• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

میں تمہیں کل جواب دونگا، لیکن اسکے بعد ١٥ دن تک جبرائیل وحی لے کر نہیں آئے

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ @اسحاق سلفی صاحب!
ایک بھائی نے دریافت کیا ہے کہ سورۃ الکهف کی تفسیر میں جو ملون الفاظ ہیں..یہ کس حدیث میں آئے ہیں؟

وَلَا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَٰلِكَ غَدًا ﴿٢٣﴾
اور ہرگز ہرگز کسی کام پر یوں نہ کہنا میں اسے کل کروں گا۔
إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّـهُ ۚ وَاذْكُر‌ رَّ‌بَّكَ إِذَا نَسِيتَ وَقُلْ عَسَىٰ أَن يَهْدِيَنِ رَ‌بِّي لِأَقْرَ‌بَ مِنْ هَـٰذَا رَ‌شَدًا ﴿٢٤﴾
مگر ساتھ ہی ان شا اللہ کہ لینا (١) اور جب بھی بھولے، اپنے پروردگار کی یاد کر لیا کرو (٢) اور کہتے رہنا کہ مجھے پوری امید ہے کہ میرا رب مجھے اس سے بھی زیادہ ہدایت کے قریب کی بات کی رہبری کرے (٣)۔

٢٤۔١ مفسرین کہتے ہیں کہ یہودیوں نے نبی سے تین باتیں پوچھی تھیں، روح کی حقیقت کیا ہے اور اصحاب کہف اور ذوالقرنین کون تھے؟ کہتے ہیں کہ یہی سوال اس سورت کے نزول کا سبب بنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہیں کل جواب دونگا، لیکن اس کے بعد ١٥ دن تک جبرائیل وحی لے کر نہیں آئے۔ پھر جب آئے تو اللہ تعالٰی نے انشاءاللہ کہنے کا یہ حکم دیا۔ آیت میں (غد) سے مراد مستقبل ہے یعنی جب بھی مستقبل قریب یا بعید میں کوئی کام کرنے کا عزم کرو تو ان شاءاللہ ضرور کہا کرو۔ کیونکہ انسان کو تو پتہ نہیں کہ جس بات کا عزم کر رہا ہے، اس کی توفیق بھی اسے اللہ کی مشیت سے ملتی ہے یا نہیں۔
٢٤۔٢ یعنی اگر کلام یا وعدہ کرتے وقت انشاءاللہ کہنا بھول جاؤ، تو جس وقت یاد آجائے ان شاءاللہ کہہ لیا کرو، یا پھر رب کو یاد کرنے کا مطلب، اس کی تسبیح و تحمید اور اس سے استفغار ہے۔
٢٤۔٣ یعنی میں جس کا عزم ظاہر کر رہا ہوں، ممکن ہے اللہ تعالٰی اس سے زیادہ بہتر اور مفید کام کی طرف میری رہنمائی فرما دے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
مفسرین کہتے ہیں کہ یہودیوں نے نبی سے تین باتیں پوچھی تھیں، روح کی حقیقت کیا ہے اور اصحاب کہف اور ذوالقرنین کون تھے؟ کہتے ہیں کہ یہی سوال اس سورت کے نزول کا سبب بنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہیں کل جواب دونگا، لیکن اس کے بعد ١٥ دن تک جبرائیل وحی لے کر نہیں آئے۔ پھر جب آئے تو اللہ تعالٰی نے انشاءاللہ کہنے کا یہ حکم دیا۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
تفسیر ابن کثیر میں ہے :
قد ذكر محمد بن إسحاق سبب نزول هذه السورة الكريمة، فقال: حدثني شيخ من أهل مصر قدم علينا منذ بضع وأربعين سنة عن عكرمة عن ابن عباس قال: بعثت قريش النضر بن الحارث وعقبة بن أبي معيط إلى أحبار يهود بالمدينة، فقالوا لهم: سلوهم عن محمد وصفوا لهم صفته وأخبروهم بقوله، فإنهم أهل الكتاب الأول وعندهم ما ليس عندنا من علم الأنبياء، فخرجا حتى أتيا المدينة فسألوا أحبار اليهود عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ووصفوا لهم أمره وبعض قوله، وقالا: إنكم أهل التوراة وقد جئناكم لتخبرونا عن صاحبنا هذا، قال: فقالوا لهم سلوه عن ثلاث نأمركم بهن، فإن أخبركم بهن فهو نبي مرسل، وإلا فرجل متقول تروا فيه رأيكم: سلوه عن فتية ذهبوا في الدهر الأول ما كان من أمرهم، فإنهم قد كان لهم حديث عجيب؟ وسلوه عن رجل طواف بلغ مشارق الأرض ومغاربها ما كان نبؤه، وسلوه عن الروح ما هو؟ فإن أخبركم بذلك فهو نبي فاتبعوه، وإن لم يخبركم فإنه رجل متقول فاصنعوا في أمره ما بدا لكم، فأقبل النضر وعقبة حتى قدما على قريش فقالا: يا معشر قريش قد جئناكم بفصل ما بينكم وبين محمد، قد أمرنا أحبار يهود أن نسأله عن أمور فأخبروهم بها، فجاؤوا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالوا: يا محمد أخبرنا، فسألوه عما أمروهم به، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أخبركم غدا عما سألتم عنه» ولم يستثن فانصرفوا عنه ومكث رسول الله صلى الله عليه وسلم خمس عشرة ليلة لا يحدث الله إليه في ذلك وحيا، ولا يأتيه جبرائيل عليه السلام حتى أرجف أهل مكة وقالوا: وعدنا محمد غدا، واليوم خمس عشرة قد أصبحنا فيها، لا يخبرنا بشيء عما سألناه عنه وحتى أحزن رسول الله صلى الله عليه وسلم مكث الوحي عنه وشق عليه ما يتكلم به أهل مكة، ثم جاءه جبرائيل عليه السلام من الله عز وجل بسورة أصحاب الكهف، فيها معاتبته إياه على حزنه عليهم وخبر ما سألوه عنه من أمر الفتية والرجل الطواف، وقول الله عز وجل ويسئلونك عن الروح قل الروح الآية. )
ترجمہ :
امام ابن کثیر ؒ فرماتے ہیں مشہور سیرت نگار امام محمد بن اسحاق رحمہ اللہ اس سورۃ کا شان نزول بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ :
چالیس سال پہلے ایک مصری شیخ ہمارے ہاں آئے ،انہوں نے جناب عکرمہ ؒ سے روایت کیا کہ وہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل فرماتے ہیں کہ انہوں نے اس سورہ شان نزول یہ بیان فرمایا :
کہ قریشیوں نے نضر بن حارث اور عقبہ بن ابو محیط کو مدینے کے یہودی علماء کے پاس بھیجا کہ تم جا کر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بابت کل حالات ان سے بیان کرو۔ ان کے پاس اگلے انبیاء کا علم ہے، ان سے پوچھو ان کی آپ کی بابت کیا رائے ہے؟ یہ دونوں مدینے گئے احبار مدینہ سے ملے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات و اوصاف بیان کئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کا ذکر کیا اور کہا کہ تم ذی علم ہو بتاؤ ان کی نسبت کیا خیال ہے؟ انہوں نے کہا دیکھو ہم تمہیں ایک فیصلہ کن بات بتاتے ہیں تم جا کر ان سے تین سوالات کرو، اگر جواب دے دیں تو ان کے سچے ہونے میں کچھ شک نہیں، بیشک وہ اللہ کے نبی اور رسول ہیں اور اگر جواب نہ دیں سکیں تو آپ کے جھوٹا ہونے میں بھی کوئی شک نہیں پھر جو تم چاہو کرو۔ ان سے پوچھو اگلے زمانے میں جو نوجوان چلے گئے تھے ان کا واقعہ بیان کرو۔ وہ ایک عجیب واقعہ ہے۔ اور اس شخص کے حالات دریافت کرو جس نے تمام زمین کا گشت لگایا تھا، مشرق مغرب ہو آیا تھا۔ اور روح کی ماہیت دریافت کرو۔ اگر بتا دے تو اسے نبی مان کر اس کی اتباع کرو اور اگر نہ بتا سکے تو وہ شخص جھوٹا ہے جو چاہو کرو۔

یہ دونوں وہاں سے واپس آئے اور قریشیوں سے کہا، لو بھئی آخری اور انتہائی فیصلے کی بات انہوں نے بتا دی ہے۔ اب چلو صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کریں چنانچہ یہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور تینوں سوالات کئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم کل آؤ میں تمہیں جواب دوں گا لیکن ان شاءاللہ کہنا بھول گئے، پندرہ دن گزر گئے نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آئی نہ اللہ کی طرف سے ان باتوں کا جواب معلوم کرایا گیا۔ اہل مکہ جوش میں آ گئے اور کہنے لگے کہ لیجئے صاحب کل کا وعدہ تھا، آج پندرھواں دن ہے لیکن وہ بتا نہیں سکے۔ ادھر آپ کو دوہرا غم ستانے لگا، قریشیوں کو جواب نہ ملنے پر ان کی باتیں سننے کا اور وحی کے بند ہو جانے کا۔ پھر جبرائیل علیہ السلام آئے سورۃ الکہف نازل ہوئی۔ اسی میں ان شاءاللہ نہ کہنے پر آپ کو ڈانٹا گیا، ان نوجوانوں کا قصہ بیان کیا گیا اور اس سیاح کا ذکر کیا گیا اور «وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا» (17- الإسراء: 85) میں روح کی بابت جواب دیا گیا۔ ( نیز دیکھئے تفسیر ابن جریر الطبری:22861)
تفسیر طبری میں بھی یہ قصہ اسی سند سے منقول ہے ،
اور اس سلسلہ سند میں ایک راوی مجہول ہے وہ ہے (حدثني شيخ من أهل مصر ) یعنی محمد بن اسحاقؒ نے ایک نامعلوم مصری شیخ سے نقل کیا ہے
اسلئے یہ اسناد ضعیف ہے ،
المصباح المنير في تهذيب تفسير ابن كثير جو شیخ صفی الرحمن مبارکپوری ؒ کی نگرانی میں مدون و مرتب کی گئی اس میں اس شان نزول کی روایت کو
اسی بنا پر ضعیف قرار دیا گیا کہ اس میں شیخ مصری مجہول ہے، لکھتے ہیں :
اسناده ضعيف لجهالة شيخ من اهل مصر یعنی اس کی سند مصری شیخ کے مجہول ہونے کے سبب ضعیف ہے ‘‘
(المصباح المنير في تهذيب تفسير ابن كثير طبع دارالسلام الریاض )
دیگر کئی عربی علماء نے بھی اسے اسی علت کی بنیاد پر ضعیف قراردیا ہے
مثلاً شاہ سعود یونیورسٹی کے استاذ الدکتور ناصر بن سليمان بن محمد العمر اپنی سائیٹ پر لکھتے ہیں :
:
ما هو سبب نزول هذه السورة؟

ذكر العلماء كابن اسحاق وذكر الطبري عن ابن عباس –وإن كان في السند رجل مجهول- لكن هكذا ذكر المفسرون في كتب التفسير،

یعنی اس سورۃ کا شان نزول ابن اسحاق ؒ اور طبری ؒ نے ابن عباس سے بیان کیا ہے ، جس کی سند ایک مجہول راوی ہے ۔ تاہم مفسرین اسی کو اپنی کتب تفسیر میں بیان کرتے ہیں ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
یہی قصہ محمد بن اسحاق ؒ نے السیرۃ النبویہ میں بلا سند نقل کیا ہے ،
اسی طرح سیرۃ ابن ھشام میں بغیر اسناد منقول ہے ،
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
لیکن ایک سوال اس سلسلہ میں ابھی تشنہ جواب اور لائق توجہ ہے
وہ یہ کہ :
نبی کریم ﷺ پر نزول وحی کے سلسلے ایک دو دفعہ انقطاع واقعہ ہوا ، یعنی کچھ عرصہ وحی آنا موقوف ہوگئی

اس کیلئے تحقیق کی ضرورت ہے ۔
ایک مضمون اس ضمن میں پیش خدمت ہے ، جو اختصار کے باوجود کافی معلومات افزا ہے ملاحظہ فرمائیں :
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

لماذا فتر الوحي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أول البعثة ، وكم كانت مدته ؟
السؤال :
لماذا غاب الوحي عن الرسول صلى الله عليه وسلم ؟ وكم مده غياب الوحي؟ وماذا فعل النبي عليه الصلاة والسلام خلال انقطاع الوحي؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب :
الحمد لله
أولا :
فتر [ يعني : انقطع ] الوحي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم مرتين :
مرة في أول نزول الوحي ، ثم نزلت بعده سورة المدثر ، ومرة بعد نزول عدة سور من القرآن ، ثم نزلت بعده سورة الضحى .
فعن جَابِر بْن عَبْدِ اللَّهِ رضي الله عنهما أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : ( ثُمَّ فَتَرَ عَنِّى الْوَحْىُ فَتْرَةً ، فَبَيْنَا أَنَا أَمْشِى سَمِعْتُ صَوْتًا مِنَ السَّمَاءِ ، فَرَفَعْتُ بَصَرِى قِبَلَ السَّمَاءِ ، فَإِذَا الْمَلَكُ الَّذِى جَاءَنِي بِحِرَاءٍ قَاعِدٌ عَلَى كُرْسِىٍّ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ ، فَجُئِثْتُ مِنْهُ ، حَتَّى هَوَيْتُ إِلَى الأَرْضِ ، فَجِئْتُ أَهْلِي فَقُلْتُ : زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي . فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى ( يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ ) إِلَى ( فَاهْجُرْ ) .
رواه البخاري (3238) ، ومسلم (161) .
قال النووي رحمه الله :
" قوله ( ثم تتابع الوحى ) يعنى بعد فترته ، فالصواب أن أول ما نزل ( اقرأ ) وأن أول ما نزل بعد فترة الوحى ( يا أيها المدثر ) انتهى .
وروى البخاري (4953) حديث عائشة في بدء الوحي وفيه إخبار النبي صلى الله عليه وسلم ورقة بما رأي ، وقول ورقة له : " إِنْ يُدْرِكْنِي يَوْمُكَ حَيًّا أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا " قالت عائشة : " ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ تُوُفِّيَ ، وَفَتَرَ الوَحْيُ " .
وهذه هي المرة الأولى .

وروى البخاري (4950) ، ومسلم (1797) عن جُنْدُبَ بْنَ سُفْيَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: ( اشْتَكَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَقُمْ لَيْلَتَيْنِ - أَوْ ثَلاَثًا - ، فَجَاءَتْ امْرَأَةٌ فَقَالَتْ : يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ يَكُونَ شَيْطَانُكَ قَدْ تَرَكَكَ ، لَمْ أَرَهُ قَرِبَكَ مُنْذُ لَيْلَتَيْنِ - أَوْ ثَلاَثَةٍ - فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ : ( وَالضُّحَى * وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَى * مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَى ) .
وهذه هي المرة الثانية .

قال الحافظ ابن حجر رحمه الله :
" الْفَتْرَة الْمَذْكُورَة فِي سَبَب نُزُول (وَالضُّحَى) : غَيْر الْفَتْرَة الْمَذْكُورَة فِي اِبْتِدَاء الْوَحْي , فَإِنَّ تِلْكَ دَامَتْ أَيَّامًا ، وَهَذِهِ لَمْ تَكُنْ إِلَّا لَيْلَتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا " .
انتهى من "فتح الباري" (8/710) .

وقال ابن عاشور رحمه الله :
" وَاحْتِبَاسُ الْوَحْيِ عَنِ النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَعَ مَرَّتَيْنِ:
أُولَاهُمَا: قَبْلَ نُزُولِ سُورَةِ الْمُدَّثِّرِ أَوِ الْمُزَّمِّلِ ، وَتِلْكَ الْفَتْرَةُ هِيَ الَّتِي خَشِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَكُونَ قَدِ انْقَطَعَ عَنْهُ الْوَحْيُ ، وَهِيَ الَّتِي رَأَى عَقِبَهَا جِبْرِيلَ عَلَى كُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ .
وَثَانِيَتُهُمَا: فَتْرَةٌ بَعْدَ نُزُولِ نَحْوٍ مِنْ ثَمَانِ سُوَرٍ، أَيِ السُّوَرِ الَّتِي نَزَلَتْ بَعْدَ الْفَتْرَةِ الْأُولَى فَتَكُونُ بَعْدَ تَجَمُّعِ عَشْرِ سُوَرٍ " انتهى من "التحرير والتنوير" (30/ 396) .
ثانيا :
اختلف العلماء في مدة فترة الوحي الأولى ، فقيل ثلاث سنين ، وقيل قريبا من سنتين ، أو سنتين ونصف ، وقيل اثنا عشر يوما ، وقيل خمسة عشر يوما ، وقيل أربعون يوما ، وقيل غير ذلك .
قال الحافظ رحمه الله :
" وَقَعَ فِي تَارِيخِ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ عَنِ الشَّعْبِيِّ أَنَّ مُدَّةَ فَتْرَةِ الْوَحْيِ كَانَت ثَلَاث سِنِين ، وَبِه جزم ابن إِسْحَاقَ " انتهى من "فتح الباري" (1/ 27) .
وقال ابن كثير :
" قَالَ بَعْضُهُمْ: كَانَتْ مُدَّةُ الْفَتْرَةِ قَرِيبًا مِنْ سَنَتَيْنِ أَوْ سَنَتَيْنِ وَنِصْفٍ " .
انتهى من "البداية والنهاية" (4/ 42) .
وقال الرازي رحمه الله :
" وَاخْتَلَفُوا فِي قَدْرِ مُدَّةِ انْقِطَاعِ الْوَحْيِ ، فَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: اثْنَا عَشَرَ يَوْمًا، وَقَالَ الْكَلْبِيُّ : خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: خَمْسَةٌ وَعِشْرُونَ يَوْمًا، وَقَالَ السُّدِّيُّ وَمُقَاتِلٌ: أَرْبَعُونَ يَوْمًا " انتهى من "تفسير الرازي" (31/ 192) .
وقال ابن عاشور :
" وَقَدْ قِيلَ: إِنَّ مُدَّةَ انْقِطَاعِ الْوَحْيِ فِي الْفَتْرَةِ الْأُولَى كَانَتْ أَرْبَعِينَ يَوْمًا " .
انتهى من "التحرير والتنوير" (30/ 396) .
أما فترة الوحي الثانية فكانت ليلتين أو ثلاثا ، كما تقدم في حديث جندب بن سفيان رضي الله عنه .
وقال ابن كثير رحمه الله :
" نَزَلَتْ سُورَةُ وَالضُّحَى بَعْدَ فَتْرَةٍ أُخْرَى ، كَانَتْ لَيَالِيَ يَسِيرَةً ، كَمَا ثَبَتَ فِي " الصَّحِيحَيْنِ " وَغَيْرِهِمَا " انتهى من "البداية والنهاية" (4/ 41) .

ثالثا :
كانت الحكمة من فتور الوحي مدة : أن يذهب الروع الذي كان قد وجده رسول الله صلى الله عليه وسلم في نفسه لما نزل عليه جبريل عليه السلام أول مرة ، وليحصل له التشوف إلى عودة الوحي والاشتياق إليه ، ولتنزل السلوى على رسول الله صلى الله عليه وسلم من الله تعالى ، فيزداد إيمانا وتثبيتا ، وليبتلي الله الناس فيثبت المؤمنين ويضل الكافرين .
قال الحافظ ابن حجر رحمه الله :
" وَفُتُورُ الْوَحْيِ : عِبَارَةٌ عَنْ تَأَخُّرِهِ مُدَّةً مِنَ الزَّمَانِ ، وَكَانَ ذَلِكَ لِيَذْهَبَ مَا كَانَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَدَهُ مِنَ الرَّوْعِ ، وَلِيَحْصُلَ لَهُ التَّشَوُّفُ إِلَى الْعَوْدِ " .
انتهى من "فتح الباري" (1/ 27) .
وقال مُعْتَمِر بْن سُلَيْمَانَ عَنْ أَبِيهِ : " وَفَتَرَ الْوَحْيُ فَقَالُوا : لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ لَتَتَابَعَ وَلَكِنَّ اللَّهَ قَلَاهُ ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ (وَالضُّحَى) وَ (أَلَمْ نَشْرَحْ) بِكَمَالِهِمَا " .
انتهى من "فتح الباري" (8/ 710) .

رابعا :
لا يعرف على وجه التحديد ماذا فعل النبي صلى الله عليه وسلم خلال فترة انقطاع الوحي ، إلا أن المقطوع به أنه أحزنه ذلك ، وأنه تشوف إلى عودته ، ورغب في الأنس به بعد الذي أصابه من الوحشة والفزع أول الأمر .
قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ رحمه الله :
" ثُمَّ فَتَرَ الْوَحْيُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فتْرةً مِنْ ذَلِكَ ، حَتَّى شقَّ ذَلِكَ عَلَيْهِ ، فَأَحْزَنَهُ ، فَجَاءَهُ جبريلُ بِسُورَةِ الضُّحَى ، يُقسم لَهُ رُّبه، وَهُوَ الَّذِي أَكْرَمَهُ بِمَا أَكْرَمَهُ بِهِ ، مَا ودَّعه وَمَا قَلاَه " انتهى من "سيرة ابن هشام" (1/ 225) .

وما ذُكر من أنه صلى الله عليه وسلم رغب مرارا في الانتحار والتردي من رءوس شواهق الجبال بسبب ما أصابه من الحزن لذلك : فباطل ؛ كما تقدم بيانه وتقريره في إجابة السؤال رقم : (152611) .
والله أعلم .
موقع الإسلام سؤال وجواب
 
Top