• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

میں علم کا شہر ہوں علی اُس کا دروازہ ہیں". کی تحقیق

شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
روافض کی پیش کردہ پہلی دلیل :
ملاحظه ھو:
© امام احمد ابن حنبل نے کہا:
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ ، قَالَ : نا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرُّومِيُّ ، قَالَ : نا شَرِيكٌ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ ، عَنِ الصُّنَابِحِيِّ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَنَا دَارُ الْحِكْمَةِ ، وَعَلِيٌّ بَابُهَا " .
[فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل: رقم/936]
.
امام احمد کی اس سند میں واضح لکھا ھے کہ شریك سے بیان کرنے والے یہ "محمد بن عبد الله رومي" ھیں۔ اور یہ امام شریك ہی کے تلامذہ میں مشھور ھیں".
۔
© اسی روایت کو امام الترمذی نے نقل کرتے ہوئے کہا:
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ الرُّومِيِّ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ ، عَنِ الصُّنَابِحِيِّ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَنَا دَارُ الْحِكْمَةِ وَعَلِيٌّ بَابُهَا " .
قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا غَرِيبٌ مُنْكَرٌ ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ شَرِيكٍ ، وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَنِ الصُّنَابِحِيِّ ، وَلَا نَعْرِفُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ وَاحِدٍ مِنَ الثِّقَاتِ ، عَنْ شَرِيكٍ ، وَفِي الْبَابِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ .
[السنن الترمذي: رقم/3686]
.
امام الترمذي نے یہاں امام شریك کے شاگرد کا نام "محمد بن عمر بن الرومي بیان کیا۔
۔
© اسی روایت کو امام ابن جریر الطبري نے جب بیان کیا تو کہا:
حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُوسَى السُّدِّيُّ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ الرُّومِيُّ ، عَنْ شَرِيكٍ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ ، عَنِ الصُّنَابِحِيِّ ، عَنْ عَلِيٍّ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " أَنَا دَارُ الْحِكْمَةِ ، وَعَلِيٌّ بَابُهَا " .
[تھذیب الآثار للطبري: رقم/1431]
.
یہاں امام ابن جریر نے کہا "محمد بن عمر رومي".
.
© اور اسی روایت کو جب امام أبو بكر القطيعي نے بیان کیا تو کہا:
٢١٦ - حدثنا إبراهيم بن عبد الله الكجي قال: حدثنا محمد بن عمر بن عبد الله الرومي قال: حدثنا شريك، عن سلمة بن كهيل، عن الصنابحي، عن علي بن أبي طالب عليه السلام قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أنا دار الحكمة وعلي بابها»
[الجزء الرابع من الفوائد المنتقاة العوالي من حديث القطيعي: صفحة/333]
.

تو واضح ہو گیا کہ یہاں جو "محمد بن عبد الله رومي ھے۔ یہ اصل میں "محمد بن عمر بن عبد الله الرومي" ہے۔
اور امام ابوبکر القطیعی والی سند بعینه وہی سند ھے جو امام احمد نے فضائل الصحابه میں (محمد بن عبد الله رومي" کہہ کر بیان کی____
۔
لہذا یہ بات تو طے ھوگئی کہ اس سند کے اندر "محمد بن عمر بن عبد الله الرومي" ھے۔

اور امام ابو الحاکم نے اس کا پورا نام اس طرح بیان کیا ہے:
٣٨٨٥ - أبو عبد الله محمد بن عمر بن عبد الله بن رومي، وهو ابن عبد الله بن فيروز، الباهلي
[الأسامي والكنى أبو أحمد الحاكم: جزء5/صفحة143]- ت الأزهري
۔
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
اب آتے ہیں اس سند میں موجود رجال کی طرف
"محمد بن عمر بن عبد الله الرومي الباهلي البصري الدوسي".
.
امام ابن أبي حاتم محمد بن عمر بن عبد الله الرومي کے بارے میں کہا:
عبد الرحمن قال وسألت ابى عنه فقال: هو قديم روى عن شريك حديثا منكرا قلت ما حاله؟ فقال: فيه ضعف".
ترجمه:
عبد الرحمن بن ابی حاتم نے کہا میں اپنے ابو سے پوچھا محمد بن عمر بن الله الرومی کے بارے میں۔ تو انہوں نے کہا
یہ شریک سے منکر خبریں بیان کرتا ھے۔ میں نے کہا اس کا حال کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا اس میں ضعف ھے".
[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: جزء8/صفحة21-22]
.

© امام الذھبي نے کہا:
٣٧٨ - ت: محمد بن عمر، أبو عبد الله ابن الرومي. [الوفاة: ٢١١ - ٢٢٠ ه] عَنْ: شُعْبة، والخليل بن مُرَّة، وشَرِيك___الخ
[تاريخ الإسلام للذھبي]- ت بشار
.
© امام الذھبي نے کہا:
٥٨٦٨ - ت / محمد بن عمر بن الرومي عن شعبة قال أبو زرعة الرازي فيه لين وقال ضعيف قلت روى خ في غير صحيحه وقد روى ت عن
[المغنٰی فی الضعفاء للذھبي : جزء2/صفحة620]
.
© امام ابن حجر نے کہا:
– "ت – محمد" بن عمر بن عبد الله بن فيروز الباهلي أبو عبد الله بن الرومي البصري مولى آل رباح بن عبيدة الباهلي روى عن الحسن بن عبد الله الكوفي والخليل بن مرة وأبي خيثمة وقيس بن الربيع وعلي بن علي الرفاعي وشعبة وشريك وغيرهم
قال أبو زرعة شيخ فيه لين
وقال أبو حاتم: قديم روى عن شريك حديثا منكرا
وقال الآجري عن أبي داود محمد بن الرومي ضعيف وذكره بن حبان في الثقات
[تھذیب التھذیب لابن حجر: جزء9/صفحة360]
.
یعنی اس راوی کی توثیق ہی ثابت نہیں۔ اور اِس راوی پر شریک سے منکر خبریں بیان کرنے کی جرح مفسر ھے۔ اور یہ روایت بھی اِس نے امام شریك سے بیان کی ہے
تنبیہ: ابن حبان مشھور متساھل ھیں۔
.
اور خود امام شریك القاضي مدلس ، صدوق سيء الحفظ يخطئ كثيرا۔ درجے کے راوی ہیں۔
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
اس روایت کے بارے میں ائمه نقاد کیا کہتے ہیں؟
© امام الدارقطني نے کہا:
وقال الدارقطني: هو حديث يرويه سلمة بن كهيل، واختلف عنه؛
فرواه شريك، عن سلمة، عن الصنابحي، عن علي.
واختلف عن شريك، فقيل: عنه، عن سلمة، عن رجل، عن الصنابحي.
ورواه يحيى بن سلمة بن كهيل، عن أبيه، عن سويد بن غفلة، عن الصنابحي، ولم يسنده.
والحديث مضطرب، غير ثابت
، وسلمة لم يسمع من الصنابحي.
[العلل الدار قطني: جزء3/صفحة247]
.
© امام الترمذی نے کہا:
هذا حديث غريب منكر وروى بعضهم هذا الحديث عن شريك، ولم يذكروا فيه عن الصنابحي ⦗٦٣٨⦘ ولا نعرف هذا الحديث عن أحد من الثقات غير شريك. وفي الباب عن ابن عباس
[السنن الترمذي: تحت الحديث:٣٧٢٣]
.
© امام الترمذي نے امام البخاری کے حوالے سے کہا:
- وسألت محمدا عن حديث محمد بن عمر بن الرومي , عن شريك , عن سلمة بن كهيل , عن سويد بن غفلة , عن الصنابحي , عن علي , أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «أنا دار الحكمة وعلي بابها» سألت محمدا عنه فلم يعرفه , وأنكر هذا الحديث. قال أبو عيسى: لم يرو عن أحد من الثقات من أصحاب شريك , ولا نعرف هذا من حديث سلمة بن كهيل من غير حديث شريك".
[العلل الکبیر الترمذي:صفحة374]
.
© امام ابن الجوزي نے کہا:
أما حديث علي فقال الدارقطني: قد رواه سويد بن غفلة عن الصنابحي لم يسنده والحديث مضطرب غير ثابت وسلمة لم يسمع من الصنابحي.
قال المصنف: قلت ثم في الطريق الأول محمد بن عمر الرومي، قال ابن حبان: كان يأتي عن الثقاة بما ليس من أحاديثهم لا يجوز الاحتجاج به بحال
[الموضوعات لابن الجوزي: صفحة353]
.
© امام البغوي أبو محمد نے کہا:
٤٧٧٢ - عن علي رضي الله عنه قال، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "أنا دار الحكمة وعلي بابها" (٣) (غريب) لا يعرف هذا عن أحد من الثقات غير شريك وإسناده مضطرب
[مصابیح السنة:جزء4/صفحة174]
.
© خلاصه کلام:
(1) اس روایت کا راوی "محمد بن عمر بن عبد الله بن رومي" ، ضعیف ھے، اور امام شریک سے منکر خبریں بیان کرتا ھے۔
(2) اس روایت میں ھر جگه امام شریك القاضي کا عنعنه ھے۔ کہیں بھی سماع کی تصریح نہیں۔ اور امام شریك "صدوق سيء الحفظ يخطئ كثيرا، اور مشھور مدلس" ھیں۔
(3) سلمة بن کھیل کا ، عبد الرحمن بن عسيلة الصنابحي سے سماع ھی نہیں !!
لہذا یہ منقطع و منکر شدید ضعیف و مضطرب روایت ہے
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
یہ روایت ایک دوسرے طرق سے بھی آئی ھے
ملاحظه ھو:
١١٠٦١ - حدثنا المعمري، ومحمد بن علي الصائغ المكي، قالا: ثنا عبد السلام بن صالح الهروي، ثنا أبو معاوية، عن الأعمش، عن مجاهد، عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أنا مدينة العلم وعلي بابها فمن أراد العلم فليأته من بابه»
[المعجم الكبير الطبراني: جزء11/صفحة65]

ابن محرز (مجھول) نے امام ابن معین سے نقل کر کے کہا:
ابن معین نے کہا ابو معاویه اس حدیث کو پہلے بیان کرتا تھا۔ پھر بیان کرنا چھوڑ دیا۔
فقيل له فى حديث ابى معاوية عن الأعمش عن مجاهد عن ابن عباس انا مدينة العلم وعلى بابها فقال هو من حديث ابى معاوية اخبرنى ابن نمير قال حدث به أبو معاوية قديما ثم كف عنه____
[تاریخ ابن معین روایة ابن محرز]
.
لیکن ابو الصلت اس کو ابو معاویه سے بیان کرتا رہتا تھا۔ جبکہ ابو معاویه بیان کرنا چھوڑ چکے تھے۔
۔
اب سوال یہ ھے کہ ابو معاویه کیوں بیان کرنا چھوڑ گئے تھے؟؟؟ تو عرض کے کہ ابومعاویه نے ہی اپنے الشیخ الاعمش کو مدلس قرار دیا ہوا تھا۔ اور ابو معاویه اس سند کی خفیه علتوں کو جان گئے ہوںگے۔ کہ اس خبر میں الاعمش نے تدلیس کی ہے۔ (بلفرض اگر ابن محرز مجھول کی بات مان لیں تو تب یہ حدیث ابو معاویة کی حدیث سمجھی جائے گی، حالانکه حقیقت اس کے خلاف ہے۔ یہ حدیث ابو معاویة کی نہیں بلکه عبد السلام بن صالح ابو الصلت الھروی کی ھے، جو کذاب ھے)
ملاحظه هو:
١٩١ - محمد بن خازم أبو معاوية الضرير صاحب الشيباني والأعمش، الكوفي السعدي التميمي مولاهم ولد سنة ثلاث عشرة ومائة، وقال لي يحيى بن معين قال أبو معاوية أنا حدثت الأعمش عن هشام عن سعيد العلاف عن مجاهد في إطعام المسلم السغبان فدلسه عني".
[التاريخ الكبير للامام البخاري: جزء1/صفحة74]
.
اس روایت میں امام الاعمش مجاھد سے روایت کر رھے ہیں۔ جبکه ائمه نقاد اس بات پر متفق ہیں۔ کہ الاعمش نے مجاھد سے کچھ نہیں سنا۔ جو کچھ الاعمش مجاھد سے بیان کرتے ہیں وہ تدلیس شدہ ہے۔ اور کچھ ائمه نقاد کہتے ہیں صرف گنتی کی چند حدیثیں ہی الاعمش نے مجاھد سے سنی ہیں۔

© اور اسی طرح ابو حاتم الرازي رحمه الله نے کہا:
وقال ابو حاتم:
«وأَنَا أَخْشَى ألاَّ يكونَ سَمِعَ هذا الأَعْمَشُ مِنْ مُجَاهِدٍ، إنَّ الأَعْمَشَ قليلُ السماعِ مِنْ مُجَاهِدٍ، وعامَّةُ مَا يَرْوِي عَنْ مجاهدٍ مُدَلَّسٌ»
یعنی الاعمش نے مجاھد سے بہت کم سنا ہے۔ زیادہ تر الاعمش مجاھد سے تدلیس کرتا ھے".
(العلل لابن أبي حاتم)
۔
© امام دارقطنی نے الاعمش عن مجاھد پر حکم لگایا:
وَرَوَاهُ الْأَعْمَشُ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، وَقِيلَ: إِنَّ الْأَعْمَشَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ مُجَاهِدٍ.
[العلل الواردة في الأحاديث النبوية]
یعنی الاعمش نے یہ روایت مجاہد سے نہیں سنی ۔
۔
© اسی طرح امام یعقوب بن شیبة
© اور امام علی بن المدیني رحمهم الله نے بھی الاعمش عن مجاھد پر تدليس کا حکم لگایا:
" قال يعقوب بن شيبة في مسنده: ليس يصح للأعمش عن مجاهد إلا أحاديث يسيرة، قلت لعلي بن المديني: كم سمع الأعمش من مجاهد؟ قال: لا يثبت منها إلا ما قال: سمعت، وهي نحو من عشرة، وإنما أحاديث مجاهد عنده عن أبي يحيى القتات".
[تهذيب التهذيب: جزء4/صفحة225]
.
© امام یحیی بن سعید نے بھی ایسا ہی کہا:
وقال عمرو بن علي الصيرفي: "سمعت يحيى بن سعيد القطان يقول: كتبت عن الأعمش أحاديث عن مجاهد، كلها ملزقة، لم يسمعها".
[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: جزء1/صفحة231]
.
© امام ابن طھمان نے کہا:
وقال ابن طهمان: "سمعت يحيى يقول: الأعمش سمع من مجاهد، وكل شيء يروي عنه لم يسمع، إنما مرسلة مدلسة".
[من كلام يحيى بن معين في الرجال رواية ابن طهمان ٥٩]
.
© امام ابو موسی کہتے ہیں:
وقال أبو موسى: هو حديث غير متصل ولا ثابت، فإن الأعمش قد سمع من مجاهد ولم يسمع هذا منه،
.
© وقال ابن أبي حاتم: "نا علي بن الحسن الهسنجاني قال: سمعت محمد بن بشار يقول: سمعت وكيعا يقول: لم يسمع الأعمش من مجاهد إلا أربعة أحاديث". [الجرح والتعديل ١/ ٢٢٤]
.
® خود امام الاعمش نے انکار کیا جو میں مجاھد سے عن کہہ کر بیان کرتا ہوں۔ وہ میں لیث بن أبي سليم (ضعيف) سے سنا ھوتا ھے۔
هو مروي من حديث الأعمش عن مجاهد عنه، قيل للأعمش: سمعته من مجاهد؟ قال: لا حدثني به ليث عنه".
۔
® خود امام الاعمش کا اقرار:
حدثنا محمد بن هارون الحربي، قال: ثنا نعيم بن حماد، قال: ثنا هشيم، عن الأعمش، عن مجاهد، عن ابن عباس، في الرجل يحلف، قال له: أن يستثني ولو إلى سنة، وكان يقول: {واذكر ربك إذا نسيت} [الكهف: ٢٤] في ذلك
قيل للأعمش سمعته من مجاهد، فقال: ثني به ليث بن أبي سليم، يرى ذهب كسائي هذا
[التفسير الطبري: جزء15/صفحة225]
.
© امام ابن حجر نے ایک خبر پر حکم لگاتے ہوئے خود امام الاعمش کا قول نقل کیا".
قلت: هو معلول، فقد رواه أبو معاوية، عن الأعمش، وقال فيه: قيل للأعمش: سمعته من مجاهد؟ قال: لا، حدثني به الليث، عن مجاهد".
[اتحاف المهرة لابن حجر: جزء8/صفحة41]
.
® خود امام الاعمش کا اقرار:
٨١٤ - حدثنا ابن زنجويه، نا نعيم بن حماد، نا عيسى بن يونس، عن الأعمش، عن مجاهد، عن ابن عباس قال: «الاستثناء، ولو إلى سنتين» فقيل للأعمش: سمعته من مجاهد؟ قال: لا، حدثني ليث بن أبي سليم ترى ذهب كسائي هذا
[مسند ابن الجعد: صفحة129]
.
اور امام ابو معاویه کے طریق میں امام الاعمش کا مجاھد سے عنعنه ھے ۔ کسی بھی سند میں سماع کی تصریح نہ تو خود امام ابو معاویه (مدلس) نے کی، نہ ھی امام الاعمش (مدلس) نے کی۔
.
® اور یہاں امام الاعمش نے اپنے الشیخ مجاھد سے اپنی تدلیس پر فیصله دے کر بات ہی ختم کردی۔
ملاحظه ھو:
٣٦٤ - قلت لأبي أحاديث الأعمش عن مجاهد عمن هي قال قال أبو بكر بن عياش قال رجل للأعمش ممن سمعته في شيء رواه عن مجاهد قال مر كزاز مر بالفارسية حدثنيه ليث عن مجاھد".
[العلل ومعرفة الرجال لأحمد رواية ابنه عبد الله: جزء1/ صفحة255]
.
امام مجاھد کے علاوہ بھی الاعمش کی تدلیس خطرناک تھی۔
حدثنا ابن نمير قال: سمعت أبا بكر (ھو ابن عیاش) يقول: قلت للأعمش:
سمعت إبراهيم يقول قال عمر في بيض النعام تمنه ؟ قال: لا.
قلت: ممن سمعته؟ قال لا أدري

[المعرفة والتاريخ للفسوي: جزء2/صفحة831]
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
ابن محرز (مجھول) نے امام یحیی ابن معین سے نقل کیا کہ یہ حدیث ابو معاویه سے ثابت ہے۔
تو عرض ھے کہ بلفرض ابن محزر کی نقل کو تسلیم بھی کرلیا جائے تب بھی یہ حدیث ابو معاویه کی حدیث ثابت نہیں ھوتی۔
ملاحظه ھو:
© ابن محرز نے اس کی یہ سند نقل کی:
حدثنا محمد بن جعفر العلاف الذى كان ينزل نفيد كوفى قال حدثنا محمد بن الطفيل قال حدثنا ابو معاوية عن الأعمش عن مجاهد عن ابن عباس عن النبى عليه السلام بنحوه
[تاریخ ابن معین روایة ابن محرز: جزء2/صفحة242]
.
یعنی محمد بن جعفر (الفیدي) اِس روایت کو محمد بن طفیل کے واسطے سے ابو معاویة سے روایت کرتا ہے۔ (محمد بن طفیل مجھول ھے)
۔
پھر اسی روایت کو امام الحاکم نے اس سند سے ذکر کیا۔
© حَدَّثَنَا بِصِحَّةِ مَا ذَكَرَهُ الإِمَامُ أَبُو زَكَرِيَّا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ ، ثنا أَبُوالْحُسَيْنِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ تَمِيمٍ الْقَنْطَرِيُّ ، ثنا الْحُسَيْنُ بْنُ فَهْمٍ ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ الضُّرَيْسِ ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْفَيْدِيُّ ، ثنا أَبُو مُعَاوِيَةَ___
۔
® امام الحاکم نے روایت کو لکھنے سے پہلے ہی بتا دیا کہ کہ یہ وہی روایت ھے جس کو ابن معین نے صحیح کہتے ہوئے محمد بن جعفر کی الفیدی کو عبد السلام بن صالح کا متابع بتایا". [بواسطه ابن محرز {مجھول} عن ابن معین]
لیکن امام الحاکم نے اس روایت کی نقل کرتے وقت محمد بن جعفر الفیدی اور ابو معاویة کے درمیان سے محمد بن طفیل کو گرادیا۔ اب یہ امام حاکم سے سہوا ہوا یا جان بوجھ کر الله ہی جانتا ہے۔ میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ بحرحال جس سند کو ابن محرز نے نقل کیا ، اور ابن معین نے اُس کو متابع کہا۔ اُس سند میں "محمد بن طفیل" مجھول ھے
اور امام حاکم کی سند میں یہ واسطه ہی موجود نہیں۔
۔
© تیسری بات:
محمد بن یحیی الضریس براہ راست ابو معاوية کے تلامذہ میں سے ہیں۔ تو محمد بن یحیی کو دو واسطوں (نا محمد بن مجعفر الفیدی حدثنا محمد بن طفیل) سے ابو معاویه سے روایت کرنے کی کیا ضرورت ھے؟؟؟؟؟؟؟
۔
® تیسری بات:
محمد بن یحیی الضریس الفیدي الکوفی، یہ محمد بن جعفر الفیدي سے روایت ہی نہیں کرتے۔ ان کی روایت محمد بن طفیل ہی سے ھے۔ جیساکہ ابن محرز (مجھول) نے نقل کیا۔

© اور امام ابو حاتم نے بھی یہی بات کی۔
ملاحظه ھو:
٥٥٦ - محمد بن يحيى بن الضريس الكوفى الفيدى كان يسكن فيد روى عن محمد (١) بن فضيل والوليد بن بكير ومحمد بن الطفيل وعمرو بن هاشم الجنبى وعيسى بن عبد الله بن محمد بن عمربن على بن ابى طالب سمع منه أبي وروى عنه سمعت أبي يقول ذلك
[الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم]

یعنی یہ متابع والی سند (بقول ابن معین) ھی ثابت نہیں ھے۔ اس میں محمد بن طفیل (مجھول) کا واسطه حاکم نے گرادیا ھے۔ نیز حاکم والی اس متابعت میں احمد بن احمد بن تمیم بھی ضعیف ہے۔
اور آگے کی سند میں وھی علتیں جو اوپر بیان کی جاچکی ہیں۔ امام الاعمش نے مجاھد سے کچھ نہیں سُنا ۔ اور امام الاعمش نے کسی بھی سند میں سماع کی تصریح نہیں کی۔
لہذا یہ روایت ناقابلِ استدلال ھے۔ اور بہت بڑا جھوٹ ھے۔ جیساکہ محدثین نے کہا۔
۔
_______________________________________
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
ایک زبردست قرینه:
امام ابو زرعة الرازي اور یحیی بن معین نے کہا:
وحديث أبي معاوية، عن الأعمش، عن مجاهد، عن ابن عباس: " أنا مدينة الحكمة، وعلي بابها ".
كم من خلق قد افتضحوا فيه.
ثم قال لي أبو زرعة: أتينا شيخا ببغداد يقال له: عمر بن إسماعيل بن مجالد، فأخرج إلينا كراسة لأبيه فيها أحاديث جياد، عن مجالد (٢)، وبيان (٣)، والناس، فكنا نكتب إلى العصر، وقرأ علينا، فلما أردنا أن نقوم، قال: حدثنا أبومعاوية، عن الأعمش، بهذا الحديث، فقلت له: ولا قل هذا بمرة، فأتيت يحيى بن معين، فذكرت ذلك له، فقال: قل له: يا عدو الله متى كتبت أنت هذا عن أبي معاوية، إنما كتبت أنت عن أبي معاوية ببغداد، متى روى هذا الحديث ببغداد".
۔
یعنی امام ابن معین نے عمر بن اسماعیل کو الله کا دشمن قرار دیا اس کو روایت کرنے پر۔ اور حیرانگی سے کہا۔ کہ یہ حدیث ابو معاویه سے کب سے روایت ہونے لگی؟؟؟؟
[سؤالات البزدعي لأبي زرعة الرازي: صفحة236]
یعنی ابن معین نے اس حدیث کو ابو معاویه سے روایت کرنے پر عمر بن اسماعیل کو الله کا دشمن کہہ ڈالا۔ اور خصوصاً بغداد میں اس کو ابو معاویه سے روایت کرنے پر حیرانگی کا اظہار کیا۔
اور جو الفیدی والی متابع ھے۔ اس کے بنیادی راوی "محمد بن أحمد بن تميم" (ضعیف) اور الحسن بن فھم" دونوں بغدادی ہی ہیں۔ لہذا یہ زبردست قرینه ھے کہ ابن محرز (مجھول) کا ابن معین کے بارے میں قول شاذ ھے۔ اور یہ روایت بغداد والوں نے ابو الصلت ہی سے سُن کر ابو معاویة کے ذمے لگائی ھے۔
۔
امام ابن معین کی آخری بات:
وقال ابن الجنيد مرة أخرى: سمعت يحيى وذكر أبا الصلت الهروي فقال: "لم يكن عندنا من أهل الكذب، وهذه الأحاديث التي يرويها ما نعرفها
یعنی: ابن معین نے بھی آخر میں ہاتھ کھڑے کرلئے کہ میں نہیں جانتا یہ ابو الصلت جو احادیث روایت کرتا ھے۔ یہ کیا بکتا رہتا ہے؟
[سؤالات ابن الجنيد ٢٥، وانظر: تهذيب الكمال ١٨/ ٧٨]

۔
چوتھی بات۔ باقی ائمه نے صراحت سے کہہ رکھا ھے۔ کہ یہ حدیث ابو الصلت کی حدیث ھے۔ جس کو باقی راویوں نے ابو الصلت سے چوری کرکے ابو معاویة سے بیان کردیا۔
ملاحظه ھو:
امام الدارقطني رحمه الله نے کہا:
هو الذي رواه أبو الصلت عبد السلام بن صالح الهروي، عن أبي معاوية، عن الأعمش، عن مجالد، عن ابن عباس، أن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «أنا مدينة العلم، وعلي بابها» .

قيل: إن الصلت وضعه على أبي معاوية، وسرقه منه جماعة فحدثوا به عن أبي معاوية، منهم: عمر بن إسماعيل بن مجالد، ومحمد بن جعفر، ورجل كذاب من أهل الشام، حدث به عن هشام، عن أبي معاوية، وحدث به شيخ لأهل الري دجال، يقال له: محمد بن يوسف بن يعقوب، حدث به عن شيخ له مجهول، عن أبي عبيد القاسم بن سلام، عن أبي معاوية
[تعلیقات الدارقطني على المجروحين لابن حبان: صفحة179]
.
یہی بات امام ابن عدي رحمه الله نے کہی
ملاحظه ھو:
وهذا حديث أبي الصلت الهروي، عن أبي معاوية على إنه قد حدث به غيره وسرقه منه من الضعفاء وليس أحد ممن رواه عن أبي معاوية".
[الكامل فى الضعفاء الرجال لابن عدي: جزء3/صفحة201]
.
لہذا بلفرض اگر ابن محرز کی نقل کو تسلیم بھی کرلیں۔ تو ثابت ھوا کہ ابن معین کی پیش کردہ سند بھی ابو معاویه سے ثابت نہیں۔ کیونکه اُس میں محمد بن طفیل مجھول ہے۔
اور ابن معین ھی سے بغداد میں اس حدیث کا ہونا ثابت نہیں۔
جبکه حاکم نے بغدادیوں (محمد بن احمد بن تمیم بغدادی ضعیف) اور الحسن بن فھم (ضعیف بغدادی) سے عن محمد بن یحیی عن محمد بن جعفر عن ابو معاویة نقل کرتے ھوئے محمد بن طفیل کا واسطه گرا دیا۔
یعنی یہ متابعت والی دونوں سندیں ہی ضعیف ہیں (ابن محرز والی بھی اور امام الحاکم والی بھی)
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
اس روایت کا بنیادی راوی عبد السلام بن صالح ابو الصلت الھروی کے حالات:
✺ امام ابن الجوزي نے کہا
١٩٢٦ - عبد السلام بن صالح بن سليمان بن ميسرة أبو الصلت الهروي يروي عن علي بن موسى الرضا وحماد بن زيد قال أبو حاتم الرازي لم يكن عندي بصدوق وضرب أبو زرعة على حديثه وقال ابن عدي متهم وقال العقيلي رافضي خبيث وقال ابن حبان لا يجوز الاحتجاج به إذا انفرد
ترجمه:
یہ عبد السلام بن صالح، ابو الصلت الھروی علی بن موسیٰ رضا اور حماد بن زید سے بیان کرتا ھے، امام ابو حاتم نے کہا یہ ہمارے نزدیک سچوں میں سے نہیں ھے۔ اور اس کی حدیث پھینک دی۔ امام ابن عدی نے اِس کو کذاب کہا ہے، امام العقیلی کہتے ہیں یہ رافضی خبیث ھے۔ امام ابن حبان نے کہا۔ اس سے احتجاج نہیں کرنا چاھیئے، خصوصاً جب یہ منفرد ہو۔
[الضعفاء والمتروکون لابن الجوزي: جزء2/صفحة102]
۔
✺ امام الذھبي نے کہا
٢٥٢٨ - عبد السلام بن صالح، أبو الصلت الهروي: اتهمه بالكذب غير واحد، قال أبو زرعة: لم يكن بثقة، وقال ابن عدي: متهم، وقال غيره: رافضي. -ق-
ترجمه: اس پر کئی ائمه نقاد کی طرف سے کذاب کی تہمت ہے۔ امام ابو زرعة نے کہا یہ ثقة نہیں ہے۔ امام ابن عدی نے کہا یہ کذاب ھے۔ اور باقی ائمه نے کہا یہ رافضی ھے
[دیوان الضعفاء للذھبي: صفحة249]
.
✺ امام ابن عدی نے عبد السلام ابو الصلت الھروی کی بیان کردہ حدیث ذکر کر کے کہا
١٤٨٦- عبد السلام بن صالح أبو الصلت الهروي
ولعبد السلام هذا عن عبد الرزاق أحاديث مناكير في فضائل علي وفاطمة والحسن، والحسين، وهو متهم في هذه الأحاديث ويروي عن علي بن موسى الرضا حديث الإيمان معرفة بالقلب، وهو متهم في هذه الأحاديث
ترجمه:
یہ جو عبد السلام بن صالح ھے۔ یہ امام عبد الرزاق سے منسوب کر کے، فضائل علی اور فضائل فاطمه، فضائل حسن ، اور فضائل حسین کی منکر خبریں بیان کرتا ھے۔ اور یہ ان خبروں کو نشر کرنے میں متھم (جھوٹا) ھے۔ اور یہ علی بن موسیٰ الرضا کے حوالے سے کہتا ھے کہ ایمان صرف دل کی معرفت کا نام ھے۔ اور یہ ان خبروں کو بیان کرنے میں جھوٹا ھے
[الکامل لابن عدي: جزء7/صفحة25]
.
✺ امام ابو نعیم الاصبھاني نے کہا
١٤٠ - عبد السلام بن صالح بن سليمان أبو الصلت الهروي يروي عن حماد بن زيد وأبي معاوية وعباد بن العوام وغيرهم أحاديث منكرة
ترجمه:
عبد السلام بن صالح بن سلیمان ابو الصلت الھروی، یہ حماد بن زید اور ابو معاویه اور عباد بن العوام وغیرہ سے روایت کرتا ھے۔ اور کی بیان کردہ خبریں منکر ہوتی ہیں
[الضعفاء لأبي نعيم: صفحة108]
.
✺ امام الذھبي نے کہا
٣٦٩٤ - ق / عبد السلام بن صالح أبو الصلت الهروي الشيعي الرجل العابد متروك الحديث قال ابن عدي متهم_
ترجمه: عبد السلام بن صلاح ابو الصلت الھروی، یہ شیعه تھا۔ عبادت گزار تھا۔ لیکن حدیث میں متروک ہے، امام ابن عدی نے اس کو کذاب کہا ھے
[المغنیٰ في الضعفاء للذھبي: جزء2/صفحة394]
.
✺ امام الحاکم نے کہا
عبد السلام بن صالح بن سليمان أبو الصلت الهروي روى عن حماد بن زيد، وأبي معاوية، وعباد بن العوام وغيرهم أحاديث مناكير
[المدخل إلى الصحيح للحاكم: جزء1/صفحة415]
.
✺ امام الذھبي نے کہا
[٥٠٥١ - عبد السلام بن صالح [ق] ، أبو الصلت الهروي الرجل الصالح، إلا أنه شيعي جلد.]
روى عن حماد بن زيد، وأبي معاوية، وعلي الرضا.
قال أبو حاتم: لم يكن عندي بصدوق، وضرب أبو زرعة على حديثه. وقال العقيلي: رافضي خبيث. وقال ابن عدي: متهم. وقال النسائي: ليس بثقة. وقال الدارقطني: رافضي خبيث متهم بوضع حديث
ترجمه:
عبد السلام بن صالح، أبو الصلت الهروی یہ کٹر شیعه تھا، یہ حماد بن زید، ابو معاویه اور علی بن موسیٰ رضا سے روایت کرتا ھے۔ اسکے بارے میں امام ابو حاتم نے کہا۔ یہ ھمارے نزدیک سچا نہیں اور امام ابو زرعة نے اس کی حدیثوں کو کاٹنے کا کہا۔ امام العقیلی نے کہا رافضی خبیث ھے۔ ابن عدی نے کہا اس کو حدیثیں گھڑنے میں متھم کہا۔ امام نسائی نے کہا یہ ثقة نہیں۔ امام الدارقطني نے کہا: رافضی خبیث ھے، حدیثیں گھڑنے میں متھم ھے
[میزان الاعتدال للذھبي: جزء2/صفحة616]
.
✺ امام ابن حبان نے کہا
٧٦٢ - عبد السلام بن صالح بن سليمان بن ميسرة أبو الصلت الهروي
يروي عن حماد بن زيد وأهل العراق العجائب في فضائل علي وأهل بيته، لا يجوز الاحتجاج به إذا انفرد.
ترجمه:
یہ حماد بن زید سے اور اھل العراق سے عجیب و غریب خبریں، اھل بیت اور علی کے فضائل میں بیان کرتا ھے۔ جب یہ منفرد ھو تو اس سے احتجاج کرنا جائز نہیں
[المجروحین لابن حبان: جز2/صفحة135]
.
✺ امام النسائی نے کہا
١١٢ - أبو الصلت عبد السلام بن صالح الهروي رافضي خبيب ليس بثقة ولا مأمون
[مشیخة النسائ: صفحة63]
.
✺ امام عبد الرحمن بن أبي حاتم نے کہا
٢٥٧ - عبد السلام بن صالح الهروي أبو الصلت روى عن حماد بن زيد وعبد الوارث وجعفر بن سليمان وشريك وعباد بن العوام وعطاء بن مسلم ومعتمر وعبد السلام___
نا عبد الرحمن قال سألت أبي عنه فقال لم يكن عندي بصدوق وهو ضعيف ولم يحدثنى عنه واما أبو زرعة فأمر أن يضرب على حديث ابى الصلت وقال لا احدث عنه ولا ارضاه.
ترجمه:
امام عبد الرحمن بن أبي حاتم نے اپنے والد سے اس کے بارے میں پوچھا۔ تو انہوں نے کہا: یہ ہمارے نزدیک سچا نہیں۔ یہ ضعیف ہے۔ اور میں اس سے روایت نہیں کرتا۔ اور امام ابو زرعة نے ابو الصلت الھروی کی حدیثیں پھینکنے کا حکم دیا۔ اور کہا میں اس سے روایت نہیں کرتا۔ اور نہ ہی میں اس سے راضی (مطمئن) ھوں۔
[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: جزء6/صفحة48]
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
امام الحاکم نے اسی روایت کو ایک اور سند سے بھی بیان کر رکھا ھے۔
امام الحاکم رحمه الله نے کہا:
٤٦٣٩ - حدثني أبو بكر محمد بن علي الفقيه الإمام الشاشي القفال، ببخارى وأنا سألته حدثني النعمان بن الهارون البلدي، ببلد من أصل كتابه، ثنا أحمد بن عبد الله بن يزيد الحراني، ثنا عبد الرزاق، ثنا سفيان الثوري، عن عبد الله بن عثمان بن خثيم، عن عبد الرحمن بن بهمان التيمي قال: سمعت جابر بن عبد الله يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «أنا مدينة العلم، وعلي بابها، فمن أراد العلم فليأت الباب»
[المستدك للحاكم]
.
اس روایت کا راوی "احمد بن عبد الله بن یزید الحراني" کذاب ھے".
امام الذھبي نے کہا:
أحمد بن عبد الله بن يزيد الهشيمي (٥) المؤدب أبو جعفر. عن عبد الرزاق. قال ابن عدي: كان بسامراً يضع الحديث.
[میزان الاعتدال للذھبي]
.
امام الذھبي نے کہا:
٣٢٧ - احمد بن عبد الله بن يزيد المؤدب عن عبد الرزاق
كذاب ايضا قال ابن عدي يضع الحديث".
[المغنیٰ في الضعفاء للذھبي: صفحة43]
.
امام ابن حجر نے کہا:
[٥٧٤ - أحمد بن عبد الله بن يزيد الهشيمي المؤدب أبو جعفر [وهو أحمد بن عبد العزيز]]
عن عبد الرزاق.
قال ابن عدي: كان بسامرا يضع الحديث
أخبرنا جماعة قالوا: أخبرنا أحمد، حدثنا عبد الرزاق، عن سفيان، عن ابن خثيم، عن عبد الرحمن بن بهمان، عن جابر رضي الله عنه مرفوعا: هذا أمير البررة وقاتل الفجرة أنا مدينة العلم وعلي بابها
قال الخطيب في حديث جابر المتقدم: هو أنكر ما روى وفي بعض أحاديثه نكرة.
وقال الدارقطني: يحدث، عن عبد الرزاق، وغيره بالمناكير يترك حديثه.
ترجمه:
أحمد بن عبد الله بن يزيد الهشيمي ابو جعفر المؤدب، یہ احمد بن عبد العزیز سے بھی جانا جاتا ھے". امام ابن عدی نے اس کو حدیثیں گھڑنے والا (کذاب) کہا۔ ایک جماعت نے اس سے یہ خبر بحواله جابر رضی الله عنه، بیان کی کہ، نبی علیه السلا نے علی رضی الله عنه کے لئے فرمایا: میں علم کا شہر ہوں اُس کا دروازہ ہیں".
امام خطیب البغدادی رحمه الله نے اس خبر کے بارے میں کہا کہ یہ اس خبر میں نکارت ہے اور اِس کی بعض احادیث میں نکارت ہوتی ہے۔ امام الدارقطنی نے کہا۔ یہ عبد الرزاق وغیرہ سے منکرات بیان کرتا ھے۔ لہذا اس کو ترک کر دینا چاھیئے".
[لسان المیزان لابن حجر: جزء1/صفحة501]- ت أبي غدة
۔
امام ابن الجوزي رحمه الله نے ایک حدیث پر بحث کرتے ہوئے کہا:
والثاني أبو الصلت وقد اتفقوا على أنه كذاب والثالث أحمد بن عبد الله بن يزيد قال كان يضع الحديث.
ترجمه:
دوسری بات یہ کہ ابو الصلت کے کذاب ہونے پر تو اتفاق ھے۔ اور تیسری بات یہ کہ "احمد بن عبد الله بن یزید" (الحرانی) یہ بھی حدیثیں گھڑتا ھے".
[العلل المتناھیة في الأحاديث واهية لابن الجوزي: جزء1/صفحة201]
..
© اس روایت میں امام سفیان الثوری کا عنعنه بھی ھے اور مدلس کا عنعنه غیر صحیحین میں مردود ھوتا ھے۔
© اس روایت کا راوی عبد الرحمن بن بهمان مجھول ھے ۔ ابن حجر نے اس کو مقبول کہا۔ اور ایسے راوی روایت متابعت میں قبول کی جاتی ھے۔ اور عبد الرحمن بن بھمان کا جابر رضی الله عنه سے سماع پر بھی کوئی دلیل نہیں۔
الغرض یہ کہ اس روایت کو بیان کرنے والا ہی کذاب ھے تو سند کے باقی رجال پر بحث کرنے کا کوئی فائدہ ہی نہیں۔
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
اس ساری جھوٹی کہانی کے برخلاف صحیح حدیث سے ثابت ھے کہ
حدثنا سعيد بن عفير، قال: حدثني الليث، قال: حدثني عقيل، عن ابن شهاب، عن حمزة بن عبد الله بن عمر، ان ابن عمر، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" بينا انا نائم، اتيت بقدح لبن فشربت حتى إني لارى الري يخرج في اظفاري، ثم اعطيت فضلي عمر بن الخطاب، قالوا: فما اولته يا رسول الله، قال: العلم".
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے لیث نے، ان سے عقیل نے ابن شہاب کے واسطے سے نقل کیا، وہ حمزہ بن عبداللہ بن عمر سے نقل کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں سو رہا تھا (اسی حالت میں) مجھے دودھ کا ایک پیالہ دیا گیا۔ میں نے (خوب اچھی طرح) پی لیا۔ حتیٰ کہ میں نے دیکھا کہ تازگی میرے ناخنوں سے نکل رہی ہے۔ پھر میں نے اپنا بچا ہوا (دودھ) عمر بن الخطاب کو دے دیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا آپ نے اس کی کیا تعبیر لی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علم۔
[صحیح البخاري: باب فی فضل العلم:رقم/82]
۔
اسی لئے رافضیوں نے صحابه کے درمیان مقابله بازی شروع کردی۔ اور امیر المؤمنین علی ابن أبي طالب رضی الله عنه کے بارے میں غلو کرتے ھوئے کافی حدیثیں گھڑ لیں۔
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
بے شک علی رضی الله عنه کے بیشمار فضائل ھیں۔ بلکه صحابه میں سب سے زیادہ فضائل کے باب میں آپ ہی کے لئے سب سے زیادہ مدح و منقبت منقول ھے۔ لیکن اس کا یہ معنی نہیں کہ آپ (یعنی علی رضی الله عنه) بعد از نبی سب سے افضل ہیں۔ ایسا ھرگز نہیں۔
ایک تو اس پر امت کا اجماع ہے کہ نبی اکرم صلی الله عليه وإله وسلم کے بعد سب سے افضل بہتر وبرتر ھستی ابو بکر صدیق کی ھے۔ پھر عمر بن الخطاب کی ھے اور پھر عثمان کی ھے۔ پھر علی کی ھے۔ (رضوان الله تعالى عليهم أجمعين)
۔
اور اس پر کئی دلائل بھی ھیں۔
جیسے کہ:
امام البخاري رحمه الله نے باب باندھا
بَابُ أَهْلُ الْعِلْمِ وَالْفَضْلِ أَحَقُّ بِالإِمَامَةِ:
46. باب: امامت کرانے کا سب سے زیادہ حقدار وہ ہے جو علم اور (عملی طور پر بھی) فضیلت والا ہو۔
ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حسین بن علی بن ولید نے زائدہ بن قدامہ سے بیان کیا، انہوں نے عبدالملک بن عمیر سے، کہا کہ مجھ سے ابوبردہ عامر نے بیان کیا، انہوں نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے، آپ نے فرمایا کہ آپ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور جب بیماری شدت اختیار کر گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر (رضی اللہ عنہ) سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا بولیں کہ وہ نرم دل ہیں جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو ان کے لیے نماز پڑھانا مشکل ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ ابوبکر سے کہو کہ وہ نماز پڑھائیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پھر وہی بات کہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ ابوبکر سے کہو کہ نماز پڑھائیں، تم لوگ صواحب یوسف (زلیخا) کی طرح (باتیں بناتی) ہو۔ آخر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آدمی بلانے آیا اور آپ نے لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی نماز پڑھائی
[صحیح البخاری: کتاب الآزان: رقم/628]
۔
امام النسائی نے کہا:
بَابُ : ذِكْرِ الإِمَامَةِ وَالْجَمَاعَةِ إِمَامَةِ أَهْلِ الْعِلْمِ وَالْفَضْلِ
1. باب: اہل علم و فضل کی امامت کا بیان
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، وهناد بن السري، عن حسين بن علي، عن زائدة، عن عاصم، عن زر، عن عبد الله، قال: لما قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالت الانصار: منا امير ومنكم امير فاتاهم عمر، فقال: الستم تعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد" امر ابا بكر ان يصلي بالناس فايكم تطيب نفسه ان يتقدم ابا بكر قالوا نعوذ بالله ان نتقدم ابا بكر".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو انصار کہنے لگے: ایک امیر ہم (انصار) میں سے ہو گا اور ایک امیر تم (مہاجرین) میں سے، تو عمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے، اور کہا: کیا تم لوگوں کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو لوگوں کو نماز پڑھانے کا حکم دیا ہے ۱؎، تو اب بتاؤ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے آگے بڑھنے پر تم میں سے کس کا جی خوش ہو گا؟ ۲؎ تو لوگوں نے کہا: ہم ابوبکر رضی اللہ عنہ سے آگے بڑھنے پر اللہ کی پناہ مانگتے ہیں".
[السنن النسائی: باب کتاب الامامة:رقم778]
.
امام ابن ماجه نے کہا:
بَابُ : مَنْ أَحَقُّ بِالإِمَامَةِ
46. باب: کون شخص امامت کا زیادہ حقدار ہے؟

حدثنا محمد بن بشار ، حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن إسماعيل بن رجاء ، قال: سمعت اوس بن ضمعج ، قال: سمعت ابا مسعود ، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يؤم القوم اقرؤهم لكتاب الله، فإن كانت قراءتهم سواء، فليؤمهم اقدمهم هجرة، فإن كانت الهجرة سواء، فليؤمهم اكبرهم سنا، ولا يؤم الرجل في اهله، ولا في سلطانه، ولا يجلس على تكرمته في بيته إلا بإذن او بإذنه".
ابومسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کی امامت وہ شخص کرے جو لوگوں میں قرآن زیادہ جانتا ہو، اگر قراءت میں سب یکساں ہوں تو امامت وہ کرے جس نے ہجرت پہلے کی ہو ۱؎، اگر ہجرت میں سب برابر ہوں تو امامت وہ کرے جو عمر کے لحاظ سے بڑا ہو، اور کوئی شخص کسی شخص کے گھر والوں میں اور اس کے دائرہ اختیار و منصب کی جگہ میں امامت نہ کرے ۲؎، اور کوئی کسی کے گھر میں اس کی مخصوص جگہ پہ بغیر اس کی اجازت کے نہ بیٹھے“ ۳؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/المساجد 53 (673)، سنن ابی داود/الصلاة 61 (582، 583، 584)، سنن الترمذی/الصلاة60 (235)، سنن النسائی/الإمامة 3 (781)، 6 (784)، (تحفة الأشراف: 9976)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/118، 121، 122) (صحیح)» ‏‏
۔
اور نبی اکرم صلی الله عليه وسلم کے بعد ابوبکر صديق رضى الله عنه کو امامت کا ملنا اس بات کی دلیل ھے کہ اس حدیث میں موجود تمام خصوصيتيں آپ میں موجود تھیں۔ اسی لئے تو نبی علیه السلام نے آپ کو اپنی ہی زندگی میں امامت کے لئے آگے کر دیا تھا۔ والحمدلله____
اسی طرح باقی صحابه اکرام کے بھی فضائل ھیں۔ لیکن صحابه میں درجات ضرور ہیں۔ اور سارے کے سارے جنتی بھی ھیں ان شاء الله___
 
Top