• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مومنوں سے دوستی اور کافروں سے دشمنی واجب ہے

شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
مومنوں سے دوستی اور کافروں سے دشمنی واجب ہے
اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے درمیان باہمی الفت کو واجب ٹھہرایا ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ مومنوں کی آپس میں محبت اور دوستی ایمان کے لوازمات اور اساسیات میں سے ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ کافروں اور مشرکوں سے محبت اور دوستی سے منع فرمایا ہے اور واضح کیا ہے کہ اہل ایمان کے لیے یہ قطعاً حرام اور شجر ممنوعہ ہے۔یہ بھی واضح فرمایا کہ کافروں سے دوستی رچانا اور ان کی نصرت وحمایت اور کسی طرح کی سپورٹ (support)کرنا ساری دنیا کے مسلمانوں کے عقیدہ وایمان کے بالکل منافی ہے۔​
مومنوں سے دوستی کے وجوب کی پہلی دلیل
مومنوں کے درمیان باہمی محبت ومودت واجب ہونے کے بارے میں اللہ تعالیٰ قرآن مجید اور فرقان حمید میں ارشاد فرماتے ہیں :​
﴿إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللہُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ W وَمَنْ يَتَوَلَّ اللہَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللہِ هُمُ الْغَالِبُونَ﴾(المائدہ55-56:)
''تمہارا دوست تو اللہ تعالیٰ ،اس کا رسول اور اہل ایمان ہیں ، جو نماز قائم کرتے ہیں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور (اپنے اللہ کے آگے)جھکتے ہیں ،جو شخص بھی اللہ تعالیٰ ،اس کے رسول اورمومنوں سے دوستی کرے گا تو (وہ اللہ کی جماعت اور پارٹی میں داخل ہوجائے گا)اور اللہ کی جماعت ہی غلبہ پانے والی ہے''

مومنوں سے دوستی کے وجوب کی دوسری دلیل
قرآن مجید میں ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ اسی حقیقت اور حکم کو یوں بیان فرماتے ہیں :
﴿إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللہِ وَالَّذِينَ آوَوْا وَنَصَرُوا أُولَئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يُهَاجِرُوا مَا لَكُمْ مِنْ وَلايَتِهِمْ مِنْ شَيْءٍ حَتَّى يُهَاجِرُوا وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ إِلا عَلَى قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثَاقٌ واللہُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ وَالَّذِينَ كَفَرُوا بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ إِلا تَفْعَلُوهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الأرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللہِ وَالَّذِينَ آوَوْا وَنَصَرُوا أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ وَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْ بَعْدُ وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا مَعَكُمْ فَأُولَئِكَ مِنْكُمْ وَأُولُو الأرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللہَ إِنَّ اللہَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ﴾ (الانفال:75-72)
''جولوگ ایمان لائے اور (اپنے وطنوں سے )ہجرت کرگئے اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں کے ساتھ اوراپنی جانوں کے ساتھ جہاد کیا وہ ،اور جنہوں نے(ہجرت کرنے والوں کو )جگہ دی اور ان کی مدد کی ، وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو لوگ ایمان تولے آئے لیکن ہجرت نہیں کی ۔توجب تک وہ ہجرت نہ کریں تم کوان کی دوستی سے کوئی سروکار نہیں اور اگروہ تم سے دین (کے معاملات )میں مدد وتعاون طلب کریں تو تم پر مدد کرنا واجب ہے ۔مگر ان لوگوں کے مقابلے میں کہ تم میں اور ان میں (صلح کا )عہد ہو (تو مدد نہیں کرنی چاہئے )اوراللہ رب العزت تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے اور جولوگ کافر ہیں وہ بھی ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔تو (مومنو!)اگر تم یہ (آپس میں دوستی کا کام )نہ کروگے توزمین میں فتنہ برپا ہوجائے گا اور بڑا فساد مچے گا اور جو لوگ ایمان لائے اور وطن سے ہجرت کرگئے اور اللہ کی راہ میں جنگ کرتے رہے ۔اور جنہوں نے (ہجرت کرنے والوں کو )جگہ دی اور ان کی مدد کی ۔یہی لوگ سچے مومن ہیں ۔ان کے لیے (اللہ کے ہاں)مغفرت اور عزت کی روزی ہے اور جولوگ بعد میں ایمان لائے اوروطن سے ہجرت کرگئے اور تمہارے ساتھ ہوکر جہاد کرتے رہے وہ بھی تم میں سے ہی ہیں اور رشتے دار اللہ کی کتاب کی رُو سے ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں کچھ شک نہیں کہ اللہ ہر چیز سے واقف ہے''
مذکورہ بالا دونوں مقاماتِ قرآنیہ سے معلوم ہوا کہ مومنوں کا آپس میں ایک دوسرے سے محبت واُلفت کاتعلق قائم کرنا واجب ہے۔

امام ابن تیمیہ ﷫کا واضح بیان
اسی بناء پر شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ﷫فرماتے ہیں :
''اِنَّ أَصْلَ الدِّیْنِ وَ کَمَالِہٖ أَنْ یَّکُوْنَ الحُبُّ فِی اللہِ وَ الْبُغْضُ فِی اللہِ وَ الْمُوَالَاۃُ فِی اللہِ وَالْمُعَادَاۃُ فِی اللہِ وَالاِسْتِعَانَہُ بِاللہِ وَالْخَوْفُ مِنَ اللہِ وَالرَّجَاءُ لِلّٰہِ وَالاِعْطَاءُ لِلّٰہِ وَالمَنَعُ لِلّٰہِ۔''[1]
''دین کی اصل حقیقت اور اوجِ کمال یہی ہے کہ :
1 اﷲ تعالٰی ہی کے لیے محبت ہو۔
2 اﷲ تعالٰی ہی کے لیے نفرت ہو۔
3 اﷲ تعالٰی ہی کے لیے آپس میں دوستانہ مراسم ہوں۔
4 اﷲ تعالٰی ہی کے لیے دشمنیاں ہوں۔
5 اﷲ تعالٰی ہی کے لیے ہرقسم کی عبادت ہو
6 اﷲ تعالٰی ہی سے مدد طلب کی جائے
7 اﷲ تعالٰی ہی سے ڈرا جائے۔
8 اﷲ تعالٰی ہی سے تمام امیدیں وابستہ کی جائیں۔
9 اﷲ تعالٰی ہی کے لیے عنایات اور سخاوتیں ہوں۔
10 اﷲ تعالٰی ہی کے لیے کسی جگہ سخاوت وبخشیش سے ہاتھ روکا جائے۔
[1] الدررالسنیۃ:109/7
 
Top