• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مولانا ابو الحسن ندوی صاحب کی تصانیف ، ایک دوسرا رخ

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مولانا ابو الحسن ندوی صاحب کی تصانیف کا ایک دوسرا رخ

مولانا ابو الحسن علی میاں ندوی رحمہ اللہ برصغیر پاک و ہند کے ان اکابرین میں سے ہیں ، جن کے علم و فضل ، قوت فکر ، صلابت رائے کا اعتراف پورے عالم اسلام کو ہے ، آپ نے اردو عربی ہر دو زبانوں میں بیش قیمت تصانیف رقم فرمائی ہیں ، مسلمانوں کے عروج زوال کے دنیا پر اثرات نامی کتاب جو عربی زبان میں ما ذا خسر العالم بانحطاط المسلمین کے عنوان سے مطبوع ہے ، ندوی صاحب کے علمی ذوق ، ادبی شوق ،فکرو نظر کی بلندی کا پتہ دیتی ہے ،آپ کی ذات کے تعارف ، اور علمی خدمات پر مستقل کتب موجود ہیں ،زیر نظر سطور میں محقق شہیر محترم شیخ صلاح الدین مقبول صاحب کی کتاب ’’ الأستاذ أبو الحسن الندوی و الوجہ الآخر من کتاباتہ ‘‘ کا تعارف مقصود ہے ۔
بات یہاں سے شروع کرتے ہیں کہ کمال صرف اللہ ذو الجلال کی ذات کے لیے ہے ، معصوم عن الخطاء کا پروانہ صرف انبیاء کی ذات کے لیے جاری ہوا ہے ، چنانچہ مولانا ندوی صاحب اپنی بے شمار خوبیوں کے باوصف کچھ خطرناک قسم کی خامیوں سے نہیں بچ سکے ، ایک طرف جہاں آپ نے امت کی علمی و ادبی ، فکری و نظری رہنمائی کی ہے ، دوسری طرف کتاب وسنت کے مخالف بعض نظریات کے پرچار کا باعث بھی بنے ہیں ، موصوف ایک محقق و مصنف ہونے کے ساتھ ایک صوفی بھی تھے ، اور راہ تصوف کو اس کی تمام تر خامیوں اور لوازمات کے ساتھ اختیار کیے رکھا ، چنانچہ آپ کی اردو تصانیف میں جابجا اس بات کے صراحت کے ساتھ ثبوت موجود ہیں کہ آپ صوفیانہ بدعات پر نہ صرف عمل پیرا تھے ، بلکہ اس کی طرف داعی بھی تھے ، اور اسے کار ثواب سمجھتے تھے ، چنانچہ منصور حلاج اور ابن عربی جیسے زنادقہ کا دفاع ،کشف و مراقبہ ،اقطاب و ابدال کے کون و مکاں میں اثرات جیسی تمام صوفیانہ باتیں ان کی کتب میں ملتی ہیں ، البتہ عربی تصانیف میں انہوں نے کھل کا اس بات کا اظہار نہیں کیا ، اور یہ شاید ان کی حکمت عملی تھی ، تاکہ عرب کے سلفی العقیدہ ، اور پختہ مزاج لوگ ان کی تحریروں سے متنفر نہ ہوں ، اس کے علاوہ موصوف کی تصانیف میں عقائد و تاریخ وغیرہ سے متعلق کئی لغزشوں کا وجود اس بات کا سبب بنا کہ شیخ صلاح الدین مقبول صاحب نے نصیحت کی خاطر اور احقاق حق اور ابطال باطل کا فریضہ سر انجام دینے کے لیے قلم اٹھایا ، اور عربی زبان میں سات سو سے زائد صفحات پر مشتمل کتاب تصنیف فرمائی ۔ علمی اعتراض اور مبنی بر حقیقت تنقید کرنا ، ایک ایسی خوبی بلکہ اہل علم کی ذمہ داری ہے ، جس کی طرف خود ندوی صاحب نے اپنی تحریروں میں توجہ دلائی ہے ، لہذا امید ہے کہ ندوی صاحب سے عقیدت رکھنے والے اس کتاب کو مثبت انداز سے دیکھیں گے ۔
کتاب کے مندرجات پر ایک نظر
کتاب مقدمہ و تمہید اور چند خطوط کے ذکر کے بعد سات ابواب پر مشتمل ہے :
باب اول : ندوی صاحب کے حقیقی او رروحانی بزرگوں کا تصوف زدہ ہونا
اس باب میں مصنف نے تفصیل کے ساتھ اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ ندوی صاحب کا خاندان تصوف زدہ تھا ، چنانچہ خود ندوی صاحب کے بیانات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ان کے دادا ، والد ، بھائی اور خود وہ اس سلسلے میں جکڑے ہوئے تھے ۔
اس بعد اس بات کا بیان ہے کہ ندوۃ العلماء کے مؤسسین و معاونین اور کئی اراکین کے تذکرہ میں یہ بات موجود ہے کہ وہ عشق و سرور کے ان بکھیڑوں میں الجھے ہوئے تھے ۔
باب دوم : ندوی صاحب کا ترجمہ ( سوانح ) نگاری کے ذریعے تصوف کا پرچار
اس سلسلے میں غزالی ، جیلانی ، رومی ، پیر فرید گنج شکر ، معین الدین چشتی ، خواجہ نظام الدین اولیاء ، شاہ ولی اللہ ،سید سرہندی ،سید احمد بریلوی وغیرہ بطور نمونہ ذکر کیے گئے ہیں اور واضح کیا گیا ہے کہ کس طرح ندوی صاحب نے اس میدان کو تصوف کی ترویج کا ذریعہ بنایا ہے ۔
باب سوم : صوفی عقائد کی ترویج
اس باب وہ بدعات و خرافات ذکر کی گئی ہیں ، جو ندوی صاحب کی تصنیفات میں پائی جاتی ہیں ، مثلا شیخ سے بیعت ہونا ، قبروں پر حاضری دینا ، تصور شیخ ، کشف و مراقبہ ، وحدۃ الشہود ، مساجد میں قبرین تعمیر کرنا ، وغیرہ ایک لمبی فہرست ہے ۔
باب چہارم : یہاں عقائد کے باب میں ندوی صاحب کے انحراف کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔
باب پنجم : بعض آیات کی تفسیر میں ندوی صاحب کے موقف پر نقد ہے ۔
باب ششم : حدیث و سنت کے متعلقہ بعض مباحث میں ندوی صاحب کے موقف پر کلام کیا ہے ، اور یہ کہ انہوں نے بعض صوفیانہ خرافات کی ترویج کے لیے ضعیف و من گھڑت روایات کا سہار ا لیا ہے ۔
باب ہفتم : یہاں بعض فقہی مسائل میں ندوی صاحب کے طرز عمل پر تنقید کی گئی ہے ۔
باب ہشتم : بعض تاریخی مباحث کے متعلق ندوی صاحب کا موقف
اس باب میں تاریخی حقائق بیان کرتے ہوئے ندوی صاحب سے جہاں انصاف کا دامن چھوٹا اس کی وضاحت موجود ہے ، اسی طرح بعض معروف شخصیات کے بارے میں ندوی صاحب کے ناروا طرز عمل کا تذکر ہ ہے ، مثلا برصغیر میں اسلام کی ابتداء ندوی صاحب کے نزدیک صوفیاء سے ہوتی ہے ، حالانکہ حقائق اس سے مختلف ہیں ، اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرتے ہوئے ندوی صاحب صوفیاء سے اس قدر متاثر ہوئے ہیں کہ غیر صوفیوں کا تذکرہ کرنا بھول گئے ، اسی طرح بعض صحابہ کرام کے بارے گفتگو کرتے ہوئے گستاخی کی حد تک پہنچ گئے ہیں ۔ یہ سب باتیں تفصیل کےساتھ اس باب میں ملیں گے ۔
باب نہم : میں ندوی صاحب کے تناقضات بیان کیے گئے ہیں ۔
باب دہم : میں ان معروف شخصیات کا تذکرہ ہے ، جنہوں نے ندوی صاحب پر تنقید کی ہے ۔
یہاں تقی الدین ہلالی ، حمود تویجری ، زین العابدین الاعظمی ، شمس افغانی ، عبد الحمید رحمانی ، عبد الماجد دریا آبادی ، عتیق الرحمن سنبھلی سمیت پندرہ قابل قدر شخصیات کا تذکرہ موجود ہے ۔ رحم اللہ الاموات منہم و حفظ الأحیاء .
اور آخر میں ’’ خاتمہ ‘‘ کے عنوان سے کتاب کا خلاصہ بیان کیا ہے ۔
ایک اہم وضاحت :
یہ کتاب مولانا ابو الحسن ندوی صاحب کی زندگی میں تحریر کی جاچکی تھی ، اور طباعت سے قبل مؤلف اپنے گرامی قدر استاذ مولانا عبد الحمید رحمانی کے ذریعے اس کو ندوی صاحب تک پہنچا چکے تھے ، تاکہ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ اس میں کوئی غیر مناسب یا خلاف حقیقت بات کی گئی ہے تو اس کی اصلاح کی جا سکے ، لیکن ندوی صاحب کے بقول وہ اس کتاب کو خود تو نہ پڑھ سکے البتہ اپنے بعض رفقاء کی ذمہ داری لگائی کہ وہ اس کے محتویات سے آگاہ کریں ، یوں ندوی صاحب کا جوابی خط رحمانی صاحب کو موصول ہوا ، جس میں کتاب کے مندرجات کے بارے میں تو کوئی خاطر خواہ بات نہیں البتہ دو مقامات پر موجود عبارات کو لے کر ثانوی قسم کے اعتراض کیے گئے ، جو در حقیقت مولانا ندوی کی علمی شان سے میل نہیں کھاتے تھے ، لیکن شاید آخری عمر میں بیماری کے باعث یا پھر جس رفیق سے انہوں نے مدد لی ان کی کم علمی کے باعث ایسا ہوگیا ۔ تفصیل کے لیے کتاب کے شروع میں خط و کتابت کا سلسلہ ملاحظہ کیا جاسکتا ہے ۔ یہاں صرف یہ وضاحت مقصود ہے کہ کتا ب کی طباعت اگرچہ ندوی صاحب کی وفات کے بعد ہوئی ، لیکن مسودہ ان کی زندگی میں ان تک پہنچ گیا تھا ۔

 
Last edited:

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
319
پوائنٹ
127
مولانا ندوی کی ایک اور کذب بیانی سماعت فرمائیں غالبا 1984 یا 1985 کی بات ہے میں اپنے کالج میں تھا اسوقت مولانا نے جامعہ کے قاعۃ المحاضرات میں ایک تقریر کی جو اسوقت کلیہ الدعوہ کے ہفت روزہ اخبار کے پہلے صفحہ پر چھپی تھی مولانا نے اس تقریر میں کہا تھا کہ(اناحنبلی مسلکا و سلفی عقیدہ)میں نے جب اسے پڑھا تو میں نے بھی فورا کہدیا (واللہ انہ کذاب واشد مخالفا للسلفیین فی الہند)اسوقت کچھ ندوی طلباءجو میرے اوپر آگ بگولہ ہوگئے ۔میں نے کہا کہ تم اگر اپنی اصل کے ہو تو پورے ھندستان میں ایک حنبلی بتادو۔اور یہ تو یو،پی کا ہے جہاں ٹوٹل حنفی ہیں اور عقیدہ اشعری و ماتریدی اور مسلکا سڑے حنفی ۔آج حضرت کی شہرت کا راز کھلا کہ یہ جہاں جاتے وہاں کا بھیس بدل لیتے ہیں ۔
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
319
پوائنٹ
127
اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ مولف یعنی صلاح الدین نے ندوی صاحبکے اردو تصانیف سے خود انہی کا اقتباس لیکر عربی میں ترجمہ کردیا ہے انکے بارے میں اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کہی ہے ۔ ہاں انہوں نے مجھ سے اتنا ضرور کہا تھا کہ تم اس کا اردو میں ترجمہ کردو تو میں نے کہا تھا انکی ساری اردو تصانیف مجھے دیدوتاکہ ترجمہ میں انہی کا اقتباس انہی کے الفاظ میں ہوں لیکن نہ تو کتابیں مل سکیں نہ ترجمہ ہی ہوسکا ۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
صلاح الدین مقبول کا شمار کا ان حضرات میں ہوتاہے جو اپنے تعصب اوربغض وکینہ پر علمی تحقیق کی چادر ڈالے رہتے ہیں، مولانا علی میاں کی عرب دنیا میں قدرافزائی سے جلنے والے برصغیر کے اہل حدیث حضرات کی ایک بڑی تعداد ہے،ایک عرصہ قبل لقمان سلفی کے ایک پوشیدہ خط کا رازفاش ہواتھاجو مولانا علی میاں کے بارے میں ان کے دلی جذبات کی نمائندگی کررہاتھا،جب راز طشت ازبام ہواتو بے چاروں کو تقیہ کرتے ہی بن پڑی اور انہوں نے انکار کرنے میں کوئی دیر نہیں لگائی۔
اگرنفس تصوف اور کسی شیخ کے ہاتھ پر بیعت کرنابدعت ہے تو بات شیخ عبدالقادر جیلانی سے شروع کرنی چاہئے،وہ خود کسی کے مرید تھے اوران کے ہاتھ پر ہزاروں بیعت ہوئے،مرید ہوئے خلافت سے سرفراز ہوئے،ان کو ہمارے یہ برصغیری غیرمقلدین بدعتی کیوں نہیں لکھتےاورکہتے ہیں،میاں نذیر حسین صاحب ابن عربی کو شیخ اکبر کے تعظیمی لقب سے یاد کیاکرتے تھے،وہ خود بھی دوسروں کو مرید کرتے تھے،ان پر مقبول صلاح الدین کو لکھنے کی توفیق کیوں نہیں ہوئی، نواب صدیق حسن خان کا تصوف سے لگائوکوئی پوشیدہ چیز نہیں ہے، ان پر کیوں نہیں لکھا۔صرف یہ کہنے سے توکام نہیں چلنے والاکہ ہم کسی کی تقلید نہیں کرتے، اگرآپ دوسری جماعت کے کسی فرد کی کسی بات پر نکتہ چینی کرسکتے ہیں تواپنی جماعت کے افراد کی انہی باتوں پر لکھنے میں کیاعار ہے؟مولانا اسماعیل شہید کس سے بیعت تھے، کہنے کی ضرورت نہیں، شاہ ولی اللہ کا تصوف سے لگائوبیان کرنے کی ضرورت نہیں، کاش کتنابہتر ہوتاکہ صلاح الدین صاحب ایک کتاب لکھ کر ہمیں بتادیتے کہ تصوف اوربیعت سے تعلق رکھنے کی وجہ سے مجدد الف ثانی سے لے کر شاہ ولی اللہ تک اورشاہ ولی اللہ سے لے کر مسند الہند شاہ عبدالعزیز،شاہ اسماعیل شہید اورسید احمد شہید رحمہم اللہ کتنے بڑے بدعتی گزرے ہیں اورانہوں نے اسلام کو کیسااورکتنانقصان پہنچایاہے،لیکن ہمیں یقین واثق ہے کہ صلاح الدین مقبول اس طرح کی اصلاح پر کبھی توجہ نہیں دیں گے، کیونکہ وہ خود بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ مسئلہ تصوف کا نہیں مسئلہ علی میاں سے بغض کاہے؟اورجب کسی کو کسی سے خداواسطے کا بیرہوجائے توپھر اس کا کوئی علاج نہیں،اللہ یہ کہ اسے خداکی جانب سے ہدایت کی توفیق ملے۔
صلاح الدین صاحب کواپنے بارے میں شاید یہ غلط فہمی ہے کہ وہ جوسمجھتے ہیں بس وہی درست ہوتاہے،یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان کے ساحلی اورسرحدی علاقوں میں تو مجاہدین اورتجار کے ذریعہ اسلام کی اشاعت ہوئی لیکن وسط ہندمیں اسلام کی اشاعت میں نمایاں کردار صوفیاء کرام نے انجام دیااوریہ بات تاریخ کاہرادنیٰ طالب علم بھی جانتاہے، زیادہ نہیں، صلاح الدین صاحب ایک نگاہ شیخ اکرام کی تینوں کوثر کا مطالعہ کرلیں تو شاید ذہن پر پڑے غلط فہمیوں کے کچھ دبیز پردے ہٹ جائیں اگرکبھی ممکن ہو تو صلاح الدین یوسف ہمیں یہ بتانے کی زحمت گواراکرلیں کہ اسلام کے نشرواشاعت اورتحفظ بقاء میں برصغیر میں صوفیاء کرام نے جوخدمات انجام دی ہیں، ان کے مقابلہ میں ان کی اپنی جماعت کی خدمات کا تناسب کیااورکتناہے؟
جوش صاحب نے جس طرح کا مراسلہ اس تھریڈ میں تحریر فرمایاہے اس سے مینڈکی کو زکام والی کہاوت تازہ ہوگئی ہے۔مولانا علی میاں کا عرب کا دورہ ہرسال کا کئی مرتبہ کاہواکرتاتھا لیکن محض جوش صاحب کو ہی جوش میں یہ بات یاد رہی ہے کہ مولانا نے خودکو حنبلی المسلک فرمایاتھا،سبحان اللہ کیاکہنے ،اس اکلوتے راوی کی منفرد کذب بیانی اورگپ مارنے کے،جامعہ کے قاعۃ المحاضرات میں وہاں صرف ایک جوش میاں نہیں ہوں گے دیگر ہندی اورسلفی طلاب موجود ہوں گے کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ مولانا علی میاں کی اس غلطی کی تردید کرے ،جوش صاحب کو بھی 20سال بعد جوش آیاہے ،ہائے سب کچھ لٹاکے ہوش میں آئے توکیاکیا۔کسی بھی صحیح الدماغ شخص سے پوچھاجائے کہ اگرجھوٹاکہناہوتو مولانا علی میاں کو کہاجائے یاجوش میاں کو تو وہ جوش میاں کو ہی جھوٹاٹھہرائے گااورجوبات جوش صاحب نے کہی ہے اس کے جھوٹ ہونے پر ڈھیر سارے شواہد موجود ہیں۔
انسان کو چاہئے کہ وہ گپ مارے تو ذرا دائرے میں رہ کر،ورنہ اس کے جھوٹ اورگپ بازی کا بھانڈہ پھوٹتے دیرنہیں لگتا۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
صلاح الدین مقبول کا شمار کا ان حضرات میں ہوتاہے جو اپنے تعصب اوربغض وکینہ پر علمی تحقیق کی چادر ڈالے رہتے ہیں، مولانا علی میاں کی عرب دنیا میں قدرافزائی سے جلنے والے برصغیر کے اہل حدیث حضرات کی ایک بڑی تعداد ہے
صلاح الدین مقبول صاحب اور مولانا ابو الحسن الندوی کے مابین تقریبا وہی نسبت ہے جو آپ جیسے اور صلاح الدین مقبول صاحب کے درمیان ہے ، ان کے بارے میں آپ نے جو زبان استعمال کی ہے ، کم از کم اس جواز کو صلاح الدین مقبول صاحب کے لیے بھی روا رکھے کہ وہ ندوی صاحب کے بارے کچھ کہہ سکیں ، لکھ سکیں ، البتہ یہ بات پکی ہے ، صلاح الدین مقبول صاحب سات سو صفحات کی کتاب میں اس حد تک نہیں گئے ، جس تک آپ سات سطروں میں پہنچ گئے ہیں ۔
یہ تو اس صورت میں آپ اس کو مذہبی تعصب اور کینہ و بغض پر محمول کریں ، ورنہ کتاب کی ابتداء میں شیخ نے مکمل صراحت کےساتھ اس کی وجہ تالیف بیان کردی ہے ، اور ساتھ مولانا ندوی کی کتب و تحقیقات و تنقیدات کے نماذج نقل کیے ہیں کہ وہ صحت مند علمی نقد و تبصرہ کی ترغیب دلاتے تھے ، اور خود انہوں نے کئی کبار شخصیات پر تنقید کی ہے ۔
مان لیں ، یہ کتاب مسلکی منافرت اور مذہبی مخاصمت کی بنیاد پر معرض وجود میں آئی ، لیکن کتاب کے محتویات میں کوئی خلاف تحقیق بات درج کی گئی ؟ تنقید کے اصولوں کو پس پشت ڈالا گیا ؟ غلط باتوں کو ندوی صاحب کی طرف منسوب کیا گیا ؟
اگر ایسی کوئی بات ہے ، تو آپ حضرات پر کوئی پابندی نہیں ، کتاب کو چھپے چودہ پندرہ سال ہوئے ، چھپنے سے قبل مولانا ندوی صاحب اس کا مسودہ دیکھ چکے ، ان کے رفقاء اس کا تنقیدی جائزہ لے چکے ، اگر کوئی قابل محاسبہ بات ہے ، تو لائیے منظر عام پر ۔
ایک عرصہ قبل لقمان سلفی کے ایک پوشیدہ خط کا رازفاش ہواتھاجو مولانا علی میاں کے بارے میں ان کے دلی جذبات کی نمائندگی کررہاتھا،جب راز طشت ازبام ہواتو بے چاروں کو تقیہ کرتے ہی بن پڑی اور انہوں نے انکار کرنے میں کوئی دیر نہیں لگائی۔
جس پر الزام لگایا گیا ، اگر وہ اس کی تردید کر رہا ہے ، تو پھر دونوں احتمال ہیں ، ممکن ہے الزام لگانے والے ہی بے بنیاد ہوں ۔ خیرمجھے اس بارے علم نہیں ، لیکن صلاح الدین مقبول صاحب کی کتاب نے بھی بہت سارے راز فاش کیے ہیں ، ایسے واضح دلائل اور شہود کے ساتھ کے انکار کی بھی کوئی مجال باقی نہیں رہی ۔
اگرنفس تصوف اور کسی شیخ کے ہاتھ پر بیعت کرنابدعت ہے تو بات شیخ عبدالقادر جیلانی سے شروع کرنی چاہئے،وہ خود کسی کے مرید تھے اوران کے ہاتھ پر ہزاروں بیعت ہوئے،مرید ہوئے خلافت سے سرفراز ہوئے،ان کو ہمارے یہ برصغیری غیرمقلدین بدعتی کیوں نہیں لکھتےاورکہتے ہیں،میاں نذیر حسین صاحب ابن عربی کو شیخ اکبر کے تعظیمی لقب سے یاد کیاکرتے تھے،وہ خود بھی دوسروں کو مرید کرتے تھے،ان پر مقبول صلاح الدین کو لکھنے کی توفیق کیوں نہیں ہوئی، نواب صدیق حسن خان کا تصوف سے لگائوکوئی پوشیدہ چیز نہیں ہے، ان پر کیوں نہیں لکھا۔صرف یہ کہنے سے توکام نہیں چلنے والاکہ ہم کسی کی تقلید نہیں کرتے، اگرآپ دوسری جماعت کے کسی فرد کی کسی بات پر نکتہ چینی کرسکتے ہیں تواپنی جماعت کے افراد کی انہی باتوں پر لکھنے میں کیاعار ہے؟مولانا اسماعیل شہید کس سے بیعت تھے، کہنے کی ضرورت نہیں، شاہ ولی اللہ کا تصوف سے لگائوبیان کرنے کی ضرورت نہیں، کاش کتنابہتر ہوتاکہ صلاح الدین صاحب ایک کتاب لکھ کر ہمیں بتادیتے کہ تصوف اوربیعت سے تعلق رکھنے کی وجہ سے مجدد الف ثانی سے لے کر شاہ ولی اللہ تک اورشاہ ولی اللہ سے لے کر مسند الہند شاہ عبدالعزیز،شاہ اسماعیل شہید اورسید احمد شہید رحمہم اللہ کتنے بڑے بدعتی گزرے ہیں اورانہوں نے اسلام کو کیسااورکتنانقصان پہنچایاہے،لیکن ہمیں یقین واثق ہے کہ صلاح الدین مقبول اس طرح کی اصلاح پر کبھی توجہ نہیں دیں گے، کیونکہ وہ خود بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ مسئلہ تصوف کا نہیں مسئلہ علی میاں سے بغض کاہے؟اورجب کسی کو کسی سے خداواسطے کا بیرہوجائے توپھر اس کا کوئی علاج نہیں،اللہ یہ کہ اسے خداکی جانب سے ہدایت کی توفیق ملے۔
اگر آپ نے یہ کتاب پڑھی ہوئی ہے تو یہ سب باتیں تقریبا موجود ہیں ۔ اور اگر سب نہ بھی ہوں ، تو آپ کسی کو کوئی کام کرنے کا پابند نہیں کرسکتے کہ آپ نے یہ کرلیا ہے تو وہ کیوں نہیں کیا ۔
اگر آپ کے ہاں یہی اصول ہے ، تو پھر آپ بھی پہلے اپنے گھر سے شروع کریں ، عاشق الہی برنی صاحب نے ہند و پاک کے شیوخ و مسندین کے ذکر کیا ہے ، لیکن اس میں اہل حدیث شیوخ کا تذکرہ گول کر گئے ہیں ۔ آپ نے یہاں تعصب کے خلاف محاذ آرائی شروع کی ہے تو وہاں جاکر بھی دھرنا دیں کہ خدام حدیث بیان کرتے ہوئے بھی مذہبی تعصب و تنفر سے کیوں کنارہ کشی نہیں کرسکے ۔
صلاح الدین صاحب کواپنے بارے میں شاید یہ غلط فہمی ہے کہ وہ جوسمجھتے ہیں بس وہی درست ہوتاہے،یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان کے ساحلی اورسرحدی علاقوں میں تو مجاہدین اورتجار کے ذریعہ اسلام کی اشاعت ہوئی لیکن وسط ہندمیں اسلام کی اشاعت میں نمایاں کردار صوفیاء کرام نے انجام دیااوریہ بات تاریخ کاہرادنیٰ طالب علم بھی جانتاہے، زیادہ نہیں، صلاح الدین صاحب ایک نگاہ شیخ اکرام کی تینوں کوثر کا مطالعہ کرلیں تو شاید ذہن پر پڑے غلط فہمیوں کے کچھ دبیز پردے ہٹ جائیں اگرکبھی ممکن ہو تو صلاح الدین یوسف ہمیں یہ بتانے کی زحمت گواراکرلیں کہ اسلام کے نشرواشاعت اورتحفظ بقاء میں برصغیر میں صوفیاء کرام نے جوخدمات انجام دی ہیں،
جی آپ دوسروں کو تو کتابیں پڑھنے کا مشورہ دے رہے ہیں ، لیکن خود یہ حال ہے کہ جس کتاب کے مصنف کے متعلق ’’ تعصب ، بغض اور کینہ ‘‘ کا اظہار کرنے کی سعی کر رہے ہیں وہ بھی نہیں پڑھی ہوئی ، ورنہ علم ہوتا ہے کہ ان سب باتوں پر شیخ اپنی رائے کا اظہار اسی کتاب میں کر چکے ہیں ۔
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
319
پوائنٹ
127
رحمانی صاحب !جب آدمی حق سے چشم پوشی کرتا ہے اور شخصیت پرستی میں اندھا ہوجاتا ہے تو وہ اسکے علاوہ کچھ نہیں لکھ سکتا ہے جو آپنے لکھا ہے اور اسکی کیفیت یہی ہوجاتی ہے جس کو قرآن نے بیان کیا ہے کہ لھم قلوب لایفقھون بھا ولھم اعین لایبصرون بھا ۔۔ ماشاءاللہ صلاح الدین ایک حق پرست اور حق گو اور غیرتمند عالم دیں ہے انکی غیرت حق اور غیرت دینی پر انکی ساری تصنیفات دلیل ہیں یہ انکی غیرت ہی تھی کہ علی میاں ندوی کو ،انکے نظریات و عقائد کو خود انہی کی کتابوں سے لیکر پورے حوالے کے ساتھ عربی کا جامہ پہناکر علی میاں کی خدمت میں پیش کردیا نہ انہوں نے اپنی طرف سے کوئی بات لکھی ہے اور نہ ان پر کوئی الزام لگایا ہے صلاح الدین کو اللہ نے وہ ملکہ عطا کیا ہے کہ انکی تحریروں سے عرب و عجم کے علماء استفادہ کرتے ہیں صرف وہی محروم رہتے ہیں جو حقیقت پسندی سے محروم ہیں ۔۔ اور بھی سن لو آپنے لکھا ہے کہ وسط ھند میں اسلام کی اشاعت صوفیاء کی کاوشوں کا نتیجہ ہے مگر کون سا اسلام ! اللہ کا پسندیدہ اسلام نہیں کیونکہ اللہ کے دین میں درگاہ پرستی ،مزار پرستی اور شخصیت پرستی نہیں ،بلکہ اللہ کے دیں میں توحید خالص ہے یقینا یہ صوفیوں ہی کا پہیلایا ہوا دین ہے کہ برصغیر میں جابجا درگاہ و مزار ہے اور آج تک برصغیر کے مسلمان اسکے مہلک دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اور صلاح الدین ہی کی جماعت ہے جس کی کاوشوں کے نتیجے میں بیشمارمسلمانوں کو قرآن وسنت کی ہدایت ملی اور مل رہی ہے اور انشاءاللہ قیامت تک ملتی رہے گی جس میں محترم علماے کرام اور عوام دونوں شامل ہیں اور سن لو ! جھوٹوں پر اللہ کی ہزار لعنت ! میں نے جو کچھ لکھا حوالے سے لکھا ہے اگر بصارت صحیح سالم ہے تو جائے اور جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کی لائبریری میں فائل موجود ہے اسے دیکھ لیجئے ۔واللہ یھدی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
حمانی صاحب !جب آدمی حق سے چشم پوشی کرتا ہے اور شخصیت پرستی میں اندھا ہوجاتا ہے تو وہ اسکے علاوہ کچھ نہیں لکھ سکتا ہے جو آپنے لکھا ہے اور اسکی کیفیت یہی ہوجاتی ہے جس کو قرآن نے بیان کیا ہے کہ لھم قلوب لایفقھون بھا ولھم اعین لایبصرون بھا
آپ نے حق پرستی کا بہت اچھامعیار پیش کیاہے،یعنی اگرآپ کی کذب بیانیاں تسلیم نہ کی جائیں تو شخصیت پرستی اوراگرآپ کے جھوٹے بیانات تسلیم کرلئے جائیں تو حق پرستی،
ماشاءاللہ صلاح الدین ایک حق پرست اور حق گو اور غیرتمند عالم دیں ہے انکی غیرت حق اور غیرت دینی پر انکی ساری تصنیفات دلیل ہیں یہ انکی غیرت ہی تھی کہ علی میاں ندوی کو ،انکے نظریات و عقائد کو خود انہی کی کتابوں سے لیکر پورے حوالے کے ساتھ عربی کا جامہ پہناکر علی میاں کی خدمت میں پیش کردیا نہ انہوں نے اپنی طرف سے کوئی بات لکھی ہے اور نہ ان پر کوئی الزام لگایا ہے
اس کتاب میں بنیادی طورپر مولانا علی میاں صاحب پر تصوف اوراس کےاورداد واشغال سے منسلک ہونے کا الزام لگایاگیاہے، سوال یہ ہے کہ تصوف سے تو صلاح الدین میاں کے ’’بڑے‘‘بھی تو منسلک تھے،ان کا اصالتانہ سہی ضمناتو ذکر آسکتاتھا،ہندوستان کے دور انحطاط اورصوفیوں کے ذریعہ تبلیغ اسلام کے ذکر میں ہی ضمنی طورپر ذکر کردیاجاتا،لیکن ان کی ساری غیرت دینی اور حق گوئی یہاں پر آکر دم توڑدیتی ہے۔الیاس گھمن نے اہل حدیث فرقہ کے خلاف ایک کتاب لکھی ہے اور کمال یہ ہے کہ اس مین صرف اہل حدیث حضرات کی تحریروں کے اقبتاسات ہی پیش کئے ہیں، کیااہل حدیث اسکو تسلیم کرتے ہیں تومحض یہ کہناکہ فلاں نے اپنی جانب سے کچھ نہیں لکھاکوئی وقعت نہیں رکھتا،جب تک کہ اسکواصل تحریر سے ملایانہ جائے اورترجمہ کے میدان میں تواوربھی گل افشانی کے موقع ہوتے ہیں، ایک بات کو سخت تعبیر سےبھی اداکیاجاسکتاہے اورنرم تعبیر سے بھی، مولانا یوسف جے پوری آپ کے ہی حلقہ کے تھے، عبارت عربی کی کچھ ہوتی تھی اورترجمہ وہ کچھ اورکرتے تھے۔
۔ اور بھی سن لو آپنے لکھا ہے کہ وسط ھند میں اسلام کی اشاعت صوفیاء کی کاوشوں کا نتیجہ ہے مگر کون سا اسلام ! اللہ کا پسندیدہ اسلام نہیں کیونکہ اللہ کے دین میں درگاہ پرستی ،مزار پرستی اور شخصیت پرستی نہیں ،بلکہ اللہ کے دیں میں توحید خالص ہے یقینا یہ صوفیوں ہی کا پہیلایا ہوا دین ہے کہ برصغیر میں جابجا درگاہ و مزار ہے اور آج تک برصغیر کے مسلمان اسکے مہلک دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں
صوفیاء کرام نے توجیسے تیسے اسلام کی اشاعت کی لیکن تم اورتمہاری جماعت اورگروہ اس وقت کہاں سورہے تھے یاابھی آپ کی جماعت کی ولادت ہی نہیں ہوئی تھی ،ہم مان لیتے ہیں کہ صوفیاء کے تبلیغ اسلام میں ہزاروں خامیاں تھیں لیکن تمہاری جماعت اسوقت کہاں تھی؟یامحض تکفیر مسلمین کو ہی دین کی سب سے اہم خدمت سمجھ رکھی ہے۔
ور صلاح الدین ہی کی جماعت ہے جس کی کاوشوں کے نتیجے میں بیشمارمسلمانوں کو قرآن وسنت کی ہدایت ملی اور مل رہی ہے اور انشاءاللہ قیامت تک ملتی رہے گی جس میں محترم علماے کرام اور عوام دونوں شامل ہیں اور سن لو ! جھوٹوں پر اللہ کی ہزار لعنت ! میں نے جو کچھ لکھا حوالے سے لکھا ہے اگر بصارت صحیح سالم ہے تو جائے اور جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کی لائبریری میں فائل موجود ہے اسے دیکھ لیجئے ۔واللہ یھدی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
صلاح الدین کی ہی جماعت ہے یہ پہلی مرتبہ سن رہاہوں، کہیں یہ بھی شخصیت پرستی نہ ہو،بے شمار کا لفظ لکھنے سے پہلے بے شمار کی وسعت پرغورکیاتھا، یہاں تو تنک ظرفی بلکہ کم ظرفی کا یہ حال ہے کہ کسی شخص کو گھیر گھار کراہل حدیث بناتےہیں اورپھر فیس بک ،ٹوئٹر سے لے کر فورمز تک پرہنگامہ مچ جاتاہے کہ فلاں شخص اہل حدیث ہوگیا، اس کے بالمقابل تبلیغی جماعت کی وسعت ظرفی پر غورفرمائیں، روزانہ سینکڑوں افراد اس سے جڑتے ہیں لیکن آج تک انہوں نے اپنی جیسی تنک ظرفی کا مظاہرہ کیا؟
دعویٰ آپ کریں اور دلیل ہم پیش کریں، سبحان اللہ،دعویٰ بھی تمہاراہے، دلیل بھی تم ہی دو،ہم منتظررہیں گے کہ کب دعویٰ کی دلیل پیش کی جاتی ہے ورنہ تب تک کیلئے تواس دعویٰ کو صریح کذب ہی سمجھیں گے۔محترم خضرحیات صاحب سے گذارش کیجئے کہ وہ آپ کے دعویٰ کی دلیل فراہم کردیں۔
دوسرے جوش میں ہوش گنواکر شاید آنجناب نے غورنہیں کیاکہ آپ نے یہ بات بذات خود نہیں سنی تھی جامعہ کے کسی دوسرے شعبہ کے محاضرہ کی بات نقل ہوئی، نقل کرنے والے کیسے تھے، انہوں نے روایت باللفظ کیایاروایت بالمعنی کیا،اورپھر مولانا علی میاں صاحب صرف ایک ہی مرتبہ سعودی عرب گئے تھے اورجامعہ میں محاضرہ دیاتھایاوہ ہرسال جاتے تھے اورمتعدد مرتبہ میں انہیں جامعہ میں محاضرہ دینے کا اتفاق ہوا،لیکن مولاناعلی میاں کو لگتاہے کہ محض ایک مرتبہ یہ بولنے کا شوق ہواکہ میں حنبلی ہوا، اناللہ واناالیہ راجعون
مزید عرض کردوں
چاند پر تھوکنے سے چاند گدلانہیں ہوگا، تھوکنے والے پر ہی لوٹ کر آتاہے
وماتوفیقی الاباللہ
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
صلاح الدین مقبول صاحب اور مولانا ابو الحسن الندوی کے مابین تقریبا وہی نسبت ہے جو آپ جیسے اور صلاح الدین مقبول صاحب کے درمیان ہے ، ان کے بارے میں آپ نے جو زبان استعمال کی ہے ، کم از کم اس جواز کو صلاح الدین مقبول صاحب کے لیے بھی روا رکھے کہ وہ ندوی صاحب کے بارے کچھ کہہ سکیں ، لکھ سکیں ، البتہ یہ بات پکی ہے ، صلاح الدین مقبول صاحب سات سو صفحات کی کتاب میں اس حد تک نہیں گئے ، جس تک آپ سات سطروں میں پہنچ گئے ہیں ۔
خضرحیات صاحب !فرماتے ہیں کہ میں نے سات سطروں میں جوکچھ کہہ دیا،صلاح الدین مقبول نے وہ سات سو صفحات میں نہیں کہا،شاید وہ مغالطہ دیناچاہتےہیں جیساکہ یہ مغالطہ اس نام کی کتاب میں بھی دیاجارہاہے۔
کتاب کا عربی نام ہے
’ الأستاذ أبو الحسن الندوی و الوجہ الآخر من کتاباتہ ‘‘
اورکتاب کا اردو نام ہے
مولانا ابو الحسن ندوی صاحب کی تصانیف کا ایک دوسرا رخ
مجھے نہیں پتا یہ اردو نام کس نے رکھاہے، اگرصلاح الدین صاحب نے رکھاہے تویہ بعینہ وہی بات ہے جس کاوہ مولانا پرالزام لگاتے ہیں کہ وہ عربی قارئین کے سامنے کچھ پیش کرتے ہیں اور اردو قارئین کے سامنے کچھ اور۔
عربی میں کتاب کا جونام لکھاہے اس کا مطلب ہوا"استاذ ابوالحسن الندوی کا دوسراچہرہ ،ان کی تصانیف کی روشنی میں"
جب کہ اردو میں دوسراچہرہ کی اضافت تصانیف کی جانب کردی گئی ہے۔کسی شخص کو دوچہروں والا کہناہوسکتاہے کہ خضرحیات صاحب کوئی چھوٹی بات سمجھتے ہوں کہ کوئی ان کو اوران کے اساتذہ کو دوچہرون والاکہے،لیکن اردو اورعربی سے واقفیت رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ کسی کے بارے میں دوچہرہ والا کہنا انتہائی قبیح بات ہے،اس لفظ کا ٹھیٹھ اردو ترجمہ "دوغلا"کے لفظ سے کیاجاتاہے۔میں نے تواپنی سات سطری تحریر میں صلاح الدین مقبول کو دوچہرہ والایادوغلانہیں لکھا،ہاں شروع کے الفاظ سخت ضرور ہیں اوراس کی وجہ صرف یہ ایک کتاب نہیں بلکہ ان کی دیگر کتابوں کا بھی مطالعہ ہےاوراسی حقیقت کو جلوہ گرپایاہے۔
آپ کہتے ہیں کہ اس کی تردید کیوں نہیں آئی،ندوہ والے تردید پر آتے توپتہ نہیں عربی اردو میں کتنی کتابیں لکھی جاتیں، لیکن فائدہ کیاتھا؟اس کا الٹافائدہ یہ ہوتاہے کہ ایک شہرت کے طالب کو مزیدشہرت ملتی،اہل ندوہ نے بہتر سمجھاکہ اس پر خاموشی اختیار کی جائے،ورنہ مولانا سلمان ندوی نے ایک دومرتبہ اہل حدیث حضرات پرتنقید کی تھی کہ ادھر سے ادھر تک زلزلہ برپاہوگیا ،ایک تو آپ حضرات میں تنقید برداشت کرنے کا مادہ نہیں،اوپر سے سوال ہوتاہے کہ اس کی تردید کیوں نہیں ہوئی اورکیوں نہیں لکھی گئی۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
خضرحیات صاحب !فرماتے ہیں کہ میں نے سات سطروں میں جوکچھ کہہ دیا،صلاح الدین مقبول نے وہ سات سو صفحات میں نہیں کہا،شاید وہ مغالطہ دیناچاہتےہیں جیساکہ یہ مغالطہ اس نام کی کتاب میں بھی دیاجارہاہے۔
کتاب کا عربی نام ہے
’ الأستاذ أبو الحسن الندوی و الوجہ الآخر من کتاباتہ ‘‘
اورکتاب کا اردو نام ہے
مولانا ابو الحسن ندوی صاحب کی تصانیف کا ایک دوسرا رخ
مجھے نہیں پتا یہ اردو نام کس نے رکھاہے، اگرصلاح الدین صاحب نے رکھاہے تویہ بعینہ وہی بات ہے جس کاوہ مولانا پرالزام لگاتے ہیں کہ وہ عربی قارئین کے سامنے کچھ پیش کرتے ہیں اور اردو قارئین کے سامنے کچھ اور۔
عربی میں کتاب کا جونام لکھاہے اس کا مطلب ہوا"استاذ ابوالحسن الندوی کا دوسراچہرہ ،ان کی تصانیف کی روشنی میں"
جب کہ اردو میں دوسراچہرہ کی اضافت تصانیف کی جانب کردی گئی ہے۔کسی شخص کو دوچہروں والا کہناہوسکتاہے کہ خضرحیات صاحب کوئی چھوٹی بات سمجھتے ہوں کہ کوئی ان کو اوران کے اساتذہ کو دوچہرون والاکہے،لیکن اردو اورعربی سے واقفیت رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ کسی کے بارے میں دوچہرہ والا کہنا انتہائی قبیح بات ہے،اس لفظ کا ٹھیٹھ اردو ترجمہ "دوغلا"کے لفظ سے کیاجاتاہے۔
نہ تو شیخ صلاح الدین صاحب کی کتاب کا اردو ترجمہ ابھی تک ہوا ہے ، اور نہ ہی یہ اردو عنوان ان کی طرف سے تجویز کردہ ہے ، یہ عنوان میری طرف سے ہے ۔ اور میں اس عنوان کو عربی عنوان کے قریب ترین سمجھتا ہوں ، بلکہ کتاب میں جو کچھ پیش کیا گیا ہے ، اس کے بھی مناسب ہے کہ انہوں نے ندوی صاحب کی کتابوں کا دوسرا رخ پیش کیا ہے ۔
اگر آپ کے نزدیک اس کا معنی ’’ دو غلا ‘‘ بنتا ہے ، تو یہ آپ کی سوچ ہے ، جس کے صلاح الدین صاحب یا کوئی اور پابند نہیں ۔ حیرانی کی بات ہے کہ وہ صراحت کےساتھ ’’ الوجہ الآخر من کتاباتہ ‘‘ یعنی ان کی کتابوں کا دوسرا رخ ، کہہ رہے ہیں لیکن آپ ندوی صاحب کو ہی ان کے نزدیک ’’ دو غلا ‘‘ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔
میں نے تواپنی سات سطری تحریر میں صلاح الدین مقبول کو دوچہرہ والایادوغلانہیں لکھا،ہاں شروع کے الفاظ سخت ضرور ہیں اوراس کی وجہ صرف یہ ایک کتاب نہیں بلکہ ان کی دیگر کتابوں کا بھی مطالعہ ہےاوراسی حقیقت کو جلوہ گرپایاہے۔
جی جس طرح آپ مخالف کی کتابوں میں کسی حقیقت کو جلو گر پاتے ہیں ، تو دوسروں نے آنکھیں بند نہیں کی ہوتیں کہ ان کے مخالف کی کتابوں میں کیا کیا جلوہ گر ہے ۔
آپ کہتے ہیں کہ اس کی تردید کیوں نہیں آئی،ندوہ والے تردید پر آتے توپتہ نہیں عربی اردو میں کتنی کتابیں لکھی جاتیں، لیکن فائدہ کیاتھا؟اس کا الٹافائدہ یہ ہوتاہے کہ ایک شہرت کے طالب کو مزیدشہرت ملتی،اہل ندوہ نے بہتر سمجھاکہ اس پر خاموشی اختیار کی جائے،
آپ بھی ان کے نقش قدم پر چلیں اور خاموشی اختیار کریں ، تاکہ شہرت کے طالبوں کو شہرت نہ ملے ۔ یا کہ آپ بھی صلاح الدین صاحب کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جس طرح انہوں نے شہرت کی خاطر ندوی صاحب پر تنقید کی ، آپ بھی شہرت کی خاطر صلاح الدین صاحب پر بے تکی تیر انداز کر رہے ہیں ۔ ؟!
ورنہ مولانا سلمان ندوی نے ایک دومرتبہ اہل حدیث حضرات پرتنقید کی تھی کہ ادھر سے ادھر تک زلزلہ برپاہوگیا ،ایک تو آپ حضرات میں تنقید برداشت کرنے کا مادہ نہیں،اوپر سے سوال ہوتاہے کہ اس کی تردید کیوں نہیں ہوئی اورکیوں نہیں لکھی گئی۔
جی تنقید شہرت حاصل کرنے کے لیے جو کی جاتی ہے ، اور سلمان ندوی سے بڑہ کر شہرت کے وسائل و ذرائع سے کون واقف ہو گا ۔ ہم نے آپ کو خط نہیں لکھا کہ صلاح الدین مقبول صاحب کی کتاب پر آکر تنقید کریں ، آپ خود کشاں کشاں تشریف لائے ہیں ، تو صاحب کوئی کام کی بات تو کریں ۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
اور میں اس عنوان کو عربی عنوان کے قریب ترین سمجھتا ہوں ، بلکہ کتاب میں جو کچھ پیش کیا گیا ہے ، اس کے بھی مناسب ہے کہ انہوں نے ندوی صاحب کی کتابوں کا دوسرا رخ پیش کیا ہے ۔
اگر آپ کے نزدیک اس کا معنی ’’ دو غلا ‘‘ بنتا ہے ، تو یہ آپ کی سوچ ہے ، جس کے صلاح الدین صاحب یا کوئی اور پابند نہیں ۔ حیرانی کی بات ہے کہ وہ صراحت کےساتھ ’’ الوجہ الآخر من کتاباتہ ‘‘
مجھے اب بھی حیرت ہے کہ آپ کتاب کے نام کے سلسلے میں مغالطہ دینے پر تلےبیٹھے ہیں،فاسئلواہل الذکر ان کتنم لاتعلمون پر عمل کرلیجئے، دوسرے بہتر عربی جاننے والوں سے پوچھ لیجئے کہ اس کتاب کا نام اورمفہوم صحیح طورپر کیاہے؟اگرآپ کے نام اورمفہوم ہی مراد ہوتاتوکتاب کانام شاید کتابات سید ابوالحسن علی الندوی والوجہ الاآخر یاکچھ دوسراہوتا،ان کی مراد وہی ہے،یقین نہ ہوتوان سے بذات خود فون یامیل کے ذریعہ پوچھ کر معلوم کرلیں۔
آپ بھی ان کے نقش قدم پر چلیں اور خاموشی اختیار کریں ، تاکہ شہرت کے طالبوں کو شہرت نہ ملے ۔ یا کہ آپ بھی صلاح الدین صاحب کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جس طرح انہوں نے شہرت کی خاطر ندوی صاحب پر تنقید کی ، آپ بھی شہرت کی خاطر صلاح الدین صاحب پر بے تکی تیر انداز کر رہے ہیں ۔ ؟!
یقیناانکے نقش قدم پر گامزن ہیں، نہ ہم نے کوئی کتاب لکھی، نہ پوسٹرشائع کرایا،ہاں ایک فورم پر ایک مختصر مضمون (ہی کہہ سکتےہیں)ضرور لکھا،لیکن آپ پھراسی بات کی تائید کررہے ہیں،جومیں نے کہی تھی کہ آپ حضرات کوتنقید کرنے کا شوق توبہت ہوتاہے لیکن تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ بہت کم ہوتاہے،یہی وجہ ہے کہ آپ نے تلملاکر یہ فرمادیا
ہم نے آپ کو خط نہیں لکھا کہ صلاح الدین مقبول صاحب کی کتاب پر آکر تنقید کریں ، آپ خود کشاں کشاں تشریف لائے ہیں ، تو صاحب کوئی کام کی بات تو کریں ۔
سوال یہ ہے کہ پھر ایک اوپن فورم پر تحریر لکھی ہی کیوں تھی ؟کسی میگزین یاماہنامہ میں بھیج دیتے،یاپھر تحریر کے آخرمیں لکھ دیناتھاکہ:
یہ صرف ستائش کیلئے لکھاگیامضمون ہے ،براہ کرم صرف دادوستائش سے نوازیں، تنقید واختلاف کی جسارت نہ کریں،
اب ہمیں کسی کے دل کی بات کیامعلوم کہ اس نے محض مدح وستائش کیلئے یہ تحریر لکھی ہےاورتنقید واختلاف سے پارہ چڑھنے لگتاہے۔غلطی ہوگئی حضور،لیکن آپ سے بھی گذارش ہے کہ آئندہ اگرمحض مدح وستائش کیلئے کوئی تحریر لکھیں تو اس میں وضاحت کردیں،ورنہ ہوسکتاہے کہ یہ جسارت آئندہ بھی ہوجائے جوطبع نازک پر گراں گذرے۔
وماتوفیقی الاباللہ
 
Top