• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

منہج سلف کی اہمیت ۔ اہلسنت کا منہج تعامل

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
منہج سلف کی اہمیت
اتباع رسول ﷺ کا معیار اصحاب رسول  اور سلفِ امت ہیں:

اللہ تعالیٰ صحابہ کرام کی یوں تعریف فرماتا ہے :

﴿ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ۝۰ۭ وَالَّذِيْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ تَرٰىہُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَ رِضْوَانًا۝۰ۡ سِيْمَاہُمْ فِيْ وُجُوْہِہِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ۝۰ۭ ذٰلِكَ مَثَلُہُمْ فِي التَّوْرٰىۃِ۝۰ۚۖۛ ﴾(الفتح :۲۹)

''محمد اللہ کے رسول ہیںاور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیںوہ کافروں پر سخت(مگر)آپس میں رحم دل ہیں تم انہیں رکوع اور سجود کرتے ہوئے اور اللہ کا فضل و رضا تلاش کرتے ہوئے دیکھو گے (کثرت)سجدہ سے ان کی پیشانیوں پر امتیازی نشان موجود ہیںان کی یہی صفت تورات میں بیان ہوئی ہے ۔''

صحابہ وہ مومن تھے کہ جنہیں اللہ رب العزت نے اپنے نبی کی صحبت کے لیے چنا تھا اور انہیں لوگوں پر اپنا گواہ بنایا تھا۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

﴿ قُلِ الْحَمْدُ لِلہِ وَسَلٰمٌ عَلٰي عِبَادِہِ الَّذِيْنَ اصْطَفٰى۝۰ۭ ﴾(النمل: ۵۹)
''آپ کہہ دیجیے سب تعریف اللہ کے لیے ہے اور اُسکے بندوں پر سلامتی ہو جنہیں اُس نے منتخب کیا ''۔

ابن عباس ؆فرماتے ہیں :''یہاں مراد اصحاب محمد ہیں ۔''(تفسیر ابن کثیر 381/3)

اوراللہ نے فرمایا :

﴿ وَجَاہِدُوْا فِي اللہِ حَقَّ جِہَادِہٖ۝۰ۭ ہُوَاجْتَبٰىكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ۝۰ۭ مِلَّـۃَ اَبِيْكُمْ اِبْرٰہِيْمَ۝۰ۭ ہُوَسَمّٰىكُمُ الْمُسْلِـمِيْنَ۝۰ۥۙ مِنْ قَبْلُ وَفِيْ ھٰذَا لِيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ شَہِيْدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ۝۰ۚۖ ﴾ (الحج :۷۸)
''اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے ،اُس نے تمہیں (اپنے دین کے لیے ) چن لیا ہے اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی ،یہ تمہارے باپ ابراہیم کا دین ہے اللہ نے اس سے پہلے بھی تمہارا نام مسلم رکھا تھا اور اس (قرآن )میں بھی (مسلم ہی رکھا ہے) تاکہ رسول تم پر گواہ ہواور تم لوگوں پر گواہ بنو۔''
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
صحابہ امت کے وہ مبارک لوگ ہیں جن کے علم و دیانت کی گواہی اللہ نے اپنی کتاب میں دی ہے ۔

﴿ وَ يَرَى الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ ہُوَ الْحَقَّ۝۰ۙ﴾ (سبا:۶)
''اور جن لوگوں کو علم دیا گیا ہے خوب سمجھتے ہیں کہ جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپکی طرف نازل ہوا وہ حق ہے ''۔

جو لوگ محمد ﷺکے ساتھ ایمان لائے وہ سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اطاعت کرنے والے اور دین کی اتباع میں سبقت لے جانے والے لوگ تھے ۔ انہوں نے اللہ کی خوشنودی کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ۔انہوں نے قرآن مجید کو رسول اللہ ﷺ سے سیکھا نزول قرآن ، نزول کے اسباب اور قرآن کی تفسیر سے براہ راست مستفید ہوئے انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے جہاں قرآن حکیم کے الفاظ سیکھے وہاں قرآن کے معانی بھی سیکھے ۔صحابہ کرام؇ نے قران کے حفظ کے ساتھ اس کا فہم بھی حاصل کیا۔ رسول اللہ ﷺ سے قرآن کی تفسیر سنی آپ کے حالات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا آپ کی دعوت کو اپنے دلوں میں محفوظ کیا ۔

اس لحاظ سے صحابہ کرام؇ کو جو فضیلت حاصل ہوئی وہ کسی اور کو حاصل نہیں ہو سکتی کیونکہ صحابہ کرام نے رسول اللہ ﷺ سے بلا واسطہ علم حاصل کیااور آپس میں ایک دوسرے سے سیکھا چنانچہ سب صحابہ ''عدالت''کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے ' یہی وجہ ہے صحابہ کرام؇ کو اسناد ،راویوں کے حالات ،سند کی جرح و تعدیل کی ضرورت ہی نہ تھی ۔پس صحابہ کرام؇ سے بڑھ کر کتاب اللہ کو سمجھنے والا، سنت کا علم رکھنے والا اورکوئی نہیں ہو سکتا ۔

امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں :

''یہ بات جاننا ضروری ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب کو جس طرح قرآن کے الفاظ بیان فرمائے ویسے ہی اس کے معانی بھی واضح فرمائے،چنانچہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان :

﴿وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ۝۴۴ ﴾(النحل :۴۴)
''تاکہ تم لوگوں کے سامنے وہ تعلیم جو تم پر اتاری گئی کھول کھول کر بیان کردو ''
میں جہاں الفاظ کے پہنچانے کا حکم ہے وہیں اس کے معانی کھول کھول کر بیان کرنے کابھی حکم ہے ۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
''ابو عبدالرحمن السُّلَمی (جو معروف تابعی ہیں )کہتے ہیں :وہ لوگ جو ہمیں قرآن پڑھایا کرتے تھے ،مثلاً :عثمان بن عفان اور عبداللہ بن مسعود؆ وغیرہ ،وہ ہمیں بتایا کرتے تھے کہ جب وہ نبی ﷺ سے دس آیات سبق میں لے لیتے تو اس وقت تک اگلے سبق پر نہ جاتے جب تک وہ ان دس آیات میں علم و عمل کی ہر بات سیکھ نہ لیتے کہا کرتے تھے :سو یوں ہم نے قرآن سیکھا تو اسکا علم اور عمل ایک ساتھ سیکھا ۔''

یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ ایک سورت کے حفظ میں مدت گزار دیا کرتے تھے ۔'' (مقدمۃ فی اصول التفسیر :۳۵)

بنیادی طور پر یہ ایک مدرسہ ہے جس میں صحابہ پڑھے اور آگے پڑھاتے رہے اور پھر صحابہ سے پڑھنے والے اپنے بعد والوں کو پڑھاتے رہے ۔دین کی حقیقت ،دین کی فطرت، دین کا مزاج ،دین کے اصول و فروع کی حدود ،اتفاق اور اختلاف کے حدود اور آداب ،اتباع اور اجتہاد کے میدانوں کا تعین ،اتحاد و اجتماع کا طریقہ ،بدعات و محدثات سے نمٹنے کا طریقہ ...غرض نصوص وحی کے ساتھ تعامل اختیار کرنے کی سب تفصیلات ہمیں اسی مدرسہ سے لینی ہیں جس میں صحابہ نے پڑھااور پڑھایا پھر صحابہ سے پڑھے ہوئے پڑھاتے رہے ۔

اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام؇ کے ایمان کو تمام مسلمانوں کے لیے نمونہ قرار دیتے ہوئے اُن کی طرح ایمان لانے کا حکم دیا:۔

﴿ فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اھْتَدَوْا۝۰ۚ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا ھُمْ فِيْ شِقَاقٍ۝۰ۚ فَسَيَكْفِيْكَہُمُ اللہُ﴾ (البقرۃ:۱۳۷)
''پس اگر وہ ایسا ایمان لائیں جیسے تم لائے ہو تو وہ ہدایت پالیں گے اور اگر وہ اس سے پھریں تو وہ ہٹ دھرمی پر ہیں لہذا اللہ ان کے مقابلے میں آپ کو کافی ہے ''۔

پس جو کوئی ہدایت کا طلبگار ہے اور آخرت میں نجات چاہتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ویسے ایمان لائے جیسے صحابہ لائے تھے' کیونکہ حق وہی ہے جس پر وہ گامزن تھے۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اُن کی اتباع کا حکم دیا ہے :

﴿ وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِـاِحْسَانٍ۝۰ۙ رَّضِيَ اللہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْہَآ اَبَدًا۝۰ۭ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ۝۱۰۰ ﴾(التوبۃ: ۱۰۰)
''اور جومہاجر و انصار ایمان لانے میں سبقت کرنے والے ہیں اور وہ لوگ جنہوں نے اخلاص کے ساتھ ان کی پیروی کی اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے۔ اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ تیار کر رکھے ہیں جن میں نہریں جاری ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔یہی بہت بڑی کامیابی ہے '' ۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
امام ابن تیمیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں

''چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے پیچھے چلنے والوں کو بھی اپنی خوشنودی اور جنت کی نعمتوں میں شریک کردیا ...اس لئے جو لوگ سابقینِ اولین کی اتباع کریں گے وہ انہی میں شمار ہوں گے جبکہ یہ لوگ انبیاء کرام کے بعد افضل ترین ہیں ،کیونکہ امت محمد ﷺ افضل ترین امت ہے جو لوگوں کے لیے نکالی گئی ہے اور یہ لوگ امت محمد ﷺ میں افضل ترین ہیں ۔

اس لئے علم اور دین میں ان کے اقوال و اعمال کی معرفت رکھنا ،دین کے جملہ علوم اور اعمال میں متاخرین کے اقوال و اعمال کی معرفت سے صد مرتبہ افضل اور مفید تر ہے ۔کیونکہ یہ لوگ اپنے بعد والوں سے افضل ہیں جیسا کہ کتاب و سنت سے ثابت ہے ،پھر جب ایسا ہے تو ان لوگوں کی اقتداء بعد والوں کی اقتدا سے بہتر ہے ۔علم دین کے سلسلے میں دوسروں کے اجماع و اختلاف کی نسبت صحابہ کے اجماع اور اتفاق اور انہی میں ہونے والے اختلاف کی معرفت و دریافت زیادہ بہتر ہے ...اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا اجماع بہرحال معصو م ہوتا ہے ،صحابہ نے اگر اختلاف کیا تو بھی حق ان کے اقوال میں سے کسی ایک میں ہوتا ہے ۔ان کے اقوال میں سے کسی قول کو اس وقت تک غلط نہیں کہا جا سکتا جب تک کتاب و سنت سے اس کا غلط ہونا ثابت نہ ہو جائے ...

اسی طرح دین میں کوئی بھی ایسا مسئلہ نہیں رہ جاتا جس کے بارے میں سلف نے کلام نہ کیا ہو اس لئے اس کی مخالفت یا موافقت میں سلف سے ضرور کوئی نہ کوئی قول مل جاتا ہے ۔'' (مجموع الفتاویٰ ص ۱۳،۳۳،۲۷)
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
رب تعالیٰ نے ہمیں پہلوں کے راستے پر چلنے کی نصیحت فرمائی ہے :۔

﴿ وَّاتَّبِــعْ سَبِيْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَيَّ۝۰ۚ ﴾ ( لقمٰن: ۱۵)
''اور اس کی راہ چلنا جو میری طرف جھکا ہوا ہو ''

اور فرمایا:

﴿ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَكُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ۝۱۱۹ ﴾(التوبۃ ۱۱۹)
''اے ایمان والوں اللہ سے ڈر تے رہو اور سچوں کا ساتھ دو ۔''

ایک سے زائد سلف نے یہاں صادقین سے مراد'' اصحاب محمدﷺ ''لیے ہیں ۔

سیدنا کعب بن مالک؄ فرماتے ہیں :''اللہ کی قسم میں نہیں جانتا کہ اللہ نے کسی کو سچ کہنے کی توفیق دے کر اُس پر اتنا احسان کیا ہو جیسا مجھ پر کیا ہے ۔میں نے اُس وقت سے لے آج تک قصداً کبھی جھوٹ نہیں بولا ۔اللہ تعالیٰ نے اسی بارے میں یہ آیت اتاری ۔'' (بخاری:۴۶۷۸ )(تفسیر ابن کثیر :414/2)

اللہ تعالیٰ اپنے رسول ﷺسے اعلان کرواتا ہے کہ وہ اور اس کے اصحاب بصیرت کے ساتھ حق پر گامزن ہیں :

﴿قُلْ ہٰذِہٖ سَبِيْلِيْٓ اَدْعُوْٓا اِلَى اللہِ۝۰ۣؔ عَلٰي بَصِيْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ۝۰ۭ﴾ (یوسف : ۱۰۸)
''کہہ دیجیے میرا راستہ یہی ہے کہ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں اور میں خود بھی اس راہ کو پوری بصیرت کے ساتھ دیکھ رہا ہوں اور میرے پیروکار بھی ۔''

رسول اللہ ﷺ نے ان کے منہج اور فہم کو جماعت حقہ کی پہچان قرار دیاہے ۔

عبداللہ بن عمر؆سے روایت ہے 'رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ''کہ میری امت ۷۳ فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی ۔سوائے ایک جماعت کے سب دوزخ میں جائیں گے۔ عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول وہ کونسا گروہ ہو گا؟ آپﷺ نے فرمایا :((ما انا علیہ واصحابی))'' یہ وہ جماعت ہوگی جو اس راستے پر چلے گی جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں'' (ترمذی :۲۵۶۵)

اس حدیث میں یہ اشارہ بھی ہے کہ سنت رسول کے ساتھ طریق صحابہ بھی قیامت تک محفوظ رہے گا کیونکہ جو چیز محفوظ نہ ہو وہ قیامت تک نجات پانے والے گروہ کی نشانی کیسے بن سکتی ہے ؟ ۔اسی لیے آپ ﷺ نے صحابہ کرام اور ان کے بعد آنے والے اسلاف کی پیروی کی تلقین فرمائی ہے ۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
نبی مکرم ﷺ نے فرمایا ''تم میرے بعد شدید اختلاف دیکھو گے۔ اس وقت تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا ۔ اس پر مضبوطی سے جمے رہنا، دین میں نئے پیدا ہونے والے امور سے اپنے آپ کو بچا کر رکھنا کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے'' (ابن ماجۃ :۴۷)

معلوم ہوا فتنوں کے ظہور کے وقت بچائو صرف اور صرف نبی اکرم ﷺ اور آپ کے خلفاء راشدین کی سنت اختیار کرنے میں ہے۔

آپ ﷺ نے فرمایا ''میرے صحابہ کے طریقہ پر عمل کر کے میری سنت کی حفاظت کرو پھر تابعین اور تبع تابعین کے طریقہ پر چلو پھر اس کے بعدجھوٹ پھیل جائے گا''۔(ابن ماجہ کتاب الاحکام :۲۳۶۳)

عمران بن حصین؄ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ''میری امت میں بہترین زمانہ میرا ہے ۔پھر اس کے بعد والا( تابعین کا) زمانہ پھر اس کے بعد والا (تبع تابعین کا)زمانہ پھر ایسی قومیں پیدا ہونگی جو بغیر مطالبے کے جھوٹی گواہیاں دیں گی اور خیانت کریں گی اس لیے انہیں امین نہیں بنایا جائے گا اور ان میں موٹا پا عام ہو جائے گا''۔ (مسلم:۲۵۳۵۔ ترمذی : ۱۸۱۰)

ان آیات و احادیث سے یہ بات واضح ہے کہ فہم دین کے حوالے سے پہلے ابتدائی تین زمانوں میں جو کچھ سمجھا اور سمجھایا گیا وہ بالکل حق ہے۔ بعد والوں کو اب انہی کے پیچھے کھڑے ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

﴿ اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِيَاۗءَ۝۰ۭ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ۝۳ ﴾(الاعراف:۳)
'' لوگو جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اس کی اتباع کرو اور اس کے علاوہ دوسرے سرپرستوں کی اتباع نہ کرو۔تھوڑی ہی تم نصیحت مانتے ہو۔''

اس آیت کا یہ مفہوم نہیں کہ صحابہ کرام کافہم حجت نہیں ہے۔یاد رکھئے قرآن و سنت کو صحابہ کرام ؇ نے رسول اللہ ﷺ سے سیکھا اور تابعین نے صحابہ کرام؇ سے سیکھا۔ صحابہ و تابعین سے زیادہ بہتر کیاکوئی اور قرآن و سنت کو سمجھ سکتا ہے ؟ یقینا نہیں ۔لہٰذا قرآن و سنت کا وہی مفہوم معتبر ہو گا جو صحابہ و تابعین نے متعین کیا ۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
سلف کے مقابلے میں بعد والوں کے فہم کی کوئی حیثیت نہیں۔سلف کا فہم ہی وہ سبیل المؤمنین ہے جس پر چلنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے:

﴿وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَہُ الْہُدٰى وَيَتَّبِـعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَ۝۰ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا۝۱۱۵ۧ ﴾ (النساۗء:۱۱۵)
''جو شخص ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر اور راہ اختیار کرے۔تو ہم اسے ادھر ہی پھیر دیتے ہیں جدھر کا اس نے رخ کیا پھر اسے جہنم میں جھونکیں گے جو بدترین ٹھکانہ ہے۔''

اس آیت میں رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کے ساتھ مؤمنوں کی راہ پر نہ چلنا بھی جہنم میں جانے کا سبب بتایا۔

محدث البویطی فرماتے ہیں :میں نے امام شافعی  کو یہ فرماتے سنا کہ اصحاب الحدیث کا دامن مت چھوڑو اس لیے کہ وہ سب سے زیادہ درست بات کہنے والے ہیں (تاریخ حدیث و محدثین ص ۴۰۱)

امام احمد بن حنبل کہتے ہیں :
''سنت کے احول ہمارے ہاں یہ ہیں کہ ہر وہ امر جس پر اصحاب رسول اللہﷺ تھے، اس سے چمٹ کر رہا جائے ۔ان کی اقتداکی جائے اور نئی ایجادات کو ترک کیا جائے کیونکہ ہر نئی ایجاد بدعت و ضلالت ہے ''۔(شرح اصول السنۃ والجماعۃ للالکائی ۱/۱۵۶)

امام اوزاعی  فرماتے ہیں :
''سنت کی راہ پر جمے رہو ۔ان پہلوں کے قدم جہاں رک گئے ہوں وہاں تم بھی ضرور رک جائو ۔جس بات کے وہ قائل ہوئے ہیں تم بھی اسی بات کے قائل رہو ۔ جس بات سے وہ خاموش رہے ہوں تم بھی اس سے خاموش رہو ۔چلو تو اپنے ان سلف صالحین کی راہ پر چلو ''۔ (شرح اصول السنۃ والجماعۃ للالکائی ۱/۱۵۴)

قوام السنہ ،امام اسماعیل بن محمد الاصبہانی  فرماتے ہیں''علم کثرت روایت کا نام نہیں،بلکہ علم تو اتباع اور اقتداء کا نام ہے۔صحابہ کرام اور تابعین عظام کی پیروی کرو،اگرچہ علم تھوڑا ہی ہو اور جوشخص صحابہ و تابعین کی مخالفت کرے وہ گمراہ ہے اگرچہ زیادہ علم والا ہی ہو'' (الحجہ فی بیان المحجہ لابی القاسم الاصبہانی۴۶۹۔۲)
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
ابو محمد عبداللہ بن زیدقیروانی  فرماتے ہیں ''سنتوں کو تسلیم کرنا عقل و قیاس کے خلاف نہیں ۔سنن کی جو تفسیر سلف صالحین نے کی ہے ہم وہی کریں گے اور جس پر انہوں نے عمل کیا ،اسی پر ہم عمل کریں گے اور جس کو انہوں نے چھوڑا ہم بھی چھوڑدیں گے ۔ہمیں یہی کافی ہے کہ وہ جس چیز سے رک گئے اس سے ہم رک جائیں اور جس چیز کو انہوں نے بیان کیا،اس میں ہم ان کی پیروی کریں اور جو انہوں نے استنباط اور اجتھاد کیا اس میں ان کی اقتداء کریں ،جس چیز میں ان کا اختلاف ہے اس میں انکی جماعت سے نہ نکلیں(کوئی نیا مذہب نہ نکالیں،بلکہ اختلافی صورت میں ان میں سے ہی کسی ایک کا مذہب قبول کریں)۔تمام وہ چیزیں جو ہم نے ذکر کی ہیں وہ اہل سنت اور فقہ و حدیث کے ائمہ کے ا قوال ہیں۔(الجامع: ۱۱۷)

حافظ ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ (ابن ابی زمنین) فرماتے ہیں ''جان لیں کہ سنت قرآن کریم کی دلیل ہے۔سنت کو قیاس اور عقل کے ذریعے حاصل نہیں کیا جا سکتا، بلکہ وہ تو ائمہ کرام اور جمہور امت کے طریقے کی اتباع کا نام ہے (کتاب اصول السنۃ لابی ابن زمنین :۱)

امام آجری (م۳۶۰ھ) فرماتے ہیں :
''جن لوگوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بھلائی کا ارادہ کیا ہے ،ان کی علامت اللہ عزوجل کی کتاب ،رسول اللہ ﷺ کی سنتوں اور آپ کے صحابہ اور ان کے پیروکاروں کے آثار کی اتباع کرنا ہے 'نیز وہ اس راستے پر چلتے ہیں جس پر ہر علاقے کے ائمہ مسلمین اور اب تک کے علمائے کرام ،مثلاً امام اوزاعی ،امام سفیان ثوری ،امام مالک بن انس ،امام شافعی، امام احمد بن حنبل ،امام قاسم بن سلام اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے اہل علم چلے اور وہ ہر اس طریقے سے بچتے ہیں جسے ان علمائے کرام نے اختیارنہیں کیا۔''(الشریعۃ للآجری:۱۴)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ  فرماتے ہیں ''ہر وہ قول جس میں بعد والا متقدمین سے منفرد ہو،اس سے پہلے وہ قول کسی نے نہ کہا ہو وہ یقینا غلط ہو گا۔''(مجموع فتاویٰ لابن تیمیہ ۲۱۔۲۹۱)
''حافظ عبداللہ روپڑی محدث  (متوفی۱۳۸۴ھ) فرماتے ہیں : خلاصہ یہ کہ ہم تو ایک ہی بات جانتے ہیں وہ یہ کہ سلف کا خلاف جائز نہیں ''(فتاویٰ اہل حدیث ج۱ص۱۱۱)
 
Top