• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نصیحتیں میرے اسلاف کی ۔قسط 2

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,114
ری ایکشن اسکور
4,478
پوائنٹ
376
نصیحتیں میرے اسلاف کی ۔قسط ٢! از:ابن بشیر الحسینوی

(صحابہ رضوان اللہ علیھم کے متعلق نصیحت )

امام عبد الرزاق صنعانی ؒ فرماتے ہیں ؛'' بخدا ! میرا دل اس بات پر کبھی راضی نہیں ہوا کہ میں علیؓ کو ابوبکرؓ اور عمر ؓ پر فضیلت دوں۔''
(تذکرہ الحفاظ = ١/ ٢٧٩)

اپنے آپ کو تعجب میں ڈالنے سے بچو:
اما م عبید اللہ بن ابی جعفر ؒ:
ابن سعد کہتے ہیں کہ وہ کہا کرتے تھے ؛'' جو شخص بات کرے اور اپنی بات پر خوش ہونے لگے تو اس کو خاموش ہو جانا چاہئے اور اگر خاموش ہے اور خاموشی اسے تعجب میں ڈالتی ہے تو اسے بات کرنی چاہئے۔''
(تذکرہ الحفاظ= ١/ ١٢٧)
علماء آپس میں ایک دوسرے کے عیب بیان نہیں کرتے تھے:
امام لیثؒ کا بیان ہے یحیٰ بن سعیدؒفرماتے تھے ؛'' اہلِ علم وسیع الظرف ہوتے ہیں مفتیوں کا آپس میں اختلاف ہو تا ہے ایک کسی چیز کو حلال کہتا ہے تو دوسرا اس کو حرام کہہ دیتا ہے پھر بھی وہ ایک دوسرے کے عیب بیان نہیں کرتے ہر مفتی کے سامنے پہاڑوں جیسے وزنی مسئلے پیش ہوتے ہیں اگر وہ اُنھیں حل کرلیتا ہے تو سمجھتا ہے کہ یہ بہت آسان مسئلے تھے۔''
(تذکرہ الحفاظ= ١/ ١٢٧)
امام ا بن مبارک ؒفرماتے ہیں؛''جب آدمی میں خوبیاں غالب ہوں تو اس کی برائیاں بیان نہیں کی جاتیں اور جب برائیاں غالب ہوں تو پھر اس کی خوبیوں کا تذکرہ لا حاصل ہے۔''
(تذکرہ الحفاظ= ١/ ٢١٩)
راقم الحروف ایک عالم دین کی خدمت میں حاضر ہوا اور رات ٹھہرنے کے بعد جب صبح واپس آنے کا ارادہ کیا تو کہا شیخ صاحب کوئی نصیحت فرمائیں تو وہ کہنے لگے کہ : میری آپ کو نصیحت ہے کہ کبھی عالمِ دین کا عیب بیان نہ کریں ۔ راقم نے اسی وقت کہا کہ شیخ صاحب آئندہ کے لئے اس کو لازم پکڑوں گا۔ ان شاء اللہ۔
چند لمحے بعد ایک شیخ الحدیث رحمۃ اللہ کی وفات کا اعلان ہوا تو وہی عالم مجھے کہنے لگے کہ یہ فوت والے شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ بے ذوق آدمی تھے انھیں مطالعہ کرنے کا اتنا شوق نہیں تھا !!!!!! خود میاں فصیحت اور دوسروں کو نصیحت۔
اللہ تعالیٰ ہماری غلطیوں سے درگزر فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
وہ بات جس کا تعلق شرعی مسئلہ سے ہے نام لے کر کسی کا رد کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اس کی مثالیں سلف و خلف میں بکثرت موجود ہیں۔ بعض عامی لوگ اسے برا تصور کرتے ہےں جبکہ اس میں کوئی قباحت نہیں ہے اگر رد کرنے والے کا مقصد صرف اصلاح ہے ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔

زائد کتابوں کا کسی کو تحفہ دے دینا:
ایک دفعہ استاد محترم محدث العصر ارشاد الحق اثری حفظ اللہ فرمانے لگے ۔''ہمیں مفصل سنن ابی داود شیخ البانی ؒ کی تخریج والی مل گئی ہے ہم نے پوچھاکیسے ملی تو انھوں نے فرمایا میں حافظ ثناء اللہ مدنی حفظ اللہ کے پاس ان کے مکتبہ میں بیٹھا ہوا تھا باتوں باتوں میں میں نے مفصل سنن ابی داود شیخ البانی ؒ کا نام لیا تو انھوں نے مولانا عبد الرشید رحمۃ اللہ علیہ (راقم کے انتہائی محسن اور مربی استاد جن کے احسان میں پوری زندگی نہیں بھول سکتاان کے حالات پر ہم نے ایک مفصل کتاب بھی لکھ رکھی ہے ۔والحمد اللہ ) سے کہا کہ شیخ اثری صاحب کو مفصل سنن ابی داود شیخ البانی ؒ والی لا کر دے دیں کیونکہ ہمارے پاس اس کے دو نسخے ہیں ۔
استاد محتر م اثری صاحب فرمانے لگے کہ اب یہ کتاب فیصل آباد میں صرف ہمارے ادارہ علوم اثریہ میں ہے ،اور کسی مکتبہ میں نہیں ہے۔''
بعض علماء نے راقم الحروف کو بھی بعض زائد کتابیں ہدیہ دی ہیں مثلاً : شیخ عبد الر حمٰن ضیاء حفظہ اللہ نے راقم کو ارشاد القارالیٰ الی نقد فیض الباری کی ایک جلد ہدیہ دی ۔ جزا ہ اللہ خیراً۔
فوت ہونے سے پہلے کتابےں کسی عالم کو دےنے کی وصےت کر جانا:
حماد فرماتے ہےں : اما م ابو قلابہ کا ملک شام ہی مےں انتقال ہوا ، وفات سے پہلے اپنی کتابےں حضرت اےوب سختےانی کو دےنے کی وصےت فرمائی چنانچہ وہ اےک اونٹ پر لاد کر ان تک پہنچا دی گئےں ۔
(تذکرہ الحفاظ = ١/ ٩٣)
شےخ محدث ناصر الدےن البانی رحمۃ اللہ کا ذاتی بہت بڑا مکتبہ تھا انھوں نے وصےت مےں لکھا تھا کہ مےرا سارا مکتبہ جامعہ اسلامےہ (مدےنہ ےونےورسٹی ) کو ھبہ کر دےنا ۔ ان کے فوت ہونے کے بعد وہ بڑا اور قےمتی مکتبہ جامعہ اسلامےہ کو ھبہ کر دےا گےا اب وہ مدےنہ ےونےورسٹی کے قرےب اےک علےحدہ منزل مےں منتقل کردےا گےا ہے۔ جس سے پوری دنےا سے تشرےف لانے والے علماء و طلباء رہتی دنےا تک استفادہ کرتے رہےں گے اور شےخ البانی ؒ کے لئے صدقہ جارےہ بنا رہے گا ۔ان شاء اللہ ۔
آج بعض جامعات اور شےوخ رحمہم اللہ کے مکتبات ضائع ہورہے ہےں جن کے اوراق پر مٹی کے سوا کچھ نہےں ہے۔نہ وہ کتابےں کسی کو پڑھنے کے لئے دی جاتی ہےں اور نہ ہی کسی بازوق شخص اور اچھے ضرورت مند ادارے کو ھبہ کی جاتی ہےں ۔ہماری رائے ہے کہ اےسی کتابوں کو کسی نہ کسی کو ھبہ کر دےنی چاہئے ورنہ علمی ورثہ کو ضائع کرنا کہیں اللہ تعالی کی ناراضگی کا سبب نہ بن جائے؟
مطالعہ کے لئے کسی کو کتاب دے دےنی چاہئے اگر کتاب مانگنے والا نےک وعدے کا پکا اور مطالعے کا شوق رکھنے والا ہو:
ابراہےم حربی کہتے ہےں ، ''امام احمد بن حنبل ہر جمعہ کو بھےج کر ابن ِ سعد سے واقدی کی حدےث سے دو جز منگوالےتے اور مطالعہ کرنے کے بعد جمعہ کو وہ جز واپس کر دےتے اور اگلے جز منگوالےتے تھے۔''
(تذکرہ ا لحفاظ= ٢/ ٣١٩)
تارےخ مےں اور بھی بہت زےادہ واقعات ملتے ہےں جن سے پتا چلتا ہے کہ سلف صالحےن اےک دوسرے کو عاریۃکتب مطالعے کے لئے دے دےتے تھے ۔ اس سے کتاب دےنے والے کی وسعتِ ظرفی اور اخلاق حسنہ بھی نکھر کر سامنے آتا ہے اور اےک دوسرے سے محبت بھی بڑھتی ہے ورنہ علماء تو آپس مےں حسد و بغض لئے ہوتے ہےں ۔ اللہ تعالیٰ ہمےں اس سے محفوظ فرمائے۔آمےن ثم آمےن۔
دورِ حاضر مےں بھی اس کی خال خال مثالےں ملتی ہےں راقم الحروف اےک دےہات کے مدرسہ مےں مدرس ہے وہاں زےادہ کتب موجود نہےں ہےں اور مجھے کتابوں کی اکثر ضرورت پڑتی رہتی ہے بطور ضرورت راقم نے کئی علماء سے عار ےۃکتابےں لےنے کی خواہش ظاہر کی لےکن اکثر کی طرف سے جواب نفی مےں آےا ، لےکن شےخ عبد الرحمٰن ضےاء حفظ اللہ شےخ الحدےث جامعہ شےخ الاسلام ابن تےمےہ لاہور ،استاد محترم مولانا شفےع طاہر حفظہ اللہ مدرس جامعہ رحمانیہ لاہور کے سامنے جس کتاب کی بھی خواہش ظاہر کی انھوںنے اسی وقت بھےج دی۔(جزاہم اللہ خےرا)
لطیفہ:راقم الحروف ایک اہل علم سے مسند امام احمد عاریۃ طلب کی تو انھوں نے کہا کہ اس کی مجھے ضرورت پڑتی رہتی ہے تو راقم نے آگے سے کہا کہ محترم پانچ سال سے زیادہ عرصہ سے یہ کتاب آپ کے پاس موجود ہے سچ بتانا کیا ایک بار بھی اس کو علمی استفادے کے لئے کھولا ،میری یہ بات سن رک وہ آگے سے شرمندہ ہوئے ۔!
علماء آپس مےں اےک دوسرے کا احترام کرےں :
اےک دفعہ ایک امام صاحب سفر سے واپس آئے تو امام مالک رحمۃ اللہ نے تلامذہ سے کہا اٹھو اہلِ زمےن کے بہترےن آدمی کا استقبال کرےں ۔
(تذکرہ الحفاظ = ٢/ ٣١٩)
فرےابی کہتے ہےں کہ مےں نے اےک دفعہ امام علی بن مدےنی سے ان کے متعلق پوچھا تو بڑے تعجب سے فرمانے لگے ۔'' سبحان اللہ ! حامد اس وقت تک باقی رہے جب تک ان سے سوال کرنے کی حاجت ہے۔''
محترم قاری ادریس ثاقب حفظہ اللہ (مدیر جامعہ محمد بن اسماعیل البخاری گندھیاں اوتاڑ قصور)اکثر طلباکو نصیحت کرتے ہیں کہ جس طالب علم نے استاد کا احترام نہ کیا وہ ہمارے مدرسہ میں تعلیم حاصل نہیں کر سکتا ،میرے اس جامعہ کی بنیا داساتذہ کا احترام ہے۔
(تذکرہ الحفاظ= ٢/ ٣٥٣)
استاد کے شاگردوں کے ساتھ تعلقات کےسے ہوں ؟:
ہمےں قاری ادرےس ثاقب حفظ اللہ نے بتاےا کہ قاری محمود الحسن بڈھی مالوی حفظہ اللہ نے نصےحت کی تھی کہ ،''کلاس مےں طلباء سے سنجےدہ رہو اور کلاس سے باہر طلباء مےں گھل مل جاو انھےں محسوس تک نہ کرواؤ کہ مےں تمہارا استاد ہوں ، طلباء کے لئے چوبےس گھنٹے رعب مےں نہ رہوکہ وہ آپ سے ہر وقت ڈرتے ہی رہےں ۔''
طلباء کی چےز استعمال نہ کرےں :
ابو ےحیٰ صاعقہ ؒ فرماتے ہےں کہ :''اےک دفعہ امام ذکرےا بن عدی تمےمی کوفی ؒ کی آنکھ دکھنے لگی تو اےک شخص اس مےں ڈالنے کے لئے سرمہ لے آےا ، پوچھا تم حدےث پڑھنے والے طالب علم ہو ؟بولا :ہاں۔ےہ سن کر انھوں نے سرمہ واپس کر دےا۔''
(تذکرہ الحفاظ = ١/ ٣٠٠)
استاد کو کلاس مےں بارعب ہو کر بےٹھنا چاہئے :
جعفر بن احمد حافظ کہتے ہےں : مےں نے محدثےن مےں محمد بن رافع سے ذےادہ رعب دار کوئی محدث نہےں دےکھا ےہ اپنے گھر مےں صنوبر کے درخت کے ساتھ ٹےک لگا کر بےٹھتے تھے ، پھر علماء اور خاندانِ ظاہرےہ کے شہزادے اپنے خادموں سمےت ان کے سامنے حسب ِ مراتب اس طرح خاموش بےٹھتے تھے ۔ جےسے ان کے سروں پر پرندے بےٹھے ہوں کتاب ہاتھوں مےں لے کر خود قرأت کرتے تھے انکے احترام اور جلالت کے پےشِ نظر کسی کو بولنے ےا مسکرانے کی جرأت نہےں ہوتی تھی اگر کسی کو بولنے کی ضرورت پڑتی تو کھڑے ہو کر بات کرتا تھا۔''
(تذکرہ الحفاظ = ٢/ ٣٧١)
احمد بن اسحاق کہتے ہےں ۔''مےں نے محدثےن مےں ابراہےم بن ابی طالب سے زےادہ ہےبت ناک آدمی کو ئی نہےں دےکھا ۔ہم ان کی مجلس مےں اس طرح خاموش بےٹھتے تھے جےسے ہمارے سروں پر پرندے بےٹھتے ہےں ۔ اےک دفعہ ابو ذکرےا عنبری نے چھےنک لی، اور اسکو چھپانے کی بہت کوشش کی تو مےں نے آہستہ سے ان کے کان مےں کہا ڈرو مت تم خدا تعالیٰ کے سامنے تو نہےں بےٹھے ہو۔''
(تذکرہ الحفاظ= ٢/ ٤٥٠)
بہت لوگوں کو خوش کرنے کی بہ نسبت اےک اللہ تعالیٰ کو خوش کرلےنا زےادہ آسان ہے:
امام ابو حازم سلمہ دےنار مخزومی ؒ :
ےعقوب بن عبدالرحمٰن رواےت کرتے ہےں ابو حازم کہا کرتے تھے :''جس عمل کی سزا سے بچنے کے لئے تم موت کو ناپسند کرتے ہو اسے چھوڑ دو پھر ؛کبھی بھی تم کو مرو مےں کوئی نقصان نہےں ہوگا ، نےز فرماےا جو بندہ اپنے اور اپنے اللہ تعالیٰ کے درمےان تعلق درست کرلےتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے اور دوسرے بندوں کے درمےان باہمی تعلقات کو درست کردےتا ہے اور جو شخص اپنے اور اللہ تعالیٰ کے درمےان باہمی تعلقات بگاڑتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے اور دوسرے بندوں کے درمےان تعلقات بگاڑدےتا ہے اس لئے بہت سے بندوں کو خوش کرنے کی بہ نسبت اےک ذات کو خوش کرلےنا زےادہ آسان ہے۔''
(تذکرہ الحفاظ = ١/ ١٢٢)
''ہے کوئی جو اس نصےحت کو سونے کے پانی سے تحرےر کرائے؟''

حکومت کی ذمہ دارےوں سے نجات کس طرح ممکن ہے؟
امام ابو حازم رحمتہ اللہ علےہ:
اےک دفعہ خلےفہ ہشام بن عبد الملک نے امام ابو حازم سے پوچھا انسان حکومت کی ذمہ دارےوں سے کس طرح نجات پاسکتا ہے؟ بولے ےہ بہت آسان کام ہے بس حلال طرےقہ کے بغےر کوئی چےز نہ لو اور ہر چےز کو اس کی جگہ پر رکھو ۔ ہشام بولا ےہ بالکل درست ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے خواہشاتِ نفسانےہ سے بچا لےا اس کے لئے واقعی آسان ہے۔''
(تذکرالحفاظ = ١/ ١٢٢)
سردےوں اور گرمےوں مےں عبادت کا معمول:
صفوان بن سلمےہ زہروی ؒ:
امام مالک فرماتے ہےں : سردی اور گرمی کی شدت سے بےدار رہنے کے لئے صفوان سردےوں مےں چھت پر اور گرمےوں میں مکان کے اندر نماز پڑھتے تھے اور قےام کرتے وقت ان کے پاؤں متورم ہو جاتے تھے ۔حتیٰ کہ بے بس ہو کر گرپڑتے ۔''
(تذکرہ الحفاظ =١/ ١٢٣)
فقھا کون ہےں ؟
امام شعبی رحمہ اللہ :
فرماتے ہےں کہ : '' ہم فقھا نہےں ہےں ہم تو حدےث سنتے اور آگے بےان کر دےتے ہےں ۔فقھا دراصل وہ ہےں جو علم حاصل کرنے کے بعد اس کے مطابق عمل بھی کرتے ہےں ۔''
(تذکرہ الحفاظ =١/ ٨٥)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
ابن بشیر بھائی! ماشاء اللہ آپ کی تمام پوسٹس بہت معیاری، علمی، مفید اور حوالوں سے مزین ہوتی ہیں، لیکن اگر آپ انہیں شیئر کرنے سے پہلے ان کی پروف ریڈنگ اور کچھ فارمیٹنگ کر لیا کریں تو ان کو پڑھنا اور ان سے استفادہ کافی آسان ہوجائے گا، وگرنہ اتنی قیمتی نصیحتوں کو کوئی شخص فوری سمجھ نہ آنے کی وجہ سے نہ پڑھے تو اس کا کوئی خاص فائدہ نہ ہوگا۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
ابن بشیر بھائی،
آپ کی دیگر پوسٹس کی طرح اس پوسٹ کی فارمیٹنگ اور پروف کرنے کی کوشش کی۔ لیکن آدھے گھنٹے میں شروع کے دو تین پیراگراف ہی کر پایا۔ دراصل ان پیج میں یہ مضمون ٹائپ کرتے وقت ٹائپسٹ نے الفاظ کے درمیان آنے والی چھوٹی ی کی جگہ بڑی ے استعمال کی ہے۔ ان پیج تو خودبخود چھوٹی ی یا بڑی ے کو الفاظ کے درمیان آنے پر چھوٹی ی ہی دکھاتا ہے۔ لیکن ان پیج سے یونیکوڈ کنورٹ کرنے پر یہ مسئلہ سامنے نظر آتا ہے۔ درج بالا مضمون میں یہی مسئلہ ہے۔ ازراہ کرم ان پیج تھری سے کنورٹ کرنے کی کوشش کر کے دیکھیں۔ ورنہ تو اس مضمون کو یہاں لگانے کا فائدہ نہیں کیونکہ صرف اسی مسئلہ کی وجہ سے ایک جملہ بھی پڑھنا دشوار ہے۔
 
Top