ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,378
- پوائنٹ
- 635
مولانا اکر م اعوان کی نرالی منطق…چند معروضات
محمد عطاء اللہ صدیقی
اداکارہ انجمن کے ’اعزاز‘ میں منعقدہ تقریب میں تنظیم الاخوان کے امیر مولانا محمد اکرم اعوان صاحب کی شرکت کے حوالے سے راقم الحروف کی ناقدانہ معروضات اورردّ عمل ۲۴؍ اپریل کے روزنامہ ’’خبریں‘‘ میں شائع ہوا۔ جس کے جواب میں جناب محترم اعوان صاحب کا موقف ’’خبریں‘‘ کی ۳۰ ؍اپریل کی اشاعت میں شائع ہے ۔ اپنے موقف میں راقم کی طرف سے اٹھائے گئے اصولی اعتراضات کے متعلق شرعی رائے کے اظہار کی بجائے انہوں نے خلط ِمبحث ، متناقض تاویلات اور بڑی حدتک جواباً شخصی الزامات اور ’مذمت‘کے پیرائے کو اختیار فرمایا ہے ۔راقم الحروف کسی بحث وجدل اورغیر ضروری مناقشت کو پسند نہیں کرتا لیکن مولانا صاحب کی جارحانہ گرفت پرسکوت اختیار کرنے کا واضح مطلب یہی ہو گا کہ ان کے بے جا الزامات کی صداقت کوتسلیم کر لیا گیا ہے ۔ مزید برآں اگر مسئلہ محض راقم کی کردا رکشی تک محدود ہوتا تواسے در خور ِاعتنا نہ سمجھ کر نظر انداز کیا جاسکتا تھا۔ لیکن یہاں تو صورت یہ ہے کہ اسلامی شریعت کے بنیادی اصول ،سماجی اقدار ، او رصحافت کا پیشہ بھی مولانا اعوان صاحب کے جلالی الزامات کی زد میں ہیں۔ چونکہ مسئلہ افراد کا نہیں بلکہ اصولوں کا ہے، اسی لیے اس کے متعلق ابہام کو رفع کرنا اشد ضروری ہے …راقم الحروف نے جو معروضات پیش کی تھیں، اس کے اہم نکات یہ ہیں:مندرجہ بالا کسی ایک نقطہ کی شریعت ِمطہرہ کی روشنی میں وضاحت اوراس کے بارے میں قارئین کی راہنمائی سرانجام دینے کی بجائے انہوں نے محض بے ربط اوربے نقط الزام تراشی پر اکتفا کرنا ہی مناسب سمجھا۔مناسب معلوم ہوتاہے کہ مولانا اکرم اعوان صاحب کے ارشادات کی حقیقت کو واضح کیا جائے …اس کے بعد معاملہ قارئین پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ خود ہی فیصلہ کریں کہ ان کی با ت میں کس قدر وزن ہے؟(۱) کیا اسلامی شریعت کی رو سے ایک عالم دین اور روحانی سلسلہ کے پیشوا کا ایک فلمی عورت کی ’’عزت افزائی‘‘ کے لیے منعقدہ تقریب میں شریک ہونا منا سب ہے ؟
(۲) ہمارے ہاں جس طرح سے فلم کو پیسہ کمانے اور عریانی پھیلانے کا ذریعہ بنا دیا گیاہے ، کیایہ پیشہ اپنی نوعیت کے اعتبا ر سے اس قابل ہے کہ اسے قابل مبارک باداور لائق تحسین سمجھا جائے؟
(۳) فلم جیسے ناپسندیدہ اورمکروہ پیشہ سے وابستہ افراد ’معزز‘کہلائے جا سکتے ہیں یاکسی روحانی شخصیت کے ان کی تقاریب میں شریک ہونے سے ان کی عزت میں اضافہ ہو جاتا ہے ؟
(۴) مولانا اکرم اعوان صاحب کتاب وسنت اورعلماء ِکرام وصوفیاء ِعظام کے تعامل کی روشنی میں اپنے مذکورہ طرز عمل کادفاع کرسکتے ہیں اوراگر نہیں تو ان کی اس خود ساختہ شریعت کی حقیقت کیا ہے ؟
(۱) مولانا اعوان صاحب تحریر فرماتے ہیں: ’’آپ نے درست نہیں لکھا ۔ آپ نے محض ایک اخبار میں چھپے ہوئے کو بنیاد بنایا جو اپنے ہی ملک کااخبار ہے اور اپنی مرضی کا مالک ہے …ضروری نہیں کہ درست ہی لکھے‘‘
قارئین کرام! راقم الحروف نے روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ جیسے مؤقر روزنامے میں شائع شدہ خبر کے متن کی بنیاد پر اپنی معروضات پیش کی تھیں۔ ۱۳ ؍اپریل کو ان کے متعلق خبر شائع ہوئی تھی اور ۲۴؍اپریل کو خبریں میں راقم کے مضمون کی اشاعت تک مولانا اعوان صاحب کی طرف سے اس اہم خبر کے متعلق کسی قسم کی تردید شائع نہ ہوئی ۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ اپنے جس مضمون میں مذکورہ شکوک وشبہات تحریر کرتے ہیں، اسی میں اس خبر کی تائید بھی کرتے ہیں ۔ اپنے موقف کی وضاحت میں انہوں نے نہ تواس بات کی تردید کی کہ وہ انجمن کی تقریب میں شریک نہ ہوئے اور نہ ہی انہوں نے خبر کے کسی حصہ کی خاص طور پر صحت سے انکار کیا ۔ اس کے باوجود انہیں گلہ ہے کہ ان کے خلاف مضمون ’’محض ایک اخبار‘‘ کی خبر کی بنیاد پر شائع کیاگیا ہے ۔ راقم الحروف نے ان کے اس بیان کو کہ فلمی صنعت کی کارکردگی قابل تحسین ہے، تنقید کا نشانہ بنایا تھا ، اب وہ خود ہی لکھ رہے ہیں ’’مفہوم یہی تھا کہ آپ لوگوں نے جن حالات میں غیر ملکی فلم انڈسٹری کامقابلہ کیا ہے ، وہ واقعی مبارک کے لائق ہے ‘‘ انہوں نے اپنے بیان میں پاکستان کے اردو اخبارات کے بارے میں بھی یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ قابل اعتماد نہیں ہیں او ریہ بات فراموش کر گئے کہ ان کے حق میں خبریں بھی انہی اخبارات میں شائع ہوتی ہیں۔
۲۔ مولانا اکرم اعوان صاحب کا دوسرا ارشاد ملاحظہ ہو ! ’’آپ کا ارشاد ہے کہ ممکن ہے مولانا اکر م اعوان اپنی اس حرکت کا دفاع کریں؟ ماشاء اللہ کس سے دفاع ؟آپ سے یا آپ جیسے ان سب لوگوں سے جو ہر ظلم میں برابر کے شریک ہیں؟
راقم الحروف کی مولانا سے عقیدت مندی محض غائبانہ تعارف پر مبنی تھی ،ان سے ذاتی شناسائی کا تعلق ہرگز نہیں ہے ۔ بعض اہل دانش وتدبر کی ان کے بارے میں عقیدت سے درحقیقت متاثر ہو کر راقم بھی ان کامعتقد ہو گیاتھا ۔ کسی قسم کی جان پہچان کے بغیر مولانااعوان صاحب راقم الحروف کو ہر طرح کے ظلم میں برابر کاشریک سمجھتے ہیں ۔ اسلامی شریعت میں تو اس سوئے ظن کا کوئی جواز نہیں ہے شاید ان کی خانہ ساز طریقت میں اس کا جواز پایا جاتا ہو۔
(۳) راقم ،مولانا کے درج ذیل ارشادات کا سیاق وسباق سمجھے سے قاصر ہے …فرماتے ہیں !حقیقت یہ ہے کہ مولانا اکر م اعوان صاحب پندار ذات او رپیرانہ نخوت پسندی کے اس ہمالہ پر متمکن ہیں جہاں انسان اپنے آپ کو ہر تنقید سے متبرا اورہر خطا سے معصوم سمجھنے کی غلطی فہمی میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔ چونکہ وہ ہزاروں لوگوں کے روحانی پیرومرشد ہیں، لہٰذا ان کے کسی غیر شرعی عمل کی نشاندہی کرنے والا ان کے عتاب کا شکار ہو کر ’’ہر ظلم میں برابر کی شراکت‘‘ کاملزم بھی ٹھرتا ہے ۔ ہم مولانا اکرم صاحب سے نہایت ادب سے گزارش کریں گے کہ اگر وہ پندارِ روحانیت کے اس مصنوعی خول سے لمحہ بھر کے لیے باہر نکلنا گوارا فرمائیں توہم یہ عرض کرنے کی جسارت کریں کہ عوامی راہنما ، سیاستدان ، پیر یا عالم دین کاذاتی کردار بھی ’’پبلک پراپرٹی‘‘ قرار پاتا ہے ۔ جدید جمہوری دور میں مولانا صاحب !آپ محض یہ کہہ کر ’’میں کام اللہ کے لیے کرتا ہوں اورمیرے دفاع کے لیے وہی ذات کافی ہے ’’ اپنی جان نہیں چھڑا سکتے۔ اگر آپ کو اس بدقسمت قوم کی راہنمائی پر اصرار ہے اورآپ فی الواقع یہ سمجھتے ہیں کہ آپ اسلامی انقلاب کے علمبردار ہیں تو پھر آپ کواپنے طرز ِعمل کادفاع قرآن وسنت کی روشنی میں کرنا پڑے گا ۔ ورنہ آپ رضاکارانہ طور پر اس منصب سے دستبردار ہو جائیں اور پھر جو جی میں آئے کریں ، آپ پھر عوامی احتساب کے مکلف نہیں رہیں گے ۔
’’آپ کو توصرف میری ذا ت میں کفر نظر آیا ، مگر کسی ظالم کے خلاف کسی مظلوم کے حق میں نہ آپ کی نظر اٹھی اور نہ کوئی نقطہ نظر سامنے آیا ۔سینکڑوں لوگ جل مرے، لاکھوں قتل ہوئے ،ہورہے ہیں ،سینکڑوں نئے شراب خانہ کھل گئے۔ پورا معاشی نظام سو د پر چل رہا ہے۔ آپ بھی نوشِ جان فرمار رہے ہیں ۔ ہوٹلوں میں لڑکیاں سپلائی ہورہی تھی… مگر آپ کے لیے سوچنے کاکوئی نکتہ نہ بن سکا ۔‘‘
مولانا اعوان صاحب جس جذباتی اعصاب زدگی میں الزامات کی یہ بوچھاڑ کر رہے ہیں، اس کے بارے میں بجاطور پر کہا جاسکتا ہے … ع
دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
موصوف نے یہ فرض کر لیا ہے کہ راقم الحروف ان تمام جرائم کی طویل فہرست میں اعانت کا مرتکب ہے او ر ظلم کی یہ تمام صورتیں اس نے خوش دلی سے قبو ل کر لیں ہے۔ البتہ مولانا اکرم صاحب کی انجمن کی تقریب میں شرکت کے جرم کومعاف نہیں کر سکا۔انہیں اس سے غرض نہیں ہے کہ راقم کاان جرائم کے بار ے میں آج تک کیا ردّعمل رہا ہے ،وہ تو مدعی بھی خود ہیں او منصف بھی خودبن بیٹھے ہیں۔ شاید وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ جس ملک میں قتل وغارت اور سود کا کاروبار ہورہا ہو وہاں فلمی عورتوں کی مجلس میں جلوہ افروز ہوناکوئی بہت بڑی بات نہیں ہے ۔ لیکن سیدھے بھاؤ یہ بات کرنے کی بجائے انہوں نے مذکورہ جذباتی فرد ِجرم عائد کرنا گوارا کیا ہے ۔ وہ تقاضا کر رہے ہیں کہ ان کی کسی بات پراعتراض وارد کرنے سے پہلے اشد ضروری ہے کہ مذکورہ جرام کے خلاف لکھے گئے مضامین کاانبار پیش کیا جائے ورنہ ان پر تنقید کاحق باقی نہیں رہتا ۔ اس پوری منطق کوکوئی شخص بقائمی ہوش وحواس قبول کر سکتا ہے ؟ اس کا فیصلہ قارئین کرام خود فرمائیں۔مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
(۴) مولانا اکرم صاحب کے موقف میں پیش کردہ سب سے قابل اعتراض اورفتنہ انگیز بات یہ ہے کہ :
’’آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ انجمن گذشتہ اٹھارہ سال سے ایک شریف آدمی کی بیوی ہے اورایک شریف خاندان کی بہو بھی ہے ۔کاش آپ کی زبان کو بھی یہ سب کچھ کہتے ہوئے خیال ہوتا۔ کیا آپ کو نہیں معلوم کہ قبولِ اسلام کے وقت مکہ مکرمہ میں عورتیں پیشہ کرتی تھیں۔ کیا اسلام نے انہیں قبول نہیں کیا؟ کیا رحمت ِعالم ﷺ صرف آپ جیسے پارساؤں کے لیے مبعوث ہوئے تھے ؟ کیا گنہگارکے لیے کوئی اوردروازہ ہے ۔‘‘
(ب) مندرجہ بالا اقتباس کے دوسر ے حصے میں مولانا اکر م صاحب نے اپنے قابل اعتراض عمل کو حضورِ اکر م ﷺ۔ کی سنت ِمبارکہ سے تشبیہ دینے کی جسارت کی ہے ۔ مذکورہ واقعہ سے جو انہوں نے استنباط فرمایا ہے وہ صریحاً غلط اورحد درجہ فتنہ انگیز ہے جس میں صحابیات پر الزام تراشی کا عنصر بھی موجود ہے۔ یہ با ت درست ہے کہ طلوعِ اسلا م کے وقت مکہ میں بعض عورتیں پیشہ کرتی تھیں لیکن وہ تمام کی تما م لونڈیاں تھیں، ان میں سے شریف گھرانے کی ایک بھی عورت نہ تھی ۔ پھر اس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ کہ ایک بھی ایسی پیشہ کرنے والی عورت نہ تھی جس نے اسلام قبول کرنے کے بعداس پیشے کو جاری رکھا ہو۔ انہوں نے توبہ کی تھی اورصالح زندگی کاآغاز کیا تھا۔ کہاں و ہ اسلام قبول کرنے کے بعد شریفانہ زندگی بسر کرنے والی مسلمان صحابیات اورکہاں آج کی فلمی عورتیں اور مکروہ طوائف زادیاں جو اس پیشے کو فن سمجھ کر اختیار کیے ہوئے ہیں ۔ اورآپ انہیںاس فن میں پختہ ترہونے کیلئے ان کی عزت افزائی فرماتے ہیں …مناسب ہوتا،مولانا اعوان صاحب ہماری معلومات میں اضافہ کرنے کی بجائے اپنے معیارِ شرافت پر کھل کر ر وشنی ڈالتے ۔ مولانا صاحب آپ بتانا پسند فرمائیں گے کہ ایک شریف آدمی کی بیوی اور ایک شریف خاندان کی بہو کا اعزاز حاصل کرنے کے بعد انہوں نے فلموں سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی ؟ وہ کیسا شریف خاندان ہے کہ جس کی بہو ’’سیکس سمبل‘‘ قرار پائی ہو او راس کی شرافت پر کوئی حرف نہ آئے ؟ کیا شرافت بھی یہودیت کی طرح کوئی مستقل بالذات چیز ہے جو ہر طرح کے برے اعمال کے ارتکاب کے باوجود پوری شان سے قائم ودائم رہتی ہے ؟ کیا اس خاندان نے انجمن کو محض شر افت کی بنیاد پر اپنی بہو بنایا تھا۔ اورمولانا اعوان صاحب آپ نے اسی شرافت میں استحکام لانے کی غرض سے مذکورہ تقریب میں شرکت فرمائی تھی؟ اگر آپ نے انجمن اور اس کے سسرالی خاندان کے بزعم خویش وکیل صفائی کامنصب اختیار کر لیا ہے توپھر ان سوالات کاجواب دینا آ پ پر قرض ہے ۔ مزید برآں اگر آپ کی اس کی نامعقول منطق کو تسلیم کر لیاجائے تو پھر اس کے مضمرات کیا ہو ں گے ؟ کیا آپ کی اس سند ِشرافت کے بعدفلموںمیں کام کرنے والی تمام بدکار عورتیں بلاامتیاز ’’شریعت زادیاں‘‘ نہیں بن جائیں گی؟کیا وہ گھرانے جو محض اپنی شرافت کا بھرم قائم رکھنے کے لیے اپنی لڑکیوں کو فلموں میں کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے ، ان کے پاس کوئی اخلاقی جواز باقی رہے گا؟ کیا اس سے فلمی صنعت میں جانے کا رجحان فروغ نہیں پائے گا؟ اور پھر اگر فلموںمیں کام کرنے والیاں بھی شریف ہی قرار پائیں گی تو موجود شرفا کا کیا بنے گا؟ شریف اور غیر شریف کے موجود معیارات اور سماجی قدریں کیا اپنا وجود برقرار رکھ سکیں گی؟ پھر آخری سوال ذرا ذاتی سطح پر ! اگربالفرض مولانا اکرم صاحب کو فلمی پیشے میں کوئی بات قابل اعتراض نظر نہیں آتی تو کیاوہ اس ’’شریفانہ‘‘ پیشے میں علماء اوردینی گھرانوں کی بہو بیٹیوں کو بھی دیکھنا پسند فرمائیں گے؟
چہ نسبت ایں خاک را بہ عالم پاک
مدینہ میں قحبہ گری تمام تر لونڈیوں کے ذریعہ سے ہوئی تھی۔ نبی اکر م نے اعلان فرمادیا کہ اسلام میں قحبہ گری کے لیے گنجائش نہیں ہے (ابوداود) دوسرا حکم جو آ پ نے دیا،وہ یہ تھا کہ زنا کے ذریعہ حاصل ہونی والی آمدی حرام ہے ،ناپاک اور قطعی ممنوع ہے ۔ آپ نے زنا کے معاوضے کو خبیث ،ناپاک اور بد ترین آمدنی قرار دیا(ابوداود،ترمذی) قرآن مجید میں ارشاد ہے ’’اور اپنی لونڈیوں کواپنے دنیوی فائدوں کی خاطر قحبہ گری پر مجبور نہ کرو جب کہ وہ خود پاک دامن رہنا چاہتی ہوں‘‘(النور:۳۳)(۵) معلوم ہوتا ہے مولانا اکرم اعوان صاحب کو روحانی وظائف اور تزکیہ نفس کی ریاضتوں سے فرصت نہیں ملتی کہ وہ اسلامی فقہ کا مطالعہ کر سکیں ،ورنہ وہ کبھی نہ لکھتے کہ فلمی صنعت لائق مبار ک باد ہے ۔ اگر یہ پیشہ مبارک ہے تو سوال پید ا ہوتا ہے پھر قابل مذمت کون ساپیشہ ہے ۔ فلمی پیشے کے متعلق معمولی سا علم رکھنے والابھی اس بات سے اتفاق کرے گا کہ یہ کسی بھی اعتبار سے پسندیدہ پیشہ نہیں ہے ۔ محض ایک قلیل تعداد کے جواس پیشہ سے وابستہ ہے، باقی اسے غلط سمجھتے ہیں ۔ گذشتہ کئی سالوں سے عاشق چوہدری جیسے صحافی اس پیشہ کو ’معزز‘ بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کی اپنی اخلاقی حالت یہ ہے کہ وہ فلمی اداکاراؤں کو’محترمہ‘ لکھنے سے بھی گریز نہیں کرتے لیکن عوامُ الناس نے ہمیشہ اسے قابل نفرت ہی سمجھا ہے ۔مولانا اکرم اعوان صاحب بڑے دھڑلے سے دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے ہر حکمران کے سامنے حق بات کہی ،انہوں نے راقم الحروف کو اپنی کیسٹ سننے کی بھی تلقین فرمائی ہے ۔ سوال پید ا ہوتا ہے کہ ان کا حق بات کہنے کاجذبہ محض حکمرانوں تک محدود ہے کیونکہ وہاں سستی شہرت کاامکان پایا جاتا ہے؟فلمی عورتوں کے سامنے اللہ اور اس کے نبی اکرم کے ارشادات کہنے کاان میں حوصلہ کیوں نہیں ہے ۔ وہ انجمن جیسی عورتوں کو فنی پیشہ چھوڑ کر شریفانہ زندگی گذارنے کی تلقین کیوں نہیں فرماتے ؟ فلمی پیشہ بھی تو قحبہ گری کی ایک قسم ہے ۔ کیا یہ ایک حقیقت نہیں ہے کہ فلموں سے وابستہ ۶۰ فیصد عورتوں کاتعلق ’’اُس بازا ر ‘‘ سے ہے ۔ فلمی صفت یا اس بازار میں سے ایک کو ختم کرنے سے دوسرا خود بخود ختم ہو جائے گا۔ فلمی پیشہ فحش پذیر ہے اور فحاشی سے بچنے کے لیے قرآن مجید میں جا بجا احکامات دئیے گئے ہیں۔
(۶) اپنے مضمون کے آخر میں مولانا اعوان صاحب ذاتیات پراترپر آئے ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں : ’’ویسے میری مخالفت میں آپ کے علاوہ بھی کچھ پارساؤں نے مہم جوئی شروع کی ہے، اس امید پر کہ ایوا نِ اقتدار سے چند ’’جوٹھے‘‘ ٹکڑے حاصل کر سکیں۔‘‘
تصوف نیک خوئی اورخلق کانام ہے (کشف المحجوب) پاکستان کے ایک روحانی سلسلے کے پیر ومرشد کی خوش خلقی اورخو ش گفتاری ملاحظہ فرمائیے۔ اپنی غیر شرعی حرکت کے دفاع میں کوئی متاثر کن بات تو کہنے سے معذور ہیں البتہ اپنے سے اختلاف ِرائے رکھنے والوں کو اقتدار کے ’’جوٹھے‘‘ ٹکڑوں کے طالب بتار ہے ہیں ۔ یہ لب ولہجہ کسی بناوٹی اور جعلی صوفی کاہی ہو سکتا ہے جسے بازاری عورتوں کی محبت میںرہنے سے کوئی عار نہیں ہے ۔ اگر پارساؤں کا کوئی گروہ اعوان صاحب کے خلاف مہم جوئی میں مصروف ہے تو اس کاراقم کو علم نہیں ہے ۔البتہ راقم الحروف کو نہ کسی پارسائی کا دعویٰ ہے اورنہ ہی وہ جھوٹے ٹکڑوں جیسے توہین آمیز طعنہ کا اپنے آپ کو مستحق سمجھتا ہے، ویسے تو اعوان صاحب کو دوسروں کو ’’جھوٹے ٹکڑے‘‘ کا طعنہ دینے کی بجائے اپنے مریدین کے ’’سچے اور پاک‘‘ ٹکڑوں کے متعلق فکر مند ہونے کی زیادہ ضرورت ہے ۔
ہم اپنی معروضات کو سید علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش ؒ کی معروف کتاب کشف المحجوب کے چند منتخب اقتباسات پر ختم کرتے ہیں :
(۱) تصوف نہ تو رسوم ہیں او رنہ ہی علوم …لیکن وہ اخلاق کانام ہے ۔
(۲) ریا زاہدوں کو تکان میں ڈالتاہے اورخواہش نفسانی صوفی کو رقص اور سرودمیں مبتلا کرتا ہے ۔
(۳) طریقت بے شریعت ریا ہے ۔
(۴) جان لو کہ شریعت اورطریقت میں رقص کی کوئی اصل نہیں ہے ۔