• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مولانا نہرو

حیدرآبادی

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2012
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
500
پوائنٹ
120
جواہر لال نہرو کے متعلق بہت سی ایسی باتیں ہیں جو انھیں ایک مقبول لیڈر، ایک شوقین مزاج شخص، دوستی یاری نبھانے والا اور سائنسی نقطہ نظر کی فکر رکھنے والا شخص کے طور پر پیش کرتی ہیں۔
اپنے زمانے میں نہرو کا شمار دنیا کے پانچ بہترین انگریزی زبان میں لکھنے والوں میں ہوتا تھا۔ کسی دوسرے شخص کے لکھے کسی کاغذ پر دستخط کرنا ان کی شان کے خلاف ہوتا تھا۔

نہرو اپنے پر بہت کم پیسے خرچ کرتے تھے۔ ان کی سکیورٹی پر مامور ایک افسر کے ایف رستم جی لکھتے ہیں کہ ایک بار ڈبروگڑھ کے سفر کے دوران وہ ان کا سگریٹ کیس لینے ان کے کمرے میں گئے تو انھوں نے دیکھا کہ ان کا ملازم ان کے پھٹے ہوئے سیاہ موزے سی رہا ہے۔ نہرو کو فضول خرچی بہت ناپسند تھی۔
کئی بار وہ اپنی کار ركوا كر اپنے ڈرائیور کو بھیجتے تھے کہ وہ باغ میں چل رہا پانی کا پائپ بند کر کے آئے۔ ایک بار سعودی عرب کے دورے کے دوران انھوں نے ریاض کے جگمگاتے شاہی محل کے ایک ایک کمرے میں جا کر اس کی لائٹیں آف کی تھیں۔

ایک بار کسی نے کے ایف رستم سے پوچھا کہ کیا نہرو شراب پیتے ہیں۔ ان کا جواب تھا کبھی نہیں۔ جی ہاں انھیں سگریٹ پینے کی عادت ضرور تھی۔
وہ سٹیٹ ایکسپریس 555 پیا کرتے تھے۔ پہلے وہ دن بھر میں 20 یا25 سگریٹ پی جاتے تھے لیکن بعد میں وہ دن بھر میں صرف پانچ سگریٹ پیا کرتے تھے۔
نہرو کے وقت میں تمام غیر ملکی حکمراں یا تو صدارتی محل میں ٹھہرا کرتے تھے یا نہرو کی رہائش گاہ کی جگہ تین مورتی بھون میں۔ اس دوران ان غیر ملکی مہمانوں کے کمروں میں وزارت خارجہ کی طرف سے طرح طرح کی چنندہ شراب کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ شراب پیش کرنے کے لیے ایک انگریزی بولنے والا ساقی متعین کر دیا جاتا تھا۔
لیکن نہرو کی جانب سے دی گئی کسی سرکاری ضیافت میں کوئی بھی شراب کبھی پیش نہیں کی جاتی تھی۔

سردار پٹیل نہرو سے تیرہ سال بڑے تھے اور گاندھی سے سات سال چھوٹے تھے۔ اندر ملہوترا بتاتے ہیں کہ نہرو اور پٹیل کے گھر آس پاس تھے۔ نہرو نے انھیں کہہ رکھا تھا کہ جب بھی کوئی مشورہ کرنا ہو وہ خود ان کے گھر آئیں گے۔ انھیں ان کے یہاں آنے کی زحمت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
وہ ہمیشہ ان کے پاس پیدل جاتے تھے۔ مولانا آزاد ذرا دور رہتے تھے۔ اس لیے نہرو ان کے گھر گاڑی میں جاتے تھے اور گپ شپ کرتے تھے۔ ٹیلیفون پر نہرو کی كرٹسی ہوتی تھی کہ وہ خود اپنے ہاتھ سے مولانا کو فون ملاتے تھے۔
ایک دن انھوں نے اپنے ذاتی سیکریٹری ایم او متھائی سے کہا کہ مولانا صاحب سے فون پر بات کروائیے۔ جب مولانا نے فون لیا اور نہرو آئے تو ان کا پہلا جملہ تھا:
"جواہر لال تمہاری انگلیوں میں تکلیف ہے کیا کہ تم دوسرے سے فون ملوا رہے ہو۔" نہرو مولانا کا مطلب سمجھ گئے اور بولےآئندہ سے یہ غلطی کبھی نہیں ہوگی۔
ایک بار سردار پٹیل سے کسی نے پوچھا کہ اس وقت بھارت میں سب سے بڑا قوم پرست مسلمان کون ہے۔ سب سوچ رہے تھے کہ پٹیل، مولانا آزاد یا رفیع احمد قدوائی کا نام لیں گے، لیکن پٹیل کا جواب تھا :
"مولانا نہرو" !!

نہرو کو اپنے آپ کو غیر توہم پرست کہلانے میں مزہ آتا تھا۔ انھوں نے کبھی بھی کسی بت کے سامنے سر نہیں جھکایا، کبھی کوئی نذر نہیں پیش کی اور نہ ہی کسی نجومی سے مشورہ لیا۔ ایک بار 1954 میں کمبھ کے میلے کے دوران لال بہادر شاستری نے انھیں منانے کی کوشش کی کہ مونی اماوسیہ کے موقع پر وہ گنگا میں ڈبکی لگائیں۔
انھوں نے کہا کہ بھارت کے کروڑوں لوگ ایسا کرتے ہیں۔ نہرو کو ان لوگوں کا اورگنگا کا احترام کرتے ہوئے ایسا کرنا چاہیے۔ نہرو کا جواب تھا:
"گنگا میرے وجود کا حصہ ہے میرے لیے یہ تاریخی دریا ہے لیکن پھر بھی میں اس میں کمبھ کے دوران نہیں نہاؤں گا۔ ویسے اس میں نہانا مجھے پسند ہے، لیکن کمبھ کے دوران ہرگز نہیں۔"


بشکریہ بی بی سی مضمون : ’مولانا نہرو‘ کو غصہ شدید آتا تھا
 
Top