی جمعیت اہل حدیث کاٹھمانڈو نیپال گیااور جمعیہ احیاء التراث الاسلامی کویت کے لجنہ القارہ الہندیہ سے تعاقد بھی ہوگیا۔ رسالہ تو نہ نکل سکا مگر دعوتی کام اچھاخاصہ کیا۔ ایک مدرسے کا قیام عمل میں لایا ، بچوں کی تعلیم شروع کی ، جمعہ کی نماز کا بھی اہتمام کیااور جابجا دعوتی پروگرام رکھے۔ ان کاموں میں ہاتھ بٹانے کے لئے حاجی عبدالمبین صاحب(ساکن کاٹھمانڈو،ہاتھی بن) اور دیگر احباب قابل شکر ہیں۔ اس وقت کاٹھمانڈو سے کوئی اردو اخبار یا جریدہ نہیں نکلتا تھا۔ میں نے ہمت کرکے تن تنہا پندرہ روزہ اردواخبار جاری کیاجو کہ مسلمانوں کے مسائل پہ تجزیہ کی شکل میں ہوا کرتا تھا۔ آپ ہی لکھتا، آپ ہی ٹائپ کرتا، آپ ہی ڈیزائن کرتا، آپ ہی پریس سے چھاپتا، آپ ہی بازار میں فروخت کرتا۔ محنت سے جاری کیا تو کچھ لوگ ساتھ ہوگئے ، کسی نے مالی تعاون کیا تو کسی نے حوصلہ افزائی کی ۔ اتفاق سے ان ہی دنوں سعودی عرب سے جالیات (اسلامی دعوہ سنٹروسط بریدہ القصیم ) کا ویزہ پہنچ گیا ۔ اور میرا میگزین رجسٹرڈ نہیں تھا جس کی وجہ سے خوف لگا ہوا تھا۔ میں نے ایک آدمی کے نام سے تعلیمی ادارہ رجسٹرڈ کیاتھا جس میں بچوں کی اردو عربی تعلیم دیا کرتا تھا۔ یہ کام مرکزی جمعیت سے الگ ہوکر تن تنہا اور دینی غرض سے کر رہا تھا۔ ویزہ ملنے کے بعدکاٹھمانڈو، جمعیت، اخباراورمدرسہ سارا کچھ چھوڑکے سعودی عرب بریدہ القصیم کے دعوہ سنٹر آگیا۔ یہاں تین سال سے زائد نیپالی زبان میں دعوتی کام کیا اور سیکڑوں نیپالی کو اسلام میں داخل کرنے کا سبب بنا ۔ الحمدللہ ، اللہ تعالی ہمارے اس کام کو قبول فرمالے اور آخرت میں نجات کا ذریعہ بنائے ۔آمین
بروقت لگ بھگ تین سالوں سے طائف کے اسلامی سنٹر میں دعوتی فریضہ انجام دے رہاہوں، یہاں ایک جامعہ طائف کے نام سے ایک بڑی یونیورسٹی زیر تعمیر ہے ، اس کی تعمیر میں بڑی بڑی کمپنیاں لگی ہوئی ہیں جو جامعہ کے داخلی احاطے میں ہی رہتی ہیں ، ان لوگوں کو ایک جگہ جمع کرکے نماز جمعہ اور عیدین کا اہتمام کرتا ہوں ۔ جمعہ کے خطبہ نے بڑے دور رس نتائج چھوڑے اور بہت سارے قبوری حضرات عامل بالکتاب والسنہ ہوگئے ۔ اللہ تعالی انہیں ثابت قدمی عطافرمائے ۔ آمین
تصنیفی خدمات :
فراغت سے پہلے سے ہی لکھتا رہا ، متعدد میگزین میں مضامین شائع ہوئے اور آج بھی کافی لکھتا ہوں مگر کسی میگزین کو نہیں بھیجتاکیونکہ اب سوشل میڈیا اس قدر ترقی کرگیا ہےکہ لوگوں انٹرنٹ سے فرصت ہی نہیں ۔
اردواور نیپالی میں میری چند کتابیں ہیں ۔
(1) اسلام کا معاشی نظام اور جدید اقتصادی نظریات
(2) اسلام اور عالگیریت(مطبوع ماہنامہ السراج)
(3) تبلیغی جماعت : تعارف و تجزیہ
(4) معنی لاالہ الا اللہ (زیرطبع اردوترجمہ)
(5) الامان الثانی (مطبوع نیپالی ترجمہ)
(6) سردوام النعم (مطبوع نیپالی ترجمہ)
(7) فضل الاسلام (نیپالی ترجمہ)
ان کتابوں کے علاوہ سیکڑوں مضامین ہیں جو آئے روز لکھتا رہتا ہوں ، انہیں میری ذاتی ویب سائٹ پہ دیکھا جاسکتا ہے ، کچھ شاعرانہ کلام بھی اپ لوڈ کر دیاہوں۔
میڈیائی خدمات :
میں نے جب واٹس اپ اور فیس بوک وغیرہ پہ جھوٹے قصے، کہانیاں، غلط قسم کے فکروخیال ، باطل عقائدو نظریات اور جھوٹی واسرائیلی روایات دیکھی تو مجھے لگا کہ سوشل میڈیا پہ کام کرنے کی ضرورت ہے اور پھر اس جانب توجہ دی ، دن ورات کافی محنت کی اور اسے احباب کے ذریعہ میڈیا پہ جابجا نشر کیا ۔ یہ بہت بڑا کام نہیں ہے لیکن وہ نوجوان جو میرے رابطے میں تھے اور مقلدوں سے پریشان تھے انہیں راحت ملی ۔ میری مدد سے یہ میسج کافی جگہوں پہ نشر کیا گیا جس کے دور دور تک فائدے ہوئے ۔ الحمد للہ
رابطے :
ذاتی ویب سائٹ:
www.maquboolahmad.blospot.com
فیس بوک اکاؤنٹ:
https://www.facebook.com/maqubool
میرا فیس بوک گروپ:
https://www.facebook.com/groups/373795796094136/
ایمیل :
Maquboolsalafi@yahoo.com
islamiceducon@gmail.com
واٹس اپ نمبر:
00966531437827
تاریخ وجائے پیدائش :
سرکاری رکارڈ کے مطابق 7/ جولائی بروز جمعرات 1984 ہندوستان کے صوبہ بہار کے ضلع مدھوبنی کے گاؤں اندھرا ٹھاری میں پیدائش ہوئی ۔
گوگل میپ پہ میرا گاؤں : اس پہ انگلش میں ٹائپ کریں : Andhra Tharhi
لنک دیکھیں:
https://www.google.com.sa/maps/place/Andhra+Tharhi,+Bihar,+India/@26.3848721,86.3192528,15z/data=!3m1!4b1!4m2!3m1!1s0x39ee80aeddff633d:0xbfd108e63c12c769?hl=en
ابتدائی تعلیم :
مکتب کی تعلیم گاؤں کے مدرسے میں ہوئی ، یہ مدرسہ تو ایک بہانہ تھا اصل تعلیم والد صاحب جو اس مدرسے کے نائب صدرالمدرسین اور علاقے کے معروف خطیب و عالم دین ہیں یعنی عبدالخالق فیضی کے پاس ہوئی ، گھر پہ مارمار کے پڑھاتے تھے ، مدرسہ میں بھی کسی جماعت میں شریک نہیں تھا، ساری کتابیں ابو محترم اپنے پاس ہی پڑھاتے، جب باہر جانے کا خیال آیا تو ایک سال کے لئے مکتب کی آخری جماعت میں شامل کردیا۔
اعلی تعلیم :
میرے بڑے بھائی منظورالرب اسلامی (متخرج مدرسہ اسلامیہ راگھونگر بھوارہ مدھوبنی) جامعہ سلفیہ بنارس میں پڑھنے کے بڑے شوقین تھے مگر یہاں آکر ان کا داخلہ نہ ہوا، انہوں نے اپنے دل میں مجھے پڑھانے کی ٹھان لی اور سن 1996 میں مجھے لیکر بنارس پہنچے ۔ گوکہ دل میں داخلہ نہ ہونے کا کھٹکا تھا مگر مایوس نہیں تھے ۔ بھائی نے کہاکہ متوسطہ اولی میں داخلہ کے لئے امتحان دو۔ امتحان کے لئے ممتحن شیخ علی حسین سلفی (المعروف ببنغالی صاحب) کے روبروہوا، انہوں نے پہلے سوال کیا : کیا کیا کتابیں پڑھ کے آئے ہو؟ میں نے اردو، فارسی، نحو، صرف کی کتابوں کانام لیا تو انہوں نے کہا کہ اونچی جماعت(یعنی کم از کم تیسری) میں داخلہ لو کیونکہ تمہارا معیار اونچا ہے۔ میں نے انکار کیا ۔ پھر میرے بھائی کو بلایا گیا ، ان سے مطالبہ کیا گیا ، بھائی کا کہنا تھا مقبول کی جڑ (بنیاد)مضبوط کرنی ہے ۔
بہر کیف! بحث و مباحثہ کے بعد دوسری جماعت کے لئے راضی ہوگئے ۔ زبانی ٹسٹ ہوا پھر تحریری امتحان میں شامل ہوئے ۔الحمد صبح جب رزلٹ دیکھا تو سر فہرست نام تھا۔ اللہ کا صد شکر ادا کیا۔
ڈگریاں :
٭جامعہ سلفیہ سے متوسطہ تا عالمیت (فضیلت سال اول فقط)
٭جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے بی اے آنرس اردو
٭الہ آباد بورڈ سے منشی و کامل و مولوی
٭بہار بورڈ سے وسطانیہ تا فاضل
جامعہ سلفیہ اور اساتذہ کرام :
جامعہ کے اساتذہ کرام تعلیم و تربیت میں اپنی مثال آپ ہیں ۔ ان کے زیرنگرانی خوب خوب سیکھنے کا موقع ملا۔
بعض مشفق اساتذہ کرام کے اسمائے گرامی :
(1)ڈاکٹر رضاء اللہ محمد ادریس مبارک پوری
(2) ڈاکٹرمقتدی حسن ازہری
(3) ڈاکٹر ابراہیم مدنی
(4) شیخ محمد رئیس ندوی
(5) شیخ عبدالسلام مدنی
(6) شیخ عزیزالرحمن سلفی
(7) شیخ مستقیم سلفی
(8) شیخ اسعد اعظمی
(9) شیخ ابوالقاسم فاروقی سلفی
(10) شیخ عبدالمتین مدنی
(11) شیخ عبیداللہ طیب مکی
(12) شیخ محمد نعیم مدنی
(13) شیخ محمد یونس مدنی
(14) شیخ احسن جمیل مدنی
(15) شیخ سعید میسوری مدنی
(16) شیخ محمد حنیف مدنی
(17) شیخ علی حسین سلفی
(18) شیخ اصغر علی امام مہدی سلفی
(19) شیخ احمد مجتبی مدنی
(20) شیخ احسان اللہ سلفی
(21) شیخ محمد یحی فیضی
(22) شیخ عبدالوہاب حجازی
(23) شیخ امراللہ رحمانی
ان کے علاوہ مزید اساتذہ کرام ہیں ۔
جامعہ سلفیہ اور خطابت:
ویسے جامعہ سلفیہ کا ہر طالب علم ایک بہترین مقرر ہوا کرتاہے ، بعض اساتذہ ہفتہ واری تقریروں میں پوزیشن دیتے ہیں ، اس سے طلبہ میں خطابت کا مزید شوق بیدار ہوتا ہے ، اور سالانہ تقریری مسابقہ بہت سارے طلبہ کو خطابت کی بلندی پہ پہنچادیتا ہے ۔ جب میں متوسطہ ثانیہ میں سالانہ انجمن میں پہلی پوزیشن حاصل کیا تومیرے اندر خطابت کا شوق امنڈ آیا ، پھر جامعہ میں ایسا خطیب بن کر ابھرا کہ سالانہ مسابقہ میں کوئی پہلا نمبر نہیں کاٹ سکتا تھا۔ ۔ پندرہ روزہ انجمن "لجنۃ الثقافہ" کے نام سے ہوا کرتا تھا ، اس میں برجستہ بولنا ہوتا ہے ، اس میں مستقل حصہ لیا کرتا جس سے جوش خطابت میں مزید حسن پیدا ہوگیا۔ اسی سبب جامعہ میں جب بھی باہر سے وفود آتے ان کے سامنے میری تقریر ہوتی ۔
جامعہ سلفیہ اور صحافت:
لکھنے کا بچپن سے شوق تھا، مگر جامعہ کے کہنہ مشق اساتذہ کی رہنمائی میں صحافتی کیریر اپنی مثال آپ ہے ۔
ثانویہ سے مضمون نویسی کی ابتداء ہوتی ہے اور عالمیت کے آخر تک مضمون نویس، مقالہ نگاراور مصنف و محقق کا درجہ مل جاتا ہے۔ عالمیت میں پندرہ روزہ حائطیہ اورسالانہ تحریری مسابقہ کے لئے مضمون نگاری پھر عالمیت کے آخر میں ماہر استاد کی رہنمائی میں کتابی شکل میں مقالہ نگاری صحافت کے لئے مہمیز ہے۔ میرے اندر بھی ثانویہ سے ہی لکھنے کا شوق پیدا ہوا، عالمیت کے پہلے مرحلے میں سالانہ مسابقہ میں "تبلیغی جماعت: تعارف وتجزیہ " کے نام سے مقالہ لکھا اور پہلی پوزیشن حاصل کی۔ اس کی وجہ سے میرے اندر صحافت کا وہ شوق پیدا کہ لائبریری اور کتابوں کی خاک چھاننے لگا، اپنی جماعت سے اوپر کے طلبہ مضمون کی اصلاح کے لئے میرے پاس آتے ۔ (ساری تعریف اللہ کے لئے )
جامعہ سلفیہ سے طلبہ کا سالانہ ایک میگزین نکلتا ہے جس کا مدیر فضیلت سال اول سے منتخب کیا جاتاتھا۔ میں ابھی عالم ثانی میں تھا اور طلبہ اپنے اپنے ذہنوں میں مستقبل کا ایڈیٹر طے کرچکے تھے بلکہ مجھ سے کہتے بھی تھے ۔ بالآخر 2003 یعنی کہ فضیلت سال اول میں المنار کا بلامقابلہ ایڈیٹر منتخب ہوا۔
آج جو کچھ بھی ہوں وہ سب جامعہ سلفیہ کی مرہون منت ہےبلکہ ایک خاص شخصیت جنہوں نے میرے صحافتی کیریرکو چارچاند لگایا وہ ہیں شیخ ابوالقاسم فاروقی صاحب جو وقت کے بڑے عالم ہونے کے ساتھ ایک بڑے ادیب بھی ہیں ۔
جامعہ سلفیہ اور شاعری :
شیخ عزیرالرحمن سلفی بڑے منجھے ہوئے شاعر ہیں ، فن عروض پہ مہارت حاصل ہے ، اس لئے آپ ہی کو عروض پڑھانے دیا جاتا ہے ۔یقین جانئے شیخ جس طرح فن پڑھاتے ہیں طلبہ کے دل میں گھر کرتا ہے اور اندر سے شاعری کا ایک مخفی جذبہ بیدار ہوتا ہے جواپنے اس جذبے کی قدر کرتاہے اور طبیعت کو اس فکر و فن کا حامل بناتا ہے وہ ایک اچھا شاعر بن کرابھرتاہے ۔ میرے اندر بھی آپ کی محنت سے شاعری کا شوق ہوا، شاعری اور طبیعت میں اس قدر موزونیت پیدا ہوگئی کہ سلجھی ہوئی اور سلیس قسم کی شاعری معرض وجود میں آنے لگی، شیخ عبدالوہاب حجازی سے شاعری کی اصلاح لیا کرتا تھا وہ مجھے "شاعراسلام " کہہ کر پکارتے ۔
میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ شاعر ٹھیک سے ایک ہی کام کرسکتا ہے اور وہ ہے شاعری ۔ اور پھر شاعری میں کچھ بیجا تعریف، کچھ جھوٹ، کچھ دیوانگی اور کچھ فکری خطا شامل ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے خالص اسلامی شاعری مشکل ہوجاتی ہے ۔ مجھے تو بہت کچھ کرنا تھا اس لئے شاعری کے کاٹنوں سے دامن بچاتا ہوا اپنے مقصد میں لگ گیا۔ اب شاعرانہ طبیعت سرد پڑگئی ہے ۔
علمی ودعوتی خدمات :
فراغت کے بعد جنکپور نیپال کے ایک ادارے نے ترجمان کا اجراء کے لئے مجھے اپنے مدرسہ میں بلایااس وقت میں دہلی میں گریجویشن کے ارادے سے تھا، دہلی کے قیام کے دوران ایک مدرسے میں تعلیم دیا کرتا تھا اور ایک پندرہ روزہ اخبار " آئینہ حق" کی ادارت بھی سنبھالے ہوا تھا۔ کچھ مالی اور کچھ گھریلو مشکلات کے سبب میں جنکپور نیپال آگیا، رسالہ تو نہ نکلا مگر تدریس کی شروعات کردی ۔تفسیر، مشکوہ المصابیح ، ہدایہ النحواور انشاء کی تعلیم دی ۔ ساتھ ہی اردو سیکھنے والوں کے لئے ایک کورس اردو کا رکھا۔ چند ماہ بعد مدرسہ چھوڑ کے گھر آگیا۔ اسی درمیان جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی میں بی اے آنرس اردو کا پرائیویٹ سے فارم بھر دیا تھا۔ اس کا پہلے سال کا امتحان دے کر آیا۔بعد میں مجھے پتہ چلا آنرس پیپرمیں کلاس کرنے والوں سے بھی زیادہ نمبر آیاہے۔ ابھی گھر ہی تھا کہ کاٹھمانڈو سے مرکزی جمعیت اہل حدیث نیپال کے ناظم اعلی شیخ عطاءالرحمن مدنی (سرہا نیپال) کا فون آیا۔ انہوں نے کہاکہ مجھے جمعیت سے اہل حدیث میگزین نکالنا ہے اس لئے آپ میرے یہاں آئیے ۔ میں ان کے بلاوے پہ مرکزی جمعیت اہل حدیث کاٹھمانڈو نیپال گیااور جمعیہ احیاء التراث الاسلامی کویت کے لجنہ القارہ الہندیہ سے تعاقد بھی ہوگیا۔ رسالہ تو نہ نکل سکا مگر دعوتی کام اچھاخاصہ کیا۔ ایک مدرسے کا قیام عمل میں لایا ، بچوں کی تعلیم شروع کی ، جمعہ کی نماز کا بھی اہتمام کیااور جابجا دعوتی پروگرام رکھے۔ ان کاموں میں ہاتھ بٹانے کے لئے حاجی عبدالمبین صاحب(ساکن کاٹھمانڈو،ہاتھی بن) اور دیگر احباب قابل شکر ہیں۔ اس وقت کاٹھمانڈو سے کوئی اردو اخبار یا جریدہ نہیں نکلتا تھا۔ میں نے ہمت کرکے تن تنہا پندرہ روزہ اردواخبار جاری کیاجو کہ مسلمانوں کے مسائل پہ تجزیہ کی شکل میں ہوا کرتا تھا۔ آپ ہی لکھتا، آپ ہی ٹائپ کرتا، آپ ہی ڈیزائن کرتا، آپ ہی پریس سے چھاپتا، آپ ہی بازار میں فروخت کرتا۔ محنت سے جاری کیا تو کچھ لوگ ساتھ ہوگئے ، کسی نے مالی تعاون کیا تو کسی نے حوصلہ افزائی کی ۔ اتفاق سے ان ہی دنوں سعودی عرب سے جالیات (اسلامی دعوہ سنٹروسط بریدہ القصیم ) کا ویزہ پہنچ گیا ۔ اور میرا میگزین رجسٹرڈ نہیں تھا جس کی وجہ سے خوف لگا ہوا تھا۔ میں نے ایک آدمی کے نام سے تعلیمی ادارہ رجسٹرڈ کیاتھا جس میں بچوں کی اردو عربی تعلیم دیا کرتا تھا۔ یہ کام مرکزی جمعیت سے الگ ہوکر تن تنہا اور دینی غرض سے کر رہا تھا۔ ویزہ ملنے کے بعدکاٹھمانڈو، جمعیت، اخباراورمدرسہ سارا کچھ چھوڑکے سعودی عرب بریدہ القصیم کے دعوہ سنٹر آگیا۔ یہاں تین سال سے زائد نیپالی زبان میں دعوتی کام کیا اور سیکڑوں نیپالی کو اسلام میں داخل کرنے کا سبب بنا ۔ الحمدللہ ، اللہ تعالی ہمارے اس کام کو قبول فرمالے اور آخرت میں نجات کا ذریعہ بنائے ۔آمین
بروقت لگ بھگ تین سالوں سے طائف کے اسلامی سنٹر میں دعوتی فریضہ انجام دے رہاہوں، یہاں ایک جامعہ طائف کے نام سے ایک بڑی یونیورسٹی زیر تعمیر ہے ، اس کی تعمیر میں بڑی بڑی کمپنیاں لگی ہوئی ہیں جو جامعہ کے داخلی احاطے میں ہی رہتی ہیں ، ان لوگوں کو ایک جگہ جمع کرکے نماز جمعہ اور عیدین کا اہتمام کرتا ہوں ۔ جمعہ کے خطبہ نے بڑے دور رس نتائج چھوڑے اور بہت سارے قبوری حضرات عامل بالکتاب والسنہ ہوگئے ۔ اللہ تعالی انہیں ثابت قدمی عطافرمائے ۔ آمین
تصنیفی خدمات :
فراغت سے پہلے سے ہی لکھتا رہا ، متعدد میگزین میں مضامین شائع ہوئے اور آج بھی کافی لکھتا ہوں مگر کسی میگزین کو نہیں بھیجتاکیونکہ اب سوشل میڈیا اس قدر ترقی کرگیا ہےکہ لوگوں انٹرنٹ سے فرصت ہی نہیں ۔
اردواور نیپالی میں میری چند کتابیں ہیں ۔
(1) اسلام کا معاشی نظام اور جدید اقتصادی نظریات
(2) اسلام اور عالگیریت(مطبوع ماہنامہ السراج)
(3) تبلیغی جماعت : تعارف و تجزیہ
(4) معنی لاالہ الا اللہ (زیرطبع اردوترجمہ)
(5) الامان الثانی (مطبوع نیپالی ترجمہ)
(6) سردوام النعم (مطبوع نیپالی ترجمہ)
(7) فضل الاسلام (نیپالی ترجمہ)
ان کتابوں کے علاوہ سیکڑوں مضامین ہیں جو آئے روز لکھتا رہتا ہوں ، انہیں میری ذاتی ویب سائٹ پہ دیکھا جاسکتا ہے ، کچھ شاعرانہ کلام بھی اپ لوڈ کر دیاہوں۔
میڈیائی خدمات :
میں نے جب واٹس اپ اور فیس بوک وغیرہ پہ جھوٹے قصے، کہانیاں، غلط قسم کے فکروخیال ، باطل عقائدو نظریات اور جھوٹی واسرائیلی روایات دیکھی تو مجھے لگا کہ سوشل میڈیا پہ کام کرنے کی ضرورت ہے اور پھر اس جانب توجہ دی ، دن ورات کافی محنت کی اور اسے احباب کے ذریعہ میڈیا پہ جابجا نشر کیا ۔ یہ بہت بڑا کام نہیں ہے لیکن وہ نوجوان جو میرے رابطے میں تھے اور مقلدوں سے پریشان تھے انہیں راحت ملی ۔ میری مدد سے یہ میسج کافی جگہوں پہ نشر کیا گیا جس کے دور دور تک فائدے ہوئے ۔ الحمد للہ
رابطے :
ذاتی ویب سائٹ:
www.maquboolahmad.blospot.com
فیس بوک اکاؤنٹ:
https://www.facebook.com/maqubool
میرا فیس بوک گروپ:
https://www.facebook.com/groups/373795796094136/
ایمیل :
Maquboolsalafi@yahoo.com
islamiceducon@gmail.com
واٹس اپ نمبر:
00966531437827