• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نبی کریم ﷺ کی پیشن گویاں جو من اور عن پوری ہوئیں

شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97
(محمد حسین میمن)
یہ بات ضوء النھار کی طرح روشن ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی مبارک زندگی میں اپنی زبانِ مبارک سے جن جن پیشن گوئیوں کا ذکر فرمایا تھا وہ پیشن گویاں چاہے قرآن مجید میں بیان ہوں یا احادیث صحیحہ میں یقیناً وہ حق اور سچ ثابت ہوئیں۔ کچھ پیشن گویاں جو علامات کبریٰ یعنی قیامت کی بڑی نشانیاں ہیں وہ باقی ہیں ۔ عنقریب جب اللہ تعالیٰ چاہیں گےوہ بھی ثابت ہوں گی۔ عرصہ دراز سے انکار حدیث سے تعلق رکھنے والے ایک اعتراض کو رٹّہ لگاتے نظر آتے ہیں کہ حدیث شریعت میں کوئی مقام نہیں رکھتی، حدیث سے کوئی دینی حکم ثابت نہیں ہوتا، حدیث کسی شرعی حکم کو منسوخ نہیں کر سکتی وغیرہ وغیرہ۔ اور یہی اعتراض آج ہر عام و خاص کی زبان پر الا ماشاء اللہ جاری ہے۔ اہل علم نے کئی طریقوں سے احادیث کا حجت ہونا ثابت کیا ہے مثلاً قرآن مجید کی آیات، آیات کے شان نزول احادیث صحیحہ، آثار صحابہ و تابعین سے، اور الحمدللہ اعتراضات کے دندان شکن جوابات تحریر فرمائے۔ جس سے منکرین حدیث کے دانت کھٹے ہو گئے اور ان کے اعتراضات کو ہمیشہ کی نیند سلا دیا گیا۔ آج کا یہ عنوان ''نبی کریم ﷺ کی پیشن گوئیاں جو من اور عن پوری ہوئیں'' یہ موضوع بھی حدیث کو ثابت کرنے کے لیے ایک بہترین اور علمی موضوع ہے۔ گفتگو سے قبل دو اہم نکتوں کو سمجھ لیجیے تاکہ نتیجہ حاصل کرنے میں کسی قسم کی دشواری لاحق نہ ہو۔
نکتہ نمبر ۱:
عالم الغیب ذات صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ہی ہے ۔ رب العالمین کے علاوہ کوئی بھی غیب کا علم نہیں رکھتا اور جو شخص اس بات کا دعوے دار ہو تو یقیناً اس نے باری تعالیٰ کی صفات کو مخلوق میں تقسیم کر دیا جو شرک ہے اللہ تعالیٰ کے ساتھ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللہُﺚ ﴾ (النمل: ۶۵)
''اے نبی فرما دیجئے ! زمین اور آسمان میں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا ۔''
سورة الاعراف میں ارشاد ہوتا ہے:
﴿ وَلَوْ کُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِﹴ وَمَا مَسَّنِیَ السُّوْ۬ئُﹱ﴾ (الاعراف: ۱۸۸)
''اور اگر میں غیب جانتا تو اپنے لیے بہت سی بھلائیاں جمع کر لیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔''
آیات کریمہ سے واضح ہوا کہ عالم الغیب ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہی ہے ۔ سورة نمل میں مطلق طور پر تمام مخلوقات کی نفی کر دی کہ کوئی ان میں سے غیب کا علم نہیں رکھتا اور سورة الاعراف میں خصوصاً نبی کریم ﷺ سے کہلوایا گیا کہ آپ خود اپنے عالم الغیب ہونے کی نفی فرما دیں۔ اللہ تعالیٰ سورة ھود میں فرماتا ہے:
﴿ تِلْکَ مِنْ اَنْۭبَا۬ئِ الْغَیْبِ نُوْحِیْھَآ اِلَیْکَﺆ مَا کُنْتَ تَعْلَمُھَآ اَنْتَ وَلَا قَوْمُکَ مِنْ قَبْلِ ھٰذَاﹾ ﴾ (ھود: ۴۹)
''یہ غیب کی خبریں ہیں جن کو وحی ہم آپ کے پاس کرتے ہیں انہیں اس سے پہلے نہ آپ جانتے تھے اور نہ ہی آپ کی قوم۔''
مندرجہ بالا آیت میں بھی نبی کریم ﷺ کے عالم الغیب ہونے کی نفی فرما دی گئی ۔ احادیث صحیحہ میں ان واقعات کی ایک لمبی چوڑی فہرست موجود ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ آپ ﷺ عالم الغیب نہ تھے۔
نکتہ نمبر ۲:
قرآن مجید اور احادیث رسول ﷺ میں واضح ممانعت موجود ہے کہ کوئی شخص نجومیوں کے پاس نہ جائے کیوں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو عالم الغیب کا دعویٰ کرتے ہیں، اور جھوٹی جھوٹی خبروں کے ذریعہ عقائد اور معاشرے میں فساد کا باعث بنتے ہیں۔ رسول اللہ نے نجومیوں کے بارے میں ارشاد فرمایا:
''من اتی کاھنا فصدقہ بما یقول فقد برئ مما انزل علی محمد ﷺ''
(ابو داؤد، کتاب الکھانة والتطیر، باب ۲۱، رقم الحدیث ۳۹۰۴، قال الالبانی رحمہ اللہ صحیح)
''جو کوئی کاہن (نجومی) کے پاس آئے اور اس کی تصدیق کرے (جو اس نے کہا) تو یقیناً اس نے براءت کا اعلان کیا جو محمد ﷺ پر نازل کیا گیا (یعنی شریعت)''
اس حدیث سے یہ نتیجہ اخذ ہوگا کہ نجومی کے پاس آنا جانا اس سے تعلق کو ہموار رکھنا اس کے کذب کی تصدیق کرنا یہ سب عین کفر ہے۔ اب یہ جاننا ضروری ہے کہ نجومی جو بھی خبریں بتاتے ہیں وہ خبریں شیاطین کے توسل سے ان تک پہنچتی ہیں، لیکن بتائی گئی خبروں میں سے ۹۹٪ فیصد غلط ثابت ہوتی ہیں۔
اچھا اب ذرا غور فرمائیں! احادیث رسول حجت نہیں ہیں ، وحی صرف قرآن مجید پر ہی محصور ہے اور آپ ﷺ عالم الغیب بھی نہیں ہیں اور آپ ﷺ نجومی بھی نہیں ہیں ۔ تو آپ ﷺ نے جو خبریں ماضی، یا مستقبل کی دیں تو وہ سو میں سے ایک سو ایک فیصد سچ کیسے ہوئیں؟ ذرا سوچیں!
نتیجہ ہم بعد میں اخذ کریں گے ، اس سے قبل ہم چند نظائر آپ کے گوش گزار رکھ دیتے ہیں کہ آپ ﷺ نے جو بھی مستقبل کی پیشن گوئیاں فرمائیں وہ سب حتمی اور قطعیت کے ساتھ سچ ثابت ہوئیں۔
آپ ﷺ کی پیشن گوئی:
''عن عائشة رضی اللہ عنہا قالت: دعا النبی ﷺ فاطمة رضی اللہ عنہا فی شکوٰہ الذی قبض فیہ فسارھا بشیئ فبکت ثم دعاھا فسارّھا بشئ فضحکت ، فسالنا عن ذالک فقالت: سا رّنی النبی ﷺ انہ قبض وجعہ الذی توفی فیہ فبکیت، ثم سارنی فاٴخبرنی انی اول اھلہ یتبعہ فضحکت''
(صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب ۸۳، رقم۴۴۳۳)
''امی عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ، نبی کریم ﷺ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اپنی اس بیماری کے وقت بلایا جس میں آپ ﷺ فوت ہوئے۔ آپ ﷺ نے ان سے کچھ پوشیدہ بات کہی جس کی وجہ سے فاطمہ رونے لگیں۔ پھر آپ ﷺ نے انہیں بلایا اور آپ نے کچھ ان سے کہا تو آپ ہنسنے لگ گئیں۔ ہم نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا ہنسنے اور رونے کی وجہ ، تو فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا نبی کریم ﷺ نے مجھے بتایا کہ آپ اپنے اس مرض میں فوت کیے جائیں گے۔ تو میں رونے لگ گئی۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ مجھے سب سے پہلے میرے اہل بیت میں سےآپ ملیں گی تو میں نے ہنس دیا۔''
نتیجہ:
آپ ﷺ کی یہ پیشن گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی۔ آپ ﷺ کا انتقال ربیع الاول کے مہینے میں ہوا ۔ آپ ﷺ کی وفات کے تقریباً چھ ماہ بعد رمضان المبارک ۱۱ ہجری بمطابق ۶۳۲ عیسوی میں فاطمہ رضی اللہ عنہا انتقال فرماگئیں۔ اور اہل بیت میں آپ پہلی خاتون تھیں جن کا نبی کریم ﷺ کے بعد فوراً انتقال ہوا۔
قابل غور بات یہ ہے کہ آپ ﷺ کے پاس علم غیب نہ تھا اور نہ ہی آپ ﷺ نجومی تھے کے سب کو اپنی طرف سے مستقبل کی خبریں بتا کر مانوس کرتے۔ آپ تو اللہ کے رسول اور خاتم النبیین تھے ، تو آپ کو کس طرح سے معلوم ہوا کہ فاطمہ سب سے پہلے انتقال فرما جائیں گی؟قرآن مجید نے تو برملا اعلان کر دیا کہ موت کب آئے گی یہ صرف اللہ ہی جانتا ہے ۔
﴿ وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُﺚ اِنَّ اللہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌﭱ﴾ (لقمان:۳۴)
دوسری پیشن گوئی:
''عن انس یقول: دخل رسول اللہ ﷺ علی ابنة ملحان فاتّکا عندھا ثم ضحک فقالت لم تضحک یا رسول اللہ؟ فقال: ناس من امتی یرکبون البحر الاخضر فی سبیل اللہ، مثلھم مثل الملوک علی الاسرة فقالت یا رسول اللہ ﷺ ادع اللہ ان یجعلنی منھم فقال اللھم اجعلھا منھم۔''
(صحیح البخاری، کتاب الجھاد والسیر، باب ۵۹، رقم ۲۸۷۷)
''انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ ام حرام بنت ملحان کے گھر تشریف لے گئے، تو آپ ﷺ نے خواب دیکھا جب بیدار ہوئے تو آپ ﷺ مسکرائے ام حرام نے پوچھا کہ آپ ﷺ کیوں مسکرائے؟ تو آپ نے فرمایا کہ میری امت میں سے ایک گروہ مجھ کو دکھایا گیا کہ وہ جہاد کر رہے ہیں، اللہ کے رستے میں گویا کہ وہ تخت نشین بادشاہ ہوں اور وہ سوار ہوں گے سمندر میں ۔ ام حرام رضی اللہ عنہا نے فرمایا اے اللہ کے رسول ﷺ ! آپ میرے واسطے دعا فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے ان میں کر دے ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آپ ان میں سے ہیں۔''
نتیجہ:
رسول اللہ ﷺ نے ام حرام رضی اللہ عنہا کو خبر دی تھی کہ وہ اور آپ کے امت کے کچھ لوگ اللہ کے رستے میں غزوہ کرتے ہوئے سمندر پر سوار ہوں گے۔ چنانچہ جیسا آپ ﷺ نے فرمایا تھا ویسا ہی ہوا۔ ام حرام اپنے خاوند عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے ساتھ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد میں امیر شام سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں جزیرہ قبرص فتح کرنے کے لیے سمندر پر سوار ہوئیں۔ جب سمندر سے باہر نکلیں اور گھوڑا سواری کے لیے پیش کیا گیا تو اس نے گرا دیا جس سے ام حرام وفات پا گئیں اور وہیں دفن کر دی گئیں۔ یاد رہے یہ واقعہ ۲۷ھ /۶۴۷ء کا ہے۔ یہ پہلی خاتون ہیں جن کی وفات مسلمانوں کے سمندری غزوہ میں ہوئی۔
یہاں یہ بھی غور فرمائیں کہ مستقبل کی خبر جو آپ نے ام حرام کو دی اگر قرآن کے علاوہ کہیں بھی وحی کا ثبوت نہیں ہے تو آپ ﷺ کو یہ خبر کس نے دی؟ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آپ ﷺ عالم الغیب تھے؟؟
اگر جواب اثبات میں دے دیا جائے تو شرک لازم آتا ہے۔ اگر نفی میں دے دیا جائے تو یہ مانے بغیر کوئی چارہ باقی نہیں رہتا کہ آپ ﷺ پر قرآن مجید کے علاوہ بھی وحی نازل ہوتی تھی۔ کیوں کہ آپ ﷺ نجومی نہ تھے بلکہ اللہ تعالیٰ کے آخری اور سچے نبی تھے ۔
تیسری پیشن گوئی:
''عن ابی ھریرة رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ ﷺ قال: لا تقوم الساعة حتی تخرج نار من ارض الحجاز تضئ اعناق الابل ببصریٰ''
(صحیح البخاری، کتاب الفتن، رقم الحدیث ۷۱۱۸)
''رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : قیامت قائم ہونے سے پہلے ایک آگ نکلے گی جس سے بصریٰ (شام کا شہر حوران)میں اونٹوں کی گردنیں روشن ہو جائیں گی۔''
نتیجہ:
رسول اللہ ﷺ نے ایک ایسی خبر اپنی امت کو دی جس کا تعلق حوادث کے ساتھ ہے آپ نے یہ خبر اپنی مبارک زندگی میں دیا کہ ایک آگ نکلے گی جس سے بصری میں اونٹوں کی گردنیں روشن ہو جائیں گی۔یہ خبر آپ ﷺ کی وفات کے تقریباً چھ سو سال کے بعد پوری ہوئی ۔یہ نشانی ۶۵۴ھ میں ظاہر ہوئی، جیسا کہ صحیح مسلم کے مشہور شارح امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا ہمارے زمانے میں ۶۵۴ھ میں مدینے کے مشرقی جانب حد کے پیشے سے ایک بہت بڑی آگ روشن ہوئی تھی۔ ملک شام اور دوسرے ملکوں کے لوگوں کو متواتر اس کا علم ہے۔(شرح مسلم للنووی، ج۱۸، ص۲۸)
حافظ ابن کثیر اور ابن حجر رحمہما اللہ اور مفسر قرآن قرطبی رحمہ اللہ نے بھی اس پر اتفاق ظاہر کیا ہے کہ یہ نشانی ۶۵۴ھ میں ظاہر ہو چکی ہے۔
(التذکرہ ، ص۵۲۷، البدایة والنھایة لابن کثیر، ج۱۳، ص۱۱۹)
لہٰذا یہ خبر بھی مستقبل سے تعلق رکھتی تھی جس کی پیشن گوئی آپ ﷺ نے اپنی وفات سے قبل امت کو دی، جو سوا چھ سو سال کے بعد ہو بہو پوری اتری۔
ان پیشن گوئی کے علاوہ کئی اور بھی پیشن گوئیاں ہیں جن سے کتب احادیث کے اوراق مزین ہیں۔ اور آپ ﷺ کی تمام پیشن گوئیاں من اور عن ثابت ہوئیں ہیں۔
محترم قارئین! اب نتیجہ یہ نکلا کہ آپ ﷺ عالم الغیب نہیں اور نہ ہی نجومی تھے، بلکہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری اور سچے پیغمبر تھے۔ بقول منکرین حدیث کہ وحی صرف قرآن مجید ہی تک محدود ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے جتنی پیشن گوئیاں فرمائی ہیں اگر وہ وحی الہٰی پر مبنی نہ تھیں تو غیب کی خبریں آپ ﷺ کو کن ذرائع سے معلوم ہوئیں؟ کس نے آپ ﷺ کو مستقبل کی خبریں اور حوادث سے آگاہی فراہم کی؟ جو کہ تمام خبریں حق اور سچ ثابت ہوئیں۔
لا محالہ یہ تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ قرآن کے علاوہ بھی وحی کا تصور موجود ہے جس کو ہم احادیث یا سنت رسول ﷺ کہتے ہیں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
محمد حسین میمن

یہ بات ضوء النھار کی طرح روشن ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی مبارک زندگی میں اپنی زبانِ مبارک سے جن جن پیشن گوئیوں کا ذکر فرمایا تھا وہ پیشن گویاں چاہے قرآن مجید میں بیان ہوں یا احادیث صحیحہ میں یقیناً وہ حق اور سچ ثابت ہوئیں۔ کچھ پیشن گویاں جو علامات کبریٰ یعنی قیامت کی بڑی نشانیاں ہیں وہ باقی ہیں ۔ عنقریب جب اللہ تعالیٰ چاہیں گےوہ بھی ثابت ہوں گی۔ عرصہ دراز سے انکار حدیث سے تعلق رکھنے والے ایک اعتراض کو رٹّہ لگاتے نظر آتے ہیں کہ حدیث شریعت میں کوئی مقام نہیں رکھتی، حدیث سے کوئی دینی حکم ثابت نہیں ہوتا، حدیث کسی شرعی حکم کو منسوخ نہیں کر سکتی وغیرہ وغیرہ۔ اور یہی اعتراض آج ہر عام و خاص کی زبان پر الا ماشاء اللہ جاری ہے۔ اہل علم نے کئی طریقوں سے احادیث کا حجت ہونا ثابت کیا ہے مثلاً قرآن مجید کی آیات، آیات کے شان نزول احادیث صحیحہ، آثار صحابہ و تابعین سے، اور الحمدللہ اعتراضات کے دندان شکن جوابات تحریر فرمائے۔ جس سے منکرین حدیث کے دانت کھٹے ہو گئے اور ان کے اعتراضات کو ہمیشہ کی نیند سلا دیا گیا۔ آج کا یہ عنوان ''نبی کریم ﷺ کی پیشن گوئیاں جو من اور عن پوری ہوئیں'' یہ موضوع بھی حدیث کو ثابت کرنے کے لیے ایک بہترین اور علمی موضوع ہے۔ گفتگو سے قبل دو اہم نکتوں کو سمجھ لیجیے تاکہ نتیجہ حاصل کرنے میں کسی قسم کی دشواری لاحق نہ ہو۔

نکتہ نمبر ۱:
عالم الغیب ذات صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ہی ہے ۔ رب العالمین کے علاوہ کوئی بھی غیب کا علم نہیں رکھتا اور جو شخص اس بات کا دعوے دار ہو تو یقیناً اس نے باری تعالیٰ کی صفات کو مخلوق میں تقسیم کر دیا جو شرک ہے اللہ تعالیٰ کے ساتھ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللہُﺚ ﴾ (النمل: ۶۵)
''اے نبی فرما دیجئے ! زمین اور آسمان میں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا ۔''
سورة الاعراف میں ارشاد ہوتا ہے:
﴿ وَلَوْ کُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِﹴ وَمَا مَسَّنِیَ السُّوْ۬ئُﹱ﴾ (الاعراف: ۱۸۸)
''اور اگر میں غیب جانتا تو اپنے لیے بہت سی بھلائیاں جمع کر لیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔''
آیات کریمہ سے واضح ہوا کہ عالم الغیب ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہی ہے ۔ سورة نمل میں مطلق طور پر تمام مخلوقات کی نفی کر دی کہ کوئی ان میں سے غیب کا علم نہیں رکھتا اور سورة الاعراف میں خصوصاً نبی کریم ﷺ سے کہلوایا گیا کہ آپ خود اپنے عالم الغیب ہونے کی نفی فرما دیں۔ اللہ تعالیٰ سورة ھود میں فرماتا ہے:
﴿ تِلْکَ مِنْ اَنْۭبَا۬ئِ الْغَیْبِ نُوْحِیْھَآ اِلَیْکَﺆ مَا کُنْتَ تَعْلَمُھَآ اَنْتَ وَلَا قَوْمُکَ مِنْ قَبْلِ ھٰذَاﹾ ﴾ (ھود: ۴۹)
''یہ غیب کی خبریں ہیں جن کو وحی ہم آپ کے پاس کرتے ہیں انہیں اس سے پہلے نہ آپ جانتے تھے اور نہ ہی آپ کی قوم۔''
مندرجہ بالا آیت میں بھی نبی کریم ﷺ کے عالم الغیب ہونے کی نفی فرما دی گئی ۔ احادیث صحیحہ میں ان واقعات کی ایک لمبی چوڑی فہرست موجود ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ آپ ﷺ عالم الغیب نہ تھے۔

نکتہ نمبر ۲:
قرآن مجید اور احادیث رسول ﷺ میں واضح ممانعت موجود ہے کہ کوئی شخص نجومیوں کے پاس نہ جائے کیوں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو عالم الغیب کا دعویٰ کرتے ہیں، اور جھوٹی جھوٹی خبروں کے ذریعہ عقائد اور معاشرے میں فساد کا باعث بنتے ہیں۔ رسول اللہ نے نجومیوں کے بارے میں ارشاد فرمایا:
''من اتی کاھنا فصدقہ بما یقول فقد برئ مما انزل علی محمد ﷺ''(ابو داؤد، کتاب الکھانة والتطیر، باب ۲۱، رقم الحدیث ۳۹۰۴، قال الالبانی رحمہ اللہ صحیح)
''جو کوئی کاہن (نجومی) کے پاس آئے اور اس کی تصدیق کرے (جو اس نے کہا) تو یقیناً اس نے براءت کا اعلان کیا جو محمد ﷺ پر نازل کیا گیا (یعنی شریعت)''
اس حدیث سے یہ نتیجہ اخذ ہوگا کہ نجومی کے پاس آنا جانا اس سے تعلق کو ہموار رکھنا اس کے کذب کی تصدیق کرنا یہ سب عین کفر ہے۔ اب یہ جاننا ضروری ہے کہ نجومی جو بھی خبریں بتاتے ہیں وہ خبریں شیاطین کے توسل سے ان تک پہنچتی ہیں، لیکن بتائی گئی خبروں میں سے ۹۹٪ فیصد غلط ثابت ہوتی ہیں۔
اچھا اب ذرا غور فرمائیں! احادیث رسول حجت نہیں ہیں ، وحی صرف قرآن مجید پر ہی محصور ہے اور آپ ﷺ عالم الغیب بھی نہیں ہیں اور آپ ﷺ نجومی بھی نہیں ہیں ۔ تو آپ ﷺ نے جو خبریں ماضی، یا مستقبل کی دیں تو وہ سو میں سے ایک سو ایک فیصد سچ کیسے ہوئیں؟ ذرا سوچیں!
نتیجہ ہم بعد میں اخذ کریں گے ، اس سے قبل ہم چند نظائر آپ کے گوش گزار رکھ دیتے ہیں کہ آپ ﷺ نے جو بھی مستقبل کی پیشن گوئیاں فرمائیں وہ سب حتمی اور قطعیت کے ساتھ سچ ثابت ہوئیں۔

آپ ﷺ کی پیشن گوئی:
''عن عائشة رضی اللہ عنہا قالت: دعا النبی ﷺ فاطمة رضی اللہ عنہا فی شکوٰہ الذی قبض فیہ فسارھا بشیئ فبکت ثم دعاھا فسارّھا بشئ فضحکت ، فسالنا عن ذالک فقالت: سا رّنی النبی ﷺ انہ قبض وجعہ الذی توفی فیہ فبکیت، ثم سارنی فاٴخبرنی انی اول اھلہ یتبعہ فضحکت''(صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب ۸۳، رقم۴۴۳۳)
''امی عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ، نبی کریم ﷺ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اپنی اس بیماری کے وقت بلایا جس میں آپ ﷺ فوت ہوئے۔ آپ ﷺ نے ان سے کچھ پوشیدہ بات کہی جس کی وجہ سے فاطمہ رونے لگیں۔ پھر آپ ﷺ نے انہیں بلایا اور آپ نے کچھ ان سے کہا تو آپ ہنسنے لگ گئیں۔ ہم نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا ہنسنے اور رونے کی وجہ ، تو فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا نبی کریم ﷺ نے مجھے بتایا کہ آپ اپنے اس مرض میں فوت کیے جائیں گے۔ تو میں رونے لگ گئی۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ مجھے سب سے پہلے میرے اہل بیت میں سےآپ ملیں گی تو میں نے ہنس دیا۔''
نتیجہ:
آپ ﷺ کی یہ پیشن گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی۔ آپ ﷺ کا انتقال ربیع الاول کے مہینے میں ہوا ۔ آپ ﷺ کی وفات کے تقریباً چھ ماہ بعد رمضان المبارک ۱۱ ہجری بمطابق ۶۳۲ عیسوی میں فاطمہ رضی اللہ عنہا انتقال فرماگئیں۔ اور اہل بیت میں آپ پہلی خاتون تھیں جن کا نبی کریم ﷺ کے بعد فوراً انتقال ہوا۔
قابل غور بات یہ ہے کہ آپ ﷺ کے پاس علم غیب نہ تھا اور نہ ہی آپ ﷺ نجومی تھے کے سب کو اپنی طرف سے مستقبل کی خبریں بتا کر مانوس کرتے۔ آپ تو اللہ کے رسول اور خاتم النبیین تھے ، تو آپ کو کس طرح سے معلوم ہوا کہ فاطمہ سب سے پہلے انتقال فرما جائیں گی؟قرآن مجید نے تو برملا اعلان کر دیا کہ موت کب آئے گی یہ صرف اللہ ہی جانتا ہے ۔
﴿ وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُﺚ اِنَّ اللہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌﭱ﴾ (لقمان:۳۴)

دوسری پیشن گوئی:
''عن انس یقول: دخل رسول اللہ ﷺ علی ابنة ملحان فاتّکا عندھا ثم ضحک فقالت لم تضحک یا رسول اللہ؟ فقال: ناس من امتی یرکبون البحر الاخضر فی سبیل اللہ، مثلھم مثل الملوک علی الاسرة فقالت یا رسول اللہ ﷺ ادع اللہ ان یجعلنی منھم فقال اللھم اجعلھا منھم۔''(صحیح البخاری، کتاب الجھاد والسیر، باب ۵۹، رقم ۲۸۷۷)
''انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ ام حرام بنت ملحان کے گھر تشریف لے گئے، تو آپ ﷺ نے خواب دیکھا جب بیدار ہوئے تو آپ ﷺ مسکرائے ام حرام نے پوچھا کہ آپ ﷺ کیوں مسکرائے؟ تو آپ نے فرمایا کہ میری امت میں سے ایک گروہ مجھ کو دکھایا گیا کہ وہ جہاد کر رہے ہیں، اللہ کے رستے میں گویا کہ وہ تخت نشین بادشاہ ہوں اور وہ سوار ہوں گے سمندر میں ۔ ام حرام رضی اللہ عنہا نے فرمایا اے اللہ کے رسول ﷺ ! آپ میرے واسطے دعا فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے ان میں کر دے ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آپ ان میں سے ہیں۔''
نتیجہ:
رسول اللہ ﷺ نے ام حرام رضی اللہ عنہا کو خبر دی تھی کہ وہ اور آپ کے امت کے کچھ لوگ اللہ کے رستے میں غزوہ کرتے ہوئے سمندر پر سوار ہوں گے۔ چنانچہ جیسا آپ ﷺ نے فرمایا تھا ویسا ہی ہوا۔ ام حرام اپنے خاوند عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے ساتھ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد میں امیر شام سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں جزیرہ قبرص فتح کرنے کے لیے سمندر پر سوار ہوئیں۔ جب سمندر سے باہر نکلیں اور گھوڑا سواری کے لیے پیش کیا گیا تو اس نے گرا دیا جس سے ام حرام وفات پا گئیں اور وہیں دفن کر دی گئیں۔ یاد رہے یہ واقعہ ۲۷ھ /۶۴۷ء کا ہے۔ یہ پہلی خاتون ہیں جن کی وفات مسلمانوں کے سمندری غزوہ میں ہوئی۔
یہاں یہ بھی غور فرمائیں کہ مستقبل کی خبر جو آپ نے ام حرام کو دی اگر قرآن کے علاوہ کہیں بھی وحی کا ثبوت نہیں ہے تو آپ ﷺ کو یہ خبر کس نے دی؟ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آپ ﷺ عالم الغیب تھے؟؟
اگر جواب اثبات میں دے دیا جائے تو شرک لازم آتا ہے۔ اگر نفی میں دے دیا جائے تو یہ مانے بغیر کوئی چارہ باقی نہیں رہتا کہ آپ ﷺ پر قرآن مجید کے علاوہ بھی وحی نازل ہوتی تھی۔ کیوں کہ آپ ﷺ نجومی نہ تھے بلکہ اللہ تعالیٰ کے آخری اور سچے نبی تھے ۔

تیسری پیشن گوئی:
''عن ابی ھریرة رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ ﷺ قال: لا تقوم الساعة حتی تخرج نار من ارض الحجاز تضئ اعناق الابل ببصریٰ''(صحیح البخاری، کتاب الفتن، رقم الحدیث ۷۱۱۸)
''رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : قیامت قائم ہونے سے پہلے ایک آگ نکلے گی جس سے بصریٰ (شام کا شہر حوران)میں اونٹوں کی گردنیں روشن ہو جائیں گی۔''
نتیجہ:
رسول اللہ ﷺ نے ایک ایسی خبر اپنی امت کو دی جس کا تعلق حوادث کے ساتھ ہے آپ نے یہ خبر اپنی مبارک زندگی میں دیا کہ ایک آگ نکلے گی جس سے بصری میں اونٹوں کی گردنیں روشن ہو جائیں گی۔یہ خبر آپ ﷺ کی وفات کے تقریباً چھ سو سال کے بعد پوری ہوئی ۔یہ نشانی ۶۵۴ھ میں ظاہر ہوئی، جیسا کہ صحیح مسلم کے مشہور شارح امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا ہمارے زمانے میں ۶۵۴ھ میں مدینے کے مشرقی جانب حد کے پیشے سے ایک بہت بڑی آگ روشن ہوئی تھی۔ ملک شام اور دوسرے ملکوں کے لوگوں کو متواتر اس کا علم ہے۔(شرح مسلم للنووی، ج۱۸، ص۲۸)
حافظ ابن کثیر اور ابن حجر رحمہما اللہ اور مفسر قرآن قرطبی رحمہ اللہ نے بھی اس پر اتفاق ظاہر کیا ہے کہ یہ نشانی ۶۵۴ھ میں ظاہر ہو چکی ہے۔(التذکرہ ، ص۵۲۷، البدایة والنھایة لابن کثیر، ج۱۳، ص۱۱۹)
لہٰذا یہ خبر بھی مستقبل سے تعلق رکھتی تھی جس کی پیشن گوئی آپ ﷺ نے اپنی وفات سے قبل امت کو دی، جو سوا چھ سو سال کے بعد ہو بہو پوری اتری۔
ان پیشن گوئی کے علاوہ کئی اور بھی پیشن گوئیاں ہیں جن سے کتب احادیث کے اوراق مزین ہیں۔ اور آپ ﷺ کی تمام پیشن گوئیاں من اور عن ثابت ہوئیں ہیں۔
محترم قارئین! اب نتیجہ یہ نکلا کہ آپ ﷺ عالم الغیب نہیں اور نہ ہی نجومی تھے، بلکہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری اور سچے پیغمبر تھے۔ بقول منکرین حدیث کہ وحی صرف قرآن مجید ہی تک محدود ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے جتنی پیشن گوئیاں فرمائی ہیں اگر وہ وحی الہٰی پر مبنی نہ تھیں تو غیب کی خبریں آپ ﷺ کو کن ذرائع سے معلوم ہوئیں؟ کس نے آپ ﷺ کو مستقبل کی خبریں اور حوادث سے آگاہی فراہم کی؟ جو کہ تمام خبریں حق اور سچ ثابت ہوئیں۔
لا محالہ یہ تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ قرآن کے علاوہ بھی وحی کا تصور موجود ہے جس کو ہم احادیث یا سنت رسول ﷺ کہتے ہیں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
بھائی جزاک اللہ خیراً ابھی سیکھ رہی ہوں مجھے اس فورم کا استعمال نہیں آتا اب کر دوں گی ،اور خیال رکھوں گی
ان شاءاللہ
کوئی مسئلہ نہیں، کوئی چیز سمجھ نہ آئے تومجھے کلیم بھائی یا شاکر بھائی کو بتائیے گا۔
 
Top