• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مولانا عبد اللہ گورداسپوری دنیا فانی سے آخرت کی طرف۔

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
بقیۃ السلف مولانا عبداللہ گورداسپوری رحمہ اللہ وفات پاگئے ہیں !
ابھی ٧مئی ٢٠١٢ خبر ملی ہے کہ مولانا رحمہ اللہ دل کے عارضے کی وجہ سے وفات پاگئے ہیں انا للہ وانا الیہ راجعون
نماز جنازہ ٨ مئی بروز منگل صبح ١٠ بجے گورنمنٹ ڈکری کالج بورے والا میں ادا کی جائے گی ۔

شیخ ابن بشیر الحسینوی کے بلاگ سے خبر)

اللہ کریم مولانا کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے، آمین ثم آمین

انکے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
امرتسر کا "رفوگر" اور ملت اسلامیہ کی رفوگری

عین قاف ثاقب
چار قدرتی نہروں کے دامن میں پرفضا مقام پر مغل بادشاہ شاہجہان کے آبادکردہ شہر کے ٹیلے پہ نصب مشہور توپ ( جو آجکل # G C University Lahore # کے سامنے مال روڈ کے چوک میں نصب ہے ) کے دامن میں محلہ چوھدریاں کے تقریبا وسط میں برلب سڑک آباد پاکستان کے پہلے وزیرخارجہ، محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ سے زیادہ ملکہ برطانیہ کے معتمد خاص اور نبوت کے جھوٹے دعویدار مرزا غلام احمد قادیانی لعنت اللہ کے دست راست چوھدری ظفراللہ ساہی کی پر شکوہ اور طلسماتی حویلی کے پہلو میں۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈسکہ شہر کی قدیم ترین جامعہ مسجد مبارک اہلحدیث۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (جہاں کچھ مرزائیوں اور ایک بریلوی فیملی محمد بشیر بٹ المعروف بوری بٹ فیملی کے قبول مسلک اھلحدیث کی وجہ سے علاقہ میں حالات کشیدہ تھے ) کی ازسرنوتعمیر کے وقت مسجد کے ڈھانچے میں پڑے ملبے پہ کھڑا سفید شلوار قمیض، کلہ دار عمامے، ہاتھ میں منقش نفیس چھڑی، فربہی مائل اکہرا بدن، گولائی آمیز مخروطی چہرے پہ کھلی لاریب کتاب سے انسیت اور وضو کی ضوفشانیوں سے چمکتی پیشانی، علم و حلم کے بے پایاں جہانوں کی ضیا پاشیوں کے نور سے منور سرمئی آنکھوں پہ نفیس چشمہ اور رخساروں کی بالائی ھڈیوں کا معمولی سا ابھار نصبی وجاہت و اکرام کا پتا دے رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روشن کتابی چہرے کے گرد ھالہ بنائے خوبصورت سفید چمکتی داڑھی اور لعلیں آمیز پان اور کتھے سے آشنائی کی چغلی کھاتے چمکتے دانت، بھاری بھر کم ٹھوس اور حکم آمیز شیرینی ء گفتار کے ساتھ حاضرین محفل کو مکمل طور پہ اپنے حصار میں لینے کے فن پہ مکمل عبور اور دسترس کی ہم آغوشی میں اگر وہ فاتح مرزائیت و مذاہب باطلہ مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمتہ اللہ علیہ کی ہم عصری کی علمی لطافتوں اور صحبت سے فیض یابی کا دعوی کرتے ہوئے برصغیر کی برطانوی فردوس ابلیس میں حوروں سے شستہ مخاصمت اور اس جنت میں برطانوی وظیفہ خوار حوروں کو ان کے نبوت کے جھوٹے دعویدار مرزا غلام احمد قادیانی لعنت اللہ کے مسلسل جھوٹوں اور کذابتوں سے آگاہی اور دعوت و تبلیغ کا دعویدار تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو بقول اس بوڑھے ( مولانا محمد عبداللہ گورداسپوی رحمتہ اللہ علیہ ) کے اگر اس میں یہ سارے علوم عصری اور علوم و فنون باطنی تھے تو اس کا کریڈٹ ریاست کشمیر کے ضلع اسلام آباد ( اننت ناگ ) کے علاقہ ڈور کے برہمنوں کے سب سے نمایاں درجے نہرو کے بعد منٹو شاخ کے پشمینی تاجر محمد خضر رحمتہ اللہ علیہ جو غالبا 1860ء میں امرتسر میں متوطن ہوگئے تھے کے گھر جوں 1868ء میں امرتسر میں پیدا ہونے والے بچے ثناءاللہ کو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو سات سال کی عمر میں والد اور چودہ سال کی عمر میں والدہ اور مزید کچھ دنوں بعد تایا جان محمد اکرم کی وفات کے بعد کاروباری اور خاندانی مدو جذر نے برادر اکبر محمد ابراہیم کے ساتھ رفوگری کے کام میں مصروف کر دیا لیکن اللہ سبحانہ و تعالی کو تو اس بچے کے ہاتھوں کسی اور کی "رفوگری " مقصود تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور خدا کا کرنا یوں ہوا کہ وہ بچہ کپڑوں کی "رفوگری" میں مصروف تھا کہ ایک باریش عالم اپنا ایک گرم قیمتی چوغہ رفو کروانے تشریف لائے اس بچے نے ان کو وقت دیا اور کام میں مصروف ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔ وہ بزرگ وقت مقررہ پہ تشریف لائے وقت کی پابندی اور بچے کے اخلاق و کردار سے متاثر ہوئے کچھ دیر بیٹھے گفتگو کی اور بچے کی حاضر جوابی،برجستہ کلامی، نقد ونظر اور شستہ گوئی سے بھی متاثر ہوئے تعلیم کا پوچھا اس نے انپڑھ ہونے کا کہا ۔۔۔۔۔۔ مگر جوہر شناس جوہری گدڑی میں پڑے "لعل" کو دیکھ چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔ تو جوہر شناس کے مشورہ پہ بچے نے تحصیل علم کچھ یوں شروع کیا کہ۔۔۔۔۔۔
ہے مشق سخن جاری، چکی کی مصیبت بھی۔۔۔۔۔۔
قدرت کو اس بچے کی گراں مایہ شخصیت سے لوگوں کے پھٹے پرانے کپڑوں کے بجائے اس کی حکمت سوز طبیعت سے ملت اسلامیہ کے دریدہ و چاک دامن کی "رفوگری" مقصود تھی۔۔۔۔۔۔ وہ بچہ کار روزگار کے ساتھ ساتھ تحصیل علم کی خاطر رئیس امرتسر مولوی احمد اللہ رحمتہ اللہ علیہ سے پنجاب میں استاد پنجاب مولانا حافظ عبدالمنان وزیرآبادی رحمتہ اللہ علیہ، سید نذیر حسین دھلوی رحمتہ اللہ علیہ اور دیگر کبار علماء کی مسند علم اور دیوبند اور کانپور کی جامعات سے فیضیاب ہو کر ملت اسلامیہ پہ چھانے والے فتنوں کی "رفوگری" کو نکلا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس بھر پور انداز سے نکلا کہ دروس و خطبات، جلسے تقریریں، مذاہب باطلہ پہ شدید نقد ونظر، آریاوں، سماج وادیوں، عیسائیوں، شیعوں، حنفیوں،مرزائیوں سے مناظرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تصنیفات و تالیفات، جرئد و مجلات، سیاسی،عصری و ملی تحریکوں کی قیادت، خصوصا قادیانیت کی تردید و تکفیر ( جسے بابا جی موصوف نے شستہ طبعی سے تجہیز و تکفین سے معنوں کیا ) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس رفوگر نے ملت اسلامیہ کے دریدہ دامن اور چاک گریباں کی ایسی "رفوگری " کی کہ مولانا ظفر علی خان کو لکھنا پڑا کہ
" مولانا ابوالوفاء امرتسری کی وفات حسرت آیات کے ساتھ ہی دنیا سے "حاضر جوابی" ختم ہوگئی " ( سیرت ثنائی )
رئیس الاحرار سید عطاءاللہ شاہ بخاری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
" میرے نزدیک اسلام کی صداقت و حقانیت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے۔ کہ ثناءاللہ ایسا زیرک،معاملہ فہم، ذہین و فطین انسان اسلام کا علمبردار ہے اور یہ صداقت اسلام کا جیتا جاگتا، چلتا پھرتا معجزہ ہے " ( المنبر لائل پور )
مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی رحمتہ اللہ علیہ نے تو مولانا ثنااللہ امرتسری کی زندگی اور ان کی مساعی جمیلہ کے عین دور شباب میں غالبا 18 اکتوبر 1918ء کو لاہور میں منعقدہ جلسہ عام میں "مجددین" کے کارناموں کی نوعیت کی توضیح فرماتے ہوئے کہا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔
" جو بدعت کسی زمانے میں زور پر ہو اس سے اسلام اور اسلام کو بچانے اور اس کو "رد" کرنے میں جو کوئی جتنا حصہ لے گا۔ اسی قدر "مجددیت" سے اس کو حصہ ہوگا جو سب سے ذیادہ تردید اور ازالہ میں "توغل" کرے گا۔ اس کو زیادہ حصہ ہوگا۔ خود اس کا دعوی کرنا "شرط مجددیت" نہیں "
اس تمہید کے بعد مولانا میر سیالکوٹی نےقادیانی بدعت کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ۔۔۔۔۔۔
" اس بدعت کو مٹانے میں جس نے بہت زیادہ حصہ لیا۔ یہاں تک کہ قوم کی طرف سے اسکو "فاتح قادیان" کا خطاب ملا۔ بس "وہ"اس صدی کا "مجدد" ہے "
( فتنہ قادیانیت اور مولانا ثنااللہ امرتسری رحمتہ اللہ علیہ ص 322 )
از سر نو زیر تعمیر مسجد کے ملبے پہ کھڑے بوڑھے نے اپنے دائیں ہاتھ کی انگلی کو مجمع پہ لہراتے ہوئے انہیں احساس دلایا کہ (# راقم الحروف کا شدت سے جی چاہتا ہے کہ بابا جی کے خصوصا ان الفاظ اور باڈی لینگویج کی اسی شستہ پنجابی زبان اور لہجے میں سمو دے مگر قارئین کے لیے پنجابی پڑھنے کی مشکل کا احساس آڑے آتا ہے )
" او ڈسکہ والو آپ خوش قسمت لوگ ہو کہ آپ کو مولانا ثناءاللہ امرتسری رحمتہ اللہ علیہ کے ہم عصر مولائے میر مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی (ان کی آواز شدت جذبات سے رندھ گئی اور کہا مولانا ثنااللہ فرمایا کرتے تھے کہ " میرے ابراھیم ناں دے دو پراہ سن اک نے مینوں کمانا سکھایا تے دوجے نے میری اوس طرح دلجوئی کیتی جیویں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دی اماں خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کیتی کہ گورداسپور مینوں ماریا جاندا تے سیالکوٹوں مینوں حوصلہ تے تھپکی جاندی )۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور مولانا (ثناءاللہ امرتسری ) کے فیض یافتگان مولانا رانا محمد رفیق خاں پسروری رحمتہ اللہ علیہ اور ان کی دوسری نسل (امیر محترم پروفیسر ساجد میر اور برادرم رانا شفیق خان پسروری مراد تھے ) بھی میسر اور اللہ کی توفیق اور رحمت سے اسی راہ عمل پر گامزن ہے (اپنے سینے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے ) مجھ فقیر کو بھی جب آواز دیتے ہو اپنی پیرانہ سالی کے باوجود ان بزرگوں کی محبت میں چلا آتا ہوں کہ سیالکوٹ سے میری خاص "انسیت" ہے۔ یہ میرا دوسرا گھر ہے ( اے میرا "پیر خانہ" اے میرے استاد و مشفق و محسن مولانا ثنااللہ امرتسری رحمتہ اللہ علیہ دے وی پیراں دا ڈیرا اے ( مراد وزیرآباد اور سیالکوٹ تھے استاد پنجاب محدث عصر مولانا حافظ عبدالمنان وزیرآبادی اور مولائے میر ابراہیم میر سیالکوٹی رحمتہ اللہ علیہم اجمعین کی ان سے شفقتوں کے باعث ) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "
گفتگو کے اختتام میں فرمانے لگے ۔۔۔۔۔۔ اے میرا پتر مولوی حیات ( مولانا محمد حیات محمدی مرحوم رحمتہ اللہ علیہ سابق امیر مرکزیہ تحصیل ڈسکہ) ایتھے موجود اے تسی جدن واج مارو گے میں فیر آجاواں گا۔۔۔۔۔۔!!!!
صاحبان بابائے تبلیغ مولانا محمد عبداللہ گورداسپوی رحمتہ اللہ علیہ نے ڈسکہ میں پاکستان کے پہلے قادیانی وزیرخارجہ چوھدری ظفراللہ ساھی کی حویلی سے ملحقہ اسی فیملی کے بزرگوں کی تعمیر کردہ شہر کی غالبا پہلی مسجد جامعہ مسجد مبارک اھلحدیث پرانا ڈسکہ میں خطاب فرماتے ہوئے اور ڈسکہ کو اپنا دوسرا گھر قرار دیتے ہوئے مولائے میر سیالکوٹی رحمتہ اللہ علیہ، مولانا رانا رفیق خاں پسروری رحمتہ اللہ علیہ کے علاوہ ایک مولانا احمد دین گکھڑوی رحمتہ اللہ علیہ کا نام لیا اور ہمجولیوں کے تذکرے کی پر وصال کسک آمیز یادوں کو ندرت آویزش سے نوازا۔۔۔۔۔۔۔ اور اپنے ہم عصر دوستوں کے تذکرے کے دوران پرانے اور منجھے ہوئے خطباء اور مقررین کی طرح روانی سے گفتگو ، متناسب زیر وبم پر انتہائی مشاق تاریخ دان کی طرح جو نظر تو ناظرین پر مرکوز رکھے اور اس کا وسیع اورپختہ vision اس کے سامنے باادب دامن پھیلائے بیٹھا ہو اور اس کے ازمودہ الفاظ خواہش کناں ہوں کہ "وہ" فیصلہ کرے کہ کسے کہاں آنا ہے۔۔۔۔۔۔۔ معذرت سے ان کی گفتگو میں لہجے، الفاظ، ادائیگی و ابلاغ کی ندرت کا حسین امتزاج تھا نہ کہ عصر حاضر کے بعض خطباء و مقررین کی طرح ساؤنڈ سسٹم سے زور آزمائی۔۔۔۔۔۔ اس متوازن گفتگو میں انھوں نے ماضی کھنگالتے ہوئے اپنے دوستوں کے تذکار میں فرمایا کہ۔۔۔۔۔۔
"مولانا رانا محمد رفیق خاں پسروری رحمتہ اللہ علیہ نے (شاہی سواری ) اپنا ٹانگہ گھوڑا اور ذاتی ساؤنڈ سسٹم رکھا ہوتا تھا اور جس پر ہم سب دوستوں کو علاقے میں کہیں بھی جانے اور تبلیغ دین کی سہولت مفت ملتی تھی "۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس ٹانگہ گھوڑا کا تذکرہ میں نے اپنے ہی شہر میں پسرور روڑ پر مسجد مکرم اھلحدیث کے پاس "شاھی انڈسٹریز " کے مالکان حاجی محمد اکبر،اور حاجی محمد اصغر برادران مرحومین اور حاجی محمد علی صاحب کی زبان سے بھی سنا کہ رانا رفیق خان پسروری ، مولانا محمد حسین شیخوپوری،مولانا محمد عبداللہ گورداسپوی، حافظ محمد عبداللہ شیخوپوری، مولانا احمد دین گکھڑوی رحمتہ اللہ علیہماجمعین اور دیگر علماء ہمارے گاؤں بھلر تھانہ بمبانوالہ تحصیل ڈسکہ تشریف لاتے تو گھروں کی چھتوں پر ہی سپیکر وغیرہ رکھ کر وعظ شروع ہوجاتا اور فجر کی اذان کا وقت ہونے کا اندازہ ہی نہ ہو پاتا اور ہفتہ ہفتہ ایک ہی گاوں یا علاقہ کی مہمانوازی میں رہتےاور انہیں بزرگوں کی محنتوں کا ثمر اور ان کے مرید خاص،درویش منش بزرگ اور سابق امیر مرکزی جمعیت اھلحدیث تحصیل ڈسکہ مولانا محمد حیات محمدی رحمتہ اللہ علیہ کی محنتوں اور محبتوں کا بہت بڑا حصہ ہے جن کی غیر متنازعہ اور ولیء الھیہ شخصیت دیگر مسالک کے لوگوں کے لیے بھی قابل قبول اور قابل فخر ہوا کرتی تھی کہ جن کی محنتوں اور محبتوں کے طفیل تحصیل ڈسکہ کے کئی دیہات پورے پورے گاوں ہی اہلحدیث ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ الحمداللہ​
 
Top