محدث میڈیا
رکن
- شمولیت
- مارچ 02، 2023
- پیغامات
- 700
- ری ایکشن اسکور
- 26
- پوائنٹ
- 53
موزوں پر مسح کرنا جائز ہے۔
ہمام بن حارث سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: میں نے ایک دفعہ حضرت جریر بن عبداللہ ؓ کو دیکھا، انھوں نے پیشاب کیا، پھر وضو فرمایا تو اپنے موزوں پر مسح کیا، پھر وہ کھڑے ہوئے اور (موزوں سمیت) نماز ادا کی، ان سے اس کی بابت پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو ایسا کرتے دیکھا ہے۔ (صحیح البخاری: 387)
موزوں پر مسح کرنے کی مدت:
مسافر تین دن اورتین راتوں تک اور جومسافر نہیں ہے وہ ایک دن اور ایک رات تک اپنے موزوں پر مسح کر سکتا ہے۔
سیدنا علی ابن ابی طالبؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مسافر کے لیے تین دن اور تین راتیں، اور مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات ( کا وقت) مقرر فرمایا۔ (صحیح مسلم: 276)
موزوں پر مسح کرنےکی مدت کی ابتدا :
مسح كرنے كى مدت كى ابتدا وضو ٹوٹنے كے بعد پہلا مسح كرنے سے ہوتى ہے، نہ كہ موزے پہننے كے وقت سے، اور نہ ہى موزے پہننے كے بعد وضو ٹوٹنے كے وقت سے- چنانچہ اگر كسى نے نماز فجر كےليے وضو كيا اور موزے پہن لیے، پھر صبح نو بجے اس کا وضو ٹوٹ گيالیکن اس نے وضو نہیں كيا، پھر بارہ بجے ظہر کی نماز کےلیے وضو كيا تو مقیم (جو مسافر نہیں ہے) کےلیے مسح كى مدت بارہ بجے سے شروع ہو كر ايک دن اور ایک رات يعنى چوبيس گھنٹے رہے گى، ایسے ہی مسافر کا حکم ہے۔
موزوں پر مسح کرنے کی شرط یہ ہے کہ انسان نے مکمل وضو کر کے موزے پہنے ہوں۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں ایک سفر میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھا۔ (آپ وضو کر رہے تھے) میں جھکا تاکہ آپ کے دونوں موزے اتاروں تو آپ نے فرمایا: ’’ انھیں رہنے دو، میں نے انھیں باوضو پہنا تھا۔‘‘ پھر آپ نے ان پر مسح فرمایا۔ (صحیح البخاری: 206)
اگر موزے تھوڑے بہت پھٹے ہوئے ہوں تو ان پرمسح کرنا جائز ہے، اگر زیادہ تر حصہ پھٹا ہوا ہو تو ان پر مسح نہیں کیا جائے گا، کیونکہ عام طور پر لوگوں کے موزے تھوڑے بہت پھٹے ہوئے ہوتے ہیں اگر ان پر مسح کرنے کی اجازت نہ دی جائے تو شریعت کی طرف سے موزوں پر مسح کرنے کی رخصت ختم ہو جائے گی-صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اکثریت غریب تھی ان کے موزے عام طور پر پھٹے ہوئے ہوتے تھے، اگر ان پر مسح کرنا جائز نہ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ ان کو منع کر دیتے، کیوں کہ نماز کا معاملہ ہے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع نہیں کیا۔
مسح موزوں کے ظاہری حصے پر کیاجائے گا۔
سیدنا علی ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ اگر دین رائے اور قیاس پر مبنی ہوتا تو موزوں کا نیچے والا حصہ اوپر والے کی بہ نسبت مسح کا زیادہ مستحق ہوتا، مگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے کہ آپ ﷺ اپنے موزوں کے اوپر ہی مسح کیا کرتے تھے۔ (سنن ابی داود: 162)
ہمام بن حارث سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: میں نے ایک دفعہ حضرت جریر بن عبداللہ ؓ کو دیکھا، انھوں نے پیشاب کیا، پھر وضو فرمایا تو اپنے موزوں پر مسح کیا، پھر وہ کھڑے ہوئے اور (موزوں سمیت) نماز ادا کی، ان سے اس کی بابت پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو ایسا کرتے دیکھا ہے۔ (صحیح البخاری: 387)
موزوں پر مسح کرنے کی مدت:
مسافر تین دن اورتین راتوں تک اور جومسافر نہیں ہے وہ ایک دن اور ایک رات تک اپنے موزوں پر مسح کر سکتا ہے۔
سیدنا علی ابن ابی طالبؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مسافر کے لیے تین دن اور تین راتیں، اور مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات ( کا وقت) مقرر فرمایا۔ (صحیح مسلم: 276)
موزوں پر مسح کرنےکی مدت کی ابتدا :
مسح كرنے كى مدت كى ابتدا وضو ٹوٹنے كے بعد پہلا مسح كرنے سے ہوتى ہے، نہ كہ موزے پہننے كے وقت سے، اور نہ ہى موزے پہننے كے بعد وضو ٹوٹنے كے وقت سے- چنانچہ اگر كسى نے نماز فجر كےليے وضو كيا اور موزے پہن لیے، پھر صبح نو بجے اس کا وضو ٹوٹ گيالیکن اس نے وضو نہیں كيا، پھر بارہ بجے ظہر کی نماز کےلیے وضو كيا تو مقیم (جو مسافر نہیں ہے) کےلیے مسح كى مدت بارہ بجے سے شروع ہو كر ايک دن اور ایک رات يعنى چوبيس گھنٹے رہے گى، ایسے ہی مسافر کا حکم ہے۔
موزوں پر مسح کرنے کی شرط یہ ہے کہ انسان نے مکمل وضو کر کے موزے پہنے ہوں۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں ایک سفر میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھا۔ (آپ وضو کر رہے تھے) میں جھکا تاکہ آپ کے دونوں موزے اتاروں تو آپ نے فرمایا: ’’ انھیں رہنے دو، میں نے انھیں باوضو پہنا تھا۔‘‘ پھر آپ نے ان پر مسح فرمایا۔ (صحیح البخاری: 206)
اگر موزے تھوڑے بہت پھٹے ہوئے ہوں تو ان پرمسح کرنا جائز ہے، اگر زیادہ تر حصہ پھٹا ہوا ہو تو ان پر مسح نہیں کیا جائے گا، کیونکہ عام طور پر لوگوں کے موزے تھوڑے بہت پھٹے ہوئے ہوتے ہیں اگر ان پر مسح کرنے کی اجازت نہ دی جائے تو شریعت کی طرف سے موزوں پر مسح کرنے کی رخصت ختم ہو جائے گی-صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اکثریت غریب تھی ان کے موزے عام طور پر پھٹے ہوئے ہوتے تھے، اگر ان پر مسح کرنا جائز نہ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ ان کو منع کر دیتے، کیوں کہ نماز کا معاملہ ہے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع نہیں کیا۔
مسح موزوں کے ظاہری حصے پر کیاجائے گا۔
سیدنا علی ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ اگر دین رائے اور قیاس پر مبنی ہوتا تو موزوں کا نیچے والا حصہ اوپر والے کی بہ نسبت مسح کا زیادہ مستحق ہوتا، مگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے کہ آپ ﷺ اپنے موزوں کے اوپر ہی مسح کیا کرتے تھے۔ (سنن ابی داود: 162)