• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نذر اور اسکی قسمیں

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
بسم اللہ الرحمن الرحیم​

نذر اور اسکی قسمیں


حدیث شریف:عن عائشة رضي الله عنها قالت : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‘‘ من نذر أن يطيع الله فليطعه ومن نذر أن يعصيه فلا يعصه ’’

( صحيح البخاري :6696 ، الإيمان – سنن أبوداؤد :3289 ، الإيمان – سنن الترمذي :1526 ، النذر والإيمان )

ترجمہ :جو شخص اس بات کی نذر مانے کہ وہ اللہ تعالٰی کی اطاعت کرے گا تو اُسے اللہ تعالٰی کی اطاعت کرنی چاہئے [اپنی نذر پوری کرنی چاہئے ] اور جو شخص نذر مانے کہ وہ اللہ تعالٰی کی نافرمانی کرے گا تو وہ اللہ تعالٰی کی نافرمانی نہ کرے ۔{ صحیح بخاری ، سنن ابو داود }

تشریح : اپنے آپ پر کسی چیز کو واجب کرلینے کا نام نذر ماننا یا منّت ماننا ہے ۔

نذر کی قِسمیں:

(1) یہ نذر کبھی مطلق ہوتی ہے جیسے میں یہ نذر مانتا ہوں کہ روزانہ پچاس رکعت نفل پڑھوں گا یا میں اللہ تعالٰی سے یہ عہد کرتا ہوں کہ ہر ماہ دس دن کا روزہ رکھوں گا ، شرعی طور پر ایسی نذر ماننا پسندیدہ اگرچہ نہیں ہے لیکن اگر نذر مان لٰی گئی تو اس کا پورا کرنا فرض و واجب ہے یہ نذر ناپسندیدہ اس لئے ہے کہ بندے نے اپنے اوپر ایک ایسی چیز کو واجب کرلیا جو اس پر شرعی طور پر واجب نہیں تھی اور بہت ممکن ہے کہ اس کی ادائیگی سے عاجز آجائے ،

(2) نذر کی دوسری صورت یہ ہے کہ کبھی کسی سبب کے ساتھ معلق کی جاتی ہے ، جیسے اگر میرا بچہ شفایاب ہوگیا تو اللہ کے لئے ایک بکرہ ذبح کروں گا ، یہ نذر پہلی صورت سے بھی زیادہ ناپسندیدہ ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا : " نذر نہ مانو اس لئے کہ نذر تقدیر سے کسی چیز کو دور نہیں کرتی ، سوا اسکے کہ نذر کی وجہ سے بخیل کچھ مال خرچ کردیتا ہے " ۔ {بخاری ومسلم }

یعنی گویا یہ شخص اللہ کی راہ میں اسی وقت خرچ کرے گا جب اس کا کسی قسم کا فائدہ ہوگا اوراگر اس کا کوئی فائدہ نہ ہوا تو اللہ تعالی کے راستے پر خرچ نہ کرے گا ، البتہ اس کا بھی پورا کرنا ضروری اور واجب ہے ۔

(3) نذر کی ایک تیسری صورت وہ ہوتی ہے جس میں بندہ اللہ تعالٰی کی نافرمانی کی نذر مانتا ہے ، جیسے کوئی یہ کہے :میرا یہ کام ہوجائے تو فلاں مزار پر چراغ جلاوں گا یا چادر چڑھاؤں گا ، یا کسی سے ناراض ہوکر اس سے بات نہ کرنے کی نذر مان لے ، اس نذر کا حکم یہ ہے اس کا پورا کرنا جائز نہیں ہے بلکہ بسا اوقات اس نذر کا پورا کرنا کفر وشرک تک پہنچا دیتا ہے ، البتہ اس نذر کو توڑنے کی وجہ سے اس پر قسم کا کفارہ واجب ہوگا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ‘‘ کسی گناہ کے کام کی نذر نہیں ہے اور اس کا کفارہ ،قسم کا کفارہ ہے ’’{سنن ابو داود ، الترمذی }

یعنی اگر کوئی شخص کسی گناہ کے کام کی نذر مانتا ہے تو اس پر واجب ہے کہ اس نذر کو پورا نہ کرے بلکہ اسے توڑ دے اور قسم کا کفارہ ادا کرے ،

قسم کا کفارہ :کفارہ یہ ہے ایک غلام آزاد کرنا ، یا(10) دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا (10)دس مسکینوں کو کپڑا پہنانا ، اور اگر ان تینوں کاموں سے کوئی ایک کام بھی نہ کرسکے تو (3)تین دین کا روزہ رکھنا ۔

زیر بحث حدیث میں نذر کی انہیں صورتوں کا حکم بیان ہوا ہے البتہ نذر کی بعض اور قسمیں بھی ہیں جیسے :

جائز نذر : اس کی صورت یہ ہے کہ بندہ کسی جائز کام کرنے کی نذر مانے جیسے کسی کپڑے کے پہننے کی یا کسی کپڑے کے نہ پہننے کی ، کسی خاص سواری پر سوار ہونے کی یا اس پر سوار نہ ہونے کی نذر مانے اس نذر کا حکم یہ ہے کہ نذر ماننے والے کو اسے پورا کرنے یا پورا نہ کرنے کا اختیار ہے ، البتہ اگر اسے پورا نہ کیا گیا تو اس کا کفارہ ادا کرنا ہوگا ۔

مکروہ نذر : نذر کی ایک قسم یہ ہے کہ کسی مکروہ اور شرعا ًناپسندیدہ عمل کی نذر مانی جائے، جیسے بغیر کسی شرعی وجہ کے طلاق کی نذر ماننا ، پیاز و لہسن کھا کر مسجد جانے کی قسم کھانا وغیرہ ۔ اس کے بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ اس نذر کا پورا کرنا بہتر نہیں ہے۔ بلکہ مستحب یہ ہے کہ اس کاکفارہ ادا کیا جائے ۔

غصے اور جھگڑے کی نذر: اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ بندہ اپنے کو یا کسی اور شخص کو کسی کام سے روکنے یا کسی کام کے کرنے کے لئے نذر مانے جیسے یہ کہے کہ اگر میں نے ایسا کیا تو دو مہینے کا روزہ رکھوں گا یا ایک بکری ذبح کرکے لوگوں کی دعوت کروں گا ۔ اس کا حکم یہ ہے کہ اس نذر کا پورا کرنا واجب نہیں ہے ، چاہے تو پوار کرے یا قسم کا کفارہ اداکرے ،البتہ بہتر یہی ہے کہ اگر کسی عبادت کے کام کی نذر مانی ہے تو اسے پورا کرے اور اگر کسی عادت کے کام کی نذر مانی ہے تو اسے پوراکرنا یا کفارہ دینا دونوں برابر ہے ۔

جس چیز کا مالک نہ ہو اس کی منت ماننا : اس کی صورت یہ ہے کہ بندہ کسی ایسی چیز کے صدقہ وخیرات کی قسم کھائے جس کا وہ مالک نہیں ہے ، اس نذر کا حکم ہے کہ اس کا پورا کرنا مشروع نہیں ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

‘‘ اس نذر کو پورا کرنا جائز نہیں جس میں گناہ ہو اور اس نذر کو بھی پورا کرنا نہیں ہے جس کا آدمی مالک نہیں ہے ’’{ سنن ابو داود بروایت عمران } اس پر کفارہ ہے کہ نہیں اس بارے میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے احتیاط اسی میں ہے کہ اس کفارہ ادا کیا جائے ۔

شُکرانے کی نذر : اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ کسی بندے کو مصیبت سے نجات مل گئی ، اسے اولاد کی دولت نصیب ہوئی یا کسی خطرناک بیماری سے شفا مل گئی تو بطور شکریہ کے نذر مانے کہ میں نیکی کا یہ کام کروں گا ، اس کا حکم یہ ہے کہ اسے پورا کرنا کارِ ثواب اور یہ ایک نیک عمل ہے ، اللہ تعالٰی اپنے نیک بندوں کی تعریف فرماتا ہے: "يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَيَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيرًا" " جو نذریں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی برائی چاروں طرف پھیل جانے والی ہے " {الإنسان:7}

** خلاصہء درسِ حدیث نمبر:113 بتاریخ : 22/23/ ربیع الاول 1431 ھ، م 09/08 مارچ 2010

فضیلۃ الشیخ /ا بوکلیم مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ

الغاط، سعودی عرب

Source: www.Momeen.blogspot.com
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
بہت زبردست اور معلوماتی مضمون ہے، جس سے نذر کے متعلق میرے کئی نظریات کی اصلاح ہوئی۔ مقصود الحسن فیضی﷾ کو یہ قیمتی تحریر لکھنے پر اور عامر بھائی کو شیئر کرنے پر اللہ جزائے خیر عطا فرمائیں!
اللهم انفعنا بما علمتنا وعلمنا ما ينفعنا وزدنا علما
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
(2) نذر کی دوسری صورت یہ ہے کہ کبھی کسی سبب کے ساتھ معلق کی جاتی ہے ، جیسے اگر میرا بچہ شفایاب ہوگیا تو اللہ کے لئے ایک بکرہ ذبح کروں گا ، یہ نذر پہلی صورت سے بھی زیادہ ناپسندیدہ ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا : " نذر نہ مانو اس لئے کہ نذر تقدیر سے کسی چیز کو دور نہیں کرتی ، سوا اسکے کہ نذر کی وجہ سے بخیل کچھ مال خرچ کردیتا ہے " ۔ {بخاری ومسلم }

اگرکسی کے لئے ممکن ہو تو اس قسم کی نذرکی مزید وضاحت کی جائے اور مذکورہ بالا حدیث کو مکمل طور پر یہاں پیش کیا جائے، بخاری شریف سے بھی اور مسلم شریف سے بھی۔ پیشگی شکریہ
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
Bukhari:
Narrated Ibn 'Umar: The Prophet forbade vowing and said, "In fact, vowing does not prevent anything, but it makes a miser to spend his property." (Bukhari: Book #77, Hadith #605)

Narrated Abu Huraira: The Prophet said (that Allah said), "vowing does not bring to the son of Adam anything I have not already written in his fate, but vowing is imposed on him by way of fore ordainment. Through vowing I make a miser spend of his wealth." (Bukhari: Book #77, Hadith #606)

Narrated Sa'id bin Al-Harith: that he heard Ibn 'Umar saying, "Weren't people forbidden to make vows?" The Prophet said, 'A vow neither hastens nor delays anything, but by the making of vows, some of the wealth of a miser is taken out." (Bukhari: Book #78, Hadith #683)

Narrated 'Abdullah bin 'Umar: The Prophet forbade the making of vows and said, "It (a vow) does not prevent anything (that has to take place), but the property of a miser is spent (taken out) with it." (Bukhari: Book #78, Hadith #684)

Muslim:
Abdullah b. Umar reported: Allah's Messenger (may peace he upon him) singled out one day forbidding us to take vows and said: It would not avert anything; it is by which something is extracted from the miserly person. (Book #014, Hadith #4019)

Ibn Umar reported Allah's Apostle (may peace be upon him) as saying: The vow neither hastens anything nor defers anything, but is the means whereby (something) is extracted from the miserly person. (Book #014, Hadith #4020)

Ibn Umar reported that Allah's Apostle (may peace be upon him) forbade (people) taking vows, and said: It does not (necessarily) bring good (in the form of substantial, and tangible results), but it is the meant whereby something is extracted from the miserly persons. (Book #014, Hadith #4021)

Abu Heraira reported Allah's Messenger (may peace be upon him) as saying: Do not take vows, for a vow has no effect against Fate; it is only from the miserly that something is extracted. (Book #014, Hadith #4023)

Abu Huraira reported Allah's Messenger (may peace be upon him) forbidding taking of vows, and said: It does not avert Fate, but is the means by which something is extracted from the miser. (Book #014, Hadith #4024)

Abu Huraira reported Allah's Apostle (may peace be upon him) as saying: The vow does not bring anything near to the son of Adam which Allah has not ordained for him, but (at times) the vow coincides with Destiny, and this is how something is extracted from the miserly person, which that miser was not willing to give. (Book #014, Hadith #4025)

 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
(×) نذر کی ایک صورت یہ ہے کہ کبھی کسی سبب کے ساتھ معلق کی جاتی ہے ، جیسے اگر میرا بچہ شفایاب ہوگیا تو اللہ کے لئے ایک بکرہ ذبح کروں گا ، یہ نذر پہلی صورت سے بھی زیادہ ناپسندیدہ ہے ۔۔۔ یعنی گویا یہ شخص اللہ کی راہ میں اسی وقت خرچ کرے گا جب اس کا کسی قسم کا فائدہ ہوگا اوراگر اس کا کوئی فائدہ نہ ہوا تو اللہ تعالی کے راستے پر خرچ نہ کرے گا ، البتہ اس کا بھی پورا کرنا ضروری اور واجب ہے ۔

(×) شُکرانے کی نذر : اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ کسی بندے کو مصیبت سے نجات مل گئی ، اسے اولاد کی دولت نصیب ہوئی یا کسی خطرناک بیماری سے شفا مل گئی تو بطور شکریہ کے نذر مانے کہ میں نیکی کا یہ کام کروں گا ، اس کا حکم یہ ہے کہ اسے پورا کرنا کارِ ثواب اور یہ ایک نیک عمل ہے ، اللہ تعالٰی اپنے نیک بندوں کی تعریف فرماتا ہے: "يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَيَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيرًا" " جو نذریں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی برائی چاروں طرف پھیل جانے والی ہے " {الإنسان:7}

اصحاب علم سے درخواست ہے کہ مذکورہ بالا دونوں "اقسام کی نذر" کی وضاحت کریں۔ دوسری قسم میں بظاہر تو کوئی "نذر" والی بات ہی نہیں ہے۔ یہ تو سیدھا سادہ "شکرانہ" ہے۔ اللہ نے کچھ عطا کیا یا کسی مشکل بیماری سے نجات دی تو صدقہ خیرات کر دیا۔ جبکہ "پہلی قسم" ہی "نذر ماننا" نظر آتی ہے کہ اے اللہ اگر مجھے یہ مل گیا، میرا یہ کام ہوگیا، مجھے اس مشکل سے نجات مل گئی تو اللہ کی راہ میں یہ کروں گا۔ وغیرہ وغیرہ۔ دوسری صورت مین یعنی کام ہونے کے بعد "نذر ماننا" کی تو "ضرورت" ہی نہیں ہے۔ بس اللہ کا شکر ادا کریں اور جو چاہیں اللہ کی راہ مین خرچ کریں ۔

متذکرہ بالا احادیث کہتی ہیں کہ نذر نہ مانو، کہ نذر سے تقدیر نہیں بدلتی اور قرآن کہتا ہے کہ اپنی نذروں کو پورا کرو۔ ان دونوں نہی و امر کی عام فہم زبان میں وضاحت مطلوب ہے۔ پیشگی شکریہ
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
(×) نذر کی ایک صورت یہ ہے کہ کبھی کسی سبب کے ساتھ معلق کی جاتی ہے ، جیسے اگر میرا بچہ شفایاب ہوگیا تو اللہ کے لئے ایک بکرہ ذبح کروں گا ، یہ نذر پہلی صورت سے بھی زیادہ ناپسندیدہ ہے ۔۔۔ یعنی گویا یہ شخص اللہ کی راہ میں اسی وقت خرچ کرے گا جب اس کا کسی قسم کا فائدہ ہوگا اوراگر اس کا کوئی فائدہ نہ ہوا تو اللہ تعالی کے راستے پر خرچ نہ کرے گا ، البتہ اس کا بھی پورا کرنا ضروری اور واجب ہے ۔

(×) شُکرانے کی نذر : اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ کسی بندے کو مصیبت سے نجات مل گئی ، اسے اولاد کی دولت نصیب ہوئی یا کسی خطرناک بیماری سے شفا مل گئی تو بطور شکریہ کے نذر مانے کہ میں نیکی کا یہ کام کروں گا ، اس کا حکم یہ ہے کہ اسے پورا کرنا کارِ ثواب اور یہ ایک نیک عمل ہے ، اللہ تعالٰی اپنے نیک بندوں کی تعریف فرماتا ہے: "يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَيَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيرًا" " جو نذریں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی برائی چاروں طرف پھیل جانے والی ہے " {الإنسان:7}

اصحاب علم سے درخواست ہے کہ مذکورہ بالا دونوں "اقسام کی نذر" کی وضاحت کریں۔ دوسری قسم میں بظاہر تو کوئی "نذر" والی بات ہی نہیں ہے۔ یہ تو سیدھا سادہ "شکرانہ" ہے۔ اللہ نے کچھ عطا کیا یا کسی مشکل بیماری سے نجات دی تو صدقہ خیرات کر دیا۔ جبکہ "پہلی قسم" ہی "نذر ماننا" نظر آتی ہے کہ اے اللہ اگر مجھے یہ مل گیا، میرا یہ کام ہوگیا، مجھے اس مشکل سے نجات مل گئی تو اللہ کی راہ میں یہ کروں گا۔ وغیرہ وغیرہ۔ دوسری صورت میں یعنی کام ہونے کے بعد "نذر ماننا" کی تو "ضرورت" ہی نہیں ہے۔ بس اللہ کا شکر ادا کریں اور جو چاہیں اللہ کی راہ میں خرچ کریں ۔
محترم بھائی! پہلی صورت اس لئے نا پسندیدہ ہے کہ اس میں اللہ کی اطاعت کو کسی سبب کے ساتھ معلّق کیا گیا ہے، کہ اگر میں امتحان میں کامیاب ہوگیا تو میں سوموار کا روزہ رکھا کروں گا۔ ایسی نذر میں انسان کو واضح ہونا چاہئے کہ نذر تقدیر کو نہیں بدل سکتی، جیسا کہ حدیث مبارکہ میں وضاحت ہے، جو شخص یہ سمجھے کہ میں امتحان میں کامیاب اس نذر کی وجہ سے ہوا ہوں تو ایسی نذر بہرحال پسندیدہ نہیں، کیونکہ اولاً اس میں تقدیر کے حوالے سے عقیدے کی خرابی کا امکان بھی موجود ہے۔ثانیاً اس میں اس میں ایک نیک کام کو اپنے کسی مطلب کے حل ہونے پر معلّق کیا گیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ میرا یہ مسئلہ حل کریں گے تو پھر میں یہ نیکی کروں گا ورنہ نہیں۔
یہاں یہ واضح رہے کہ ایسی نذر ماننا اگرچہ پسندیدہ نہیں لیکن اگر مان لی گئی ہو تو اسے پورا ضرور کرنا ہوگا۔

باقی اگر کسی شخص کے دل میں ویسے ہی نیکی کا ارادہ آئے یا اللہ کی کسی نعمت پر خوش ہو کر وہ شکرانہ ادا کرنا چاہے لیکن وہ سمجھے کہ کہیں مجھ سے اس ارادے میں کوتاہی نہ ہوجائے تو وہ اپنے آپ کو پابند کرنے کیلئے نذر مان لیتا ہے۔ مثلاً حافظ قرآن کو قرآن دہرانا چاہئے، لیکن اس سے اس میں کوتاہی ہو جاتی ہے، وہ قرآن یاد کرنے کیلئے ویسے ہی یا اللہ کی کسی نعمت کے شکرانے پر نذر مان لے کہ میں ہر روز ایک پارہ پڑھا کروں گا تو اس نذر کے پسندیدہ ہونے میں کسی کو اختلاف نہیں ہوسکتا۔
ایسی نذر کو چاہے شکرانہ کہا جائے یا شکرانے کی نذر یا کوئی اور نام دے دیا جائے بہرحال ایک پسندیدہ اَمر ہے۔

متذکرہ بالا احادیث کہتی ہیں کہ نذر نہ مانو، کہ نذر سے تقدیر نہیں بدلتی اور قرآن کہتا ہے کہ اپنی نذروں کو پورا کرو۔ ان دونوں نہی و امر کی عام فہم زبان میں وضاحت مطلوب ہے۔ پیشگی شکریہ
حدیث مبارکہ میں ’مخصوص‘ نذر ماننے کی مذمّت ہے اور نذر کو پورا کرنے کی بات نہیں ہورہی۔

جبکہ آیت قرآنی میں نذر ماننے کے متعلّق حکم بیان نہیں کیا جا رہا بلکہ نذر کو پورا کرنے کی تحسین ہو رہی ہے، بہت سی احادیث مبارکہ میں بھی نذر پورا کرنے کا حکم موجود ہے: « من نذر أن يطيع الله ، فليطعه ، و من نذر أن يعصي الله فلا يعصه » ... صحيح الجامع: 6565

لہٰذا کوئی ٹکراؤ ہے ہی نہیں جسے دور کرنے کیلئے کسی وضاحت کی ضرورت ہو۔

واللہ تعالیٰ اعلم!
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
محترم بھائی! پہلی صورت اس لئے نا پسندیدہ ہے کہ اس میں اللہ کی اطاعت کو کسی سبب کے ساتھ معلّق کیا گیا ہے، کہ اگر میں امتحان میں کامیاب ہوگیا تو میں سوموار کا روزہ رکھا کروں گا۔ ایسی نذر میں انسان کو واضح ہونا چاہئے کہ نذر تقدیر کو نہیں بدل سکتی، جیسا کہ حدیث مبارکہ میں وضاحت ہے، جو شخص یہ سمجھے کہ میں امتحان میں کامیاب اس نذر کی وجہ سے ہوا ہوں تو ایسی نذر بہرحال پسندیدہ نہیں، کیونکہ اولاً اس میں تقدیر کے حوالے سے عقیدے کی خرابی کا امکان بھی موجود ہے۔ثانیاً اس میں اس میں ایک نیک کام کو اپنے کسی مطلب کے حل ہونے پر معلّق کیا گیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ میرا یہ مسئلہ حل کریں گے تو پھر میں یہ نیکی کروں گا ورنہ نہیں۔
یہاں یہ واضح رہے کہ ایسی نذر ماننا اگرچہ پسندیدہ نہیں لیکن اگر مان لی گئی ہو تو اسے پورا ضرور کرنا ہوگا۔

باقی اگر کسی شخص کے دل میں ویسے ہی نیکی کا ارادہ آئے یا اللہ کی کسی نعمت پر خوش ہو کر وہ شکرانہ ادا کرنا چاہے لیکن وہ سمجھے کہ کہیں مجھ سے اس ارادے میں کوتاہی نہ ہوجائے تو وہ اپنے آپ کو پابند کرنے کیلئے نذر مان لیتا ہے۔ مثلاً حافظ قرآن کو قرآن دہرانا چاہئے، لیکن اس سے اس میں کوتاہی ہو جاتی ہے، وہ قرآن یاد کرنے کیلئے ویسے ہی یا اللہ کی کسی نعمت کے شکرانے پر نذر مان لے کہ میں ہر روز ایک پارہ پڑھا کروں گا تو اس نذر کے پسندیدہ ہونے میں کسی کو اختلاف نہیں ہوسکتا۔
ایسی نذر کو چاہے شکرانہ کہا جائے یا شکرانے کی نذر یا کوئی اور نام دے دیا جائے بہرحال ایک پسندیدہ اَمر ہے۔



حدیث مبارکہ میں ’مخصوص‘ نذر ماننے کی مذمّت ہے اور نذر کو پورا کرنے کی بات نہیں ہورہی۔

جبکہ آیت قرآنی میں نذر ماننے کے متعلّق حکم بیان نہیں کیا جا رہا بلکہ نذر کو پورا کرنے کی تحسین ہو رہی ہے، بہت سی احادیث مبارکہ میں بھی نذر پورا کرنے کا حکم موجود ہے: « من نذر أن يطيع الله ، فليطعه ، و من نذر أن يعصي الله فلا يعصه » ... صحيح الجامع: 6565

لہٰذا کوئی ٹکراؤ ہے ہی نہیں جسے دور کرنے کیلئے کسی وضاحت کی ضرورت ہو۔

واللہ تعالیٰ اعلم!
جزاک اللہ برادر!
(×) "مشروط نذر" ماننا "پسندیدہ" نہیں لیکن اگر مان لی گئی تو پورا کرنا لازم ہے۔
١۔ "پسندیدہ نہیں " کا مطلب تو یہ ہوا "ایسا کیا بھی جا سکتا ہے، گو کہ پسندیدہ نہیں" ۔ یعنی یہ حرام یا مکروہ کے درجہ میں نہیں آتا ؟ اس قسم کی مشروط نذر کا "فقہی درجہ" کیا ہے؟

٢۔ یہ سمجھنا یقینا" غلط ہوگا کہ نذر یا منت ماننے کی وجہ سے یہ کام ہوگا یا ہوا ہے (کیونکہ ایسا سوچنا تقدیر کی نفی ہے ) لیکن اگر۔۔۔

٣۔ اگر میں یہ نیت کروں کہ "ان شاء اللہ فلاں کام ہونے کے بعد یا فلاں امتحان میں کامیاب ہونے کے بعد یا فلاں اولاد کی شادی ہونے کے بعد (وغیرہ وغیرہ) عمرہ ادا کرنے جاؤں گا " تو کیا یہ نذر بھی "غیر پسندیدہ" ہوگی ؟؟؟ یا اس قسم کی نذر ٹھیک ، مناسب ہے؟
 
Top