رانا ذیشان سلفی
مبتدی
- شمولیت
- مئی 21، 2012
- پیغامات
- 68
- ری ایکشن اسکور
- 331
- پوائنٹ
- 0
مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں تراویح کے بارے میں ایک وضاحتجواب۔ اصل بات یہ ہے کہ آل سعودؒسے پہلے ترکی دور میں حجاز مقدس میں شرک و بدعت کا دور دورہ تھاحتیٰ کہبیت اللہ شریف میں بھی چار مصلے چاروں اماموں کے نام پر الگ الگ بنے ہوئے تھے ہر فرقہ دوسرے کے پیچھے نماز نہ پڑھتا تھا۔صحابہ کرامؓکی قبروں پر چڑھاوے چڑھائے جاتے تھے۔ شاہ عبد العزیز ؒبن سعود نے حجاز شریف پر قبضہ کرتے ہی تمام شرکیہ اور بدعیّہ امور ختم کر دیئے البتہ مباح چیزیں علیٰ حالہٖ رہنے دیںجن میں ایک تراویح کا مسئلہ بھی تھا چونکہ تراویح ایک نفلی عبادت ہے جو حسب توفیق جس قدر کوئی کرسکتا ہے کرے اس کی کوئی حد بندی نہیں البتہ تراویح صرف آٹھ رکعات ہی ہیں اور یہی فیصلہ سعودی عرب کے علماء کا ہے ۔ اور یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب میں حرمین شریفین کے علاوہ دوسری مساجد میں آج بھی آٹھ رکعات تراویح پڑھائی جاتی ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر ہمارے حنفی بھائی بیس رکعات تراویح کے مسئلہ پر حرمین شریفین کی تراویح بطور دلیل پیش کرتے ہیں تو ہمیں ان کی یہ دلیل بھی منظور ہے اھلاً و سھلاً مرحبا لیکن ایک شرط پر جس طرح وہ حرمین شریفین میں تراویح پڑھ رہے ہیں اسی طرح انہیں چاہیے کہ آئندہ وہ قرأت فاتحہ ،خلف الامام،رفع الیدین اور آمین بالجہر کے مسائل پر بھی عمل کریں کیونکہ بیت اللہ شریف اور مسجدنبوی کے آئمہ کرام ان مسائل کا ہی قائل اور فاعل ہیں اسی طرح آئندہ ہمارے بھائی نماز وتر بھی حرمین شریفین کی طرح دو رکعات الگ اور ایک رکعت الگ پڑھ کر ہاتھ اٹھاکر وتروں میں دعائے قنوت پڑھاکریں ہمیں یقین ہے کہ اگر ہمارے حنفی بھائی حرمین شریفین کے آئمہ کے طریقہ کے مطابق نمازیں ادا کریں تو ملک میں مذہبی کشیدگی بہت حد تک ختم ہو سکتی ہے ۔آیئے صدق نیت سے بسم اللہ کیجیے۔
ا للہ تعالیٰ ہمیں حق کو حق سمجھ کر اس پر عمل کرنے اور باطل کو باطل سمجھ کر اس سے اجتناب کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آپ کا دینی بھائی:رانا ذیشان سلفی