• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نبی کریم ﷺ پر قاتلانہ حملے اور سازشیں

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نبی کریم ﷺ پر قاتلانہ حملے اور سازشیں

مولانا عبدالرحمن کیلانی ؒ​
آپﷺ کازمانہ نبوت صرف ۲۳ سال ہے۔ جن میں سے ابتدائی تین سال تو انتہائی خفیہ تبلیغ کے ہیں۔ باقی بیس سال میں اس محسن انسانیت پر کم و بیش اٹھارہ دفعہ قاتلانہ حملے یا آپؐ کو ختم کرنے کے لئے سازشیں ہوتی رہیں۔
ان میں سے دس حملے یا سازشیں تو مشرکین مکہ سے تعلق رکھتی ہیں، تین یہود سے، تین بدوی قبائل سے، ایک منافقین سے اور ایک شاہِ ایران خسرو پرویز سے۔
لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کولوگوں سے محفوظ رکھنے کی ذمہ داری لے رکھی تھی لہٰذا دشمن کی ہر تدبیر ناکام ہوتی رہی اور بالآخر اللہ کی تدبیر ہی غالب ہوئی اور اسلام کو باقی تمام اَدیان پر غلبہ حاصل ہوگیا۔ اسلام کے سارے دشمن مل کر بھی نہ اسلام کو ختم کرسکے اور نہ پیغمبر اسلام کو۔ دنیا کی تاریخ میں شاید آپ کو کوئی دوسری ہستی نہ مل سکے گی جس کو ختم کرنے کے لئے اتنی کثیر تعداد میں حملے اور سازشیں کی گئی ہوں۔
لیکن اللہ تعالیٰ کی اس ذمہ داری کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپﷺ دشمنوں کے ہر طرح کے شر سے محفوظ و مامون رہے بلکہ آپؐ زندگی بھر ان کی طرف سے دکھ اور ایذائیں سہتے رہے، البتہ وہ آپؐ کو جان سے ختم نہ کرسکے، پھر اس ذمہ داری کی اطلاع بھی آپ کو زندگی کے آخری دور میں دی گئی۔ مندرجہ بالا آیات
’’ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ‘‘ سورہ مائدہ کی آیت ہے جو مدنی دور کی آخری سورتوں میں سے ہے اور ترتیب ِنزولی کے لحاظ سے اس کا نمبر ۱۱۲ ہے۔جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ آپ کو ہر موقع پر احتیاطی تدابیر سے کام لینا پڑتا تھا اور اذیت بھی برداشت کرنا پڑتی تھی۔
بعض اوقات آپؐ کو دشمن کے مذموم ارادہ کی اطلاع بذریعہ وحی ہوجاتی تھی او رجب اس سے بچائو اور مدافعت آپ کے بس سے باہر ہوتی تو اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد شامل ہوجاتی اور آپ ؐ کی جان کے بچاؤ کا کوئی نہ کوئی ذریعہ پیدا ہوجاتا تھا۔ذیل میں ایسے واقعات کا تذکرہ کیا جاتا ہے:
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
1۔ آپﷺ کی جان بچانے والے کی شہادت
کوہ صفا پر اپنے ’اقرباء‘ کو دعوت دینے کے بعد جب آیت
’’ فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَر‘‘ (۱۵:۹۴) (آپ ؐ کو جوحکم دیا جاتا ہے، وہ کر گزرئیے)
نازل ہوئی تو آپؐ نے حرمِ کعبہ میں جاکر توحید کا اعلان فرمایا۔ اس وقت تک مسلمانوں کی تعدادچالیس ؍پینتالیس سے زیادہ نہ تھی او ر وہ چھپ چھپا کر و قت گزار رہے تھے۔ کفار کے نزدیک آپؐ کا یہ اعلان مشرکین مکہ کی سب سے بڑی توہین کے مترادف تھا۔ چنانچہ دفعۃً ایک ہنگامہ بپا ہوگیا اور ہر طرف سے لوگ آپؐ پر پل پڑے۔ آپؐ کے ربیب (حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے پہلے خاوند سے بیٹے) حارث بن ابی ہالہ گھر میں موجود تھے۔ انہیں خبر ہوئی تو دوڑتے ہوئے آئے اور آپؐ کو بچانا چاہا۔ اب ہر طرف سے ان پر تلواریں پڑنے لگیں اور وہ شہید ہوگئے۔ اسلام کی راہ میں یہ پہلا خون جو بہایا گیا۔(۱)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
2۔ ابوجہل کا ارادہ قتل
یہ واقعہ مختصراً یوں ہے کہ ایک دن ابوجہل نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ
’’میں نے اللہ سے یہ عہد کر رکھا ہے کہ کسی وقت جب محمد(ﷺ) سجدہ میں جائیں تو بھاری پتھر سے ان کا سر کچل دوں۔ تاکہ یہ روز کا جھگڑا ختم ہو۔ اس کے بعد چاہے تو تم لوگ مجھے بالکل بے یارومددگار چھوڑ دو کہ بنو عبد ِمناف مجھ سے جیسا جی چاہے سلوک کریں اور چاہے تو میری حفاظت کرو‘‘
اس کے ساتھیوں نے کہا:
’’واللہ! ہم تمہیں بے یارومددگار نہ چھوڑیں گے۔ لہٰذا تمہارا جو جی چاہے کر گزرو‘‘
اس تجویز کے مطابق ابوجہل ایک بھاری پتھر لے کر کعبہ میں پہنچا اور مناسب موقع کا انتظار کرنے لگا۔ چنانچہ جب آپؐ سجدہ میں گئے تو ابوجہل پتھر لے کر آپؐ کے قریب پہنچا۔ مگر یکدم خوف زدہ ہو کر پیچھے ہٹنے لگا۔ اس کا رنگ اُڑا ہوا تھا اور وہ پتھر کو بھی مشکل ہی سے نیچے رکھ سکا۔ اس کے ساتھی بڑے متعجب تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ انہوں نے پوچھا:
’’ابوالحکم! یہ کیا ماجرا ہے؟‘‘
وہ کہنے لگا:
’’ جب میں محمد(ﷺ) کی طرف بڑھ رہا تھا تو ایک مہیب شکل کا اونٹ مجھے نظر آیا۔ بخدا میں نے کسی اونٹ کی ایسی ڈرائونی کھوپڑی، گردن اور ایسے ڈرائونے دانت کبھی نہیں دیکھے، وہ اونٹ مجھے نگل جانا چاہتا تھا اور میں نے مشکل سے پیچھے ہٹ کر اپنی جان بچائی تھی‘‘ (۲)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
3۔ عقبہ بن ابی معیط کا ارادہ قتل
عقبہ بن ابی معیط ہر وقت اس تاک میں رہتا تھا کہ آپؐ کا گلا گھونٹ کر آپؐ کا کام تمام کردے اور ایسا موقعہ مشرکین کو اس وقت میسر آتا تھا جب آپؐ کعبہ میں نماز ادا کر رہے ہوں۔ حضرت عروہ بن زبیرؓ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمرو بن عاص سے پوچھا کہ مشرکین مکہ نے رسول اللہﷺ کو جو سخت ایذا پہنچائی وہ کیا تھی؟ تو انہوں نے اپنا چشم دید واقعہ یوں بیان کیا کہ
آپؐ کعبہ میں نماز ادا کر رہے تھے۔ عقبہ بن ابی معیط آیا اور اپنی چادر آپؐ کے گلے میں ڈال کر اسے اس قدر بل دیئے کہ آپؐ کا کلا گھٹنا شروع ہوگیا۔ آنکھیں باہر آئیں ا ور قریب تھا کہ آپؐ کا کام تمام ہوجاتا
کہ اتنے میں حضرت ابوبکرؓ آن پہنچے انہوں نے زور سے عقبہ کو پرے دھکیل کر آپؐ کو چھڑا دیا اور فرمایا:(۳)
’’ اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلاً اَنْ یَّقُوْلَ رَبِّیَ اللّٰہُ وَقَدْ جَائَ کُمْ بِالْبَیِّنٰتِ مِنْ رَّبِّکُمْ ‘‘
’’کیا تم ایک شخص کو محض اس لئے مار ڈالناچاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے، در آنحالے کہ وہ تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف نشانیاں بھی لے کر آیا ہے‘‘(۲۸:۴۰)
اور حضرت اسمائؓ کی روایت میں مزید تفصیل یہ ہے کہ ’’جب عقبہ نے آپؐ کی گردن میں چادر ڈال کر زور سے گھونٹا تو آپؐ کے منہ سے چیخ نکل گئی کہ ’’اپنے ساتھی کو بچائو‘‘ آپؐ کی یہ چیخ سن کر ہی حضرت ابوبکرؓ آپ ؐ کی مدد کے لئے آئے تھے اور جب حضرت ابوبکرؓ نے عقبہ کو دھکیل کر پرے ہٹا دیا
تو مشرکین حضرت ابوبکرؓ پر حملہ آور ہوگئے اور جب حضرت ابوبکرؓ واپس لوٹے تو ان کی اپنی یہ کیفیت تھی کہ ہم ان کی چوٹی کا جو بال بھی چھوتے تھے وہ ہماری چٹکی کے ساتھ چلا آتا تھا۔(۴)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
4۔ حضرت عمرؓ کا ا سلام لانے سے قبل آپؐ کے قتل کاارادہ
ایک دفعہ مشرکین مکہ کعبہ میں بیٹھے پیغمبر اسلامؐ کی لائی ہوئی افتاد سے نجات حاصل کرنے کے سلسلہ میں غوروفکر کر رہے تھے کہ حضرت عمرؐ جوش میں آکر کہنے لگے کہ میں ابھی جاکر یہ جھنجٹ ختم کئے دیتا ہوں۔ چنانچہ ننگی تلوار ہاتھ میں لے کر اس ارادہ سے نکل کھڑے ہوئے۔ راہ میں ایک مسلمان نعیم بن عبداللہ ؓملے، انہوں نے پوچھا:
’’عمر! آج کیا ارادے ہیں؟‘‘
کہنے لگے: تمہارے پیغمبر کا کام تمام کرنے جاتا ہوں‘‘ ۔نعیمؓ کہنے لگے: ’
’پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو، تمہاری بہن اور بہنوئی دونوں مسلمان ہوچکے ہیں‘‘۔
حضرت عمرؓ نے اسی غصہ کی حالت میں ان کے گھر کا رخ کیا۔ دروازہ بند تھا۔ اندر سے قرآن پڑھنے کی آواز آرہی تھی اور حضرت خبابؓ بن ارت انہیں قرآن کی تعلیم دے رہے تھے۔ آپؐ نے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا۔ انہوں نے دروازہ کھولا تو حضرت عمرؓ نے بے تحاشا اپنے بہنوئی کو پیٹنا شروع کردیا۔ ان کی بہن فاطمہ آڑے آگئیں تو اسے بھی مار مار کر لہولہان کردیا۔ فاطمہ کہنے لگیں:
’’عمر! اگر تم ہمیں مار بھی ڈالو تو بھی ہم اسلام کو چھوڑ نہیں سکتے۔‘‘
بہن کی اس بات پر آپ کا دل پسیج گیا۔ کہنے لگے: اچھا مجھے بھی یہ کلام سناؤ۔ قرآن سننے کے بعد آپ کے دل کی دنیا ہی بدل گئی۔ وہاں سے اٹھے اور سیدھے دارِارقم کی طرف چل پڑے۔ گو تلوار بدستور گردن میں حمائل تھی مگر ارادہ بدل چکا تھا۔ دارِارقم پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹایا۔مسلمانوں نے دراڑ سے دیکھا کہ عمر تلوار سنبھالے دروازے پر کھڑے ہیں۔ جس سے مسلمان کچھ سہم گئے۔ حضرت حمزہؓ وہاں موجود تھے۔ کہنے لگے کہ دروازہ کھول دو۔ اگر عمر کسی برے ارادے سے آیا ہے تو اسی کی تلوار سے اس کا سرقلم کردوں گا۔ چنانچہ دروازہ کھول دیا گیا۔ رسول اللہﷺ خود آگے بڑھے اور عمر کا دامن کھینچ کر پوچھا۔
’’عمر! کس ارادہ سے آئے ہو؟‘‘
حضرت عمرؓ نے بڑے ادب سے کہا کہ اسلام (۵)لانے کے لئے حاضر ہوا ہوں۔ چنانچہ سب کے سامنے آپ نے کلمہ پڑھا۔ تو سب مسلمانوں نے نعرہ ٔ تکبیر بلند کیا۔ گویا حضرت عمرؓ کاارادہ قتل ہی آپؐ کے اسلام لانے کا سبب بن گیا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
آپﷺ کے قتل کی اجتماعی کوششیں

5۔ مقاطعہ شعب ِابی طالب
اس مقاطعہ کا تذکرہ سیرت کی کتابوں میں تفصیل سے ملتا ہے۔ جس میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس معاشرتی بائیکاٹ کا اصل محرک ابوجہل تھا اور اس مقاطعہ کی شرائط یہ تھیں کہ بنو ہاشم اور بنو عبد ِمناف سے نہ کوئی لین دین کیا جائے، نہ بول چال رکھی جائے گی اور نہ ہی رشتہ ناطہ کیا جائے گا۔ تاآنکہ یہ لوگ مجبور ہو کر محمد(ﷺ) کو ہمارے حوالہ نہ کردیں۔
یہ یک طرفہ تحریر وادیٔ محصب (۶) میں جمع ہو کر لکھی اور کعبہ کے دروازہ پر آویزاں کردی گئی۔ اب اس حوالگی کا مطلب تو سب جانتے ہیں کہ اس سے مشرکین مکہ کی مراد اسلام اور پیغمبر اسلام سب کو ختم کردینا تھا۔ تین سال کے صبر آزما اور پرمشقت دور کے بعد اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی اس تدبیر کو بھی ناکام بنا دیا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
6۔ قتل کے ارادہ سے ابوطالب سے سودا بازی
جب قریشی سرداروں کو یہ یقین ہوگیا کہ ابوطالب اپنے بھتیجے حضورﷺ کی حمایت سے کسی صورت بھی دستبردار ہونے کو تیار نہیں تو انہوں نے ایک نہایت گھنائونی سازش سے حضرت ابوطالب کو فریب دے کر رسول اللہﷺ کے قتل کی سکیم تیار کی۔ چند قریشی سردار مکہ کے رئیس اعظم ولید بن مغیرہ کے بیٹے عمارہ کو ہمراہ لے کر ابوطالب کے پاس پہنچے اور کہا:
’’یہ قریش کا سب سے بانکا اور خوبصورت نوجوان ہے۔ آپ اسے اپنی کفالت میںلے لیں اور اپنا متبنّیٰ بنالیں۔ اس کی دیت اور نصرت کے آپؐ حقدار ہوں گے اور اس کے عوض آپ اپنے بھیتجے کو ہمارے حوالہ کردیں۔ جو ہمارے آبائو اجداد کے دین کا مخالف اور ان کو احمق قرار دیتا ہے اور قوم کا شیرازہ منتشر کردیا ہے۔ ہم اسے قتل کردینا چاہتے ہیں اور یہ ایک آدمی کے بدلے ایک آدمی کا حساب ہے۔‘‘
ابوطالب کہنے لگے:
’’واللہ! یہ کتنا برا سودا ہے جس کی تم مجھے ترغیب دینے آئے ہو۔ تم چاہتے ہو کہ میں تو تمہارے بیٹے کو کھلاؤں پلاؤں اور پالوں پوسوں اور اس کے عوض تم میرا بیٹا مجھ سے لے کر اسے قتل کردو۔ واللہ! یہ ناممکن ہے۔‘‘
اس پر مطعم بن عدی ابوطالب سے کہنے لگا:
’’بخدا تم سے تمہاری قوم نے انصاف کی بات کہی ہے مگر تم تو کسی بات کو قبول ہی نہیں کرتے‘‘
ابوطالب کہنے لگے:
’’بخدا یہ انصاف کی بات نہیں ہے۔ بلکہ مجھے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ تم بھی میرا ساتھ چھوڑ کر میرے مخالفین سے مل گئے ہو۔ اگر ایسی ہی بات ہے تو ٹھیک ہے جو چاہو کرو‘‘
(۷) ابوطالب کے اس جواب سے مایوس ہو کر قریش کا یہ مجمع منتشر ہو کر چلا گیا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
8۔ وہ مشورہ قتل جو ہجرت کا سبب بنا
اس مجلس مشاورت میں ابلیس خود بھی شامل ہوا تھا اور طے یہ پایا تھا کہ مختلف قبائل کے گیارہ آدمی آپؐ کے گھر کا محاصرہ کریں اور جب آپؐ صبح گھر سے نکلیں تو یکبارگی حملہ کرکے آپؐ کا خاتمہ کردیں۔ اس مشاورت کی اطلاع بھی اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی آپؐ کو دے دی۔ لہٰذا نہایت خفیہ طور پر ہجرت کرکے آپؐ ان کفار و مشرکین مکہ کے شر سے بال بال بچ گئے اور ان لوگوں کا یہ منصوبہ بھی ناکام ہوگیا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
8۔ ہجرت کے بعد گرفتاری یا قتل پر سو اونٹ انعام کی پیشکش
اس بھاری انعام کے لالچ میں لوگ فرداً فرداً بھی اور ٹولیاں بن کر آپؐ کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے۔ ایک ٹولی تو نقوش پا کا سراغ لگاتے لگاتے غارِ ثور کے دہانہ تک بھی پہنچ گئی۔ وہ اس قدر قریب ہوگئے تھے کہ اگر وہ اپنے پاؤں کی طرف دیکھتے تو آپؐ اور حضرت ابوبکرؓ پر نظر پڑ سکتی تھی۔ اس موقعہ پر بھی صبروثبات کے اس پیکر ِاعظم میں ذرہ بھر لغزش نہ آئی ۔انفرادی طور پر تعاقب کرنے والوں میں سراقہ بن مالک کا واقعہ خاص طور پر قابل ذکر ہے جس نے فی الواقع آپؐ کو جالیا تھا۔ مگر قریب پہنچنے سے پیشتر اس کے گھوڑے نے ٹھوکر کھائی۔ پھر دوسری بار اور پھر تیسری بار بھی ٹھوکر کھائی۔ سراقہ سمجھ گئے کہ اس کی خیر اسی میں ہے کہ وہ ان کے قریب نہ جائے۔ رسول اللہﷺ نے مڑ کر جو سراقہ کو دیکھا تو دعا کی : ’’اے اللہ! اسے گرا دے‘‘ چنانچہ اس کا گھوڑا گھٹنوں تک زمین میں دھنس گیا۔(۸)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
9۔ عمیر بن وہب جمہی کا مشورہ قتل، ۲ ہجری
عمیر بھی ان شیاطین میں سے تھا، جو آپؐ کو اذیتیں پہنچانے میں پیش پیش تھے۔ جنگ ِبدر میں اس کا بیٹا وہب گرفتار ہو کر مسلمانوں کی قید میں چلا گیا تو یہ شخص غصے سے بے تاب ہوگیا اور انتقام لینے کا تہیہ کرلیا۔ ایک دن عمیر نے حطیم میں بیٹھ کر صفوان بن امیہ کے کنویں میں پھینکے جانے والے مشرک مقتولین کی افتاد کا ذکر کیا۔ تو صفوان کہنے لگا:
’’ واللہ! اب تو جینے کا کچھ مزہ نہیں‘‘
عمیر کہنے لگا:
’’اگر میرے سر پر قرض نہ ہوتا اور میرے اہل و عیال نہ ہوتے تو میں محمد(ﷺ) کے پاس جاکر اسے قتل کر ڈالتا‘‘
صفوان کہنے لگا:
’’تمہارے قرض کی ادائیگی بھی میرے ذمہ رہی او ربال بچوں کی نگہداشت بھی۔ اگر میرے پا س کچھ کھانے کو ہوتا تو انہیں بھی ضرور ملے گا‘‘
عمیر نے کہا: ’’اچھا! پھر اس بات کو اپنی ذات تک ہی محدود رکھنا‘‘ اور صفوان نے اس کا اقرار کر لیا۔
اب عمیر نے اپنی تلوار کو زہر آلود کرایا اور مدینہ جاکر مسجد ِنبوی میں پہنچ گیا۔ حضرت عمرؓ نے آپؐ کو اطلاع دی کہ اللہ کا دشمن عمیر بن وہب گلے میں تلوار حمائل کئے آیا اور آپؐ سے ملاقات کی اجازت چاہتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اسے آنے دو‘‘
تاہم حضرت عمرؓ نے از راہِ احتیاط ا س کی تلوار کا پرتلا لپیٹ کر پکڑ لیا۔
رسول اللہﷺ نے حضرت عمرؓ سے کہا: ’’اس کی تلوار چھوڑ دو‘‘ پھر عمیر سے پوچھا: ’’بتلاؤ کیسے آنا ہوا؟‘‘ عمیر کہنے لگا:’’میرا بیٹا آپؐ کی قید میں ہے، آپؐ احسان فرما دیجئے‘‘
آپؐ نے فرمایا: ’’اگر یہی بات ہے تو پھر تلوار کیوں حمائل کر رکھی ہے؟‘‘ کہنے لگا: ’’یہ تلواریں پہلے بھلا کس کام آئیں؟‘‘ …آپؐ نے فرمایا: ’’ٹھیک ٹھیک بات بتلاؤ ،ادھر ادھر کی مت ہانکو‘‘
اور پھر جب عمیر نے وہی پہلی بات دہرا دی تو آپؐ نے فرمایا: ’’بات یہ نہیں، بلکہ تم مجھے قتل کرنے کے ارادہ سے آئے ہو۔ تم نے اور صفوان بن امیہ نے حطیم میں بیٹھ کر یہ یہ مشورہ کیا۔ صفوان نے تمہارے قرض اور بال بچوں کی نگہداشت کی ذمہ داری قبول کی اور تم مجھے قتل کرنے یہاں آگئے۔ لیکن یاد رکھو کہ اللہ میرے اور تمہارے درمیان حائل ہے۔‘‘
عمیر کو خیال آیا کہ یہ معاملہ ایسا تھا کہ جس کا صفوان کے علاوہ کسی کو بھی علم نہ تھا، اسے کس نے بتلایا؟ یقینا یہ نبی ہی ہوسکتا ہے۔ ا س خیال کے آتے ہی اس نے آپؐ کے سامنے کلمہ شہادت کا اقرار کیا اور مسلمان ہوگیا۔ آپؐ نے صحابہؓ سے فرمایا:
’’اپنے بھائی کو دین سمجھاؤ، قرآن پڑھاؤ اور ا س کے بیٹے کو آزاد کردو‘‘
ادھر صفوان نے مکہ میں مشہور کر رکھا تھا کہ میں عنقریب تم لوگوں کو ایک خوشخبری سناؤں گا۔ مگر اس کے بجائے جب اسے عمیر کے مسلمان ہونے کی اطلاع ملی تو غصہ سے جل بھن گیا اور اس نے قسم کھالی کہ آئندہ وہ عمیر سے نہ کوئی بات کرے گا، نہ ہی اسے کسی قسم کا نفع پہنچائے گا۔ عمیرؓ اسلام سیکھ کر چند دن مکہ آئے اور یہاں آکر دعوت کا کام شروع کردیا اور ان کے ذریعہ بہت سے لوگ مسلمان ہوئے۔(۹)
 
Top