• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

منکرین حدیث کے ہاں اطاعتِ رسول سے مراد؟ (انتظامیہ)

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
بھائی صاحب پوسٹ توجہ اور غور سے پڑھا کریں۔
"قل سے شروع ہونے والی آیات، اللہ کا کلام ہیں جو وہ رسول کے زریعہ کہلوارہا ہے۔ ان آیات میں جو احکامات ہیں، ان احکامات کو ماننا اور ان پر عمل کرنا، رسول کی اطاعت ہے۔

مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّـهَ ۖ وَمَن تَوَلَّىٰ فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا ﴿٤-٨٠﴾

جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے دراصل اللہ کی اطاعت کی اور جو منہ موڑ گیا، تو بہرحال ہم نے تمہیں ان لوگوں پر پاسبان بنا کر تو نہیں بھیجا ہے ۔



اب بخاری یا کسی اور حدیث کی کتاب سے اللہ کی اطاعت تو ممکن ہی نہیں ہے۔ کیونکہ یہ کتابیں ،اللہ نے نازل نہیں کی ہیں اور نہ ہی رسول نے ان کی تصدیق کی ہے۔
ہر باشعور شخص جانتا ہے کہ اطاعت احکامات کی ہی کی جاتی ہے۔ انبیاء کے علاوہ جن کی آپ نے مثالیں آپ نے دی ہیں مثلا" جانور، پرندے، قارون، ہامان، فرعون، شیطان وغیرہ۔ ان کے زریعہ اللہ کوئی احکامات نہیں دے رہا، بلکہ حدیث واقعہ بیان کررہا ہے۔


گفتگو کو مختصر اور بامعنیٰ بنانے کے لئے پوسٹ # ١٨ میں کئے گئے سوالات کا جواب دیں۔
مسلم صاحب! ’’احادیث مبارکہ ہم تک کیسے پہنچیں‘‘ کے موضوع کو بار بار شروع کرنے کی کوشش نہ کریں!

پہلے یہ طے کر لیں کہ حدیث مبارکہ کیا ہوتی ہیں؟ پھر اس پر بھی بحث کر لیں گے کہ وہ ہم تک پہنچیں کیسے؟؟؟

ہمارے نزدیک نبی کریمﷺ کے مبارک فرمان کو حدیث مبارکہ کہا جاتا ہے۔ جس کو ماننا لازمی ہے، قرآن پاک میں دسیوں مقامات پر اطاعتِ رسولﷺ کا حکم دیا گیا ہے، جس سے مراد نبی کریمﷺ کے احکامات، فیصلوں اور باتوں کو ماننا ہے۔

مسلم صاحب ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں کہ قرآنِ پاک میں ’قل‘ کے بعد شروع ہونے والی آیات کو ماننا اطاعتِ رسول ہے۔

سوال یہ ہے کہ اطاعت رسول سے مراد اللہ کی بات کو ماننا ہے یا رسول کی؟؟؟

یہ تو مسلم صاحب کو بھی تسلیم ہے کہ ’قل‘ کے بعد والی کلام اللہ تعالیٰ کی ہی ہے۔ رسول پاکﷺ کی نہیں؟؟؟

اب بار بار ان سے سوال کیا گیا کہ اللہ کی کلام کو ماننے سے اطاعت رسول کیسے ہوئی؟؟ جس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں۔

پھر یہ سوال کیا گیا کہ اگر ’قل‘ کے بعد والی آیات کو ماننا اطاعتِ رسول ہے تو قرآن پاک میں شیطان، کفر کے سرداروں کے قول بھی بیان کیے گئے ہیں کیا مسلم صاحب ان آیات کو مانتے ہیں یا نہیں اگر نہیں مانتے تو یہ کفر ہے، اگر مانتے ہیں تو اپنے اصول کے مطابق شیطان اور ائمہ کفر کی اطاعت کرتے ہیں۔

پھر مسلم صاحب سے بار بار یہ سوال کیا گیا کہ کیا نبی کریمﷺ نے اپنی پوری نبوی زندگی میں قرآن کریم کی ’قل‘ والی آیات کے علاوہ کوئی کلام کی ہی نہیں؟؟؟ اگر کی ہے تو اسے کیا کہیں گے؟؟؟ کیا اسے ماننا ضروری ہے یا نہیں؟؟؟ اس کا جواب بھی مسلم صاحب کے پاس نہیں۔

مسلم صاحب سے دو ٹوک سوال ہے، صرف اس کا جواب دے دیں کہ نبی کریمﷺ نے جب لوگوں کو اپنے رسول ہونے اور قرآن کلام اللہ ہونے کا بتایا، کیا وہ حدیث ہے یا نہیں؟؟؟ کیا مسلم صاحب اس سے انکار کرتے ہیں، اس کو نہیں مانتے؟؟؟
کیا نبی کریم کے فرمان:
1. « أنا رسول الله، وأنا محمد بن عبد الله » ... صحيح البخاري: 2700 کہ ’’میں اللہ کا رسول ہوں اور میں محمد بن عبد اللہ ہوں۔‘‘
2. « أحسن الكلام كلام الله » ... صحيح سنن النسائي: 1310 کہ ’’سب سے اچھی کلام، اللہ کی کلام ہے۔‘‘

کو ماننا ہر مسلمان پر فرض ہے یا نہیں اور کیا یہ اطاعت رسول میں شامل ہے یا نہیں۔؟؟؟ جی مسلم صاحب کیا آپ اسے تسلیم کرتے ہیں یا نہیں؟؟؟

اس کا جواب دیں گے تو احادیث مبارکہ کو ماننا پڑے گا، اب مسلم صاحب نبی کریمﷺ کی مبارک باتوں کو کیوں ماننے لگے، وہ تو صرف اپنے بڑوں کی بات کو ہی وحی سمجھتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ سمجھنے کی توفیق عطا فرمائیں!
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
1. « أنا رسول الله، وأنا محمد بن عبد الله » ... صحيح البخاري: 2700 کہ ’’میں اللہ کا رسول ہوں اور میں محمد بن عبد اللہ ہوں۔‘‘
2. « أحسن الكلام كلام الله » ... صحيح سنن النسائي: 1310 کہ ’’سب سے اچھی کلام، اللہ کی کلام ہے۔‘‘
انس نضر صاحب۔
یہ دونوں باتیں صحیح ہیں۔ مگر یہ اللہ کا کلام نہیں ہے۔ اسکی مثال اس طرح ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ "اللہ ایک ہے اور ہمیں صرف اللہ ہی کی عبادت کرنی چاہیئے" یہ بات بالکل درست ہے
مگر اس جملے کو اللہ کا کلام قرار نہیں دیا جاسکتا۔

"احادیث کی کتب میں جن احادیث کی قراٰن سے تصدیق ہوجائے وہ صحیح ہیں، اور جن کی نہ ہو وہ غلط ہیں۔ قراٰن فرقان ہے۔"


آپ کا اصرار تھا کہ مسلم صاحب سوال قرطاس پر لے کر تو آئیں، لہذٰا پوسٹ # ١٨ میں کئے گئے دو سوالوں کے جوابات عنایت فرمائیں۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
مسلم صاحب! ’’احادیث مبارکہ ہم تک کیسے پہنچیں‘‘ کے موضوع کو بار بار شروع کرنے کی کوشش نہ کریں!
پہلے یہ طے کر لیں کہ حدیث مبارکہ کیا ہوتی ہیں؟ پھر اس پر بھی بحث کر لیں گے کہ وہ ہم تک پہنچیں کیسے؟؟؟
ہمارے نزدیک نبی کریمﷺ کے مبارک فرمان کو حدیث مبارکہ کہا جاتا ہے۔ جس کو ماننا لازمی ہے، قرآن پاک میں دسیوں مقامات پر اطاعتِ رسولﷺ کا حکم دیا گیا ہے، جس سے مراد نبی کریمﷺ کے احکامات، فیصلوں اور باتوں کو ماننا ہے۔
مسلم صاحب ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں کہ قرآنِ پاک میں ’قل‘ کے بعد شروع ہونے والی آیات کو ماننا اطاعتِ رسول ہے۔
سوال یہ ہے کہ اطاعت رسول سے مراد اللہ کی بات کو ماننا ہے یا رسول کی؟؟؟
یہ تو مسلم صاحب کو بھی تسلیم ہے کہ ’قل‘ کے بعد والی کلام اللہ تعالیٰ کی ہی ہے۔ رسول پاکﷺ کی نہیں؟؟؟
اب بار بار ان سے سوال کیا گیا کہ اللہ کی کلام کو ماننے سے اطاعت رسول کیسے ہوئی؟؟ جس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں۔
پھر یہ سوال کیا گیا کہ اگر ’قل‘ کے بعد والی آیات کو ماننا اطاعتِ رسول ہے تو قرآن پاک میں شیطان، کفر کے سرداروں کے قول بھی بیان کیے گئے ہیں کیا مسلم صاحب ان آیات کو مانتے ہیں یا نہیں اگر نہیں مانتے تو یہ کفر ہے، اگر مانتے ہیں تو اپنے اصول کے مطابق شیطان اور ائمہ کفر کی اطاعت کرتے ہیں۔
پھر مسلم صاحب سے بار بار یہ سوال کیا گیا کہ کیا نبی کریمﷺ نے اپنی پوری نبوی زندگی میں قرآن کریم کی ’قل‘ والی آیات کے علاوہ کوئی کلام کی ہی نہیں؟؟؟ اگر کی ہے تو اسے کیا کہیں گے؟؟؟ کیا اسے ماننا ضروری ہے یا نہیں؟؟؟ اس کا جواب بھی مسلم صاحب کے پاس نہیں۔
مسلم صاحب سے دو ٹوک سوال ہے، صرف اس کا جواب دے دیں کہ نبی کریمﷺ نے جب لوگوں کو اپنے رسول ہونے اور قرآن کلام اللہ ہونے کا بتایا، کیا وہ حدیث ہے یا نہیں؟؟؟ کیا مسلم صاحب اس سے انکار کرتے ہیں، اس کو نہیں مانتے؟؟؟
کیا نبی کریم کے فرمان:
1. « أنا رسول الله، وأنا محمد بن عبد الله » ... صحيح البخاري: 2700 کہ ’’میں اللہ کا رسول ہوں اور میں محمد بن عبد اللہ ہوں۔‘‘
2. « أحسن الكلام كلام الله » ... صحيح سنن النسائي: 1310 کہ ’’سب سے اچھی کلام، اللہ کی کلام ہے۔‘‘
کو ماننا ہر مسلمان پر فرض ہے یا نہیں اور کیا یہ اطاعت رسول میں شامل ہے یا نہیں۔؟؟؟ جی مسلم صاحب کیا آپ اسے تسلیم کرتے ہیں یا نہیں؟؟؟
اس کا جواب دیں گے تو احادیث مبارکہ کو ماننا پڑے گا، اب مسلم صاحب نبی کریمﷺ کی مبارک باتوں کو کیوں ماننے لگے، وہ تو صرف اپنے بڑوں کی بات کو ہی وحی سمجھتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سمجھنے کی توفیق عطا فرمائیں!
انس نضر صاحب۔
یہ دونوں باتیں صحیح ہیں۔ مگر یہ اللہ کا کلام نہیں ہے۔ اسکی مثال اس طرح ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ "اللہ ایک ہے اور ہمیں صرف اللہ ہی کی عبادت کرنی چاہیئے" یہ بات بالکل درست ہے
مگر اس جملے کو اللہ کا کلام قرار نہیں دیا جاسکتا۔

"احادیث کی کتب میں جن احادیث کی قراٰن سے تصدیق ہوجائے وہ صحیح ہیں، اور جن کی نہ ہو وہ غلط ہیں۔ قران فرقان ہے۔"

آپ کا اصرار تھا کہ مسلم صاحب سوال قرطاس پر لے کر تو آئیں، لہذٰا پوسٹ # ١٨ میں کئے گئے دو سوالوں کے جوابات عنایت فرمائیں۔
اب مسلم صاحب نے پچھلی تمام باتوں کو چھوڑ کر بالکل ایک نئی بات نہایت دیدہ دلیری سے کر دی کہ نبی کریمﷺ کی جس بات کی تصدیق قرآن سے ہوئے وہ صحیح ہے اور جس کی نہ ہو وہ غلط ہے۔ والعیاذ باللہ! انہیں یہ بات کرتے ہوئے اللہ کا کوئی خوف محسوس نہ ہوا

تو مسلم صاحب یہ بتاؤ کہ اگر تمہاری کسی بات کی تصدیق قرآن سے ہو جائے تو وہ صحیح نہیں؟؟؟

اگر وہ بھی صحیح ہے اور نبی کریمﷺ کی صرف وہی بات صحیح ہے جس کی قرآن سے تصدیق ہو۔ تو پھر تم میں اور محمد رسول اللہﷺ میں فرق کیا ہوا؟؟؟

یہ تو قرآن کو ہی ماننا ہوا نا، نبی کریمﷺ کو نہیں۔ یہ تو صرف اللہ ہی کی اطاعت ہے، اطاعت رسول نہیں۔

قرآن کریم میں جگہ جگہ اطاعتِ رسول کا حکم کیا فضول میں ہی ہے؟؟؟

کیا اس کا کوئی ایک مصداق بھی مسلم صاحب کے نزدیک موجود ہے؟

یعنی کیا مسلم صاحب کوئی ایک ایسی بات پیش کر سکتے ہیں کہ وہ کہیں کہ یہ بات میں اس لئے تسلیم کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں رسول کریمﷺ کی اطاعت کا حکم دیا ہے؟؟؟

انس نضر صاحب۔
یہ دونوں باتیں صحیح ہیں۔ مگر یہ اللہ کا کلام نہیں ہے۔ اسکی مثال اس طرح ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ "اللہ ایک ہے اور ہمیں صرف اللہ ہی کی عبادت کرنی چاہیئے" یہ بات بالکل درست ہے[/COLOR] مگر اس جملے کو اللہ کا کلام قرار نہیں دیا جاسکتا۔

"احادیث کی کتب میں جن احادیث کی قراٰن سے تصدیق ہوجائے وہ صحیح ہیں، اور جن کی نہ ہو وہ غلط ہیں۔ قران فرقان ہے۔"
درج بالا اقتباس سے صراحت سے معلوم ہوجاتا ہے کہ منکرین حدیث کے نزدیک نبی کریمﷺ اور ایک عام شخص کی بات میں کوئی فرق نہیں۔ دونوں کی بات اگر قرآن کے موافق ہو تو صحیح ہے۔ ورنہ غلط! (خواہ وہ قرآن کے مخالف نہ بھی ہو۔)

کیا اسی کو ایمان بالرسول کہا جاتا ہے؟؟؟
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
انس نضر صاحب۔
السلام علیکم۔
اگر وہ بھی صحیح ہے اور نبی کریمﷺ کی صرف وہی بات صحیح ہے جس کی قرآن سے تصدیق ہو۔ تو پھر تم میں اور محمد رسول اللہﷺ میں فرق کیا ہوا؟؟؟
درج بالا اقتباس سے صراحت سے معلوم ہوجاتا ہے کہ منکرین حدیث کے نزدیک نبی کریمﷺ اور ایک عام شخص کی بات میں کوئی فرق نہیں۔ دونوں کی بات اگر قرآن کے موافق ہو تو صحیح ہے۔ ورنہ غلط! (خواہ وہ قرآن کے مخالف نہ بھی ہو۔)

کیا اسی کو ایمان بالرسول کہا جاتا ہے؟؟؟
میری تحریر سے مندرجہ بالا نتیجہ اخذ کرنا درست نہیں ہے۔ جن باتوں کو آپ نبی سے منسوب کرتے ہیں ان باتوں کی میرے پاس کوئی سند نہیں ہے۔ میں انسانوں کی روایتوں کو نبی کا قول کیوں مانوں؟

قراٰن مجید کے علاوہ کوئی سچا ذریعہ نہیں ہے جو حق اور باطل میں تمیز کرسکے۔
ایک عام آدمی کی بات اور رسول کا قول کبھی برابر نہیں ہوسکتے۔ رسول کا قول، اللہ کی وحی اور اس کا نازل کردہ ہوتا ہے۔
یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ "راویوں کی روایات کو آپ رسول کا قول کیوں سمجھتے ہیں، جبکہ ان باتوں کی نہ اللہ نے کوئی سند نازل کی ہے نہ رسول نے ان باتوں کی تصدیق کی ہے۔

اگر کسی بات کی تصدیق ہو جائے کہ وہ واقعئی نبی کا ارشاد ہے تو اس میں کسی حیل و حجت اور کسی قسم کے انکار کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

آپ لوگ دراصل راویوں اور محدثین کی اطاعت کو رسول کی اطاعت قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ ان احادیث پر آپ شاہد نہیں ہیں بلکہ راویوں کی شہادتوں اور محدثین کے کام کو حجت سمجھتے ہیں۔ یاد رکھیں، اللہ نے راویوں اور محدثین کی اطاعت یا ان کے کام پر اندھا بہرا ہو کر گرنے کا کوئی حکم نہیں دیا ہے۔


" صرف قراٰن ہی فرقان ہے، جو حق اور باطل میں فرق کرنے والا ہے۔"
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
انس نضر صاحب۔
ایک عام آدمی کی بات اور رسول کا قول کبھی برابر نہیں ہوسکتے۔ رسول کا قول اللہ کی وحی اور اس کا نازل کردہ ہوتا ہے۔
الحمد للہ!

مسلم صاحب! نبی کریمﷺ کے وہ اقوال جو آپ کے نزدیک بھی اللہ کی وحی ہیں، وہ قرآن میں ہی ہیں یا اس کے علاوہ ہیں؟؟؟

اگر وہ قرآن میں ہی ہیں تو وہ اللہ کا کلام ہیں نہ کہ کلامِ رسول؟ جیسا کہ آپ کو بھی اعتراف ہے۔

یہ میں نے کہاں لکھا ہے کہ " قل" کے بعد اللہ کا نہیں بلکہ نبی کا کلام ہوتا ہے؟ پہلے آپ اس کی وضاحت فرمائیں کہ یہ خود ساختہ بھیانک الزام آپ کیوں لگا رہے ہیں؟ اسکے بعد ہی کوئی سنجیدہ گفتگو ہو سکے گی۔ کیونکہ میں نے "قل " کے بعد والی کوئی بات یا احکام کو اطاعت رسول اور اللہ کی اطاعت کہا ہے، رسول کا کلام نہیں۔
اگر وہ قرآن کریم کے علاوہ تھے اور اللہ کی وحی تھے تو کیا صحابہ کرام﷢ کو اطاعت رسول کے جذبے سے انہیں ماننا ضروری تھا یا نہیں؟؟؟!!!!

آپ بار بار موجودہ دور میں موجود احادیث مبارکہ پر اعتراضات کر دیتے ہیں۔

میں موجود دور کی احادیث پر بات کرنے سے پہلے یہ طے کرنا چاہتا ہوں کہ

کیا آپ کو تسلیم ہے کہ صحابہ کرام﷢ کے دور میں قرآن کریم کے علاوہ بھی رسول اللہﷺ کے فرمانات موجود تھے جو آپ کے کہنے کے مطابق اللہ کی وحی تھے اور جن کو ماننا صحابہ کرام﷢ کیلئے لازمی تھا؟؟؟
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
انس نضر صاحب۔
السلام علیکم۔


مسلم صاحب! نبی کریمﷺ کے وہ اقوال جو آپ کے نزدیک بھی اللہ کی وحی ہیں، وہ قرآن میں ہی ہیں یا اس کے علاوہ ہیں؟؟؟


إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ ﴿٦٩-٤٠﴾
بیشک یہ( قرآن) قول رسول کریم ہے۔



اگر وہ قرآن کریم کے علاوہ تھے اور اللہ کی وحی تھے تو کیا صحابہ کرام﷢ کو اطاعت رسول کے جذبے سے انہیں ماننا ضروری تھا یا نہیں؟؟؟!!!!



اللہ کی کتاب میں سے ہی رسول پر وحی ہوئی ہے۔ اسکے علاوہ مجھے کچھ علم نہیں۔

اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ ۖ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ ۗ وَلَذِكْرُ اللَّـهِ أَكْبَرُ ۗ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ ﴿٢٩-٤٥﴾

جو تجھ پر کتاب میں سے وحی کی گئی ہے اسے پڑھ کر سنادے۔ اور صلاۃ قائم کر۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صلاۃ بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے، اور اللہ کا ذکر تو یقینا" سب سے بڑھ کر ہے۔ اور جو کچھ بھی تم کرتے ہو اللہ اسے (خوب) جانتا ہے۔




کیا آپ کو تسلیم ہے کہ صحابہ کرام﷢ کے دور میں قرآن کریم کے علاوہ بھی رسول اللہﷺ کے فرمانات موجود تھے


حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خاص زمانہ میں محدود نہ کریں ۔ وہ ہر انسان کے لئے رسول ہیں۔ اور اللہ کی کتاب سے پیغام پہنچا رہے ہیں۔

قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً ۖ قُلِ اللَّـهُ ۖ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۚ وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَـٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ ۚ أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اللَّـهِ آلِهَةً أُخْرَىٰ ۚ قُل لَّا أَشْهَدُ ۚ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ ﴿٦-١٩﴾

ان سے پوچھو، کس کی گواہی سب سے بڑھ کر ہے؟کہو، میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے، اور یہ قرآن میری طرف بذریعہ وحی بھیجا گیا ہے تاکہ تمہیں اور جس جس کو یہ پہنچے، سب کو متنبہ کر دوں کیا واقعی تم لوگ یہ شہادت دے سکتے ہو کہ اللہ کے ساتھ دوسرے خدا بھی ہیں؟ کہو، میں تو اس کی شہادت ہرگز نہیں دے سکتا کہو، خدا تو وہی ایک ہے اور میں اس شرک سے قطعی بیزار ہوں جس میں تم مبتلا ہو


مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَـٰكِن رَّسُولَ اللَّـهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ﴿٣٣-٤٠﴾

(لوگو) محمدؐ تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں، اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے


جہاں تک صحابہ کرام کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں درج زیل آیت کافی ہے۔


تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿٢-١٤١﴾

وہ کچھ لوگ تھے، جو گزر چکے اُن کی کمائی اُن کے لیے تھی اور تمہاری کمائی تمہارے لیے تم سے اُن کے اعمال کے متعلق سوال نہیں ہوگا"



"اگر آپ میری پوسٹ # ١٨ میں کئے گئے دو سوالوں کے بارے میں رہنمائی فرمائیں تو بڑی نوازش ہوگی۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ ﴿٦٩-٤٠﴾
بیشک یہ( قرآن) قول رسول کریم ہے۔
مسلم صاحب!

پہلے یہ واضح کر دیں کہ

کیا قرآن پاک شروع سے آخر تک رسول کریمﷺ کا قول ہے یا اللہ تعالیٰ کا کلام؟؟؟

یا اس میں کچھ رسول کریمﷺ کا قول ہے اور کچھ اللہ تعالیٰ کا کلام؟؟؟

پہلے اسے واضح کر دیں!

اگر آپ کے نزدیک یہ سارے کا سارا اللہ کا کلام ہے تو پھر کیوں بار بار غلط طور پر آیت کریمہ ﴿ إنَّهُ لَقَوْلُ رَ‌سُولٍ كَرِ‌يمٍ ﴾ کوٹ کرتے ہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟

میں یہاں اس بارے میں اپنا موقف پیش کرتا ہوں، اگر آپ کو اس میں کوئی اعتراض ہے تو بتائیں۔

قرآن کریم شروع سے آخر تک (اس کا ایک ایک حرف) اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ نہ اس میں سیدنا جبریل﷤ کا کوئی قول شامل ہے، نہ سیدنا محمد رسول اللہﷺ کا۔

قرآن کریم میں دو مرتبہ یہ آیت کریمہ موجود ہے: ﴿ إِنَّهُ لَقَوْلُ رَ‌سُولٍ كَرِ‌يمٍ ﴾ ... سورة الحاقة: 40 ، سورة التكوير: 19

سورۂ حاقہ میں یہ اس سیاق میں ہے:
﴿ فَلَا أُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُ‌ونَ (٣٨) وَمَا لَا تُبْصِرُ‌ونَ (٣٩) إِنَّهُ لَقَوْلُ رَ‌سُولٍ كَرِ‌يمٍ (٤٠) وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ‌ ۚ قَلِيلًا مَّا تُؤْمِنُونَ (٤١) وَلَا بِقَوْلِ كَاهِنٍ ۚ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُ‌ونَ (٤٢) تَنزِيلٌ مِّن رَّ‌بِّ الْعَالَمِينَ ﴾ ... الحاقة: 38 تا 43
کہ ’’پس مجھے قسم ہے ان چیزوں کی جنہیں تم دیکھتے ہو (38) اور ان چیزوں کی جنہیں تم نہیں دیکھتے (39) کہ بیشک یہ (قرآن) بزرگ رسول (یعنی محمدﷺ) کا قول ہے (40) یہ کسی شاعر کا قول نہیں (افسوس) تمہیں بہت کم یقین ہے (41) اور نہ کسی کاہن کا قول ہے، (افسوس) بہت کم نصیحت لے رہے ہو (42) (یہ تو) رب العالمین کا اتارا ہوا ہے۔‘‘

سورۃ التکویر میں یہ درج ذیل سیاق وسباق میں ہے:
﴿ فَلَا أُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ (١٥) الْجَوَارِ‌ الْكُنَّسِ (١٦) وَاللَّيْلِ إِذَا عَسْعَسَ (١٧) وَالصُّبْحِ إِذَا تَنَفَّسَ (١٨) إِنَّهُ لَقَوْلُ رَ‌سُولٍ كَرِ‌يمٍ (١٩) ذِي قُوَّةٍ عِندَ ذِي الْعَرْ‌شِ مَكِينٍ (٢٠) مُّطَاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ (٢١) وَمَا صَاحِبُكُم بِمَجْنُونٍ (٢٢) وَلَقَدْ رَ‌آهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِ (٢٣) وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍ (٢٤) وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَيْطَانٍ رَّ‌جِيمٍ ﴾ ... التكوير: 15 تا 25
کہ ’’میں قسم کھاتا ہوں پیچھے ہٹنے والے (15) چلنے پھرنے والے چھپنے والے ستاروں کی (16) اور رات کی جب جانے لگے (17) اور صبح کی جب چمکنے لگے (18) یقیناً یہ (قرآن) ایک بزرگ رسول (یعنی جبریل﷤) کا کہا ہوا ہے (19) جو قوت والا ہے، عرش والے (اللہ) کے نزدیک بلند مرتبہ ہے (20) جس کی (آسمانوں میں) اطاعت کی جاتی ہے، امین ہے (21) اور تمہارا ساتھی دیوانہ نہیں ہے (22) اس نے اس (فرشتے) کو آسمان کے کھلے کنارے پر دیکھا بھی ہے (23) اور یہ غیب کی باتوں کو بتلانے میں بخیل بھی نہیں (24) اور یہ قرآن شیطان مردود کا کلام نہیں۔‘‘

واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ چونکہ رب العٰلمین، مالک الملک ہیں، لہٰذا یہ بات ان کے شایانِ شان نہیں کہ وہ اپنے بندوں میں سے ہر ایک کو اپنا حکم خود پہنچائیں۔ اسی مقصد کیلئے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں میں سے کچھ رسول چن رکھے ہیں اور کچھ انسانوں میں سے۔

فرمانِ باری ہے: ﴿ اللَّـهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُ‌سُلًا وَمِنَ النَّاسِ ﴾ ... الحج: 75
کہ اللہ (اپنے فرامین کی ترسیل کیلئے) ملائکہ میں سے بھی پیغام رساں منتخب کرتا ہے اور انسانوں میں سے بھی۔‘‘

اس بارے میں مزید تفصیل کیلئے یہ لنک ملاحظہ کریں!

سورۃ الحاقۃ میں ’رسول کریم‘ سے مراد نبی کریمﷺ ہیں، کیونکہ اس سے آگے وضاحت موجود ہے کہ یہ کسی شاعر یا کاہن کا قول نہیں۔ اور یہ بات واضح ہے کہ قریش مکہ نے شاعر اور کاہن ہونے کا الزام نبی کریمﷺ پر لگایا، نہ کہ جبریل امین﷤ پر۔
اور قولِ رسول ہونے کا مطلب یہ ہے کہ رسول کریمﷺ نے قرآن کریم کو اُمت تک پہنچایا ہے اور اُمت کو بتایا ہے کہ یہ اللہ کی کلام ہے۔ ورنہ تو قرآن سارا تنزیل من رب العٰلمین (٤٣) ہے۔

جبکہ سورۃ التکویر میں ’رسول کریم‘ سے مراد جبریل امین﷤ ہیں۔ کیونکہ وہاں اس سے آگے ذی قوۃ کی صفت بھی موجود ہے جو سیدنا جبریل﷤ کی صفت ہے، جن کے بارے میں سورۃ النجم میں بھی فرمایا گیا: ﴿ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَىٰ (٥) ذُو مِرَّ‌ةٍ فَاسْتَوَىٰ (٦) وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلىٰ ﴾ ... سورة النجم: 5 تا 7 کہ’’اسے پوری طاقت والے فرشتے نے سکھایا ہے (5) جو زور آور ہے پھر وه سیدھا کھڑا ہو گیا (6) اور وه بلند آسمان کے کناروں پر تھا۔‘‘
ویسے بھی سورۃ التکویر میں ﴿ وَمَا صَاحِبُكُم بِمَجْنُونٍ (٢٢) وَلَقَدْ رَ‌آهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِ ﴾ سے نبی کریمﷺ کے بارے میں الگ سے بات شروع ہو رہی ہے۔ کہ وہ مجنون نہیں (جیسا کہ قریش مکہ ان پر الزام لگاتے تھے۔) اور انہوں نے سیدنا جبریل﷤ کو اُفق مبین میں دیکھا۔

اب قرآن کریم تو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی کلام ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے جبریل امین کے ذریعے نبی کریمﷺ کے قلبِ اطہر پر نازل فرمایا ہے۔
فرمانِ باری ہے:
﴿ وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَ‌بِّ الْعَالَمِينَ (١٩٢) نَزَلَ بِهِ الرُّ‌وحُ الْأَمِينُ (١٩٣) عَلَىٰ قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِ‌ينَ (١٩٤) بِلِسَانٍ عَرَ‌بِيٍّ مُّبِينٍ ﴾ ... الشعراء: 192 تا 195
کہ ’’اور بیشک و شبہ یہ (قرآن) رب العالمین کا نازل فرمایا ہوا ہے (192) اسے امانت دار فرشتہ لے کر آیا ہے (193) آپ کے دل پر اترا ہے کہ آپ آگاه کر دینے والوں میں سے ہو جائیں (194) صاف عربی زبان میں ہے۔‘‘

تو قرآن کریم شروع سے آخر تک سراسر اللہ کی کلام ہے، جو لوحِ محفوظ میں موجود ہے۔ اسے جبریل﷤ اور نبی کریمﷺ کا قول قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ سیدنا جبریل﷤ نے اسے اللہ تعالیٰ سے نبی کریمﷺ تک پہنچایا ہے۔ اور نبی کریمﷺ نے اسے امت تک پہنچایا ہے، انہیں بتایا ہے کہ یہ اللہ کی کلام ہے۔ نہ کہ اس سے مراد یہ ہے کہ قرآن کریم اللہ سبحانہ وتعالیٰ، جبریل امین﷤ اور نبی مکرمﷺ تینوں کا کلام ہے۔

یہ ساری تفصیل میں نے تفسیر طبری (جامع البیان)، تفسیر زمخشری (کشاف)، تفسیر قرطبی (الجامع لاحکام القرآن)، تفسیر رازی (مفاتیح الغیب) اور تفسیر ابن کثیر (تفسیر القرآن العظیم) سے بیان کی ہے۔ تفصیل کیلئے یہ لنک اور یہ لنک ملاحظہ کریں۔

جب یہ ثابت ہو گیا کہ قرآن کریم سراسر اللہ کا کلام ہے تو اسے ماننا اللہ کی اطاعت ہوئی۔ یہ ہرگز نہیں کہا جا سکتا کہ قرآن کریم میں کچھ آیات کو ماننا اللہ کی اطاعت ہے اور کچھ کو ماننا رسول کریمﷺ کی۔

قرآن کریم میں جگہ جگہ ﴿ أطيعوا الله وأطيعوا الرسول ﴾ اللہ تعالیٰ اور رسول کریمﷺ کی الگ الگ اطاعت کا حکم موجود ہے۔

یہ بات واضح ہے کہ اللہ کی اطاعت سے مراد کسی مخصوص شے (یعنی قرآن کریم) کی اطاعت ہے اور نبی کریمﷺ کی اطاعت سے مراد اس کے علاوہ کسی اور شے کی اطاعت ہے۔

اب سوال یہی ہے کہ وہ کوئی اور شے کیا ہے؟؟؟

اگر تو وہ قرآن ہے تو وہ تو اللہ کی اطاعت ہوئی۔

واضح ہوا کہ اطاعت رسول کا مصداق کچھ اور ہے؟؟؟ اور اسی کو ماننا در اصل محمدﷺ کو نبی ماننا ہے۔

ورنہ پھر نبی کریمﷺ اور ایک عام انسان میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ قرآن کے علاوہ کسی اور شے کو نہ ماننا در اصل نبی کریمﷺ کی رسالت کا انکار ہے۔


مسلم صاحب!

اگر آپ مکمل قرآن کریم کے ماننے کو اس لئے رسول کی اطاعت کہیں کہ چونکہ رسول کریمﷺ نے اپنی امت کو اسے ماننے کا کہا ہے۔ تو یہ بات صحیح ہے۔ کہ مسلمانوں نے قرآن کریم کو رسول کریمﷺ کے کہنے پر ہی اللہ کی کلام مانا ہے۔ لیکن یہ تو رسول کریمﷺ کی صرف ایک بات کی اطاعت ہے کہ ان کے کہنے پر مسلمانوں نے قرآن کو اللہ کی کلام تسلیم کر لیا۔ باقی ہزاروں باتیں جن کا نبی کریمﷺ نے صحابہ کرام﷢ کو حکم دیا، ان کو ماننا رسول کریمﷺ کی اطاعت کیوں نہیں؟؟؟

اسی لئے اللہ تعالیٰ نے بھی آیات اللہ کو ماننے کا الگ حکم دیا ہے اور رسول کریمﷺ کی اطاعت کا الگ حکم دیا ہے، فرمانِ باری ہے:
﴿ وَكَيْفَ تَكْفُرُ‌ونَ وَأَنتُمْ تُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ آيَاتُ اللَّـهِ وَفِيكُمْ رَ‌سُولُهُ ﴾ ... آل عمران: 101
کہ ’’تم کیسے کفر کر سکتے ہو؟ کہ تم پر اللہ تعالیٰ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور تم میں رسول اللہ (ﷺ) موجود ہیں۔‘‘

اللہ تعالیٰ کی آیات کے علاوہ نبی کریمﷺ کے موجود ہونے کا صاف اور واضح مطلب کیا ہے؟؟؟ یہی کہ ان کی بھی اطاعت کی جائے جو آیات الٰہی کی اطاعت کے علاوہ ہے۔

اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه ولا تجعله ملتبسا علينا فنضل واجعلنا للمتقين إماما
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
السلام علیکم۔

مصروفیت کی وجہ سے گفتگو کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے میں کئی دن لگیں گے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
اللہ تعالیٰ ہم سب کی راہِ حق کی طرف راہنمائی فرمائیں۔ آمین!
 
Top