• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجمعہ
باب : جمعہ کے لیے کتنی دور والوں کو آنا چاہیے اور کن لوگوں پر جمعہ واجب ہے؟

وقال عطاء إذا كنت في قرية جامعة، فنودي بالصلاة من يوم الجمعة، فحق عليك أن تشهدها، سمعت النداء أو لم تسمعه‏.‏ وكان أنس ـ رضى الله عنه ـ في قصره أحيانا يجمع وأحيانا لا يجمع، وهو بالزاوية على فرسخين‏.‏ کیونکہ خداوند تعالیٰ کا ( سورۃ جمعہ میں ) ارشادہے “ جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان ہو ( تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو ) عطاء بن رباح نے کہا کہ جب تم ایسی بستی میں ہو جہاں جمعہ ہو رہا ہے اور جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو تمہارے لیے جمعہ کی نماز پڑھنے آنا واجب ہے۔ اذان سنی ہو یا نہ سنی ہو۔ اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ( بصرہ سے ) چھ میل دور مقام زاویہ میں رہتے تھے، آپ یہاں کبھی اپنے گھر میں جمعہ پڑھ لیتے اور کبھی یہاں جمعہ نہیں پڑھتے۔ ( بلکہ بصرہ کی جامع مسجد میں جمعہ کے لیے تشریف لایا کرتے تھے )

تشریح : آیت مذکورہ سورہ جمعہ سے جمہور علماءنے یہ ثابت کیا ہے کہ جہاں تک اذان پہنچ سکتی ہو وہاں تک کے لوگوں کو جمعہ میں حاضر ہونا فرض ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا کہ آواز پہنچنے سے یہ مراد ہے کہ مؤذن بلند آواز ہو اور کوئی غل نہ ہو ایسی حالت میں جتنی دور تک بھی آواز پہنچے۔ ابو داؤد میں حدیث ہے کہ جمعہ ہر اس شخص پر واجب ہے جو اذان سنے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ شہر ہو یا دیہات جہاں بھی مسلمان رہتے ہوں اوراذان ہوتی ہو وہاں جمعہ کی ادائیگی ضرور ہے ( وحیدی ) اذان کا سننا بطور شرط نہیں ہے قرآن میں لفظ اذا نودی ہے۔ فتفکر۔

حدیث نمبر : 902
حدثنا أحمد، قال حدثنا عبد الله بن وهب، قال أخبرني عمرو بن الحارث، عن عبيد الله بن أبي جعفر، أن محمد بن جعفر بن الزبير، حدثه عن عروة بن الزبير، عن عائشة، زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت كان الناس ينتابون يوم الجمعة من منازلهم والعوالي، فيأتون في الغبار، يصيبهم الغبار والعرق، فيخرج منهم العرق، فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم إنسان منهم وهو عندي، فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لو أنكم تطهرتم ليومكم هذا‏"‏‏. ‏
ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبد اللہ بن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے عمرو بن حارث نے خبر دی، ان سے عبید اللہ بن ابی جعفر نے کہ محمد بن جعفر بن زبیر نے ان سے بیان کیا، ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ نے، آپ نے کہا کہ لوگ جمعہ کی نماز پڑھنے اپنے گھروں سے اور اطراف مدینہ گاۃں سے ( مسجد نبوی میں ) باری باری آیا کرتے تھے۔ لوگ گردوغبار میں چلے آتے، گرد میں اٹے ہوئے اور پسینہ میں شرابور۔ اس قدر پسینہ ہوتا کہ تھمتا نہیں تھا۔ اسی حالت میں ایک آدمی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ نے فر مایا کہ تم لوگ اس دن ( جمعہ میں ) غسل کر لیا کرتے تو بہتر ہوتا۔

تشریح : جمعہ کے دن غسل کرنا موجب اجر وثواب ہے مگر یہ غسل واجب ہے یا مستحب، اس میں اختلاف ہے۔ بعض احادیث میں اس کے لیے لفظ واجب استعمال ہوا ہے اور بعض میں صیغہ امر بھی ہے جس سے اس کا وجوب ثابت ہوتا ہے مگر ایک روایت میں سمرہ ابن جندب رضی اللہ عنہ سے ان لفظوں میں بھی مروی ہے۔ ان نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال من توضا للجمعۃ فبھا ونعمت ومن اغتسل فذلک افضل ( رواہ الخمسۃ الا ابن ماجۃ ) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے جمعہ کے لیے وضو کیا پس اچھا کیا اور بہت ہی اچھا کیا اور جس نے غسل بھی کر لیا پس یہ غسل افضل ہے۔ اس حدیث کو ترمذی نے حسن کہا ہے اسی بناءپر علامہ شوکانی فرماتے ہیں۔ قال النووی فحکی وجوبہ عن طائفۃ من السلف حکوہ عن بعض الصحابۃ وبہ قال اھل الظاھر یعنی ( حدیث بخاری کے تحت ) سلف میں سے ایک جماعت سے غسل جمعہ کا وجوب نقل ہوا ہے بعض صحابہ سے بھی یہ منقول ہے اور اہل ظاہر کا یہی فتوی ہے۔

مگر دوسری روایت کی بنا پر حضرت علامہ شوکانی فرماتے ہیں: وذھب جمھور العلماءمن السلف والخلف وفقھاءالامصار الی انھا مستحب ( نیل ) یعنی سلف اور خلف سے جمہور علماءفقہاءامصار اس طرف گئے ہیں کہ یہ مستحب ہے جن روایات میں حق اور واجب کا لفظ آیا ہے اس سے مراد تاکید ہے اور وہ وجوب مراد نہیں ہے جن کے ترک سے گناہ لازم آئے ( نیل ) ہاں جن لوگوں کا یہ حال ہو وہ ہفتہ بھر نہ نہاتے ہوں اور ان کے جسم ولباس سے بدبو آرہی ہو، ان کے لیے غسل جمعہ ضروری ہے۔ حضرت علامہ عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ قلت قد جاءفی ھذا الباب احادیث مختلفۃ بعضھا یدل علی ان الغسل یوم الجمعۃ واجب وبعضھا یدل علی انہ مستحب والظاھر عندی انہ سنۃ موکدۃ وبھذا یحصل الجمع بین الاحادیث المختلفۃ واللہ تعالی اعلم ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی میں کہتا ہوں کہ اس مسئلہ میں مختلف احادیث آئی ہیں بعض سے وجوب غسل ثابت ہوتا ہے اور بعض سے صرف استحباب اور میرے نزدیک ظاہر مسئلہ یہ ہے کہ غسل جمعہ سنت مؤکدہ ہے اور اسی طرح سے مختلف احادیث واردہ میں تطبیق دی جا سکتی ہے۔ احادیث مذکورہ سے یہ بھی ظاہر ہے کہ اہل دیہات جمعہ کے لیے ضرور حاضر ہوا کرتے تھے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداءان کے لیے باعث صد فخر تھی اور وہ اہل دیہات بھی ایسے کہ اونٹ اور بکریوں کے چرانے والے، عسرت کی زندگی گزارنے والے، بعض دفعہ غسل کے لیے موقع بھی نہ ملتا اور بدن کے پسینوں کی بو آتی رہتی تھی۔

اگر اسلام میں اہل دیہات کے لیے جمعہ کی ادائیگی معاف ہوتی تو ضرور کبھی نہ کبھی آنحضرت ان سے فرما دیتے کہ تم لوگ اس قدر محنت مشقت کیوں اٹھاتے ہو، تمہارے لیے جمعہ کی حاضری فرض نہیں ہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ بھی کبھی ایسا نہیں فرمایا جس سے صاف ظاہر ہے کہ جمعہ ہر مسلمان پر فرض ہے ہاں جن کوخود صاحب شریعت نے مستثنی فرما دیا، ان پر فرض نہیں ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ غسل جمعہ بہر حال ہونا چاہیے کیونکہ اسلام میں صفائی ستھرائی کی بڑی تاکید ہے۔
قرآن مجید میں اللہ پاک نے فرمایا اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِینَ وَیُحِبُّ المُتَطَھَّرِینَ ( البقرۃ:222 ) “بے شک اللہ پاک توبہ کرنے والوں اور پاکی حاصل کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ ” غسل بھی پاکی حاصل کرنے کا اہم ذریعہ ہے، اسلام میں یہ اصول مقرر کیا گیا کہ بغیر پاکی حاصل کئے نماز ہی درست نہ ہوگی جس میں بوقت ضرورت استنجائ، غسل، وضو سب طریقے داخل ہیں۔

حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں۔ قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم الطھور شطر الایمان۔ اقول المراد بالایمان ھھنا ھیئۃ نفسانیۃ مرکبۃ من نور الطھارۃ والاخبات والاحسان اوضح منہ فی ہذا المعنی ولا شک ان الطھور شطرہ ( حجۃ اللہ البالغۃ ) یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “طہارت نصف ایمان ہے” میں کہتاہوں کہ یہاں ایمان سے ایک ایسی ہیئت نفسانیہ مراد ہے جو نور طہارت اور خشوع سے مرکب ہے اور لفظ احسان اس معنی میں ایمان سے زیادہ واضح ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ طہارت اس کانصف ہے۔

خلاصۃ المرام یہ کہ جمعہ کے دن خاص طور پر نہا دھوکر خوب پاک صاف ہو کر نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے جانا موجب صداجر وثواب ہے اور نہانے دھونے سے صفائی ستھرائی کا حصول صحت جسمانی کے لیے بھی مفید ہے۔ جو لوگ روز انہ غسل کے عادی ہیں ان کا تو ذکر ہی کیا ہے مگر جو لوگ کسی وجہ سے روزانہ غسل نہیں کر سکتے کم از کم جمعہ کے دن وہ ضرورضرورغسل کر کے صفائی حاصل کریں۔ جمعہ کے دن غسل کے علاوہ بوقت جنابت مرد وعورت دونوں کے لیے غسل واجب ہے، یہ مسئلہ اپنی جگہ پر تفصیل سے آچکا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجمعہ
باب : جمعہ کا وقت سورج ڈھلنے سے شروع ہوتا ہے

وكذلك يروى عن عمر وعلي والنعمان بن بشير وعمرو بن حريث رضى الله عنهم‏.‏
اور حضرت عمر اور حضرت علی اور نعمان بن بشیر اور عمرو بن حریث رضوا ن اللہ علیہم اجمعین سے اسی طرح مروی ہے۔
حدیث نمبر : 903
حدثنا عبدان، قال أخبرنا عبد الله، قال أخبرنا يحيى بن سعيد، أنه سأل عمرة عن الغسل، يوم الجمعة فقالت قالت عائشة ـ رضى الله عنها ـ كان الناس مهنة أنفسهم، وكانوا إذا راحوا إلى الجمعة راحوا في هيئتهم فقيل لهم لو اغتسلتم‏.‏
ہم سے عبدان عبداللہ بن عثمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں عبد اللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا کہ ہمیں یحی بن سعید نے خبر دی کہ انہوں نے عمرہ بن ت عبد الرحمن سے جمعہ کے دن غسل کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی تھیں کہ لوگ اپنے کاموں میں مشغول رہتے اور جمعہ کے لیے اسی حالت ( میل کچیل ) میں چلے آتے، اس لیے ان سے کہا گیا کہ کاش تم لوگ ( کبھی ) غسل کر لیا کرتے۔

تشریح : باب اور حدیث میں مطابقت لفظ حدیث کانو اذا ارادوا الی الجمعۃ سے ہے۔ علامہ عینی فرماتے ہیں لان الرواح لا یکون الابعد الزوال امام بخاری نے اس سے ثابت فرمایا کہ صحابہ کرام جمعہ کی نماز کے لیے زوال کے بعد آیا کرتے تھے معلوم ہوا کہ جمعہ کا وقت بعد زوال ہوتا ہے۔

حدیث نمبر : 904
حدثنا سريج بن النعمان، قال حدثنا فليح بن سليمان، عن عثمان بن عبد الرحمن بن عثمان التيمي، عن أنس بن مالك، رضى الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يصلي الجمعة حين تميل الشمس‏.‏
ہم سے سریج بن نعمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے فلیح بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے عثمان ا بن عبد الرحمن بن عثمان تیمی نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز اس وقت پڑھتے جب سورج ڈھل جاتا۔

حدیث نمبر : 905
حدثنا عبدان، قال أخبرنا عبد الله، قال أخبرنا حميد، عن أنس، قال كنا نبكر بالجمعة، ونقيل بعد الجمعة‏.
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں عبد اللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا کہ ہمیں حمید طویل نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے خبر دی۔ آپ نے فرمایا کہ ہم جمعہ سویرے پڑھ لیا کرتے اور جمعہ کے بعد آرام کرتے تھے۔

تشریح : امام بخاری نے وہی مذہب اختیار کیا جو جمہور کا ہے کہ جمعہ کا وقت زوال آفتاب سے شروع ہوتا ہے کیونکہ وہ ظہر کا قائم مقام ہے بعض احادیث سے جمعہ قبل الزوال بھی جائز معلوم ہوتا ہے یہاں لفظ نبکر بالجمعۃ یعنی صحابہ کہتے ہیں کہ ہم جمعہ کی نماز کے لیے جلدی جایا کرتے تھے ( اس سے قبل الزوال کے لیے گنجائش نکلتی ہے ) اس کے بارے میں علامہ امام شوکانی مرحوم فرماتے ہیں۔ ظاھر ذلک انھم کانوا یصلون الجمعۃ باکر النھار قال الحافظ لکن طریق الجمع اولیٰ من دعوی التعارض وقد تقرر ان التبکیر یطلق علی فعل الشئی فی اول وقتہ او تقدیمہ علی غیرہ وھو المراد ھھنا المعنی انھم کانوا یبدؤن بالصلوۃ قبل القیلولۃ بخلاف ما جرت بہ عادتھم فی صلوۃ الظھر فی الحر فانھم کانوا یقیلون ثم یصلون لمشروعیۃ الابراد۔
یعنی حدیث بالا سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جمعہ اول دن میں ادا کر لیا کر تے تھے۔ حافظ ابن حجرفرماتے ہیں کہ ہر دو احادیث میں تعارض پیدا کرنے سے بہتر یہ ہے کہ ان میں تطبیق دی جائے۔ یہ امر محقق ہے کہ تبکیر کا لفظ کسی کام کا اوّل وقت میں کرنے پر بولا جاتا ہے یا اس کا غیر پر مقدم کرنا۔ یہاں یہی مراد ہے معنی یہ ہواکہ وہ قیلولہ سے قبل جمعہ کی نماز پڑھ لیا کرتے تھے بخلاف ظہر کے کیونکہ گرمیوں میں ان کی عادت یہ تھی کہ پہلے قیلولہ کرتے پھر ظہر کی نماز ادا کرتے تا کہ ٹھنڈا وقت کرنے کی مشروعیت پر عمل ہو۔

مگر لفظ حین تمیل الشمس ( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سورج ڈھلنے پر جمعہ ادا فرمایا کرتے تھے ) پر علامہ شوکانی فرماتے ہیں فیہ اشعار بمواظبتہ صلی اللہ علیہ وسلم علی صلوۃ الجمعۃ اذا زالت الشمس یعنی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ہمیشہ زوال شمس کے بعد نماز جمعہ ادا فرمایا کرتے تھے امام بخاری اور جمہور کا مسلک یہی ہے، اگر چہ بعض صحابہ اور سلف سے زوال سے پہلے بھی جمعہ کا جواز منقول ہے مگر امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک ترجیح اسی مسلک کو حاصل ہے۔ ایسا ہی علامہ عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں والظاھر المعول علیہ ھو ما ذھب الیہ الجمھور من انہ لا تجوز الجمعۃ الا بعد زوال الشمس واماما ذھب الیہ بعضھم من انھا تجوز قبل الزوال فلیس فیہ حدیث صحیح صریح واللہ اعلم ( تحفۃ الاحوذی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجمعہ
باب : جمعہ جب سخت گرمی میں آن پڑے

حدیث نمبر : 906
حدثنا محمد بن أبي بكر المقدمي، قال حدثنا حرمي بن عمارة، قال حدثنا أبو خلدة ـ هو خالد بن دينار ـ قال سمعت أنس بن مالك، يقول كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا اشتد البرد بكر بالصلاة، وإذا اشتد الحر أبرد بالصلاة، يعني الجمعة‏.‏ قال يونس بن بكير أخبرنا أبو خلدة فقال بالصلاة، ولم يذكر الجمعة‏.‏ وقال بشر بن ثابت حدثنا أبو خلدة قال صلى بنا أمير الجمعة ثم قال لأنس ـ رضى الله عنه ـ كيف كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي الظهر
ہم سے محمد بن ابی بکر مقدمی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حرمی بن عمارہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوخلدہ جن کا نام خالد بن دینار ہے، نے بیان کیا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ نے فرمایا کہ اگر سردی زیادہ پڑتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سویرے پڑھ لیتے۔ لیکن جب گرمی زیادہ ہوتی تو ٹھنڈے وقت نماز پڑھتے۔ آپ کی مراد جمعہ کی نماز سے تھی۔ یونس بن بکیر نے کہا کہ ہمیں ابوخلدہ نے خبر دی۔ انہوں نے صرف نماز کہا۔ جمعہ کا ذکر نہیں کیا اور بشر بن ثابت نے کہا کہ ہم سے ابو خلدہ نے بیان کیا کہ امیر نے ہمیں جمعہ کی نماز پڑھائی۔ پھر حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز کس وقت پڑھتے تھے؟

تشریح : امیر سے حکم بن ابو عقیل ثقفی مراد ہیں جو حجاج بن یوسف کی طرف سے نائب تھے استدل بہ ابن بطال علی ان وقت الجمعۃ وقت الظھر لان انسا سوی بینھما فی جوابہ للحکم المذکور حین قیل کیف کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یصلی الظھر ( یعنی ) اس سے ابن بطال نے استدلال کیا کہ جمعہ اور ظہر کا وقت ایک ہی ہے۔ کیونکہ حضرت انس نے جواب میں جمعہ اور ظہر کو برابر کیا جبکہ ان سے پوچھا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز کس وقت ادا فرمایا کرتے تھے؟
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجمعہ
باب : جمعہ کی نماز کے لیے چلنے کا بیان

وقول الله ـ جل ذكره – ‏{‏فاسعوا إلى ذكر الله‏}‏‏.‏ ومن قال السعى العمل والذهاب لقوله تعالى ‏{‏وسعى لها سعيها‏}‏‏.‏ وقال ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ يحرم البيع حينئذ‏.‏ وقال عطاء تحرم الصناعات كلها‏.‏ وقال إبراهيم بن سعد عن الزهري إذا أذن المؤذن يوم الجمعة وهو مسافر فعليه أن يشهد‏.‏ اور خدا وند تعالی نے ( سورۃ جمعہ ) میں فرمایا کہ “ اللہ کے ذکر کی طرف تیزی کے ساتھ چلو ” اور اس کی تفسیر جس نے یہ کہا کہ “ سعی ” کے معنی عمل کرنا اور چلنا جیسے سورۃ بن ی اسرائیل میں ہے “ سعی لھا سعیھا ” یہاں سعی کے یہی معنی ہیں۔ ا بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ خرید وفروخت جمعہ کی اذان ہوتے ہی حرام ہو جاتی ہے عطاءنے کہا کہ تمام کاروبار اس وقت حرام ہو جاتے ہیں۔ ابراہیم بن سعد نے زہری کا یہ قول نقل کیا کہ جمعہ کے دن جب مؤذن اذان دے تو مسافر بھی شرکت کرے۔

تشریح : یہاں سعی کے معنی عمل کے ہیں یعنی جس نے عمل کیا آخرت کے لیے وہ عمل جو درکار ہے۔ ابن منیر نے کہا کہ جب سعی کا حکم ہوا اور بیع منع ہوئی تو معلوم ہوا کہ سعی سے وہ محل مراد ہے جس میں خدا کی عبادت ہو۔ مطلوب آیت کا یہ ہے کہ جب جمعہ کی اذان ہو تو خدا کا کام کرو دنیا کا کام چھوڑ دو۔

حدیث نمبر : 907
حدثنا علي بن عبد الله، قال حدثنا الوليد بن مسلم، قال حدثنا يزيد بن أبي مريم، قال حدثنا عباية بن رفاعة، قال أدركني أبو عبس وأنا أذهب، إلى الجمعة فقال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ من اغبرت قدماه في سبيل الله حرمه الله على النار‏"‏‏. ‏
ہم سے علی بن عبد اللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبایہ بن رفاعہ بن رافع بن خدیج نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ میں جمعہ کے لیے جا رہا تھا۔ راستے میں ابوعبس رضی اللہ عنہ سے میری ملاقات ہوئی، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جس کے قدم خدا کی راہ میں غبار آلود ہو گئے اللہ تعالی اسے دوزخ پر حرام کر دے گا۔

تشریح : حدیث اور ترجمہ میں مطابقت لفظ فی سبیل اللہ سے ہوتی ہے اس لیے جمعہ کے لیے چلنا فی سبیل اللہ ہی میں چلنا ہے گویا حضرت ابو عبس عبد الرحمن انصاری بدری صحابی مشہور نے جمعہ کو بھی جہاد کے حکم میں داخل فرمایا۔ پھر افسوس ہے ان حضرات پر جنہوں نے کتنے ہی دیہات میں جمعہ نہ ہونے کا فتوی دے کر دیہاتی مسلمانوں کو جمعہ کے ثواب سے محروم کر دیا۔ دیہات میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو شہروں میں جمعہ ادا کرنے کے لیے جائیں۔ وہ نماز پنج وقتہ تک میں سستی کرتے ہیں۔ نماز جمعہ کے لیے ان حضرات علماءنے چھوٹ دے دی جس سے ان کو کافی سہارا مل گیا۔ انا للّٰہ۔

حدیث نمبر : 908
حدثنا آدم، قال حدثنا ابن أبي ذئب، قال الزهري عن سعيد، وأبي، سلمة عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ وحدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني أبو سلمة بن عبد الرحمن، أن أبا هريرة، قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ إذا أقيمت الصلاة فلا تأتوها تسعون، وأتوها تمشون عليكم السكينة، فما أدركتم فصلوا، وما فاتكم فأتموا‏"‏‏. ‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ا بن ابی ذئب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہری نے سعید اور ابوسلمہ سے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( دوسری سند سے بیان کیا ) امام بخاری نے کہا اور ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے اور انھیں ابوسلمہ بن عبد الرحمن نے خبر دی، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے تھے کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جب نماز کے لیے تکبیر کہی جائے تو دوڑ تے ہوئے مت آؤ بلکہ ( اپنی معمولی رفتارسے ) آؤ پورے اطمینان کے ساتھ پھر نماز کا جو حصہ ( امام کے ساتھ ) پالواسے پڑھ لو اور جو رہ جائے تواسے بعد میں پورا کرو۔

یہیں سے ترجمہ باب نکلتا ہے کیونکہ جمعہ کی نماز بھی ایک نماز ہے اور اس کے لیے دوڑنا منع ہو کر معمولی چال سے چلنے کا حکم ہوا یہی ترجمہ باب ہے۔

حدیث نمبر : 909
حدثنا عمرو بن علي، قال حدثني أبو قتيبة، قال حدثنا علي بن المبارك، عن يحيى بن أبي كثير، عن عبد الله بن أبي قتادة ـ لا أعلمه إلا عن أبيه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ لا تقوموا حتى تروني، وعليكم السكينة‏"‏‏.
ہم سے عمرو بن علی فلاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابو قتیبہ بن قتیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے علی بن مبارک نے یحیٰ بن ابی کثیر سے بیان کیا، ان سے عبد اللہ بن ابی قتادہ نے ( امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مجھے یقین ہے کہ ) عبد اللہ نے اپنے باپ ابوقتادہ سے روایت کی ہے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے راوی ہیں کہ آپ نے فرمایا جب تک مجھے دیکھ نہ لو صف بندی کے لیے کھڑے نہ ہوا کرو اور آہستگی سے چلنا لازم کر لو۔

تشریح : حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے احتیاط کی راہ سے اس میں شک کیاکہ یہ حدیث ابو قتادہ کے بیٹے عبد اللہ نے اپنے باپ سے موصولا روایت کی یا عبد اللہ نے اس کو مرسلاً روایت کیا، شاید یہ حدیث انہوں نے اس کتاب میں اپنی یاد سے لکھی، اس وجہ سے ان کو شک رہا لیکن اسماعیلی نے اسی سند سے اس کو نکالا اس میں شک نہیں ہے عبداللہ سے انہوں نے ابو قتادہ سے روایت کی موصولاً ایسے بہت سے بیانات سے واضح ہے کہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ روایت حدیث میں انتہا ئی احتیاط ملحوظ رکھتے تھے پھر تف ہے ان لوگوں پر جو صحیح مرفوع احادیث کا انکار کر تے ہیں ھداھم اللہ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجمعہ
باب : جمعہ کے دن جہاں دو آدمی بیٹھے ہوئے ہوں ان کے بیچ میں نہ داخل ہو

حدیث نمبر : 910
حدثنا عبدان، قال أخبرنا عبد الله، قال أخبرنا ابن أبي ذئب، عن سعيد المقبري، عن أبيه، عن ابن وديعة، عن سلمان الفارسي، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ من اغتسل يوم الجمعة، وتطهر بما استطاع من طهر، ثم ادهن أو مس من طيب، ثم راح فلم يفرق بين اثنين، فصلى ما كتب له، ثم إذا خرج الإمام أنصت، غفر له ما بينه وبين الجمعة الأخرى‏"‏‏. ‏
ہم سے عبدان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں عبد اللہ بن مبارک نے خبر دی انہوں نے کہا کہ ہمیں ا بن ابی ذئب نے خبر دی، انہیں سعید مقبری نے، انہیں ان کے باپ ابو سعید نے، انہیں عبد اللہ بن ودیعہ نے، انہیں سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا جس نے جمعہ کے دن غسل کیا اور خوب پاکی حاصل کی اور تیل یا خوشبو استعمال کی، پھر جمعہ کے لیے چلا اور دو آدمیوں کے بیچ میں نہ گھسا اور جتنی اس کی قسمت میں تھی، نماز پڑھی، پھر جب امام باہر آیا اور خطبہ شروع کیا تو خاموش ہو گیا، اس کے اس جمعہ میں سے دوسرے جمعہ تک کے تمام گناہ بخش دیئے جائیں گے۔

تشریح : آداب جمعہ میں سے ضرورادب ہے کہ آنے والا نہایت ہی ادب ومتانت کے ساتھ جہاں جگہ پائے بیٹھ جائے۔ کسی کی گردن پھلانگ کر آگے نہ بڑھے کیونکہ یہ شرعا ممنوع اور معیوب ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ شریعت اسلامی میں کسی کو ایذا پہنچانا خواہ وہ ایذا بنام عبادت نمازہی کیوں نہ ہو، وہ عند اللہ گناہ ہے۔ اسی مضمون کی اگلی حدیث میں مزید تفصیل آرہی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجمعہ
باب : جمعہ کے دن کسی مسلمان بھائی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود وہاں نہ بیٹھے

حدیث نمبر : 911
حدثنا محمد، قال أخبرنا مخلد بن يزيد، قال أخبرنا ابن جريج، قال سمعت نافعا، يقول سمعت ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ يقول نهى النبي صلى الله عليه وسلم أن يقيم الرجل أخاه من مقعده ويجلس فيه‏.‏ قلت لنافع الجمعة قال الجمعة وغيرها‏.
ہم سے محمد بن سلام بیکندی رحمہ اللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں مخلد بن یزید نے خبر دی، کہا کہ ہمیں ا بن جریج نے خبر دی، کہا کہ میں نے نافع سے سنا، انہوں نے کہا میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر سے سنا، انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے کہ کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کو اٹھا کر اس کی جگہ خود بیٹھ جائے۔ میں نے نافع سے پوچھا کہ کیا یہ جمعہ کے لیے ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ جمعہ اور غیر جمعہ سب کے لیے یہی حکم ہے۔

تشریح : تعجب ہے ان لوگوں پر جو اللہ کی مساجد حتیٰ کہ کعبہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں ثواب کے لیے دوڑتے ہیں اور دوسروں کو تکلیف پہنچا کر ان کی جگہ پر قبضہ کر تے ہیںبلکہ بعض دفعہ جھگڑا فساد تک نوبت پہنچاکر پھر وہاں نماز پڑھتے اور اپنے نفس کو خوش کرتے ہیں کہ وہ عبادت الٰہی کر رہے ہیں۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ انہوں نے عبادت کا صحیح مفہوم نہیں سمجھا بلکہ بعض نمازی تو ایسے ہیں کہ ان کو حقیقی عبادت کا پتہ نہیں ہے اللھم ارحم علی امۃ حبیبک صلی اللہ علیہ وسلم۔

یہاں مولانا وحید الزماں مرحوم فرماتے ہیں کہ مسجد خدا کی ہے کسی کے باوا دادا کی ملک نہیں جو نمازی پہلے آیا اور کسی جگہ بیٹھ گیا وہی اس جگہ کا حقدار ہے، اب بادشاہ یا وزیربھی آئے تو اس کو اٹھانے کا حق نہیں رکھتا۔ ( وحیدی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجمعہ
باب : جمعہ کے دن اذان کا بیان

حدیث نمبر : 912
حدثنا آدم، قال حدثنا ابن أبي ذئب، عن الزهري، عن السائب بن يزيد، قال كان النداء يوم الجمعة أوله إذا جلس الإمام على المنبر على عهد النبي صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وعمر ـ رضى الله عنهما ـ فلما كان عثمان ـ رضى الله عنه ـ وكثر الناس زاد النداء الثالث على الزوراء‏.‏
ہم سے آدم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ا بن ابی ذئب نے زہری کے واسطے سے بیان کیا، ان سے سائب بن یزید نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں جمعہ کی پہلی اذان اس وقت دی جاتی تھی جب امام منبر پر خطبہ کے لیے بیٹھتے لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب مسلمانوں کی کثرت ہوگئی تو وہ مقام زوراء سے ایک اور اذان دلوانے لگے۔ ابو عبد اللہ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ زوراء مدینہ کے بازار میں ایک جگہ ہے۔

تشریح : معلوم ہوا کہ اصل اذان وہی تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وشیخین کے مبارک زمانوں میں امام کے منبر پر آنے کے وقت دی جاتی تھی۔ بعد میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو آگاہ کرنے کے لیے بازار میں ایک اذان کا اور اضافہ کر دیا۔تاکہ وقت سے لوگ جمعہ کے لیے تیار ہو سکیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرح بوقت ضرورت مسجد سے باہر کسی مناسب جگہ پر یہ اذان اگر اب بھی دی جائے تو جائز ہے مگر جہاں ضرورت نہ ہو وہاں سنت کے مطابق صرف خطبہ ہی کے وقت خوب بلند آواز سے ایک ہی اذان دینی چاہیے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجمعہ
باب : جمعہ کے لیے ایک مؤذن مقرر کرنا

حدیث نمبر : 913
حدثنا أبو نعيم، قال حدثنا عبد العزيز بن أبي سلمة الماجشون، عن الزهري، عن السائب بن يزيد، أن الذي، زاد التأذين الثالث يوم الجمعة عثمان بن عفان ـ رضى الله عنه ـ حين كثر أهل المدينة، ولم يكن للنبي صلى الله عليه وسلم مؤذن غير واحد، وكان التأذين يوم الجمعة حين يجلس الإمام، يعني على المنبر‏.‏
ہم سے ابو نعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبد العزیز بن ابوسلمہ ماجشون نے بیا کیا، انہوں نے کہا ہم سے زہری نے بیان کیا، ان سے سائب بن یزید نے کہ جمعہ میں تیسری اذان حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے بڑھائی جبکہ مدینہ میں لوگ زیادہ ہو گئے تھے جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ہی مؤذن تھے۔ ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ) جمعہ کی اذان اس وقت دی جاتی جب امام منبر پر بیٹھتا۔

اس سے ان لوگوں کا رد ہوا جو کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب منبر پر جاتے توتین مؤذن ایک کے بعد ایک اذان دیتے۔ ایک مؤذن کا مطلب یہ کہ جمعہ کی اذان خاص ایک مؤذن حضرت بلال رضی اللہ عنہ ہی دیا کرتے تھے ورنہ ویسے تو عہد نبوی میں کئی مؤذن مقرر تھے جو باری باری اپنے وقتوں پر اذان دیا کرتے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجمعہ
باب : امام منبر پر بیٹھے بیٹھے اذان سن کر اس کا جواب دے

حدیث نمبر : 914
حدثنا ابن مقاتل، قال أخبرنا عبد الله، قال أخبرنا أبو بكر بن عثمان بن سهل بن حنيف، عن أبي أمامة بن سهل بن حنيف، قال سمعت معاوية بن أبي سفيان،، وهو جالس على المنبر، أذن المؤذن قال الله أكبر الله أكبر‏.‏ قال معاوية الله أكبر الله أكبر‏.‏ قال أشهد أن لا إله إلا الله‏.‏ فقال معاوية وأنا‏.‏ فقال أشهد أن محمدا رسول الله‏.‏ فقال معاوية وأنا‏.‏ فلما أن قضى التأذين قال يا أيها الناس إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم على هذا المجلس حين أذن المؤذن يقول ما سمعتم مني من مقالتي‏.
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہمیں ابو بکر بن عثمان بن سہل بن حنیف نے خبر دی، انہیں ابوامامہ بن سہل بن حنیف نے، انہوں نے کہا میں نے معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کو دیکھا آپ منبر پر بیٹھے، مؤذن نے اذان دی “اللہ اکبر اللہ اکبر” معاویہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا “اللہ اکبر اللہ اکبر” مؤذن نے کہا “اشہد ان لا الہ الا اللہ” معاویہ نے جواب دیا “وانا” اور میں بھی توحید کی گواہی دیتا ہوں مؤذن نے کہا “اشہد ان محمدارسول اللہ” معاویہ نے جواب دیا “وانا” اور میں بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دیتا ہوں “ جب مؤذن اذان کہہ چکا تو آپ نے کہا حاضرین! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا اسی جگہ یعنی منبر پر آپ بیٹھے تھے مؤذن نے اذان دی تو آپ یہی فرمارہے تھے جو تم نے مجھ کو کہتے سنا۔

اذان کے جواب میں سننے والے بھی وہی الفاظ کہتے جائیںجومؤذن سے سنتے ہیں، اس طرح ان کو وہی ثواب ملے گا جو مؤذن کو ملتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجمعہ
باب : جمعہ کی اذان ختم ہونے تک امام منبر پر بیٹھا رہے

حدیث نمبر : 915
حدثنا يحيى بن بكير، قال حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، أن السائب بن يزيد، أخبره أن التأذين الثاني يوم الجمعة أمر به عثمان حين كثر أهل المسجد، وكان التأذين يوم الجمعة حين يجلس الإمام‏.‏
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے عقیل کے واسطے سے بیان کیا، ان سے ا بن شہاب نے کہ سائب بن یزید نے انہیں خبر دی کہ جمعہ کی دوسری اذان کا حکم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے اس وقت دیا جب نمازی بہت زیادہ ہو گئے تھے اور جمعہ کے دن اذان اس وقت ہوتی جب امام منبر پر بیٹھا کر تاتھا۔

صاحب تفہیم البخاری حنفی دیوبندی کہتے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ جمعہ کی اذان کا طریقہ پنج وقتہ اذان سے مختلف تھا۔ اور دنوں میں اذان نماز سے کچھ پہلے دی جاتی تھی۔ لیکن جمعہ کی اذان کے ساتھ ہی خطبہ شروع ہو جاتا تھا اور اس کے بعد فوراً نماز شروع کر دی جاتی۔ یہ یاد رہے کہ آج کل جمعہ کا خطبہ شروع ہونے پر امام کے سامنے آہستہ سے مؤذن جواذان دیتے ہیں۔ یہ خلاف سنت ہے۔ خطبہ کی اذان بھی بلند جگہ پر بلند آوازہونی چاہیے۔ ابن منیر کہتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے کوفہ والوں کا رد کیا جو کہتے ہیں کہ خطبہ سے پہلے منبر پر بیٹھنا مشروع نہیں ہے۔
 
Top