• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نعمت اور مصیبت کے وقت انسانی رویہ !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,786
پوائنٹ
1,069
فَاذْكُرُ‌ونِي أَذْكُرْ‌كُمْ وَاشْكُرُ‌وا لِي وَلَا تَكْفُرُ‌ونِ ﴿١٥٢﴾

اس لئے تم میرا ذکر کرو میں بھی تمہیں یاد کروں گا، میری شکر گزاری کرو اور ناشکری سے بچو (١)

١٥٢۔١ پس ان نعمتوں پر تم میرا ذکر کرو اور شکر کرو۔ کفران نعمت مت کرو۔ذکر کا مطلب ہر وقت اللہ کو یاد کرنا ہے، یعنی اس کی تسبیح اور تکبیر بلند کرو اور شکر کا مطلب اللہ کی دی ہوئی قوتوں اور توانائیوں کو اس کی اطاعت میں صرف کرنا ہے۔ خداداد قوتوں کو اللہ کی نافرمانی میں صرف کرنا، یہ اللہ کی ناشکر گزاری (کفران نعمت) ہے شکر کرنے پر مزید احسانات کی نوید اور ناشکری پر عذاب شدید کی وعید ہے۔

جیسے
(لَئِنْ شَکَرْ تُمْ لَاَزَیْدَنَّکُمْ ْ وَلَئِنَ کَفَرْ تُمْ اِنَّ عذَابِیْ لَشَدِیْد) 14۔ ابراہیم:7)
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,786
پوائنٹ
1,069
اللہ کی ایک بڑی نعمت ! آنکھیں




آنکھیں بڑی نعمت ہیں؟

..............................
یہ بات 1999 کی ہے جب ہم اپنے پرانے محلے میں عصر سے مغرب تک کرکٹ کھیلا کرتے تھے- ہم کرکٹ میں اتنا مگن ہوتے تھے - کہ وقت کے گزرنے کا پتہ نہیں چلتا تھا - ہمیں سورج غروب ہونے کا اس وقت اندازہ ہوتا تھا -

جب ایک نابینا حضرت کسی کا ہاتھ تھامے مسجد کی جانب جا رہے ہوتے تھے - ان کا معمول تھا کہ وہ مغرب کی اذان سے دس منٹ پہلے مسجد کی جانب آجایا کرتے تھے - ان کے بارے میں سب کو معلوم تھا کہ وہ پیدائشی نابینا تھے اور ذہنی توازن بھی درست نہ تھا مزید یہ کہ یہاں تک کہ ان کے ہاتھوں کی انگلیاں بھی جڑ ی رہتی تھیںجب کافی عرصے بعد میرا پرانے محلے میں جانے کا اتفاق ہوا جب مغرب کی اذان ہوئی تو میں نماز کے لیے مسجد چلا گیا سلام پھیرنے کے بعد میں نے دیکھا کہ وہی نابینا حضرت میرے برابربیٹھے ہیں میں نے دیکھا کہ ان میں وہی عاجزی وہی انکساری وہی خشو ع و خضوع آج بھی موجود ہے -

گویا ایسا محسوس ہورہا تھا کہ آنکھیں نہ ہونے کے باوجود انھوں نے اللہ کو دیکھ لیا ہو ذہنی توازن برقرار نہ ہونے کے باوجود زندگی کے فلسفے کو سمجھ لیا ہو اس کے برعکس میں نے اپنا جائزہ لیا تو اس احساس کے ساتھ اللہ کا شکر اداکیا کہ مالک آج میری آنکھیں نہ ہوتی تو مجھے مسجد تک کون لاتاَ - آج میرا ذہنی توازن برقرارنہ ہوتا تو میں شعور کی حالت کو کیسے پہنچتا انسان کی نفسیات ہے کہ وہ ان چیزوں کی قدر نہیں کرتا جو اس کے پاس ہوتی ہیں -

اسی لیے اللہ تعالیٰ دنیا میں ان نعمتوں سے محروم لوگوں کو پیدا کرتے ہیں چناچہ ایک نابینا کی پیدائش آنکھوں والوں کے لیے عبرت کا مقام ہوتی ہے - ہاتھ اور پاؤں رکھنے والوں کے لولے اور لنگڑ ے کا وجود؟

یہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہمارے لیے
Point of Reference بنا کر بھیجا ہے - اس کے برعکس آج ایسے ہی لوگوں کو کوئی عزت نہیں دیتا

اور ایسے لوگوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے - یہ لوگ یا تو مذاق کا نشانہ بن جاتے ہیں - یا پھر دھتکار دیے جاتے ہیں - لیکن کل اللہ تعالیٰ آنکھوں والوں سے پوچھے گا اور کہے گا کہ تم کو آنکھیں دی گئی تھی کیا تم نے اس کا شکر ادا کیا۔کیا تم نے کبھی اس پر احسان مانا ؟ تمھیں شعور عطا کیا گیا تھا غرض ہر نعمت سے نوازا گیا تھا پر انسان نے ناشکری کی نفسیات میں زندگی بسر کی

آج لوگوں کو ان نعمتوں کی قدر نہیں لیکن کل اللہ تعالٰی ایک ایک نعمت کے بارے میں دریافت کرے گا اور وہاں ہر ایک سے نعمتوں پر بازپرس ہو گی تو ہمیں چاہیے کہ آج ہی سے ان نعمتوں پر اللہ سبحان و تعالیٰ کے شکر گزار ہوجائیں -

شاید کہ ہمارے دماغ میں اُتر جائے یہ بات؟
 
Top