• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب المظالم والغصب
باب : اگر کسی نے کسی کی دیوار گرا دی تو اسے وہ ویسی ہی بنوانی ہوگی

اس مسئلہ میں مالکیہ کا اختلاف ہے وہ کہتے ہیں کہ دیوار کی قیمت دینی چاہئے۔ مگر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جس روایت سے دلیل لی وہ اس پر مبنی ہے کہ اگلی شریعتیں ہمارے لیے حجت ہیں جب ہماری شریعت میں ان کے خلاف کوئی حکم نہ ہو۔ اور اس مسئلہ میں اختلاف ہے۔

حدیث نمبر : 2482
حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا جرير بن حازم، عن محمد بن سيرين، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏كان رجل في بني إسرائيل، يقال له جريج، يصلي، فجاءته أمه فدعته، فأبى أن يجيبها، فقال أجيبها أو أصلي ثم أتته، فقالت اللهم لا تمته حتى تريه المومسات‏.‏ وكان جريج في صومعته، فقالت امرأة لأفتنن جريجا‏.‏ فتعرضت له فكلمته فأبى، فأتت راعيا، فأمكنته من نفسها فولدت غلاما، فقالت هو من جريج‏.‏ فأتوه، وكسروا صومعته فأنزلوه وسبوه، فتوضأ وصلى ثم أتى الغلام، فقال من أبوك يا غلام قال الراعي‏.‏ قالوا نبني صومعتك من ذهب‏.‏ قال لا إلا من طين‏"‏‏.
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، بنی اسرائیل میں ایک صاحب تھے، جن کا نام جریج تھا۔ وہ نماز پڑھ رہے تھے کہ ان کی والدہ آئیں اور انہیں پکارا۔ انہوں نے جواب نہیں دیا۔ سوچتے رہے کہ جواب دوں یا نماز پڑھوں۔ پھر وہ دوبارہ آئیں اور ( غصے میں ) بد دعا کر گئیں، اے اللہ ! اسے موت نہ آئے جب تک کسی بدکار عورت کا منہ نہ دیکھ لے۔ جریج اپنے عبادت خانے میں رہتے تھے۔ ایک عورت نے ( جو جریج کے عبادت خانے کے پا س اپنی مویشی چرایا کرتی تھی اور فاحشہ تھی ) کہا کہ جریج کو فتنہ میں ڈالے بغیر نہ رہوں گی۔ چنانچہ وہ ان کے سامنے آئی اور گفتگو کرنی چاہی، لیکن انہوں نے منہ پھیر لیا۔ پھر وہ ایک چرواہے کے پاس گئی اور اپنے جسم کو اس کے قابو میں دے دیا۔ آخر لڑکا پیدا ہوا۔ اور اس عورت نے الزام لگایا کہ یہ جریج کا لڑکا ہے۔ قوم کے لوگ جریج کے یہاں آئے اور ا ن کا عبادت خانہ توڑ دیا۔ انہیں باہر نکالا اور گالیاں دیں۔ لیکن جریج نے وضو کیا اور نماز پڑھ کر اس لڑکے کے پاس آئے۔ انہوں نے اس سے پوچھا بچے ! تمہار باپ کون ہے؟ بچہ ( خدا کے حکم سے ) بول پڑا کہ چرواہا ! ( قوم خوش ہو گئی اور ) کہا کہ ہم آپ کے لیے سونے کا عبادت خانہ بنوا دیں۔ جریج نے کہا کہ میرا گھرتو مٹی ہی سے بنے گا۔

تشریح : حدیث جریج حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کئی جگہ لائے ہیں۔ اور اس سے مختلف مسائل کا استنباط فرمایا ہے۔ یہاں آپ یہ ثابت فرمانے کے لیے یہ حدیث لائے کہ جب کوئی شخص یا اشخاص کسی کی دیوار ناحق گراد یں تو ان کو وہ دیوار پہلی ہی دیوار کے مثل بنانی لازم ہوگی۔

جریج کا واقعہ مشہور ہے۔ ان کے دین میں ماں کی بات کا جواب دینا بحالت نماز بھی ضروری تھا۔ مگر حضرت جریج نماز میں مشغول رہے، حتی کہ ان کی والدہ نے خفا ہو کر ان کے حق میں بددعا کر دی، آخر ان کی پاک دامنی ثابت کرنے کے لیے اللہ پاک نے اسی ولد الزنا بچے کو گویائی دے۔ حالانکہ اس کے بولنے کی عمر نہ تھی۔ مگر اللہ نے حضرت جریج کی دعا قبول کی اور اس بچے کو بولنے کی طاقت بخشی۔ قسطلانی نے کہا کہ اللہ نے چھ بچوں کو کم سنی میں بولنے کی قوت عطا فرمائی۔ ان میں حضرت یوسف علیہ السلام کی پاکدامنی کی گواہی دینے والا بچہ اور فرعون کی بیٹی کی مغلانی کا لڑکا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور صاحب جریج اور صاحب اخدود اور بنی اسرائیل کی ایک عورت کا بیٹا جس کو وہ دوھ پلا رہی تھی۔ اچانک ایک شخص جاہ وحشم کے ساتھ گزرا اور عور ت نے بچے کے لیے دعا کی کہ اللہ میرے بچے کو بھی ایسی قسمت والا بنائیو۔ اس شیر خوار بچے نے فوراً کہا کہ الٰہی ! مجھے ایسا نہ بناؤ۔ کہتے ہیں کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام نے بھی کم سنی میں باتیں کی ہیں۔ تو کل سات بچے ہوں گے۔
ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ حضرت جریج نے اپنا گھر مٹی ہی کی پہلی حالت کے مطابق بنوانے کا حکم دیا۔ حدیث سے یہ بھی نکلا کہ ماں کی دعا اپنی اولاد کے لیے ضرور قبول ہوتی ہے۔ ماں کا حق باپ سے تین حصے زیادہ ہے۔ جو لڑکے لڑکی ماں کو راضی رکھتے ہیں وہ دنیا میں بھی خوب پھلتے پھولتے ہیں اور آخرت میں بھی نجات پاتے ہیں اور ماں کو ناراض کرنے والے ہمیشہ دکھ اٹھاتے ہیں۔ تجربہ اور مشاہدہ سے اس کا بہت کچھ ثبوت موجود ہے۔ جس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
ماں کے بعد باپ کا درجہ بھی کچھ کم نہیں ہے۔ اسی لیے قرآن مجید میں عبادت الٰہی کے لیے حکم صادر فرمانے کے بعد و بالوالدین احسانا ( البقرۃ : 83 ) کے لفظ استعمال کئے گئے ہیں۔ کہ اللہ کی عبادت کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرو، یہاں تک کہ فلاں تقل لہما اف و لا تنہر ہما و قل لہما قولا کریما و اخفض لہما جناح الذل من الرحمۃ و قل رب ارحمہما کما ربیانی صغیرا ( بنی اسرائیل : 24 ) یعنی ماں باپ زندہ موجود ہوں تو ان کے سامنے اف بھی نہ کرو اور نہ انہیں ڈانٹو ڈپٹو بلکہ ان سے نرم نرم میٹھی میٹھی باتیں جو رحم و کرم سے بھر پور ہوں کیا کرو اور ان کے لیے رحم و کرم والے بازو بچھا دیا کرو وہ بازو جو ان کے احترام کے لیے عاجزی انکساری کے لیے ہوئے ہوں اوران کے حق میں یوں دعا کیا کرو کہ پروردگار ! ان پر اسی طرح رحم فرمائیو جیسا کہ بچپن میں انہوں نے مجھ کو اپنے رحم و کرم سے پروان چڑھایا۔

ماں باپ کی خدمت، اطاعت، فرمانبردرای کے بارے میں بہت سی احادیث مروی ہیں جن کا نقل کرنا طوالت ہے۔ خلاصہ یہی ہے کہ اولاد کا فرض ہے کہ والدین کی نیک دعائیں ہمیشہ حاصل کرے۔
حضرت جریج کے واقعہ میں اور بھی بہت سی عبرتیں ہیں۔ سمجھنے کے لیے نور بصیرت درکار ہے، اللہ والے دنیا کے جھمیلوں سے دور رہ کر شب و روز عبادت الٰہی میں مشغول رہنے والے بھی ہوتے ہیں اور وہ دنیا کے جھمیلوں میں رہ کربھی یاد خدا سے غافل نہیںہوتے۔ نیز جب بھی کوئی حادثہ سامنے آئے صبر و استقلال کے ساتھ اسے برداشت کرتے اور اس کا نتیجہ اللہ کے حوالے کرتے ہیں۔ ہماری شریعت کا بھی یہی حکم ہے کہ اگر کوئی شخص نفل نماز کی نیت باندھے ہوئے ہو اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے پکار دیں تو وہ نماز توڑ کر خدمت میں حاضری دے۔ آج کل اولاد کے لیے یہی حکم ہے نیز بیوی کے لیے بھی کہ وہ خاوند کی اطاعت کو نفل نمازوں پر مقدم جانے۔ و باللہ التوفیق
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب الشرکۃ


صحیح بخاری -> کتاب الشرکۃ
باب : کھانے اور سفر خرچ اور اسباب میں شرکت کا بیان

وكيف قسمة ما يكال ويوزن مجازفة أو قبضة قبضة، لما لم ير المسلمون في النهد بأسا أن يأكل هذا بعضا، وهذا بعضا وكذلك مجازفة الذهب والفضة، والقران في التمر‏.
اور جو چیزیں ناپی یا تولی جاتی ہیں تخمینے سے بانٹنایا مٹھی بھر بھر کر تقسیم کر لینا، کیوں کہ مسلمانوں نے اس میں کوئی مضائقہ نہیں خیال کیا کہ مشترک زاد سفر ( کی مختلف چیزوں میں سے ) کوئی شریک ایک چیز کھا لے اوردوسرا دوسری چیز، اسی طرح سونے چاندی کے بدل بن تولے ڈھیر لگا کر بانٹنے میں، اسی طرح دو دو کھجو راٹھاکر کھانے میں۔

حدیث نمبر : 2483
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن وهب بن كيسان، عن جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ أنه قال بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم بعثا قبل الساحل، فأمر عليهم أبا عبيدة بن الجراح وهم ثلاثمائة وأنا فيهم، فخرجنا حتى إذا كنا ببعض الطريق فني الزاد، فأمر أبو عبيدة بأزواد ذلك الجيش فجمع ذلك كله فكان مزودى تمر، فكان يقوتنا كل يوم قليلا قليلا، حتى فني فلم يكن يصيبنا إلا تمرة تمرة‏.‏ فقلت وما تغني تمرة فقال لقد وجدنا فقدها حين فنيت‏.‏ قال ثم انتهينا إلى البحر فإذا حوت مثل الظرب، فأكل منه ذلك الجيش ثماني عشرة ليلة، ثم أمر أبو عبيدة بضلعين من أضلاعه فنصبا، ثم أمر براحلة فرحلت ثم مرت تحتهما فلم تصبهما‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں وہب بن کیسان نے اور انہیں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( رجب 7ھ میں ) ساحل بحر کی طرف ایک لشکر بھیجا۔ اور اس کاامیر ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو بنایا۔ فوجیوں کی تعداد تین سو تھی اورمیںبھی ان میں شریک تھا۔ ہم نکلے اور ابھی راستے ہی میں تھے کہ توشہ ختم ہو گیا۔ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ تمام فوجی اپنے توشے ( جو کچھ بھی باقی رہ گئے ہوں ) ایک جگہ جمع کر دیں۔ سب کچھ جمع کرنے کے بعد کھجوروں کے کل دو تھیلے ہو سکے اور روزانہ ہمیں اسی میں سے تھوڑی تھوڑی کھجور کھانے کے لیے ملنے لگی۔ جب اس کا بھی اکثر حصہ ختم ہو گیا تو ہمیں صرف ایک ایک کھجور ملتی رہی۔ میں ( وہب بن کیسان ) نے جابر رضی اللہ عنہ سے کہا بھلا ایک کھجور سے کیا ہوتا ہوگا؟ انہوں نے بتلایا کہ اس کی قدر ہمیں اس وقت معلوم ہوئی جب وہ بھی ختم ہو گئی تھی۔ انہوں نے بیان کیا کہ آخر ہم سمندر تک پہنچ گئے۔ اتفاق سے سمندر میں ہمیں ایک ایسی مچھلی مل گئی جو ( اپنے جسم میں ) پہاڑ کی طرح معلوم ہوتی تھی۔ سارا لشکر اس مچھلی کو اٹھارہ راتوں تک کھاتا رہا۔ پھر ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس کی دونوں پسلیوں کو کھڑا کرنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد اونٹوں کو ان کے تلے سے چلنے کا حکم دیا۔ اور وہ ان پسلیوں کے نیچے سے ہو کر گزرے، لیکن اونٹ نے ان کو چھوا تک نہیں۔

ترجمہ باب اس سے نکلا کہ حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے ساری فوج کا توشہ ایک جگہ جمع کرا لیا۔ پھر اندازے سے تھوڑا تھوڑا سب کو دیا جانے لگا۔ سو سفر خرچ کی شرکت اور اندازے سے اسی کی تقسیم ثابت ہوئی۔

حدیث نمبر : 2484
حدثنا بشر بن مرحوم، حدثنا حاتم بن إسماعيل، عن يزيد بن أبي عبيد، عن سلمة ـ رضى الله عنه ـ قال خفت أزواد القوم وأملقوا، فأتوا النبي صلى الله عليه وسلم في نحر إبلهم فأذن لهم، فلقيهم عمر فأخبروه فقال ما بقاؤكم بعد إبلكم، فدخل على النبي صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله ما بقاؤهم بعد إبلهم‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ناد في الناس فيأتون بفضل أزوادهم‏"‏‏. ‏ فبسط لذلك نطع، وجعلوه على النطع‏.‏ فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فدعا وبرك عليه ثم دعاهم بأوعيتهم فاحتثى الناس حتى فرغوا، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏أشهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله‏"‏‏. ‏
ہم سے بشر بن مرحوم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حاتم بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی عبیدہ نے اور ان سے سلمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ( غزوہ ہوازن میں ) لوگوں کے توشے ختم ہو گئے اور فقر و محتاجی آگئی، تو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اپنے اونٹوں کو ذبح کرنے کی اجاازت لینے ( تاکہ انہیں کے گوشت سے پیٹ بھر سکیں ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی۔ راستے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ملاقات ان سے ہو گئی تو انہیں بھی ان لوگوں نے اطلا ع دی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا اونٹوں کو کاٹ ڈالو گے تو پھر تم کیسے زندہ رہو گے۔ چنانچہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اورکہا، یا رسول اللہ ! اگر انہوں نے اونٹ بھی ذبح کرلیے تو پھر یہ لوگ کیسے زندہ رہیں گے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا، تمام لوگوں میں اعلان کر دو کہ ان کے پا س جو کچھ توشے بچ رہے ہیں وہ لے کر یہاں آجائیں۔ اس کے لیے ایک چمڑے کا دسترخوان بچھا دیا گیا۔ اور لوگوںنے توشے اسی دسترخوان پر لا کررکھ دئیے۔ اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور اس میں برکت کی دعا فرمائی۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر سب لوگوں کو اپنے اپنے برتنوں کے ساتھ بلایا ا ور سب نے دونوں ہاتھوں سے توشے اپنے برتنوں میں بھر لیے۔ جب سب لوگ بھر چکے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا سچا رسول ہوں۔ “

تشریح : اس حدیث میں ایک اہم ترین معجزہؤ نبوی کا ذکر ہے کہ اللہ نے اپنی قدرت کی ایک عظیم نشانی اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر ظاہر کی۔ یا توہ وہ توشہ اتنا کم تھا کہ لوگ اپنی سواریاں کاٹنے پر آمادہ ہو گئے یا وہ اس قدر بڑھ گیا کہ فراغت سے ہر ایک نے اپنی خواہش کے موافق بھر لیا۔ اس قسم کے معجزات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی بار صادر ہوئے ہیں۔ ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کے توشے اکٹھا کرنے کا حکم دیا، پھر ہر ایک نے یوں ہی اندازے سے لے لیا، آپ نے تول ماپ کر اس کو تقسیم نہیں کیا۔

حدیث اور باب کی مطابقت کے سلسلہ میں شارحین بخاری لکھتے ہیں : و مطابقتہ للترجمۃ توخذ من قولہ فیاتون بفضل ازوادہم و من قولہ فدعا و برک علیہ فان جمع ازوادہم و ہو فی معنی النہد و دعاءالنبی صلی اللہ علیہ وسلم بالبرکۃ ( عینی ) یعنی حدیث اور باب میں مطابقت لفظ فیاتون الخ سے ہے کہ ایسے مواقع پر ان سب نے اپنے اپنے توشے لا کر جمع کر دیئے اور اس قول سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں برکت کی دعا فرمائی۔ یہاں ان کے توشے جمع کرنا مذکورہے اور وہ نہد کے معنی میں ہے یعنی اپنے اپنے حصے برابر برابر لا کر جمع کر دینا۔ اور ا س میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا برکت کے لیے دعا فرمانا۔ لفظ نہد یا نہد آگے بڑھنا، ”نمودار ہونا، مقابل ہونا“ ظاہر ہونا، بڑا کرنے کے معنی میں ہے۔ اسی سے لفظ تناہد ہے۔ جس کے معنی سفر کے سب رفیقوں کا ایک معین روپیہ یا راشن توشہ جمع کرنا کہ اس سے سفر کی خوردنی ضروریات کو مساوی طور پر پورا کیا جاے یہاں ایسا ہی واقعہ مذکور ہے۔

حدیث نمبر : 2485
حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا الأوزاعي، حدثنا أبو النجاشي، قال سمعت رافع بن خديج ـ رضى الله عنه ـ قال كنا نصلي مع النبي صلى الله عليه وسلم العصر فننحر جزورا، فتقسم عشر قسم، فنأكل لحما نضيجا قبل أن تغرب الشمس‏.‏
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے اوزاعی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوالنجاشی نے بیان کیا کہا کہ میں نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عصر کی نماز پڑھ کر اونٹ ذبح کرتے تو انہیں دس حصوں میں تقسیم کرتے اور پھر سورج غروب ہونے سے پہلے ہی ہم اس کا پکا ہوا گوشت بھی کھا لیتے۔

تشریح : اس حدیث سے نکلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز ایک مثل پر پڑھا کرتے تھے ورنہ دو مثل سایہ پرجو کوئی عصر کی نماز پڑھے گا تو اتنے وقت میں اس کے لیے یہ کام پورا کرنا مشکل ہے۔ اس حدیث سے باب کا مطلب یوں نکلتا ہے کہ اونٹ کا گوشت یونہی اندازے سے تقسیم کیا جاتاتھا۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 2486
حدثنا محمد بن العلاء، حدثنا حماد بن أسامة، عن بريد، عن أبي بردة، عن أبي موسى، قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏إن الأشعريين إذا أرملوا في الغزو، أو قل طعام عيالهم بالمدينة جمعوا ما كان عندهم في ثوب واحد، ثم اقتسموه بينهم في إناء واحد بالسوية، فهم مني وأنا منهم‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن علاءنے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن اسامہ نے بیان کیا، ان سے برید نے، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، قبیلہ اشعر کے لوگوں کا جب جہاد کے موقع پر توشہ کم ہوجاتا یا مدینہ ( کے قیام ) میں ان کے بال بچوں کے لیے کھانے کی کمی ہوجاتی تو جو کچھ بھی ان کے پاس توشہ ہوتا تو وہ ایک کپڑے میں جمع کر لیتے ہیں۔ پھر آپس میں ایک برتن سے برابر تقسیم کرلیتے ہیں۔ پس وہ میرے ہیں اور میں ان کا ہوں۔

یعنی وہ خاص میرے طریق اور میری سنت پر ہیں۔ اور میں ان کے طریق پر ہوں۔ اس حدیث سے یہ نکلا کہ سفر یاحضر میں توشوں کا ملا لینا اور برابر برابر بانٹ لینا مستحب ہے۔ باب کی حدیث سے مطابقت ظاہر ہے و مطابقتہ للترجمۃ توخذ من قولہ جمعوا ما کان عندہم فی ثوب واحد ثم اقتسموہ بینہم ( عمدۃ القاری
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الشرکۃ
باب : جو مال دو ساجھیوں کے ساجھے کا ہو وہ زکوٰۃ میں ایک دوسرے سے برابر برابر مجرا کرلیں

حدیث نمبر : 2487
حدثنا محمد بن عبد الله بن المثنى، قال حدثني أبي قال، حدثني ثمامة بن عبد الله بن أنس، أن أنسا، حدثه أن أبا بكر ـ رضى الله عنه ـ كتب له فريضة الصدقة التي فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏وما كان من خليطين فإنهما يتراجعان بينهما بالسوية‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن عبداللہ بن مثنیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ثمامہ بن عبداللہ بن انس نے بیان کیا، ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کے لیے فرض زکوٰۃ کا بیان تحریر کیا تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کی تھی۔ آپ نے فرمایا کہ جب کسی مال میں دو آدمی ساجھی ہوں تووہ زکوٰۃ میں ایک دوسرے سے برابر برابر مجرا کرلیں۔

جب زکوٰۃ کا مال دو یا تین ساتھیوں میں مشترک ہو۔ یعنی سب کا ساجھا ہواور زکوٰۃ کا تحصیل دار ایک ساجھی سے کل زکوٰۃ وصول کرلے تو وہ دوسرے ساجھیوں کے حصے کے موافق ان سے مجرا لے اور زکوٰۃ کے اوپر دوسرے خرچوں کا بھی قیاس ہو سکے گا۔ پس اس طرح سے اس حدیث کو شرکت سے تعلق ہوا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الشرکۃ
باب : بکریوں کا بانٹنا

حدیث نمبر : 2488
حدثنا علي بن الحكم الأنصاري، حدثنا أبو عوانة، عن سعيد بن مسروق، عن عباية بن رفاعة بن رافع بن خديج، عن جده، قال كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم بذي الحليفة فأصاب الناس جوع فأصابوا إبلا وغنما‏.‏ قال وكان النبي صلى الله عليه وسلم في أخريات القوم فعجلوا وذبحوا ونصبوا القدور، فأمر النبي صلى الله عليه وسلم بالقدور فأكفئت، ثم قسم فعدل عشرة من الغنم ببعير فند منها بعير، فطلبوه فأعياهم، وكان في القوم خيل يسيرة فأهوى رجل منهم بسهم فحبسه الله ثم قال ‏"‏إن لهذه البهائم أوابد كأوابد الوحش فما غلبكم منها فاصنعوا به هكذا‏"‏‏. ‏ فقال جدي إنا نرجو ـ أو نخاف ـ العدو غدا، وليست معنا مدى أفنذبح بالقصب‏.‏ قال ‏"‏ما أنهر الدم وذكر اسم الله عليه، فكلوه، ليس السن والظفر، وسأحدثكم عن ذلك، أما السن فعظم وأما الظفر فمدى الحبشة‏"‏‏. ‏
ہم سے علی بن حکم انصاری نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے سعید بن مسروق نے، ان سے عبایہ بن رفاعہ بن رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے اور ان سے ان کے دادا ( رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ ) نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مقام ذوالحلیفہ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ لوگوں کو بھوک لگی۔ ادھر ( غنیمت میں ) اونٹ اور بکریاں ملی تھیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لشکر کے پیچھے کے لوگوں میں تھے۔ لوگوں نے جلدی کی اور ( تقسیم سے پہلے ہی ) ذبح کرکے ہانڈیاں چڑھا دیں۔ لیکن بعد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور وہ ہانڈیاں اوندھا دی گئیں۔ پھر آپ نے ان کو تقسیم کیا اور دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر رکھا۔ ایک اونٹ اس میں سے بھاگ گیا تو لوگ اسے پکڑنے کی کوشش کرنے لگے۔ لیکن اس نے سب کو تھکا دیا۔ قوم کے پاس گھوڑے کم تھے۔ ایک صحابی تیر لے کر اونٹ کی طرف جھپٹے۔ اللہ نے اس کو ٹھہرا دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان جانوروں میں بھی جنگلی جانوروں کی طرح سرکشی ہوتی ہے۔ اس لیے ان جانوروں میں سے بھی اگر کوئی تمہیں عاجز کردے تو اس کے ساتھ تم ایسا ہی معاملہ کیا کرو۔ پھر میرے دادا نے عرض کیا کہ کل دشمن کے حملہ کا خوف ہے، ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں ( تلواروں سے ذبح کریں تو ان کے خراب ہونے کا ڈر ہے جب کہ جنگ سامنے ہے ) کیا ہم بانس کے کھپچی سے ذبح کرسکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا، جو چیز بھی خون بہا دے اور ذبیحہ پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا ہو، تو اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں۔ سوائے دانت اور ناخن کے۔ اس کی وجہ میں تمہیں بتاتا ہوں۔ دانت تو ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھری ہے۔

تشریح : وہ ناخن ہی سے جانور کاٹتے ہیں، تو ایسا کرنے میں ان کی مشابہت ہے۔ امام نووی نے کہا کہ ناخن خواہ بدن میں لگا ہوا ہو یا جدا کیا ہوا ہو، پاک ہو یا نجس کسی حال میں اس سے ذبح جائز نہیں۔ ترجمہ باب کی مطابقت ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر کیا۔ ہانڈیوں کو ا س لیے اوندھا کر دیا گیا کہ ان میں جو گوشت پکا یا جارہا تھا وہ ناجائز تھا۔ جسے کھانا مسلمانوں کے لیے حلال نہ تھا۔ لہٰذآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا گوشت ضائع کرا دیا۔ دیوبندی حنفی ترجمہ بخاری میں یہاں لکھا گیا ہے کہ ”ہانڈیوں کے الٹ دینے کا مطلب یہ ہے کہ ( یعنی تقسیم کرنے کے لیے ان سے گوشت نکال لیا گیا ) (دیکھو تفہیم البخاری دیوبندی ص142پ9 )

یہ مفہوم کتنا غلط ہے۔ اس کا اندازہ حاشیہ صحیح بخاری شریف مطبوعہ کراچی جلد اول ص 338 کی عبارت ذیل سے لگایا جاسکتا ہے۔ محشی صاحب جو غالباً حنفی ہی ہیں فرماتے ہیں فاکفئت ای اقلبت و رمیت واریق ما فیہا و ہو من الاکفاءقیل انما امر بالاکفاءلانہم ذبحوا الغنم قبل ان یقسم فلم یطب لہ بذلک یعنی ان ہانڈیوں کو الٹا کر دیا گیا، گرا دیا گیا اور جو ان میں تھا وہ سب بہاد یا گیا۔ حدیث کا لفظ اکفئت مصدر اکفاءسے ہے۔ کہا گیا ہے کہ آپ نے ان کے گرانے کا حکم ا س لیے صادر فرمایا کہ انہوں نے بکریوں کو مال غنیمت کے تقسیم ہونے سے پہلے ہی ذبح کر ڈالا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا یہ فعل پسند نہیں آیا۔ اس تشریح سے صاف ظاہر ہے کہ دیوبندی حنفی کا مذکورہ مفہوم بالکل غلط ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الشرکۃ
باب : دو دو کھجوریں ملا کر کھانا کسی شریک کو جائز نہیں جب تک دوسرے ساتھ والوں سے اجازت نہ لے

حدیث نمبر : 2489
حدثنا خلاد بن يحيى، حدثنا سفيان، حدثنا جبلة بن سحيم، قال سمعت ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ يقول نهى النبي صلى الله عليه وسلم أن يقرن الرجل بين التمرتين جميعا، حتى يستأذن أصحابه‏.
ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا ہم سے جبلہ بن سحیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا۔ انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا تھا کہ کوئی شخص اپنے ساتھیوں کی اجازت کے بغیر ( دستر خوان پر ) دو دو کھجور ایک ساتھ ملا کر کھائے۔

حدیث نمبر : 2490
حدثنا أبو الوليد، حدثنا شعبة، عن جبلة، قال كنا بالمدينة فأصابتنا سنة، فكان ابن الزبير يرزقنا التمر، وكان ابن عمر يمر بنا فيقول لا تقرنوا فإن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن الإقران، إلا أن يستأذن الرجل منكم أخاه‏.‏
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے جبلہ نے بیان کیا، کہ ہمارا قیام مدینہ میں تھا اور ہم پر قحط کا دور دورہ ہوا۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما ہمیں کھجور کھانے کے لیے دیتے تھے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما گزرتے ہوئے یہ کہہ کر جایا کرتے تھے کہ دو دو کھجور ایک ساتھ ملا کر نہ کھانا کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دوسرے ساتھی کی اجازت کے بغیر ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
----------------------------------------------------------------------------------------
----------------------------------------------------------------------------------------
الحمدللہ تیسری جلد پر کام پورا ہوا.
----------------------------------------------------------------------------------------
----------------------------------------------------------------------------------------


اگلی جلدیں دیکھئے :

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ١ - حدیث نمبر ١ تا ٨١٣
مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤
مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠
مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد٤- حدیث نمبر٢٤٩١ تا ٣٤٦٤
مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد٥- حدیث نمبر٣٤٦٥ تا ٤٣٩٤
مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٦- حدیث نمبر٤٣٩٥ تا ٥٢٤٤
مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد٧ - حدیث نمبر٥٢٤٥ تا ٦٥١٦

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد٨ - حدیث نمبر٦٥١٧ تا ٧٥٨٣
 
Top