• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ناگہاں بجلی گری (جناب مولانا عبد الحکیم مجاز اعظمی رحمہ اللہ پر ایک مضمون)

شمولیت
اپریل 24، 2014
پیغامات
158
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
77
ناگہاں بجلی گری ...
تحریر : ابو جبران ضمیر احمد مدنی
-----------------------
علمی و ادبی حلقوں میں یہ خبر بجلی بن کر گری کہ مشہور شاعر و صحافی، عظیم مصنف و مدرس اور جامعہ عالیہ عربیہ کے مہتمم و منتظم استاذ گرامی مولانا عبدالحکیم مجاز اعظمی بتاریخ ۲۴؍ دسمبر۲۰۱۱/بوقت ۷؍ بجے صبح/بعمر ۸۵؍ سال ، اس دنیا ئے فانی سے دار البقاء کی طرف رحلت فرماگئے : (انا للہ وانا الیہ راجعون) ''اللھم اغفر لہ، وارفع درجتہ، وافسح لہ فی قبرہ و نور لہ فیہ''
آپ کی ولادت غالباً۱۹۲۶ میںیوپی کے مردم خیز ضلع اعظم گڑھ کے مؤناتھ بھنجن میں ہوئی ۔ مدارس مؤ ناتھ بھنجن سے استفادہ کرنے کے بعد اس وقت کی عظیم دانش گاہ وجامعہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی کا قصد کیا اور وہاں کے مشہور فضلاء و نامور اساتذہ سے علمی اکتساب کیا اور فیض اٹھایا اور فراغت دار الحدیث رحمانیہ سے کی ۔
نامور اساتذہ میں شیخ الحدیث عبیداللہ رحمانی ؒ ، مولانا نذیر احمد املویؒ ، مولانا عبدالجلیل رحمانی ؒ و غیرہم شامل ہیں ۔ آپ کا شمار ہندوستان کے مایہ ناز صحافیوں و قلمکاروں میں ہوتا ہے۔ آپ ہندوستان کے دو مشہور رسالوں کے ایڈیٹر رہ چکے ہیں، نیزسہ ماہی مجلہ ''افکار عالیہ'' کے وقت اجراء سے تا حیات ایڈیٹر رہے ۔ آپ مختلف اداروں سے وابستہ رہ کر جماعتی خدمات انجام دیتے رہے یہاں تک کہ ۱۹۶۷میں ہندوستان کی قدیم و مشہور دینی درسگاہ جامعہ عالیہ مؤ ناتھ بھنجن کے مہتمم و نگراں مقرر ہوئے تو نہایت مستقل مزاجی و ثبات قدمی سے تاحیات اس کے درو دیوار سے چمٹے رہے اور جامعہ کی تعلیمی و تعمیری ترقی میں انتظامیہ کمیٹی کے ساتھ زبردست رول ادا کیا۔
راقم الحروف نے جامعہ عالیہ عربیہ میں ۱۹۸۳میں داخلہ لیا، اور ۵؍ سال کی مدت مدید گزاری۔ اس زمانے میں ماسٹر نثار احمد انصاری ؒ (وفات ۲۰؍ اپریل ۱۹۹۱) جنرل سکریٹری کے منصب پر فائز تھے اور موصوف نے تقریبا ۱۸؍ سال تک نظامت کے فرائض نہایت ہی حوصلہ مندی و چابک دستی کے ساتھ انجام دیئے۔ اور مشہور اساتذۂ کرام میں شیخ الجامعہ محمد الاعظمی حفظہ اللہ کے علاوہ مولانا اقبال احمد سلفی و مولانا عبدالحکیم فیضی؍ رحمہما اللہ اور موجودہ شیخ الجامعہ شریف اللہ السلفی، شیخ اشفاق احمدمدنی ، شیخ ابو القاسم عبدالعظیم مدنی، شیخ مظہر الاعظمی اور شیخ نعیم احمد اثری وغیرہم حفظہم اللہ تھے۔ جن سے راقم الحروف نے بخوبی استفادہ کیااور مجاز رحمہ اللہ کے دور اہتمام میں جامعہ میں رہ کر دو بڑے فرقہ وارانہ فسادات (۱۹۸۳/۱۹۸۴)کو بھی میں نے دیکھا ۔ اس موقع پر طالب علموں کے خوردو نوش کا انتظام و انصرام جس چابکدستی کے ساتھ کیا تھا وہ لائق ستائش و قابل تعریف تھا۔ آپ وقت کے نہایت ہی پابند تھے، وقت مقررہ پر دفتر حاضر ہوجاتے تھے ، اور کام میں جٹ جاتے تھے، خودنمائی، شیخی اور تعلّی سے کوسوں دور اپنی گوناگوں صلاحیتوں کے باوجود نہایت ہی وقار و سنجیدگی کے ساتھ رہتے تھے۔ دفتر میں بے شمار بیرونی و مقامی علمی و سیاسی و سماجی ہستیاں آتی تھیں، جن سے ملاقات و تبادلہ خیال کیا کرتے تھے ، گویا کہ آپ میر انجمن ہوا کرتے تھے ۔ آپ کی علمی کشش کی بنا پر بے شمار اہل علم و دانش ادباء و شعراء کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ جامعہ کے قیام کے دوران جن ہستیوں کو راقم نے مجاز رحمہ اللہ کے دفتر میں دیکھا ہے شیخ الحدیث عبیداللہ مبارکپوریؒ ، ضیاء الدین اصلاحیؒ ( ایڈیٹر ماہنامہ معارف اعظم گڑھ)، ڈاکٹر سعید الاعظمی ، ڈاکٹر عبدالعلی ازہری لندن، ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری ، حکیم عبدالباقی ومشہور شاعرفضا ابن فیضیؒ و دیگر مشہور شخصیتیں خصوصاًفضا صاحب کے ساتھ آپ کی مجلسیں بکثرت و طویل ہوتی تھیں اور شعری نوک جھونک بھی ہوتی تھی۔ اور کبھی کبھی مجلس قہقہہ زار ہوجاتی تھی۔ مجاز اعظمیؒ کی شخصیت محتاج بیان نہیں ہے۔ آپ بے شمار اوصاف حمیدہ کے مالک تھے ، آپ سادگی پسند ، خوش اخلاق ، خوش مزاج، فرض شناس انسان تھے۔ معاملات میں دانشمندی، دور اندیشی اور باریک بینی سے کام لیتے تھے۔ گفتار میں شیرینی، وسیع النظری ، خندہ پیشانی ، رحمدلی و شفقت، خیر سگالی ، بھائی چارگی آپ کی باغ و بہار شخصیت کے جزو لاینفک رہے ہیں۔
بلا شبہ آپ کا شمار ان نازش روزگار شخصیات میں ہوتا ہے جو فلک کی برسوں گردش کے بعد خاک کے ذروں سے جلوہ افروز ہوتے ہیں ۔ بقول میر تقی میر ؂
مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے ذروں سے انسان نکلتے ہیں
۱۹۸۵ میں ائمہ مساجد کانفرنس کا انعقاد مولانا مختار احمد ندویؒ کی سرپرستی میں بمقام عالیہ نگر مؤ ناتھ بھنجن زیر اہتمام جامعہ عالیہ عمل میں آیا۔ جس میں ہندوستان و نیپال کے بے شمار علماء و ائمہ و دعاۃ شریک ہوئے ۔ اس کانفرنس میں مولانا عبدالجلیلؒ بھی مدعو خصوصی تھے۔ اسی موقع پر مادر علمی جامعہ عالیہ کے ''انجمن تہذیب اللسان''کا پہلا شمارہ ''تہذیب سالانہ میگزین'' کا اجراء عمل میں آیا اور ایک پرشکوہ مجلس منعقد ہوئی۔ جماعت کے مؤقر علماء و أعیان کے تاثرات بھی پیش ہوئے، جب اناؤنسر نے مولانا عبدالجلیل رحمانی کا نام پکارا، تو مجاز مرحوم نے اسٹیج پر آکر اپنے استاذ محترم کا مختصر تعارف پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ ''مولانا عبدالجلیل رحمانی وہ ہستی ہیں جنھیں ہم طلبہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی میں ''ائمہ ثلاثہ'' کے نام سے پکارتے تھے۔یعنی شیخ الحدیث مولانا عبید اللہ رحمانی (صاحب مرعاۃ الفاتیح)، مولانا نذیر احمد رحمانی اور مولانا عبدالجلیل رحمانی رحمہم اللہ اجمعین''۔ پھر ناظم محترم مولانا عبدالجلیلؒ نے اس موقع پر بچوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ''عزیز طلبہ ! ابھی آپ کی آواز جامعہ کے درو دیوار تک محدود و محصور تھی لیکن اس سالانہ مجلس کے ذریعے تمہاری صدا و آواز پورے ہندوستان میں گونجے گی، اور صحافت کے ذریعے تمہاری شناخت و پہچان ہوگی ۔ تمہاری قلمی و تحریری خامیوں پر لوگ اب کھل کر تنقید بھی کریں گے اور خوبیوں پر تعریف و توصیف بھی ہوگی'' وغیرہ وغیرہ ۔
مجازرحمہ اللہ مجلہ ''تہذیب ''کی اشاعت کے لیے جد و جہد بھی کرتے تھے، گراں قدر مشوروں سے نوازتے تھے ، معاملات و پرپیچ مسائل کی گتھیوں کے سلجھانے میں بھی یکتا تھے۔ جیسا کہ بعض معاملات میں راقم کا تجربہ بھی ہے ۔ آپ کی خدما ت کا دائرہ بہت وسیع ہے ، خواہ وہ ادبی و صحافتی خدمات ہوں یا جماعتی و سماجی سرگرمیاں ہوں یا دینی وملی ذمہ داریاں ، ان تمام ہمہ جہت کارہائے نمایاں میں بھی آپ کا وافر و خصوصی حصہ رہا ہے۔ بطور صحافی جہاں آپ کے متنوع مضامین و مقالات مختلف رسالوں میں شائع ہوتے رہے ہیں وہیں آپ نے نہایت قیمتی و علمی تصانیف بھی بطور یاد گار چھوڑی ہیں۔ ان میں چند کے نام یہ ہیں : روحانی عورت ، روحانی نماز، آثار نبوت، ہدایت نامہ مسلمان بیوی، ہدایت نامہ مسلمان خاوند، خلیفہ اسلام ، ابو بکر الصدیقؓ ، حضرت عمر الفاروقؓ ، واسلامی زندگی وغیرہ ۔ واضح رہے کہ آپ عظیم صحافی و مصنف ہونے کے ساتھ ایک مشہور شاعر بھی تھے اور اس کی سب سے زندہ و جاوید مثال وہ اشعار ہیں جو آپ نے دارالعلوم دیوبند سے اہل حدیث طلبہ کے اخراج پر کہے تھے اور بحیثیت مدیر ترجمان میں شائع کیے تھے :
کچھ طالبان علم مجھے کل نظر پڑے
معصومیت سے دیکھا منہ ان کے بند ہیں
یہ مختلف چمن کے ہیں گلہائے رنگا رنگ
بنگال کے، بہار کے، یوپی کے چند ہیں
پھینکے گئے ہیں زہر ہلاہل سمجھ کے یہ
میں نے قریب سے انھیں دیکھا کہ قند ہیں
یہ چشم ہائے خیرہ، یہ گردن جھکی ہوئی
آواز دے رہی ہے کہ یہ حق پسند ہیں
کہتی چمک ہے ان کے سروں کے غبار کی
معمار دین حق کے معجل سمند ہیں
ہر ہر نفس میں نوحۂ مظلومیت کا سوز
ہر جنبش نظر میں روز گزند ہیں
لب پر ستم گروں کا بھی نام احترام سے
اس منتہائے غم میں بھی احسان مند ہیں
پوچھا جو میں کون ہو تم؟ آئی یہ صدا!
ہم ''مجرمین مدرسۂ دیوبند'' ہیں
ا ور ان کے ان اشعار نے اعیان جماعت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا یہاں تک کہ ناظم فیض عام مؤ نے ان طلبہ سے درخواست کی تھی کہ فیض عام کا دروازہ ان کے لیے کھلا ہوا ہے ، وہ اپنی تعلیم یہاں آکر پوری کریں اور اسی واقعے نے علماء و احباب جماعت کو جامعہ سلفیہ جیسی مرکزی درسگاہ کے قیام پر آمادہ کیا۔
آپ کی نظم و غزل کے نمونے مجلہ تہذیب کے تمام شماروں میں پائے جاتے ہیں۔ بطور نمونہ ''واردات مدینہ '' کے مسجد نبوی میں حاضری کے وقت طویل نظم سے چند اشعار پیش خدمت ہیں:
یہ مسجد نبوی ہے، دربار مدینہ ہے
عصیاں کے سمندر ہیں، بخشش کا سفینہ ہے
اس حجرۂ نبوی سے اس منبر نبوی تک
جنت کی کیاری ہے، فردوس کا زینہ ہے
صفہ پہ میں جب بیٹھا اصحاب کی یاد آئی
کیا جذبہ سبقت ہے، نفرت ہے نہ کینہ ہے
کس دل سے مجازؔ آخر جاؤگے مدینے سے
طیبہ سے جدا رہ کر جینا کوئی جینا ہے
ماسٹر نثار احمد انصاری مرحوم ناظم جامعہ کی وفات پر نذرانۂ غم کے عنوان سے درج ذیل اشعار کہے:
آتش صدمات سے دل کتنے جل کر رہ گئے
نیم بریاں کتنے دل تھے جو پگھل کر رہ گئے
ناگہاں بجلی گری اک گلشن شاداب پر
شاخ و گل برگ و ثمر جو کچھ تھے جل کررہ گئے
مخلص ملت نثار احمد کی مرگ ناگہاں
سنتے ہی ہر آنکھ سے آنسو ابل کر رہ گئے
اور ایسے ہی حضرت الشیخ مولا نا عبیداللہ مبارکپوری کی وفات پر نذرانۂ دل افسردہ کے عنوان سے بڑے ہی غم ناک و تابناک اشعار کہے تھے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مولانامرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق بخشے اور جامعہ کو ان کا نعم البدل عطا کرے۔ آمین​
(بشکریہ ماہنامہ دی فری لانسر​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,476
پوائنٹ
964
ماشاءاللہ ، عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ کمال کے شاعر تھے ۔
رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ
 
Top