• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)

باب : سلام پھیرنے کا بیان

حدیث نمبر : 837
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا إبراهيم بن سعد، حدثنا الزهري، عن هند بنت الحارث، أن أم سلمة ـ رضى الله عنها ـ قالت كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا سلم قام النساء حين يقضي تسليمه، ومكث يسيرا قبل أن يقوم‏.‏ قال ابن شهاب فأرى ـ والله أعلم ـ أن مكثه لكى ينفذ النساء قبل أن يدركهن من انصرف من القوم‏.‏
ہم سے موسی بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابرہیم بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن شہاب زہری نے ہند بن ت حارث سے حدیث بیان کی کہ ( ام المؤمنین حضرت ) ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ( نماز سے ) سلام پھیرتے تو سلام کے ختم ہوتے ہیں عورتیں کھڑی ہو جاتیں ( باہر آنے کے لیے ) اور آپ کھڑے ہونے سے پہلے تھوڑی دیر ٹھہرے رہتے تھے۔ ابن شہاب ؒ نے کہا میں سمجھتا ہوں اور پورا علم تو اللہ ہی کوہے آپ اس لیے ٹھہر جاتے تھے کہ عورتیںجلدی چلی جائیں اور مرد نماز سے فارغ ہو کر ان کو نہ پائیں۔

تشریح : سلام پھیرنا امام احمد اور شافعی اور مالک اور جمہورعلماءاور اہل حدیث کے نزدیک فرض اور نماز کا ایک رکن ہے لیکن امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ لفظ سلام کو فرض نہیں جانتے بلکہ نماز کے خلاف کوئی کام کرکے نماز سے نکلنا فرض جانتے ہیں اور ہماری دلیل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ سلام پھیرا اور فرمایا کہ نماز سے نکلنا سلام پھیرنا ہے ( مولانا وحید الزماں مرحوم
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)

باب : اس بارے میں کہ امام کے سلام پھیرتے ہی مقتدی کو بھی سلام پھیرنا چاہیے

وكان ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ يستحب إذا سلم الإمام أن يسلم من خلفه‏.
اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس بات کو مستحب جانتے تھے کہ مقتدی بھی اسی وقت سلام پھیریں جب امام سلام پھیرے۔

حدیث نمبر : 838
حدثنا حبان بن موسى، قال أخبرنا عبد الله، قال أخبرنا معمر، عن الزهري، عن محمود بن الربيع، عن عتبان، قال صلينا مع النبي صلى الله عليه وسلم فسلمنا حين سلم‏.‏
ہم سے حبان بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا کہ ہمیںمعمر بن راشد نے زہری سے خبر دی، انہیں محمود بن ربیع انصاری نے انہیں عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ نے آپ نے فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ پھر جب آپ نے سلام پھیرا تو ہم نے بھی سلام پھیرا۔

تشریح : امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد باب سے یہ ہے کہ مقتدیوں کو سلام پھیرنے میں دیر نہ کرنی چاہیے بلکہ امام کے ساتھ ہی وہ بھی سلام پھیر دیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)

باب : اس بارے میں کہ امام کو سلام کرنے کی ضرورت نہیں، صرف نماز کے دو سلام کافی ہیں۔

یہ باب لاکر حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے مالکیہ کا رد کیا ہے جو کہتے ہیں کہ مقتدی ایک دوسراسلام امام کو بھی کرے۔

حدیث نمبر : 839
حدثنا عبدان، قال أخبرنا عبد الله، قال أخبرنا معمر، عن الزهري، قال أخبرني محمود بن الربيع،، وزعم، أنه عقل رسول الله صلى الله عليه وسلم وعقل مجة مجها من دلو كان في دارهم‏.‏
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیںعبداللہ بن مبارک نے خبر دی کہا کہ ہمیں معمرنے زہری سے خبر دی کہا کہ مجھے محمود بن ربیع نے خبر دی، وہ کہتے تھے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوری طرح یاد ہیں اور آپ کا میرے گھر کے ڈول سے کلی کرنا بھی یاد ہے ( جو آپ نے میرے منہ میں ڈالی تھی )

حدیث نمبر : 840
قال سمعت عتبان بن مالك الأنصاري، ثم أحد بني سالم قال كنت أصلي لقومي بني سالم، فأتيت النبي صلى الله عليه وسلم فقلت إني أنكرت بصري، وإن السيول تحول بيني وبين مسجد قومي، فلوددت أنك جئت فصليت في بيتي مكانا، حتى أتخذه مسجدا فقال ‏"‏ أفعل إن شاء الله‏"‏‏. ‏ فغدا على رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر معه بعد ما اشتد النهار، فاستأذن النبي صلى الله عليه وسلم فأذنت له، فلم يجلس حتى قال ‏"‏ أين تحب أن أصلي من بيتك‏"‏‏. ‏ فأشار إليه من المكان الذي أحب أن يصلي فيه، فقام فصففنا خلفه ثم سلم، وسلمنا حين سلم‏.‏
انہوں نے بیان کیاکہ میں نے عتبان بن مالک انصاری سے سنا، پھر بن ی سالم کے ایک شخص سے اس کی مزید تصدیق ہوئی۔ عتبان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اپنی قوم بن ی سالم کی امامت کیا کرتا تھا۔ میں انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ حضور میری آنکھ خراب ہو گئی ہے اور ( برسات میں ) پانی سے بھرے ہوئے نالے میرے اور میری قوم کی مسجد کے بیچ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے مکان پر تشریف لاکر کسی ایک جگہ نماز ادا فرمائیں تاکہ میں اسے اپنی نماز کے لیے مقرر کر لوں آں حضور نے فرمایا کہ انشاء اللہ تعالی میں تمہاری خواہش پوری کروںگا صبح کو جب دن چڑھ گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ ابوبکر آپ کے ساتھ تھے۔ آپ نے ( اندر آنے کی ) اجازت چاہی اور میں نے دے دی۔ آپ بیٹھے نہیں بلکہ پوچھا کہ گھر کے کس حصہ میں نماز پڑھوانا چاہتے ہو۔ ایک جگہ کی طرف جسے میں نے نماز پڑھنے کے لیے پسند کیا تھا۔ اشارہ کیا۔ آپ ( نماز کے لیے ) کھڑے ہوئے اور ہم نے آپ کے پیچھے صف بن ائی۔ پھر آپ نے سلام پھیرا اور جب آپ نے سلام پھیراتو ہم نے بھی پھیرا۔

تشریح : جمہور فقہاءکے نزدیک نماز میں دو سلام ہیں۔ لیکن امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک تنہا نماز پڑھنے والے کے لیے صرف ایک سلام کافی ہے اورنماز با جماعت ہو رہی ہو تو دو سلام ہونے چاہئیں۔ امام کے لیے بھی اور مقتدی کے لیے بھی۔ لیکن اگر مقتدی امام کے بالکل پیچھے ہے یعنی نہ دائیں جانب نہ بائیں جانب تو اسے تین سلام پھیرنے پڑیںگے۔ ایک دائیں طرف کے مصلیوں کے لیے دوسرا بائیں طرف والوں کے لیے اور تیسرا امام کے لیے۔ گویااس سلام میں بھی انہوں نے ملاقات کے سلام کے آداب کا لحاظ رکھا ہے امام بخاری رحمہ اللہ جمہور کے مسلک کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ ( تفہیم البخاری ) حضرت امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو کئی جگہ لائے ہیں اور اس سے متعدد مسائل کا استنباط فرمایا ہے۔ یہاں اس حدیث سے باب کا مطلب یوں نکلا کہ ظاہر یہ ہے کہ مقتدیوں کا سلام بھی انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سلام کی طرح تھا اور اگر مقتدیوں نے کوئی تیسرا سلام کہا ہوتا تو اس کا ضرور بیان کرتے یہ بھی حدیث سے نکلا کہ معذورین کے لیے اور نوافل کے لیے گھر کے کسی حصہ میں نماز کی جگہ متعین کر دیجائے تو اس کی اجازت ہے۔ یہ بھی ثابت ہے کہ کسی واقعی اہل اللہ بزرگ سے اس قسم کی درخواست جائز ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)

باب : نماز کے بعد ذکر الٰہی کرنا

حدیث نمبر : 841
حدثنا إسحاق بن نصر، قال حدثنا عبد الرزاق، قال أخبرنا ابن جريج، قال أخبرني عمرو، أن أبا معبد، مولى ابن عباس أخبره أن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ أخبره أن رفع الصوت بالذكر حين ينصرف الناس من المكتوبة كان على عهد النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ وقال ابن عباس كنت أعلم إذا انصرفوا بذلك إذا سمعته‏.
ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں عبدالرزاق بن ہمام نے خبر دی انہوں نے کہا کہ ہمیں عبدالملک بن جریج نے خبر دی انہوں نے کہا کہ مجھ کو عمرو بن دینار نے خبر دی کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام ابو معبد نے انہیں خبر دی اور انہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ بلند آواز سے ذکر، فرض نماز سے فارغ ہونے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں جاری تھا۔


وقال ابن عباس: كنت أعلم إذا إنصرفوا بذلك إذا سمعته.
ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں ذکر سن کر لوگوں کی نماز سے فراغت کو سمجھ جاتا تھا۔

حدیث نمبر : 842
حدثنا علي بن عبد الله، قال حدثنا سفيان، ‏{‏عن عمرو،‏}‏ قال أخبرني أبو معبد، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال كنت أعرف انقضاء صلاة النبي صلى الله عليه وسلم بالتكبير‏.‏
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، کہا کہ مجھے ابو معبد نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے خبر دی کہ آپ نے فرمایا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ختم ہونے کو تکبیر کی وجہ سے سمجھ جاتا تھا۔ علی بن مدینی نے کہا کہ ہم سے سفیان نے عمرو کے حوالے سے بیان کیا کہ ابومعبد ابن عباس کے غلاموں میں سب سے زیادہ قابل اعتماد تھے۔ علی بن مدینی نے بتایا کہ ان کانام نافذ تھا۔

حدیث نمبر : 843
حدثنا محمد بن أبي بكر، قال حدثنا معتمر، عن عبيد الله، عن سمى، عن أبي صالح، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال جاء الفقراء إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقالوا ذهب أهل الدثور من الأموال بالدرجات العلا والنعيم المقيم، يصلون كما نصلي، ويصومون كما نصوم، ولهم فضل من أموال يحجون بها، ويعتمرون، ويجاهدون، ويتصدقون قال ‏"‏ ألا أحدثكم بأمر إن أخذتم به أدركتم من سبقكم ولم يدرككم أحد بعدكم، وكنتم خير من أنتم بين ظهرانيه، إلا من عمل مثله تسبحون وتحمدون، وتكبرون خلف كل صلاة ثلاثا وثلاثين‏"‏‏. ‏ فاختلفنا بيننا فقال بعضنا نسبح ثلاثا وثلاثين، ونحمد ثلاثا وثلاثين، ونكبر أربعا وثلاثين‏.‏ فرجعت إليه فقال ‏"‏ تقول سبحان الله، والحمد لله، والله أكبر، حتى يكون منهن كلهن ثلاثا وثلاثين‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن ابی بکر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے عبید اللہ عمری نے بیان کیا، ان سے سمی نے بیان کیا، ان سے ابو صالح ذکوان نے بیان کیاان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نادار لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ امیرورئیس لوگ بلند درجات اور ہمیشہ رہنے والی جنت حاصل کر چکے حالانکہ جس طرح ہم نماز پڑھتے ہیں وہ بھی پڑھتے ہیں اور جیسے ہم روزے رکھتے ہیں وہ بھی رکھتے ہیںلیکن مال ودولت کی وجہ سے انہیں ہم پر فوقیت حاصل ہے کہ اس کی وجہ سے وہ حج کر تے ہیں۔ عمرہ کرتے ہیں۔ جہاد کرتے ہیں اور صدقے دیتے ہیں ( اور ہم محتاجی کی وجہ سے ان کاموں کو نہیں کر پاتے ) اس پر آپ نے فرمایا کہ لو میں تمہیں ایک ایسا عمل بتاتا ہوں کہ اگر تم اس کی پابن دی کروگے تو جو لوگ تم سے آگے بڑھ چکے ہیں انہیں تم پالوگے اور تمہارے مرتبہ تک پھر کوئی نہیں پہنچ سکتا اور تم سب سے اچھے ہو جاؤگے سوا ان کے جو یہی عمل شروع کر دیں ہر نماز کے بعد تینتیس تینتیس مرتبہ تسبیح ( سبحان اللہ ) تحمید ( الحمدللہ ) تکبیر ( اللہ اکبر ) کہا کرو۔ پھر ہم میں اختلاف ہو گیا کسی نے کہا کہ ہم تسبیح تینتیس مرتبہ، تحمید تینتیس مرتبہ اور تکبیر چونتیس مرتبہ کہیںگے۔ میں نے اس پر آپ سے دوبارہ معلوم کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سبحان اللہ اور الحمدللہ اور اللہ اکبر کہو۔ تاآنکہ ہر ایک ان میں سے تینتیس مرتبہ ہو جائے۔

حدیث نمبر : 844
حدثنا محمد بن يوسف، قال حدثنا سفيان، عن عبد الملك بن عمير، عن وراد، كاتب المغيرة بن شعبة قال أملى على المغيرة بن شعبة في كتاب إلى معاوية أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يقول في دبر كل صلاة مكتوبة ‏"‏ لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك، وله الحمد، وهو على كل شىء قدير، اللهم لا مانع لما أعطيت، ولا معطي لما منعت، ولا ينفع ذا الجد منك الجد‏"‏‏. ‏ وقال شعبة عن عبد الملك بهذا، وعن الحكم عن القاسم بن مخيمرة عن وراد بهذا‏.‏ وقال الحسن الجد غنى‏.‏
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے عبدالملک بن عمیر سے بیان کیا، ان سے مغیرہ بن شعبہ کے کاتب وراد نے، انہوں نے بیان کیا کہ مجھ سے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو ایک خط میں لکھوایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر فرض نماز کے بعد یہ دعا پڑھتے تھے۔ ( ترجمہ ) اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ بادشاہت اس کی ہے اور تمام تعریف اسی کے لیے ہے۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اے اللہ جسے تو دے اس سے روکنے والا کوئی نہیں اور جسے تو نہ دے اسے دینے والا کوئی نہیں اور کسی مال دار کو اس کی دولت ومال تیری بارگاہ میں کوئی نفع نہ پہنچا سکیںگے۔ شعبہ نے بھی عبد الملک سے اسی طرح روایت کی ہے۔ حسن نے فرمایا کہ ( حدیث میں لفظ ) جد کے معنی مال داری کے ہیں اور حکم، قاسم بن مخیمرہ سے وہ وراد کے واسطے سے اسی طرح روایت کرتے ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)

باب : امام جب سلام پھیر چکے تو لوگوں کی طرف منہ کرے حدیث نمبر : 845

حدثنا موسى بن إسماعيل، قال حدثنا جرير بن حازم، قال حدثنا أبو رجاء، عن سمرة بن جندب، قال كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا صلى صلاة أقبل علينا بوجهه‏.‏
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابورجاء عمران بن تمیم نے سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے نقل کیا، انہوں نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز ( فرض ) پڑھا چکتے تو ہماری طرف منہ کرتے۔

تشریح : اس سے صاف معلوم ہوا کہ نماز فرض کے بعد سنت طریقہ یہی ہے کہ سلام پھیرنے کے بعد امام دائیں یا بائیں طرف منہ پھیر کر مقتدیوں کی طرف منہ کرکے بیٹھے مگر صد افسوس ایک دیوبندی مترجم وشارح بخاری صاحب فرماتے ہیں آج کل دائیں یابائیں طرف رخ کر کے بیٹھنے کا عام طور پر رواج ہے اس کی کوئی اصل نہیں نہ یہ سنت ہے نہ مستحب جائزضرور ہے ( تفہیم البخاری پ 4 ص22 ) پھر حدیث مذکورہ ومنعقدہ باب کا مفہوم کیا ہے اس کا جو اب فاضل موصوف یہ دیتے ہیں کہ مصنف رحمہ اللہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد اگر امام اپنے گھر جانا چاہتا ہے تو گھر چلا جائے لیکن اگر مسجد میں بیٹھنا چاہتا ہے تو سنت یہ ہے کہ دوسرے موجودہ لوگوں کی طرف رخ کر کے بیٹھے ( حوالہ مذکورہ ) ناظرین خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ فاضل شارح بخاری کے ہر دو بیانات میں کس قدر تضاد ہے۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کے باب اور حدیث کا مفہوم ظاہر ہے۔

حدیث نمبر : 846
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن صالح بن كيسان، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود، عن زيد بن خالد الجهني، أنه قال صلى لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة الصبح بالحديبية على إثر سماء كانت من الليلة، فلما انصرف أقبل على الناس فقال ‏"‏ هل تدرون ماذا قال ربكم‏"‏‏. ‏ قالوا الله ورسوله أعلم‏.‏ قال ‏"‏ أصبح من عبادي مؤمن بي وكافر، فأما من قال مطرنا بفضل الله ورحمته فذلك مؤمن بي وكافر بالكوكب، وأما من قال بنوء كذا وكذا فذلك كافر بي ومؤمن بالكوكب‏"‏‏. ‏
ہم سے عبد اللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، انہوں نے امام مالک سے بیان کیا، انہوں نے صالح بن کیسان سے بیان کیا، ان سے عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے بیان کیا، ان سے زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حدیبیہ میں صبح کی نماز پڑھائی اور رات کو بارش ہو چکی تھی نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے لوگوں کی طرف منہ کیا اور فرمایا معلوم ہے تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے۔ لوگوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ) تمہارے رب کا ارشاد ہے کہ صبح ہوئی تومیرے کچھ بن دے مجھ پر ایمان لائے۔ اور کچھ میرے منکر ہوئے جس نے کہا کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہمارے لیے بارش ہوئی تووہ میرا مومن ہے اور ستاروں کا منکر اور جس نے کہا کہ فلاں تارے کے فلانی جگہ پر آنے سے بارش ہوئی وہ میرا منکر ہے اور ستاروں کا مومن۔

تشریح : کفر سے حقیقی کفرمراد ہے معلوم ہوا کہ جو کوئی ستاروں کو موثر جانے وہ بہ نص حدیث کافر ہے۔ پانی برسانا اللہ کا کام ہے ستارے کیا کر سکتے ہیں۔

حدیث نمبر : 847
حدثنا عبد الله، سمع يزيد، قال أخبرنا حميد، عن أنس، قال أخر رسول الله صلى الله عليه وسلم الصلاة ذات ليلة إلى شطر الليل ثم خرج علينا، فلما صلى أقبل علينا بوجهه فقال ‏"‏ إن الناس قد صلوا ورقدوا، وإنكم لن تزالوا في صلاة ما انتظرتم الصلاة‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا، انہوں نے یزید بن ہارون سے سنا، انہیں حمید ذیلی نے خبر دی، اور انہیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات ( عشاء کی ) نماز میں دیر فرمائی تقریباً آدھی رات تک۔ پھر آخر حجرہ سے باہر تشریف لائے اور نماز کے بعد ہماری طرف منہ کیا اور فرمایا کہ دوسرے لوگ نماز پڑھ کر سو چکے لیکن تم لوگ جب تک نماز کا انتظار کرتے رہے گویا کہ نماز میں رہے ( یعنی تم کو نماز کا ثواب ملتا رہا )۔

تشریح : ان جملہ مرویات سے ظاہر ہوا کہ سلام پھیرنے کے بعد امام مقتدیوں کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھے، پھر تسبیح تہلیل کرے یا لوگوں کو مسئلہ مسائل بتلائے یا پھر اٹھ کر چلاجائے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)

باب : سلام کے بعد امام اسی جگہ ٹھہر کر ( نفل وغیرہ ) پڑھ سکتا ہے

حدیث نمبر : 847
وقال لنا آدم حدثنا شعبة، عن أيوب، عن نافع، قال كان ابن عمر يصلي في مكانه الذي صلى فيه الفريضة‏.‏ وفعله القاسم‏.‏ ويذكر عن أبي هريرة رفعه لا يتطوع الإمام في مكانه‏.‏ ولم يصح‏.‏
اور ہم سے آدم بن ابی ایاس نے کہا کہ ان سے شعبہ نے بیان کیاان سے ایوب سختیانی نے ان سے نافع نے، فرمایا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ( نفل ) اسی جگہ پر پڑھتے تھے اور جس جگہ فرض پڑھتے اور قاسم بن محمد بن ابی بکر نے بھی اسی طرح کیا ہے اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ امام اپنی ( فرض پڑھنے کی ) جگہ پر نفل نہ پڑھے اور یہ صحیح نہیں۔

حدیث نمبر : 849
حدثنا أبو الوليد، حدثنا إبراهيم بن سعد، حدثنا الزهري، عن هند بنت الحارث، عن أم سلمة، أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا سلم يمكث في مكانه يسيرا‏.‏ قال ابن شهاب فنرى ـ والله أعلم ـ لكى ينفذ من ينصرف من النساء‏.‏
ہم سے ابوالولیدہشام بن عبد الملک نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ ہم سے زہری نے ہند بن ت حارث سے بیان کیا ان سے ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سلام پھیرتے تو کچھ دیر اپنی جگہ پر بیٹھے رہتے۔ ابن شہاب نے کہااللہ بہتر جانے ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ آپ اس لیے کرتے تھے تاکہ عورتیں پہلے چلی جائیں۔

حدیث نمبر : 850
وقال ابن أبي مريم أخبرنا نافع بن يزيد، قال أخبرني جعفر بن ربيعة، أن ابن شهاب، كتب إليه قال حدثتني هند بنت الحارث الفراسية، عن أم سلمة، زوج النبي صلى الله عليه وسلم وكانت من صواحباتها قالت كان يسلم فينصرف النساء، فيدخلن بيوتهن من قبل أن ينصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏ ‏
اور ابو سعید بن ابی مریم نے کہا کہ ہمیں نافع بن یزید نے خبر دی انہوں نے کہا کہ مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے بیان کیا کہ ابن شہاب زہری نے انہیں لکھ بھیجا کہ مجھ سے ہند بن ت حارث فراسیہ نے بیان کیا اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک بیوی ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے ( ہندان کی صحبت میں رہتی تھیں ) انہوںنے فرمایا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرتے تو عورتیںلوٹ کر جانے لگتیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اٹھنے سے پہلے اپنے گھروں میں داخل ہوچکی ہو تیں۔

وقال ابن وهب عن يونس عن ابن شهاب أخبرتني هند الفراسية‏.‏ وقال عثمان بن عمر أخبرنا يونس عن الزهري حدثتني هند الفراسية‏.‏ وقال الزبيدي أخبرني الزهري أن هند بنت الحارث القرشية أخبرته، وكانت تحت معبد بن المقداد ـ وهو حليف بني زهرة ـ وكانت تدخل على أزواج النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ وقال شعيب عن الزهري حدثتني هند القرشية‏.‏ وقال ابن أبي عتيق عن الزهري عن هند الفراسية‏.‏ وقال الليث حدثني يحيى بن سعيد حدثه عن ابن شهاب عن امرأة من قريش حدثته عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.
اور ابن وہب نے یونس کے واسطہ سے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا اور انہیں ہند بن ت حارث فراسیہ نے خبر دی اور عثمان بن عمر نے کہا کہ ہمیں یونس نے زہری سے خبر دی انہوں نے کہا کہ مجھ سے ہند قرشیہ نے بیان کیا محمد بن ولید زبیدی نے کہا کہ مجھ کو زہری نے خبر دی کہ ہند بن ت حارث قرشیہ نے انہیں خبر دی۔ اور وہ بن و زہرہ کے حلیف معبد بن مقداد کی بیوی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کی خدمت میں حاضر ہوا کرتی تھی اور شعیب نے زہری سے اس حدیث کو روایت کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ہند قرشیہ نے حدیث بیان کی، اور ابن ابی عتیق نے زہری کے واسطہ سے بیان کیا اور ان سے ہند فراسیہ نے بیان کیا۔ لیث نے کہا کہ مجھ سے یحیٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا اور ان سے قریش کی ایک عورت نے نبی کریم سے روایت کر کے بیان کیا۔

تشریح : ان سندوں کے بیان کرنے سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض یہ ہے کہ ہند کی نسبت کا اختلاف ثابت کریں کسی نے ان کو فراسیہ کہا کسی نے قرشیہ اور رد کیا اس شخص پر جس نے قرشیہ کو تصحیف قرار دیاکیونکہ لیث کی روایت میں اس کے قرشیہ ہونے کی تصریح ہے مگر لیث کی روایت موصول نہیں ہے اس لیے کہ ہند فراسیہ یا قرشیہ نے آنحضرت سے نہیں سنا مقصد باب وحدیث ظاہر ہے کہ جہاں فرض نماز پڑھی گئی ہو وہاں نفل بھی پڑھی جا سکتی ہے مگر دیگر روایات کی بنا پر ذرا جگہ بدل لی جائے یا کچھ کلام کر لیا جائے تاکہ فرض اور نفل نمازوں میں اختلاط کا وہم نہ ہوسکے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)

باب : اگر امام لوگوں کو نماز پڑھا کر کسی کام کا خیال کرے اور ٹھہرے نہیں بلکہ لوگوں کی گردنیں پھاندتا چلاجائے تو کیا ہے

حدیث نمبر : 851
حدثنا محمد بن عبيد، قال حدثنا عيسى بن يونس، عن عمر بن سعيد، قال أخبرني ابن أبي مليكة، عن عقبة، قال صليت وراء النبي صلى الله عليه وسلم بالمدينة العصر فسلم ثم قام مسرعا، فتخطى رقاب الناس إلى بعض حجر نسائه، ففزع الناس من سرعته فخرج عليهم، فرأى أنهم عجبوا من سرعته فقال ‏"‏ ذكرت شيئا من تبر عندنا فكرهت أن يحبسني، فأمرت بقسمته‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن عبید نے بیان کیا، کہاکہ ہم سے عیسیٰ بن یونس نے عمر بن سعید سے یہ حدیث بیان کی، انہوں نے کہا کہ مجھے ابن ابی ملیکہ نے خبر دی ان سے عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے مدینہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں ایک مرتبہ عصر کی نماز پڑھی۔ سلام پھیرنے کے بعد آپ جلدی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور صفوں کو چیرتے ہوئے آپ اپنی کسی بیوی کے حجرہ میں گئے۔ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تیزی کی وجہ سے گھبراگئے۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور جلدی کی وجہ سے لوگوں کے تعجب کو محسوس فرمایا تو فرمایا کہ ہمارے پاس ایک سونے کا ڈلا ( تقسیم کرنے سے ) بچ گیاتھا مجھے اس میں دل لگا رہنا برا معلوم ہوا، میں نے اس کے بانٹ دینے کا حکم دے دیا۔

تشریح : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فرض کے بعد امام کو اگر کوئی فوری ضرورت معلوم ہوجائے تو وہ کھڑا ہوکر جاسکتا ہے کیونکہ فرضوں کے سلام کے بعد امام کو خواہ مخواہ اپنی جگہ ٹھہرے رہنا کچھ لازم یا واجب نہیں ہے۔ اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی پیغمبرانہ ذمہ داریوں کا کس شدت سے احساس رہتا تھاکہ سونے کا ایک تولا بھی گھر میں محض بطور امانت ہی ایک رات کے لیے رکھ لینا ناگوار معلوم ہوا۔ پھر ان معاندین پر پھٹکارہو جو ایسے پاک پیغمبر فداہ ابی وامی کی شان میں گستاخی کرتے اور نعوذباللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر دنیاداری کاغلط الزام لگاتے رہتے ہیں ھداھم اللہ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)

باب : نماز پڑھ کر دائیں یابائیں دونوں طرف پھر بیٹھنا یا لوٹنا درست ہے

وكان أنس ينفتل عن يمينه، وعن يساره،، ويعيب، على من يتوخى، أو من يعمد الانفتال عن يمينه‏.‏
اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ دائیں اور بائیں دونوں طرف مڑتے تھے۔ اور اگر کوئی دائیں طرف خواہ مخواہ قصد کر کے مڑتا تو اس پر آپ اعتراض کرتے تھے۔

حدیث نمبر : 852
حدثنا أبو الوليد، قال حدثنا شعبة، عن سليمان، عن عمارة بن عمير، عن الأسود، قال قال عبد الله لا يجعل أحدكم للشيطان شيئا من صلاته، يرى أن حقا عليه أن لا ينصرف إلا عن يمينه، لقد رأيت النبي صلى الله عليه وسلم كثيرا ينصرف عن يساره‏.‏
ہم سے ابو الولید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے سلیمان سے بیان کیا، ان سے عمارہ بن عمیر نے، ان سے اسود بن یزید نے بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ کوئی شخص اپنی نماز میں سے کچھ بھی شیطان کا حصہ نہ لگائے اس طرح کہ داہنی طرف ہی لوٹنا اپنے لیے ضروری قرار دے لے۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اکثر بائیں طرف سے لوٹتے دیکھا۔

تشریح : معلوم ہوا کہ کسی مباح یا مستحب کام کولازم یا واجب کر لینا شیطان کا اغوا ہے ابن منیر نے کہا مستحب کام کو اگر کوئی لازم قرار دے تو وہ مکروہ ہو جاتا ہے جب مباح کام لازم قرار دینے سے شیطان کا حصہ سمجھا جائے تو جو کام مکروہ یا بدعت ہے اس کو کوئی لازم قرار دے لے اور اس کے نہ کرنے پر خدا کو بندوں کے ستائے یا ان کا عیب کرے تو اس پر شیطان کا کیا تسلط ہے سمجھ لینا چاہیے۔ ہمارے زمانہ میں یہ بلابہت پھیلی ہے۔ بے اصل کاموں کو عوام کیا بلکہ خواص نے لازم قرار دے لیا ہے ( مولانا وحید الزماں ) تیجہ، فاتحہ چہلم وغیرہ سب اسی قسم کے کام ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)

باب : لہسن، پیاز اور گندنے کے متعلق جو روایات آئی ہیں ان کابیان

وقول النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ من أكل الثوم أو البصل من الجوع أو غيره فلا يقربن مسجدنا‏"‏‏. ‏
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جس نے لہسن یا پیازبھوک یا اس کے علاوہ کسی وجہ سے کھائی ہو وہ ہماری مسجد کے پاس نہ پھٹکے۔

حدیث نمبر : 853
حدثنا مسدد، قال حدثنا يحيى، عن عبيد الله، قال حدثني نافع، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم قال في غزوة خيبر ‏"‏ من أكل من هذه الشجرة ـ يعني الثوم ـ فلا يقربن مسجدنا‏"‏‏.
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحیٰ بن سعیدقطان نے، عبیداللہ بکیری سے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے نافع نے ابن عمررضی اللہ عنہما سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خیبر کے موقع پر کہا تھا کہ جو شخص اس درخت یعنی لہسن کو کھائے ہوئے ہو اسے ہماری مسجد میں نہ آناچاہیے ( کچا لہسن یا پیاز کھانا مراد ہے کہ اس سے منہ میں بو پیدا ہو جاتی ہے )

حدیث نمبر : 854
حدثنا عبد الله بن محمد، قال حدثنا أبو عاصم، قال أخبرنا ابن جريج، قال أخبرني عطاء، قال سمعت جابر بن عبد الله، قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ من أكل من هذه الشجرة ـ يريد الثوم ـ فلا يغشانا في مساجدنا‏"‏‏. ‏ قلت ما يعني به قال ما أراه يعني إلا نيئه‏.‏ وقال مخلد بن يزيد عن ابن جريج إلا نتنه‏.‏
ہم سے عبد اللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعاصم ضحاک بن مخلد نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں ابن جریج نے خبر دی کہا کہ مجھے عطاء بن ابی رباح نے خبر دی کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص یہ درخت کھائے ( آپ کی مراد لہسن سے تھی ) تووہ ہماری مسجد میں نہ آئے عطاء نے کہا میں نے جابر سے پوچھا کہ آپ کی مراد اس سے کیا تھی۔ انہوں نے جواب دیا کہ آپ کی مراد صرف کچے لہسن سے تھی۔ مخلد بن یزید نے ابن جریج کے واسطہ سے ( الانیہ کے بجائے ) الانتنہ نقل کیا ہے ( یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد صرف لہسن کی بدبو سے تھی )

تشریح : کسی بھی بدبودار چیز کو مسجد میں لے جانا یا اس کے کھانے کے بعد مسجد میں جانا برا ہے۔ وجہ ظاہر ہے کہ لوگ اس کی بدبو سے تکلیف محسوس کریں گے اور پھر مسجد ایک پاک اور مقدس جگہ ہے جہاں خدا کا ذکر ہوتا ہے۔ آج کل بیڑی سگریٹ والوں کے لیے بھی لازم ہے کہ منہ صاف کر کے بدبو دور کر کے مسواک سے منہ کو رگڑ رگڑ کر مسجد میں آئیں اگر نمازیوں کو ان کی بدبو سے تکلیف ہوئی تو ظاہر ہے کہ یہ کتنا گناہ ہوگا۔ کچا لہسن، پیاز اور سگریٹ بیڑی وغیرہ بدبودار چیزوں کا ایک ہی حکم ہے اتنا فرق ضرور ہے کہ پیاز لہسن کی بو اگر دور کی جاسکے تو ان کا استعمال جائز ہے جیسا کہ پکا کر ان کی بو کو دفع کر دیاجاتا ہے۔

حدیث نمبر : 855
حدثنا سعيد بن عفير، قال حدثنا ابن وهب، عن يونس، عن ابن شهاب، زعم عطاء أن جابر بن عبد الله، زعم أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ من أكل ثوما أو بصلا فليعتزلنا ـ أو قال ـ فليعتزل مسجدنا، وليقعد في بيته‏"‏‏. ‏ وأن النبي صلى الله عليه وسلم أتي بقدر فيه خضرات من بقول، فوجد لها ريحا فسأل فأخبر بما فيها من البقول فقال ‏"‏ قربوها ‏"‏ إلى بعض أصحابه كان معه، فلما رآه كره أكلها قال ‏"‏ كل فإني أناجي من لا تناجي‏"‏‏. ‏ وقال أحمد بن صالح بعد حديث يونس عن ابن شهاب، وهو يثبت قول يونس‏.‏
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن وہب نے یونس سے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے کہ عطاء جابر بن عبد اللہ سے روایت کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو لہسن یا پیاز کھائے ہوئے ہو تو ہو ہم سے دور رہے یا ( یہ کہا کہ اسے ) ہماری مسجد سے دور رہنا چاہیے یا اسے اپنے گھر میں ہی بیٹھنا چاہیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک ہانڈی لائی گئی جس میںکئی قسم کی ہری ترکاریاں تھیں۔ ( پیازیا گندنا بھی ) آپ نے اس میں بو محسوس کی اور اس کے متعلق دریافت کیا۔ اس سالن میں جتنی ترکاریاں ڈالیں گئی تھیں وہ آپ کو بتا دی گئیں۔ وہاں ایک صحابی موجودتھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی طرف یہ سالن بڑھا دو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھانا پسند نہیں فرمایا اور فرمایا کہ تم لوگ کھا لو۔ میری جن سے سرگوشی رہتی ہے تمہاری نہیں رہتی اور احمد بن صالح نے ابن وہب سے یوں نقل کیا کہ تھال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائی گئی تھی۔ ابن وہب نے کہا کہ طبق جس میں ہری ترکاریاں تھیں اور لیث اور ابو صفوان نے یونس سے روایت میں ہانڈی کا قصہ نہیں بیان کیا ہے۔ امام بخاریؒ نے ( یا سعید یا ابن وہب نے کہا ) میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ خود زہری کا قول ہے یا حدیث میں داخل ہے۔

حدیث نمبر : 856
حدثنا أبو معمر، قال حدثنا عبد الوارث، عن عبد العزيز، قال سأل رجل أنسا ما سمعت نبي الله صلى الله عليه وسلم في الثوم فقال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ من أكل من هذه الشجرة فلا يقربنا، أو لا يصلين معنا‏"‏‏. ‏
ہم سے ابو معمر نے بیان کیا، ان سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، ان سے عبد العزیز بن صہیب نے بیان کیا، کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے پوچھا کہ آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لہسن کے بارے میں کیا سنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اس درخت کو کھائے وہ ہمارے قریب نہ آئے ہمارے ساتھ نماز نہ پڑھے

تشریح : مقصد یہی ہے کہ ان چیزوں کو کچا کھانے سے منہ میں جو بو پیدا ہو جاتی ہے وہ دوسرے ساتھیوں کے لیے تکلیف دہ ہے لہذا ان چیزوں کے کھانے والوں کو چاہیے کہ جس طور ممکن ہو ان کی بدبو کا ازالہ کر کے مسجد میں آئیں۔ بیڑی سگریٹ کے لیے بھی یہی حکم ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)

باب : اس بارے میں کہ بچوں کے لیے وضو اور ان پر غسل اور وضو اور جماعت، عیدین، جنازوں میں ان کی حاضری اور ان کی صفوں میں شرکت کب ضروری ہوگی اور کیونکر ہوگی۔

حدیث نمبر : 857
حدثنا ابن المثنى، قال حدثني غندر، قال حدثنا شعبة، قال سمعت سليمان الشيباني، قال سمعت الشعبي، قال أخبرني من، مر مع النبي صلى الله عليه وسلم على قبر منبوذ، فأمهم وصفوا عليه‏.‏ فقلت يا أبا عمرو من حدثك فقال ابن عباس‏.‏
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے سلیمان شیبانی سے سنا، انہوں نے شعبی سے، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے ایک ایسے شخص نے خبر دی جو ( ایک مرتبہ ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک اکیلی الگ تھلگ ٹوٹی ہوئی قبر پر سے گزررہے تھے وہاں آنحضرت نے نماز پڑھائی اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف باندھے ہوئے تھے۔ سلیمان نے کہا کہ میں نے شعبی سے پوچھا کہ ابوعمرو آپ سے یہ کس نے بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے۔

تشریح : حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے یہ ثابت فرمایا ہے کہ بچے اگرچہ نابالغ ہوں مگر10-8 سال کی عمر میں جب وہ نماز پڑھنے لگیں تو ان کو وضو کرنا ہوگا اور وہ جماعت وعیدین وجنائز میں بھی شرکت کر سکتے ہیں جیسا کہ یہاں اس روایت میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا ذکر ہے جوابھی نابالغ تھے مگر یہاں ان کا صف میںشامل ہونا ثابت ہے پس اگرچہ بچے بالغ ہونے پر ہی مکلف ہوں گے مگر عادت ڈالنے کے لیے نابالغی کے زمانہ ہی سے ان کو ان باتوں پر عمل کرانا چاہیے حضرت مولاناوحید الزماں صاحب مرحوم فرماتے ہیں کہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے صاف یوں نہیں کہا کہ لڑکوں پر وضو واجب ہے یا نہیں کیونکہ صورت ثانی میں لڑکوں کی نماز بے وضو درست ہوتی اور صورت اولی میں لڑکوں کو وضو اور نماز کے ترک پر عذاب لازم آتا صرف اس قدر بیان کر دیا جتنا حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نماز وغیرہ میں شریک ہوتے اور یہ ان کی کمال احتیاط ہے۔ اہل حدیث کی شان یہی ہونی چاہیے کہ آیتِ کریمہ لَاتُقَدِّمُوابَینَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُولِہ ( الحجرات:1 ) اللہ اور اس کے رسول سے آگے مت بڑھو ) کے تحت صرف اسی پر اکتفاکریں جو قرآن وحدیث میں وارد ہوآگے بے جا رائے، قیاس، تاویل فاسدہ سے کام نہ لیں خصوصاً نص کے مقابلہ پر قیاس کرنا ابلیس کا کام ہے۔

حدیث نمبر : 858
حدثنا علي بن عبد الله، قال حدثنا سفيان، قال حدثني صفوان بن سليم، عن عطاء بن يسار، عن أبي سعيد الخدري، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ الغسل يوم الجمعة واجب على كل محتلم‏"‏‏. ‏
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے صفوان بن سلیم نے عطاء سے بیان کیا، ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جمعہ کے دن ہر بالغ کے لیے غسل ضروری ہے۔

تشریح : معلوم ہوا کہ غسل واجب اس وقت ہوتا ہے جب کہ بچے بالغ ہو جائیں وہ بھی بصورت احتلام غسل واجب ہوگا اور غسل جمعہ کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ لوگوں کے پاس شروع اسلام میں کپڑے بہت کم تھے اس لیے کام کرنے میں پسینہ سے کپڑوں میں بد بو پیداہو جاتی تھی اور اسی لیے اس وقت جمعہ کے دن غسل کرنا واجب تھا پھر جب اللہ تعالی نے مسلمانوں کو فراخی دی تو یہ وجوب باقی نہیں رہااب ابھی ایسے لوگوں پر غسل ضروری ہے جن کے پسینے کی بدبو سے لوگ تکلیف محسوس کریں۔ غسل صرف بالغ پر واجب ہوتا ہے اسی کو بیان کرنے کے لیے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ یہ حدیث یہاں لائے ہیں۔ امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک جمعہ کا غسل واجب ہے۔

حدیث نمبر : 859
حدثنا علي بن عبد الله، قال أخبرنا سفيان، عن عمرو، قال أخبرني كريب، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال بت عند خالتي ميمونة ليلة، فنام النبي صلى الله عليه وسلم فلما كان في بعض الليل قام رسول الله صلى الله عليه وسلم فتوضأ من شن معلق وضوءا خفيفا ـ يخففه عمرو ويقلله جدا ـ ثم قام يصلي، فقمت فتوضأت نحوا مما توضأ، ثم جئت فقمت عن يساره، فحولني فجعلني عن يمينه، ثم صلى ما شاء الله، ثم اضطجع فنام حتى نفخ، فأتاه المنادي يؤذنه بالصلاة فقام معه إلى الصلاة، فصلى ولم يتوضأ‏.‏ قلنا لعمرو إن ناسا يقولون إن النبي صلى الله عليه وسلم تنام عينه ولا ينام قلبه‏.‏ قال عمرو سمعت عبيد بن عمير يقول إن رؤيا الأنبياء وحى ثم قرأ ‏{‏إني أرى في المنام أني أذبحك‏}‏‏.‏
ہم سے علی بن عبد اللہ مدینی نے بیان کیا، کہ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے عمرو بن دینار سے بیان کیا، کہا کہ مجھے کریب نے خبر دی ابن عباس سے، انہوں نے بیان کیا کہ ایک رات میں اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے یہاں سویا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہاں سوگئے۔ پھر رات کا ایک حصہ جب گزر گیا آپ کھڑے ہوئے اور ایک لٹکی ہوئی مشک سے ہلکا سا وضو کیا۔ عمرو ( راوی حدیث نے ) اس وضو کو بہت ہی ہلکا بتلایا ( یعنی اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت کم پانی استعمال فرمایا ) پھر آپ نماز کے لیے کھڑے ہوئے اس کے بعد میں نے بھی اٹھ کر اسی طرح وضو کیاجیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف کھڑا ہوگیا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے داہنی طرف پھیر دیا پھر اللہ تعالی نے جتنا چاہا آپ نے نماز پڑھی پھر آپ لیٹ رہے پھر سوگئے۔ یہاں تک کہ آپ خراٹے لینے لگے۔ آخر مؤذن نے آکر آپ کو نماز کی خبر دی اور آپ اس کے ساتھ نماز کے لیے تشریف لے گئے اور نماز پڑھائی مگر ( نیا ) وضو نہیں کیا سفیان نے کہا۔ ہم نے عمرو بن دینار سے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ ( سوتے وقت ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ( صرف ) آنکھیں سوتی تھیں لیکن دل نہیں سوتا تھا۔ عمرو بن دینار نے جواب دیا کہ میں نے عبید بن عمیرسے سنا وہ کہتے تھے کہ انبیاء کا خواب بھی وحی ہوتا ہے پھر عبیدنے اس آیت کی تلاوت کی ( ترجمہ ) میں نے خواب دیکھا ہے کہ تمہیں ذبح کر رہا ہوں۔

تشریح : ترجمہ باب اس سے نکلا کہ حضرت ابن عباس نے وضو کیا اور نماز میں شریک ہوئے حالانکہ اس وقت وہ نابالغ لڑکے تھے آیت مذکورہ سورہ صافات میں ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے کہا تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ تجھے ذبح کر رہا ہوں یہاں خواب بمعنی وحی ہے صاحب خیر جاری لکھتے ہیں:ولما کانت وحیا لم یکن نومھم نوم غفلۃ مودیۃ الی الحدیث بل نوم تنبہ وتیقظ وانتباہ وانتظار للوحی الخ اور جب انبیا کا خواب بھی وحی ہے تو ان کا سونا نہ ایسی غفلت کا سونا جس سے وضو کرنا فرض لازم آئے بلکہ وہ سونا محض ہوشیار ہونا اور وحی کا انتظار کرنے کاسوناہے۔

حدیث نمبر : 860
حدثنا إسماعيل، قال حدثني مالك، عن إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة، عن أنس بن مالك، أن جدته، مليكة دعت رسول الله صلى الله عليه وسلم لطعام صنعته، فأكل منه فقال ‏"‏ قوموا فلأصلي بكم‏"‏‏. ‏ فقمت إلى حصير لنا قد اسود من طول ما لبس، فنضحته بماء فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم واليتيم معي، والعجوز من ورائنا، فصلى بنا ركعتين‏.‏
ہم سے اسماعیل بن اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالکؒ نے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ سے بیان کیا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ ( ان کی ماں ) اسحاق کی دادی ملیکہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے پر بلایا جسے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بطور ضیافت تیار کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا کھایاپھر فرمایا کہ چلو میں تمہیں نماز پڑھادوں۔ ہمارے یہاں ایک بوریاتھا جو پرانا ہونے کی وجہ سے سیاہ ہو گیا تھا۔ میں نے اسے پانی سے صاف کیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور ( پیچھے ) میرے ساتھ یتیم لڑکا ( ضمیرہ بن سعد ) کھڑا ہوا۔ میری بوڑھی دادی ( ملیکہ ام سلیم ) ہمارے پیچھے کھڑی ہوئیں پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی۔

تشریح : یہاں حضرت امام بخاری رحمہ اللہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ یتیم کے لفظ سے بچپن سمجھ میں آتا ہے کیوں کہ بالغ کو یتیم نہیں کہتے گویا ایک بچہ جماعت میں شریک ہوا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نا پسندیدگی کا اظہار نہیں فرمایا۔ اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ دن کو نفل نماز ایسے مواقع پر جماعت سے بھی پڑھی جا سکتی ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ مکان پر نفل وغیرہ نمازوں کے لیے کوئی جگہ مخصوص کر لینا بھی درست ہے۔ صحیح یہی ہے کہ حضرت ام ملیکہ اسحاق کی دادی ہیں جزم بہ جماعۃ وصححہ النووی بعض لوگوں نے ان کو انس کی دادی قرار دیاہے، ابن حجر کا یہی قول ہے۔

حدیث نمبر : 861
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن ابن شهاب، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ أنه قال أقبلت راكبا على حمار أتان وأنا يومئذ قد ناهزت الاحتلام ورسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي بالناس بمنى إلى غير جدار، فمررت بين يدى بعض الصف، فنزلت وأرسلت الأتان ترتع ودخلت في الصف، فلم ينكر ذلك على أحد‏.‏
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب زہری نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے، آپ نے فرمایا کہ میں ایک گدھی پر سوار ہوکر آیا۔ ابھی میں جوانی کے قریب تھا ( لیکن بالغ نہ تھا ) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں لوگوں کو نماز پڑھارہے تھے۔ آپ کے سامنے دیوار وغیرہ ( آڑ ) نہ تھی۔ میں صف کے ایک حصے کے آگے سے گزر کر اترا۔ گدھی چرنے کے لیے چھوڑدی اور خود صف میں شامل ہو گیا۔ کسی نے مجھ پر اعتراض نہیں کیا ( حالانکہ میں نابالغ تھا )۔

تشریح : اس حدیث سے بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے باب کا مطلب ثابت کیا ہے۔ حضرت ابن عباس اس وقت نابالغ تھے، ان کا صف میں شریک ہونا اور وضو کرنا نماز پڑھنا ثابت ہوا۔ یہ بھی معلوم ہو اکہ بلوغت سے پہلے بھی لڑکوں کو ضرورضرور نماز کی عادت ڈلوانی چاہیے۔ اسی لیے سات سال کی عمر سے نماز کا حکم کرنا ضروری ہے اور دس سال کی عمر ہونے پر ان کو دھمکا کر بھی نماز کا عادی بنانا چاہیے۔

حدیث نمبر : 862
حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني عروة بن الزبير، أن عائشة، قالت أعتم النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ وقال عياش حدثنا عبد الأعلى حدثنا معمر عن الزهري عن عروة عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت أعتم رسول الله صلى الله عليه وسلم في العشاء حتى ناداه عمر قد نام النساء والصبيان‏.‏ فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ إنه ليس أحد من أهل الأرض يصلي هذه الصلاة غيركم‏"‏‏. ‏ ولم يكن أحد يومئذ يصلي غير أهل المدينة‏.‏
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات عشاء میں دیر کی اور عیاش نے ہم سے عبد الاعلیٰ سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے معمر نے زہری سے بیان کیا، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء میں ایک مرتبہ دیر کی۔ یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آواز دی کہ عورتیں اور بچے سو گئے۔ انہوں نے فرمایا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر آئے اور فرمایا کہ ( اس وقت ) روئے زمین پر تمہارے سوا اور کوئی اس نماز کو نہیں پڑھتا، اس زمانہ میں مدینہ والوں کے سوا اور کوئی نماز نہیں پڑھتا تھا۔

تشریح : اس لیے کہ اسلام صرف مدینہ میں محدود تھا، خاص طور پر نماز باجماعت کا سلسلہ مدینہ ہی میں تھا۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے باب کا مطلب یوں نکالاکہ اس وقت عشاءکی نماز پڑھنے کے لیے بچے بھی آتے رہتے ہوں گے، جبھی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ عورتیں اور بچے سو گئے۔ پس جماعت میں عورتوں کا مع بچوں کے شریک ہونا بھی ثابت ہوا والظاھر من کلام عمر رضی اللہ عنہ انہ شاھد النساءاللاتی حضرن فی المسجد قد نمن وصبیا نھن معھن ( حاشیہ بخاری ) یعنی ظاہر کلام عمر سے یہی ہے کہ انہوں نے ان عورتوں کا مشاہدہ کیا جو مسجد میں اپنے بچوں سمیت نماز عشاءکے لیے آئی تھیں اور وہ سو گئیں جب کہ ان کے بچے بھی ان کے ساتھ تھے۔

حدیث نمبر : 863
حدثنا عمرو بن علي، قال حدثنا يحيى، قال حدثنا سفيان، حدثني عبد الرحمن بن عابس، سمعت ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال له رجل شهدت الخروج مع رسول الله صلى الله عليه وسلم قال نعم، ولولا مكاني منه ما شهدته ـ يعني من صغره ـ أتى العلم الذي عند دار كثير بن الصلت، ثم خطب ثم أتى النساء فوعظهن وذكرهن وأمرهن أن يتصدقن فجعلت المرأة تهوي بيدها إلى حلقها تلقي في ثوب بلال، ثم أتى هو وبلال البيت‏.‏
ہم سے عمرو بن علی فلاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحیٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبد الرحمن بن عابس نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا اور ان سے ایک شخص نے یہ پوچھا تھا کہ کیا تم نے ( عورتوںکا ) نکلنا عید کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دیکھاہے؟ انہوں نے کہا ہاں دیکھا ہے اگر میں آپ کا رشتہ دار عزیز نہ ہوتا تو کبھی نہ دیکھتا ( یعنی میری کم سنی اور قرابت کی وجہ سے آنحضرت مجھ کو اپنے ساتھ رکھتے تھے ) کثیر بن صلت کے مکان کے پاس جو نشان ہے پہلے وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ سنایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کے پاس تشریف لائے اور انہیں بھی وعظ ونصیحت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے خیرات کرنے کے لیے کہا، چنانچہ عورتوں نے اپنے چھلے اور انگوٹھیاں اتار اتار کر بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں ڈالنی شروع کر دیے۔ آخر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم بلال رضی اللہ عنہ کے ساتھ گھر تشریف لائے۔

تشریح : حضرت ابن عباس کمسن تھے،باوجود اس کے عید میں شریک ہوئے، یہیں سے ترجمہ باب نکلتا ہے اور اس سے عورتوں کا عید گاہ میں جانا بھی ثابت ہوا۔ چونکہ احناف کے ہاں عید گاہ میں عورتوں کا جاناجائز نہیں ہے، اس لیے ایک دیوبندی ترجمہ بخاری میں یہاں ترجمہ ہی بدل دیا گیا ہے چنانچہ وہ ترجمہ یوں کرتے ہیں“ان سے ایک شخص نے یہ پوچھا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ عیدگاہ گئے تھے۔” حالانکہ پوچھا یہ جارہا تھا کہ کیا تم نے عید کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عورتوں کا نکلنا دیکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہاں ضرور دیکھا ہے۔ یہ بدلا ہوا ترجمہ دیوبندی تفہیم البخاری پارہ: 4 ص: 32 پر دیکھا جا سکتا ہے۔ غالباًایسے ہی حضرات کے لیے کہا گیا ہے خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں وفقنا اللہ لما یحب ویرضی آمین
 
Top