إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ ﴿٦٩-٤٠﴾
بیشک یہ( قرآن) قول رسول کریم ہے۔
مسلم صاحب!
پہلے یہ واضح کر دیں کہ
کیا قرآن پاک شروع سے آخر تک رسول کریمﷺ کا قول ہے یا اللہ تعالیٰ کا کلام؟؟؟
یا اس میں کچھ رسول کریمﷺ کا قول ہے اور کچھ اللہ تعالیٰ کا کلام؟؟؟
پہلے اسے واضح کر دیں!
اگر آپ کے نزدیک یہ سارے کا سارا اللہ کا کلام ہے تو پھر کیوں بار بار غلط طور پر آیت کریمہ
﴿ إنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ ﴾ کوٹ کرتے ہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟
میں یہاں اس بارے میں اپنا موقف پیش کرتا ہوں، اگر آپ کو اس میں کوئی اعتراض ہے تو بتائیں۔
قرآن کریم شروع سے آخر تک (اس کا ایک ایک حرف) اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ نہ اس میں سیدنا جبریل کا کوئی قول شامل ہے، نہ سیدنا محمد رسول اللہﷺ کا۔
قرآن کریم میں دو مرتبہ یہ آیت کریمہ موجود ہے:
﴿ إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ ﴾ ... سورة الحاقة: 40 ،
سورة التكوير: 19
سورۂ حاقہ میں یہ اس سیاق میں ہے:
﴿ فَلَا أُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُونَ (٣٨) وَمَا لَا تُبْصِرُونَ (٣٩) إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ (٤٠) وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ ۚ قَلِيلًا مَّا تُؤْمِنُونَ (٤١) وَلَا بِقَوْلِ كَاهِنٍ ۚ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ (٤٢) تَنزِيلٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ ﴾ ... الحاقة: 38 تا 43
کہ ’’پس مجھے قسم ہے ان چیزوں کی جنہیں تم دیکھتے ہو (38) اور ان چیزوں کی جنہیں تم نہیں دیکھتے (39)
کہ بیشک یہ (قرآن) بزرگ رسول (یعنی محمدﷺ) کا قول ہے (40) یہ کسی شاعر کا قول نہیں (افسوس) تمہیں بہت کم یقین ہے (41) اور نہ کسی کاہن کا قول ہے، (افسوس) بہت کم نصیحت لے رہے ہو (42) (یہ تو) رب العالمین کا اتارا ہوا ہے۔‘‘
سورۃ التکویر میں یہ درج ذیل سیاق وسباق میں ہے:
﴿ فَلَا أُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ (١٥) الْجَوَارِ الْكُنَّسِ (١٦) وَاللَّيْلِ إِذَا عَسْعَسَ (١٧) وَالصُّبْحِ إِذَا تَنَفَّسَ (١٨) إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ (١٩) ذِي قُوَّةٍ عِندَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ (٢٠) مُّطَاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ (٢١) وَمَا صَاحِبُكُم بِمَجْنُونٍ (٢٢) وَلَقَدْ رَآهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِ (٢٣) وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍ (٢٤) وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَيْطَانٍ رَّجِيمٍ ﴾ ... التكوير: 15 تا 25
کہ ’’میں قسم کھاتا ہوں پیچھے ہٹنے والے (15) چلنے پھرنے والے چھپنے والے ستاروں کی (16) اور رات کی جب جانے لگے (17) اور صبح کی جب چمکنے لگے (18)
یقیناً یہ (قرآن) ایک بزرگ رسول (یعنی جبریل) کا کہا ہوا ہے (19) جو قوت والا ہے، عرش والے (اللہ) کے نزدیک بلند مرتبہ ہے (20) جس کی (آسمانوں میں) اطاعت کی جاتی ہے، امین ہے (21) اور تمہارا ساتھی دیوانہ نہیں ہے (22) اس نے اس (فرشتے) کو آسمان کے کھلے کنارے پر دیکھا بھی ہے (23) اور یہ غیب کی باتوں کو بتلانے میں بخیل بھی نہیں (24) اور یہ قرآن شیطان مردود کا کلام نہیں۔‘‘
واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ چونکہ رب العٰلمین، مالک الملک ہیں، لہٰذا یہ بات ان کے شایانِ شان نہیں کہ وہ اپنے بندوں میں سے ہر ایک کو اپنا حکم خود پہنچائیں۔ اسی مقصد کیلئے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں میں سے کچھ رسول چن رکھے ہیں اور کچھ انسانوں میں سے۔
فرمانِ باری ہے:
﴿ اللَّـهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ ﴾ ... الحج: 75
کہ اللہ (اپنے فرامین کی ترسیل کیلئے) ملائکہ میں سے بھی پیغام رساں منتخب کرتا ہے اور انسانوں میں سے بھی۔‘‘
اس بارے میں مزید تفصیل کیلئے
یہ لنک ملاحظہ کریں!
سورۃ الحاقۃ میں
’رسول کریم‘ سے مراد
نبی کریمﷺ ہیں، کیونکہ اس سے آگے وضاحت موجود ہے کہ یہ کسی شاعر یا کاہن کا قول نہیں۔ اور یہ بات واضح ہے کہ قریش مکہ نے شاعر اور کاہن ہونے کا الزام نبی کریمﷺ پر لگایا، نہ کہ جبریل امین پر۔
اور قولِ رسول ہونے کا مطلب یہ ہے کہ رسول کریمﷺ نے قرآن کریم کو اُمت تک پہنچایا ہے اور اُمت کو بتایا ہے کہ یہ اللہ کی کلام ہے۔ ورنہ تو قرآن سارا
تنزیل من رب العٰلمین (٤٣) ہے۔
جبکہ سورۃ التکویر میں
’رسول کریم‘ سے مراد
جبریل امین ہیں۔ کیونکہ وہاں اس سے آگے ذی قوۃ کی صفت بھی موجود ہے جو سیدنا جبریل کی صفت ہے، جن کے بارے میں سورۃ النجم میں بھی فرمایا گیا:
﴿ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَىٰ (٥) ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوَىٰ (٦) وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلىٰ ﴾ ... سورة النجم: 5 تا 7 کہ’’اسے
پوری طاقت والے فرشتے نے سکھایا ہے (5) جو زور آور ہے پھر وه سیدھا کھڑا ہو گیا (6) اور وه بلند آسمان کے کناروں پر تھا۔‘‘
ویسے بھی سورۃ التکویر میں
﴿ وَمَا صَاحِبُكُم بِمَجْنُونٍ (٢٢) وَلَقَدْ رَآهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِ ﴾ سے نبی کریمﷺ کے بارے میں الگ سے بات شروع ہو رہی ہے۔ کہ وہ مجنون نہیں (جیسا کہ قریش مکہ ان پر الزام لگاتے تھے۔) اور انہوں نے سیدنا جبریل کو اُفق مبین میں دیکھا۔
اب قرآن کریم تو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی کلام ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے جبریل امین کے ذریعے نبی کریمﷺ کے قلبِ اطہر پر نازل فرمایا ہے۔
فرمانِ باری ہے:
﴿ وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ (١٩٢) نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ (١٩٣) عَلَىٰ قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِينَ (١٩٤) بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِينٍ ﴾ ... الشعراء: 192 تا 195
کہ ’’اور بیشک و شبہ یہ (قرآن) رب العالمین کا نازل فرمایا ہوا ہے (192) اسے امانت دار فرشتہ لے کر آیا ہے (193) آپ کے دل پر اترا ہے کہ آپ آگاه کر دینے والوں میں سے ہو جائیں (194) صاف عربی زبان میں ہے۔‘‘
تو قرآن کریم شروع سے آخر تک سراسر اللہ کی کلام ہے، جو لوحِ محفوظ میں موجود ہے۔ اسے جبریل اور نبی کریمﷺ کا قول قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ سیدنا جبریل نے اسے اللہ تعالیٰ سے نبی کریمﷺ تک پہنچایا ہے۔ اور نبی کریمﷺ نے اسے امت تک پہنچایا ہے، انہیں بتایا ہے کہ یہ اللہ کی کلام ہے۔ نہ کہ اس سے مراد یہ ہے کہ قرآن کریم اللہ سبحانہ وتعالیٰ، جبریل امین اور نبی مکرمﷺ تینوں کا کلام ہے۔
یہ ساری تفصیل میں نے تفسیر طبری (جامع البیان)، تفسیر زمخشری (کشاف)، تفسیر قرطبی (الجامع لاحکام القرآن)، تفسیر رازی (مفاتیح الغیب) اور تفسیر ابن کثیر (تفسیر القرآن العظیم) سے بیان کی ہے۔ تفصیل کیلئے
یہ لنک اور
یہ لنک ملاحظہ کریں۔
جب یہ ثابت ہو گیا کہ قرآن کریم سراسر اللہ کا کلام ہے تو اسے ماننا اللہ کی اطاعت ہوئی۔ یہ ہرگز نہیں کہا جا سکتا کہ قرآن کریم میں کچھ آیات کو ماننا اللہ کی اطاعت ہے اور کچھ کو ماننا رسول کریمﷺ کی۔
قرآن کریم میں جگہ جگہ
﴿ أطيعوا الله وأطيعوا الرسول ﴾ اللہ تعالیٰ اور رسول کریمﷺ کی الگ الگ اطاعت کا حکم موجود ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ اللہ کی اطاعت سے مراد کسی مخصوص شے (یعنی قرآن کریم) کی اطاعت ہے اور نبی کریمﷺ کی اطاعت سے مراد اس کے علاوہ کسی اور شے کی اطاعت ہے۔
اب سوال یہی ہے کہ وہ کوئی اور شے کیا ہے؟؟؟
اگر تو وہ قرآن ہے تو وہ تو اللہ کی اطاعت ہوئی۔
واضح ہوا کہ اطاعت رسول کا مصداق کچھ اور ہے؟؟؟ اور اسی کو ماننا در اصل محمدﷺ کو نبی ماننا ہے۔
ورنہ پھر نبی کریمﷺ اور ایک عام انسان میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ قرآن کے علاوہ کسی اور شے کو نہ ماننا در اصل نبی کریمﷺ کی رسالت کا انکار ہے۔
مسلم صاحب!
اگر آپ مکمل قرآن کریم کے ماننے کو اس لئے رسول کی اطاعت کہیں کہ چونکہ رسول کریمﷺ نے اپنی امت کو اسے ماننے کا کہا ہے۔ تو یہ بات صحیح ہے۔ کہ مسلمانوں نے قرآن کریم کو رسول کریمﷺ کے کہنے پر ہی اللہ کی کلام مانا ہے۔ لیکن یہ تو رسول کریمﷺ کی صرف ایک بات کی اطاعت ہے کہ ان کے کہنے پر مسلمانوں نے قرآن کو اللہ کی کلام تسلیم کر لیا۔ باقی ہزاروں باتیں جن کا نبی کریمﷺ نے صحابہ کرام کو حکم دیا، ان کو ماننا رسول کریمﷺ کی اطاعت کیوں نہیں؟؟؟
اسی لئے اللہ تعالیٰ نے بھی آیات اللہ کو ماننے کا الگ حکم دیا ہے اور رسول کریمﷺ کی اطاعت کا الگ حکم دیا ہے، فرمانِ باری ہے:
﴿ وَكَيْفَ تَكْفُرُونَ وَأَنتُمْ تُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ آيَاتُ اللَّـهِ وَفِيكُمْ رَسُولُهُ ﴾ ... آل عمران: 101
کہ ’’تم کیسے کفر کر سکتے ہو؟ کہ تم پر
اللہ تعالیٰ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور تم میں
رسول اللہ (ﷺ) موجود ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی آیات کے علاوہ نبی کریمﷺ کے موجود ہونے کا صاف اور واضح مطلب کیا ہے؟؟؟
یہی کہ ان کی بھی اطاعت کی جائے جو آیات الٰہی کی اطاعت کے علاوہ ہے۔
اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه ولا تجعله ملتبسا علينا فنضل واجعلنا للمتقين إماما