مسئلہ تراویح
یہ مسئلہ سمجھنے کے لئے تہجد اور تراویح میں فرق سمجھنا اور رکھنا ضروری ہے۔ قیام اللیل کا مطلب ہے رات کا قیام اور اس کی دو صورتیں ہیں۔ ایک کانام تہجد ہے اور دوسری کا تراویح
تہجد انفرادی ہے گھر میں ہے۔ اور سوکر اٹھنے کے بعد ہے۔ رات کے تیسرے پہر ہے اور رمضان سے خاص نہیں۔ سارا سال ہے اور اس کی تعداد وتر سمیت پانچ، سات، نو، گیارہ یا تیرہ ہے۔ یہ سب تعداد مختلف احادیث سے ثابت ہیں۔ اس میں ختم قرآن کا کوئی مسئلہ نہیں۔ اسے دو دو بھی پڑھ سکتے ہیں اور چار چار بھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے چار چار ثابت ہے اور گیارہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت سے دو دو اور تیرہ اور دیگر روایات سے اور تعداد بھی منقول ہے۔ اور اس کا درجہ نفل کا ہے۔
تراویح تعامل امت کے تحت فورا بعد از عشا ہے، باجماعت ہے مسجد میں ہے۔ صرف رمضان میں ہے دو دو ہے ختم قرآن کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ اور پہلے اس میں اختلاف ۴۰ یا ۲۰ کا تھا آجکل ۲۰ یا ۸ کا ہے۔ اور اس کا درجہ سنت موکدہ (اصطلاحی) کا ہے جو نفل سے بڑھا ہوا ہے۔ یہ قیام اللیل ہے لیکن تہجد نہیں۔
اس بنا پر تراویح اور تہجد کو مکس اپ نہیں کرنا چاہئے اسُ میں امت میں خلجان اور انتشار پیدا ہوتا ہے اور ہر سال امت کے بعض افراد اس بیکار مباحشے میں مبتلا ہو جاتے ہے۔ جو تہجد پڑھنا چاہتے ہیں وہ رمضان غیر رمضان پانچ، سات، نو، گیارہ یا تیرہ رکعت سونے سے اٹھ کر انفرادی طور پر گھر میں پڑھتے رہیں۔ لیکن اس کو اس نماز سے مکس اپ نا کریں۔ علمائے امت نے اسے تہجد سے ممتاز کرنے کے لئے ہی تراویح کا نام دیا ہے۔
تراویح کا ارتقا کیسے ہوا؟
نبی پاک ﷺ سے رمضان کی اس نماز کے اضافی ہونے کا ثبوت ملتا ہے جس میں آپ نے اس کی ۳ دن جماعت کرائی۔ اور یہ تہجد کے علاوہ تھی اس کے شواہد ملاحظہ فرمائیں۔
۱۔ (۲۰۱۱) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار نماز ( تراویح ) پڑھی اور یہ رمضان میں ہوا تھا۔ بخاری
۲۔ (۲۰۱۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ ( رمضان کی ) نصف شب میں مسجد تشریف لے گئے اور وہاں تراویح کی نماز پڑھی۔ کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم بھی آپ کے ساتھ نماز میں شریک ہو گئے۔۔۔۔ چوتھی رات کو یہ عالم تھا کہ مسجد میں نماز پڑھنے آنے والوں کے لیے جگہ بھی باقی نہیں رہی تھی۔ ( لیکن اس رات آپ برآمد ہی نہیں ہوئے ) بخاری
۳۔ (۷۲۹۰) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی میں چٹائی سے گھیر کر ایک حجرہ بنا لیا اور رمضان کی راتوں میں اس کے اندر نماز پڑھنے لگے ۔۔ بخاری
۴۔ (۸۰۶) ۔۔رمضان کے صرف سات دن باقی رہ گئے تو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا۔۔ (ترمذی)
۵ (۲۲۰۱)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (رمضان میں) آدھی رات کو نکلے، اور آپ نے مسجد میں نماز پڑھائی۔ نسائی
ان تمام روایات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ معمول کی تہجد کی نماز نہیں تھی بلکہ ایک اضافی نماز تھی جو مسجدُمیںُ باجمارت ادا کی گئی اور صرف تین دن تک پڑھی گئی۔
اسکے برعکس تہجد تیسرے پہر مستقل انفرادی عمل تھا۔ رمضان اور غیر رمضان جاری رہتا تھا۔
ان روایات سے تراویح کے ارتقا کے پہلے مرحلے میں چند باتوں کا اثبات ہوتا ہے۔
۱۔ یہ تہجد کے علاوہ ہے
۲۔ مسجد میں ہے۔
۳۔ باجماعت ہے۔
۴۔ عشا کے بعد ہے۔
۵۔ شروع میں صرف تین دن پڑھی گئی۔
دور عمر رضی اللہ عنہ میں تراویح کا ارتقا
(۲۰۱۰) میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان کی ایک رات کو مسجد میں گیا۔ سب لوگ متفرق اور منتشر تھے، کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا، اور کچھ کسی کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میرا خیال ہے کہ اگر میں تمام لوگوں کو ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو زیادہ اچھا ہو گا، چنانچہ آپ نے یہی ٹھان کر ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو ان کا امام بنا دیا۔بخاری
اس سے یہ بات پتہ چلی کہ دور نبوی کی سنت صرف تین دن تھی اس کے بعد لوگوں نے پورا رمضان مختلف ٹولویں کی شکل میں اسے پڑھنا شروع کر دیا اور عمر رضی اللہ عنہ نے سب کو ایک امام کے تحت جمع کردیا اور وہاں سے باقاعدہ تراویح پورا رمضان باجماعت بعد عشا کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اور پھر تعامل امت کے تحت اس میں متم قرآن کا بھی اہتمام شروع ہوگیا۔ یاد رہے کہ تعامل امت بھی سبیل المومنین بن جانے کی وجہ سے حجت ہو جاتا ہے۔ النساء ۱۱۵
اب آخر میں رہ گیا اس کی تعداد رکعات کا مختلف فیہ مسئلہ۔ سب سے پہلے تو جیسے اوپر واضح ہو چکا ہے کہ تہجد سے مختلف نماز ہونے کی بنا پر تہجد کی روایات سے اس کا استدلال لینا درست نہیں۔ اس حوالے سے امام ترمذی کی شرح حدیث ۸۰۶ نہائت اہم ہے جس میں وہ اس نماز کی تعداد رکعت پر روشنی ڈالتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں۔
(شرح۸۰۶)۔۔ رمضان کے قیام کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وتر کے ساتھ اکتالیس رکعتیں پڑھے گا، یہ اہل مدینہ کا قول ہے، ان کے نزدیک مدینے میں اسی پر عمل تھا، اور اکثر اہل علم ان احادیث کی بنا پر جو عمر، علی اور دوسرے صحابہ کرام رضی الله عنہم سے مروی ہے بیس رکعت کے قائل ہیں۔ یہ سفیان ثوری، ابن مبارک اور شافعی کا قول ہے۔ اور شافعی کہتے ہیں: اسی طرح سے میں نے اپنے شہر مکے میں پایا ہے کہ بیس رکعتیں پڑھتے تھے، احمد کہتے ہیں: اس سلسلے میں کئی قسم کی باتیں مروی ہیں انہوں نے اس سلسلے میں کوئی فیصلہ کن بات نہیں کہی، اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: ہمیں ابی بن کعب کی روایت کے مطابق ۴۱ رکعتیں مرغوب ہیں۔ ترمذی
امام ترمذی رحمة اللہ علیہ کی اس شرح سے پتہ چلتا ہے کہ آئمہ اسلاف میں اختلاف ۲۰ یا ۴۰ کا تھا اور تعامل امت نے ۲۰ کو اختیار گیا۔ ۸ کا قول اسلاف امت میں سے کسی کا بھی نہیں رہا اور آئمہ اسلاف میں سے کسی نے بھی عائشہ رضی اللہ عنہا والی تہجد کی حدیث سے اس معاملے میں استدلال نہیں لیا۔ اس لئے سلفیوں کو بھی اسی پر اتفاق کر لینا چاہئے۔ کہ وہ بھی آئمہ اسلاف کے فہم کے مطابق دین کو سمجھنے کے قائل ہیں۔
واللہ اعلم
- ابوحنظلہ