عمر السلفی۔
مشہور رکن
- شمولیت
- ستمبر 22، 2020
- پیغامات
- 1,608
- ری ایکشن اسکور
- 41
- پوائنٹ
- 110
موت وحیات کا مالک اللہ ہے ۔ انسان وقت پر ہی مرتا ہے ۔ وقت سے پہلے کسی کی موت نہیں آتی ۔ کسی کی آہی نہیں سکتی اور جس کے مرنے کا وقت آ جائے تو ٹل ہی نہیں سکتی ۔ اس معاملے میں کسی انسان کا کوئی اختیار کام نہیں کرتا ، کربھی نہیں سکتا ۔ اب آئیے موت کی اطلاع دینے سے متعلق کچھ باتیں ذکر کی جائیں ؛
1۔ عام طور سے موت کی اطلاع لکھتے ہوئے ہم مرنے والے کا نام بعد میں اور میت کے کسی مشہور قریبی رشتہ دار کا نام پہلے لکھتے ہیں ۔ اس سے التباس کا خطرہ رہتا ہے ۔ پہلے مرنے والے کا نام لکھیے اور پھر لکھیے کہ وہ فلاں صاحب کے فلاں تھے اس لیے کہ موت کی اطلاع پڑھتے ہی کوئی بھی انسان تھوڑی گھبراہٹ اور جلد بازی کا شکار ہوجاتا ہے اور یوں پوری اطلاع پڑھنے سے قبل پہلے جملے سے ہی مفہوم نکال لیتا ہے ۔ مثلا اس طرح لکھا جانا چاہیے ' زید کا انتقال ہوگیا ، وہ مشہور ادیب بکر کے بڑے بھائی تھے " ۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ میرے کرم فرما مولانا ابونصر ندوی کے ایک بھائی کا انتقال ہوگیا تھا ، تب ابونصر صاحب جامعہ امام ابن تیمیہ میں تھے اور ہم بھی وہیں تھے ۔ ہم نے اس کی اطلاع اپنے ایک سینيئر دوست کو لکھ کر دی اور انہوں نے اسے قومی تنظیم میں چھپوادیا ۔ دوسرے دن جب " انتقال پرملال " چھپ کر آیا تو ہم خوش تھے کہ مولانا ضرور دعائیں دیں گے لیکن وہ تو ناراض ہوگئے اور پھر سمجھایا کہ موت کی اطلاع کیسے دی جاتی ہے ۔ وہاں بھی ہم نے وہی غلطی کی تھی کہ پہلے مولانا ابونصرندوی کا ہی نام لکھا تھا یعنی اطلاع کچھ اس طرح تھی " مجلہ طوبی کے معاون مدیر جناب ابونصر ندوی کے بھائی ابوظفر صاحب انتقال کرگئے "
2۔ موت کی اطلاع دیتے ہوئے القاب وآداب کے اظہار میں انصاف کا دامن نہيں چھوڑنا چاہیے ۔ مرنے والوں سے ہمدردی بہت فطری ہے لیکن پھر بھی انصاف بہر صورت ہر جگہ مطلوب ہے ۔ ایسےالقاب وآداب تو بالکل استعمال نہ کیے جائیں جن سے شخصیت کی تعریف کی بجائے استہزاء کی کیفیت پیدا ہوتی ہو ۔
3 ۔ ہم مسلمان ہیں ، ہمارا عقیدہ ہے کہ ہر شخص اپنے وقت پر ہی مرتا ہے ۔ بے وقت کوئی مرہی نہیں سکتا ۔ ہندی اور انگریزی والوں کی دیکھا دیکھی ہم بھی دھڑ لے سے ایسے جملے استعمال کرنے لگے ہیں ۔ افسوس اس کا ہے کہ اس استعمال کے بعض علما بھی شکار نظر آتے ہیں ۔
اللہ ہمیں بہتر توفیق دے ۔
ساگر تیمی کی وال سے
1۔ عام طور سے موت کی اطلاع لکھتے ہوئے ہم مرنے والے کا نام بعد میں اور میت کے کسی مشہور قریبی رشتہ دار کا نام پہلے لکھتے ہیں ۔ اس سے التباس کا خطرہ رہتا ہے ۔ پہلے مرنے والے کا نام لکھیے اور پھر لکھیے کہ وہ فلاں صاحب کے فلاں تھے اس لیے کہ موت کی اطلاع پڑھتے ہی کوئی بھی انسان تھوڑی گھبراہٹ اور جلد بازی کا شکار ہوجاتا ہے اور یوں پوری اطلاع پڑھنے سے قبل پہلے جملے سے ہی مفہوم نکال لیتا ہے ۔ مثلا اس طرح لکھا جانا چاہیے ' زید کا انتقال ہوگیا ، وہ مشہور ادیب بکر کے بڑے بھائی تھے " ۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ میرے کرم فرما مولانا ابونصر ندوی کے ایک بھائی کا انتقال ہوگیا تھا ، تب ابونصر صاحب جامعہ امام ابن تیمیہ میں تھے اور ہم بھی وہیں تھے ۔ ہم نے اس کی اطلاع اپنے ایک سینيئر دوست کو لکھ کر دی اور انہوں نے اسے قومی تنظیم میں چھپوادیا ۔ دوسرے دن جب " انتقال پرملال " چھپ کر آیا تو ہم خوش تھے کہ مولانا ضرور دعائیں دیں گے لیکن وہ تو ناراض ہوگئے اور پھر سمجھایا کہ موت کی اطلاع کیسے دی جاتی ہے ۔ وہاں بھی ہم نے وہی غلطی کی تھی کہ پہلے مولانا ابونصرندوی کا ہی نام لکھا تھا یعنی اطلاع کچھ اس طرح تھی " مجلہ طوبی کے معاون مدیر جناب ابونصر ندوی کے بھائی ابوظفر صاحب انتقال کرگئے "
2۔ موت کی اطلاع دیتے ہوئے القاب وآداب کے اظہار میں انصاف کا دامن نہيں چھوڑنا چاہیے ۔ مرنے والوں سے ہمدردی بہت فطری ہے لیکن پھر بھی انصاف بہر صورت ہر جگہ مطلوب ہے ۔ ایسےالقاب وآداب تو بالکل استعمال نہ کیے جائیں جن سے شخصیت کی تعریف کی بجائے استہزاء کی کیفیت پیدا ہوتی ہو ۔
3 ۔ ہم مسلمان ہیں ، ہمارا عقیدہ ہے کہ ہر شخص اپنے وقت پر ہی مرتا ہے ۔ بے وقت کوئی مرہی نہیں سکتا ۔ ہندی اور انگریزی والوں کی دیکھا دیکھی ہم بھی دھڑ لے سے ایسے جملے استعمال کرنے لگے ہیں ۔ افسوس اس کا ہے کہ اس استعمال کے بعض علما بھی شکار نظر آتے ہیں ۔
اللہ ہمیں بہتر توفیق دے ۔
ساگر تیمی کی وال سے