• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

منکرین استمداد غیر اللہ سے چند سوالات

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,567
پوائنٹ
791
جناب دل تو نہیں کرتا کہ آپ کے ان دل خراش اور حیا سوز الفاظ کا جواب دیا جائے مگر حقیقت کو واضح کرنے کے لئے مختصر سی گفتگو حاضر ہے۔
1۔ کیا کسی چیز کا عربی نام رکھنا غلط ہے؟ کمال کرتے ہو جناب
2۔ذاتی اور عطائی کی تقسیم کو آپ کے جماعۃ الدعوۃ کے امیر حافظ سعید نے بھی تسلیم کیا ہے (تفسیر سورہ توبہ )
3۔جناب یہاں برابری ہے اور جو اللہ کے ساتھ برابری کرے وہ مشرک ہے۔جو کسی کو خدا سمجھ کر یا مستقل بالذات سمجھ کر یا یوں سمجھے کہ رب کا ازن نہ بھی ہو تو یہ کام کر دے گا تو یہ شرک ہے۔
یہی تو ہم بتانا چاہتے ہیں کہ ہمیں بھی بڑا دکھ ہوتا ہے جب۔۔ حقیقی و مجازی ۔۔کے عنوان سے اللہ کی عظمت میں ۔۔دوسروں کو شریک ۔۔کرنے کی ناپاک ’’ جسارت ‘‘ کی جاتی ہے۔۔
ایک بیوی کے معاملے پر ’’ حقیقی و مجازی ‘‘ کی تقسیم اگر۔۔حیا سوز ۔۔ہے ،تو اللہ عزوجل کے نسبت تو ایسی ۔۔بے حیائی ۔۔کہیں بڑی۔۔جسارت ہے

ویسے یہ حافظ سعید صاحب کس فرقہ کے امام ہیں ۔۔کس صدی کے مفسر ہیں؟ ان کا تعارف کروائیں،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور آپ نے یہ بھی خوب کہی کہ :
جناب یہاں برابری ہے اور جو اللہ کے ساتھ برابری کرے وہ مشرک ہے۔جو کسی کو خدا سمجھ کر یا مستقل بالذات سمجھ کر
یعنی جب تک کسی کو ’’ خدا نہ کہے ، شرک نہیں ۔۔مطلب اللہ کے سوا دوسروں کو ۔۔خدا۔الہ ۔۔کہے بغیر جو کرتا رہے سب ٹھیک ہے۔
جیسے کوئی عورت کسی کو ’’ خاوند ‘‘ کے برابر سمجھے بغیر اس کے ساتھ جو چاہے کر لے ۔۔پاک دامن ۔۔ہی رہے گی؟
یہ وہی بات ہے جس جناب خود ۔۔حیا سوز ۔۔کہہ رہے ہیں۔

مشرکین عرب کا عقیدہ قرآن مجید نے اسی قبیل کا بیان کیا ہے :
’’ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللَّهِ قُلْ أَتُنَبِّئُونَ اللَّهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ (سورہ یونس ۔18)
ترجمہ مولوی غلام رسول بریلوی:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور وہ اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کرتے ہیں جو ان کو نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ نفع پہنچا سکتے ہیں ، اور یہ کہتے ہیں کہ وہ اللہ کے پاس ہماری سفارش کرنے والے ہیں ، آپ کہئے کہ کیا تم اللہ کو ایسی بات کی خبر دیتے ہو جس کا اللہ کو نہ آسمانوں میں علم ہے نہ زمینوں میں ، وہ ان تمام سے بری اور بلند ہے جن کو تم اس کے ساتھ شریک کرتے ہو (یونس : ١٨)
اسکی تفسیر میں مولوی غلام رسول بریلوی نے علامہ رازی کی ایک طویل عبارت نقل کی ،اس میں دیگر باتوں کے ساتھ ۔۔بزرگ پرستی ۔۔کا شرک بیان کیا ہے
امام فخر الدین محمد بن عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :
’’ اس زمانہ میں اس کی نظیر یہ ہے کہ اس زمانہ میں بہت لوگ بزرگوں کی قبروں کی تعظیم کرتے ہیں اور ان کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ جب وہ ان کی قبروں کی تعظیم کریں گے تو وہ بزرگ اللہ تعالیٰ کے پاس ان کی شفاعت کریں گے ‘‘ انتہی

علامہ رازی کے الفاظ یہ ہیں :
ونظيره في هذا الزمان اشتغال كثير من الخلق بتعظيم قبور الأكابر، على اعتقاد أنهم إذا عظموا قبورهم فإنهم يكونون شفعاء لهم عند الله
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہماری گذارش ہے کہ بندے کو اللہ عزوجل کے معاملے میں سب سے زیادہ ۔۔باحیا ۔۔غیرت مند
اور ۔۔غیر ۔۔کو شریک کرنے سے بالکل پاک ہونا چاہیئے ؛
 
Last edited:
شمولیت
جنوری 27، 2015
پیغامات
381
ری ایکشن اسکور
136
پوائنٹ
94
حضرت کام آپ نے وہی کیا ہے بتوں والی آیات پیش کر کے
میں نے سورج کے پجاری سے پوچھا تم سورج کو کیوں پوجتے ہو جبکہ اللہ قرآن میں فرما رہا ہے کہ صرف اسی کی عبادت کرو تو اس نے جواب دیا چل وہابی کہیں کا بتوں والی آیات ہم پہ چسپاں کرتا ہے، اسی طرح میں نے چاند،ستاروں،آگ،درختوں،جانوروں کے پجاریوں سے پوچھا تو یہی جواب ملا پھر میں نے بتوں کے پجاری سے پوچھا تو اس نے کہا ہم بتوں کی پوجا کہاں کرتے ہیں؟ یہ سب کچھ جو آپ دیکھ رہے ہیں (نذونیاز،چڑہاوے) یہ صرف اس لیے کہ یہ ہمیں اللہ کے نزدیکی کے مرتبہ تک پہنچا دیں پھر میں نے قبر کے مجاور سے پوچھا تو اس نے وہی جواب دیا جو بتوں کے پجاری نے دیا تھا۔
اب آپ ہی بتائیں کیا قیامت کے روز بت پرستوں کے سوا باقی مذاہب کے خلاف جو ہزاروں کی تعداد میں ہیں قرآن کی کوئی حجت نہیں ہو گی؟
اور مشرکین مکہ کے بت پرستوں کے بارے میں تو آپ کا یہی خیال ہوگا کہ کہاں وہ مٹی اٹھائی شکل بنائی اور اسے نفع ونقصان کا مالک بنا دیا اور کہاں ہم کہ صرف اللہ کے نیک بندوں کو ہی اور وہ بھی اس کی عطا سے حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے ہیں مگر بت پرستوں کے بارے میں آپ کا ایسا خیال درست نہیں وہ کسی بےنام چیز کا بت نہیں بناتے تھے بلکہ وہ اللہ کے بندوں کا ہی بت بناتے جن میں اکثر نیک لوگ ہی ہوتے تھے اور بعض بدکار بھی لیکن وہ انہیں نیک ہی سمجھتے تھے اگر آپ نہیں جانتے تو سورۃ نوح میں جن پانچ آدمیوں کا ذکر ہے اور اس آیت کی تفسیرمیں جو صحیح بخاری میں حدیث آئی ہے وہ پڑھ کے دیکھ لیں۔
 

کشمیر خان

مبتدی
شمولیت
اگست 22، 2015
پیغامات
190
ری ایکشن اسکور
6
پوائنٹ
25
اسکی تفسیر میں مولوی غلام رسول بریلوی نے علامہ رازی کی ایک طویل عبارت نقل کی ،اس میں دیگر باتوں کے ساتھ ۔۔بزرگ پرستی ۔۔کا شرک بیان کیا ہے
امام فخر الدین محمد بن عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :
’’ اس زمانہ میں اس کی نظیر یہ ہے کہ اس زمانہ میں بہت لوگ بزرگوں کی قبروں کی تعظیم کرتے ہیں اور ان کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ جب وہ ان کی قبروں کی تعظیم کریں گے تو وہ بزرگ اللہ تعالیٰ کے پاس ان کی شفاعت کریں گے ‘‘ انتہی

علامہ رازی کے الفاظ یہ ہیں :
ونظيره في هذا الزمان اشتغال كثير من الخلق بتعظيم قبور الأكابر، على اعتقاد أنهم إذا عظموا قبورهم فإنهم يكونون شفعاء لهم عند الله
اپنے غلط موقف کو زبردستی درست ثابت کرنے کیلئے ایسی فن کاریاں جناب کو کرنا ہی پڑیں گی۔۔
پہلے ’’اشتغال‘‘ کی تعیین تو کر لیتے اسی تفسیر کبیر میں سے، نہ سیاق و سباق کو ہی دیکھنے کی زحمت کی!!
محولہ عبارت سے پہلے تفسیر کبیر شریف میں مذکور:
پہلی عبارت
و زعموا انھم متی اشتغلوا بعبادۃ ھذہ التماثیل، فان اولئک الاکابر یکونون شفعاء لھم عند اللہ تعالی
پھر آگے چل کر اسکی نظیر اپنے زمانے میں تحریر فرماتے ہیں:
دوسری عبارت
و نظیرہ فی ھذا الزمان اشتغال ۔ ۔ ۔ ۔ الخ
اسی صفحہ پر پہلے یہ عبارت مبارکہ درج فرمائی تفسیر میں:
تیسری عبارت
فاعلم ان من الناس من قال ان اولئک من الکفار توھموا ان عبادۃ الاصنام اشد فی تعظیم اللہ من عبادۃ اللہ سبحانہ و تعالی ۔ فقالو لیست لنا اھلیۃ ان نشتغل بعبادۃ اللہ تعالی بل نحن نشتغل بعبادۃ ھذہ الاصنام
صاحبِ تفسیر کبیر کی تفسیر مبارکہ تو عین ہمارے موقف کی صحت پر دال ہے!!
آپ کو یقینا سمجھ تو آئی نہیں ہونی کہ کیسے اہل سنت کا موقف صحیح ثابت ہوا، میں خود ہی بتائے دیتا ہوں۔
جب امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے پہلی عبارت کی نظیر اپنی دوسری عبارت میں بیان فرمائی تو عبادت اور تعظیم کو ایک ہی معنی میں لیا ہے، ورنہ نظیر کیسی؟؟ تو آپ یہ بتائیں کہ غیراللہ کے لیے عبادت کے جیسی تعظیم کے ہم کب قائل و فاعل ہیں؟؟؟ سیدھی سی بات ہے کہ آپکی محولہ عبارتِ تفسیر میں حضرت علامہ امام رازی علیہ رحمہ نے ایسے لوگوں کا ذکر فرمایا ہے جو بے دین، اللہ عزوجل کی عبادت سے خود کو بے نیاز سمجھنے والے، خود کو احکام شرعیہ کی پابندی سے آزاد سمجھنے والے ہیں اور صرف قبور کی تعظیم کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھنے والے ہیں۔۔۔۔واقعی یہ صریح کفر ہے!!
حضرت علامہ غلامِ رسول صاحب کی عبارت بھی آپ نے پوری نقل نہیں کی ورنہ آپکا استدلال باطل ٹھہرتا تھا۔ خود وہ محولہ عبارت سے پہلے مشرکین کی ’’بتوں کی عبادت‘‘ کا ذکر فرما رہے ہیں اور پھر اسی کی نظیر کے طور پر محولہ عبارت لکھی ہے۔۔۔۔۔یعنی جیسے مشرکین بتوں کو معبود مان کر ان کی پرستش کرتے تھے ویسے ہی یہ بے دین لوگ خود کو اللہ عزوجل کی عبادت سے بے نیاز سمجھ کر قبروں کو معبود سمجھتے ہوئے انکی پرستش کرتے ہیں!!
آخر من دون اللہ اور باذن اللہ کی سمجھ آپکو ابھی تک نہیں آئی!!
 
Last edited:
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
393
ری ایکشن اسکور
276
پوائنٹ
71
گر
میرے مخاطب!
میں موضوع سے باہر سر مو جتنا نہیں نکلا۔
جناب آپ کا کہیں نام نہیں لیا آپ لوگ لکھا ہے جس میں آپ کے ھم مسلک لوگ شامل ہیں چلیں آپ کو بھی دیکھ لیتے ہیں نکلتے ہیں یا نہیں موضوع سے باہر

پہلے آپ یہی بات ’’بخاری شریف‘‘ سے ’’باحوالہ‘‘ پیش تو فرمادیں مگر اس سے اپنی وجہ استدلال بھی (کیونکہ آپ میرے چیلنج کا جواب دے رہے ہیں)، ترجمہ ناچیز کر دے گا۔
بسا اوقات انسان سے مصدر بیان کرتے ہوئے غلطی ہو جاتی ہے اس سے کوئی معصو م نہیں تو یہ حدیث صحیح مسلم میں موجود ہے
وحَدَّثَنِي عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْيَمَامِيُّ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ يَعْنِي ابْنَ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو زُمَيْلٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، قَالَ : كَانَ الْمُشْرِكُونَ يَقُولُونَ : لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ ، قَالَ : فَيَقُولُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " وَيْلَكُمْ قَدْ قَدْ " ، فَيَقُولُونَ : إِلَّا شَرِيكًا هُوَ لَكَ تَمْلِكُهُ وَمَا مَلَكَ ، يَقُولُونَ : هَذَا وَهُمْ يَطُوفُونَ بِالْبَيْتِ
لنک
http://library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=158&hid=2039&pid=106849
میں آجکل شہر سے کافی دور ہوں نیٹ سست ہے لہذا حافظے پر اعتماد کیا تھا جس سے یہ غلطی لگی
ویسے ا ن کو بھی دیکھ لیجئے گا یہ قبوریوں کے ایک بڑے ہیں علی الجفری اور صحیح بخاری کی ہی طرف ایک روایت منسوب کر رہے ہیں ان کی ایک نہیں کئی ویڈیوز دکھائی جا سکتی ہیں ۔
http://www.almijher.com/videos/yakzebbukhare.mpg
رہا وجہ استدلال تو وہ تملکہ و ما ملک میں ہے آپ ترجمہ کریں وجہ دکھ جائے گی
 

کشمیر خان

مبتدی
شمولیت
اگست 22، 2015
پیغامات
190
ری ایکشن اسکور
6
پوائنٹ
25
اس سے کوئی معصو م نہیں
یہ آپکا اپنا دعوی ہے۔
ویسے ا ن کو بھی دیکھ لیجئے گا
برائے آسانی جو بات ہو (موضوع سے متعلق)، تحریر فرما دیں۔۔ویڈیو سٹریمنگ میرے پاس نہیں ہو سکتی کسی وجہ سے۔
لیں آپ کو بھی دیکھ لیتے ہیں نکلتے ہیں یا نہیں موضوع سے باہر
اس سے اوپر دیکھ لیں اپنا قول فی الحال۔
رہا وجہ استدلال تو وہ تملکہ و ما ملک میں ہے آپ ترجمہ کریں وجہ دکھ جائے گی
ترجمہ:
ہم حاضر ہیں اے اللہ ہم حاضر ہیں ہم حاضر ہیں تیرا کوئی شریک نہیں مگر وہ تیرا شریک ہے جس کو تو نے اپنا شریک بنایا ہے تو اسکا مالک ہے اور جس کا وہ مالک ہے اسکا بھی تو مالک ہے۔
اب وجہ استدلال جناب بیان فرما دیں کیونکہ مجھے تو آپکی وجہ استدلال اسمیں سے بالکل نظر نہیں آ رہی۔
 
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
393
ری ایکشن اسکور
276
پوائنٹ
71
موضوع سے باہر نکلنا اچھا نہیں لہذا خاموشی بھلی
یہ جناب کا چیلنج تھا
کوئی ایک ہی آیت یا ایک ہی حدیث ایسی لاؤ کہ جس سے مشرکین کا یہ عقیدہ ثابت ہو کہ وہ اپنے جھوٹے معبودوں کا اختیار باذن اللہ کی قید سے مقید مانتے تھے؟؟
یہ جناب کا ترجمہ میری پیش کی گئی حدیث کا

مگر وہ تیرا شریک ہے جس کو تو نے اپنا شریک بنایا ہے تو اسکا مالک ہے اور جس کا وہ مالک ہے اسکا بھی تو مالک ہے۔
تو اس میں کفار کا صاف عقیدہ لکھا ہے کہ اللہ تیرا کوئی شریک نہیں مگر جسے تو خود شریک بنا لے (وہ کون تھے ؟؟؟ ان کے نزدیک ان کے معبود)(دوسرے لفظوں میں اگر تو ان کو مالک نہ بناتا تصرف کا ان کا تو کوئی اختیار نہیں تھا )
اگلی بات جس کا وہ مالک ہے اسکا بھی تو مالک ہے(یعنی حقیقی مالک تو ہے وہ تو تیرے اذن سے مالک بنا ہے )
(تملکہ و ما ملک اس کو ما نافیہ بھی کہا گیا ہے کہ تو ہی اس کا مالک ہے وہ مالک نہیں ہے یعنی جو تصرف یہ کرتاہے وہ یہ نہیں تو ہی کرتاہے )

کیونکہ ان کے معبود کوئی حسی چیزیں نہیں رکھتے تھے جن کی ملکیت کا ذکر کیا جاتا
تو یہ حدیث اظہر من الشمس ہے کہ کفار مکہ اپنے معبودان کو مستقل بالذات نہیں سمجھتے تھے بلکہ عطائی اور باذن اللہ کے قائل تھا
ایسا نہیں کہ صرف یہ حدیث ہی ہے قرآن کی کئی آیات اسی معنی پر دلالت کرتی ہیں
 

کشمیر خان

مبتدی
شمولیت
اگست 22، 2015
پیغامات
190
ری ایکشن اسکور
6
پوائنٹ
25
موضوع سے باہر نکلنا اچھا نہیں لہذا خاموشی بھلی
یہ جناب کا چیلنج تھا
کوئی ایک ہی آیت یا ایک ہی حدیث ایسی لاؤ کہ جس سے مشرکین کا یہ عقیدہ ثابت ہو کہ وہ اپنے جھوٹے معبودوں کا اختیار باذن اللہ کی قید سے مقید مانتے تھے؟؟
یہ جناب کا ترجمہ میری پیش کی گئی حدیث کا

مگر وہ تیرا شریک ہے جس کو تو نے اپنا شریک بنایا ہے تو اسکا مالک ہے اور جس کا وہ مالک ہے اسکا بھی تو مالک ہے۔
تو اس میں کفار کا صاف عقیدہ لکھا ہے کہ اللہ تیرا کوئی شریک نہیں مگر جسے تو خود شریک بنا لے (وہ کون تھے ؟؟؟ ان کے نزدیک ان کے معبود)(دوسرے لفظوں میں اگر تو ان کو مالک نہ بناتا تصرف کا ان کا تو کوئی اختیار نہیں تھا )

اگلی بات جس کا وہ مالک ہے اسکا بھی تو مالک ہے(یعنی حقیقی مالک تو ہے وہ تو تیرے اذن سے مالک بنا ہے )
(تملکہ و ما ملک اس کو ما نافیہ بھی کہا گیا ہے کہ تو ہی اس کا مالک ہے وہ مالک نہیں ہے یعنی جو تصرف یہ کرتاہے وہ یہ نہیں تو ہی کرتاہے )
کیونکہ ان کے معبود کوئی حسی چیزیں نہیں رکھتے تھے جن کی ملکیت کا ذکر کیا جاتا

تو یہ حدیث اظہر من الشمس ہے کہ کفار مکہ اپنے معبودان کو مستقل بالذات نہیں سمجھتے تھے بلکہ عطائی اور باذن اللہ کے قائل تھا
ایسا نہیں کہ صرف یہ حدیث ہی ہے قرآن کی کئی آیات اسی معنی پر دلالت کرتی ہیں
جناب!!
آپ کے استدلال کی بنیاد صرف اسی چیز پر ہے کہ آپ نے مملوک اور ماذون کو ایک ہی چیز سمجھ لیا ہے۔
1۔۔۔ کیا آپ کے نزدیک مملوک ہونا ماذون ہونے کو مستلزم ہے؟؟
2۔۔۔ کیا آپ کے مطابق مملوک ماننے کامطلب ماذون مانناہے؟
3۔۔۔ مشرکین(الا شریکا ھو لک تملکہ وما ملک)کے الفاظ سے بتوں کےمملوک ہونے کا اقرار توکرتے تھے مگراس سے ماذون ہونے کاقول اسی صورت میں آپ سمجھ سکتے ہیں جب مملوک اور ماذون مترادف ہوں۔ پہلے ان دونوں کا مترادف ہونا تو ثابت کر لیتے پھر اس سے استدلال کرتے!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے متعلق سورۃ الزمر:43 میں فرمایا:۔
أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ شُفَعاءَ
کیاانہوں نے من دون اللہ شفیع بنا لئے؟
اس پرتفسیرزمخشری،تفسیرنسفی،تفسیرنیشاپوری،تفسیرابوالسعود میں
لکھاکہ :مِنْ دُونِ اللَّهِ من دون إذنه شُفَعاءَ۔
یعنی کیاانہوں نے من دون اللہ یعنی اللہ کے اذن کے بغیر شفیع بنا لئے؟
مگرآپ کہتے ہیں کہ مشرکین باذن اللہ اختیارات مانتے تھے۔کیا آپ مشرکین کے متعلق من دون اللہ کی آیات کو برحق نہیں مانتے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانعام:51 میں فرمایا:۔
لَیۡسَ لَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِہٖ وَلِیٌّ وَّلَا شَفِیۡعٌ
من دون اللہ (یعنی بغیر اللہ عزوجل کے اذن کے) شفیع ماننا مشرکوں کاکام تھا جس کی تردید ہوئی۔
مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَشْفَعُ عِنْدَہٗۤ اِلَّا بِاِذْنِہ
باذن اللہ شفیع ماننا مومنوں کاکام ہے جس کی تعلیم ملی۔
آپ کونسی وحی سے کہتے ہیں کہ مشرک بھی یہ سب کچھ باذن اللہ مانتے تھے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
آپ نے کہا کہ ’’کفار مکہ اپنے معبودان کو مستقل بالذات نہیں سمجھتے تھے‘‘۔ آپ یہ بتائیں کہ کیا اللہ عزوجل مستقل بالذات ہے؟ اگر اللہ عزوجل مستقل بالذات ہے تو اسکا شریک بھی وہی ہوگا جسے مستقل بالذات مانا جائے۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ الشعراء:98 میں فرمایا:۔
اِذْ نُسَوِّیۡکُمۡ بِرَبِّ الْعٰلَمِیۡنَ
تو اس سے اور کیا معلوم ہوا کہ مشرکین اپنے معبودانِ باطلہ کو اللہ عزوجل کے برابر ٹھہراتے تھے۔
تفسیر قرطبی اسی آیت کے تحت اذ نسویکم فی العبادۃ اور تفسیر مظہری میں فی استحقاق العبادۃ مذکور ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا چیلنج ویسے کا ویسے قائم ہے کیونکہ آپ نے اپنے تئیں کوشش تو کی مگر وجہ استدلال درست نہ ہونے کی بناء پر ایسا استدلال قابل قبول نہیں۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,567
پوائنٹ
791
اپنے غلط موقف کو زبردستی درست ثابت کرنے کیلئے ایسی فن کاریاں جناب کو کرنا ہی پڑیں گی۔۔
پہلے ’’اشتغال‘‘ کی تعیین تو کر لیتے اسی تفسیر کبیر میں سے، نہ سیاق و سباق کو ہی دیکھنے کی زحمت کی!!
محولہ عبارت سے پہلے تفسیر کبیر شریف میں مذکور:
پہلی عبارت
و زعموا انھم متی اشتغلوا بعبادۃ ھذہ التماثیل، فان اولئک الاکابر یکونون شفعاء لھم عند اللہ تعالی
پھر آگے چل کر اسکی نظیر اپنے زمانے میں تحریر فرماتے ہیں:
دوسری عبارت
و نظیرہ فی ھذا الزمان اشتغال ۔ ۔ ۔ ۔ الخ
اسی صفحہ پر پہلے یہ عبارت مبارکہ درج فرمائی تفسیر میں:
تیسری عبارت
فاعلم ان من الناس من قال ان اولئک من الکفار توھموا ان عبادۃ الاصنام اشد فی تعظیم اللہ من عبادۃ اللہ سبحانہ و تعالی ۔ فقالو لیست لنا اھلیۃ ان نشتغل بعبادۃ اللہ تعالی بل نحن نشتغل بعبادۃ ھذہ الاصنام
صاحبِ تفسیر کبیر کی تفسیر مبارکہ تو عین ہمارے موقف کی صحت پر دال ہے!!
آپ کو یقینا سمجھ تو آئی نہیں ہونی کہ کیسے اہل سنت کا موقف صحیح ثابت ہوا، میں خود ہی بتائے دیتا ہوں۔
جب امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے پہلی عبارت کی نظیر اپنی دوسری عبارت میں بیان فرمائی تو عبادت اور تعظیم کو ایک ہی معنی میں لیا ہے، ورنہ نظیر کیسی؟؟ تو آپ یہ بتائیں کہ غیراللہ کے لیے عبادت کے جیسی تعظیم کے ہم کب قائل و فاعل ہیں؟؟؟ سیدھی سی بات ہے کہ آپکی محولہ عبارتِ تفسیر میں حضرت علامہ امام رازی علیہ رحمہ نے ایسے لوگوں کا ذکر فرمایا ہے جو بے دین، اللہ عزوجل کی عبادت سے خود کو بے نیاز سمجھنے والے، خود کو احکام شرعیہ کی پابندی سے آزاد سمجھنے والے ہیں اور صرف قبور کی تعظیم کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھنے والے ہیں۔۔۔۔واقعی یہ صریح کفر ہے!!
حضرت علامہ غلامِ رسول صاحب کی عبارت بھی آپ نے پوری نقل نہیں کی ورنہ آپکا استدلال باطل ٹھہرتا تھا۔ خود وہ محولہ عبارت سے پہلے مشرکین کی ’’بتوں کی عبادت‘‘ کا ذکر فرما رہے ہیں اور پھر اسی کی نظیر کے طور پر محولہ عبارت لکھی ہے۔۔۔۔۔یعنی جیسے مشرکین بتوں کو معبود مان کر ان کی پرستش کرتے تھے ویسے ہی یہ بے دین لوگ خود کو اللہ عزوجل کی عبادت سے بے نیاز سمجھ کر قبروں کو معبود سمجھتے ہوئے انکی پرستش کرتے ہیں!!
آخر من دون اللہ اور باذن اللہ کی سمجھ آپکو ابھی تک نہیں آئی!!
لگتا ہے دکھتی رگ پر پاؤں آگیا ہے ۔۔اسلئے پہلی دفعہ آپ نے صرف سوال کی بجائے ۔۔واویلا ۔۔کیا ہے؛
پیارے !
فن کاری ہم نہیں ۔۔بلکہ آپ نے بقلم خود اس پوسٹ میں کی ہے ۔۔اور وہ بھی بد حواسی میں ؛

اور آپکی بد حواسی، اور فنکاری کا پول کھولنے کیلئے ۔۔علامہ رازی کی مکمل تفسیری عبارت پیش ہے ؛

ثم اختلفوا في أنهم كيف قالوا في الأصنام إنها شفعاؤنا عند الله؟ وذكروا فيه أقوالا كثيرة:
فأحدها: أنهم اعتقدوا أن المتولي لكل إقليم من أقاليم العالم، روح معين من أرواح عالم الأفلاك، فعينوا لذلك الروح صنما معينا واشتغلوا بعبادة ذلك الصنم، ومقصودهم عبادة ذلك الروح، ثم اعتقدوا أن ذلك الروح يكون عبدا للإله الأعظم ومشتغلا بعبوديته.
وثانيها: أنهم كانوا يعبدون الكواكب وزعموا أن الكواكب هي التي لها أهلية عبودية الله تعالى، ثم لما رأوا أن الكواكب تطلع وتغرب وضعوا لها أصناما معينة واشتغلوا بعبادتها، ومقصودهم توجيه العبادة إلى الكواكب.
وثالثها: أنهم وضعوا طلسمات معينة على تلك الأصنام والأوثان، ثم تقربوا إليها كما يفعله أصحاب الطلسمات.
ورابعها: أنهم وضعوا هذه الأصنام والأوثان على صور أنبيائهم وأكابرهم، وزعموا أنهم متى اشتغلوا بعبادة هذه التماثيل، فإن أولئك الأكابر تكون شفعاء لهم عند الله تعالى، ونظيره في هذا الزمان اشتغال كثير من الخلق بتعظيم قبور الأكابر، على اعتقاد أنهم إذا عظموا قبورهم فإنهم يكونون شفعاء لهم عند الله. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واعلم أن كل هذه الوجوه باطلة بالدليل الذي ذكره الله تعالى وهو قوله: ويعبدون من دون الله ما لا يضرهم ولا ينفعهم وتقريره ما ذكرناه من الوجوه الثلاثة.

کہ مشرکین کے اس قول ’’ هؤلاء شفعاؤنا عند الله ‘‘ یہ جن کی ہم پوجا کرتے ہیں (مستقل ’’ الہ ‘‘ نہیں ،بلکہ ) اللہ کی جناب میں ہمارے شفیع اور سفارشی ہیں،، ان کے اس قول یا عقیدہ کے مطلب و مراد میں چند اقوال ہیں ،
ایک قول تو یہ کہ ان کا اعتقاد تھا کہ اقلیم عالم میں ہر اقلیم کیلئے عالم افلاک کی ایک روح کار فرما ہے ۔۔تو اس روح کیلئے انہوں نے ایک معین صنم تراش لیا،اور اس کی عبادت کرنے لگے۔ اور مقصود اس روح کی عبادت تھا ،لیکن اس کو ’’ الہ اعظم ‘‘نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کا اعتقاد یہ تھا کہ یہ روح ۔الہ اعظم۔۔ کا عبد ہے ،اور اس کی عبادت میں مشغول ہے۔
دوسرقول یہ ’’ هؤلاء شفعاؤنا عند الله ‘‘ سے مراد یہ کہ وہ کواکب کی پوجا کرتے،اور ان کو اللہ کی عبودیت کا اہل سمجھتے تھے ۔
تو جب انہوں نے دیکھا کہ کواکب طلوع و غروب ہوتے ہیں تو انہوں (ہمہ وقت ان کو سامنے رکھنے کیلئے انکے بت بنا لئے اور انکی عبادت میں لگ گئے ۔اور مقصود یہاں بھی (بتوں کی نہیں ) کواکب کی پرستش تھی
اور تیسری صورت یہ کہ وہ بتوں پر کچھ’’ طلسمات ‘‘ بنا لیتے تھے،اور انکے تقرب کیلئے جادو گروں جیسے افعال بجا لاتے۔
اور چوتھی صورت یہ تھی کہ انہوں نے انبیاء و اکابرین کے بت بنالئے تھے
اور انکی پرستش کرنے لگے تھے اس اعتقاد کے ساتھ کہ اس طرح یہ اکابر ۔ اللہ کی جناب میں ہمارے شفیع اور سفارشی بنیں گے ۔
’’اور اس زمانہ میں اس کی نظیر یہ ہے کہ اس زمانہ میں بہت سے لوگ بزرگوں کی قبروں کی تعظیم کرتے ہیں اور ان کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ جب وہ ان کی قبروں کی تعظیم کریں گے تو وہ بزرگ اللہ تعالیٰ کے پاس ان کی شفاعت کریں گے ‘‘
(آخر میں علامہ رازی ؒ لکھتے ہیں )
خبر دار ! یہ تمام صورتیں باطل ہیں اس قرآنی دلیل سے جو اللہ عزوجل نے بیان فرمائی‘‘ یعنی :(ويعبدون من دون الله ما لا يضرهم ولا ينفعهم )
انتہی
تو بات صاف ہے کہ علامہ رازی ؒ نے قبروں کی تعظیم کو جاہلی مشرکوں کے شرک کی نظیر کہہ کر اسے باطل قرار دیا ہے ،
اور کشمیری خان شرکیہ تصوف کے نشے میں علامہ رازی ؒ کی اتنی واضح عبارت کو آگے پیچھے کرتے ہوئے اس کا الٹا مطلب نکالنے پر تلے ہوئے ہیں
اور بھولے بھالے قبوریوں کو ’’ قبر پرستی ‘‘ پر ڈٹے رہنے کی بھونڈی حرکت فرما رہے ہیں ۔
 

کشمیر خان

مبتدی
شمولیت
اگست 22، 2015
پیغامات
190
ری ایکشن اسکور
6
پوائنٹ
25
کہ مشرکین کے اس قول ’’ هؤلاء شفعاؤنا عند الله ‘‘ یہ جن کی ہم پوجا کرتے ہیں (مستقل ’’ الہ ‘‘ نہیں ،بلکہ ) اللہ کی جناب میں ہمارے شفیع اور سفارشی ہیں
(مستقل ’’ الہ ‘‘ نہیں ،بلکہ ) یہ علامہ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ کے کس قول کا ترجمہ یا ترجمانی ہے؟؟؟؟
فن کاری ہم نہیں
۔۔بلکہ آپ نے بقلم خود اس پوسٹ میں کی ہے ۔۔اور وہ بھی بد حواسی میں
کاش میری ’’بدحواسی‘‘ کا ثبوت بھی پیش فرما دیا ہوتا!!
و بات صاف ہے کہ علامہ رازی ؒ نے قبروں کی تعظیم کو جاہلی مشرکوں کے شرک کی نظیر کہہ کر اسے باطل قرار دیا ہے ،
آپ نے صرف کاپی پیسٹ والا کام کر کے اپنی پہلی بات دوبارہ دہرائی ہے جس پر میں نے اعتراضا کلام کیا تھا مگر میرے اعتراضات کا جواب نہیں دیا۔
جناب!
میں کہتا ہوں کہ قبروں کی تعظیم مطلقا نظیرِ شرکِ مشرکین ہے یا کوئی خاص صورت؟
امام رازی علیہ الرحمۃ کے مبارک قول کے دونوں حصوں کو دیکھیں ناں جناب۔۔ ’’جاہلی مشرکوں‘‘ نے تو اپنے معبودانِ باطلہ کو اللہ عزوجل کے برابر ٹھہرایا ہوا تھا (سورۃ الشعراء:98) تو اب قبروں کی تعظیم تبھی ’’جاہلی مشرکوں‘‘ کے شرک کی نظیر قرار دی جا سکتی ہے جب وہی علت مذکورہ پائی جائے۔
اگر آپ کو اس سے اختلاف ہے تو میرا رد کریں دلیل سے!
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,567
پوائنٹ
791
آپ نے صرف کاپی پیسٹ والا کام کر کے اپنی پہلی بات دوبارہ دہرائی ہے جس پر میں نے اعتراضا کلام کیا تھا مگر میرے اعتراضات کا جواب نہیں دیا۔
خان صاحب !
ہر آنکھ والے کو نظر آرہا ہے کہ ہم کاپی پیسٹ نہیں کیا ۔۔بلکہ علامہ رازیؒ کی پوری تفسیری عبارت نقل کرکے ترجمہ کے ساتھ آپ کے واویلے
کا ٹھوس جواب دیا ہے؛
ورابعها: أنهم وضعوا هذه الأصنام والأوثان على صور أنبيائهم وأكابرهم، وزعموا أنهم متى اشتغلوا بعبادة هذه التماثيل، فإن أولئك الأكابر تكون شفعاء لهم عند الله تعالى، ونظيره في هذا الزمان اشتغال كثير من الخلق بتعظيم قبور الأكابر، على اعتقاد أنهم إذا عظموا قبورهم فإنهم يكونون شفعاء لهم عند الله. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واعلم أن كل هذه الوجوه باطلة بالدليل الذي ذكره الله تعالى وهو قوله: ويعبدون من دون الله ما لا يضرهم ولا ينفعهم وتقريره ما ذكرناه من الوجوه الثلاثة.

اور چوتھی صورت یہ تھی کہ انہوں نے انبیاء و اکابرین کے بت بنالئے تھے
اور انکی پرستش کرنے لگے تھے اس اعتقاد کے ساتھ کہ اس طرح یہ اکابر ۔ اللہ کی جناب میں ہمارے شفیع اور سفارشی بنیں گے ۔
’’اور اس زمانہ میں اس کی نظیر یہ ہے کہ اس زمانہ میں بہت سے لوگ بزرگوں کی قبروں کی تعظیم کرتے ہیں اور ان کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ جب وہ ان کی قبروں کی تعظیم کریں گے تو وہ بزرگ اللہ تعالیٰ کے پاس ان کی شفاعت کریں گے ‘‘
(آخر میں علامہ رازی ؒ لکھتے ہیں )
خبر دار ! یہ تمام صورتیں باطل ہیں اس قرآنی دلیل سے جو اللہ عزوجل نے بیان فرمائی‘‘ یعنی :(ويعبدون من دون الله ما لا يضرهم ولا ينفعهم )

اب یہ ’’ مبارک ‘‘ اور واضح عبارت آپکے شرکیہ ’’ استمداد ‘‘ کا کھلا رد ہے ۔۔جو علامہ رازی جیسے مفسر کے قلم سے رقم ہوئی؛
 
Top